• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

رد قادیانیت کورس

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
﴾حدیث نمبر ۴
’’ وعن الحسن البصری قال قال رسول اﷲ ﷺ للیھود ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیامۃ۔ ‘‘(در منثور ص ۳۶ ج۲)
ترجمہ : ’’ حسن بصری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے یہود کو فرمایا بے شک عیسیٰ علیہ السلام نہیں مرے او ربے شک وہ تمہاری طرف قیامت سے پہلے لوٹ کر آنے والے ہیں ۔‘‘
یہ حدیث حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کی عدم موت او ر مراجعت کا قطعی ثبوت ہے ۔
اعتراض
یہ حدیث حسن بصری سے مروی ہے او ردرمیان میں کسی صحابی کا واسطہ نہیں ہے لہذا مرسل ہے اسلئے اس درجہ کی نہیں کہ استدلال کیا جاسکے ۔
جوا ب نمبر ۱
حضرت حسن بصری کی مرسلات حجت ہیں او ر حکم مرفوع متصل میں ہیں ان کے استاد حضرت علی رضی اﷲ عنہ ہیں ۔
جواب نمبر۲
تم اس کے مخالف کوئی مرفوع حدیث دکھادو جس میں ہوکہ حضور ﷺ نے فرمایا ہو ان عیسیٰ مات بلکہ ضعیف ہی دکھا دو جس میں موت کی تصریح موجود ہو۔
﴾حدیث نمبر۵
’’ الستم تعلمون ان ربنا حی لا یموت وان عیسیٰ یاتی علیہ الفناء۔ ‘‘ (صحیح مسلم جلد ۱ص۸۷،طبری ص۲۸۹ج۳)
ترجمہ : کیاتم نہیں جانتے یہ کہ ہمارا پروردگار زندہ ہے ، نہیں مرے گا اور بیشک عیسیٰ علیہ السلام پر فنا آنے والی ہے یا آئے گی ۔
یہ حضور ﷺ نے اسوقت فرمایا جبکہ عیسائیوں کے ساتھ مناظرہ ہوا آپ نے فرمایا کہ تم عیسیٰ کو کس طرح الوہیت کا درجہ دیتے ہوجبکہ ان پر فنا آئے گی اس میں آپ نے مضارع کا صیغہ استعمال فرمایا جو استقبال پر دال ہے اگر واقعی فو ت ہوچکے ہوتے تو حضور ﷺ فرماتے ’’ انی علیہ الفناء ‘‘۔
﴾حدیث نمبر۶
’’ یحد ث ابو ھریرۃ عن النبی ﷺ قال والذی نفسی بیدہ لیھلن ابن مریم بفج روحاء حاجا او معتمرا او یثنیھما ۔‘‘(اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۴۰۸، ج۱ کتاب الحج باب جواز التمتع فی الحج واحمد فی مسندہ ص۳۹۰، ج۲ والحاکم فی المستدرک ص۵۹۵،ج۲ والدر المنثور ص۲۴۵، ج۲ وعسل مصفی ص۱۵۲ ج۲)
ترجمہ : اس میں حضور ﷺ نے قسم کھا کر یہ مسئلہ بیان فرمایااور قسم کے متعلق مرزا صاحب کا حوالہ گذار چکا ہے کہ اس میں تاویل نہیں چل سکتی اور ظاہر محمول ہوتی ہے ۔
۔﴾حدیث نمبر۷
’’ ان اولی الناس بعیسی ابن مریم فی الاولی والآخرہ الانبیاء اخوۃ من العلات وامھا تھم شتی ودینھم واحد ولیس بیننا نبی فی روایۃ لانہ لم یکن بینی و بینہ نبی وانہ نازل واذا رایتموہ فاعرفوہ ……الخ ‘(حقیقت نبوۃ مصنفہ مرزا محمود ص۱۸۸ ، ابوداؤد شریف ص۲۳۸ ج۲)
ترجمہ :بے شک دنیا اور آخرت میں میرے سب سے زیادہ قریب عیسیٰ علیہ السلام ہیں تما م انبیاء باپ شریک بھائی ہیں اور ان کی مائیں جدا جدا ہیں ،اور ان کا دین ایک ہے اور ہمارے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور ایک روایت میں ہے کہ میرے او رعیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور بے شک وہ نازل ہونے والے ہیں او ر جب تم ان کودیکھو گے تو پہچان لوگے۔

٭٭ ہمارا چیلنچ ٭٭
مزکورہ بالا حدیث سے عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بڑی صراحت سے یہ چند الفاظ ثابت ہوتے ہیں : ’ینزل، یموت، یدفن،یاتی علیہ الفناء ‘ یہ تمام مضارع کے صیغے ہیں جو عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی اور عدم موت پر صریح دلیل ہیں اگر یہ درست نہیں تو ہم روئے زمین کے تمام مرزائیوں کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ ان الفاظ کے برعکس ان کی نفی او رضد ثابت کریں ،جیسے ینزل کے بجائے لا ینزل ، یموت کے بجائے مات ، یدفن کی جگہ دفن ، یاتی علیہ الفنا ء کی جگہ اتی علیہ الفنا ء ، لم یمت کی جگہ مات ، رفعہ کی جگہ ما رفعہ یا لم یرفع ، ان الفاظ میں سے کوئی ایک لفظ بھی حضور ﷺ کی صحیح حدیث سے کوئی مرزائی ثابت کرے اور منہ مانگا انعام حاصل کرے ۔ اور حدیث سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ عیسیٰ ہی نازل ہوں گے یعنی ابن مریم ہی نازل ہوں گے جبکہ مرزا تو ابن چراغ بی بی ہے کیونکہ یہ حدیث قسم سے بیا ن ہورہی ہے اور مرزا قادیانی کے اصول کے مطابق اس میں کسی قسم کی تاویل نہیں ہوسکتی ۔ (حمامۃالبشریٰ ص۲۱ روحانی خزائن ج۷ص۱۹۲)
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تردید دلائل وفات مسیح علیہ السلام

﴾آیت نمبر۱
’’ فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم وانت علی کل شئی شہید ‘‘ پس جب تو نے مجھے قبض کیا(میری جان قبض کی) تو تو ہی ان پر نگہبان تھا اور ہر چیز پر گواہ ہے ۔ ﴿پارہ ۷ اَلمائدہ ۱۱۷ ﴾
مرزائی استدلال
یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اگر ہم فوت شدہ تسلیم نہ کریں تو یہ اعتراض لازم آئے گا کہ اب جو عیسائی بگڑے ہوئے ہیں ان کے وہ ذمہ دار ہیں کیونکہ فرماتے ہیں کہ جب تک کہ میں ان میں زندہ تھا میں ذمہ دار تھا لیکن جب تو نے مجھے وفات دی تو میں ذمہ دار نہیں رہا اس جواب سے معلوم ہوا کہ وہ اب فوت ہوچکے ہیں ورنہ ماننا پڑے گا کہ وہ موجودہ بگڑے ہوئے تمام عیسائیوں کے ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ صاف صاف فرماتے ہیں کہ توفی سے پہلے کی زندگی کا میں ذمہ دار ہوں اور توفی کے بعد کا ذمہ دار نہیں ۔ نیز جب بقول تمہارے عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اپنی بگڑی ہوئی امت میں آئیں گے اور ان کو دیکھیں گے بگڑے ہوئے تو قیامت کے روز اﷲ کے سامنے کس طرح لاعلمی کا اظہار کرسکیں گے یہ تو نعوذ باﷲ جھوٹ بنتا ہے ۔
جواب نمبر ۱
آیت مذکورہ میں توفیتنی کا معنی وفات اور موت نہیں بلکہ رفعتنی و قبضتنی کے معنی ہیں اور تمام مفسرین نے آیت مذکور کے یہی معنی کئے ہیں کوئی ایک مفسر یا مجدد بھی ایسا نہیں ملتا جس نے اس آیت سے وفات مسیح ثابت کی ہو۔ ’’ ھاتو ا برھانکم ان کنتم صادقین
جواب نمبر ۲
آیت مذکورہ میں تقابل موت و حیات نہیں بلکہ موجودگی اور عدم موجودگی کا ہے جس پر ما دمت فیہم کے الفاظ صریح دلیل ہیں کہ مادمت حیا نہیں فرمایا ،معلوم ہوا کہ وہ اپنے زمانہ موجودگی کے ذمہ دار ہیں اور عدم موجودگی کے ذمہ دار نہین بلکہ یہ الفاظ اس بات پر مشعر ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کی حیات میں کوئی زمانہ ایسا بھی ہونا چاہیے کہ جس میں آپ ان کے اندر موجود نہ ہوں اور زندہ ہوں ۔
جواب نمبر ۳
یہ بات غلط ہے کہ بگاڑ میں حد فاصل موت ہے جیسا کہ مرزائی بتاتے ہیں بلکہ موجودگی اور عدم موجودگی ہے جیسا کہ مرزائی تحریرات اس پر شاہد ہیں کہ عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ہی میں ہجرت الیٰ کشمیر کے زمانہ میں جبکہ وہ ان کے اندر موجود نہ تھے بگڑ گئے تھے لہذا معلوم ہوا کہ بگاڑ او رعدم بگاڑ میں حد فاصل موجودگی اور عدم موجودگی ہے نہ موت و حیات۔ مرزا صاحب حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور یہود کا مکالمہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے خدا ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں ‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۵۴حصہ۲روحانی خزائن ص۲۶۶ج۲۳) مرزا خود تسلیم کرتا ہے (دیکھو جنگ مقدس ص۴۸) کہ انجیل پر ابھی تیس برس بھی نہیں گذرے تھے کہ بجائے خدا کی پرستش کے ایک عاجز انسان کی پرستش نے جگہ لے لی یعنی عیسیٰ علیہ السلام خدا بنا ئے گئے اور تمام نیک اعمال کو چھوڑ کر ذریعہ معافی گناہ یہ ٹہرادیا گیا کہ ان کے مصلوب ہونے پر خدا کے بیٹے ہونے پر لایا جا ئے اب اس عبارت میں صاف طور پر معلوم ہورہا ہے کہ بگاڑ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا کیونکہ واقعہ صلیب تنتیس برس کی عمر میں ہوا ہے جیسا کہ مرزا صاحب لکھتے ہیں (تحفہ گولڑویہ ص۱۲۷ روحانی خزائن ص۳۱۱ ج۱۷) ’’ لیکن ہر ایک کو معلوم ہے کہ واقعہ صلیب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیش آیا تھا جبکہ آپ کی عمر ۳۳ برس اور چھ ماہ تھی ۔‘‘ واقعہ صلیب کے بعد انجیل کا نازل ہونا کہیں بھی ثابت نہین تو ان دونوں حوالوں کے ملانے سے ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی تریسٹھ سال کی عمر میں ہی عیسائی بگڑ گئے تھے اور بقول مرز اآپ کی عمر ایک سو بیس سال ہوئی ہے جس سے معلوم ہوا کہ تقریباً ستاون سال کا طویل عرصہ آپ کی زندگی ہی میں عیسائی بگڑتے رہے ۔
نتیجہ یہ نکلا کہ بگاڑ میں حد فاصل موت نہ رہی بلکہ آپ کی زندگی ہی میں ان کی عدم موجودگی کے زمانہ میں عیسائی بگڑ گئے تھے ۔
فھوالمقصود
مرزائی اعتراض
بقول آپ کے جب عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں اپنی بگڑی ہوئی قوم کے اندر تشریف لائیں گے اور انکی زبوں حالی ملاحظہ فرمائیں گے تو وہ قیامت کے روز اﷲ تعالیٰ کے سامنے کس طرح لاعلمی کا اظہار کرسکیں گے یہ تو غلط بیانی اور صریح جھوٹ ہوگا جوان کی شان رفیع سے مستبعد ہے لہذا معلوم ہوا کہ وہ فوت ہوچکے ہیں اور انہیں اپنی بگڑی ہوئی امت کا کوئی علم نہیں ہوگا۔
جواب نمبر ۱
عیسیٰ علیہ السلام سے سوال علم یا لا علمی کا نہیں ہوگا بلکہ کہنے یانہ کہنے کا ہوگا یہ مرزائیوں کا صریح دھوکہ اور غلط بیانی ہے ذرا قرآن مجید ملاحظہ فرمائیں فرمایا
’’ ء انت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اﷲ قال سبحانک ما یکون لی ان اقول ما لیس لی بحق……الخ ‘‘ ﴿پارہ ۷ اَلمائدہ ۱۱۶ع۶﴾
ترجمہ : کیا تو نے لوگوں کو کہاتھا کہ مجھے اور میری ماں کواﷲکے سوا دو(2) معبود بنالو ؟ کہے گا پا ک ہے تومیرے لائق نہیں کہ میں وہ چیز کہوں جو میرے لئے حق نہیں ۔
دیکھئے یہاں پر کیسی تصریح موجو د ہے کہ سوال کہنے کے متعلق ہے جواب میں بھی کہنے کی نفی ہے نہ یہاں علم کو سوال ہے اور نہ علم کی نفی ہے ہاں نفی یہاں مافی نفسک کے علم کی ہے نہ کہ ان کے بگاڑ کے علم کی نفی ۔
جواب نمبر ۲
اگر عیسیٰ علیہ السلام کے جواب میں علم کی نفی پائی جائے تو بھی کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے آپ ذرا اس مکالمے سے پہلے ذرا اس مکالمے کو ملاحظہ فرمائیں جو تمام انبیاء سے ہورہا ہے جبکہ تما م نبی اﷲ تعالیٰ کے حضور میں اپنی لاعلمی کا اظہار کررہے ہیں حالانکہ تمام نبی اچھی طرح جانتے ہیں کہ انکی امتوں نے انہیں کیا جواب دیا تھا ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’ یوم یجمع اﷲ الرسل فیقول ماذا اجبتم قالوا لا علم لنا انک انت علام الغیوب ‘‘ ترجمہ: جس دن اﷲ تعالیٰ تمام پیغمبروں کو اکٹھا فرمائیں گے پس فرمائیں گے تم کیاجواب دیے گئے تھے عرض کریں گے کہ ہمیں علم نہیں بے شک تو ہی غیبوں کا جاننے والا ہے ۔ ﴿پارہ ۷ اَلمائدہ ۱۰۹ ع۵﴾
جواب نمبر ۳
مرزا صاحب خود تسلیم کررہے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کو قیامت سے قبل ہی اپنی امت کے بگاڑ کا علم ہوچائے گا لہذا اب آپ بتائیں جب انہیں قیامت سے قبل علم ہوچکا توان کانفی علم کا جواب کیسے درست ہوگا ؟
فما ھو جوابکم فھو جوابنا (جو تمہارا جواب ہے وہی ہمارا جواب ہے )
حوالہ نمبر ۱: ’’ میرے پر یہ کشفاً ظاہر کیا گیا کہ یہ زہرناک ہوا جو عیسائی قوم سے دنیامیں پھیل گئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس کی خبر دی گئی ۔‘(آئینہ کمالا ت اسلام روحانی خزائن ص۲۵۴ ج۵)
حوالہ نمبر ۲: ’ ’خدائے تعالیٰ نے اس عیسائی فتنہ کے وقت میں یہ فتنہ حضرت مسیح کو دکھایا یعنی ان کو آسمان پر اس فتنہ کی اطلاع دے دی کہ تیری قوم او ر تیری امت نے اس طوفان کو برپا کیاہے ۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن ص۲۶۸ج۵ حاشیہ )
مرزائی اعتراض
یہاں توفیتنی کا معنی موت ہی ہے جیساکہ بخاری شریف میں آتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کے سامنے جب چند لوگوں کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا تو آپ نے فرمایامیں اس وقت کہوں گا جیسا کہ عبد صالح نے کہا تھا اقول کما قال العبد الصالح جب حضورﷺ توفیتنی کا لفظ بولیں گے تو یہاں بالاتفاق مراد موت ہے اسی سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے مقولہ میں بھی اس سے مراد موت ہے ۔
جواب نمبر ۱
یہاں بھی مرزائیوں نے اپنی روایتی بے ایمانی ، دجل یا اپنی جہالت کا ثبوت دیا ہے یہاں عیسیٰ علیہ السلام اور حضور ﷺ دونوں غیر غیر ہیں جس پر کما کا لفظ تشبیہ دلالت کر رہا ہے کیونکہ مشبہ اور مشبہ بہ میں مغایرت ضروری ہے اگر حضور ﷺ کا مقولہ بھی وہی مقولہ ہوتا تو آپ کما کی بجائے ما کا لفظ استعمال فرماتے ، حضور ﷺ نے جو حدیث میں فلما توفیتنی پڑھا ہے وہ آپ کو مقولہ نہیں بلکہ عیسیٰ علیہ السلام کا مقولہ ہے ۔ کما کا لفظ تغایر چاہتا ہے ورنہ کما کا مفہوم باطل ہو جا تا ہے جیسے کما ارسلنا الی فرعون رسولا ……الخ ۔ترجمہ : جیسا کہ ہم نے فرعون کیطرف رسول بھیجا۔(تحفہ گولڑویہ ص۱۲۳روحانی خزائن ۳۰۵ ج۱۷)
جواب نمبر ۲
اگر عیسیٰ علیہ السلام اور حضور نبی اکرم ﷺ کا مقولہ ایک مان بھی لیاجائے تب بھی تشبیہ کی وجہ سے ان کے معنی میں مغایرت پیدا کرنی پڑے گی لہذا عیسیٰ علیہ السلام جب بولیں گے تو معنی رفع ہوگااور حضو ر ﷺ بولیں گے تو معنی موت ہوگا۔مرزا بھی یہ قاعدہ مانتا ہے کہ : ’’ مشبہ اور مشبہ بہ میں کچھ مغایرت ضروری ہے‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۶۳ روحانی خزائن ص۱۹۳ ج۱۷)
جواب نمبر۳
کیا یہ ضروری ہے کہ جب ایک لفظ دو مختلف شخصیتوں پر بولاگیا ہو تو اس کا معنی ایک ہی لیاجائے ؟ کیوں نہ دونوں شخصیتوں کیلئے علیحدہ علیحدہ ان کے مناسب معنی لیا جائے ایک ہی لفظ جب دو مختلف اشخاص پر بولاجائے تو حسب حیثیت و شخصیت اسکے جدا جدا معنی ہوسکتے ہیں ۔دیکھئے عیسیٰ علیہ السلام اپنے حق میں نفس کا لفظ بولتے ہیں اور خدا کیلئے بھی ’’ تعلم ما فی نفسی ولااعلم ما فی نفسک ‘‘ توکیا خدا او رمسیح کا نفس ایک طرح کا ہے ؟ ٹھیک اسی طرح حضرت مسیح کی توفی ، اخذالشئی وافیا ہے کیونکہ اگر موت مراد لی جائے تو نصوص صریحہ جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا ذکر ہے ان کے خلاف ہوگا۔
جواب نمبر ۴
ہم پیچھے براہین احمدیہ اور سراج منیر کے حوالہ سے ثابت کرچکے ہیں کہ یہاں توفی کا معنی موت نہیں بلکہ پوری نعمت دینے یا ذلیل اور لعنتی موتوں سے بچانے کے ہیں تو مرز ا کے اس معنی کے مطابق آیت کا معنی یہ ہوگا کہ ’’ اے اﷲ جب تو نے مجھے اپنی غالب تدبیر سے ذلیل اور لعنتی موتوں سے بچا لیا اور انکی تدبیروں کو خاک میں ملا دیا یعنی مجھے آسمانوں پر اٹھالیا توپھر اس کے بعد تونگران ہے اور میں تو اس وقت تک نگران اور ذمہ دار ہوں جب تک ان میں موجود رہا ۔‘‘
دلیل از مرزا قادیانی بر نزول عیسیٰ علیہ السلام
’’ ان المسیح ینزل من السما ء بجمیع علومہ ولا یاخذ شیئا من الارض مالھم لا یشعرون ۔ ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۴۰۹روحانی خزائن ص۴۰۹ ج۵)
اس عبارت سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے ہی شریعت محمدی اور تمام علوم اسلامیہ حاصل کرکے آئیں گے او ر زمین میں کسی کے شاگرد نہیں ہوں گے ۔ دیکھو مرزا کہتا ہے ’’ ما انا الا کالقرآن ‘‘( تذکرہ دوئم ص۶۶۸)
وما ینطق علن الھوی ان ھو الا وحی یوحی (تذکرہ دوئم ص۳۸۸)
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
﴾آیت نمبر ۲
’’ ماالمسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل ‘‘﴿پارہ ۶ ع۱۴﴾ مسیح ابن مریم صرف رسول ہیں اور آپ سے پہلے رسول گذر چکے ۔
﴾آیت نمبر ۳
’’ وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل ‘‘ ﴿پارہ ۴ آیت ۱۳۴ ع۶﴾
ان دونوں آیتوں سے ثابت ہوا کہ جس طرح عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے تمام رسول فوت ہوچکے ہیں اسی طرح نبی اکرم ﷺ سے پہلے بھی تمام رسول فوت ہوچکے ہیں جس سے نتیجہ نکلا کہ عیسیٰ علیہ السلام بھی فوت ہوچکے ہیں۔
جواب نمبر ۱
کسی مفسر یامجدد نے یہ معنی مراد نہیں لئے کہ حضور ﷺ سے پہلے تمام نبی فو ت ہوچکے ہیں او رعیسیٰ علیہ السلام بھی فوت ہوچکے ہیں اگر ہمت ہے تو کسی ایک مجدد کا نام پیش کرو جس نے اس آیت کا مطلب یہ لکھا ہو کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں۔
جواب نمبر۲
یہاں خلت کے معنی مضت ہیں جیسا کہ تمام مفسرین نے اس کے یہی معنی کئے ہیں ۔ قرآن میں اس کے نظائر موجو دہیں جن میں معنی موت کے نہیں مثلاً ’’ واذا خلوا عضوا علیکم الانامل من الغیظ قل موتوا بغیظکم ‘‘﴿پارہ ۴ آل عمران ع۱۲﴾ اور جب علیحدہ ہوتے ہیں تو اپنی انگلیاں غصے سے کاٹتے ہیں آپ فرمادیجئے کہ اپنے غصے میں مرجاؤ۔ کذلک ارسلناک فی امۃ قد خلت من قبلھا امم ﴿آیت ۱۱۹﴾ حالانکہ اس وقت بھی بگڑی ہوئی امتیں موجود تھیں۔
اعتراض
ہم مانتے ہیں کہ خلت کا معنی مضت ہے لیکن قرآ ن مجید نے خود اس کی تصریح کردی ہے فرمایا فان مات او قتل اس میں موت اورقتل میں حصر کیا ۔ معلوم ہوا کہ حضور ﷺ سے قبل بھی تمام انبیاء علیہم السلام کاان دوافراد ہی میں حصر ہے یعنی وہ قتل ہوئے ہیں یا مرگئے ہیں نیز حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے بھی حضور نبی کریم ﷺ کی وفات کے موقع پر خطبہ پڑھ کر متعین فرمادیاکہ یہاں خلت کا معنی موت ہے ۔ فرمایا ’ ’من کان منکم بعد محمداً فان محمدا قد مات ومن کان منکم بعبداﷲ فھو حی لایموت ‘‘۔
جواب
ہم کہتے ہیں کہ معنی بحال ہے کیونکہ جوخطبہ اس وقت پڑھا گیا ہے اس میں تورفع مسیح کا ذکر ہے مرزا لکھتا ہے :
’’ الملل والنحل لعلامہ شہر ستانیج۳ص۵ میں اس قصہ کے متعلق یہ عبارت ہے ’ قال عمر بن الخطاب (رضی اﷲ عنہ) من قال ان محمدا مات فقتلتہ بسیفی ھذا وانما رفع الی السماء کما رفع عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ۔ (تحفہ غزنویہ ص۴۸ روحانی خزائن ص۵۸۰تا۵۸۱ ج۱۵)
٭طریق استدلال
حضرت عمر نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کو مقیس علیہ بنایا ہے جو کہ مسلم تھا اور حضور ﷺ کے رفع کو مقیس بنایا اب جواب میں حضرت ابوبکرصدیق نے تردید صرف مقیس کی ہے حالانکہ اگر مقیس علیہ غلط ہوتاتو پہلے اس کی تردید کرتے مقیس کی خود بخود تردید ہوجاتی ہے ابوبکرصدیق کا مقیس علیہ کی تردید نہ کرنا اورتمام صحابہ کا اس پر سکوت کرنا اس سے رفع عیسیٰ پر تمام صحابہ کا اجتماع ہوگیا ۔ نیز یہاں پر اختلاف بھی ر فع جسمانی میں تھا کیونکہ حضور ﷺ کا روحانی رفع تو ابوبکر صدیق بھی مانتے تھے کیوں کہ حضرت عمرتو حضور ﷺ کی وفات کے ہی منکر تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع پر قیاس کررہے تھے تو معلو م ہوا کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بھی منکر تھے تو وفات کے انکار سے رفع جسمانی ہوا نہ کہ روحانی باقی رہا یہ اعتراض کہ جسد اطہر کے موجود ہوتے ہوئے حضرت عمر نے یہ بات کیوں کہی ۔(تحفہ غزنویہ ص۵۵ روحانی خزائن ۵۸۸ج۱۵)
جواب نمبر ۳
مرز انے خلت کا معنی یہاں موت نہیں کیایعنی مسیح ابن مریم میں اس سے زیادہ کوئی بات نہیں کہ وہ صرف ایک رسول ہے اور اس سے پہلے بھی رسول ہی آتے رہے ہیں (جنگ مقدس ص۷ روحانی خزائن ۸۹ج۶)
جواب نمبر۴
اگر خلت کے عموم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی داخل ہیں تو مرزائی صاحبان بتائیں ولقد ارسلنا رسلا من قبلک وجعلنا ازواجا وذریۃ ……الخ کیا اس آیت کے مطابق جبکہ تمام رسولوں کیلئے ان کی بیویاں اور اولاد ثابت ہورہے ہیں کیا اس عموم میں عیسیٰ علیہ السلام بھی داخل ہیں اور ان کیلئے بھی اولاد ہے اگر وہ اس عموم سے خارج ہیں تو اسی طرح آیت متنازعہ فیہ میں بھی سمجھ لیں ۔اسی طرح ہر انسان کیلئے کہا گیا کہ اس کو جوڑے سے ہم نے پیدا کیا اور نطفے سے پیدا کیا ہے ۔ عیسیٰ علیہ السلام بھی انسان ہیں اور وہ اس عموم سے خارج ہیں اسی طرح متنازعہ فیہ آیت میں سمجھ لیں۔
جواب نمبر ۵
اگر اس آیت سے عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے تو موسیٰ علیہ السلام کیسے زندہ ہیں ۔ ماھو جوابکم فھو جوابنا۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
﴾آیت نمبر۴
’ کانا یاکلان الطعام ‘‘ اور وہ دونوں کھانا کھاتے تھے ۔﴿ پارہ ۶ اَلمائدہ ۷۵﴾
جب حضرت مریم علیہا السلام کا طعام موت سے بند ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی موت سے بند ہے اگر زندہ ہیں تو بتلایا جائے کہ وہ کیا کھاتے ہیں یا پیتے ہیں ۔
جواب نمبر ۱
جو کھانا حضرت موسیٰ علیہ السلام کھاتے ہیں وہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کھاتے ہیں ۔
جواب نمبر ۲
اس ظاہری کھانے کے علاوہ بھی اﷲ کے نیک بندے زندہ رہ سکتے ہیں جن کا طعام یا د الٰہی ہوتا ہے ۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں : ’’ اس درجہ پر مومن کی روٹی خدا ہوتا ہے جس کے کھانے پر اس کی زندگی موقوف ہے اور مومن کا پانی بھی خدا ہوتا ہے جس کے پینے سے وہ موت سے بچ جاتا ہے اور اسکی ٹھنڈی ہو ا بھی خدا ہوتا ہے اور وہ طعام یاد الٰہی ہے ۔‘‘ ( براہین احمدیہ حصہ ۵ ص۵۷ روحانی خزائن ۲۱۶ج۲۱)
جواب نمبر۳
’’ قال العلامۃ الشعرانی فی الیواقیت والجواھر : ’ فان قیل فما الجواب استغناۂ عن الطعام والشراب مدۃ رفعہ فان اﷲ تعالیٰ قال وما جعلنا ھم جسدا لایاکلون الطعام فالجواب ان الطعام انما جعل قوۃ لمن یعیش فی الارض لانہ مسلط علیہ الھواء الہار والبارد فیدخل بدنہ فاذا انحل عوضہ اﷲ تعالیٰ بالغداء اجرا ‘ لعادتہ فی ھذہ الخطۃ الغبراء واما من رفعہ اﷲ الی السماء فانہ یلطف بقدرتہ و یقیہ عن الطعام والشراب کما اغنی الملائکۃ عنھا فیکون حینئذ طعامہ التسبیح وشرابہ التھلیل کما قال رسول اﷲ ﷺ انی ابیت عند ربی یطعمنی ویسقینی ۔ ‘‘ ﴿الیواقیت ولجواھر ج۲ ص۱۴۶﴾
جواب نمبر ۵
جوخوراک آدم علیہ السلام کی تھی وہی عیسیٰ علیہ السلام کی ہے ۔ کما قال اﷲ تعالیٰ ان مثل عیسیٰ عنداﷲ کمثل آدم ۔ ’’ بے شک اﷲ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی مثال کی طرح ہے ۔ ﴿پارہ ۲ آل عمران ۵۹﴾
جواب نمبر۶
اصل بات یہ ہے کہ یہ آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مریم علیہا السلام کی الوہیت توڑنے کیلئے بطور دلیل پیش کی گئی ہے کہ جو کہ کھانے پینے ک امحتاج ہو وہ الٰہ کیسے بن سکتاہے تو الوہیت کی تردید کیلئے ایک دو دفعہ کا کھانا بھی کافی ہے اگر ہم کہیں کہ مرزا صاحب اور اسکی بیوی اکٹھے کھانا کھایا کرتے تھے توکیا اس سے یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ اس کی بیوی بھی مر گئی ہے حالانکہ وہ اس کے بعد بڑی مدت تک زندہ رہی۔
﴾آیت نمبر ۵
’’ واوصانی بالصلوٰۃ والزکوٰۃ ما دمت حیا ‘‘ ﴿پارہ ۱۶ مریم ۳۱﴾
اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اگر وہ زندہ ہیں تو بتائیے کہ وہ زکوۃ کس کو دیتے ہیں اور نماز کس طرف منہ کرکے پڑھتے ہیں ۔
جواب نمبر ۱
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نماز پڑھتے ہیں تو ساتھ ساتھ عیسیٰ علیہ السلام بھی پڑھ لیتے ہیں اور جن غریبوں اور مسکینوں کو زکوٰۃ حضرت موسیٰ علیہ السلام دیتے ہوں گے انہیں عیسیٰ علیہ السلام بھی دیتے ہوں گے۔
جواب نمبر ۲
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیلئے نصاب آپ ثابت کردیں غرباء فقراء ہم بتائیں گے ۔ نیز یہ بتائیے کہ بچپن میں وہ کیسے نماز پڑھتے تھے اور کن لوگوں کو زکوٰۃ دیتے تھے ۔ کیونکہ وہ تو بچپن سے کہہ رہے ہیں واوصانی بالصلوٰۃ والزکوٰۃ ۔
جواب نمبر۳
اصل بات یہ ہے کہ نماز کی فرضیت چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے ۔ جب تک وہ شرائط نہ پائی جائیں تب تک نماز اور زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی ۔ کیا ہرمسلمان پر ہر وقت نماز اور زکوٰۃ فرض ہے ؟ نماز فرض ہوتی ہے جب وقت ہو، جب عاقل بالغ ہو اور زکوٰۃ فرض ہوتی ہے جب صاحب نصاب ہو ۔ حولان حول ہو۔ کیا عیسیٰ علیہ السلام نے یہاں دنیا میں رہتے ہوئے کبھی زکوٰۃ دی تھی ؟ انہوں نے نہایت غربت اور عاجزی کی زندگی گذاری ہے ان کے پاس اتنا مال ہی جمع نہیں ہوتا تھا کہ وہ زکوٰۃ دیں ۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تردید دلائل وفات عیسیٰ علیہ السلام از احادیث

﴾حدیث نمبر ۱
مرزائی عموماً وفات مسیح علیہ السلام پر یہ دلیل بڑے زور شور سے پیش کرتے ہیں کہ ’’ عن عائشۃ رضی اﷲ عنہا ان عیسیٰ بن مریم عاش عشرین ومائۃ سنۃ ‘‘ ﴿رواہ الحاکم فی المستدرک﴾
جواب نمبر ۱
یہ حدیث شریف قابل استنا دنہیں ہے کیونکہ اس میں ابن لہیعہ ایک راوی ہے جو بالاتفاق ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے ۔
جواب نمبر۲
یہ حدیث عقلاً اور روایتاً درایۃ محال ہے کیونکہ اس حدیث کے شروع میں یہ مضمون ہے کہ ہربعد میں آنے والا نبی پہلے نبی سے آدھی عمر پاتا ہے اب اگر عیسیٰ سے دس بیس انبیاء اوپر شمار کئے جائیں تو ان کی عمر لاکھوں کروڑوں سال تک پہنچ جائے گی اگر آدم علیہ السلام تک چلیں تو آدم علیہ السلام کی عمر اس حساب سے اتنی بنے گی کہ موجودہ دور میں حساب کرنے والے تمام کمپیوٹر اور کیلکولیٹر سب فیل ہوجائیں گے ۔ حساب کرنے سے معلوم ہوا کہ اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اوپر بیسویں نبی کی عمر ۶ کروڑ ۲۹ لاکھ ۱۴ ہزار ۵ سو ۶۰ سال بنتی ہے جو عقلاً اور نقلاً محال ہے۔
جواب نمبر ۳
اگر اس حدیث کو صحیح تسلیم کیا جائے تو اس حدیث کا معنی اور مفہوم ایسا لیناہوگا جو دوسری احادیث صحیحہ متواترہ کے خلاف نہ ہو چنانچہ ملا علی قاری ؒ نے اس حدیث کی دوسری احادیث صحیحہ سے یوں تطبیق دی ہے کہ آپ نبوت سے قبل کی عمر چالیس سال نبوت کی عمر تنتیس سال دوبارہ دنیا میں تشریف لانے کے بعد پنتالیس سال اس اعتبار سے مجموعی عمر۱۱۸ سال ہوئی اور کسر والے سال ملا کر ۱۲۰ سال بن جائے گی اور جس روایت میں آتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام سات سال زندہ رہیں گے اس سے مراد دجال کے قتل کے بعد سات سال ہیں ۔
جواب نمبر ۴
اگر یہ حدیث صحیح ہے تو مرزا قادیانی جھوٹا ہے اس حدیث کی روشنی میں اس کی عمر ۳۱ ؍۳۲ سال ہونی چاہیے جبکہ اس کی عمر ۷۰ سال کے قریب بنتی ہے ۔
﴾حدیث نمبر ۲
’’ لوکان موسیٰ و عیسیٰ حیےن لما وسعھا الا اتباعی ‘‘
جواب نمبر۱
یہ حدیث درست ہے تو آپ کے بھی خلاف ہوئی کیونکہ اس سے معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام زندہ نہیں ہیں اور مرزا قادیانی موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا قائل ہے ۔ (حوالہ گذر چکا ہے )
جواب نمبر۲
اس حدیث کی کوئی سند نہیں یہ ایک بے سند مردود قول ہے اگر کچھ طاقت ہے تو اس کی سند پیش کریں۔
جواب نمبر۳
صحیح روایت جو سند کے اعتبار سے مشکوٰۃ میں موجو دہے اس میں صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام ہے ’’ لو کان موسیٰ حیا لما وسعہ الا اتباعی ‘‘ ﴿مشکوٰۃ ص۲۰﴾
﴾حدیث نمبر۳
شرح فقہ اکبر کی روایت پیش کی جاتی ہے جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام آتا ہے ’ ’ لو کان عیسیٰ حیالما وسعہ الا اتباعی‘
٭جواب
یہ کاتب کی غلطی ہے ۔ ہندوستانی نسخوں میں عیسیٰ علیہ السلام کی جگہ موسیٰ علیہ السلام کا نام ہے اس غلطی پر فقہ اکبر کی اندرونی شہادتیں موجود ہیں ، خاص کر مصنف شرح اکبر ملا علی قاری حیات مسیح کے قائل ہیں۔(شرح شفاء اور تذکرہ الموضوعات) میں حوالہ ہے ۔
٭تین جواب ٭
۱) ؂غیرت کی جاہے موسیٰ زندہ ہو آسمان پر
مدفون ہو زمین میں شاہ جہاں ہمارا
۲) ؂مصطفی زیر زمین عیسیٰ نہاں بر آسماں
زیر دریا د ر شور بالا حباب ناتواں
۳) ؂ ا م تری البحر یعلوا فوقہ حبب
و تستقر با قصی قعرہ الدرر

!!!مرزائیوں کی حالت زار!!!

مرزا ئی عموماً ایک معمولی سے بات لے کر اس میں رکیک تاویلیں کر کے اپنا الو سیدھا کرنیکی کوشش کرتے ہیں کسی نے سچ کہا ’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘ ۔ مرزائیوں کی اس حالت زار پریہ رباعی بالکل فٹ ہے جو اخبار جنگ ۲۱ مارچ ۱۹۶۵ء سے ماخوذ ہے۔
یہ سب آثار ہیں جہل و جنوں کے یہ سب اطوار ہیں زار و زبوں کے
یہ چاروں لفظ ہیں مکر و فسوں کے ا گر ، لیکن ، چنا نچہ ا ور چو نکہ
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مسئلہ ختم نبوت واجرائے نبوت

تنقیح موضوع

جب کوئی مرزائی اجرائے نبوت کے موضوع پر گفتگو کرے ، بحث شروع کرنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ پہلے موضوع اور دعویٰ کو منقح کرلیں ، جب تک دعویٰ واضح نہ ہو جائے کسی قسم کی بحث کرنا بالکل بے سود ہے ۔
واضح ہوکہ مرزائی مطلق اجرائے نبوت کے قائل نہیں بلکہ ایک خاص قسم کی نبوت کے حضور ﷺ کے بعد جاری ہونے کے قائل ہیں لہذا ضروری ہے کہ پہلے اس خاص قسم کو واضح کیا جائے جو ان کے نزدیک جاری ہے پھر اس خاص دعویٰ کےمطابق اس قسم کی خاص دلیل کا مطالبہ کیا جائے کیونکہ دعویٰ اور دلیل میں مطابقت ضروری ہے ورنہ یہ کھلی بد دیانتی ہے کہ دعویٰ اور دلیل اس کیلئے کوئی عام پیش کی جائے ہم بلاخوف تردید دعویٰ کرتے ہیں کہ قادیانی اپنے خاص دعویٰ کے مطابق قرآن وحدیث سے ایک بھی صحیح دلیل پیش نہیں کرسکتے ۔
قادیانیوں کے نزد یک نبوت کی اقسام
حوالہ نمبر ۱
’’ میں نبیوں کی تین اقسام مانتا ہوں ۔ایک جو شریعت لانے والے ہوں ،دوسرا جو شریعت نہیں لائے لیکن ان کو نبوت بلاواسطہ ملتی ہے اور کام وہ پہلی امت کا ہی کرتے ہیں جیسے سلیمان وزکریا اور یحیٰ علیہم السلام اور ایک جونہ شریعت لائے اور نہ ان کو بلاواسطہ نبوت ملتی ہے لیکن وہ پہلے نبی کی اتباع سے نبی ہوتے ہیں ۔‘‘ (قول فیصل ص۱۴ مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود)
حوالہ نمبر ۲
’’ ا س جگہ یاد رہے کہ نبوت مختلف نوع پر ہے اور آج تک نبوت تین قسم پر ظاہر ہوچکی ہے
(۱) تشریعی نبوت :ایسی نبوت کو مسیح موعود نے حقیقی نبوت سے پکارا ہے
(۲) وہ نبوت جس کیلئے تشریعی یا حقیقی ہونا ضروری نہیں ، ایسی نبوت حضرت مسیح موعود کی اصطلاح میں مستقل نبوت ہے
(۳) ظلی اور امتی نبی : حضور ﷺ سے مستقل اور حقیقی نبوتوں کا دروازہ بند ہوگیا اور ظلی نبوت کا دروازہ کھولاگیا۔‘‘
(مسئلہ کفر واسلام کی حقیقت ص۳۱ مصنفہ مرزا بشیر احمد ایم اے)
حوالہ نمبر ۳
’’ انبیائے کرام علیہم السلام دو قسم کے ہوتے ہیں :(۱) تشریعی (۲) غیر تشریعی ۔ پھر غیر تشریعی بھی دو قسم کے ہوتے ہیں :(۱)براہ راست نبوت پانے والے ۔(۲) نبی تشریعی کی اتباع سے نبوت حاصل کرنے والے ۔ آنحضرت ﷺ کے پیشتر صفر پہلی دو قسم کے نبی آتے تھے ۔‘‘ (مباحثہ راولپنڈی ص۱۷۵)

تبصرہ

مذکورہ بالا حوالہ جات سے قادیانیوں کا دعویٰ واضح ہوگیا کہ ان کے نزدیک نبوت کی تین قسمیں ہیں جن میں دو بند ہیں ۔ ایک خاص قسم (ظلی بروزی) جو کہ نبی اکرم ﷺ کی اتباع سے حاصل ہوتی ہے وہ جاری ہے لہذا اب خاص دعویٰ کے مطابق ان سے خاص دلیل کا مطالبہ ہونا چاہیے اسی طرح ان حوالہ جات سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ یہ خاص قسم حضو ر ﷺ کے بعد جاری ہوئی ہے لہذا دلیل ایسی ہو جس سے یہ ثابت ہوجائے کہ حضور ﷺ کے بعد یہ خاص قسم جاری ہوئی ہے نیز اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نبوت وہبی نہیں ہوگی بلکہ کسبی ہوگی ۔ کیونکہ جب یہ اتباع سے حاصل ہوگی تو یہ کسبی ہوجائے گی نہ کہ وہبی ۔
اب ان تنقیحات ثلاثہ کے بعد جب کوئی قادیانی اپنے دعویٰ کے ثبوت میں کوئی دلیل پیش کرے تو دیکھو کہ کیایہ دعویٰ کے مطابق ہے یعنی کیااس سے ظلی بروزی خاص قسم کی نبوت جاری ہوتی ہے یا عام ۔ اور کیا اس میں حضور ﷺ کے بعد اس نبوت کا ذکر ہے یا مطلق اور کیا اس سے نبوت وہبی ثابت ہوتی ہے یا کسبی ۔ ہم بلاخوف تردید دعویٰ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان تنقیحات ثلاثہ کے مطابق وہ اپنے دعویٰ پر ایک دلیل بھی پیش نہیں کرسکتے ۔
٭ایک ضروری تنبیہ٭
قادیانیوں کی سب سے بڑی عیاری یہ ہے کہ دعویٰ تو اس خاص قسم کی نبوت کا ہے لیکن وہ عام موضوع اجرائے نبوت رکھ کر بحث شروع کردیتے ہیں اور ایسے عام دلائل پیش کرتے ہیں جوان کے خاص دعویٰ کے مطابق نہیں ہوتے بلکہ وہ دلائل ان کے اپنے مسلمات کے خلا ف ہوتے ہیں ۔
﴾نوٹ
اکثر اوقات مرزائی امکان نبوت کی بحث چھیڑ دیتے ہیں یہاں امکان کی بحث نہیں ہے وقوع کی بحث ہے اگر وہ امکان کی بحث چھیڑیں تو تریاق القلوب کی درج ذیل عبارت پیش کریں۔
’’ مثلاً ایک شخص جوقوم کا چوہڑا یعنی بھنگی ہے اور ایک گاؤں کے شریف مسلمانوں کی تیس چالیس سال سے یہ خدمت کرتاہے کہ دو وقت ان کے گھروں کی گندی نالیوں کو صاف کرنے آتا ہے اور ان کے پاخانوں کی نجاست اٹھا تا ہے اور ایک دو دفعہ چوری میں بھی پکڑا گیا اور چند دفعہ زنا میں گرفتار ہوکر اس کی رسوائی ہوچکی ہے اور چند سال جیل خانہ میں قید ہوچکا ہے اور چند دفعہ ایسے برے کاموں پر گاؤں کے نمبرداروں نے اسے جوتے بھی مارے ہیں اوراس کی ماں اور دادیاں اور نانیاں ہمیشہ سے ایسے ہی نجس کام میں مشغول رہی ہیں اور سب مردار کھاتے اور گوہ (پاخانہ) اٹھاتے ہیں اب خدا کی قدرت سے تائب ہوکر مسلمان ہوجائے اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا ایسا فضل اس پر ہو کہ وہ نبی اور رسول بھی بن جائے اور اس گاؤں کے شریف لوگوں کے پاس دعوت کا پیغام لے کرآوے اور کہے کہ جو شخص تم میں سے میری اطاعت نہیں کرے گا خدا اسے جہنم میں ڈالے گا لیکن باوجود اس امکان کے جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کبھی ایسا نہیں ہوا۔‘‘(تریاق القلوب ص۶۷ روحانی خزائن ص۲۷۹؍۲۸۰ج۱۵)
جب یہ عبارت پڑھیں تو ساری پڑھ دیں کیونکہ عموماً تھوڑی سی عبارت پڑھنے کے بعد مرزائی کہتے ہیں کہ آگے پڑھو اور مجمع پر برا اثر ڈالتے ہیں ۔

یہاں پر یہ واقعہ بھی ملحوظ خاطر رہے جب حضرت ابوسفیان زمانہ جاہلیت میں تجارتی سفر پر روم گئے تھے اور قیصر روم نے انہیں اپنے دربار میں بلاکر سوال پوچھے تھے جن میں سے ایک سوال حضور ﷺ کے خاندان کے بارے میں بھی تھا جس کا انہوں نے جواب دیا تھا کہ وہ ایک بلند مرتبہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور قیصر روم کا اس پر تبصرہ یہ تھا کہ انبیا ء عالی نسب قوموں سے ہی مبعوث کیے جاتے ہیں ۔﴿صحیح البخاری ج۱ص۴﴾
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اجرائے نبوت پر مرزائیوں کے دلائل

﴾آیت نمبر ۱
’’ یا بنی آدم اما یاتینکم رسل منکم یقصون ……الخ ‘‘ ۔ اے بنی آدم اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں بیان کریں ……الخ ۔﴿پارہ ۸ أعراف ۳۵﴾
جواب نمبر ۱
آپ کی دلیل دعوے کیمطابق نہیں کیونکہ رسول کا لفظ عام ہے ۔ مرزا صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ : ’’ رسول کا لفظ عام ہے جس میں رسول اور نبی اور محدث داخل ہیں ۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن ص۳۲۲ج۵)
جواب نمبر ۲
اگر یہ اجرائے نبوت کی دلیل ہے تو اس میں تینوں قسمیں جاری ثابت ہوجائیں گی حالانکہ تم خود دوقسمیں بند مان چکے ہو، لہذا یہ آیت تمہارے بھی اسی طرح خلاف ہے جس طرح ہمارے خلاف ہے ۔ ماھوا جوابکم فھو جوابنا
جواب نمبر ۳
اگر یہ اجرائے نبوت کی دلیل ہے تو اس سے ثابت ہوگا کہ عیسائی ، ہندو،سکھ حتی کہ کوئی بھی مذہب ؍فرقہ یا قوم کا نبی ہوسکتا ہے کیونکہ بنی آدم میں سب شمار ہیں ۔
جواب نمبر ۴
اگر یہ آیت اجرائے نبوت کیلئے دلیل مان بھی لی جائے تو مرزا صاحب پھر بھی نبی نہیں بن سکتے کیونکہ بقول اپنے آدم کی اولاد ہی نہیں مرزا صاحب فرماتے ہیں :
؂کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانو ں کی عار

(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۹۷ روحانی خزائن ص۱۲۷ ج۲۱)
اگر وہ بنی آدم میں سے تھا جیسا کہ ظاہر ہے تو پھر اس نے یہ جھوٹ بولا اور جھوٹ بولنے والا بھی نبی نہیں ہوسکتا ۔ رہی کسر نفسی والی تاویل تو وہ بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ ایسی کسر نفسی کسی عقل مند انسان نے آج تک نہیں کی باقی اس کی کسر نفسی کی حقیقت اس کے دیگر دعاوی اور تعلیمات سے واضح ہے سنئے مرزا صاحب کی تعلیمات:
۱) ؂ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام ا حمد ہے
(دافع البلا ء ص۲۰ روحانی خزائن ص۲۴۰ ج۱۸)
استاد محترم مولا محمد حیات رحمۃاﷲ علیہ نے فرمایا
؂ ابن ملجم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بد تر غلام احمد ہے

۲) ؂روضۂ آد م کہ جو تھا نامکمل اب تلک
میرے آنے سے ہو ا کامل بجملہ برگ و بار
(براہین احمدیہ روحانی خزائن ص۱۴۴ ج۲۱)
۳) ؂کر بلائے است سیر ہر آنم
صد حسین است در گریبانم
۴) ؂آ د مم نیز احمد مختار در برم جامہ ہمہ ابرار
۵) ؂آنچہ داد است ہر نبی را جام
د ا د آ ں جا م مرا بتما م
(نزول مسیح ص۹۶روحانی خزائن ص۴۷۷ ج۱۸)
۶) ؂انبیاء گرچہ بودہ اند بسے
من بعرفان نہ کمترم ز کسے
(نزول مسیح ص۹۹روحانی خزائن ص۴۷۷ج۱۸)
۔جواب نمبر ۵
یہ اجرائے نبوت کی دلیل ہے تو مرزا صاحب کو پیش کرنی چاہیے ،حالانکہ مرزا نے کسی کتاب میں بھی اس آیت کو پیش نہیں کیا ۔ کوئی مرزا ئی اگر مرزا کی کتاب
سے یہ دلیل ثابت کردے تو منہ مانگا انعام حاصل کرے ۔
۔جواب نمبر ۶
اصل تحقیقی جواب یہ کہ عبارت کا سیاق وسباق دیکھنے سے یہ بات روز روشن سے زیادہ واضح ہوگئی ہے کہ یہاں پر حکایت ماضی کی ہے چنانچہ یہاں سے دورکوع قبل حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہاالسلام کی پیدائش کا ذکر ہے تمام واقعہ بڑی تفصیل سے اﷲ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں اور اس ضمن میں یہ ارشاد ہوتاہے کہ جب ہم نے حضرت آدم علیہ السلام کو مع ان کے رفقاء کے زمین پر اتار دیا تو ان کو یہ خطاب کیا گیا ۔ اس صورت میں چار جگہوں پر بنی آدم سے خطاب کیا گیا ہے ۔
۱) ’’ یابنی آدم قد انزلنا علیکم لباسا……الخ ‘‘ اے بنی آدم تحقیق ہم نے تم پر لباس نازل کیا ‘‘ ﴿پارہ ۸ أعراف ۲۶﴾
۲) ’’ یابنی آدم لا یفتننکم الشیطان ……الخ ‘‘ اے بنی آدم تمہیں شیطان نہ بہکاوے ۔ ﴿پارہ ۸ أعراف ۳۱﴾
۳) ’ ’ یابنی آدم اما یاتینکم ……الخ ‘‘اے بنی آدم اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں ۔ ﴿پارہ ۸ أعراف ۵۵﴾
۴) ’’ یابنی آدم خذو زینتکم عند کل مسجد ‘‘اے بنی آدم ہر نماز کے وقت اپنی زینت حاصل کر و۔ ﴿پارہ ۸ أعراف ۳۱﴾

ان چار جگہوں پر اس وقت اولاد آدم کو خطاب کیا گیا ہے اور یہ حضور ﷺ کے سامنے ماضی کی حکایت کی گئی ہے حضور ﷺ یا آپ کی امت کو خطاب نہیں ہو ا۔ کیونکہ آپ کی امت کو ’’ یا ایھاالناس ‘‘ سے خطاب کیا جاتاہے ۔ یا بنی آدم سے اس امت کو خطاب نہیں کیا گیا۔ ہاں اگر پہلے حکم کا نسخ نہ ہو اور اس حکم میں یہ امت بھی شامل ہوجائے تو یہ علیحدہ با ت ہے چنانچہ اس کے بعد اس وعدہ کے مطابق جو اﷲ تعالیٰ نے رسول بھیجے ہیں ان میں سے بعض کا تذکرہ تفصیلاً بیان کیا جیسے ’’ ولقد ارسلنا نوحا ‘‘ وغیرہ اس سلسلہ کو بیان کرتے کرتے آگے چل کر فرمایا ’’ ثم بعثنا من بعدھم موسیٰ ‘‘ پھر دور تک موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ چلا گیا ، حتی کہ نبی کریم ﷺ تک اس سلسلہ کوپہنچادیا اور پھر نبی کریم ﷺ کا تذکرہ یوں فرمایا ’’ قل یاایھاالناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا‘‘ اے نبی ﷺ فرمادیجئے میں تم سب کی طرف اﷲ کا رسول ہوں ۔﴿پارہ ۹ الاعراف آیت ۱۵۸﴾ اور اسی طرح مختلف مقامات میں اعلان کروائے وما ارسلنک الا کافۃ للناس ’’ اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تما م لوگوں کیلئے ‘‘ ﴿پارہ ۲۲ سورہ سباء آیت نمبر ۲۸﴾ وماارسلناک الا رحمۃ للعالمین ، ماکان محمدابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ’’ محمد ﷺ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں او ر لیکن اﷲ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں ۔‘‘ اور انہی آیا ت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ’ ’ ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی ‘ ‘ تواس سے معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو نازل کرنے کے بعد رسولوں کے بھیجنے کا وعدہ فرمایا تھا اور پھر اس کے بعد اپنے وعدے کے مطابق جن رسولوں کو بھیجا ان کی ایک مختصر تاریخ بیان کی حتی کہ اس رسالت کو حضور ﷺ تک پہنچا کر آپ پر نبوت و رسالت کے سلسلہ کو ختم فرمایا۔
۔جواب نمبر ۷
اگر اس آیت سے نبوت جاری ثابت ہوتی ہے تواس قسم کی یہ آیت بھی موجود ہے اما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیہم ……الخ اس آیت میں بھی وہی یاتینکم ہے او راس کا سیاق وسباق بھی وہی ہے اگر اس آیت سے نبوت ورسالت جارے ہوتی ہے تو اس آیت سے شریعت جاری ہورہی ہے حالانکہ وہ تہارے نزدیک بھی بند ہے۔ما ھوا جوابکم فھو جوابنا۔
۔مرزا ئی اعتراض
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس آیت سے شریعت کا جاری ہونا ثابت ہو تا ہے لیکن الیوم اکملت لکم دینکم …… الخ اس آیت سے ثابت ہو گیا کہ دین اور شریعت مکمل ہوچکی ہے لہذا اب کسی قسم کی نئی شریعت کی ضرورت نہیں رہی ۔
۔الجواب
جیسے اس آیت سے یہ ثابت ہواکہ شریعت مکمل ہوگئی مزید شریعت کی ضرورت نہیں رہی اسی طرح آیت خاتم النبیین سے یہ ثابت ہوگیا کہ سلسلہ نبوت ورسالت بھی ختم ہوگیا۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
﴾آیت نمبر ۲
’’ اﷲ یصطفی من الملائکتہ وسلاً ومن الناس ‘‘ بیشک اﷲ تعالیٰ فرشتوں اور آدمیوں میں سے پیغام پہچانے والوں کو چن لیتا ہے ۔‘‘﴿پارہ ۱۷ ألحج ۷۵ ع۱۰﴾
٭طرز استدلال
اس آیت سے واضح طور پر معلو م ہورہا ہے کہ نبوت اور رسالت کا سلسلہ جاری ہے ۔ یصطفی مضارع کا صیغہ ہے جوحال اور استقبال پر دلالت کرتا ے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرشتوں اور لوگوں سے رسول چنتا رہے گا لہذا ہمارا مدعا ثابت ہوا۔
جواب نمبر۱
یہ دلیل بھی دعویٰ کے مطابق نہیں مطابقت ثابت کیجئے دعویٰ خاص ہے اور دلیل عام ہے کیونکہ رسول کا لفظ مرز اصاحب کے نزدیک عام ہے ۔(آئینہ کمالات اسلام ۳۲۲روحانی خزائن ص۳۲۲ ج۵،ایام الصلح ۱۷۱ ص۱۷۸ روحانی خزائن ص۴۱۹ ج۱۴ )یہاں عام لفظ کو کسی خاص معنی میں محدود کرنا صریح شرارت ہے ، مرزا صاحب خود تسلیم کرتے ہیں ، ’’ ایک عام لفظ کو سکی خاص معنی میں محدود کرناصریح شرارت ہے ۔‘‘ (نورالقرآن ص۶۹ج ۲ روحانی ص۴۴۴ج۹)
جواب نمبر۲
یہاں پر اﷲتعالیٰ نے یصطفی فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ چنے گا حالانکہ تم جس نبوت کے اجراء کے قائل ہو وہ اﷲ تعالیٰ کی اصطفاء سے نہیں بلکہ اطاعت سے (کسبی) ہوگی۔
جواب نمبر ۳
آپ کا دعویٰ حضور ﷺ کے بعد نبوت جاری ہونے کا ہے اس میں حضور کا کوئی ذکر نہیں بلکہ مطلق ہے لہذا اس اعتبار سے دعویٰ آپ کی دلیل کے مطابق نہیں رہا۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
﴾آیت نمبر ۳
’’ من یطع اﷲ والرسول فاولئک مع الذین انعم اﷲ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین ‘‘جو کوئی اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے پس یہ لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اﷲ تعالیٰ نے نعمت کی پیغمبروں اور صدیقین اور شہداء اور صالحین ۔ ﴿پارہ ۵ ألنساء ۶۵ ع۸﴾
طرز استدلال
اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کی امت کوآپ کی اطاعت سے نبوت حاصل ہوتی ہے جس طرح آپ کی اطاعت سے امت مین صالح شہید اور صدیق ہوتے ہیں اسی طرح آپ کی اطاعت سے نبی بھی ہوتے ہیں اوریہی ہمارا دعویٰ ہے کہ آپ کی اطاعت والی نبوت جاری ہے لہذا ہمارے دعویٰ کیلئے یہ صریح دلیل ہے کیونکہ بالاتفاق حضور ﷺ کی اطاعت سے تین درجے ہوتے ہیں ۔اس لئے آیت کا یوں معنی کرنا درست نہیں ہوگا کہ اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے ان چار قسم کے لوگوں کے ساتھ ہونگے اور انہیں ان کی رفاقت حاصل ہوگی بلکہ جب تین درجہ اطاعت سے حاصل ہوتے ہیں تو چوتھا درجہ بھی اطاعت سے حاصل ہوگا وہ نبوت کا درجہ ہے اور یہاں پر مع کا معنی وہی ہے جو توفنا مع الابرار میں ہے۔
جواب نمبر۱
کسی ایک مجدد یا مفسر سے اپنے معنی کی توثیق پیش کریں ۔
جواب نمبر ۲
دلیل دعویٰ کے مطابق نہیں کیونکہ النبیین کا لفظ نبیوں کی تمام اقسام کو شامل ہے اگر اطاعت سے نبوت حاصل ہورہی ہے تو وہ ہر قسم کی ہوگی اور یہ تمہارے اپنے عقیدے اور دعویٰ کے خلاف ہے ۔
جواب نمبر۳
آیت کے شان نزول سے آیت کا مطلب بخوبی واضح ہو رہا ہے شان نزول یہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے ایک غلام حضرت ثوبان رضی اﷲ عنہ نے عرض کی کہ یارسول اﷲ ﷺ قیامت کے روز آپ بہت بلند مقام پر ہوں گے اور ہم خدا جانے کہاں ہونگے کیا ہماری آپ سے ملاقات ہوسکے گی اور ہم اپنی آنکھوں کو آپ کے دیدار سے ٹھنڈا کرسکیں گے دنیا میں تو جب تھوڑی دیر بھی ہم آپ سے جدا ہوتے ہیں تو آپ کی جدائی قابل برداشت نہیں ہوتی اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والوں کو ان نیک لوگوں کی رفاقت حاصل ہوگی اس سے معلوم ہوا کہ یہاں درجات کا ذکر نہیں ہے بلکہ محض رفاقت کا ذکر ہے۔
جواب نمبر ۴
بخاری اور مسلم میں ایک حدیث ہے جو بعینہ اس آیت کی طرح ہے فرمایا: التاجر الصدوق مع النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین۔ تو کیا یہاں پر یہ مطلب ہوگا کہ سچا تاجر بھی نبی اور صدیق بن جائے گا یا یہ مطلب ہے کہ سچے تاجروں کو ان لوگوں کی رفاقت نصیب ہوگی۔
مرزائی اعتراض
اگر آیت میں درجات کا ذکر نہیں اور محض رفاقت کا ذکر ہے تو آپ نے تین درجے صدیق ،شہید اور صالح سے نکا ل لیے کیونکہ بقول آپ کے اس آیت کا معنی یوں ہوگا کہ جو اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ نبیوں کے ساتھ ہوگا وہ خود نبی نہیں ہوگا اور اسی طرح وہ صدیقوں کے ساتھ ہوگاخود صدیق نہیں بنے گا حالانکہ اس طرح تمہارے نزدیک بھی نہیں ۔
جواب نمبر۱
اس آیت میں اس بات کا قطعاً ذکر نہیں ہے کہ کوئی شخص اطاعت کر کے نبی یا صدیق یا شہید ہوگا یا نہیں بلکہ یہاں مقصود صرف اطاعت کا نتیجہ بیان کرنا ہے کہ جو اطاعت کرے گا اس کو ان حضرات کے ساتھ رفاقت فی المکان حاصل ہوگی ۔
جواب نمبر۲
ہم جو یہ سمجھتے ہیں کہ اطاعت کرنے سے نبی نہیں ہوگا یہ مقدمہ اس آیت سے نہیں بلکہ دوسری آیتوں کی بنا ء پر ہے جیسے خاتم النبیین والی آیت کیونکہ خاتم الصدیقین اور خاتم الشہداء اور خاتم الصالحین کی کوئی آیت نہیں ہے اگر اس طرح خاتم النبیین کی آیت بھی نہ ہوتی تو ہم نبوت بھی مان لیتے لیکن نبوت کا درجہ ماننے سے یہ آیت اور اس جیسی اور نصوص صریحہ اور احادیث صحیہ مانع ہیں ۔
جواب نمبر۳:
اطاعت سے تین درجے جو ہم مانتے ہیں وہ اس آیت سے نہیں مانتے کیونکہ اس آیت میں درجات کا ذکر ہی نہیں وہ دوسری آیتوں سے مانتے ہیں جن میں درجات کا ذکر ہے اور جن آیات میں درجات بیان کئے گئے ہیں وہاں نبوت کا درجہ نہیں دیکھتے اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ والذین آمنوا باﷲورسلہ اولئک ھم الصدیقون والشھدا ء عند ربھم ‘‘ اور جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لائے یہ لوگ ہیں صدیق اور شہداء اپنے رب کے نزدیک ﴿پارہ ۲۷ ألحدید ۱۹ ع۲﴾ دیکھئے یہاں درجوں کا ذکر ہورہا ہے رفاقت او رمعیت کا ذکر نہیں ہے تو یہاں اولئک ھم النبیون نہیں فرمایا بلکہ صدیقون اور شہداء فرمایا۔
جواب نمبر۴
اگر بقول آپ کے اطاعت سے یہ درجات حاصل ہوتے ہیں توہم سوال کرتے ہیں کہ یہ درجات کیسے ہیں کیا حقیقی یا ظلی یا بروزی ۔ اگر اطاعت سے نبی ظلی اور بروزی بنتے ہیں تو صدیق ،شہید اور صالح بھی ظلی اور بروزی ہونے چاہیےں اور اگر وہ تین درجے حقیقی ہیں تو نبی بھی حقیقی ہونا چاہیے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جب اطاعت کرنے سے یہ چار درجے حاصل ہوتے ہیں ان میں سے تین تو حقیقی ہوں اور ایک ظلی ؍بروزی ہو ،یا چاروں حقیقی مانو یا چاروں ظلی ؍بروزی اور اگر کہو کہ ظلی ؍بروزی صدیق، شہیدنہیں ہوتے اول تو یہ مسلّم نہیں اگر مان بھی لیا جائے توہم کہتے ہیں کہ ظلی بروزی نبی بھی کوئی نہیں یہ بھی تمہاری جدیداصطلاح ہے اور اگر کہوکہ ظلی شہید ہوتے ہیں تو ہم پوچھتے ہیں کیا ظلی حقیقی اور شہید کا حکم ایک ہے ؟ اور یہ ظاہر ہے کہ حکم ایک نہیں کیونکہ مبطون اور غریق وغیرہ شہداء کو غسل دیا جا تا ہے حالانکہ حقیقی شہید کو غسل نہیں دیا جاتا معلوم ہوا کہ حکم ایک نہیں اورتمہارے نزدیک ظلی نبی کے احکام وہی ہیں جو حقیقی نبی کے ہیں کیونکہ تمہارے نزدیک ظلی نبی کا منکر کافر ہے۔(حقیقت الوحی ص۱۶۳ روحانی خزائن ص۱۷۶ ج۲۲ آئینہ کمالات اسلام ص۳۵ رواحانی خزائن ص۳۵ج۵)
مرزائی اعتراض
یہاں مع بہ معنی من ہے۔
جواب نمبر ۱
اول تو ہم یہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ مع بمعنی من کے ہوتا ہے کیونکہ کلام عرب میں مع؍من کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا اگر یہ من کے معنی میں ہوتا تو مع پر من داخل نہ ہوسکتا حالانکہ کلام عرب میں اس کا ثبوت ملتا ہے دیکھو لغت کی مشہور کتاب ’’ المصباح المنیر :ودخول من نحو جئت من معہ ‘‘ یعنی عرب جئت من مع القوم بولتے ہیں پس مع پر من کا داخل ہونا اس بات کا مشعرہے کہ مع کبھی من کے معنی میں نہیں آتا ۔ باقی رہی وہ آیات جو قادیانیوں نے مغالطہ دیتے ہوئے پیش کی ہیں ان میں سے کسی ایک آیت میں بھی مع؍من کے معنوں میں نہیں ہے ۔ دیکھئے وتوفنا مع الابرار کی تفسیر میں مشہور مفسر امام رازی کیا معنی کرتے ہیں : ’’وفاتھم معھم ھی ان تموتوا علی مثلھم اعمالھم حتی یکونوا فی درجاتھم یوم القیامۃ قد یقول الرجل انا مع الشافعی فی ھذہ المسئلۃ ویرید بہ کونہ مساویا لہ فی ذالک الاعتقاد ‘﴿تفسیر کبیر ص۱۸۱ج۳﴾
جواب نمبر۲
اگر ہم تسلیم بھی کرلیں کہ مع؍من کے معنی میں بھی کسی جگہ استعمال ہوتا ہے تو اس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ اس آیت میں بھی مع؍من کے معنی میں ہے یہاں پرکسی ایک مفسر نے بھی یہ معنی نہیں لئے ۔
جواب نمبر ۳
جب کوئی لفظ دو معنوں میں مستعمل ہوتو دیکھا جاتا ہے کہ حقیقت کس میں ہے اور مجاز کس میں جب تک حقیقت متعذر نہ ہوتو مجاز کی طرف رجوع نہیں کیا جاتا۔ مع معیت اور رفاقت کے معنی میں حقیقت ہے اور یہاں حقیقت متعذر نہیں ہے بلکہ وحسن اولئک رفیقا کا جملہ صاف اور صریح دلالت کررہا ہے کہ یہاں معیت کے معنی میں ہے ورنہ یہ جملہ کلام الٰہی میں بالکل بے فائدہ اور زائد ہوگا کیونکہ جب اطاعت کرنے سے وہ لوگ خود نبی او رصدیق بن گئے تو پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت کہ ان لوگوں کی رفاقت اچھی ہوگی۔
جواب نمبر ۴
اگر مع کامعنی من لیاجائے تو درج ذیل آیات کا کیا معنی ہوگا: محمد رسول اﷲ والذین معہ…… الخ اور ان اﷲ مع الصابرین
جواب نمبر ۵
مشہور مفسر اما م رازی جو مرزا کے نزدیک چھٹی صدی کے مجدد ہیں انہوں نے تمہارے معنی کی صریح اور واضح تردید کی ہے :’’ ومعلوم انہ لیس المراد من کون ھولاء معھم ھو انھم یکونون فی عین تلک الدرجات لان ھذا ممتنع ‘‘ (تفسیر کبیر ص۲۶۳)
جواب نمبر ۶
مرزانے خود اقرار کیا کہ اطاعت کرنے سے اور فنا فی الرسول ہوجانے سے نبوت نہیں ملتی بلکہ زیادہ سے زیادہ محدثیت کا درجہ حاصل ہوسکتا ہے اس سے نہیں بڑھ سکتا۔
حوالہ نمبر ۱: ’’ جب کسی کی حالت اس نوبت تک پہنچ جائے (جو اس سے قبل مذکور ہوچکی ہے ) تو اس کا معاملہ اس عالم سے واراء الورا ء ہوجاتا ہے اوران تما م ہدایتوں اور مقامات عالیہ کو ظلی طور پر پالیتا ہے جو اس سے پہلے نبیوں اور رسولوں کو ملے تھے اورانبیاء اور رسل کا وارث اور نائب ہوجاتا ہے ۔وہ حقیقت جو انبیاء میں معجزہ کے نام سے موسوم ہوتی ہے وہ اس میں کرامت کے نام سے ظاہر ہوتی ہے اور وہی حقیقت جو انبیاء میں عصمت کے نام سے نامزد کی جاتی ہے اس میں محفوظیت کے نام سے پکاری جاتی ہے اور وہی حقیقت جو انبیاء میں نبوت کے نام سے بولی جاتی ہے اس میں محدثیت کے پیرایہ میں ظہور پکڑتی ہے حقیقت ایک ہی ہے لیکن بباعث شدت اور ضعف رنگ کے ان کے نام مختلف رکھے جاتے ہیں ۔ اس لئے آنحضرت ﷺ کے ملفوظات مبارکہ ارشاد فرمارہے ہیں کہ محدث نبی بالقوہ ہوتا ہے اگر باب نبوت مسدود نہ ہوتا تو ہر ایک محدث اپنے وجود میں قوت استعداد نبی ہونے کی رکھتا ہے اور اس قوت اور استعداد کے لحاظ سے محدث کا حمل نبی پر جائز ہے یعنی کہہ سکتے ہیں المحدث نبی جیسا کہ کہہ سکتے ہیں : العنب خمر نظر اعلی القوۃ والاستعداد ومثل ھذا الحمل شائع متعارف فی عبارات القوم وقد جرت المحاورات علی ذالک کما لایخفی علی کل ذکی عالم مطلع علی کتب الادب ‘‘ (ریویو آف ریلجنز أپریل ۱۹۰۴ بعنوان اسلام کی برکات ،آئینہ کمالا ت اسلام ص۲۳۷؍۲۳۸ج ۵ ۔ روحانی خزائن ۲۳۷ ؍۲۳۸)
اس عبارت سے واضح ہوگیا کہ ظلی نبوت بھی درحقیقت محدثیت ہی ہے اور ظلی نبی جو کامل اتباع سے بنتا ہے وہ حقیقت میں محدث ہے لہذا قادیانیوں کا یہ کہنا کہ اتباع اور اطاعت سے نبوت حاصل ہوجاتی ہے غلط ٹہرا۔ یہاں پر مرزا محدث کا حمل جو نبی پر کررہے ہیں اور المحدث نبی کہہ رہے ہیں وہ محض اس کی قوۃ اور استعداد کے لحاظ سے ہے ۔
جیسا کہ عنب کا حمل قوت اور استعداد کے لحاظ سے خمر پر ہوتا ہے تو اب ظاہر ہے کہ یہ حمل اگرچہ جائز ہے لیکن ان کے احکام مختلف ہیں جیسا کہ عنب اور خمر کے احکام مختلف ہیں اسی طرح محدث جس کو بالقوۃ ہم نبی کہہ رہے ہیں اس کے احکام نبی سے مختلف ہونے چاہئیں۔ لہذا یہ بات ثابت ہوگئی کہ اطاعت کرنے سے مرز ا کے نزدیک جو نبوت حاصل ہوتی ہے وہ محدثیت ہی ہے جس کا انکار کفر نہیں اور اطاعت سے اس مقام کے حاصل ہونے میں کوئی نزاع نہیں ہے ۔
حوالہ نمبر۲: ’’ حضرت عمر کا وجود ظلی طور پر گویا آنحضرت ﷺ کا وجود ہی تھا۔(ایام الصلح ص۳۴،۳۵ روحانی خزائن ص۲۶۵ج۱۴)
حوالہ نمبر ۳: ’’ صدہا ایسے لوگ گذرے ہیں جن میں حقیقت محمدیہ متحقق تھی اور عنداﷲ ظلی طور پر ان کا نام محمد یا احمد تھا ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ج۵ص۳۴۶،روحانی خزائن ص۳۴۶ج۵)
٭نتیجہ
مذکورہ بالا حوالوں سے بھی یہ بات واضح ہوگئی کہ اتباع اور اطاعت سے نبی نہیں ہوسکتے جبکہ بقول ان کے صدہا شخص ایسے گذر چکے ہیں جن کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد تھا اور حضرت عمر کا وجود بھی ظلی طور پر حضور کا ہی وجود تھا۔ تو کیا ان میں سے کسی ایک نے بھی نبوت کا دعویٰ کیااور کوئی اپنی علیحدہ جماعت یاامت بنائی یا اپنے منکرین کو کافر یا جہنمی کہا۔ فعلیکم البیان بالبرھان
جواب نمبر۷
امت میں سے سب سے اونچا مقام صد یقیقت کا ہے شہید اور صالح اس سے نیچے کے مقام ہیں اطاطت کرنے سے یہ امت والے ہی مراتب حاصل ہوسکتے ہیں نہ کہ وہ خود نبی بن جائے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام کی جماعت جو حضور ﷺ کی پوری پوری متبع اور مطیع ہے جن کو دنیا ہی میں اﷲ تعالیٰ نے راضی ہوکر جنت کے سر ٹیفکیٹ عطا فرمادیے اور ایسی اتباع کا نمونہ پیش کیا کہ قیامت تک امت میں اس کی نظیر نہیں پائی جاسکتی اور بقول مرزا ان میں حقیقت محمدیہ متحقق ہوچکی تھی اور حضور بھی ان کے متعلق ارشاد فرمارہے ہیں ۔ لوکان بعدی نبی لکان عمر اور حضرت ابوبکر صدیق کے بارے میں فرمایا ابوبکر خیر الناس بعدی الاان یکون نبی لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام میں سے کوئی بھی نبوت کے مقام پر فائز نہ ہوا اور کسی نے نبوت کا دعویٰ نہ کیا بلکہ حضرت ابوبکرجیسے صدیق رہے اور عمر جیسے شہید اور محدث بنے نبی تو کوئی بھی نہ بن سکااب امت میں کون دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس نے ان حضرات سے بڑھ کر اتباع کی ہے اور نبوت کے مقام پر پہنچ گیاہے۔
جواب نمبر۸
اگر اطاعت سے نبوت ملتی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمرکوکیوں نہیں ملی کیا وہ قیامت کے روزا ﷲ تعالیٰ سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب نہیں ہونگے کہ اے اﷲ تو نے اطاعت سے نبوت عطا کرنی تھی تو ہم نے جبکہ تیرے رسول پر اپنی جانیں ،مال او راولاد ہر چیز قربان کردی تھی ،کیا قصور کِیاتھا کہ نبوت کے بلند اور اعلیٰ ترین منصب پر ہمیں سرفراز نہ فرمایا؟ کیا تیرے انصاف کا یہی تقاضا تھا کہ ایک انسان کہ جس کا ایمان بھی محل نزاع میں ہے اور انگریزوں کا جاسوس اور ایجنٹ بھی تھا اور بجائے حضو ر ﷺ کی اطاعت کے انگریز٭ کی اطاعت کو فرض سمجھتا تھا اس کو یہ مقام عطا کردیا ؟
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے
٭مرزاصاحب اور اطاعت انگریز
’’ سو میرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلا م کے دو حصے ہیں ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کریں اور دوسراے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہوجس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو وہ سلطنت برطانیہ ہے ۔‘‘ (شہادۃ القرآن ص۸۴روحانی خزائن ص۳۸۰ج۶)
مرزائی اعتراض
ہم نے جو معنی کیاہے امام راغب ہمارے معنی کی تائیدکرتے ہیں کیونکہ وہ فرماتے ہیں : ’’ قال الراغب ممن انعم علیھم من الفرق الاربع فی المنزلۃ والثواب النبی بالنبی والصدیق بالصدیق والشھید بالشھید والصالح بالصالح واجاز الراغب ان یتعلق من النبیین لقولہ ومن یطع اﷲ والرسول ای من النبیین ومن بعدھم ‘‘ ﴿البحر محیط ج۳ص ۲۸۷﴾
دیکھئے ا س عبارت سے صاف واضح ہورہا ہے کہ جبکہ من النبیین کو من یطع اﷲ کے متعلق کریں گے تو معنی یہ ہوگا کہ نبیوں میں سے جو اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ ایسا ہوگا۔ تو معلوم ہوا کہ اس امت میں بھی کچھ نبی ہونے چاہیےں جو رسول کی اطاعت کرنے والے ہوں اگر نبوت کادروازہ بند ہے تو اس آیت کے مطابق وہ کون سانبی ہوگا جو رسول اﷲ کی طاعت کرے گا۔
جواب نمبر۱
یہ عبارت اما م راغب کی کسی کتاب میں نہیں ہے اگر ہمت ہے توا مام راغب کی وہ کتاب پیش کرو جس میں یہ عبارت درج ہے۔
جواب نمبر ۲
یہ قادیونیوں کا صریح دجل ہے اور اس حوالہ کے پیش کرنے میں بھی انہوں نے اپنے روایتی دجل و فریب سے کام لیا ہے حوالہ ہذا تفسیر بحر محیط علامہ اندلسی کی کتاب سے پیش کیا ہے حالانکہ علامہ اندلسی نے یہ قول نقل کرکے اس کی سخت ترین الفاظ میں تردید فرمائی ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں : ’’ وھذا الوجہ الذی ھو عندہ ظاھر فاسد من جھۃ المعنی او من جھۃ النحو ‘‘ ﴿البحر محیط ص۲۸۷ ج۳﴾ یعنی نحوی غلطی یہ ہے کہ من النبیین جزا کا جزء ہے اور یہاں اسے شرط کا جزء قرار دیا جارہا ہے او رمعنوی غلطی یہ ہے کہ یہ عبارت ختم نبوت کے خلاف ہے ۔‘‘ ظاہرہے کہ علامہ راغب جیسا فاضل شخص یہ غلطی نہیں کرسکتا یہ عبارت ان کی طرف غلط منسوب ہے ۔
جواب نمبر ۳
اما م راغب کے قول کوصحیح بھی تسلیم کرلیا جائے توبھی ہمارے مخالف نہیں ہے کیونکہ تمام انبیاء حضور ﷺ کے امتی اور متبع ہیں دیکھئے شب معراج میں تمام انبیاء علیہم السلام نے آپ کی اتباع اور اقتدا کی اور بیت المقدس میں آپ کی امامت میں نماز ادا کی اس کے علاوہ انبیا ء سابقین اور بنی اسرائیل سلسلہ کے آخری نبی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام آیات قرآنی اور احادیث نبویہ کی رو سے قیامت سے قبل اس امت مین تشریف لائیں گے اور آپ ﷺ کی شریعت کی اتباع اور اطاعت کریں گے ۔ لہذا انبیاء میں سے ایک فرد کا مل ایسا مل گیا جو آپ کی اتباع اور اقتدا کرے گا۔
﴿ہمارا سوال ﴾
کیا نبوت وہبی ہے یا کسبی ؟ اگر کہو کہ نبوت وہبی ہے تو تمہارا استدلال ختم ، کیونکہ تم جس نبوت کے قائل ہو (یعنی کہ وہ اطاعت سے حاصل ہوتی ہے )وہ تو کسبی ہے اور اگر کہو کہ ہے تووہبی لیکن کسب کو دخل ہے جیسا کہ یھب لمن یشاء اناثا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول توجب اس میں کسب کادخل ہے تو وہ کسبی بھی ہوگئی صرف وہبی نہیں اور کسبی نبوت غلط ہے جیسا کہ آئندہ واضح کیا جاتا ہے ۔باقی جو آیت آپ نے پیش کی ہے اول تو وہ قیاس قیاس مع الفارق ہے ۔ کہاں اولاد کا پیدا ہونا اور کہاں نبوت کا عطا ہونا دوسرے یہ بھی غلط ہے کہ یہاں کسب کو دخل ہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ یہاں کسب کو کوئی دخل نہیں ہے بلکہ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ محض ہبہ ہے کیونکہ اگر وہ نہ چاہتے تو زوجین ساری عمر کسب کرتے رہیں اوران کو کوئی چیز نہ دے اور اگر چاہے توجہاں مطلقاً کسب نہ ہووہاں دیدے جیسا کہ حوا علیہاالسلام اور عیسیٰ علیہ السلام ۔
جواب نمبر۲
اگر نبوت کسبی مانی جائے تو عصمت باقی نہیں رہتی ۔
جواب نمبر۳
حوالہ نمبر ۱: علامہ شعران فرماتے ہیں کہ ’ ’ فان قلت فعل النبوۃ مکتسبۃ او موھوبۃ فالجواب لیست النبوۃ مکتسبۃ حتی یتوصل الیھا بالنسک والریاضات کما ظنہ جماعۃ من الحمقاء (کالقادیانیۃ) وقد افتی الما لکیہ وغیرھم بکفر من قال ان النبوۃ مکتسبۃ ‘‘﴿الیواقیت والجواہر ص۱۶۴ ج۱﴾
حوالہ نمبر۲: ’’ من ادعی نبوۃ احد مع نبینا ﷺ او بعدہ وداعی النبوۃ لنفسہ او جوز اکتسابھا او البلوغ بصفاء القلب الی مرتبتھا وکذلک من ادعی منھم انما یوحی الیہ وان لم یدعی النبوۃ فھولاء کلھم کفار مکذبون للنبی ﷺ لانہ اخبر ﷺ انا خاتم النبیین لانبی بعدی ۔ ‘‘ ﴿شرح شفاء للقاضی عیاض ص۲۷۰؍۲۷۱﴾
اما م رازی ؒ کی تفسیر:’’ ومعلوم انہ لیس المراد من کون ھولاو معھم ھو انھم یکونون فی عین تلک الدرجات لان ھذا ممتنع ‘‘ ﴿تفسیر کبیر ص۲۶۳﴾
امام رازی ؒ مرزا کے نزدیک چھٹی صدی کے ایک مشہور اور مسلّم مجدد ہیں ۔دیکھئے کس صراحت سے انہوں نے مرزائیوں کی تفسیر کی تردید کی ہے کہ فاؤلئک مع الذین سے مراد یہ نہیں کہ اطاعت کرنے سے ان کو وہ درجات حاصل ہوں گے کیونکہ یہ ممتنع ہے بلکہ اس سے مراد صرف ان کی صحبت ہے جیسا کہ ہم کہتے ہیں ۔
جواب نمبر۴
’ ان رسول اﷲ ﷺ کان یدعو قرب وفاتہ اللھم بالرفیق الاعلیٰ مع الذین انعمت علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین ھل مراد منہ ان یصیر من النبیین الخ وھو نبی ورسول عظیم من قبل بل معناہ ان الرسول کان یطلب عن ربہ الرؤف الرحیم یتقلہ من دارالدنیا الی جوار ہ حیث یحصل لہ رفقہ الانبیاء والصدیقین ۔ ‘‘
جواب نمبر۵
اس آیت میں ہے من یطع اﷲ ورسولہ اور من عام ہے جو کہ مذکر مؤنث دونوں کو شامل ہے اس آیت سے کوئی عورت بھی نبی ہونے پر استدلال کرسکتی ہے حالانکہ قادیانی بھی اس کے قائل نہیں ۔ ما ھوا جوابکم فھو جوابنا
نبوت کے کسبی نہ ہونے کے بارے میں مرزا کا اعتراف
حوالہ نمبر۱: ’’ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ محدثیت محض وہبی ہے کسب سے حاصل نہیں ہوسکتی جیسا کہ نبوت کسب سے حاصل نہیں ہوسکتی ۔‘‘(اردو ترجمہ حمامۃ البشریٰ ل۸۲ روحانی خزائن ص۳۰۱ ج۷)
حوالہ نمبر۲: ’’ صراط الذین انعمت علیھم اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص کو یہ مرتبہ ملا انعام کے طور پر ملا یعنی محض فضل سے نہ کسی عمل کا جر ۔‘‘(چشمہ مسیحی ص۴۲روحانی خزائن ص۳۶۵ج۲۰)
﴿فائدہ ﴾
یہ آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت کا اعجاز ہے کہ مرزا اپنے ہی مسلمات کے خلاف لکھ گیا اسی لیے کہاگیا ہے کہ ’’ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ‘‘
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
لفظ خاتم کا معنی

قادیانی حضرات لفظ خاتم کے مختلف معنی کرتے ہیں کبھی تو اس کا معنی مہر لگانے کا اور کبھی خاتم المحدثین والشعراء کی طرح افضل النبیین معنی کرتے ہیں ۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ مرز انے یہی خاتم کا لفظ اپنی متعدد کتابوں میں استعمال کیا ہے اور تمام جگہوں میں اس کا معنی آخری ہی لیا ہے ۔ مثلاً
(۱) ’’ خدا کی کتابوں میں مسیح موعود کے کئی نام ہیں من جملہ ایک نام اس کا خاتم الخلفاء ہے یعنی ایسا خلیفہ جو سب سے آخر آنے والا ہے ۔‘‘ (چشمہ معرفت بر حاشیہ ص۳۱۸ روحانی خزائن ص۳۳۳ج۲۳)
(۲) ’’ میں اس رسول پر دلی صدق سے ایمان لایا ہوں اور جانتا ہوں کہ تمام نبوتیں اس پر ختم ہیں اس کی شریعت خاتم الشرائع ہے۔ ‘ ‘ (چشمہ معرفت ص۳۲۴ برحاشیہ روحانی خزائن ص۳۴۰ ج۲۳)
(۳) ’’ ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے ۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۳۶ روحانی خزائن ص۱۷۰ ج۳)
(۴) ’’ وہ اس امت کا خاتم الاولیاء ہے جیسا کہ سلسلہ موسویہ کے خلیفوں میں حضرت عیسیٰ خاتم الانبیاء ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۲۵روحانی خزائن ص۱۲۷ ج۱۷)
مرزا صاحب نے مذکورہ بالاتمام جگہوں میں خاتم کا معنی آخری لیا ہے جوواضح طور پر ہماری تائید کرتا ہے ۔
(۵) مرزا صاحب اپنی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ میں اور میری بہن جنت اکٹھے پیدا ہوئے تھے پہلے وہ لڑکی پیٹ میں سے نکلی تھی اور بعد اس کے پھر میں نکلا تھا اور میں اپنے والدین کے ہاں خاتم الاولاد تھا میرے بعد کوئی لڑکا یا لڑکی نہیں پیدا ہوا۔‘‘(تریاق القلوب ص۱۵۷ ص۳۰۰روحانی خزائن ج۱۵ ص۴۷۹ ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۸۶ روحانی خزائن ص۱۱۳ ج۲۱)
۶) ’’ اور نیز یہ راز بھی کہ آخر پر بنی اسرائیل کے خاتم الانبیاء کانام جوعیسیٰ ہے اور اسلام کے خاتم الانبیاء کا نام جواحمد اور محمد ہے ۔‘‘ (ضمیمہ خاتمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ،روحانی خزائن ص۴۱۲ج۲۱)
یہاں بھی مرزا نے خاتم الاولاد اور خاتم الانبیاء سے مراد آخری کے لئے ہیں اور خاتم الاولاد کا معنی یہ کِیا ہے کہ میرے بعد میرے ماں باپ کے ہاں اورکوئی لڑکا یا لڑکی پیدا نہیں ہوا جس کا صاف معنی یہ ہے کہ یہ اپنے ماں باپ کا آخری لڑکا ہے اس طرح خاتم النبیین میں بھی یہی معنی ہوگا کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا جیسا کہ مرزا صاحب کی پیدائش کے بعدمرزا کے والدین کے ہاں کوئی لڑکا ؍لڑکی نہیں ہوا اس سے ان کے ایک اور شبہ کا ازالہ بھی ہوگیا۔
شبہ
اگر حضور ﷺ آخری نبی ہیں تو پھر عیسیٰ علیہ السلام کیسے آئیں گے جب وہ آئیں گے تو آخری نبی وہ بن جائیں گے اس سے ثابت ہواکہ یا تو عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں یا حضور ﷺ خاتم النبیین یعنی آخری نبی نہیں ہیں۔
جواب
مذکورہ بالا حوالہ سے قادیانیوں کا یہ شبہ بھی ھبا ء منثورا ہوگیا کہ حضورﷺ کے آخری نبی ہونے سے یہ کیسے لازم آگیا کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں اور اگر وہ فوت نہیں ہوئے تو حضور ﷺ آخری نبی نہیں ، دیکھئے مرزا صاحب خاتم الاولاد ہیں اور اس کا بڑا بھائی غلام قادر زندہ موجود تھا مرزا غلام احمد اپنے ماں باپ کا آخری لڑکا بھی ہے اور اس کا بڑا بھائی زندہ موجود بھی ہے نہ تو اس کے آخری ہونے سے یہ لازم آیا کہ اس کا بڑا بھائی ضرور مر ہی چکا ہے اور نہ بڑے بھائی کے زندہ ہونے سے مرزا کے آخری ہونے میں کوئی فرق پڑا ۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کو بھی سمجھ لیجئے ان کے زندہ رہنے سے حضور ﷺ کی خاتمیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا اگر کسی والد کے چا ربیٹے یا کسی استاد کے کئی شاگرد یا پیر کے کئی مرید ہوں ان کاپہلا بیٹا زندہ ہواور آخری مرجائے تو اس کے زندہ رہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ آخری مرجانے والابیٹا آخری نہ ہو۔
ایک نہایت ضروری حوالہ
متنازع فیہ آیت کا ترجمہ مرزا نے ’’ نبیوں کا ختم کرنے والا‘‘ کیا ہے نہ کہ مہر یا افضل ’’ یعنی محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں ہے مگر وہ رسول اﷲ ہے اور ختم کرنے والا ہے نبیوں کا ۔‘‘(ازالہ اوہام ص۲۵۲ آیت نمبر ۲۱ روحانی خزائن ص۴۳۱ج۳ ،ازالہ اوہام حصہ دومص۶۱۴)
 
آخری تدوین :
Top