• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سیرت المہدی

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{1581} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آباد ی مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت میاں صاحب باہر سے کھیلتے کھیلتے آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جیب میں دو یا ایک چھوٹے چھوٹے پتھر ڈال دئے ۔پھر حضور جب اندر تشریف لائے تو اماں جان سے کہا کہ میرے کوٹ سے قلم نکال لاؤ یا کسی کا خط منگایا ۔یاد نہیں ۔تو اماں جان نے جیب میں کنکر دیکھ کر پوچھا تو آپ نے کہا کہ ان کو جیب میں ہی رہنے دو یہ میاں محمود کی امانت ہے اور اماں جان نے جیب میں ہی رہنے دئے۔
{1582} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ماسٹر مولا بخش صاحب ریٹائرڈ مدرسہ احمدیہ قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ موسمی تعطیلات میں میں یہاں آیا ہو اتھا۔ ستمبر کا مہینہ تھا ،سن اور تاریخ یاد نہیں ۔مسجد مبارک کی توسیع ہوچکی تھی۔ میں صبح آٹھ بجے مسجد مبارک میں اکیلا ہی ٹہل رہا تھا کہ اچانک حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کھڑکی سے جو مسجد مبارک میں کھلتی ہے تشریف لائے ۔ذرا سی دیر بعد حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول ؓ اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب مرحوم یا خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم اندرونی سیڑھیوں کی راہ سے مسجد میں آگئے۔ حضرت اقدس مسجد کے پرانے حصہ میں کھڑکی سے مشرقی جانب فرش پر تشریف فرما ہوئے اور ان سے باتیں کرنے لگ گئے اور خاکسار آہستہ آہستہ حضرت اقدس کے دست مبارک دبانے لگا۔باتیں کرتے کرتے آپ کے جسم مبارک میں جھٹکا سا لگا اور سارا بدن کانپ گیا اور میرے ہاتھوں سے آپ کی کلائی چھوٹ گئی ۔آپ فوراً اندر تشریف لے گئے حضرت خلیفہ اولؓ نے فرمایا کہ یہ نزول وحی کا وقت ہے۔
{1583} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ میاں مبارک احمد صاحب کی وفات پر جب جنازہ لے کر قبر پر گئے تو قبر تیار نہ تھی۔ اس وسطے وہیں ٹھہرنا پڑا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلا م مقبرے کے شمال کی طرف درختوں کی قطار کے نیچے بیٹھ گئے ۔باقی احباب آپ کے سامنے بیٹھ گئے۔ اس وقت آپ نے جو تقریر کی وہ تو مجھے یاد نہیں مگر اس کا اثر یہ تھا کہ اس وقت ایسا معلوم ہو تا تھا جیسے ان لوگوں کا کوئی عزیز فوت ہو گیا ہے اور حضور ماتم پرسی کے لئے آئے ہیں اور ان کو تسلی دے رہے ہیں ۔
منشی محمد اسماعیل صاحب نے بیان فرمایا کہ بالکل یہی الفاظ میں نے سید حامد شاہ صاحب کو لکھے تھے۔
{1584} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے محمد بخش نام کاذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اگر محمد بخش سے یہ مراد لی جائے کہ محمد کے طفیل بخشا گیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔
{1585} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ مرزا حاکم بیگ کی شادی پر اس کے سسرال نے آتش بازی ،تماشے اور باجے کا تقاضا کیا۔ انہوںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ میرے سسرال والے یہ چاہتے ہیں ۔حضور کا کیا ارشاد ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ سب ناجائز ہیں مگر مومن بعض وقت ناجائز سے بھی فائدہ اٹھا لیتا ہے مثلاً شہر میں وبائی مرض پھیلی ہوئی ہے ۔ایک شخص اس خیال سے آتش بازی چھوڑتا ہے کہ اس سے ہوا صاف ہو جائے گی اور لوگوں کو فائدہ پہنچے گا تووہ اس سے بھی گویا ثواب حاصل کرتا ہے ۔ اور اسی طرح باجے کے متعلق اگر اس شخص کی یہ نیت ہو کہ چونکہ ہم نے دور تک جانا ہے اور باجے کے ذریعے سے لوگوں کو علم ہو جائے گا۔ کہ فلاں شخص کی لڑکی کا نکاح فلاں شخص سے ہوا ہے اگر اس نے اس نیت سے باجا بجوایا تو یہ ایک اعلان کی صورت ہو جائے گی ۔ اس میں بھی ناجائز کا سوال اٹھ گیا۔
{1586} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر افتخار احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میرے والد منشی احمد جان صاحب مرحوم حج کوجانے لگے تو حضرت صاحب نے ایک خط ان کو لکھ کر دیا کہ یہ خط وہاں جا کر پڑھنا۔ چنانچہ میرے والد صاحب نے عرفات کے میدان میں وہ خط پڑھا۔ اور ہم نے وہ خط سنا ۔ اس کے الفاظ خاکسارکویاد نہیں ۔ ہم بیس آدمی اس خط کو سُن کر آمین کہنے والے تھے۔
{1587} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر افتخار احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ بشیر اول کے عقیقہ کے وقت مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا والد رحیم بخش قادیان میں تھا۔ اس نے بچے کو بال مونڈنے کے وقت گودی میں لیا ہوا تھا۔ اور بیت الفکر میں ہم پندرہ کے قریب آدمی حضور کے ساتھ تھے اور اتنے ہی آدمی بمشکل اس کمرہ میں آسکتے تھے۔ حضرت میر محمد اسحق صاحب کے والد جو اس تقریب میں تشریف لا رہے تھے بوجہ بارش بٹالہ میں ہی رکے رہے۔ گویا اس دن بارش خوب ہورہی تھی۔
{1588} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک شخص فجا تھا۔ اس کی بیوی ابھی آٹھ دس سال کی بچی تھی اور وہ کالی سی تھی۔ اور حضرت صاحبزادہ مبارک احمد کے ساتھ ساتھ رہتی ۔گویا یہ نوکرانی تھی۔ حضور اس کو فرماتے کہ ادھر آؤ اور مبارک احمد کو اچھی طرح سے رکھا کرو۔ ہم اس وقت تین لڑکیاں تھیں ،صفیہ ،صغریٰ ،امۃ الرحمان تو ہم نے حیران ہوجانا کہ ہم اس کو ذلیل سمجھتی ہیں اور حضرت صاحب اس کو بھی ادب سے بلاتے ہیں ۔
{1589} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور ایک دالان میں ہوتے اور عورتیں بھی وہاں ہوتیں اور ہر وقت اپنے کام تحریر میںلگے رہتے ان کو کوئی خبر نہ ہوتی تھی کہ کون آیا اور کون گیا۔ ایک لڑکی ہم تینوں میں سے بغیر اجازت کوئی چیز کھالیتی۔ ایک دن وہ صحن میں بیٹھے آم کھا رہے تھے۔ ہم دو لڑکیاں اوپر سے گئیں اور آم لے لئے۔ ایک عورت آگئی اور کہنے لگی تم نے آم کہاں سے لئے۔ ہم نے کہا حضرت صاحب نے دئے ہیں۔ اس نے کہا نہیں تم نے خود ہی لئے ہیں ۔ حضور نے تجھ کو نہیں دئے ان کوکہاں نظر آتا ہے۔ان کو تو کوئی خبر ہی نہیں ہوتی ۔ کوئی آئے کوئی جائے ۔حضور بیٹھے تھے میں آئی اورحضور کو خبر تک نہیں۔
{1590} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان فرمایا کہ حضور ہمیشہ وضو سے رہتے تھے اور غسل بھی روز فرماتے ۔ حضور نہایت رحیم کریم تھے۔ اگر حضور کوئی خاص دوائی یا غذا بنواتے تو کسی خاص اعتبار والے سے بنواتے ۔یہ خادمہ جب تک نوکر رہی ،چیزیں حضور کی بنایا کرتی۔
{1591} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضور ’’ سناتن دھرم کتاب تصنیف فرما رہے تھے۔ تو ان دنوں میں مجھ کو بلانے آئے تو حضور کی زبان مبارک سے امۃ الرحمان کی جگہ سناتن دھرم کے لفظ نکل گئے۔ تو ایک دن میں نے حضور سے عرض کی حضور مجھ کو فکر ہوگیا۔ حضور کی زبان مبارک سے میری بابت یہ کیوں ہندو لفظ آجاتا ہے تو حضور نے فرمایا امۃ الرحمان یہ کوئی برا لفظ نہیںہے ۔اس کے معنے ہیں پرانا ایمان ۔ پھر جب بھی یہ لفظ کہتے حضور ہنس پڑتے اور چہرہ چمک جاتا۔
{1592} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت اُم المومنین علیہا السلام کو فرمارہے تھے کہ جو کام خدا تعالیٰ خود بخود کرے اس کا ذمے وار بھی خدا تعالیٰ خود بخود ہوجاتا ہے ۔ انسان کی خواہش اس کے مطابق چاہئے اور دعائیں بھی کرے۔ جب انسان کی کوشش اور خواہش کے مطابق وہ ہو بھی جائے توا س کی ذمہ واری وہ انسان پر ڈال دیتا ہے۔ اس واسطے سب کام خدا کے اُسی کے ذمے ڈال دینے چاہئیں ۔
{1593} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہئے کہ کسی کی نسبت کینہ اپنے دل میں نہ رکھے اور مواد نہ جمائے رکھے کیونکہ اس کی وجہ سے بڑے بڑے نقصان اور مصیبتوں کا سامنا ہوتا ہے جب ایک دوسرے کی بابت کوئی دل میں رنج ہوتوفوراً مل کر دلوںکو صاف کر لینا چاہئے اور مثال بیان فرمائی جب انسان کوزخم ہو اس میں مواد پیپ بھر ا پڑا ہواور نکالانہ جائے تو وہ گندہ مواد انسان کے بہت سے حصۂ بدن کو خراب کر دیتا ہے ۔ اسی طرح دل کے مواد کی بات ہے ۔ اگر ایک دوسرے کے رنج کو دل میں رکھا جائے تو زخم کے موا دکی طرح بُری حالت پیدا ہوتی ہے جس کی تلافی مشکل ہوتی ہے۔
{1595} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جو سچے دل سے اخلاص رکھتا ہوتا تھا اور حضور کو معصوم جانتا ہوتا تھا۔ حضور بھی اس کی خطاؤں پر چشم پوشی سے کام لیا کرتے تھے۔ اگرچہ وہ کوئی ناپسندیدہ کام کرتا لیکن حضور اس کے اخلاص کی وجہ سے باز پرس نہیں کیا کرتے تھے۔
{1596} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مرزا فضل احمد صاحب مرحوم کی وفات کی خبر آئی تو مغرب کا وقت تھا اور حضرت اقدس علیہ السلام اس وقت سے لے کر قریباً عشاء کی نماز تک ٹہلتے رہے ۔ حضور علیہ السلام جب ٹہلتے تو چہرہ مبارک حضور کا اس طرح ہوتا کہ گویا بشرہ مبارک سے چمک ظاہر ہوتی ہے۔
٭٭٭
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
تتمہ سیرت المہدی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے بعض خطوط اور مضامین سیرت المہدی کے غیر مطبوعہ مسودہ میں ہی رکھے تھے تا کہ انہیں بھی شامل اشاعت کیا جائے کیونکہ ان کا تعلق سلسلہ کی تاریخ سے ہے ۔
خطوط میں محمد نصیب صاحب، عبدالرحمن صاحب خلف میاں حبیب الرحمن صاحب مرحوم ، ملک حسن محمد صاحب ، شیخ محمد احمد مظہر صاحب اور جناب کنورسین صاحب ایم اے بار ایٹ لاء ڈیرہ دون کے خطوط ہیں۔ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی تحریک پر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ کے مندرجہ ذیل تین مضامین شامل ہیں جو آپ نے ۳۹۔۱۹۳۸ء اور ۱۹۴۶ء میں تحریر کر کے حضرت میاں صاحب کو دیئے تھے اور آپ نے انہیں سیرت المہدی کے غیرمطبوعہ مواد کے ساتھ رکھا تھا۔
۱۔ جلسہ اعظم مذاہب لاہور ۱۸۹۶ء کی روئیداد
۲۔ عید قربان ۱۹۰۰ء اور خطبہ الہامیہ
۳۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری سفر لاہور اور حضور پُر نور کا وصال
ناشر۔سید عبدالحی

مکتوب مکرم محمد نصیب صاحب
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
بخدمت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں اخبار بدر دیکھ رہا تھا اس میں۲۷؍فروری۱۹۰۸ء کے اخبار میں حضرت مولوی نورالدین صاحب کی تقریر جو آپ نے۱۷؍فروری۱۹۰۸ء کو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی موجودگی میں آپ کے سامنے فرمائی ،حسب ذیل پائی گئی۔ اس کی نقل پیش خدمت ہے ۔
’’ گزشتہ ہفتہ میں مختصراً نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کا نکاح صاحبزادی مبارکہ بیگم کے ساتھ ۱۷؍ فروری کو ہونا ذکر کیا گیا تھا۔ حضرت مولوی نور الدین صاحب نے خطبہ نکاح میں کیا خوب فرمایا تھا ۔ کہ ایک وقت تھا جبکہ حضرت نواب صاحب موصوف کے ایک مورث اعلیٰ صدر جہان کو ایک بادشاہ نے اپنی لڑکی نکاح میں دی تھی اور وہ بزرگ بہت ہی خوش قسمت تھا مگر ہمارے دوست نواب محمد علی خان صاحب اس سے زیادہ خوش قسمت ہیں کہ ان کے نکاح میں ایک نبی اللہ کی لڑکی آئی ہے ۔
نواب صاحب موصوف کے خاندان میں حق مہر کے متعلق دستور ہوتا ہے کہ کئی کئی لاکھ مقرر کیا جاتا ہے اور انہوں نے اپنی قومی رسم کے مطابق اب بھی یہی کہا تھا مگر حضر ت اقدس علیہ السلام نے پسند نہ فرمایا۔ تاہم نواب صاحب کی وجاہت اور ریاست کے لحاظ سے چھپن ہزار روپے حق مہر مؤجل مقرر ہوا۔ ‘‘
اس عبارت کی نقل کرنے اور خدمت والا میں عرض کرنے کی غرض یہ ظاہر کرنا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی نبوت کے متعلق کیا خیال تھا؟
خادم
محمد نصیب
۴۱۔۱۔۱۶
مکتوب مکرم عبدالرحمن خان خلف میاں حبیب الرحمن خان
‏P.O.Tandlianwala
‏Distt. Lyall Pur
‏Date. 21.10.49
ھوالناصر
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلی عبدہ المسیح الموعود
بحضور حضرت صاحبزادہ صاحب ۔ مکرم و معظم واجب التعظیم والتکریم سلّمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ بہت ہی ادب و احترام سے یہ خاکسار حضور میں عرض پرداز تھے کہ اخبار الفضل مورخہ ۲۰؍ اکتوبر ۴۹ء نمبری ۲۴۰موصولہ امروزہ میں حضور نے حضرت صاحبزادہ رزا سلطان احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت حسب تحریر برادر مکرم شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ سابق کپورتھلہ حال لائل پور طبع فرمائی ہے جو کہ بزبانی حضرت ماموں صاحب منشی ظفر احمد صاحب ؓ سے سنی ہوئی ہے اور کئی مرتبہ دوسرے احباب کو بھی سناتے ہوئے خود سنا ہے۔ اس لحاظ سے خاکسار شاہد ہے۔ اور چونکہ یہ سلسلہ کی تاریخی روایت ہے۔ اس لئے میں روایت کے متعلق جس قدر میرے ساتھ ماموں ظفر احمد صاحب مرحوم ؓ نے تذکرہ فرمایا وہ مجھے بخوبی یاد ہے۔ چنانچہ خاکسار بھی حضور میں عرض پرداز ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ روایت صحیح عرض کر رہا ہوں تا کہ محفوظ رہے۔
’’ حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم و مغفور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود مجھ سے بھی تذکرہ فرمایا اور میری موجودگی میں بھی کئی مرتبہ مسجد احمدیہ کپورتھلہ میں اس روایت کا اس طرح تذکرہ فرمایا تھا کہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال ہوا ہے۔ جالندھر میں بعہدہ افسر مال تعینات تھے۔ حضور کی وفات سے پیشتر علاقہ میں دورہ پر گئے ہوئے تھے۔ جس روز علاقہ کے دورہ سے واپس گھوڑے پر سوار جالندھر کی جانب تشریف لا رہے تھے کہ راستہ میں یکلخت آپ کو الہام ہوا ’’ ماتم پرسی‘‘ آپ اس الہام پر پہلی مرتبہ تو کچھ نہ سمجھے اور گہری سوچ میں پڑ گئے اور گھوڑے پر سوار بدستور چلتے چلے گئے کہ راستہ میں دوبارہ پھر یہی الہام ہوا اور ساتھ ہی طبیعت پر آپ کو کچھ بوجھ بھی محسوس ہوا ۔ پھر آپ کو خیال ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہے اور خیالات بہت پراگندہ ہوئے۔ آپ نے بوقت تذکرہ بتلایا کہ آپ نے قیاس کیا کہ شائد تائی صاحبہ کا انتقال ہو گیا ہو ۔ مگر آپ اسی طرح گہرے خیالات کی سوچ بچار میں بدستور گھوڑے پر سوار چلتے گئے کہ پھر تیسری مرتبہ یہی الہام ہوا اور ساتھ ہی آپ کے دل پر بھی اس کا بہت گہرا اثر ہوا۔ کچھ بوجھ سا دل پر اور بھی زیادہ محسوس ہوا۔ جس سے آپ کی طبیعت بہت ہی خائف ہو گئی اور آپ ڈر گئے تو آپ راستہ میں ہی فوراً گھوڑے سے اتر کر زمین پر بیٹھ گئے اور دل میں انہی خیالات میں پریشان اور ملول و محزون ہو گئے اور پریشان تھے کہ اس ’’ماتم پرسی‘‘ کے الہام کا حل کیا ہے۔ کبھی آپ کو تائی صاحبہ کا خیال آتا اور کبھی حضرت والد صاحب کی وفات (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) کا خیال آتا۔ کہ شائد آپ کا وصال ہو گیا ہے۔ پھر بہت ہی گہری سوچ کے بعد یہ سوال آپ کے دل میں آیا کہ خدا تعالیٰ کی جانب سے ’’ماتم پرسی‘‘ ہو تو لازمی ہے کہ یہ کسی اعلیٰ اور ارفع ہستی کی موت اور وصال سے وابستہ ہے۔ یہ خیال دل پر مسلط ہو گیا اور دل میں آپ کے یہ پورا یقین ہو گیا کہ بس یہ حضرت والد صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) کا ہی وصال ہے۔ یہ خیال راسخ ہوتے ہی آپ پھر گھوڑے پر سوار ہو کر روانہ ہو گئے اور اسی غم و حزن کی حالت میں بجائے اپنے بنگلہ پر جانے کے آپ سیدھے ڈپٹی کمشنر صاحب جالندھر کے بنگلہ کو تشریف لے گئے۔ اس وقت جالندھر میں کوئی انگریز ڈپٹی کمشنر تعینات تھے۔ آپ نے سیدھے DCکے بنگلہ پر پہنچ کر صاحب سے ملاقات کی اور حصول رخصت کے لئے صاحب کو یہ اطلاع دی کہ میرے والد صاحب کا وصال ہوگیا ہے اس لئے فوراً رخصت دے دی جائے، میں جارہاہوں۔ اور یہ بھی بتلایا کہ میں اسی غرض سے دورہ سے سیدھا آپ کے بنگلہ پر آیا ہوں ۔ صاحب موصوف نے دریافت کیا کہ کیا والد صاحب کی وفات کی خبر آ پ کو راستہ میں ملی ہے یا کوئی اور ذریعہ سے موصول ہوئی ہے ۔ یاکوئی آدمی آیا ہے ۔ آخر کیا معاملہ ہوا ہے مگر آپ نے صاحب سے عرض کیا کہ نہ کوئی تار آیا ہے نہ کوئی آدمی آیا ہے اور نہ کوئی اور ہی اطلاع موصول ہوئی ہے صرف خدائی تار آیا ہے ۔ صاحب موصوف نے اس کا سلسلہ دریافت کیا تو حضرت مرز اصاحبؓ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم ومغفور نے اپنے راستہ کا تمام ماجرہ الہامی سنایا تو صاحب کو بہت حیرت ہوئی کہ اس پر اتنا یقین کرلینا یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے ۔ یونہی آپ کو وہم ہوگیا ہے ۔ آپ اطمینان رکھیں ایسا کوئی حادثہ نہیں ہوا ہے ۔ اس لئے آپ رخصت کے لئے جلدی نہ کریں۔ اور گھبرائیں نہیں اطمینان کر لیجئے۔ لیکن حضرت مرز اصاحب بدستور اپنے یقین کامل پر رخصت کے لئے مصر رہے اور پورے وثوق سے اس خدائی اطلاع پر ملول تھے۔ مگر پھر آپ صاحب کے بہت اصرار پر اپنے بنگلہ پر تشریف لے آئے۔ پہنچے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اطلاعی تار وفات حسرت آیات حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام آپ کو موصول ہوا۔ چنانچہ آپ اسی ہم وغم میں اسی تار کو لے کر دوبارہ صاحب کے بنگلہ پر پہنچے اور بتلایا کہ اس وقت میں دورہ سے سیدھا آپ کے بنگلہ پرآگیا تھا وہ خدائی اطلاع کی بناء پر تھا ۔ اب یہ تار بھی موصول ہوگیا ہے ۔ صاحب بہادر اس تمام کیفیت کو دیکھ کر بہت ہی حیران اور ششد رہ گئے کہ آپ لوگوں کو خدا پر کیسا یقین اور وثوق اورایمان ہے ۔ اور وہ من وعن پورا بھی ہورہا ہے ۔ چنانچہ حضرت مرزا صاحب رخصت پر فوراً روانہ ہوگئے ۔
’’اور ماموں صاحب فرماتے تھے کہ جب حضرت مرز اصاحب جالندھر سے امرتسر پہنچے تو اسٹیشن پر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا جنازہ بھی امرتسر پہنچ چکا تھا ۔ حضرت مرز اصاحب بھی شامل ہوگئے اور ساتھ ہی رہے ۔ ماموں صاحب منشی ظفر احمد صاحب بھی امرتسر میں تھے چنانچہ حضرت مرزاصاحبؓ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم نے یہ تمام ماجرا امرتسر میں ہی حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ سے خود بیان فرمایا تھا۔ ‘‘
ایک مرتبہ عاجز اور حضرت ماموں ظفر احمد صاحب قبلہ مسجد احمدیہ کپور تھلہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور ایک دو دوست اور بھی موجود تھے یا کالج کے طالب علم جو حصول تعلیم کے لئے کپور تھلہ مقیم تھے وہ بیٹھے تھے یہ مکمل یاد نہیں ہے ۔ میںنے ماموں صاحب کی خدمت میں اس روایت کے متعلق عرض کیا کہ میںنے یہ کئی بار آپ سے سنی ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے یہ روایت سلسلہ میں محفوظ نہیں ہے ۔ اس لئے ایسی روایت کا محفوظ ہونا بہت ضروری ہے ۔ اس لئے میرا دل چاہتا ہے کہ اس روایت (مندرجہ صدر) کو جس طرح میں نے آپ سے سنا ہے میں لکھ کر پیش کردیتا ہوں آپ اس پر دستخط کر دیں تاکہ میں اس روایت کو اخبار الفضل میں طبع کرادوں ۔میری اس گزارش پر حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ نے فرمایا کہ خیال تو ٹھیک ہے مگر یہ واقعہ مجھے مکمل یاد نہیںہے ۔ مثلاً دوبارہ تار لے کر حضرت مرزا صاحب خود گئے تھے یا بھیجا تھا وغیرہ مجھے یاد نہیں رہا اس لئے طبع کرانی مناسب نہیں ہے ۔ چنانچہ پھر میں خاموش ہوگیا ۔ اطلاعاً عرض ہے ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ جو میرے کانوںنے خود سنا وہ امانت تھی اور میںنے عرض کردی ہے اور جوکچھ میرے عرض کرنے پر ماموں صاحب مرحوم نے مجھے فرمایا وہ بھی میںنے من وعن عرض خدمت والا کردیا ہے ۔ میرا خود دل چاہتا تھا میں اس روایت کو طبع کراؤں مگر ماموں صاحب کے ارشاد بالا کے مطابق میںنے چپ اختیار کر لی تھی جو اطلاعاً عرض خدمت ہے ۔ فقط والسلام
دعاؤں کا طالب
خادم المسیح غلام زادہ خاکسار عبد الرحمن خلف میاں حبیب الرحمن صاحب مرحوم
حال نائب تحصیلدار تحصیل سمندری ڈاکخانہ تاندلیانوالہ منڈی (ہیڈ کوارٹر )ضلع لائل پور
۱۹۴۹۔۱۰۔۲۱ مطابق ماہ اخائ
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
مکتوب مکرم ملک حسن محمد احمدی قادیانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
بخدمت جناب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
ایک روایت الفضل مجریہ ۲۰؍اخاء ۱۳۲۸ھش میں شائع ہوئی ہے جس کے راوی مولوی محمد احمد صاحب وکیل کپور تھلوی ہیں اور انہوں نے اپنے والد بزرگوار حضرت منشی ظفر احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنی ہے ۔ جوخاکسار کی نظر سے بھی گذری۔ اس میں ایک فقرہ ایسا ہے جس نے مجھے بھی ایک شہادت کے بیان کرنے پر مجبور کیا۔ وہ فقرہ یہ ہے کہ
’’مرزا سلطان احمد صاحب نے ہماری تائی مرحومہ (تائی آئی الہام سیدنا مسیح موعود ؑ)کے پیچھے لگ کر ساری عمر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے علیحدگی اور ایک گونہ مخالفت میں گذاری ۔
میری شہادت : خاکسار سیدنا خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مبارک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب سیدنا مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام حیات تھے اور حضرت خلیفہ اوّل حکیم الامت کے مبارک لقب سے یاد ہوتے تھے ۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا ’’حضرت مرزا سلطان احمد صاحب میرے پاس آئے اور انہوںنے مجھے کہا کہ حضرت مسیح موعود ؑ سے میری صلح کروادیں اور مجھے حضرت کی خدمت میں اپنے ہمراہ لے چلیں تا میں حضرت سے معافی مانگ لوں ۔‘‘
مولوی صاحبؓ نے فرمایا !’’میںنے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر اس معاملہ کو پیش کیا کہ مرزا سلطان احمد صاحب حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر معافی مانگنا چاہتے ہیں ۔ حضور کا کیاارشاد ہے۔ میں ان کو اپنے ہمراہ لے آؤں اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ’’جب تک سلطان احمد اپنے چال چلن درست نہیں کرتا اس وقت تک میرے پاس نہ آوے۔‘‘
یہ شہادت حضرت حکیم الامت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی ہے جس کو مولوی صاحبؓ نے اپنی مجلس میں بیان فرمایا جس کا میں شاہد ہوں ۔
دوسری شہادت خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کی بیگم صاحبہ کی ہے جو میری بیوی کے روبرو موصوفہ نے بیان فرمائی اس کے ذریعہ مجھ تک پہنچی ۔ میری بیوی کے روبرو محترمہ خورشید بیگم صاحبہ حرم مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم نے بیان کیا کہ مرزا صاحب یعنے مرزا سلطان احمد صاحب فرماتے ہیں کہ ’’میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کا مخالف نہیں ہوں میں مسیح موعود کو مانتا ہوں لیکن میرے اندر کچھ خامیاں کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے میں بیعت نہیں کرتا۔ ‘‘
تیسری شہادت :۔ محترمہ مکرمہ اُم ناصر احمد صاحب حرم اوّل سیدنا امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ہے یہ شہادت بھی میری بیوی محترمہ کے ذریعہ سے مجھ تک پہنچی ہے۔ محترمہ اُم ناصر احمد صاحب نے بیان کیا کہ ’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صحن میں شہ نشین پر تشریف فرما وضو کر رہے تھے کہ خادمہ نے ایک کاغذ آپ کے حضور پیش کیا۔ حضور نے اسی وقت وہ کاغذ کھول کر پڑھنا شروع کیا اور اسی وقت پڑھ کر اس کو چاک کر دیا اور فرمایا ’’ جب بھی سلطان احمد دعا کے لئے لکھتا ہے دنیاوی ترقی کے لئے ہی لکھتا ہے دین کے لئے کبھی نہیں لکھتا۔ ‘‘ کچھ دنوں کے بعد مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کا عریضہ پھر حضور کی خدمت میں پیش ہوا جس میں لکھا ہوا تھا کہ حضور کی دعائوں سے اللہ تعالیٰ نے مجھے ترقی عطا فرمائی ہے ‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا
’’ میں نے تو دعا کی ہی نہیں ‘‘
ان شہادات کو بنظر غور دیکھا جاوے تو معمولی سے تدبر کے بعد معلوم ہو جاتا ہے کہ سیدنا مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی پر خان بہادر مرزا سلطان احمد مرحوم کو کامل ایمان و یقین تھا۔ لیکن بعض اپنی کمزوریوں کی وجہ سے بیعت عمداً نہیں کرتے تھے کہ اس بیعت پر میں عمل پیرا نہیں ہو سکتا۔ جھوٹا اقرار کیوں کروں۔
لما تقولون مالا تفعلون
حضور کا خادم خاکسار ملک حسن محمد احمدی قادیانی۔ سمبڑیالوی حال عارضی مقام الہ آباد۔ ریاست بہاولپور۔
ضلع رحیم یار خان ۔ ۱۴؍نومبر ۱۹۴۹ء
مکتوب مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ لائل پور
شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ لائل پور فرزند اکبر حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی حضرت قمرالانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کے نام اپنے مکتوب ۴۹۔۱۰۔۱۴ میں تحریر فرماتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مخدوم و محترم ۔ السلام علیکم ۔ گرامی نامہ ملا۔امور ذیل عرض ہیں۔
(۱) وطن مالوف والد صاحب کا بڈھانہ ضلع مظفر نگر تھا۔ لیکن والد صاحب کی زیادہ سکونت اور تعلیم کا زمانہ قصبہ باغبت ضلع میرٹھ میں گزرا۔ یہ وجہ ہے کہ دونوں جگہ وطن کا ذکر روایات میں ہوا ۔ باغپت میں ہمارے بعض بزرگ ملازم تھے۔ اور والد صاحب وہاں رہتے تھے۔ براہین احمدیہ بھی والد صاحب نے باغپت میں پڑھی۔
(۲) روایات مطبوعہ ریویو آف ریلیجنز اردو میں بعض کتابت کی غلطیاں تھیں۔ رسالہ مذکور اس وقت میرے سامنے نہیں۔ لیکن
(الف) شروع میں جو روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد مرحوم نے عبدالواحد صاحب کو ایک دوا تیار کر کے دی عبدالواحد صاحب ان دنوں بٹالہ میں منصف تھے۔ لیکن کاتب نے پٹیالہ لکھ دیا ہے اور یہ بڑا مغالطہ ہے صحت فرمالی جائے۔
(ب) ایک جگہ آتھم کے مباحثہ کے متعلق روایت میں ہے کہ نبی بخش کی کوٹھی میں ہم ٹھہرے تھے۔ کاتب نے ٹھہرے کی بجائے کھڑے تھے لکھ دیا۔ایسا ہی بعض اور کتابت کی غلطیاں تھیں۔ جو میں نے نوٹ کی تھیں اگر رسالہ مذکورہ مجھے ملا تو عرض کروں گا۔ اس وقت آپ کے جواب کی تعمیل میں جلدی ہے۔
(۳) رفع اشتباہ کے لئے یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ والد صاحب مرحوم شروع میں اپیل نویس تھے۔ لیکن صورت یہ تھی کہ آپ کی بجائے حکام نے ایک اور شخص کو اپیل نویس عوضی مقرر کیا ہوا تھا۔ والد صاحب اس سے آمدنی لے لیتے تھے اور خود بطور سر رشتہ دار عدالت کام کرتے تھے ۔ مدتوں یہ عمل رہا تاکہ کے مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد والد صاحب مستقل سر رشتہ دار ہو گئے۔ اور پھر ترقی پا کر ہائی کورٹ کی رجسٹراری سے پنشنر یاب ہوئے۔
یہ وضاحت اس لئے ہے کہ اشتباہ ہوتا ہے کہ شروع میں والد صاحب ملازم تھے یا نہیں۔ اور یہ طریق اس لئے والد صاحب نے قائم رکھا تھا کہ ملازمت سے بے نیاز تھے جب چاہتے قادیان چلے جاتے کوئی روک نہ تھی اور یہ وجہ تھی کہ اکثر سفر و حضر میں حضرت کے ساتھ رہتے تھے۔
آپ نے اخبار میں چند سوال شائع فرمائے تھے ان کے تعلق سے عرض ہے کہ :۔
(۴۔الف) بروایت والد صاحب مرحوم حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے کسی احمدی کا جنازہ پڑھایا اور اس کے بعد حضور نے فرمایا ! کہ جو مقتدی ہیں ان کا بھی میں نے جنازہ پڑھا دیا ہے ۔ والد صاحب فرماتے کہ میرا جنازہ تو حضور خود پڑھا چکے ہیں ۔ چنانچہ بوقت جنازہ والد صاحب جو حضرت مولوی شیر علی صاحب نے پڑھایا۔ میںنے اس امر کا ذکر ان سے کیا تھا۔
(۴۔ ب) ایک مرتبہ والد صاحب کپور تھلہ سے لدھیانہ حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ ماہ رمضان تھا اور والد صاحب روزے سے تھے ۔ حضرت صاحب کو جب معلوم ہوا، تو آپ نے روزہ افطار کرادیا۔ اس وقت سوج غروب ہونے میں آدھ گھنٹہ کے قریب باقی تھا۔ اور فرمایا! کہ سفرمیں روزہ جائز نہیں۔
(۵) والد صاحب کی ایک روایت ذیل غیر مطبوعہ ہے ۔
جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا وصال ہوا تو حضرت مرز اسلطان احمد صاحب مرحوم جالندھر میں ملازم تھے غالباً افسر مال تھے۔ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کا والد صاحب سے بڑا تعلق تھا ۔ چنانچہ مرزا صاحب موصوف نے والد صاحب سے فرمایا کہ بروز وصال حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مَیںجالندھر میں گھوڑ ے پر سوار جارہا تھا۔ کہ یکدم بڑے زور سے مجھے الہام ہوا’’ماتم پرسی‘‘ میں اسی وقت گھوڑے سے اُتر آیااور مجھے بہت غم تھا ۔ خیال کیا کہ شاید تائی صاحبہ کا انتقال ہوگیاہو۔ پھر خیال کیا کہ نہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماتم پرسی تو والد صاحب کے متعلق ہی ہوسکتی ہے ۔ چنانچہ میں ڈپٹی کمشنر کے پاس گیا کہ مجھے رخصت چند دن کی دی جائے ۔ غالباً والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے ۔ اس نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا نہ کوئی خبر آئی ہے نہ شائع ہوئی ہے ۔ اسی درمیان میں تار آگیا۔ جس میں والد صاحب کے انتقال کی خبر دی تھی۔ اور ڈپٹی کمشنر کو حیرت ہوئی ۔ میں نے قلم برداشتہ یہ چند باتیں عرض کر دی ہیں جو مناسب ہو اختیار فرمائیں۔
والسلام
خاکسار محمد احمد ایڈووکیٹ لائل پور ۱۹۴۹۔۱۰۔۱۴
ایک امر میں آپ کا مشورہ مجھے مطلوب ہے
میں سالہاسال سے انگریزی فارسی اور اردو الفاظ کے عربی ماخذ تحقیق کرنے میں لگا ہوا ہوں اس میں مجھے حیرت انگیز کامیابی ہوئی ہے۔ نصف سے زیادہ انگریزی لغت کو میں حل کر کے معہ دلائل وجہ تسمیہ وغیرہ عربی میں لوٹا چکا ہوں اور ایسے فارمولے مجھے معلوم ہو چکے ہیں کہ باقی ماندہ لغت کا حل کرنا میرے نزدیک بالکل سہل ہے۔ صرف وقت کی ضرورت ہے ۔ اس بارے میں جامعہ احمدیہ احمد نگر میں میرا ایک حالیہ لیکچر بھی پسند کیا گیا تھا۔
اس طرح اردو ۔ پنجابی ۔ اور فارسی کے کثیر لغت جو روزمرہ بولے جاتے ہیں اور ٹھیٹھہ الفاظ ہیں مَیں حل کر چکا ہوں۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا میں اس کام کو جاری رکھوں اور یہ مفید ہو گا ۔ میرا ارادہ ساری لغت انگریزی کو حل کر ڈالنے کا ہے۔ انشاء اللہ
اس میں علمائے لغت انگریزی کی فاش اور مُضحک بہت سی غلطیاں دریافت ماخذ کے بارے میں ثابت ہو چکی ہیں اور اس قابل ہیں کہ انہیں شائع کر کے OXFORD تک پہنچایا جائے۔ اس بارے میں آپ کوئی مفید مزید مشورہ بھی عنایت فرمائیں۔ میری تحقیق بعض اصولی فارمولوں کی بنا پر ہے۔ جو کم و بیش سب زبانوں پر یکساں عائد ہوتے ہیں۔ وباللہ التوفیق
خاکسار
محمد احمد مظہر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رائے کنورسین کے خط کا تعارف
ایک شریف النفس ہندو لالہ بھیم سین بٹالہ میں مولوی گل علی شاہ کے مدرسہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہم مکتب تھے اور اس زمانہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک قلبی تعلق اور بے پناہ عقیدت رکھتے تھے۔ لالہ بھیم سین بعد میں سیالکوٹ میں وکالت کرتے تھے اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۶۴ ء سے ۱۸۶۸ ء تک سیالکوٹ میں ملازم تھے تو وہاں جن افراد کے ساتھ آپ کا تعلق تھا ان میں لالہ بھیم سین بھی تھے۔ حضور دفتری اوقات کے بعد اکثر لالہ صاحب کی قیام گاہ پر جاتے تھے۔ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لالہ بھیم سین کو ایک طویل خط بھی لکھا تھاجس میں بت پرستی کے رد میں قرآن کریم کی تعلیمات پیش کی گئی ہیں۔ یہ خط لالہ صاحب کے کاغذات سے ان کے بیٹے نے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو دے دیا تھا۔ یہ خط مکتوبات احمدیہ میں شائع ہو چکا ہے۔
جب ان کے بیٹے کنورسین انگلستان سے بار ایٹ لاء کر کے پنجاب کی عدالتوں میں پریکٹس کرتے تھے تو لالہ بھیم سین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پیشکش کی تھی کہ ان کا بیٹا حضور کے مقدمات میں بلامعاوضہ پیش ہوا کرے ۔ لیکن حضور نے اس پیشکش کو منظور نہیں فرمایا۔ بعد میں جناب کنورسین صاحب پرنسپل لاء کالج لاہور بنے اور پھر ریاست ہائے کشمیر جودھ پور الور وغیرہ میں چیف جسٹس و جوڈیشل منسٹر کے عہدوں پر فائز رہے۔
اپنے والد کی طرح بیرسٹر کنورسین کو بھی حضور سے انتہا درجہ کی عقیدت تھی۔ریٹائرمنٹ کے بعد آپ ڈیرہ دون میں رہائش پذیر ہو گئے تھے۔
بیرسٹر کنورسین کے ایک صاحبزادے مسٹر گوپال چندر سین جب جودھ پور میں ملازم تھے تو وہاں ایک احمدی علی محمد صاحب نے سیرت المہدی کی جلدیں ان کو دیں کہ ان میں ان کے خاندان کا ذکر ہے۔ غالباً ان کے لڑکے گوپال سین یہ کتب اپنے ساتھ ڈیرہ دون لے گئے تھے اور انہوں نے اپنے والد کو متعلقہ حصے پڑھ کر سنائے تھے۔ جس پر رائے کنورسین نے ڈیرہ دون سے علی محمد صاحب کو کتابوں کے بھیجنے پر شکریہ کا خط لکھا اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں لکھا ہے کہ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت مرزا صاحب ان کے گھر آیا کرتے تھے کیونکہ ان کے والد ان کے گہرے دوست تھے۔ اور ساتھ کچھ ایسی باتیں بھی لکھی ہیں جن کا ذکر ہمارے لٹریچر میں نہیں ہے۔
علی محمد صاحب نے ۱۹۴۵ء کی ابتداء میں بیرسٹر کنور سین صاحب کا انگریزی میں ٹائپ شدہ جواب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب کو بھجوا دیا تھا جسے آپ نے سلسلہ کی تاریخ سے متعلق دستاویزات میں محفوظ کر دیا تھا۔
اگلے صفحات میںان دونوں خطوط کا عکس دیا جا رہا ہے۔ سیدعبدالحی
عکس خط مکرم علی محمدصاحب بنام حضرت مرزا بشیراحمد صاحب رضی اللہ عنہ
عکس خط جناب رائے کنورسین صاحب بنام مکرم علی محمدصاحب


رائے کنورسین کے خط کا اُردو ترجمہ

رائے کنورسین۔ ایم اے بار ایٹ لائ کنور کنج
ریٹائرڈ وزیر انصاف و چیف جسٹس کشمیر ، جودھ پور ، الور، پنا وغیرہ لکشمی ایونیو۔ ڈیرہ دون
۲۷؍ دسمبر ۱۹۴۴ ؁ء
مکرم خان صاحب
میرے بیٹے گوپال چندر سین کو کتاب سیرت المہدی جو آپ نے ازراہ مہربانی مطالعہ کے لئے دی ہے، اس کے چند صفحات انہوں نے مجھے سنائے ہیں۔ مجھے اس بات سے بہت دلچسپی محسوس ہوئی کہ اس کتاب میں میرے معزز والد جو حضرت مرزا صاحب مرحوم کے دوست اور ساتھی تھے کا اتنی بار ذکر کیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ جب میں ابھی لڑکا ہی تھا مجھے حضرت مرزا صاحب کو اپنے گھر پر دیکھنے کی عزت اور سعادت نصیب ہوئی تھی۔میرے والد صاحب آپ کے ساتھ خط و کتابت کرتے رہتے تھے اور مجھے یاد ہے کہ میں نے آپ کے بعض خطوط بھی دیکھے تھے۔
میرے والد صاحب ان واقعات کا تذکرہ کرتے رہتے تھے جن کا ذکر اس کتاب میں کیا گیا ہے۔ ایک بات کو جو میرے والد کی وکالت (مختار کاری) کے امتحان میں کامیابی سے تعلق رکھتی ہے میں یہاں دوبارہ بیان کرنا چاہوں گا۔ مرزا صاحب نے میرے والد کو لکھا تھا کہ وہ اس واقعہ کی تصدیق کریں۔ مرزا صاحب اسے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں شائع کرنا چاہتے تھے ۔ میرے والد مجھے بتاتے تھے کہ انہوں نے اس واقعہ کی تصدیق کر دی تھی ۔ لیکن میرے والد نے ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا کہ ان کی رائے میں مرزا صاحب سے زیادہ ان کے یعنی مرزا صاحب کے معززوالد صاحب صحیح پیش خبریاں کرنے والے تھے کیونکہ مرزا صاحب کے والد صاحب نے مرزا صاحب کی پیدائش پر اور ابھی جب آپ بچہ ہی تھے یہ پیشگوئی کی تھی کہ نومولود (یعنی مرزا صاحب) ایک ولی ہوں گے۔ انہوں نے کہا تھا ’’ ہمارے گھر میں ولی پیدا ہوا ہے‘‘ میرے والد صاحب کے نزدیک یہ ایک بہت مثبت اور تحدّی سے کی جانے والی بات تھی جو کہ ایک پیشگوئی کے طور پر لی جانی چاہئے جبکہ مرزا صاحب کی میرے والد کی امتحان میں کامیابی کے بارہ میں پیشگوئی کی حیثیت دراصل استدلال کی ہے۔ کیونکہ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی اس پیشگوئی کی بنیاد کیا ہے تو مرزا صاحب نے بیان کیا کہ انہوں نے رؤیا میں دیکھا ہے کہ میرے والد صاحب کے جوابی پرچوں کا رنگ زرد سے سرخ ہو گیا جس سے مراد مرزا صاحب نے کامیابی لی۔
آخر میں مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کے لئے جنہوں نے مرزا صاحب کے میرے والد صاحب سے تعلقات کی بنیاد پر میرے بیٹے گوپال کے ساتھ مہربانی کا سلوک کیا محبت اور احترام کے جذبات کا اظہار کروں۔
میں ہوں آپ کا مخلص
دستخط کنورسین
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
جلسہ اعظم مذاہب
لیکچر اسلامی اصول کی فلاسفی
۱۸۹۶ء
از قلم حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ
















نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلی عبدہ المسیح الموعود
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
جلسہ اعظم مذاہب لاہور
’’ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا‘‘
’’ اللّٰہ اکبر خربت خیبر‘‘
۱۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جوش تبلیغ اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے لگن اور دھن کی کیفیت کا بیان انسانی طاقت سے باہر ہے۔ اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ۔ حضورکا منصب وکام ہی خداوند عالَم نے اسلام کو تمام دوسرے مذاہب پر غالب کر دکھانا مقرر فرمایا ہے اور جن خواص کو یہ خدمات تفویض ہوا کرتی ہیں ان کے بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ کا حکم الٰہی ہمیشہ قائم ہوتا ہے۔
حضور پُر نور نے حق تبلیغ کی ادائیگی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور نہ ہی کوئی فروگذاشت کی۔کیا دن، کیا رات حضور کو یہی فکر رہتی اور حضور کوئی موقعہ تبلیغ کا ہاتھ سے جانے نہ دیا کرتے۔ اٹھتے بیٹھتے چلتے اور پھرتے خلوت میں اور جلوت میں الغرض ہر حال میں اسی فکر اور اسی دھن میں رہتے چنانچہ حضور پُرنور کی سوانح کا ہر ورق اور حیات طیبہ کا ہر لمحہ بزبان حال اس بیان کا گواہ اور شاہد عادل ہے۔ لمبے مطالعہ اور حضور کی تصانیف کی گہرائیوں کو الگ رکھ کر اگر حضور کے صرف ایک دو ورقہ اشتہار پر ہی بہ نیت انصاف۔ تعصب سے الگ ہو کر نظر ڈالی جائے جو حضور نے ۹ ؍دسمبر ۱۸۹۰ء کو شائع فرمایا تو یقینا میرے اس بیان کی تصدیق کرنا پڑے گی اور حضور کی اس سچی تڑپ اور خلوص نیت ہی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ بھی ہر رنگ میں آپ کی غیرمعمولی تائید و نصرت فرماتا اور غیب سے سامان مہیا فرما دیا کرتا اور حضور خدا کے اس فضل و احسان کا اکثر تحدیث نعمت کے طور پر یوں ذکر فرمایا کرتے کہ
’’ خدا کا کتنا فضل و احسان ہے کہ ادھر ہمارے دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے یا کوئی ضرورت پیش آتی ہے اور ادھر اللہ تعالیٰ اس کے پورا کرنے کے سامان مہیا کر دیتا ہے۔ ‘‘
۲۔ ۱۸۹۲ء کے نصف دوم کا زمانہ تھا کہ اچانک ایک اجنبی انسان ، سادھو منش، بھگوے کپڑوں میں ملبوس شوگن چندر نام وارد قادیان ہوا اور جلد ہی ہماری مجالس کا ایک بے تکلف رکن نظر آنے لگا۔ ایک آدھ دن سیدنا حضرت حکیم الامۃ مولانا مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں شریک ہوا تو دوسرے ہی روز وہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دربار شام اور اور صبح کی سیر میں شامل ہو کر حضور کی خاص توجہات کا مورد بن گیا۔کیونکہ وہ شخص اپنے آپ کو حق کا متلاشی اور صداقت کا طالب ظاہر کرتا ہوا اپنی روحانی پیاس بجھانے کے لئے آسمانی پانی کی تلاش میں دور و نزدیک ،قریہ بقریہ بلکہ کوبکو سر گردان پھرتا ہوا قادیان کی مقدس بستی میں اپنے مدعا و مقصود کے حصول کی امید لے کر آیا اور کچھ لے کر ہی لوٹنے کی نیت سے پہنچا تھا اور اس کی نیک نیتی ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ باوجود بالکل غیر ہونے کے بہت جلد اپنا لیا گیا۔ وہ نہ صرف سادھو تھا جو بھگوے کپڑوں میں اپنا فقر و حاجات چھپائے تھا اور نہ ہی کوئی ایسا سوالی جس کو دام و درہم کی ضرورت اور روپیہ پیسہ کا لالچ قادیان میں تقسیم ہوتے خزائن کی خبریں یہاں کھینچ لائی ہوں بلکہ واقعہ میں متلاشی حق اور طالب صداقت تھا ورنہ خدا کا برگزیدہ مسیح الزمان جس کی فراست کامل جو ہر شناس تھی اور جو خدا کے عطاء فرمودہ نور سے دیکھا کرتا تھا یوں اس کی طرف ملتفت نہ ہو جاتا۔
۳۔ شوگن چندر ایک تعلیم یافتہ اور معقول انسان تھا جو گورنمنٹ میں کسی اچھے عہدے پر فائز تھا۔ بعض حوادث نے دنیا کی بے ثباتی کا ایک نہ مٹنے والا خیال اس کے دل و دماغ پر مستولی کردیا۔ اس کی بیوی اور بچے بلکہ خویش واقارب تک اس سے جدا ہو گئے اور وہ یک و تنہا رہ گیا۔ دل و دماغ میں پیدا شدہ تحریک نے اندر ہی اندر پرورش پائی۔ فانی چیزوں کے اثرات نے اس کے خیالات کی رَو کا رخ کسی غیر فانی اور قائم بالذات ہستی کی تلاش کی طرف پھیر دیا جس سے متاثر ہو کر اس نے ملازمت چھوڑ کر ترک دنیا اور تلاش حق کا عزم کر لیا اور سادھو بن کر جابجا گھومنے اور ڈھونڈنے میں مصروف ہو گیا۔ نہ معلوم کتنا عرصہ پھرا اور کہاں کہاں گیا۔ اس نے کیا کچھ دیکھا اور سنا جس کے بعد کسی نے اس کو ہمارے آقا و مولا، ہادی و راہ نمائے زمان کا پتہ دیا اور قادیان کی نشان دہی کی جس پر وہ صدق دلانہ اخلاص و عقیدت سے پہنچ کر حصول مقصد و مدعا کی کوشش میں مصروف ہو گیا۔ حضور کی صحبت میں رہ کر فیض پانے لگا اور ہوتے ہوتے ایسا گرویدہ ہوا کہ اس کی ساری خوشی، تسلی و اطمینان حضور کی صحبت اور کلمات طیبات سے وابستہ ہو گئے جس کی وجہ سے وہ یہیں ٹِک جانے پر آمادہ ہو گیا مگر اللہ تعالیٰ کو اس کے ذریعہ اپنا ایک نشان ظاہر کرنا منظور اور کرشمہ قدرت دکھانا مطلوب تھا جس کے لئے اسی ذات بابرکات نے اتنے تغیرات کئے اور ذرات عالم پر خاص تصرفات فرمائے اور ایک شخص کو قادیان پہنچایا جو کبھی لالہ پھر مسٹر اورباوا اور آخری سوامی شوگن چندر کے نام سے موسوم ہوا۔
۴۔ مہمان نوازی کا خلق شیوۂ انبیاء ہے اور حضور پُر نُور کو اس خلق میں کمال حاصل تھا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ حسن سلوک اور احسان و مروت میں حضور اپنی مثال صرف آپ ہی تھے۔ تالیف قلوب کے وصف عظیم کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی خلق کا جذبہ حضور میں بے نظیر و عدیم المثال تھا اور ان تمام خصائل حسنہ اور فضائل کے علاوہ حق و صداقت اور علم و حکمت کے خزائن حضور کے ساتھ تھے جو حضور کے تعلق باللہ اور مقبول بارگاہ ہونے کی دلیل تھے اور ان حقائق کے ساتھ ہی ساتھ خدا سے ہمکلامی کا شرف اور قبولیت دعا کے نمونے ایسی نعماء تھیں جن سے کوئی بھی نیک فطرت اور پاک طینت متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا اور درحقیقت یہی وہ چیزیں ہیں جن کو ناواقف دنیا نے جادو اور سحر کا نام دے کر حضور پرنور سے دنیا جہاں کو دور رکھنے کی ناکام سعی کی ہے۔ سوامی شوگن چندر بھی ان کرامات کا شکار ہوئے اور جس چیز کی ان کو تلاش تھی اور دنیا میں وہ چیز ان کو کہیں بھی نہ ملی تھی آخر خدا کی خاص حکمت کے ماتحت ان کو قادیان میں وہ کچھ مل گیا جس کی انہیں جستجو تھی۔ اور وہ کچھ انہوں نے یہاں دیکھا جو دنیا جہاں میں انہوں نے دیکھا نہ سنا تھا۔ وہ خوش تھے اپنی خوش بختی پر کہ ان کو جس چیز کی خواہش اور تلاش تھی آخر خدا تعالیٰ نے عطا کر دی مگر ہمارے آقائے نامدار اس سے بھی کہیں زیادہ خوش تھے خدا کے اس فضل پر کہ اس نے حضور کی ایک دلی خواہش کے پورا کرنے کے لئے شوگن چندر صاحب کا وجود پیدا فرما دیا ہے۔
۵۔ حضور کی دیرینہ خواہش تھی کہ مذاہب عالم کی ایک کانفرنس ہو جس میں حضور کو قرآن کریم کے فضائل و کمالات اور معجزات ومحاسن اسلام بیان کرنے کا موقعہ ملے۔ ہر ایک مذہب کا نمائندہ اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے تا اس میدان مقابلہ میں اعلائے کلمۃ اللہ ہو۔ اسلام کی برتری اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا اظہار ہو۔ سو حضور کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے اللہ کریم نے سوامی صاحب کو قادیان پہنچایا جنہوں نے حضور کی اس تجویز کو حق و باطل میں امتیاز کا حقیقی ذریعہ اور سچی کسوٹی یقین کر کے اس کے انعقاد کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اور پھر ہمہ تن سعی بن کر اس کام میں لگ گئے۔ ہندو اور پھر گیروے لباس کی وجہ سے بھی اور علم و تجربہ کے باعث بھی ان کو ہندوئوں کے ہر خیال اور طبقہ میں رسوخ میسر آتا گیا اور ان کی تجویز پر غور کیا جانے لگا اور اس کام کے لئے ایک حرکت پیدا ہو گئی۔ مرکزی ہدایات۔ صلاح اور مشورے ان کے لئے پیش آمدہ مشکلات کا حل بنتے اور اس بیل کے منڈھے چڑھ جانے کی خاطر ان کی ہر رنگ میں مدد اور حوصلہ افزائی کی جاتی رہی۔ کبھی وہ خود بطریق احتیاط قادیان آتے تو کبھی خاص پیامبروں کے ذریعہ ان کی ضروریات کاانتظام کیا جاتا رہا۔ اور اس طرح ہوتے ہوتے مطلوبہ کانفرنس کے قیام کی جھلک نظر آنے لگ گئی۔ حضور پُرنور کی راہ نمائی میں ایک ڈھانچہ تیار کیا گیا اور کام کرنے والے آدمیوں اور اخراجات کے کثیر حصہ کا انتظام سیدنا حضرت اقدس کی طرف سے دیکھ کر اس ڈھانچہ میں زندگی کے آثار بھی نمودار ہو گئے۔اور اس طرح سوامی شوگن چندر صاحب نے گویا حضور کی اس دینی خواہش کے پورا کرنے میں ایک غیبی فرشتہ کا کام کیا۔
۶۔ آخر خدا خدا کر کے بڑی مشکل گھاٹیوں کو عبور کرنے اور بے آب و گیاہ جنگلوں کو طے کرنے کے بعد اس جلسہ یعنی ’’جلسہ اعظم مذاہب‘‘کے انعقاد کی تاریخوں کا بھی اعلان ہو گیا جو ۲۶ لغایت ۲۸ دسمبر ۱۸۹۶ء مقرر ہوئیں۔ اور ٹائون ہال لاہور میں اس کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔ ایک کمیٹی معززین و رئوساء کی جس میں علم دوست اصحاب شامل تھے، ترتیب پا چکی تو اس اطلاع پر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اتنی خوشی ہوئی جیسے دنیا جہان کی بادشاہت کسی کو مل جائے۔
تب حضور نے اس جلسہ کے واسطے مضمون لکھنے کا ارادہ فرمایا مگر مصلحت الٰہی سے حضور کی طبیعت ناساز ہو گئی اور یہ سلسلہ کچھ لمبا بھی ہو گیا مگر چونکہ جلسہ کی تاریخیں قریب تھیں اور اندیشہ تھا کہ مضمون رہ ہی نہ جائے حضور نے بحالت بیماری و تکلیف ہی مضمون لکھنا شروع فرما دیا۔ اور چونکہ حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم و مغفور رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان ایام میں کسی ضرورت کے ماتحت سیالکوٹ جا کر بیمار ہو گئے اور ان کی بیماری کی اطلاعات سے اندیشہ تھا کہ وہ جلسہ پرنہ پہنچ سکیں گے اس پر لمبی سوچ بچار اور مشورہ کے بعد فیصلہ ہوا کہ حضور کا مضمون خواجہ کمال الدین صاحب پڑھیں چنانچہ اس فیصلہ کے ماتحت یہ تجویز کی گئی کہ
(الف) حضور کا مضمون جسے محترم حضرت منشی جلال الدین صاحب متوطن بلانی ضلع گجرات نقل کرتے تھے کہ حضرت پیر جی سراج الحق صاحب نعمانی کے سپرد یہ کام کیا گیا کتابت کے طریق پر لکھا جائے تا کہ خواجہ صاحب کو پڑھنے میں دقت نہ ہو مگر حضور پرنور کے پھر بیمار ہو جانے کی وجہ سے جب مضمون کی تیاری میں وقفہ پڑ گیاتو ہر دو اصحاب نے مل کر اس کو مکمل کیا۔
(ب) اس مضمون میں جس قدر آیات قرآنی۔ احادیث یا عربی عبارات آئیں وہ علیحدہ خوش خط لکھا کر خواجہ صاحب کو اچھی طرح سے رٹا دی جائیں تا کہ جلسہ میں پڑھتے وقت کسی قسم کی غلطی یا رکاوٹ مضمون کو بے لطف و بے اثر ہی نہ بنا دے۔
۷۔ حضور پُرنُور کا یہ مضمون خوشخط لکھا ہوا صبح کی سیر میں لفظاً لفظاً سنایا جایا کرتا تھا اور حضور کی عام عادت بھی یہی تھی کہ جو بھی کتاب تصنیف فرمایا کرتے یا اشتہار و رسائل لکھا کرتے ان کے مضامین کو مجلس میں بار بار دہرایا کرتے تھے۔اتنا کہ باقاعدہ حاضر رہنے والے خدام کو وہ مضامین ازبر ہو جایا کرتے تھے۔ ان ایام کی سیر صبح عموماً قادیان کے شمال کی جانب موضع بٹر کی طرف ہوا کرتی تھی اور اسی مضمون کے سننے کی غرض سے قادیان میں موجود احباب اور مہمان قریباً تمام ہی شوق اور خوشی سے شریک سیر ہوا کرتے جن کی تعداد تخمیناً پندرہ بیس یا پچیس تک ہوا کرتی تھی۔ مضمون کے بعض حصوں کی تشریح بھی حضور چلتے چلتے فرماتے جایا کرتے تھے۔ یہ تحریر و تقریر نئے نئے نکات ۔ عجیب در عجیب معارف اور ایمان افروز حقائق و دلائل کی حامل ہوا کرتی تھی۔ ان دنوں کی سیر صبح میں جس کے لئے حضور باوجود بیماری اور ضعف کے نکلا کرتے تھے بعد میں معلوم ہوا کہ مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی کے بعض جاسوس بھی حضور کے اس مضمون کو سن کر ان کو رپورٹ پہنچایا کرتے تھے چنانچہ حضور کے مضمون کی اکثر آیات جن کو حضور نے موقعہ و محل پر موتیوں کی لڑی کی طرح سجا کر ان سے استنباط فرمائے ہیں مولوی صاحب نے اپنے مضمون میں یکجا جمع کر دی ہیں جن کا وہاں ربط ہے نہ موقعہ و محل اور جوڑ ۔
۸۔ جناب خواجہ کمال الدین صاحب مضمون کو پڑھا کرتے۔ پڑھنے کے طریقوں کی مشق کیا کرتے تھے اور ان کی کوشش ہوا کرتی تھی کہ پڑھنے کے طریق و بیان میں کوئی جدّت پیدا کریں جس سے سامعین زیادہ سے زیادہ متاثر ہو سکیں۔ آیات قرآنی۔ احادیث یا عربی الفاظ و فقرات کو ازبر کرنے کی کوشش کیا کرتے۔ قدرت نے خواجہ صاحب کو جہاں اردو خوانی میں خاص ملکہ دیا تھا وہاں آیات قرآنی کی تلاوت میں باوجود کوشش کے بہت کچھ خامی پائی جاتی تھی جسے خواجہ صاحب محنت اور شوق کے باوجود پورا کرنے سے قاصر تھے۔ مزید برآں انہی ایام میں بعض ان کے ہمراز دوستوں کی زبانی معلوم ہوا کہ دراصل خواجہ صاحب کو مضمون کی بلند پائیگی، کمال و نفاست اور عمدگی کے متعلق بھی شکوک تھے جس کا اثر ان کے طرز ادا و بیان پر پڑنا لازمی تھا اور عجب نہیں کہ یہ بات سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تک بھی جا پہنچی ہو۔
۹۔ جلسہ سے چند ہی روز قبل اللہ تعالیٰ نے حضور کو الہاماً اس مضمون کے متعلق بشارت دی کہ ’’ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا‘‘۔ اور اس کی مقبولیت دلوں میں گھر کر جائے گی اور کہ یہ امر بطور ایک ’’نشان صداقت‘‘ ہو گا۔ چنانچہ حضور پرنور نے ۲۱ ؍دسمبر ۱۸۹۶ء کو ایک اشتہار بعنوان
’’سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری‘‘
لکھ کر کاتب کے حوالے کیا اور مجھ ناچیز غلام کو یاد فرما کر یہ اعزاز بخشا اور فرمایا کہ
’’ میاں عبدالرحمن! اس اشتہار کو چھپوا کر خود لاہور لے جائو اور خواجہ صاحب کو (جو کہ ایک ہی روز پہلے انتظامات جلسہ کے لئے لاہور بھیجے گئے تھے) کو پہنچا کر ہماری طرف سے تاکید کر دینا کہ’’ اس کی خوب اشاعت کریں ۔ ضرورت ہو تو وہیں اور چھپوا لیں۔ ہماری طرف سے ان کو اچھی طرح تاکید کرنا کیونکہ وہ بعض اوقات ڈر جایا کرتے ہیں، بار بار اور زور سے یہ پیغام پہنچا دینا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ لوگوں کی مخالفت کا خیال اس کام میں ہرگز روک نہ بنے۔ یہ انسانی کام نہیں کہ کسی کے روکے رک جائے بلکہ خدا کا کام ے جو بہر حال پورا ہو کر رہے گا۔ ‘‘
۱۰۔ اشتہار قریبًاآدھی رات کو تیار ہوا اور میں اسی وقت لے کرپیدل بٹالہ کو روانہ ہو گیا۔ ۲۲؍ دسمبر ۱۸۹۶ء کی دوپہر کے قریب لاہور پہنچا۔ جناب خواجہ صاحب اس زمانہ میں لاہور کی مشہور مسجد مسجد وزیر خان کے عقب کی ایک تنگ سی گلی میں رہا کرتے تھے جہاں میں انکو تلاش کر کے جا ملا اور اشتہارات کا بنڈل اور حضور کا حکم کھول کھول کر سنا دیا بلکہ باربار دہرا بھی دیا۔ خواجہ صاحب کے ساتھ اس وقت دو اور دوست بھی وہاں موجود تھے جن کے نام مجھے یاد نہیں رہے۔ خواجہ صاحب نے بنڈل اشتہارات کا کھولا اور مضمون اشتہار پڑھا اور میں نے دیکھا کہ چہرہ اُن کا بجائے بشاش اور خوش ہونے کے افسردہ و اداس سا ہو گیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے۔
’’ میاں! حضرت کو کیا علم کہ ہمیں یہاں کن مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے۔ اور مخالفت کا کتنا زور ہے۔ ان حالات میں اگر یہ اشتہار شائع کیا گیا تو یہ ایک تودۂ بارود میں چنگاری کا کام دے گا اور عجب نہیں کہ نفس جلسہ کا انعقاد ہی ناممکن ہو جائے۔ موقعہ پر موجودگی اور حالات کی پیچیدگی سے آخر ہم پر بھی کوئی ذمہ واری آتی ہے۔ اچھا جو خدا کرائے ،انشاء اللہ کریں گے۔ ‘‘
آخر سوچ بچار۔ صلاح مشوروں اور اونچ نیچ ۔ اتار چڑھائو کی دیکھ بھال کے بعد دوسری یا تیسری رات کے اندھیروں میں بعض غیر معروف مقامات پر چند اشتہارات چسپاں کرائے جن کا عدم و وجود یکساں تھا کیونکہ غیر معروف مقامات کے علاوہ وہ اشتہار اتنے اونچے لگائے گئے تھے کہ اوّل تو کوئی دیکھے ہی نہیں اور اگر دیکھ پائے تو پڑھ ہی نہ سکے۔
۱۱۔ میں نے دیکھا اور سنابھی کہ سیدنا حضرت اقدس کے اصل مضمون کا حصہ خواجہ صاحب قادیان سے اپنے ساتھ لاہور لائے تھے اس کا مطالعہ اور آیات قرآنی کی تلاوت کی مشق کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ خواجہ صاحب کے لاہور چلے آنے کے بعد جو جو حصہ مضمون تیار ہوتا جاتا اس کی نقل ان کو لاہور پہنچائی جاتی رہتی اور یہ سلسلہ ۲۵؍ دسمبر ۱۸۹۶ء کی شام تک جاری رہاتھا یا شاید ۲۶؍ دسمبر کی رات تک بھی۔
۱۲۔ جلسہ خدا کے فضل سے ہوا۔ بہتر جگہ اور بہتر انتظام کے ماتحت ہوا اور واقعی سخت مخالفتوں کے طوفان اور مشکلات کی کٹھن اور خطرناک گھاٹیوں کو عبور کرنے کے بعد ہوا۔ بڑی بڑی روکیں کھڑی کی گئیں۔ طرح طرح کے حیلے اور باریک در باریک چالیں چلی گئیں مگر بالآخر ہندو و یہود اور ان کے معاون و مددگاروں کا خیبری قلعہ ٹوٹا اور بعینہٖ وہی ہوا جس کا نقشہ الہام الٰہی
’’اللّٰہ اکبر خربت خیبر ‘‘
میں بیان ہوا تھا۔ دشمنوں نے ٹاؤن ہال نہ لینے دیا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی بہتر سامان کر دیا اور اسلامیہ ہائی سکول اندرون شیرانوالہ دروازہ کی وسیع اور دو منزلہ عمارت ،لمبے چوڑے صحن، بڑے بڑے کمروں ،ہال کمرہ اور گیلریوں کو ملا کر ایک بڑی عظم الشان عمارت جو ا یک بڑے اجتماع کے لئے کافی اور موزوں تھی خدا نے دلا دی۔ ۲۶؍ دسمبر کا روز جلسہ کا پہلا دن تھا۔ حاضری حوصلہ افزا نہ تھی۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح پاک علیہ اَلَفْ اَلَفْ صلوٰۃٍ وَالسَّلام کے مضمون کے لئے ۲۷؍ دسمبر کا دن اور ڈیڑھ بجے دوپہر کا وقت مقرر تھا۔ خدا کی قدرت کا کرشمہ اور اس کے خاص فضل کا نتیجہ تھا کہ حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب وفور عشق و محبت سے بیتاب ہو کر والہانہ رنگ میں وقت سے پہلے لاہور پہنچ گئے جن کی تشریف آوری سے ہم لوگوں کے لئے خاص تسکین اور خوشی کے سامان اللہ تعالیٰ نے بہم پہنچا دئیے۔
۱۳۔ حالات کی ناموافقت۔ جوش مخالفت اور قسما قسم کی مشکلات نیز وقت کی ناموزونیت کے باعث خطرہ تھا اور فکر دامنگیر کہ جلسہ شاید حسب دل خواہ بارونق نہ ہو سکے گا مگر شان ایزدی کہ خلق خدا یوں کھچی چلی آرہی تھی۔ جیسے فرشتوں کی فوج اسے دھکیلے لا رہی ہو اور ان کی تحریک کا اتنا گہر اثر ہوا کہ مخلوق کے دل بدل گئے اور ان کے قلوب میں بجائے عداوت و نفرت کے عشق و محبت بھر گئی۔ مخالفوں کی مخالفت نے کھاد کا کام دیا اور روکنے و شرارت کرنے والوں کے غوغا نے لوگوں کی توجہ کو جلسہ کی طرف پھیر دیا جس سے لوگ کشاں کشاں تیز قدم ہو ہو کر جلسہ گاہ کی طرف بڑھے اور ہوتے ہوتے آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ صحن اور اس کے تمام بغلی کمرے اور ہال بھر گیا۔ اوپر کی گیلریوں میں تِل دھرنے کو جگہ نہ رہی اور ہجوم اس قدر بڑھا کہ گنجائش نکالنے کو سمٹنا اور سکڑنا پڑا۔ دسمبر کی تعطیلات کی وجہ سے جا بجا جلسے ۔ کانفرنسیں اور میٹنگیں ہو رہی تھیں۔ لوگوں کی مصروفیات ان کے دنیوی کاموں میںانہماک اور مادی فوائد کے حصول کی مساعی کی موجودگی میں ایک خالص مذہبی جلسہ و کانفرنس میں اس کثرت ہجوم کو دیکھنے والا ہرکس وناکس اس منظر سے متاثر ہو کر اس حاضر ی کی کامیابی کو غیر معمولی، خاص اور خدائی تحریک و تصرّف کا نتیجہ کہنے پر مجبور تھا اور ایک ہندو کو اس سے انکار تھا نہ ہی سکھ اور آریہ سماجی کو۔ مسلمان کو اس سے اختلاف تھا نہ عیسائی یہودی یا دیو سماجی کو بلکہ ہر فرقہ و طبقہ کے لوگ آج کے اس خارق عادت جذب اور بے نظیر کشش سے متاثر اور دل ان کے سچ مچ مرعوب ہو کر نرم تھے۔ دیکھنے اور سننے میں فرق ہوتا ہے اس تقریب کی تصویر الفاظ میں ممکن نہیں۔ مختصر یہ کہ وہ اجتماع اپنے ماحول کے باعث یقینا عظیم الشان ،بے نظیر اور لاریب غیر معمولی تھا۔
۱۴۔ مضمون کا شروع ہونا تھا کہ لوگ بے اختیار جھومنے لگے اور ان کی زبانوں پر بے ساختہ سبحان اللہ! اور سبحان اللہ! کے کلمات جاری ہو گئے۔ سنا ہوا تھا کہ علم توجہ اور مسمریزم سے ایک معمول سے تو یہ کچھ ممکن ہو جاتا ہے مگر ہزاروں کے ایک ایسے مجمع پر جس میں مختلف قویٰ۔ عقاید اور خیال کے لوگ جمع تھے اس کیفیت کا مسلط ہو جانا یقینا خارق عادت اور معجزانہ تاثیر کا نتیجہ تھا۔ یہ درست ہے کہ حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کو قرآن کریم سے ایک عشق تھا اور اللہ تعالیٰ نے آواز میں بھی ان کی لحن دائودی کی جھلک پیدا کر رکھی تھی نیز وہ ان آیات و مضامین کے ربط اور حقائق سے متاثر ہو کر جس رقت ،سوز اور جوش سے تلاوت فرماتے آپ کا وہ پڑھنا آپ کی قلبی کیفیات اور لذت و سرور کے ساتھ مل کر سامعین کو متاثر کئے بغیر نہ رہتا تھا مگراس مجلس کی کیفیت بالکل ہی نرالی تھی اور کچھ ایسا سماں بندھا کہ اول تا آخر آیات قرآنی کیا اور ان کی تشریح و تفسیر کیا، سارا ہی مضمون کچھ ایسا فصیح،بلیغ، مؤثر اور دلچسپ تھا کہ نہ مولانا موصوف کے لہجہ میں فرق آیا اور نہ جوش لذت ہی پھیکے پڑے۔ معارف کی فرا وانی کے ساتھ عبارت کی سلاست وروانی اور مضمون کی خوبی و ثقاہت نے حاضرین کو کچھ ایسا از خود رفتہ بنا دیا جیسے کوئی مسحور ہوں۔ میں نے کانوں سنا کہ ہندو اور سکھ بلکہ کٹڑ آریہ سماجی اور عیسائی تک بے ساختہ سبحان اللہ! سبحان اللہ ! پکار رہے تھے۔
ہزاروں انسانوں کا یہ مجمع اس طرح بے حس و حرکت بیٹھا تھا جیسے کوئی بت بے جان ہوں۔ اور ان کے سروں پر اگر پرندے بھی آن بیٹھتے تو تعجب کی بات نہ تھی۔ مضمون کی روحانی کیفیت دلوںپر حاوی اور اس کے پڑھے جانے کی گونج کے سوا سانس تک لینے کی آواز نہ آتی تھی حتیّٰ کہ قدرت خداوندی سے اس وقت جانور تک خاموش تھے اور مضمون کے مقناطیسی اثر میں کوئی خارجی آواز رخنہ انداز نہیں ہو رہی تھی۔ کم و بیش متواتر دو گھنٹے یہی کیفیت رہی۔
افسوس کہ میں اس کیفیت کے اظہار کے قابل نہیں۔ کاش میں اس لائق ہوتا کہ جو کچھ میں نے وہاں دیکھا اور سنا اس کے عکس کا عشر عشیر ہی بیان کر سکتا جس سے اس علمی معجزہ و نشان کی عظمت دنیا پر واضح ہو کر خلق خدا کے کان حق کے سننے کو اور دل اس کے قبول کرنے کو آمادہ وتیار ہوتے جس سے دنیا جہان کے گناہ، معاصی اور غفلتیں دور ہو کر ہزاروں انسان قبول حق کی توفیق پا جاتے۔
۱۵۔ ساڑھے تین بج گئے۔ وقت ختم ہو گیا جس کی وجہ سے چند منٹ کے لئے اس پُر لذت و سرور کیفیت میں وقفہ ہوا۔ اگلا نصف گھنٹہ مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی کے مضمون کے لئے تھا۔ انہوں نے جلدی سے کھڑے ہو کر پبلک کے اس تقاضاء کو کہ ’’ یہی مضمون جاری رکھا جائے نیز کسی اور کی بجائے اسی مضمون کو وقت دیا جائے اسی مضمون کو مکمل و پورا کیا جائے ‘‘اپنا وقت دے کر پورا کر دیا بلکہ اعلان کیا کہ میں اپنا وقت اور اپنی خواہش اس قیمتی مضمون پر قربان کرتا ہوں۔ چنانچہ پھر وہی پیاری ۔ مرغوب اور دلکش و دلنشیں داستان شروع ہوئی اور پھر وہی سماں بندھ گیا۔ چار بج گئے مگر مضمون ابھی باقی تھا اور پیاس لوگوں کی بجائے کم ہونے کے بڑھی جا رہی تھی۔ سامعین کے اصرار اور خود منتظمین کی دلچسپی کی وجہ سے مضمون پڑھا جاتا رہا حتیّٰ کہ ساڑھے پانچ بج گئے۔ رات کے اندھیرے نے اپنی سیاہ چادر پھیلانی شروع کر دی۔ مجبوراً یہ نہایت ہی میٹھی اور پُر معرفت اور مسرت بخش مجلس اختتام کو پہنچی اور بقیہ مضمون ۲۹ دسمبر کے لئے ملتوی کیا گیا۔
کوئی دل نہ تھا جو اس لذت و سرور کو محسوس نہ کرتا ہو۔ کوئی زبان نہ تھی جو اس کی خوبی و برتری کا اقرارواعتراف نہ کرتی اور اس کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان نہ تھی۔ ہر کوئی اپنے حال اور قال سے اقرار و اعتراف کر رہا تھا کہ واقعی یہ مضمون سب پر غالب رہا اور اپنی بلندی ۔ لطافت اور خوبی کے باعث اس جلسہ کی زینت ۔ روح رواں اور کامیابی کا ضامن ہے۔ نہ صرف یہی بلکہ ہم نے اپنے کانوں سنا اور آنکھوں دیکھا کہ کئی ہندو اور سکھ صاحبان مسلمانوں کو گلے لگا لگا کر کہہ رہے تھے کہ
’’ اگر یہی قرآن کی تعلیم اور یہی اسلام ہے جو آج مرزا صاحب نے بیان فرمایا ہے تو ہم لوگ آج نہیں تو کل اس کو قبول کرنے پر مجبور ہوں گے اور اگر مرزا صاحب کے اسی قسم کے ایک دو مضمون اور سنائے گئے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام ہی ہمارا بھی مذہب ہو گا۔ ‘‘
۱۶۔ آج کا جلسہ ۲۷؍ دسمبر برخاست ہو گیا۔ لوگ گھروں کو جا رہے تھے جلسہ گاہ کے دروازہ پر میں نے دیکھاکہ اس کے دونو طرف دو آدمی کھڑے سیدنا حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وہی اشتہار تقسیم کر رہے تھے جو حضور پُر نور نے میرے ہاتھ خاص تاکیدی احکام کے ساتھ بھجوایا تھا تا کہ معروف مقامات پر چسپاں کیا جائے اور جلسہ سے پہلے ہی پہلے کثرت سے شائع کیا جاوے بلکہ یہ بھی تاکید تھی کہ یہ تھوڑا ہے ضرورت کے مطابق لاہور ہی میں اور طبع کرا لیا جائے تا کہ قبل از وقت اشاعت سے اس خدائی نشان کی عظمت کا اظہار ہو جس سے سعید روحیں قبول حق کے لئے تیار ہوں مگر ہوا یہ کہ خواجہ کمال الدین صاحب کے خوف کھانے کی وجہ سے پہلے دنیا جہان نے خدائی نشان کی عظمت کا مشاہدہ کیا اور اس کے غلبہ کا اقرارواعتراف اور بعد میں ان کو وہ اشتہار پہنچایا گیا جو کئی روز قبل چھاپا اور اچھی طرح شائع کرنے کو بھیجا گیا تھا چنانچہ جب سیدنا حضرت اقدس مسیح پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خواجہ صاحب کی اس کمزوری و کوتاہی کا علم ہوا تو حضور پُرنور بہت خفا ہوئے اور کئی دن تک جب جب بھی اس نشان الٰہی کا ذکر ہوا کرتا یا بیرونجات سے اس کامیابی کے متعلق رپورٹیں ملتیں ساتھ ہی خواجہ صاحب کی اس کمزوری پر اظہار افسوس بھی سننے میں آیا کرتا تھا۔
مضمون کی مقبولیت اور پبلک کے اصرار و تقاضا سے متأثر ہو کر مینجنگ کمیٹی کا اجلاس خاص منعقد ہوا اور اس میں یہ قرار داد پاس کی گئی کہ
حضرت مرزا صاحب کے مضمون کی تکمیل کیلئے مجلس اپنے پروگرام میں ایک دن بڑھا کر ۲۹ دسمبر کا چوتھا دن شامل کرتی ہے۔
حضور کے مضمون کی غیر معمولی مقبولیت غیروں کو کب بھاتی تھی۔ مولوی محمد عبداللہ صاحب نے ایزادی ٔ وقت کی اس خصوصیت اور اہمیت کو کم کرنے کے لئے کوشش کر کے اپنے لئے بھی وقت بڑھائے جانے کی خواہش کی چنانچہ نصف گھنٹہ ان کے لئے بھی بڑھا دیا گیا مگر دوسرے روز خود تشریف ہی نہ لائے اور اپنا وقت مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے لئے وقف کردیا جس کی وجہ ظاہر ہے عیاں راچہ بیاں۔ مگر خدا کی شان! حاضری اتنی حوصلہ شکن تھی کہ جلسہ گاہ کے بھر جانے کی انتظار ہی انتظار میں وقت گزرنے لگا نہ مجلس کل کی طرح پُررونق ہو اور نہ مولوی محمد حسین صاحب کھڑے ہوں ۔آخر بہت انتظار کے باوجود جب وہ خواہش پوری ہوتی نظر نہ آئی تو بادل ناخواستہ مجبوراً کھڑے ہوئے اور جو کچھ لکھا تھا پڑھ دیا او رزیادہ وقت لینے کے باوجود نہ خود خوش ہوئے نہ پبلک نے کوئی داد دی۔
۱۷۔ ۲۹ دسمبر کی صبح ساڑھے نو بجے کارروائی جلسہ شروع ہونے والی تھی ۔دسمبر کا اخیر۔ سردی کی شدت اور وقت اتنا سویرے کا تھا کہ لوگ ضروریات سے فراغت پا سکیں تو درکنار اتنی سویرے تو عام طور سے شہروں کے لوگ جاگنے کے بھی عادی نہیں ہوتے۔ فکر تھی،اندیشہ تھاکہ شاید حاضری بہت ہی کم رہے گی اور اس طرح آج وہ لطف شاید نصیب نہ ہو گا مگر خدا کے کام اپنے اندر ایک غیر معمولی جذب اور مقناطیسی کشش رکھتے ہیں جسے کوئی طاقت روک ہی نہیں سکتی۔ انسان اگر غفلت و سستی دکھائیں تو وہ فرشتوں سے کام لیتا ہے۔ چنانچہ سویرے ہی سویرے ٹھٹھرتے ہوئے اور سردی سے سمٹتے اور سکڑتے ہوئے خلق خدا جھنڈ کے جھنڈ اور جوق در جوق اس کثرت اور تیزی سے آئی کہ ۲۷ کی دوپہر بعد کا نظارہ بھی مات پڑ گیا اور جلسہ نہایت شوکت و عظمت اور خیر و خوبی سے جاری وساری اور پھر نہایت کامیابی و کامرانی سے اختتام پذیر ہوا اور اس طرح حضور پرنور کا مضمون دنیا جہان پر عَلٰی رَغْمِ اُنُوْفِ الْاَعْدَاء اپنے غلبہ،خوبی، کامیابی اور عظمت و حقانیت کا سکہ بٹھا کر علمی دنیا کے لئے ہمیشہ قائم رہنے والا نشان بن کر آسمان دنیا پر سورج اور چاند کی طرح چمکنے لگا۔ اور دوست تو درکنار دشمن بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔ اپنے اور بیگانے، پبلک اور منتظمین غرض ہر شعبہ میں اسی مضمون کا چرچا اور زبانوں پر حق جاری تھا۔ اخبارات نے مقالے لکھے اور اس صداقت کا اقرار و اعتراف کیا۔ منتظمہ کمیٹی نے اپنی طرف سے اس اقرار کو رپورٹ متعلقہ میں درج کر کے اظہار حقیقت کیا۔ سچ ہے
چڑھے چاند چھپے نہیں رہ سکتے
اور اس کا انکار بیوقوفی کی دلیل ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت اپنے مقدس و مقبول بندے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ جو کچھ فرمایا تھا وہ ہو کر رہا۔ خدا کی بات پوری ہوئی اور دنیا کی کوئی طاقت ،کوئی تدبیر ،کوئی مکر اور حیلہ خدائی کلام کے پورا ہونے میں روک نہ بن سکا۔
۱۸۔ رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب شائع ہوئی اور منتظمہ کمیٹی جس کے اراکین ہر مذہب و ملت کے ممبر اور اعلیٰ طبقہ کے ذمہ وار لوگ تھے، کی طرف سے اس کے خرچ و صرف سے شائع ہوئی۔ تمام وہ مضامین جو اس جلسہ میں پڑھے گئے یا اس کے واسطے لکھے گئے اس میں من و عن درج کئے گئے کہ دنیا اس مذہبی دنگل اور میدان مقابلہ میں آنے والے سبھی کویکجا دیکھ کر غور اور فیصلہ اور حق و باطل میں تمیز کر سکے۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ قرآن کریم کی عظمت ، اسلام کی حقانیت ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صداقت اور سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خدا کے مقرب اور مقبول بندے، اسی کے بلائے بولنے والے۔ اس کے سچے نبی و رسول ہونے کے لئے بطور شاہد اور دلیل و برھان یہ امور قائم دائم رہیں۔ حضور پرنور کا یہی وہ مضمون ہے جو اردو میں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے نام سے اور انگریزی میں ’’ ٹیچنگز آف اسلام‘‘ کے سرنامہ و عنوان کے ماتحت بارہا ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو کر دنیا جہان کی روحانی لذت و سرور کے سامان اور ہدایت کے راستے آسان کرتا اور نہ صرف یہی بلکہ دنیا کی اور کئی زبانوں میں بھی چھپ کر شائع ہوتا چلا آرہا ہے۔
۱۹۔ یہ رپورٹ شائع ہوئی اور خدا کی خدائی گواہ ہے کہ ہزارہا انسانوں نے جو کچھ جلسہ میں دیکھااور سنا تھا وہی کچھ رپورٹ میں درج ہوا۔ وہی مضامین جو نمائندگان مذاہب نے لکھے اور سنائے اور پھر انہوں نے منتظمہ کمیٹی کے حوالے کئے۔ ٹھیک ٹھیک اور بالکل وہی اور بعینہٖ طبع ہوئے تھے۔ مگر کیا کہا جائے مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی کو اور ان کی عقل و دانش کو کہ انہوں نے رپورٹ کی اشاعت پر یہ واویلا شروع کر دیا کہ ان کے نام سے جو مضمون اس میں طبع کرایا گیا ہے، وہ درحقیقت ان کا ہے ہی نہیں۔
مولوی صاحب کی غرض و غایت اس الزام تراشی سے ظاہر ہے کہ مقابلہ میں شکست کی ذلت کو چھپانا تھی۔ حالانکہ ان کی یہ حرکت عذر گناہ بدتر از گناہ اور اپنے ہاتھوں اپنی خاک اڑانے کے مترادف تھی اور یہ امر منتظمین سے پوشیدہ نہ تھا۔ چنانچہ منتظمین نے مولوی صاحب کے اس واویلا اور غوغا کو درخود امتناء ہی نہ سمجھا اور اس طرح مولوی صاحب کی پردہ داری کی بجائے اور بھی زیادہ پردہ دری ہوئی جس سے ’’مولانا صاحب‘‘ جل بھن کر راکھ ہو گئے اور اس گہرے زخم سے تلملانے لگے جس کا اندمال ان سے ممکن نہ تھا کیونکہ وہ انسانی ہاتھوں سے نہ تھا کہ بشری تدابیر اس کو اچھا کر سکتیں۔ ورنہ اگر حقیقت یہی تھی جس کا ان کو گلہ تھا تو کیوں نہ اپنا اصل مضمون شائع کر کے منتظمین کے اس دھوکہ کو الم نشرح کر دکھایا۔
بریں عقل و دانش بباید گریست
۲۰۔ سوامی شوگن چندر صاحب جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الشان ’’ نشان صداقت‘‘ کے اظہار کے سامان پیدا کئے، جلسہ کی تمام تر کارروائی کے دوران میں اور پھر رپورٹ کی اشاعت تک تو ملتے ملاتے اور آتے جاتے رہے پھر نہ معلوم وہ کیا ہوئے اور کہاں چلے گئے۔ گویا خدائی قدرت کا ہاتھ انہیں اسی خدمت کی غرض سے قادیان لایا تھا اور پھر پہلے کی طرح غائب کر دیا۔
نوٹ :۔ حضرت منشی جلال الدین صاحب بلانوی اور حضرت پیر جی سراج الحق صاحب نعمانی رضوان اللہ علیہم دونوں بزرگوں کے ہاتھ کا نقل کردہ حضرت اقدس کا وہ مضمون جس پر سے حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے اس جلسہ میں پڑھ کر سنایا تھا آج تک میرے پاس محفوظ ہے مگر چونکہ اس مقدس اور قیمتی امانت کی حفاظت کا حق ادا کرنے سے قاصر ہوں لہٰذا اسے قومی امانت سمجھ کر اس کو سیدنا قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ عالی مقام مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ ربہ کے سپرد کرتا ہوں جو ایسے کاموں کے احق اور اہل ہیں تا کہ قائم ہونے والے قومی میوزیم میں رکھ کر اس کو آنے والی نسلوں کے ایمان و ایقان کی مضبوطی و زیادتی اور عرفان میں ترقی کا ذریعہ بنا سکیں۔
فقط
عبدالرحمن قادیانی
۲۰ جولائی ۱۹۴۶ء
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہٗ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
وعلیٰ عبدہ المسیح الموعود
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
مکرم ومحترم مہتہ شیخ عبد الرحمن صاحب قادیانی سلمکم اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
بہ تعمیل ارشاد وروایات متعلقہ جلسہ مہوتسو رجسٹر نمبر۱۴صفحہ نمبر۱۷۸کتب خانہ صدر انجمن احمدیہ نقل کر کے حاضر خدمت ہیں ۔ اصل کاغذات متعلقہ جلسہ مہوتسو جو بمقام لاہور منعقد ہوا تھا سوامی شوگن چندر کے اشتہار متعلقہ مورخہ۲؍ جنوری ۱۹۴۶ء ریل گاڑی میں گم ہوگئے ۔ محمد الدین ۱۹۴۶؍۶؍۲۳
(۱۵) سوامی شوگن چندرر سالہ فوج میں ہیڈ کلرک تھا اور منشی (مرزا) جلال الدین صاحب کا ہمنشین اور صحبت یافتہ تھا۔ منشی صاحب فرماتے تھے کہ اس کے اہل وعیال واطفال فوت ہوگئے اس لئے نوکری چھوڑ کر فقیر بن گیا۔
(۱۶) جلسہ کا مضمون (اسلامی اصول کی فلاسفی) پڑھے جانے سے پہلے مخفی رکھا گیا تھا۔ حضرت صاحب نے منشی جلال الدین صاحب کو اس کی کاپی لکھنے پر مامور فرمایا۔ اور فرمایا کہ منشی صاحب کا خط مایُقرء ہوتا ہے۔ اس لئے آپ ہی اس کو لکھیں ، چنانچہ منشی صاحب نے وہ مضمون اپنی قلم سے لکھا۔
(۱۷) منشی صاحب فرماتے تھے کہ حضرت صاحب نے فرمایا ہے کہ میں نے اس مضمون کی سطر سطر پر دعا کی ہے ۔
(۱۸) مضمون کے لکھنے جانے اور پڑھے جانے کے وقت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ بیمار تھے۔ اس لئے مضمون پڑھنے کے لئے خواجہ کمال الدین صاحب کو تیار کیا جار ہا تھا لیکن خواجہ صاحب انگریزی خوان تھے ،قرآن شریف عربی لہجہ میں پڑھ نہ سکتے تھے۔ آخر وقت پر مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھ کر جلسہ پر لاہور میں سنایا۔
(۱۹) میں محمد دین جلسہ پر حاضر نہیں ہوسکا تھا۔ میرے حلقہ پٹوار میں جوتین چار حصہ میں تقسیم تھی چھ سات امسلہ تقسیم زیر کار تھیں جن کی وجہ سے مجھے رخصت نہ مل سکی ۔ اس لئے منشی جلال الدین صاحب حاضر ہوئے تھے۔ انہوںنے سنایا کہ اللہ تعالیٰ کی تائید معجزانہ رنگ میں ہوئی۔ سردی کے موسم کے باوجو دکسی شخص کوکھانسی یا چھینک نہ آئی۔ ہمہ گوش ہو کر لوگوں نے سنا۔ آخر سکھوں نے مسلمانوں کو جپھا مار کر اُٹھایا اور مبارکبادیں دیں۔ اور کہا کہ جے کدی مرز ا ایہو جیا اک مضمون ہور دَؤ ۔ تاں مسلمان ہی ہونا پئو(یعنی اگر مرزا ایسا ہی مضمون اور دیوے گا تو ہم کو مسلمان ہی ہونا پڑے گا) نیز منشی صاحب نے فرمایا کہ جانوروں یعنی پرندوں پر بھی الٰہی تصرف تھا کہ چڑیا تک کی بھی کوئی آواز سنائی نہ دیتی۔
(۲۰) حضرت صاحب نے اس مضمون کے متعلق ماہ اگست ۱۸۹۶ء یعنی جلسہ سے چار ماہ قبل اشتہار دیا۔’’ خربت خیبر۔ بالا رہے ۔ سب پر غالب آئے گا۔‘‘ الہامات شائع کئے۔ لاہور میں خواجہ کمال الدین صاحب نے تشہیر بعد میں کی جس پر حضرت صاحب ناراض ہوئے ۔
(۲۱) اشتہار مذکور منشی جلال الدین صاحب نے اپنے ایک دوست اور ہم عصر سردار بہادر مردان علی خاں رسالدار میجر پنشنر رسالہ نمبر۱۲ساکن بیسہ کو دیا اور تبلیغ بھی کی۔ جب پیشگوئیوں کے وقوع اور مضمون کی کامیابی سردار مردان علی خاں نے پڑھی تو کہا ’’ھن مرزے دی چڑھ پَھبّی‘‘ کہ اب مرزا لوگوں پر اپنا غلبہ بڑھ چڑھ کر پیش کرے گا اور لوگ حجت ملزمہ (کے) آگے سرنگوں ہوجائیںگے۔
نقل مطابق اصل ہے
۴۶۔۲۵۔۶۔۲۳
محمد الدین بقلم خود (دستخط)
اشتہار تبلیغ رسالت حصہ پنجم صفحہ ۷۷-۷۹ کے حاشیہ میں سوامی شوگن چندر کے اشتہار کا ذکر ہے جو غالباً اگست۱۸۹۶ء میں سوامی صاحب نے مشتہر کیا تھا۔
۲۵۔۴۶۔۶۔۲۳
محمد الدین (دستخط)
نوٹ :۔ بغرض تکمیل روایت یہ تحریر بھی سیدنا حضرت صاحبزادہ عالی مقام ،قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
عبدالرحمن قادیانی



عید قربان ۱۹۰۰ء
خطبہ الہامیہ
از قلم حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی صاحب رضی اللہ عنہ













بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
عید قربان ۱۹۰۰ء اور خطبہ الہامیہ
الحمد للّٰہ۔ الحمد للّٰہ۔ ثم الحمد للّٰہ الذی ھدانا لھذا وماکنا
لنھتدی لولا ان ھدانا اللّٰہ۔ لقد جاء ت رسل ربنا بالحق
(۱) اللہ تعالیٰ کا خاص بلکہ خاص الخاص فضل ہے کہ مجھ ناکارہ ونالائق کو لطف کرم سے نوازا اور سراسر احسان سے اُٹھا کر اپنے برگزیدہ وحبیب جری اللہ فی حلل الانبیاء کے قدموں میں لا ڈالا ۔ ۱۹۰۰عیسوی کے مندرجہ نشان کے ظہور کے وقت بھی مجھ غلام کو حضوری کا شرف میسر تھا۔ اس طرح اس روز کے علمی معجزہ کو آنکھوںدیکھنے اور کانوں سننے کی سعادت نصیب ہوئی وَذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْنَا وَعَلَی النَّاسِ وَلٰـکِنْ اَکْثَرُ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ ـ
(۲) عید سے پہلے دن یعنی حج کے روز سیدنا حضرت اقدس کی طرف سے چاشت کے وقت یہ اعلان کرایا گیا کہ قادیان میں موجود تمام دوستوں کے نام لکھ کرحضرت کے حضور پیش کئے جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے محض (فضل) اور رحم سے یہ دن حضور انور کے لئے دعاؤں کی قبولیت کے واسطے خاص فرما کر حضور کو اذنِ دعا دیا تھا اور حضور خد اکے ا س انعام میں اپنے خدام کو بھی شریک فرما نا چاہتے تھے ۔ ورنہ پانچ چھ سالہ فیض صحبت (یعنی۱۸۹۵ء تا۱۹۰۰ء )کی سعادت سے بہرہ ور ہونے کی وجہ سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اس دن کے سواحضور کی طرف سے اس قسم کا اعلان پہلے کبھی ہوتا میںنے دیکھا ،نہ سنا تھا۔ یوں تودعاؤں کے لئے ہم لوگ اکثر لکھتے اور عرض کرتے رہا کرتے تھے اور بعض اصحاب ضرورت وحاجت اکثر روازنہ اور متواتر ہفتوں بھی حضرت کے حضور دعاؤں کی درخواستیں بھیجا کرتے تھے۔ حضور کی مجلس کے دوران بھی کبھی کبھی احباب التجاء دعا کیا کرتے جس کے جواب میں عموماً حضور فرمایا کرتے :۔
’’انشاء اللہ دعا کروں گا ۔ یاد دلاتے رہیں۔ ‘‘
اور کئی بار ایسا بھی ہوا کرتا تھا کہ ادھر کسی نے دعا کے لئے عرض کیا ادھر حضور نے دست دعا اللہ تعالیٰ کے حضور بڑھا کر اس کے لئے دعا کردی جس میں حاضرین مجلس بھی شریک ہوجایا کرتے۔ تحریری درخواست ہائے دعا کے جواب میں بعض دوستوں کو حضور خود دست مبارک سے جواب تحریراً بھی دیا کرتے تھے مگر اس یوم الحج کے روز رتو ضرور کوئی خاص ہی فضل الٰہی تھا جس میں حضور نے ازراہ شفقت تمام خدام ، احباب اور مہمانوں کو شامل کرنے کے لئے خاص طور سے اعلان کرایا تھا۔
(۳) اس اعلان کا ہونا تھا کہ جہاں یکجائی فہرست میں ہر کسی نے دوسرے سے پہلے اپنا نام لکھانے کی کوشش کی وہاں فرداً فرداً بھی رقعات اور عرائض بھیجنے کی سعی کی ۔ ایک فہرست حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب کی زیر قیادت تیار ہوئی تھی اور میرا خیال ہے کہ اسی طرح بعض دوستوں نے اور بھی دو ایک فہرستیں تیار کر کے اندر بھجوائی تھیں ۔ کتنے رقعات اور عرائض فردً افردًاحضرت کے حضور پہنچائے گئے ان کا حساب اللہ تعالیٰ کو ہے کیونکہ ہر شخص کی خواہش تھی کہ میرا عریضہ پہلے روز حضرت کے اپنے ہاتھ میں پہنچے ۔ چنانچہ اس کوشش میں اس روز حضور کی ڈیوڑھی کیااور مسجد مبارک کی طرف سیڑھیاں کیا خدام سے اَٹی رہیں اور بچوں وخادمات نے بھی دوستوں کے عریضے اور خطوط پہنچانے میں جو احسان کیا وہ اپنی جگہ قابل رشک کام تھا۔
اُس زمانہ میں عیدین کے موقعہ پر دارالامان میں بیرونجات سے آنے والے احباب کی وجہ سے خاصی چہل پہل ہوجایا کرتی تھی اور جلسہ کا سا رنگ معلوم دیا کرتا تھا۔ رقعات اور عرائض کا سلسلہ کچھ زیادہ لمبا ہوگیا اور بچوں وخادمات کے بار بار کے جانے کی وجہ سے حضور کی توجہ الی اللہ میں خلل اورروک محسوس ہوئی تو کہدیا گیا کہ اب کوئی رقعہ حضرت کے حضور نہ بھیجا جاوے ۔ الغرض دن اونچا ہونے سے لے کر ظہر تک اور ظہر کے بعد سے عصر اور شام بلکہ عشاء کی نماز تک سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام دروازے بندکئے دعاؤں میں مشغول اپنی جماعت کے لئے اللہ کے حضور التجائیں کرتے رہے ۔ اسلام کی فتح اور خداکے نام کے جلال وجمال کے ظہور ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صداقت اور احیاء وغلبہ اسلام کے لئے نہ جانیں کس کس رنگ میں تنہا سوزوگداز سے دعائیں کرتے رہے اور یہ امر دعائیں کرنے والے جانتے ہیںیا جس ذات سے التجائیں کی گئیں وہ جانتا ہے ۔ لوگوں نے جو کچھ سنا وہ آگے سنا دیا یا قیاس کر لیا ورنہ حقیقت یہی تھی کہ خد اکا برگزیدہ جانتا تھا یا پھر خدا جس سے وہ مقدس کچھ مانگ رہا تھا۔
(۴) دوسرا دن عید کا تھااللہ تعالیٰ نے کل کی دعاؤں کو سنا اور نوازا۔ اس روز کے تنہائی کے راز ونیاز کو قبول فرمایا اور حضور کو بشارتیں دیں جن کے نتیجہ میں حضور کی طرف سے حضرت مولانا عبد الکریم صاحب ، حضرت مولانا نور الدین صاحب اور بعض اور احبابِ خاص کو یہ ارشاد پہنچا کہ آج ہم کچھ بولیں گے اور عربی زبان میں تقریر کریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عربی میں نطق کی خا ص قوت عطا فرمانے کا وعدہ فرمایا ہے۔ لہٰذا آپ لکھنے کا سامان لے کر مسجد چلیں۔ اس خبر سے قادیان بھر میں مسرت وانبساط کی ایک لہر دوڑ گئی اور ہماری عید کو چار چاند لگ گئے۔
عید کے موقع پر اکثر شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم حضرت کے حضور نیا لباس پیش کیا کرتے تھے اور مدت سے اُن کا یہ طریق چلا آرہا تھا ۔ اس روز اس لباس کے پہنچنے میں کچھ تاخیر ہوگئی یا سیدنا حضرت اقدس ہی خد اکے موعود فضل کے حصول کی سعی و کوشش میں ذرا جلد تشریف لے آئے وہ لباس پہنچا نہ تھا اور حضور تیار ہو کر مسجد کی سیڑھیوں کے رستے اتر کر مسجد اقصیٰ کو روانہ ہوگئے تھے۔ مسجد مبارک کی کوچہ بندی سے ایک یا دوقدم ہی حضور آگے بڑھے ہوں گے کہ وہ لباس حضرت کے حضور پیش ہوگیااور حضور پر نور خلافِ عادت شیخ صاحب کی دلجوئی کے لئے واپس الدار کو لوٹے۔ اندرون بیت تشریف لے جا کر یہ لباس زیب تن فرمایا اور پھر جلد ہی واپس مسجد اقصیٰ میں پہنچ کر حسب معمول مخدومنا حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحبؓ کی اقتداء میں نماز عید ایک خاصے مجمع سمیت ادا فرمائی مگر خطبہ عید حضرت اقدس نے دیا۔
(۵) سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے خطبہ اردو میں پڑھا جس کے آخری حصہ میں خصوصیت سے جماعت کو باہم اتفاق واتحاد اور محبت ومودت پیدا کرنے کی نصائح فرمائیں اور پھر اس کے بعد حضورنے حضرت مولوی صاحبان کو خاص طور سے قریب بیٹھ کر لکھنے کی تاکید کی اور فرمایا کہ
اب جوکچھ میں بولوں گا وہ چونکہ ایک خاص خدائی عطا ہے لہٰذا اس کو توجہ سے لکھتے جائیں تاکہ محفوظ ہوجائے ورنہ بعد میں میں بھی نہ بتاسکوں گا کہ میں نے کیا بولا (ماحصل بالفاظ قادیانی)
چنانچہ حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ جو دور بیٹھے تھے اپنی جگہ سے اُٹھے اور قریب آکر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے دائیں جانب حضرت مولانا عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھ گئے۔حضور اقدس اس وقت اصل ابتدائی مسجد اقصیٰ کے درمیانی دروازہ کے شمالی کونہ میں ایک کرسی پر مشرق رو تشریف فرماتھے اور حاضرین کا اکثر حصہ صحن مسجد میں۔ مکرمی محترم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب حال عرفانی کبیر اور یہ عاجز راقم بھی پنسل کاغذ لے کر لکھنے کو بیٹھے کیونکہ مجھے خدا کے فضل سے حضور کی ڈائری نویسی کا ازحد شوق تھا اور حضرت شیخ صاحب اپنے اخبار کے لئے لکھنے کے عادی ومشاق تھے۔ پہلی تقریر یعنی خطبہ عید حضور نے کھڑے ہوکر فرمائی تھی جس کے بعد حضور کے لئے خاص طور سے ایک کرسی بچھائی گئی جس پر حضور تشریف فرماہوئے اور جب عرض کیا گیا کہ لکھنے والے حاضر وتیار ہیں تو
(۶) حضور پُرنور اسی کرسی پر بیٹھے گویا کسی دوسری دنیا میں چلے گئے معلوم دینے لگے۔ حضور کی نیم واچشمانِ مبارک بند تھیں اور چہرہ مبارک کچھ اس طرح منور معلوم دیتا تھا کہ انوار الہٰیہ نے ڈھانپ کر اتنا روشن اور نورانی کردیا تھا جس پر نگہ ٹک بھی نہ سکتی تھی اور پیشانی مبارک سے اتنی تیز شعاعیں نکل رہی تھیں کہ دیکھنے والی آنکھیں خیرہ ہوجاتیں ۔حضور نے گونہ دھیمی مگر دلکش اور سریلی آواز میں جو کچھ بدلی ہوئی معلوم ہوتی تھی فرمایا ۔
یَاعِبَادَ اللّٰہِ فَکِّرُ وْا فِی یَوْمِکُمْ ھٰذَا یَوْمَ الْاَضْحٰی
فَاِنَّہٗ اَوْدَعَ اَسْرَارًا لِاُولِی النُّھٰی۔۔
لکھنے والے لکھنے لگے جن میں خود میں بھی ایک تھا مگر چند ہی فقرے اور شاید وہ بھی درست نہ لکھے گئے تھے، لکھنے کے بعد چھوڑ کر حضور کے چہرہ مبارک کی طرف ٹکٹکی لگائے بیٹھا اس تبتل وانقطاع کے نظارہ اور سریلی ودلوں کے اندر گھس کر کایا پلٹ دینے والی پُر کیف آواز کالطف اٹھانے لگ گیا۔ تھوڑی دیر بعد حضرت شیخ صاحب بھی لکھنا چھوڑ کر اس خدائی نشان اور کرشمہ قدرت کالطف اٹھانے میں مصروف ہوگئے۔ لکھتے رہے تو اب صرف حضرت مولوی صاحبان دونوں جن کو خاص حکم تھا کہ وہ لکھیں۔ لکھنے میں پنسلیں استعمال کی جارہی تھیں جو جلد جلد گھس جاتی تھیں مجھے یاد ہے کہ پنسل تراشنے اور بنا بنا کر دینے کاکام بعض دوست بڑے شوق ومحبت سے کر رہے تھے مگر نام ان میں سے مجھے کسی بھی دوست کا یاد نہ رہا تھا۔ ایک روز اس مقدس خطبہ الہامیہ کے ذکر کے دوران میں مکرم محترم حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد ایم اے نے بتایا کہ وہ بھی اس عید اور خطبہ الہامیہ کے نزول کے وقت موجو دتھے اور کہ لکھنے والوں کو پنسلیں بنا بنا کر دیتے رہے تھے۔
(۷) بعض اوقات حضرت مولوی صاحب کو لکھنے میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے یاکسی لفظ کے سمجھ نہ آنے کے باعث یا الفاظ کے حروف مثلا الف اور عین ۔ صاد وسین یا ثا اور ط وت وغیرہ وغیرہ کے متعلق دریافت کی ضرورت ہوتی تو دریافت کرنے پر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی عجب کیفیت ہوتی تھی اور حضور یوںبتاتے تھے جیسے کوئی نیند سے بیدار ہوکر یا کسی دوسرے عالم سے واپس آکر بتائے اور وہ دریافت کردہ لفظ یا حرف بتانے کے بعد پھر وہی حالت طاری ہوجاتی تھی اور انقطاع کا یہ عالم تھا کہ ہم لوگ یہ محسو س کرتے کہ حضور کا جسد اطہر صرف یہاں ہے، روح حضور پر نور کی عالم بالا میں پہنچ کر وہاں سے پڑھ کر یا سن کر بول رہی تھی۔ زبان مبارک چلتی تو حضور ہی کی معلوم دیتی تھی۔ مگر کیفیت کچھ ایسی تھی کہ بے اختیار ہوکر کسی کے چلائے چلتی ہو۔ یہ سماں اور حالت بیان کرنا مشکل ہے ۔ انقطاع ، تبتل ، ربودگی یاحالت مجذوبیت وبے خودی ووارفتگی اور محویت تامہ وغیرہ الفاظ میں سے شاید کوئی لفظ حضور کی اس حالت کے اظہار کے لئے موزوں ہوسکے ورنہ اصل کیفیت ایک ایسا روحانی تغیر تھا جو کم ازکم میری قوت بیان سے تو باہر ہے کیونکہ سارا ہی جسم مبارک حضور کا غیر معمولی حالت میں یوں معلوم دیتا تھا جیسے ذرہ ذرہ پر اس کے کوئی نہاں در نہاں اور غیر مرئی طاقت متصرف وقابویافتہ ہو ۔
لکھنے والوں کی سہولت کے لئے حضور پُر نور فقرات آہستہ آہستہ بولتے اور دہرادہرا کر بتاتے رہے ۔ خطبہ الہامیہ کے نام سے جو کتاب حضور نے شائع فرمائی وہ بہت بڑی ہے۔۱۹۰۰ء کی عید قربان کا وہ خاص خطبہ مطبوعہ کتاب کے اڑتیس صفحات تک ہے۔ باقی حصہ حضور نے بعد میں شامل فرمایا۔
(۸) یہ جلسہ اور مجلس ذکر لمبی ہوگئی اور نماز کاوقت آگیا ۔چونکہ حضور پرنور نے جب یہ خطبہ عربی ختم فرمایا تو دوستوں میں اس کے مضمون سے واقف ہونے کا اشتیاق اتنا بڑھا کہ حضور نے بھی آخر پسند فرمایا کہ حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب اس کا ترجمہ دوستوں کا سنا دیں ۔چنانچہ مولانا موصوف نے خوب مزے لے لے کر اس تمام خطبہ کا ترجمہ اردو میں اپنے خاص انداز اور لب ولہجہ میں سنا کر دوستوں کو محظوظ اور خوش وقت فرمایا اور یہ کیفیت بھی اپنے اندر ایک خاص لطف وسرور اور لذت روحانی رکھتی تھی۔ ترجمہ ابھی غالباً پورا بھی نہ ہواتھا کہ اچانک کسی خاص فقرے سے متاثر ہوکر یا اللہ تعالیٰ کے خاص القاء کے ماتحت سیدنا حضرت اقدس کرسی سے اٹھ کر سجدہ میں گر گئے اور اس طرح مجمع تھوڑی دیر کے لئے حضور کے ساتھ خدائے بزرگ وبرتر کے اس عظیم الشان نشان کے عطیہ کے لئے آستانہ الوہیت پر گر کر جبین نیاز ٹکائے اظہار تشکر وامتنان کرتا رہا۔ فالحمد للّٰہ ۔ الحمد للّٰہ ۔ ثم الحمد للّٰہ علٰی ذالک
(۹) سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خواہش فرمائی کہ اس خدائی نشان کو لوگ یاد کرنے کی کوشش کریں چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں خطبہ الہامیہ کی اشاعت کے بعد بہت سے دوستوں نے اس کو یاد کرنا شروع کیابعض نے پورا یاد کرلیا تو بعض نے تھوڑا مگر ان دنوں اکثر یہی شغل تھا اور ہر جگہ ،ہر مجلس میں اسی خطبہ یعنی خطبہ الہامیہ کے پڑھنے اور سننے سنانے کی مشق ہو اکرتی تھی۔ بعض روز شام کے دربار میں کوئی نہ کوئی دوست بھری مجلس میں حضرت اقدس کے سامنے یاد کیا ہوا سنایا بھی کرتے تھے اور اسی طرح خد اکی اس نعمت کا چرچا رہتا تھا۔ میںنے بھی تین چار صفحات یاد کئے تھے۔
(۱۰) سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا وجود باجود دنیا جہان بلکہ ہفت اقالیم سے بھی کہیں بڑی نعمت ۔ خدا کاخاص انعام اور فضل واحسان تھا کیونکہ وہ خدا نما تھا جس کو دیکھتے ہی خدا کے عظمت وجلال کا کبھی نہ مٹنے والا اثر دل ودماغ پر ہوتا اور خدا کی خدائی پر یقین پیدا ہوا کرتا تھا۔ جس کی مجلس خدا کے تازہ بتازہ کلام سننے کامقام اور اسی کلام کو پورا ہوتے دیکھنے سے خدا کے کامل علم اور اس کی کامل قدرت پر یقین پید اہونے کی جگہ اور دلوں میں نور علم وعرفان بھرنے کا ذریعہ ہوا کرتی تھی۔ روح کی تازگی ، ایمان کی مضبوطی ، قلوب کی صفائی اور اذہان کی جلاکے سامان اس مجلس میں جمع ہوا کرتے تھے۔ تزکیہ نفس کے سامان اس میں ملتے اور محبت الٰہی کی آگ پیدا ہوکر دنیا کی محبت کو سردکردیا کرتی تھی ۔ چنانچہ اس تازہ نشان نے بھی جماعت میں ایک روحانی تغیر پیدا کردیااور سالکین کے لئے منازل ایقان وعرفان کو آسان بنا دیا تھا اور ایک خاص روحانی انقلاب کا یہ نشان الٰہی پیش خیمہ تھا جس کی اہمیت گہرے غور وتدبر سے ہمیشہ نمایاں ہوتی رہے گی۔
عید کے روز حضور کے اس خطبہ یعنی خطبہ الہامیہ کے پڑھے جانے اور حضور پر نور کو نطق کی خاص طاقت وقوت عطا کئے جانے سے یوم الحج کے روز کی دعاؤں کی قبولیت کا یقین گویا مشاہدہ میں بدل گیا تھا کیونکہ یہ دونوں چیزیں باہم بطور لازم ملزوم کے تھیں۔ یہ عید اپنی بعض کیفیات کے لحاظ سے تاریخ سلسلہ کا ایک اہم ترین واقعہ اور ایک خاص باب ہے جس کی گہرائیوں میں جتنے بھی غوطے لگائے جائیں گے اتنے ہی زیادہ سے زیادہ قیمتی اور انمول اور بے مثال موتی ملیں گے۔ مبارک وہ جن کو ان کے حصول کی توفیق رفیق ہواور سلامتی ہو اُن پر جو اُن کو حاصل کر کے خدمت سلسلہ اور خدمت خلق میں صرف کریں ۔
اللہم صلّ علٰی محمد وعلٰی آل محمد وبارک وسلم انک حمید مجید
آمین ۔ آمین ۔ثم آمین
عبد الرحمن قادیانی بقلم خود
تحریر۲۵؍جولائی۱۹۴۶ء
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام
کا
آخری سفر لاہور اور حضور پُر نُور کا وصال

از قلم
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ











بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلی عبدہ المسیح الموعود
استغفراللّٰہ ـ استغفراللّٰہ ـ استغفراللّٰہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ
لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سفر لاہور
اور
حضور پُر نور کا وصال
ماہ اپریل ۱۹۰۸ء کے دوران میں اللہ تعالیٰ کی باریک در باریک مصلحتوں ، گوناگوں مشیتوں اور نہاں در نہاں مقادیر کے ماتحت سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خرابی ٔ طبیعت اور بیماری وغیرہ کی وجہ سے کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے جن کے باعث حضور پرنور کو سفر لاہور اختیار کرنا پڑا۔ مگر حضور کے اس سفر کے مطابق جو کچھ مجھے معلوم ہے وہ یہ ہے کہ کئی مرتبہ تیاری کی خبریں سنی گئیں جو منشاء ایزدی کے ماتحت ملتوی ہو جاتی رہیں اور کہ سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس سفر کے لئے انشراح نہ تھا۔ کیونکہ ایک عرصہ سے اللہ تعالیٰ کی متواتر وحی اور الہامات سے حضور کو قربِ وصال کے الہامات ہو رہے تھے۔ جن کا سلسلہ رسالہ الوصیت کی تحریر سے بھی پہلے کا شروع تھا اور قریب ایام میں بھی بعض ایسے الہامات ہوئے تھے۔ چنانچہ ۷مارچ ۔ ۱۹۰۸ء کا الہام ہے۔
’’ماتم کدہ‘‘
اور پھر غنودگی میں دیکھا کہ ایک جنازہ آتا ہے ۔
۱۴؍ اپریل ۱۹۰۸ء کو پھر ایک الہام ہوا۔ ماتم کدہ
اور پھر اس سفر کی تیاری و کشمکش میں ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۸ء کو الہام ہوا ۔
مباش ایمن از بازیٔ روزگار
اس الہام اور پہلی تیاری و التوا کی خبروں سے ہم لوگوں پر غالب اثر یہ تھا کہ حضور پر نور کا یہ سفر اب پختہ طور پر معرض التوا ہی میں رہے گا ۔ مگر دوسرے ہی روز یعنی ۲۷؍ اپریل ۱۹۰۸ء کی صبح کو حضور کی روانگی کا فیصلہ ہو گیا چنانچہ صبح کی نماز کے بعد خدام کو تیاری کا حکم ہوا اور رخت سفر باندھا جانے لگا۔ قریباً سات یا آٹھ بجے حضور معہ اہل بیت و تمام خاندان روانہ ہوئے ۔چند یکّے اور ایک رتھ حضور اور خاندان کی سواری کے لئے ساتھ تھے۔
حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب معہ اہل بیت و بچگان وغیرہ ۔ مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی نیز بعض اور اصحاب اور خدام و خادمات حضور کے ہمرکاب تھے۔ صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب سلمہ ربہ کی گھوڑی مکرمی مفتی فضل الرحمن کے سپرد تھی۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو بعد میں حضور نے لاہور بلوا لیا تھا۔
جہاں اور دوست مشایعت کیلئے گائوں سے باہر محلہ دارالصحت تک گئے میں بھی جس حال میں گھر سے صبح نکلا ہوا تھا اسی حال میں محلہ دارالصحت تک اپنے آقائے نامدار کو الوداع کہنے کی غرض سے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ دل میں کچھ تھا مگر حیاء و شرم اور کم مائیگی اظہار سے مانع تھی۔ سب بڑے چھوٹوں کو حضور نے ازراہ کرم و ذرّہ نوازی مصافحہ کا شرف بخشا۔ میں بھی اپنی باری سے دست بوسی کے لئے بڑھا۔ میرے ہاتھ میرے امام و مقتداء سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ میں تھے۔ قبلہ حضرت نانا جان مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور کے پہلو میں کھڑے تھے ۔ مجھے اب یاد نہیں اور اس وقت بھی میں اس بات کا امتیاز نہ کر سکا تھا کہ حضرت نانا جان نے پہلے سفارش کی تھی یا خود ہی سیدنا حضرت اقدس نے اس غلام کو ہمرکابی کی عزت عطا فرمانے کا اظہار فرمایا تھا ۔ ایک لمحہ تھا پُرسرور، دقیقہ تھا عزت افزاء اور ثانیہ تھا پُر کیف جو مجھے آج بھی کسی طرح لذت و سرور اور عزت و نشاط کے عالم میں لئے جا رہا ہے ۔ قبلہ حضرت نانا جان مغفور رحمۃ اللہ علیہ کی سفارش کو بھی میرے کان سن رہے ہیں اور
’’ میاں عبدالرحمن آپ بھی ہمارے ساتھ ہی لاہور چلو‘‘
کی دلکش اور سریلی اور پیاری آواز بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔مگر باوجود اس کے میں فیصلہ نہیں کر سکا کہ حضور پرنور نے میری دلی کیفیت اور قلبی آرزو کا علم پا کر خود ہی مجھے ہمرکابی کے لئے نوازا تھا یا کہ یہ رحمت الٰہی مجھ پر حضرت نانا جان کی سفارش کے نتیجہ میں نازل ہوئی تھی۔ بہرکیف میں قبول کر لیا گیا اور بجائے اور دوستوں کی طرح واپس گھر کو لوٹنے کے اپنے آقا فداہ روحی کے ہمرکاب بٹالہ کے لئے ایک یکہ میں سوار ہو گیا۔ حال میرا یہ تھا کہ تن کے تین پھٹے ٹوٹے کپڑے صرف میرے بدن پر تھے اور بس۔ گھر والوں کو کسی دوست کے ذریعے اطلاع بھیج دی اور اپنی سعادت ،خوش نصیبی اور بیدار بختی پر دل ہی دل میں ناز کرتا اور سجدات شکر بجا لاتا ہوا چلا گیا ۔ بٹالہ پہنچ کر حضور نے قیام کا ارشاد فرمایا اور سٹیشن کے قریب ہی ایک لب سڑک سرائے میں قیام ہوا ،جس کے دروازہ پر ’’ سرائے مائی اچھرا دیوی منقوش‘‘ ہے۔
سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور خاندان کے اراکین علیوال کی نہر پر سیر کے واسطے تشریف لے گئے ۔ جہاں سے شام کے قریب واپسی ہوئی ۔ بٹالہ یا علیوال کے سرسبز درختوں کا گھنا سایہ دیکھ کر واہ واہ کہتے ہوئے کسی خادمہ کی زبان سے نکلا۔ ’’ کیسا پیارا منظر اور ٹھنڈی چھائوں ہے ‘‘ حضور نے یہ الفاظ سن کر فرمایا :
’’ہمیں تو قادیان کی دھوپ بھی اچھی لگتی ہے ‘‘
بٹالہ پہنچ کر بھی ہم لوگوں کا خیال غالب یہی تھا کہ شاید حضور بٹالہ ہی میں چند روز ٹھہر کر قادیان واپس تشریف لے چلیں گے۔ کیونکہ آج شام کی گاڑی سے بھی لاہور جانے کا کوئی انتظام نظر نہ آتا تھا۔ ایک روک یہ پیدا ہوئی کہ گاڑی کے ریزرو ہونے میں بعض مشکلات پیش تھیں۔ چنانچہ یہ دن رات بلکہ دوسرا دن رات بھی بٹالہ کی اسی سرائے میں قیام رہا ۔ سیر کے واسطے حضور معہ اہل بیت رضوان اللہ علیہم تشریف لے جاتے رہے اور رات اسی سرائے میں قیام ہوتا رہا ۔ آخر گاڑی کے ریزرو کا فیصلہ ہو گیا اور تیسرے روز صبح کی گاڑی سے حضور نے لاہور کا عزم فرما لیا۔ جہاں دوپہر کے وقت خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان واقع کیلیانوالی سڑک متصل موجودہ اسلامیہ کالج لاہور میں پہنچ کر قیام ہوا۔
ان ایام میں یہ علاقہ قریباً ایک جنگل کی حیثیت میں تھا ۔کچھ باغات تھے ۔اسلامیہ کالج کی موجودہ عمارت بھی ابھی تعمیر نہ ہوئی تھی اور اگرچہ خواجہ صاحب وغیرہ احمدی لوگوں نے ایک وسیع قطعہ اراضی ایک لمبے عرصہ سے ٹھیکہ یا کرایہ پر لے رکھا تھا مگر ابھی تک مکان وہاں صرف دو تین ہی بنے تھے جن میں سے خواجہ صاحب کا مکان اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کا مکان لب سڑک واقع تھے۔ جن کے درمیان ایک چھوٹی سی گلی تھی اور یہ دونوں مکان دو منزلہ تھے۔
ابتداء ً سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضور کے خاندان کے لئے قیام کا انتظام خواجہ صاحب ہی کے مکان میں کیا گیا ۔ حضور مکان کے نچلے حصہ میں جو شمالی جانب واقع تھا بودوباش رکھتے رہے اور حضرت مولانا مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ معہ اہل بیت ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان میں۔ باقی ہمرکاب بزرگوں اور خدام کے لئے بھی اِدھر اُدھر انہی مکانات میں انتظام کر دیا گیا ۔ نماز کے لئے خواجہ کے مکان کی بالائی منزل کا بڑا دالان مخصوص کر دیا گیا جو حضرت کے دربار اور میل ملاقات کی تقریبوں میں بھی کام آتا تھا ۔ درس قرآن کریم کھلے میدان میں ہونے لگا۔ حضرت کی زیارت اور فیض صحبت پانے کی غرض سے آنے والے مہمانوں کی رہائش و آسائش کا انتظام بھی ایک حد تک یہی دونوں اصحاب سمٹ سمٹا کر کر دیا کرتے تھے ۔ کم و بیش آخری نصف عرصہ قیام لاہور کے زمانہ کا حضور پُرنور نے ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے بالا خانہ میں گزارا اور حضرت مولوی صاحب حضور کی جگہ خواجہ صاحب کے مکان میں جا رہے۔ نمازوں وغیرہ کے انتظامات بدستور اسی حالت میں رہے ۔ البتہ حضور کے نمازوں میں آنے اور جانے کے واسطے درمیانی گلی پر ایک لکڑی کا عارضی پل بنا کر دونوں مکانوں کو ملا دیا گیا۔ اس زمانہ کی ڈائریاں اور تقاریر الحکم اور بدر میں چھپتے رہے ہیں ان کے دہرانے کی گنجائش نہیں۔
قیام لاہور کے زمانہ میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قریباً روزانہ سیر کے واسطے خاندان کی بیگمات اور بچوں سمیت تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ بلکہ بعض روز تو صبح و شام دو وقتہ سیر فرمایا کرتے تھے ۔ ابتداء میں حضور بھی رتھ میں بیٹھ کر بیگمات کے ساتھ سیر کو تشریف لے جاتے تھے ۔ کھلی سڑکوں پر بھی اور شہر کے بازاروں مثلاً مال روڈ اور انار کلی میں بھی حضور سیر کے واسطے چلے جاتے تھے ۔ بازار میں سے گزرتے ہوئے کبھی سواری ٹھہرا کر ہندو حلوائیوں کے ہاں سے کھانے کی چیزیں بھی خرید فرما لیا کرتے تھے اور بیگمات اور بچوں کے علاوہ ہمرکاب خدام کو بھی شریک فرماتے تھے ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حضور انار کلی میں سے گزرتے ہوئے کیسری کی دکان پر اکثر ٹھہرا کرتے اور سب کو سوڈا پلوایا کرتے تھے ۔ عام اجازت ہوا کرتی تھی جو جس کا جی چاہتا پیتا یعنی لیمن ، روزاور آئس کریم یا مائینیل وغیرہ وغیرہ۔ مگر سیدنا حضرت اقدس خود کھاری بوتل بتاشہ ڈال کر پیا کرتے تھے اور یہ عمل کھلے بازار میں کیسری کی دکان کے سامنے سواریاں کھڑی کر کے ہوا کرتا تھا۔ بیگمات بھی رتھ یا فٹن میں تشریف فرما ہوا کرتی تھیں۔
حضور کی غریب نوازی ،کرم گستری اور غلام پروری کے چند ایک ادنیٰ سے کرشمے اور بالکل چھوٹی چھوٹی مثالیں بھی اس موقعہ پر لکھ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔
۱۔ میں چونکہ ایک لمبے عرصے کی جدائی کے بعد قریب ہی کے زمانہ میں راجپوتانہ سے قادیان واپس آیا تھا ۔ جہاں مجھے میرے آقا سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ایک نہایت عزیز کی خدمت اور ان کے زمینداری کاروبار میں مدد کے لئے ان کی درخواست پر جانے کا حکم نومبر ۱۹۰۳ء کے اواخر میں دے کر بھیجا تھا ۔ اور جہاں سے میں سوائے دو تین مرتبہ قادیان آنے اور چند روز ٹھہر کر پھر واپس چلے جانے کے دسمبر ۱۹۰۷ء میں بصد مشکل وہ بھی ایک چیتے کے حملہ سے سخت زخمی ہو کر واپس پہنچا تھا ۔لہٰذا
اس لمبی جدائی اور دوری کی تلافی کا خیال میرے دل میں اس زور سے موجزن تھا کہ جی قربان ہو جانے اور حضرت کے قدموں میں جان نثار کر دینے کو چاہتا تھا ۔ حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے مقدس انسان کی وفات میری عدم موجودگی میں واقع ہوئی تھی اور رسالہ الوصیت مجھے راجپوتانہ ہی میں ملا تھا۔ حضرت مولانا کی وفات اور اس کے بعد رسالہ الوصیت کے مضمون نے میری زندگی کی بنیاد کو ہلا دیا اور دنیا مجھ پر سرد کر دی تھی ۔ ایسی کہ مجھے کسی حال میں چین نہ پڑا کرتا اور دل بے قرار رہتا تھا کہ وہ دن کب آئے کہ میں پھر قادیان کے گلی کوچوں میں پہنچ کر دیار حبیب میں داخل ہو کر اپنے آقا اور حضور کے خاندان کے قدموں میں رہوں۔ وہیں میرا جینا ہو اور وہیںخدا کرے کہ میرا ایمان و وفا پر مرنا ہو ۔ یہ میری دعائیں تھیں اور یہی آرزوئیں او رتمنائیں ہوا ،کرتی تھیں۔
آخر اللہ کریم نے میرے لئے غیر معمولی سامان بہم پہنچائے اور میں چنگا بھلا رہ کر تو شاید عمر بھر بھی وہاں سے نہ نکل سکتا۔ لہٰذا مجھے ایک خونخوار زخمی چیتے سے زخمی کرا کے اللہ کریم نے وہاں سے نجات دی اور میں مدتوں ہجرو فراق کے درد سہنے کے بعد خدا کے فضل سے پھر دارالامان پہنچا۔
حضور کا یہ سفر میرے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ تھی اورمیرے جو کچھ دل میں بھرا تھا اس کے پورا کرنے کے خدا نے سامان کرائے تھے ۔ میں ان ایام کو غنیمت سمجھ کر ہروقت کمر بستہ رہتا اور حضور یا حضور کے خاندان کے احکام و اشارات کی تعمیل اور خدمت میں ایسی لذت اور سرور محسوس کیا کرتا تھا کہ ۔
’’تخت شاہی پر بھی بیٹھ کر شاید ہی کسی کو وہ لذت خوشی اور سرور میسر ہوا ہو۔ ‘‘
مَیں سیر میں ہر وقت ہمرکاب رہتا ۔ قیام میں دربانی کرتا اور خدمت کے موقع کی تاک و جستجو میں لگا رہتا ۔ ہر کام کو پوری تندہی ،محبت اور چستی سے سر انجام پہنچاتا۔ کسی کام سے عار نہ کرتا تھا ۔ خدا کا فضل تھا کہ میری دلی مرادیں بھر آئیں اور خدا نے بھی مجھے قبول فرما لیا اس طرح کہ میرے آقا ،میرے ہادی و رہنما ،میرے امام ہمام اور پیشوا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی مجھ سے خوش تھے۔ غیر معمولی رنگ میں نوازتے تھے ۔ ایسا کہ کوئی شفیق سے شفیق یا مہربان سے مہربان ماں باپ بھی اپنی عزیز ترین اولاد کو بھی کم ہی نوازتے ہوں گے۔ میں چونکہ اپنے محسن و مولا اور رحیم وکریم آقا کے حسن و احسان کے تذکروں سے ایمان میں تازگی ، محبت و وفا میں اضافہ اور عقیدت و نیاز مندی کے جذبات میں نمایاں ترقی کے آثار پاتا ہوں اور چونکہ اس رنگ میں یاد حبیب کا عمل میرے دل میں حضور پر نور پر سلام و درود بھیجنے اور حضور کے مقاصد کی تکمیل کے لئے دردمندانہ دعائوں کا ایک بے پناہ جوش پیدا کرتا ہے۔ اس لئے میں اس ذکر میں بے انداز لذت محسوس کرتا اور بار بار ان کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کیونکہ
کوئی راہ نزدیک تر راہِ محبت سے نہیں
طے کریں اس راہ سے سالک ہزاروں دشت خار
محبت کے پیدا کرنے اور بڑھانے کا واحد و مجرب طریق حسن و احسان کی یاد آور تکرار ہے۔ کسی خوبی کو ہلکا کر کے اس کی تحقیر کرنا یا کسی نیکی کو بے قدری کی نگاہ سے دیکھنا موجب کفران و خسران اور لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ فَاِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ کے وعدو وعید کے نیچے آتا ہے۔ فَاعْتَبِرُوْا ۔
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی سواری کے مقدس رتھ کے پیچھے ایک لکڑی کی سیٹ حکماً لگوا دی تا کہ حضور کا یہ ادنیٰ ترین غلام پیدل چلنے کی بجائے رتھ کے پچھلی طرف حضور کے ساتھ بیٹھ کر کوفت اور تکان سے بچ جایا کرے۔
سبحان اللہ !!! خدا کے برگزیدہ انبیاء و مقدسین کس درجہ رحیم و کریم اور الٰہی اخلاق و صفات کے سچے مظاہر اور کامل نمونے اور تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَـاقِ اللّٰہِ کی کیسی صحیح تصویر ہوتے ہیں کہ گویا وہی مثل صادق آتی ہے۔
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً ـ
لوہا جس طرح آگ میں پڑ کر نہ صرف اپنا رنگ ہی کھو دیتا ہے بلکہ اپنے خواص میں بھی ایسی تبدیلی کر لیتا ہے کہ آگ ہی کا رنگ اور آگ ہی کے صفات اس میں پیدا ہو جاتے ہیں ۔ بالکل یہی رنگ ان خدانما انسانوں کا اور بعینہٖ یہی حال ان کاملین کا ہوتا ہے ۔
مَیں اُس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بھلا چنگا تندرست و توانا تھااور میرے جسمانی قویٰ ایسے صحیح اور قوی تھے کہ رتھ یا بیل گاڑی تو درکنار اچھے اچھے گھوڑے بھی مجھ سے بازی نہ لے جا سکتے تھے ۔ اور کئی کئی دن رات متواتر کی دوڑ دھوپ اور محنت کا اثر مجھ پر نمایاں نہ ہوا کرتا تھا ۔ اور یہ صبح و شام کی سیر یا دن بھر کے کاروبار مجھے محسوس بھی نہ ہوا کرتے تھے ۔ مگر حضور کو میرے حال پر توجہ ہوئی اور اس خیال سے کہ میاں عبدالرحمن ساتھ چلتے چلتے تھک جاتے ہوں گے لہٰذا ان کے لئے رتھ کے پیچھے الگ جگہ بیٹھنے کی بنا دی جائے۔ اللہ اللہ کتنی ذرہ نوازی ۔ کتنا رحم اور کیسا مروت اور حسن سلوک کا عدیم المثال نمونہ ہے ۔
ایک روز نامعلوم میرے دل میں کیا آئی شام کی نماز کے بعد جب کہ مجھے خیال تھا کہ سیدنا حضرت اقدس کھانا تناول فرما چکے ہوں گے ۔ میں اوپر سے نیچے اتر اس دروازہ پر پہنچا جو خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان کے نچلے شمالی حصہ سے غربی جانب کوچہ میں کھلتا تھا جہاں حضور معہ اہل بیت رہتے تھے اور دستک دی۔ میرے کھٹکھٹانے پر سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بلند آواز سے دریافت فرمایا ۔کون ہے ؟
حضور کا غلام عبدالرحمن قادیانی ۔ میں نے بالکل دھیمی سی آواز میں عرض کیا اور مارے شرم کے پانی پانی ہو گیا۔ کیونکہ ساتھ ہی میرے کان میں سیدنا حضرت اقدس کی آواز پڑ گئی ۔ میں دروازہ پر اس خیال سے گیا تھا کہ دستک دوں گا تو کوئی خادمہ یا بچہ آوے گا۔ میں آہستگی سے اپنا مقصد کہہ دوں گا ۔ مگر یہاں معاملہ ہی کچھ اور بن گیا ۔ نہ صرف حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا بلکہ سیدنا حضرت اقدس مسیح پاک بھی تشریف فرما ہیں۔ اب ہو گا کیا؟
نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن
’’ کیا کہتے ہو بھائی جی؟ ‘‘ سیدۃ النساء کا فرمان تھا اور اب چپ رہنا یا لوٹ جانا بھی سوء ادبی میں داخل تھا۔ جواب عرض کئے بغیر چارہ نہ تھا۔ نہایت درجہ شرم سے اور بالکل دھیمی سی آواز میں عرض کیا۔ حضور کچھ تبرک چاہتا ہوں۔
’’تمہیں تبرک کی کیا ضرورت۔ تم توخود ہی تبرک بن گئے۔ ‘‘
میری درخواست کا جواب دیا سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ،نہ تنہائی میں بلکہ نبی اللہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی موجودگی میں۔ حضور ابھی کھانا تناول فرما رہے تھے اور میں حضور کے بولنے کی آواز اپنے کانوں سے سن رہا تھا۔ساتھ ہی ارشاد ہوا ’’ ذرا ٹھہرو ‘‘
میری اس وقت جو حالت تھی اس کا اندازہ میرے خدا اور خود میری اپنی ذات کے سوا کوئی کر ہی کیوں کر سکتا ہے۔ اگرچہ ہم لوگ اس زمانہ میں کوشش کر کے بھی خدا کے برگزیدہ جَرِیُّ اللّٰہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَائِ کے تبرکات حاصل کیا کرتے تھے۔ اور اس کے لئے ہماری جدوجہد اس درجہ بڑھی ہوئی ہوا کرتی تھی کہ ایک دوسرے پر رشک بھی کیا کرتے تھے۔ اور بارہا خدا کے نبی و رسول کے پس خوردہ کو ذرہ ذرہ اور ریزہ ریزہ کر کے بھی بانٹ کھایاکرتے تھے اور گاہے حضور پرنور خود بھی لطف فرماتے۔ اپنے دست مبارک سے اپنے کھانے میں سے کبھی کسی کو کبھی کسی کو کچھ عطا فرما دیا کرتے تھے ۔ اور ایک زمانہ میں جبکہ رات کے وقت ہم لوگ حضرت کے مکانات کا پہرہ دیا کرتے تھے ۔ حضور اکثر ہماری خبر گیری فرماتے اور کبھی کبھی کچھ نہ کچھ کھانے کو عطا فرما دیا کرتے تھے ۔ جسے ہم لوگ شوق سے لیتے ، محبت سے کھاتے اور اپنی خوش بختی پر شکرانے بجا لایا کرتے تھے۔ مگر آج جو کچھ مجھ پر گزرا میرے لئے بہت ہی گراں اور بھاری تھا۔ اور اگر مجھے حضور کی موجودگی کا علم نہ ہو جاتا تو شائد میں حضرت اماں جان سے تو چپ سادھ کر یا کھسک کر شرمسار ہونے سے بچ ہی جاتا۔ چند منٹ بعد حضور کے سامنے کا بچا سارا کھاناایک پتنوس میں لگا لگایا میرے لئے آگیا۔یہ وہ سعادت اور شرف ہے کہ جس کے لئے ہر موئے بدن اگر ایک نہیں ہزار زبان بھی بن کر شکر نعمت میں قرنوں قرن لگی رہے تو حق یہ ہے کہ حق نعمت ادا نہ ہو۔ مادہ پرست دنیا کا بندہ اگر ان باتوں پر مضحکہ اڑائے تو اس کی تیرہ بختی ہے کیونکہ اس کو وہ آنکھ نہین ملی جو ان روحانی برکات کو دیکھ سکے۔ اس کو وہ حواس نصیب نہیں کہ ان حقائق سے آشنا ہو۔ ورنہ جاننے والے جانتے اور سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ ایسی سعادت و عزت اور فضل و کرم ہیں کہ وقت آتا ہے جب ہفت اقلیم کی شاہی پر بھی ان کو ترجیح دی جائے گی۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
کیا چیز تھا ہر یش چندر ؟ ایک اکھڑ اور متعصب بت پرست ،ہندو گھرانے میں پیدا ہونے والا کروڑوں بتوں او ردیوی دیوتائوں کے پجاری ماں باپ کی اولاد اور کہاں خداوند خدا کا یہ پیارا نبی و رسول وَجِیْہٌ فِیْ حَضْرَتِہٖ کے معزز خطاب سے ممتاز! یہ فضل یہ کرم یہ عطاء و سخا خدائے واحد و یگانہ کی خاص الخاص رحمتوں کا نتیجہ اور فضل و احسان کی دین ہے۔ لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ ـ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ـ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ ـ
جن ایام میں سیدنا حضرت اقدس ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان میں سکونت پذیر تھے ایک خادمہ نے مجھے نہایت ہی خوشی و محبت اور اخلاص سے یہ مژدہ سنایا کہ آج حضرت صاحب تمہارا ذکر گھر میں اماں جان سے کر رہے تھے۔اور فرماتے تھے کہ
یہ لڑکا اخلاص و محبت میں کتنی ترقی کر رہا ہے۔ ہمارے تنخواہ دار ملازم بھی اتنی خدمت نہیں کر سکتے جتنی یہ جوش عقیدت و محبت میں کرتا ہے اور اس نے تو رات دن ایک کر کے دکھا دیا وغیرہ۔ وہ الفاظ تو پنجابی میں تھے جن کا مفہوم میں نے اپنے لفظوں میں لکھا ہے۔
اس خادمہ کا نام مجھے اب یاد نہیں کہ کون صاحبہ تھیں۔ مگر یہ ایک واقعہ ہے جس کو میں نے اظہارتشکر و امتنان کے طور پر حضرت کی ذرہ نوازی۔ مروت و احسان کے بیان کی غرض سے لکھا ہے ورنہ یہ اور ایسے ہی دوسرے واقعات کے ذکر سے میں بے انتہا شرم محسوس کرتا اور لکھتے وقت پسینہ پسینہ ہو ہو جاتا ہوں کیونکہ
کیا پدّی اور کیا پدّی کا شوربا
میں کیا اور میری بساط خدمات کیا۔ ذرہ نوازی اور لطف تھا۔
’’ ورنہ درگہ میں اس کی کچھ کم نہ تھے خدمت گذار‘‘
(۴) میرے آقا کی غریب نوازی اور غلام پروری کا ایک اور بھی تذکرہ اس جگہ اسی سفر کا قابل بیان ہے وہ یہ کہ سیدنا امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام قیام لاہور کے ایام میں سیر کے لئے تشریف لے جانے سے قبل مجھ غلام کو یاد فرماتے اور جب میں اطلاع کرتا ،تشریف لاتے تھے۔ یہی حضور کا معمول تھا اور میں بھی نہایت پابندی اور تعہد سے ان اوقات کا انتظام اور انتظار کیا کرتا تھا۔ رتھ کے پیچھے میرے واسطے حضور نے حکم دے کر ایک سیٹ بنوا دی تھی تو فٹن کی سواری میں پیچھے کی طرف کا پائیدان میرا مخصوص مقام تھا جہاں ابتداء ً مَیں پیچھے کو منہ کر کے الٹا کھڑا ہوا کرتا تھا۔ ایسا کہ میری پیٹھ حضرت اور بیگمات کی طرف ہوا کرتی تھی۔ اس خیال سے کہ بیگمات کو تکلیف نہ ہو۔ کیونکہ عموماً سیدۃ النساء اور کوئی اور خواتین مبارکہ بھی حضرت کے ساتھ کوچوان کی طرف والی نشست پر تشریف فرماہوتیں تو ان کی تکلیف یا پردہ کا خیال میرے الٹا کھڑے ہونے کا موجب و محرک ہوا کرتا تھا۔ مگر ایک روز کہیں حضور کا خیال میری اس حرکت کی طرف مبذول ہو گیا تو حکم دیا کہ میاں عبدالرحمن !یوں تکلف کر کے الٹا کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں۔ سفروں میں نہ اتنا سخت پردہ کرنے کا حکم ہے اور نہ ہی اس تکلف کی ضرورت۔ اَلدِّیْنُ یُسْرٌ۔اور جس طرح عورتوں کو پردہ کا حکم ہے اسی طرح مردوں کو بھی غض بصر کر کے پردہ کی تاکید ہے آپ بے تکلف سیدھے کھڑے ہوا کریں۔
چنانچہ اس کے بعد پھر میں ہمیشہ سیدھا کھڑا ہوا کرتا تھا برعائت پردہ۔ بعض بیگمات کی گودی میں بچے ہوا کرتے تھے۔ گاڑی سے اترتے وقت ان کے اٹھانے میں بھی میں بہت حد تک تکلف کیا کرتا تھا مگر اس سے بھی حضور نے روک دیا اور میں بچوں کو محتاط طریق سے بیگمات کی گودیوں میں سے بسہولت لے دے لیا کرتا تھا۔
ایک روز کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ ادھر حضور کے سیر کو تشریف لے جانے کا وقت تھا ،گاڑی آچکی تھی اور میں اطلاع کر چکا تھا۔ ادھر حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے ایک خادمہ نے پیغام دیا کہ بھائی جی سے کہو ہمیں دیسی پان لا دیں۔ میں نے حضرت کی تشریف آوری کے خیال سے عذر کیا تو دوبارہ پھر سہ بارہ تاکیدی حکم پہنچا کہ نہیں آپ ہی لائو اور جلدی آئو۔ مجبور ہو کر سر توڑ بھاگا۔ لوہاری دروازہ کے باہر انارکلی میں ایک دکان پر اچھے دیسی پان ملا کرتے تھے، وہاں سے پان لے کر واپس پہنچا تو موجود دوستوں نے بتایا کہ ’’ حضرت اقدس تشریف لائے ،تمہارے متعلق معلوم کیا، غیر حاضر پا کر واپس اندر تشریف لے گئے۔ ‘‘ میں پہلے ہی دوڑ بھاگ کی وجہ سے پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔ یہ واقعہ سن کر کانپ اٹھا اور ڈرتے ڈرتے دستک دے کر جہاں خادمہ کو پان دئیے وہاں حضرت کے حضور اپنی حاضری کی اطلاع بھی بھیج دی ۔ حضور پرنور فوراً تشریف لے آئے اور فرمایا ’’ میاں عبدالرحمن آپ کہاں چلے گئے تھے۔ ہم نے جو کہہ رکھا ہے کہ سیر کے وقت موجود رہا کرو اور کہیں نہ جایا کرو۔ ‘‘
حضور ! اماں جان نے حکم بھیجا تھا۔ میں نے عذر بھی کیا مگر اماں جان نے قبول نہ فرمایا اور تاکیدی حکم دے کر کہلا بھیجا کہ تم ہی ہمارا یہ کام کرو۔ حضور! میں اماں جان کا حکم ٹال نہ سکا اور چلا گیا۔ بس حضور پُر نور فٹن میں سوار ہوئے اور سیر کے واسطے تشریف لے گئے اور حضور کا یہ ادنیٰ ترین غلام بھی حسب معمول حضور کے ہمرکاب آخری دن کی سیر تک ہمرکابی کی عزت پاتا رہا ۔ فٹن یعنی گھوڑا گاڑی جو حضور کی سیر کے واسطے منگوائی جاتی تھی۔ اس کے متعلق حضور کی تاکیدی ہدایت ہوا کرتی تھی کہ کوچوان حتی الوسع بھلا مانس تلاش کیا جاوے جو جھگڑالو اور بدزبان نہ ہو ۔ گھوڑے شوخ نہ ہوں بلکہ اچھے سدھے ہوئے اور گاڑی صاف ستھری ہو ،شکستہ نہ ہو۔ تیز چلانے کو حضور کبھی پسند نہ فرماتے تھے ۔ کرایہ فٹن کا روزانہ واپسی پر ادا فرما دیا کرتے تھے۔ کوئی بقایا نہ رہنے دیتے تھے۔ گھوڑا گاڑی عموماً بدلتی رہتی تھی۔ کسی خاص گاڑی یا گاڑی بان سے کوئی معاہدہ یا ٹھیکہ نہ تھا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ کوئی گاڑی بان دو تین روز متواتر آجاتا۔
سیر کے واسطے حضورعموماً مکان سے سٹیشن کی طرف ہوتے سے ہوئے ایمپرس روڈ ، شملہ پہاڑی اور وہاں سے جانب شرق لاٹ صاحب کی کوٹھی کے مشرقی جانب سے ہوتے ہوئے لارنس گارڈن مال روڈ کو تشریف لے جاتے۔ گاہے انار کلی میں سے ہوتے ہوئے سرکلر روڈ پر لوہاری ، شاہ عالمی ،موچی دروازہ کے باہر باہر مکان پر تشریف لاتے ۔ کبھی مال روڈ ہی سے واپسی کا حکم ہو جاتا۔ تنگ بازاروں میں حضور جانا پسند نہ فرماتے تھے۔ زیادہ تر کھلی اور آبادی سے باہر کی سڑکوں کی طرف حضور کو رغبت تھی۔ انارکلی وغیرہ کی طرف کبھی ضرورتاً تشریف لے جاتے ۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ حضور کوئی حکم نہ دیتے اور میں اپنی مرضی ہی سے حضور کے حسب پسند راہوں سے ہو کر واپس لے آتا۔ سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی کبھی بعض اوقات براہ راست ہمیں حکم دیتیں کہ فلاں جگہ کو لے چلو ۔ حضور پُرنور خاموش رہتے، انکارفرماتے نہ نا پسند فرماتے۔ سیر کے اوقات میں گفتگو عموماً مسائل دینیہ کے بارہ میںیا نظام سلسلہ سے متعلق رہتی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ حضور پرنور بالکل خاموش ہی نظر آتے مگر حضور کے لبوں کی حرکت سے ذکر الٰہی اور تسبیحات میں مصروفیت کا یقین ہوتا تھا۔
قیام لاہور کے زمانہ میں حضور پُر نور لاہور کے مضافات کی مشہور سیرگاہوں میں بھی تشریف لے جاتے رہے۔ مثلاً شالا مار باغ متصل باغبانپورہ۔ شالا مار باغ نیا جو کسی ہندو ساہوکار نے لاہور شہر کے جنوب کی طرف چند میل کے فاصلہ پر بنوایا۔ مقبرہ جہانگیر وغیرہ مگر ان مقامات میں سے شالامار باغ متصل باغبانپورہ حضرت کو زیادہ پسند تھا۔ اور حضور وہاں ایک سے زیادہ مرتبہ تشریف لے گئے۔ زیادہ دیر تک وہاں قیام فرمایا اور زیادہ ہی دیر تک علیحدگی میں ٹہلتے اور دعائیں کرتے رہے۔ مقبرہ جہانگیر کے غربی جانب علیحدہ ایک مزار ہے اس طرف حضور تشریف نہ لے گئے۔ مگر بھول بھلیاںیا جو کچھ بھی اس جگہ کا نام ہے ریلوے لائن کے غربی جانب ایک عمارت ہے جس میں بہت سے دروازے ہی دروازے ڈاٹ دار ہیں وہاں حضور بیگمات اور بچوں کے ساتھ تشریف لے گئے۔
شالامار باغ سے ایک مرتبہ واپسی پر بڑے زور کی آندھی آگئی جو بہت سخت تھی۔ احباب جو مکان پر تھے ان کو بہت فکر ہوئی ۔ چنانچہ کئی دوست شالامار باغ کی طرف چل نکلے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی شان کہ آندھی کی شدت سے پہلے ہی پہلے حضور معہ تمام قافلہ مکان پر بخیریت پہنچ گئے۔ حضور کا معمول تھا کہ سیر و تفریح کو جانے سے قبل حاجات سے فراغت پا کر تشریف لایا کرتے تھے۔ مگر پیشاب کی حاجت حضور کو اس لمبی سیر کے دوران میں بھی ہو جایا کرتی تھی۔ جس کے لئے حضور کسی قدر فاصلہ پر حتی الوسع نظروں سے اوجھل بیٹھ کر قضائے حاجت فرمایا کرتے تھے۔ لوٹا پانی کا کبھی حضور خود ہی اٹھا کر لے جایا کرتے اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ حضور جا کر قضائے حاجت کے لئے بیٹھ بھی جاتے اور میں احتیاط سے پیچھے کی طرف سے ہو کر لوٹا حضرت کے دائیں جانب رکھ دیا کرتا اور حضور فارغ ہو جاتے تو لوٹا اٹھا کر لے آتا۔ ڈھیلا لیتے میں نے حضور کو دیکھا نہ سنا۔ اسی طرح اکثر حضور کو وضو کرانے کے مواقع بھی میسر آتے رہے۔ وضو حضور بہت سنوار کر فرمایا کرتے۔ ہر عضو کو تین تین دفعہ دھوتے ،سر کے صرف اگلے حصہ کا مسح فرمایا کرتے۔ ریش مبارک میں خلال فرماتے اور جرابوں پر مسح۔ کبھی جرابیں اتار کر بھی پائوں دھوتے تو انگلیوں میں خلال فرماتے۔ دانتوں کو انگلی سے اچھی طرح ملتے اور مسوڑھوں کو بھی صاف فرماتے تھے۔
لاہور کے اسی سفر کا واقعہ ہے کہ حاجی محمد موسیٰ صاحب نے ایک دن ایک موٹر کار حضور کی سواری کے واسطے کہیں سے مہیا کی اور حضرت سے اس میں سوار ہونے کی درخواست کی نیز سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی سوار ہونے کی خواہش کی ۔ چنانچہ حضور پر نور معہ سیدہ حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا موٹر میں سوار ہونے کی غرض سے مکان سے اتر کر سڑک پر تشریف لائے مگر موقعہ پر پہنچ کر سیدہ نے سوار ہونے سے انکار کر دیااور فرمایا کہ مجھے خوف آتا ہے مگر حضرت اقدس بعض بچوں سمیت سوار ہوئے اور ایک قریبی سڑک کا چکر کاٹ کر واپس تشریف لے آئے۔ موٹر اس زمانہ میں ابھی نئی نئی لاہور میں آئی تھی۔
اسی سفر کے دوران میں شاہزادگان والاتبار میں سے کسی صاحبزادہ نے حضرت سے بائیسکل خرید دینے کی خواہش کی۔ حضرت شاہزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سلّمہ ربّہ اس وقت اپنی گھوڑی پر سوار ہمرکاب تھے ،پاس سے کوئی سائیکل سوار نکلتے دیکھ کر حضور نے فرمایا کہ ’’ سائیکل کی سواری گھوڑے کے مقابل میں تو ایک کتے کی سواری نظر آتی ہے۔‘‘ اس واقعہ کے وقت حضور کی گاڑی اسلامیہ کالج (موجودہ) کے جنوبی جانب کی سڑک پر سے ہو کر سیر کو جا رہی تھی جس پر آجکل مغرب کو جا کر کچھ دور امرت دھارا بلڈنگ اور سبزی منڈی واقع ہیں۔
ایام قیام لاہور میں حضور کو بہت ہی مصروفیت رہا کرتی تھی۔ کیونکہ حضور کے لاہور پہنچتے ہی سارے شہر میں ہلچل مچ گئی اور ایک شور بپا ہو گیا۔ جس کی وجہ سے ہر قسم کے لوگ اس کثرت سے آتے رہتے تھے کہ خلق خدا کا تانتا بندھا رہتا اور رجوع کا یہ عالم تھا کہ باوجود مخالفانہ کوششوںاور سخت روکوںکے لوگ جوق در جوق لوہے کی طرح اِس مقناطیس کی طرف کھنچے چلے آتے۔ مولویوں کے فتووں کی پرواہ کرتے نہ ان کی دھمکیوں سے ڈرتے۔ اپنے بھی آتے اور بیگانے بھی ۔ دوست بھی اور دشمن بھی۔ موافق بھی اور مخالف بھی۔ محبت سے بھی اور عداوت سے بھی۔ علماء بھی آتے اور امراء بھی۔ الغرض عوام اور خواص ، عالم اور فاضل ،گریجوایٹ اور فلاسفر ،ہر طبقہ اور ہر رتبہ کے لوگ جمع ہوتے اپنے علم و مذاق کے مطابق سوالات کرتے اور جواب پاتے تھے۔
اس اقبال اور رجوع خلق کو دیکھ کر مولوی لوگوں کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے۔ وہ اس منظر کو برداشت نہ کر سکے اور آپے سے باہر ہو گئے۔ انہوں نے بالمقابل ایک اڈا قائم کیا جہاں ہر روز مخالفانہ تقریریں کرتے۔ گالی گلوچ اور سب و شتم کا بازار گرم رکھتے۔ افتراء پردازی اور بہتان طرازی کے ایسے شرمناک مظاہرے کرتے کہ انسانیت ان کی ایسی کرتوتوں پر سر پیٹتی اور اخلاق و شرافت کا جنازہ اٹھ جاتا۔ توہین و دل آزاری اتنی کرتے کہ قوت برداشت اس کی متحمل نہ ہو سکتی۔ مجبور ہو کر، تنگ آکر بعض دوستوں نے حضرت کے حضور اپنے درد کا اظہار کیا تو حضور نے یہی نصیحت فرمائی کہ
’’گالیاں سن کے دعا دو پا کے دکھ آرام دو ‘‘
صبر کرو اور ان کی گالیوں کی پرواہ نہ کیا کرو۔ برتن میں جو کچھ ہوتا ہے وہی نکلتا ہے۔ دراصل ان کو سمجھ نہیں کیونکہ اس طرح تو وہ آپ ہماری فتح اور اپنی شکست کا ثبوت بہم پہنچاتے ہماری صداقت اور اپنے بطلان پر مہر تصدیق لگاتے ہیں۔ منہ پھیر کر، کان لپیٹ کر نکل آیا کرو۔
کہتے ہیں ’’ صبر گرچہ تلخ است لٰکن بَرِشیریں دارد ‘‘
صبر کا اجر ہے حضور پرنور کی یہ نصیحت کارگر ہوئی۔ غلاموں نے کانوں میں روئی ڈال کر ، کلیجوں پر پتھر باندھ کر یہ سب و شتم سنا اور برداشت کیا ۔اُف تک نہ کی اور اپنے آقا نامدار کی تعلیم پر ایسی طرح عمل کر کے دکھایا کہ جس کی مثال قرونِ اولیٰ کے سوا بہت ہی کم دنیا میں پائی جاتی ہے۔ چنانچہ اس کے خوش کن نتائج اور ثمرات شیریں بھی ملنے شروع ہو گئے اور باوجود مخالفوں کی مخالفت کے علیٰ رغم انف ، سلیم الطبع اور شریف المزاج انسانوں نے اس زمانہ میں اس کثرت سے بیعت کی کہ ہمارے اخبارات ان اسماء کی اشاعت کی گنجائش نہ پا سکے اور اعلان کیا کہ ’’ بقدر گنجائش انشاء اللہ بتدریج اسماء بیعت کندگان شائع کئے جاتے رہیں گے۔‘‘
قصہ کوتاہ۔ حضور کا یہ سفر جہاں گونا گوں مصروفیتوں کے باعث حضرت اقدس کے لئے شبانہ روز بے انداز محنت و انہماک اور توجہ و استغراق کے سامان بہم پہنچاتا وہاں اپنے اور بیگانے ہر رتبہ و مرتبہ کے لوگوں کے واسطے رحمت و ہدایت اور علم و معرفت کے حصول کا ذریعہ تھا ۔طالبان حق اور تشنگان ہدایت آتے نور و ہدایت اور ایمان و عرفان کے چشمہ سے سیری پاتے تھے۔ مقامی شرفاء اور معززین کے علاوہ بعض مخالف مولوی بھی آتے رہتے۔ بیرونی جماعتوں کے دوست بھی اکثر حضور کی زیارت کرنے اور فیض صحبت پانے کی غرض سے جمع رہتے تھے۔ اور چونکہ قادیان کی نسبت لاہور پہنچنا کئی لحاظ سے آسان تر اور مفید تر تھا۔ دوست اس سہولت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی غرض سے اکثر آتے تھے اور اس طرح اچھا خاصہ ایک جلسہ کا رنگ دیکھائی دیا کرتا تھا۔ چنانچہ اسی ضرورت کے ماتحت حضرت اقدس کو لنگر کا انتظام بھی لاہور ہی میں کرنا پڑا۔ نمازوں کے بعد عموماً حضور کا دربار لگا کرتا اور مختلف علمی و اختلافی مسائل کا چرچا رہتا تھا ۔ ایک انگریز سیاح ماہر علوم ہیئت و فلسفہ ان ایام میں جا بجا لیکچر دیتا پھرتا تھا۔ ہمارے محترم حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے جن کو تبلیغ کا قابل رشک شوق و جوش رہتا ہے اور وہ ایسے لوگوں کی تلاش میں رہا کرتے ہیں انہوں نے اس سے ملاقات کر کے اس کو حضرت اقدس کے حالات سے آگاہ کیا اور حضرت سے ملاقات کرنے کی تحریص دلائی۔ چنانچہ اس کی خواہش پر حضرت سے اجازت لے کر اس کو حضور کی ملاقات کے واسطے لے آئے۔ اس کی بیوی اور ایک بچہ چھوٹا سا بھی اس کے ہمراہ تھے۔ ملاقات کیا تھی ہم لوگوں کے لئے بحر علم و عرفان کے چشمے رواں ہو گئے اور اس ملاقات کے نتیجہ میں وہ علوم ہم لوگوں کو حاصل ہوئے جو اس سے پہلے نصیب نہ تھے۔ وہ انگریز بھی بہت متاثر اور خوش تھا اور اس پر ایسا گہرا اثر حضور کی اس ملاقات ، توجہ اور علوم لدنی میں کمال کا ہوا کہ اس نے ایک بار پھر اس قسم کی ملاقات کی خواہش کی ۔چنانچہ وہ پھر ایک مرتبہ حضرت کے حضور حاضر ہوا اور ایسے علوم لے کر واپس گیا جس کے بعد اس کے لیکچروں اور تقاریر کا رنگ ہی پلٹ گیا ۔
شاہزادہ محمد ابراہیم صاحب جو کابل کے شاہی خاندان کے ممبر اور رئوساء عظام میں سے تھے ان کو حضرت سے عقیدت و نیازمندی اور محبت تھی ،حضرت کی ملاقات کو تشریف لائے۔ ۲ ؍مئی کا دن تھا حضرت نے اس صحبت میں ایک معرکۃ الآرا تقریر فرمائی اور کھول کر تبلیغ فرمائی۔ اتنا اثر اور اتنا جذب تھا کہ حاضرین ہمہ تن گوش بن کر بے حس و حرکت بیٹھے سنتے اور زار و قطار روتے رہے۔ اسی تقریر کے نتیجہ میں شاہزادہ صاحب نے ہمارے ارباب حل و عقد کو تحریک کی کہ حضور کی ایک تقریر خاص اہتمام و انتظام سے کرائی جائے جس میں لاہور اور مضافات کے اکابر و شرفاء کو شمولیت کی دعوت دی جاوے۔ چنانچہ شاہزادہ صاحب کی تجویز مؤثر ثابت ہوئی اور اس طرح ایک اہم ترین اور کامل و اکمل تقریر حضور پُرنور نے لاہور اور مضافات کے صنادید، بڑے بڑے امرا اور شرفاء کے مجمع میں قریباً اڑھائی گھنٹہ تک کھڑے ہو کر فرمائی۔ تقریر کیا تھی ؟
تکمیل تبلیغ اور اتمام الحجۃ
تھی جس میں حضور نے کھول کھول کر حق تبلیغ ادا فرمایا اور سلسلہ کے سارے ہی خصوصی مسائل پر روشنی ڈالی وہاں اپنے منصب عالی اور مقام محمود کے متعلق بھی کھول کر اعلان فرمایا:
جماعت لاہور کے سرکردہ دوستوں کی خواہش تھی کہ حضور کی تشریف آوری سے فائدہ اٹھا کر بڑے بڑے لوگوں کو تبلیغ کی جائے مگر چونکہ وہ لوگ اپنے آپ کو اتنا بڑا خیال کرتے تھے کہ مقامی دوستوں سے بعض حالات میں سلسلہ کے متعلق بات کرنابھی نہ صرف پسند نہ کرتے تھے بلکہ اس میں اپنی ہتک سمجھتے ہوئے تبلیغ کا موقعہ ہی نہ دیا کرتے تھے۔ شاہزادہ محمد ابراہیم صاحب کی شرکت سے دوستوں کی اس خواہش کے پورا ہونے کا ایک موقعہ پیدا ہو گیا اور احباب کئی دن کی سوچ بچار اور مشورہ کے بعد اس فیصلہ پر پہنچے کہ ان لوگوں کو ان کی شان کے مناسب حال ایک دعوت میں جمع کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر ان کا جمع ہونا بھی محال تھا۔ چنانچہ ایک فہرست مرتب کر کے دعوت نامے بھیجے گئے اور دعوت کے انتظامات مکمل ہو چکے تھے کہ اچانک سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر مقررہ دن سے ایک روز پہلے وہی اسہال کی بیماری کا حملہ ہو گیا جس سے حضور بہت کمزور ہوگئے اور اندیشہ پیدا ہو گیا کہ دعوت شاید بغیر تبلیغ ہی کے گزر جائے گی۔ دوستوں کو بہت گھبراہٹ تھی کہ اب ہو گا کیا، مگر قربان جائیں اللہ کریم کے جس نے نا امیدی کو امید سے بدل کر ایک تاز ہ نشان سے اپنے بندوں کی مدد فرمائی جس سے ایمانوں میں تازگی و بشاشت اور عرفان میں نمایاں زیادتی ہوئی اور ایسا معلوم ہوتا تھا گویا خدا کا کلام کہ
’’ڈرو مت مومنو‘‘
اسی موقعہ کی گھبراہٹ اور خوف سے تسلی دلانے کو نازل ہوا تھا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مقررہ دن سے پہلی رات کے آخری حصہ میں ہمارے آقا و مولا سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ کریم نے اپنی تازہ وحی سے یوں سرفراز فرمایا ۔
’’ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ ‘‘
میں خود اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہو کر تبلیغ کرائوں گا۔ ضعف و کمزوری اور تکلیف و بیماری سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ میرا اپنا کام ہے اور میں اسے سرانجام دوں گا۔
چنانچہ دن چڑھا منتظمین نے دعوت کے انتظامات شروع کئے اور ہوتے ہوتے معزز مہمان اور شرفاء کی سواریاں آنے لگیں۔ مگر حضرت کی طبیعت بدستور نڈھال و کمزور تھی اور ضعف و نقاہت کا یہ حال تھا کہ اس کی موجودگی میں حضور کو تقریر کر سکنے کی قطعاً کوئی امید نہ تھی اور اسی خیال سے حضور نے حضرت مولانا مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم بھیجا کہ آپ ہی آنے والے مہمانوں کی روحانی دعوت کا کچھ سامان کریں۔ چنانچہ وقت پر حضرت مولوی صاحب نے تقریر شروع فرمادی مگرتھوڑی ہی دیر بعد وہ ماہ منور اور خورشید انور بنفس نفیس ہم پر طلوع فرما ہوا۔ حضرت مولوی صاحب نے تقریر بند کی اور حضور پُر نور نے کھڑے ہو کر حاضرین کو خطاب فرماتے ہوئے کم و بیش تین گھنٹہ تک ایسی پُرزور ، پُرمعارف اور علم و معرفت سے لبریز تقریر فرمائی کہ اپنے تو درکنار ،غیر بھی عش عش کر اٹھے اور ایسے ہمہ تن گوش ہو کر سنتے رہے کہ گویا مسحور تھے۔ اور اس روحانی مائدہ کی ایسی لذت ان کو محسوس ہوئی کہ جس نے جسمانی غذا سے بھی ان کو مستغنی کر رکھا تھا۔
جلسہ اعظم مذاہب ۹۶ء میں بھی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاضر وموجود تھا۔ وہ نظارہ جو حضرت کی تحریر کے پڑھے جانے کے وقت آنکھوں نے دیکھا ۔ لَارَیب کم ہی پہلے کبھی دنیا نے دیکھا ہو گا۔ مگر اس جلسہ میں ہماری آنکھوں نے خدا کی جس قدرت اور عظمت وسطوت کا مشاہدہ کیا وہ بلحاظ اپنی کیفیت و کمیّت کے جلسہ مہوتسوسے بھی کہیں بڑھی ہوئی تھی۔ اِس میں اور اُس میں زمین و آسمان کا فرق تھا کیونکہ یہاں خدا کا برگزیدہ نبی اور رسول خود اپنے خدا کی معیت میں کھڑا بول رہا تھا۔ جلسہ اعظم مذاہب میں مضامین علمی تھے مگر یہاں ایسے اختلافی کہ سامعین کا ان کو سن لینا بجائے خود ایک معجزہ سے کم نہ تھا۔ حضور کی تقریر میں ایسی روانی تھی کہ نوٹ کرنا مشکل ہو رہا تھا اور بیان میں اتنی قوت و شوکت تھی کہ بھرے مجمع میں کسی کے سانس کی حرکت بھی محسوس نہ ہوتی تھی اور حضور اس جوش سے تقریر فرما رہے تھے کہ زور تقریر کے ساتھ ساتھ حضور پُر نور خود بھی سامعین کی طرف بڑھے چلے جا رہے تھے۔ میں نے اپنی آنکھوں دیکھا اور اس بات کو اچھی طرح نوٹ کیا کہ حضور میز سے کئی مرتبہ چند چند قدم آگے بڑھ جاتے رہے تھے۔ حضور میز کو آگے لے کر نہ کھڑے تھے بلکہ میز حضور کی پشت پر تھی۔
حضور کی یہ تقریرڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان کے صحن میں زیادہ سے زیادہ حضور کے وصال سے ایک عشرہ پہلے ہوئی تھی جس کو تکمیل تبلیغ اور اتمام حجت کے نام سے یاد کیا کرتے تھے اور ماہر علوم ہیئت انگریز سے مکالمہ خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان کے اوپر کے حصہ میں اس سے قبل ہو چکا تھا۔ ان تقریروں کے علاوہ کئی چھوٹی بڑی تقاریر حضور نے فرمائیں جن کی تفاصیل میں جانے کا یہ موقعہ نہیں۔ کچھ ہندو مستورات پیغام صلح کی تصنیف کے دوران میں حضرت کے درشن کرنے کی غرض سے ایک وفد کی صورت میں حاضر ہوئیں جبکہ حضور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان میں تشریف فرما تھے۔ حضور چونکہ بہت مصروف تھے ان کو جلدی رخصت فرمانا چاہا مگر انہوں نے عذر کیا اور کوئی نصیحت فرمانے کی درخواست کچھ ایسے رنگ میں کی کہ حضور نے باوجود انتہائی مصروفیت کے ان کی درخواست کو قبول فرما کر توحید کی تلقین فرمائی اور بت پرستی سے منع فرمایا ۔خدا سے دعا و پرارتھنا کی تاکید فرمائی۔ یہ واقعہ بالکل آخری ایک دو روز کا ہے۔ دراصل وہ مستورات بہت دیر ٹھہرنا اور بہت کچھ حضور کی زبان مبارک سے سننا چاہتی تھیں مگر حضور کی انتہائی مصروفیت کی وجہ سے مجبورًا بادل ناخواستہ جلد چلی گئیں۔ اسی طرح حضور کی ایک اورتقریر اپنے بعض فقرات کی وجہ سے نیز آخری ہونے کی وجہ سے خاص طور پر مشہور اور زبان زد خدام ہے جس میں حضور نے فرمایا تھا۔
عیسیٰ مسیح کو مرنے دو کہ اس میں اسلام کی زندگی ہے
مسیح محمدی کو آنے دو کہ اسی میں اسلام کی بزرگی ہے
الغرض حضور کا قیام لاہور ایسے ہی حالات کا مجموعہ اور اسی قسم کی مصروفیتوں کا مرکز تھا۔ حق و حکمت کے خزائن لٹا کرتے اور علم و معرفت کے موتی بٹا کرتے تھے۔ اور اگرچہ اس سفر کا عرصہ بالکل محدود ،زیادہ سے زیادہ صرف ایک ماہ تھا مگر اس سفر کے نقشہ پر بحیثیت مجموعی غور کرنے سے ایک ایسی پر کیف کیفیت نمایاں طور سے نظر آنے لگتی ہے جیسے کوئی یکہ و تنہا مسافر کسی لمبے بے آب و گیاہ اور سنسان ویرانے کے سفر کو جلد جلد طے کر کے منزل مقصود پر پہنچنے کی انتھک اور سرگرم کوشش میں لگ رہاہو یا کوئی جری و بہادر جانباز جرنیل چاروں طرف سے خونخوار دشمنوں کے گھیرے میں پھنسا ہوا دائیں بائیں اور آگے پیچھے کے واروں کو بچاتا، ان کا حلقہ توڑ کر شیر نر کی طرح حملے کرتا اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کی جدوجہد میں مصروف ہو۔ بعینہٖ یہی حال حضور کی تبلیغی کوششوں ،سرگرمیوں اور مساعی جمیلہ کا بنظر غائر مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا تھا اور ایسا نظر آتا تھا کہ گویا حضور کی ساری زندگی کا نچوڑ اور سارے مقاصد اور سلسلہ کے اہم مسائل اور خصوصی عقائد کی تکمیل کا یہ سفر ایک مجموعہ اور خلاصہ تھا۔ اور کہ حضور ان ایام کو غنیمت جان کر ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ انہماک و مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ کوئی لمحہ فارغ نہ جاتا تھا اور حضور کی پوری توجہ اور ساری کوشش وسعی تبلیغ و اشاعت ہی پر مرکوز تھی اور کم از کم پچیس مختلف صحبتوں اور تقاریر کا ذکر تو اخبارات میں موجود ہے۔ کتنی تقاریر اور ڈائریاں میری کوتاہ قلمی یا غیر حاضری کی نذر ہوئیں یا کتنی صحبتوں میں شرکت سے دوسرے ڈائری نویس محروم رہے اس بات کا علم اللہ کو ہے۔ اور اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ بہت کچھ لکھنے سے رہ جایا کرتا تھا۔مجھے خود اپنی کمزوریوں کا اعتراف ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ بہت سے وہ معارف اور حقائق جو حضور سیر کے وقت بیان فرمایا کرتے ، میں اپنی مجبوریوں اور کمزوریوں کی وجہ سے صفحہ قرطاس پر نہ لا سکا۔ حضور کی آخری تصنیف یعنی پیغام صلح اور اخبار عام والے خط کو اگر شامل کر لیا جائے جو حضور نے اپنے دعوئے نبوت کی تشریح فرماتے ہوئے اخبار عام کو لکھا تھاتو حضور کی معلومہ۔ مطبوعہ و مشتہر ہ تقاریر کی تعداد ستائیس ہو جاتی ہے ۔ کتنے خطوط اس عرصہ میں حضور نے دوستوں کو ہمارے مکرم ومحترم حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے لکھوائے اور کتنے خطوط حضور نے بعض خوش نصیب خدام کو خود ازراہ شفقت وذرہ نوازی دست مبارک سے لکھے۔ ان کا اندازہ بھی میری طاقت و بساط سے باہر ہے۔ خلاصہ یہ کہ حضور کی ساری ہی حیات طیبہ ،انفاس قدسیہ اور توجہات عالیہ جہاں خدا کے نام کے جلال کے اظہار ،اس کے رسول ﷺ کی صداقت و عظمت کے اثبات اور اس کی مخلوق کی بہتری وبہبودی کے لئے وقف تھیں وہاں خصوصیت سے حضور کی پاکیزہ زندگی کے یہ آخری ایام
اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ الَّذِی لَا یُضَاعُ وَقْتُہٗ
کی سچی تفسیر اور مصدّقہ نقشہ تھا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
خدا کا برگزیدہ مسیح ہم میںموجود تھا جو ہماری آنکھوں کا سرور، دلوں کا نور بنا رہتا تھا جس کے در کی گدائی دنیا وما فیھا سے بہتر معلوم دیتی تھی اور اس سے ایک پَل کی جدائی موت سے زیادہ دوبھر ہوا کرتی تھی۔ اس کی صحبت آبِ حیات اور کلام حوض کوثر ہوا کرتا تھا۔ اس کی خلوت ذکر الٰہی اور خدا سے ہم کلامی میں اور جلوت تبلیغ اسلام اور تزکیہ نفوس میں گزرا کرتی تھی۔ دل میں ہزار غم ہوتا طبیعت کیسی ہی افسردہ ہوتی اس نورانی چہرہ پر نظر پڑتے ہی تمام غم اور ساری افسردگی کا فور ہو جایا کرتی تھی۔ انسان کتنے ہی خطرناک مصائب و آلام کا شکار بنا ہوتا، کتنی ہی مشکلات میں مبتلا ہوتا اس محبوب الٰہی کی ایک نظر شفقت اور دعائِ مستجاب ان کاحل بن جایا کرتی تھی۔ اس کی مجلس خدا نما مجلس اور اخلاق محمدی اخلاق تھے اور حلقہ بگوش خدام گویا نبوت کی اس شمع ہدایت کے گرد پروانے تھے ،اس کی صحبت میں مجلس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی جھلک اور غلاموں میں صحابیت کا رنگ نظر آتا تھا، اور سب سے بڑی نعمت اس کے وجود باجود سے ہمیں یہ میسر تھی کہ خدا اس سے ہم کلام ہوتا تھا اور وہ مقدس وجود خدا سے وحی پا کر اس کا تازہ بتازہ کلام ہمیں سنایا کرتا تھا جس کا بعض حصہ اسی دن اور بعض اوقات قریب ایام میں پورا ہو جایا کرتا تھا۔ جس سے اطمینان اور ثلج قلب ملتا اور زندہ خدا ، زندہ رسول ، زندہ مذہب کی زندگی کا یقینی ثبوت ملتا اور اس طرح زندہ ہی ہمارے ایمان بھی ہو جایا کرتے تھے ۔ اللھم صل علیہ وعلی مطاعہ واٰلھما وبارک وسلم انک حمید مجید ـ
ایک قابل ذکر واقعہ مجھ سے بیان کرنا رہ گیا اور وہ یہ ہے کہ ایک روز بعد عصر کی سیر کے دوران میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مولوی محمد علی صاحب ایم اے کے ایک خط آمدہ از قادیان کا ذکر فرماتے ہوئے بہت ہی رنج اور ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ قادیان سے انہوں نے ایک خط خواجہ کمال الدین صاحب بی اے ایل ایل بی کو لکھا جس میں علاوہ اور امور کے لنگر خانہ کے خرچ کا ذکر کچھ ایسے رنگ میں تھا جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ مولوی صاحب بدظنی کی مرض میں مبتلا ہیں اور ان کے دل میں حضرت اقدس کی امانت و دیانت کے متعلق شبہات ہیں اور ان کو خیال ہے کہ لنگرخانہ کے اخراجات تو بہت قلیل ہیں اور آمد اس کے مقابل میں کہیں زیادہ ہوتی ہے جس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا اور یہ امر انہوں نے سیدنا حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قادیان سے لاہور تشریف لے آنے کے بعد ایک ماہی اخراجات کے اعدادو شمار درج کر کے زیادہ واضح بھی کر دکھایا تھا ۔ حضرت نے فٹن میں سوار ہو کر بہت پُردرد لہجہ میں اسکا ذکر حضرت نانا جان قبلہ مرحوم ومغفور رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا جو کہ سیر میں حضور کے ساتھ اور پہلو بہ پہلو تشریف فرما تھے ۔ سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور خاندان کی بیگمات اور بعض بچے بھی موجود تھے اور حضور کا یہ ادنیٰ ترین غلام حسب معمول پچھلے پائیدان پر کھڑا اپنے ان دو کانوں سے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے عطا فرما رکھے ہیں ،حضور کی آواز کو سن رہا تھااور خدا کی دی ہوئی ان دونوں آنکھوں سے حضور کے لبان مبارک کی جنبش کو دیکھ رہا تھا ۔ میرا خالق و مالک جس نے مجھے پیدا کیا اور جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس بات پر گواہ ہے کہ میں نے جو کچھ سنا اور دیکھا تھا وہی لکھ رہا ہوں۔
حضور پُر نور نے فرمایا کہ خواجہ صاحب آج مولوی محمد علی صاحب کا ایک خط لائے جس میں لکھا تھا کہ لنگرخانہ کا خرچ تو بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے مگر آمد بہت زیادہ ہوتی ہے، نہ معلوم وہ روپیہ کہاں جاتا ہے وغیرہ۔ ’’خدا جانے ان لوگوں کے ایمان کیسے کچے ہیں اور بدظنی کا مادہ ان میں کیوں اتنا بڑھ گیا ہے کہ ہماری بیعت کرنے اور مرید کہلانے کے باوجود بلا تحقیق ایسی باتیں بناتے ہیں جن سے ہمیں تو نفاق کی بو آتی ہے اور ایسے لوگوں کے انجام کے متعلق خطرہ ہی رہتا ہے ۔لنگر خانہ کا انتظام تو ہم نے منشاء الٰہی کے ماتحت اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے ورنہ ہمیں تو اس کی وجہ سے بہت تکلیف ہوتی ہے اور بعض اوقات یہ امر اصل کام میں بھی مالی مشکلات اور ان کے حل کے افکار کی وجہ سے حارج ہوتا اور روک بن جایا کرتا ہے اور ہمیں تو اکثر اس کے چلانے کے واسطے قرض وام بھی کرنا پڑتا ہے۔ ان لوگوں کو شوق تو ہے کہ لنگر کا انتظام ان لوگوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے مگر ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر لنگرخانہ کا انتظام ان لوگوں کے سپرد کر دیا جائے تو یہ کام کہیں بند ہی نہ ہو جائے۔ یا مہمانوں کی خدمت کا حق ہی پوری طرح ادا نہ ہو۔ اس صورت میں اس کی جواب دہی خدا کے سامنے کون کرے گا؟ ان کو اتنی بھی سمجھ نہیں کہ لنگر کے اخراجات تو ہمارے آنے کے ساتھ ہی یہاں آگئے تھے۔ اب قادیان میں ہے کون؟ مہمان تو ہمارے پاس آتے ہیں۔ پس جب قادیان میں لنگر ہی بند ہے تو خرچ کیسا؟ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں ہمارے متعلق بددیانتی اور خیانت کا شبہ ہے اور ہمیں حرام خور سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عرصہ سے یہ لوگ اس بات کے درپے ہیں کہ لنگر کا انتظام ان کو دے دیا جائے ۔ہمیں ان کے حال پر رہ رہ کر افسوس آتا ہے۔‘‘ وغیرہ۔
قبلہ حضرت نانا جان مرحوم مغفور رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان لوگوں کے ایسے خیالات سے متعلق ایسی باتیں حضرت کے حضور اسی مجلس میں عرض کیں اور بتایا کہ ان کا یہ مرض آج کا نہیں بلکہ پرانا ہے۔ یہ کھچڑی مدت سے پک رہی ہے اور طرح طرح کے اعتراض سننے میں آتے رہتے ہیں۔ کئی بار سنا ہے کہ
قوم کے روپیہ سے بیوی جی کے زیور بنتے ہیں
قوم کا روپیہ جو لنگرخانہ کے نام سے حضرت صاحب کے نام براہ راست آتا ہے اس کا کوئی حساب کتاب نہیں۔ مکان قوم کے روپیہ سے بنتے مگر ان پر نانا جان قبضہ کرتے جاتے ہیں وغیرہ۔
الغرض اس دن کی سیر کا اکثر حصہ ایسی ہی رنج دِہ گفتگو میں گزرگیا اور میں محسوس کرتا تھا کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بے حد تکلیف اور ملال تھا اور سارا خاندان بھی ان حالات کے علم سے رنجیدہ تھا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
یہ واقعہ حضور کے وصال کے بالکل قریب اور غالباً زیادہ سے زیادہ دو روز قبل یعنی ۰۸-۰۵-۲۴ کا ہے اور اسی روز یا اس سے ایک روز بعد یعنی آخری دن حضور نے سیر کے لئے تشریف لے جاتے ہوئے مجھ سے فرمایا ۔
’’ گاڑی بان سے کہہ دو کہ اتنی دور لے جائے کہ جانے آنے میں ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت نہ لگے۔کیونکہ آج ہمارے پاس اتنے ہی پیسے ہیں۔‘‘
آہ ، آہ ،آہ شہنشاہوں کا شہنشاہ جس کا یہ حال ۔ جس کی تصدیق حضور کے وصال کے بعد کے واقعات نے کر دی جبکہ واقعی حضور پرنور نے بجائے مال و منال کے قرض کی بھاری رقم ترکہ میں چھوڑی مگر مہمان نوازی میں سرِمو فرق نہ آنے دیا اور نہ ہی کسی کو جتایا ۔ جاننے والے جانتے اور دیکھنے والے یقین رکھتے ہیں کہ حضور کو مہمان نوازی میں کتنا کمال اور شغف تھا۔ حضور اس میں ذرہ بھر کوتاہی کو بھی پسند نہ فرماتے ۔ قرض تک لے کر مہمانوں کی خدمت کرتے ،خود اپنے ہاتھوں کھلاتے اور مہمانوں کی ضروریات کا پورے اہتمام سے ان کے حالات و عادات کے لحاظ سے انصرام کرتے۔ چارپائی۔ بستر۔ حتیّٰ کہ حقہ تک بھی جس سے حضور کو طبعی نفرت تھی ،مہمان کی خاطر مہیا فرماتے۔ حضور کی مہمان نوازی اور کرم فرمائی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں بلکہ میرا یقین ہے کہ ابھی تو ایسے خوش نصیب وجود موجود بھی ہیں جو حضور کی ایسی عنایات کا خود مورد بن چکے یا اپنی آنکھوں ایسے واقعات دیکھ چکے ہیں کہ حضور نے کھانا تناول فرماتے ہوئے بھی اپنا کھانا اٹھا کر مہمانوں کو بھیج دیا اور خود دو گھونٹ پانی پر ہی کفایت فرمائی۔ کسی مہمان کو چارپائی نہ ملی تو اپنی چارپائی بھیج دی یا فوراً تیار کرا دی اور نیا بستر بنوا کر بھیج دیا ۔ زبان طعن دراز کرنا آسان ہے مگر کچھ کر کے دکھانا مشکل۔ مدتوں ہم اور ایسے معترض اکٹھے رہے جس کی وجہ سے ان کے سلوک و اخلاق اور حسن و احسان کی داستانیں معلوم ۔ دور کیا جانا ۔ لاہور ہی کی بات کبھی بھولنے میں نہیں آتی جب مہمانوں کو دستر خوان پر بٹھا کر اور کھانا سامنے رکھ کر ساتھ ہی یہ پیغام بار بار دہرایا جاتا تھا کہ پیٹ کے چار حصے کرو۔ کھانے کا، پانی کا، ہوا کا، اور ذکر الٰہی کا ۔ کاش ان بدقسمتوں کو مائیں نہ جنتیں۔ تنگ ہو کر مجبوراً آخر بعض خدام ہمرکاب نے پہلے اس قسم کی باتیں حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیں چنانچہ آپ نے فوراً اپنے شاگردوں کے لئے تو کھانے کا الگ انتظام کر دیا۔ مکرمی حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ خدا کے فضل سے زندہ سلامت ہیں وہ اس بات کے شاہد ہیں کہ دو یا چار بوری آٹا فوراً خریدنے کا حضرت مولوی صاحب نے حکم دیا ۔یا خریدوا کر ان کے سپرد کر دیں اور اس طرح پہلے صاحب ممدوح کے شاگردوں کے کھانے کا بوجھ جماعت لاہور کے کندھوں سے اتر گیا اور پھر جلد ہی یہ بات سیدنا حضرت اقدس تک پہنچ گئی تو حضور پرنور نے تمام مہمانوں کے کھانے کے لئے اپنے خرچ سے انتظام کئے جانے کا ارشاد فرما دیا جو آخری دن تک جاری رہا۔
افترا کرنا اور جھوٹ بولنا لعنتیوں کا کام ہے میں اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم سے لکھتا ہوں کہ اوپر کا واقعہ میں نے جیسے سنا اور جس طرح دیکھا بعینہٖ اسی طرح لکھا ہے۔ الفاظ ممکن ہے وہ نہ ہوں یا آگے پیچھے ہو گئے ہوں مگر کوشش میں نے حتی الوسع یہی کی ہے کہ وہی لکھوں۔ مفہوم یقینا یقینا وہی ہے اور یہ واقعہ ایک گھنٹہ سیر کے وقت کی تعیین کا بھی بالکل صحیح او ریقینی ہے اور میں نے جو کچھ بھی لکھا ہے پوری بصیرت اور یقین سے لکھا ہے جس پر میں غلیظ سے غلیظ قسم کے لئے بھی تیار ہوں۔ مجھے کسی سے ذاتی طور پر رنج ، بغض یا عناد نہیں۔ سلسلہ کی ایک امانت جو اکتیس سال سے میرے دل و دماغ میں محفوظ تھی ،ادا کی ہے اس کے سوا اور کوئی غرض نہیں۔
اسی سلسلہ میں اس امر کا لکھ دینا بھی بے محل نہ ہو گا کہ جس زمانہ کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے اس سے تین چار ماہ قبل ہی یعنی جنوری ۱۹۰۸ء کے اواخر میں مَیں ان زخموں سے اچھا ہو کر جو راجپوتانہ سے میری رہائی کا باعث بنے ،قادیان پہنچا تھا۔ میں چونکہ ایک لمبے عرصہ کی غیبوبت کے بعد دارالامان آیا تھا لہٰذا دل میں خواہش تھی کہ دوستوں سے ملوں ،ان کی مجالس میں بیٹھوں اور حالات سنوں۔ چنانچہ اسی ذیل میں میرے کانوں میں ان اعتراضات کی بِھنک پڑی جو بعض بڑے کہلانے والوں کی طرف سے سیدنا حضرت اقدس کی امانت و دیانت پر مالی معاملات سے متعلق کئے جاتے تھے۔ اور مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ایسے اعتراضات سن کر ہم لوگ معترضین کے اس فعل کو جہاں حقارت اور نفرت سے دیکھا کرتے وہاں حضور کو سلیمان نام دئے جانے کی ایک یہ حکمت بھی ہماری سمجھ میں آگئی جو اس غیب دان ہستی نے پہلے ہی سے اس قسم کے اعتراض کرنے والوں کو بطور جواب اور حضور کی تسلی کے لئے الہاماً کہہ رکھی تھی اور اس بات کا عام ذکر رہتا تھا کہ چونکہ حضرت کا ایک نام سلیمان رکھ کر اللہ کریم نے
فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِکْ بِغَیْرِ حِسَابٍ
کی شان و مقام بھی حضور کو عطاء فرما رکھا ہے تو پھر کس کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اس برگزیدۂ خدا اور مقبول الٰہی کی شان میں کوئی کلمہ گستاخی زبان پر لاوے یا حضور سے کسی حساب کتاب کا مطالبہ کرے۔
حضور کے طریق عمل اور اخلاق کریمانہ میں سے بیسیوں واقعات اور سینکڑوں مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ حضور عطاء و سخا میں فَامْنُنْ بِغَیْرِ حِسَاب کے عامل بھی تھے۔ بارہا خدام اور غلاموں نے مفوضہ خدمات اور کاموں سے واپسی پر حضور کی خدمت میں حسابات کی فہرستیں پیش کیں تو حضور نے یہ فرماتے ہوئے کہ ’’ہمارا آپ کا معاملہ حسابی گنتیوں سے بالا تر ہے ۔دوستوں کے ساتھ ہم حساب نہیں رکھا کرتے۔ ‘‘ واپس کر دیا۔ یا کبھی کسی غلام کو قرض کی ضرورت ہوئی تو حضور نے دے کر نہ صرف بھلا ہی دیا بلکہ اگر اس غلام نے کبھی پیش کیا تو مسکراتے ہوئے فرمایا کہ کیا آپ نے ہمارے اور اپنے مال میں کوئی مابہ الاامتیاز بنا رکھا ہے؟ ہمارے آپ کے تعلقات معمولی دنیوی تعلقات سے آگے نکل کر روحانی باپ اور بیٹوںکے سے ہیں۔ اور کئی دوستوں کو یاد ہو گا کہ جب کسی خدمت کے لئے حکم دیتے تو زادِ راہ کے لئے گن کر رقم نہ دیا کرتے بلکہ اکثر ایسا ہوتا کہ مٹھی بھر کریا رومال میں گٹھڑی باندھ کر بے حساب ہی دے دیا کرتے تھے۔ اور کئی بار میں خود بھی چونکہ ایسے حالات سے دو چار ہوا ہوں اس وجہ سے ایسی شہادت میرے ذمہ تھی جس کی ادائیگی کے لئے یہ چند سطور نوٹ کی ہیں۔ زندگی کا اعتبار نہیں ،موت کا وقت مقرر نہیں، خصوصاً جب کہ میں ایک لمبے عرصہ کی بیماری کے باعث اپنی ہڈیوں میں کھوکھلا پن ،پٹھوں میں سستی اور جسم میں اضمحلال پاتا ہوں اس موقعہ کو غنیمت جان کر یہ فرض ادا کرنے کی کوشش کی۔
بارہا کا واقعہ یاد ہے کہ ایسے مواقع پر حضور نے نہایت محبت و مہربانی سے بطور نصیحت فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ بھی ہمیں بھیجتا ہے اس سے ذاتی طور پر ہمارا صرف اسی قدر تعلق ہوتا ہے کہ ہم اُس کے خرچ کرنے میں بطور ایک واسطہ کے ہیں۔ ورنہ خدا کے یہ اموال خدا کے دین اور اس کی مخلوق ہی کے لئے آتے اور خرچ ہوتے ہیں۔ ہم جب کسی کے سپرد کوئی کام کرتے ہیں تو اس کو امین و دیانتدار ہی سمجھ کر کرتے ہیں۔ اس لئے ہمیں تو کبھی ایسا خیال بھی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ شخص اس میں خیانت کرے گا۔ دراصل یہ تمام باتیں بدظنی سے پیدا ہوتی ہیں اور حقیقت میں بدظنی کرنے والا اپنے ہی ایمان کی جڑ پر تبر رکھتا ،اپنے اندرونہ کے گناہ کو ظاہر کرتا اور اپنے خبث باطن پر مہر لگاتا ہے۔
اَلْمَرْئُ یَقِیْسُ عَلٰی نَفْسِہٖ
الغرض اس قسم کا مرض نفاق تو بعض لوگوں کے دلوں میں حضرت اقدس کی حیات ہی میں پیدا ہو چکا تھا اور خدا جانے کس بدقسمت انسان کی مجلس و صحبت کا اثر تھا جس کو ان لوگوں نے بجائے دور کرنے اور نکال باہر پھینکنے کے قبول کیا اور دلوں میں سنبھالے رکھا ،اس کی آبیاری کی اور آخر کار زہریلا پھل کھا کر روحانی موت کاشکار ہو گئے۔ اللہ رحم کرے۔ علو، خود ستائی و کبر کا بھی مادہ الگ ان میں موجود تھا۔معتمد تھے اور سلسلہ کے کاروبار کے گویا وہی اپنے آپ کو کرتا دھرتا سمجھتے تھے مگر زبان کا ان کی یہ حال تھا کہ سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا جن کی بلند شان اور اس عزت و اقبال کے مدنظر جس کا ذکر اللہ تعالیٰ کی وحی میں بار بار آتا ہے، ہم خدام ان کا ذکر حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے الفاظ سے کیا کرتے مگر یہ لوگ سیدہ طاہرہ کو ’’ مائی جی ‘‘ ’’ بیوی جی ‘‘ اور زیادہ سے زیادہ ’’ بیوی صاحبہ‘‘ کے بالکل معمولی الفاظ سے یاد کیا کرتے تھے۔ جن سے ظاہر ہے کہ ان کے دلوں میں ’’ خواتین مبارکہ‘‘ کی حقیقی عزت موجود نہ تھی اور اس کے نتائج بھی ظاہر و باہر ہیں۔ موقعہ کی مناسبت کے مدنظر خواجہ کمال الدین صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ کے اعلان میں سے جو ’’ اطلاع از جانب صدر انجمن‘‘ کے زیرعنوان سیدنا حضرت اقدس کے وصال اور انتخاب خلافت کے متعلق قادیان سے جماعتوں کی اطلاع کے لئے شائع کرایا گیا تھا، ایک فقرہ درج کر کے اس کے علل و نتائج کا استنباط اصحاب دانش کے ذہن رسا پر چھوڑتا ہوں ۔ لکھا ہے
’’ چندوں کے متعلق سردست یہ لکھا جاتا ہے کہ ہر قسم کے چندے جس میں چندہ لنگرخانہ بھی شامل ہے محاسب صدر انجمن احمدیہ قادیان کے نام حسب معمول بھیجے جاویں۔‘‘ فاعتبروا یا اولی الالباب ـ
مارچ ۱۹۰۸ء کے مہینے میں موقر اخبار الحکم کا متعدد مرتبہ بحروف جلی بعنوان
لنگرخانہ کی طرف توجہ چاہئے
جماعت کو توجہ دلانا۔ قحط سالی کے باعث اخراجات کے بڑھ جانے کا ذکر کرنا وغیرہ بھی اس مسئلہ کے حل میں موید ہو گا۔
ایک واقعہ حضور کی سیر شام سے متعلق یہ بھی قابل ذکر ہے کہ آخری دن یعنی ۰۸۔۰۵۔۲۵ کو جب حضور سیر کے واسطے تشریف لائے تو خلاف معمول حضور خاموش اور اداس تھے۔ نیز کوفت اور تکان کے علامات حضور کے چہرہ پر نمایاں نظر آتے تھے اور ساری ہی سیر میں حضور ایسی حالت میںتشریف فرما رہے۔
گویا کسی دوسرے عالم میں ہیں
اور ربودگی و انقطاع کا یہ حال تھا کہ سارے ہی راستہ جاتے ہوئے اور واپسی پر بھی حضور اسی حالت میں رہے۔ حضور کی اس حالت کے مدنظر سارے ہی قافلہ پر عالم سکوت اور بیم و رجا طاری تھا۔ ایسا معلوم دیتا تھا کہ حضور دنیا وما فیہا سے کٹ کر رفیق اعلیٰ کے وصال کا جام شیریں نوش فرما رہے ہیں اور اسی کی یاد میں یہ عالم محویت حضور پر طاری ہے۔
جن دوستوں نے خطبہ الہامیہ کے نزول کا منظر دیکھا ہوا ہے وہ آج کی ربودگی و تبتّلکو بھی سمجھ سکتے ہیں جو حالت حضور کی اس وقت میں ہوتی تھی اس سے بھی بڑھ کر آج حضور اپنے خدا میں جذب و گم ہو رہے تھے کیونکہ خطبہ الہامیہ کے نزول کے دوران میں تو مشکل لفظ جب سمجھ میں نہ آتا۔ ہم لوگ لکھنے میں پیچھے رہ جاتے یا بعض جگہ الف یا ع ۔ ق یا ک ۔ ز یا ذ یا ض ۔ ظ اور ث ۔ س اور ص وغیرہ کا امتیاز نہ کر سکتے تو حضور سے دریافت کرنا پڑتا تھا جس کے بتانے کے لئے حضور گویا نیند سے بیدار ہو کر یا کسی روحانی عالم سے واپس آکر بتاتے تھے اور دوران نزول میں کئی مرتبہ ایسا ہوا تھا۔ مگر آج کی محویت اور ربودگی متواتر کم و بیش ایک گھنٹہ جاری رہی اور واپس مکان پر آکر ہی حضور نے آنکھ کھولی تھی۔ یہ واقعہ نہ صرف میرا ہی چشم دید ہے بلکہ خاندان کی بیگمات اور ہمرکاب مردوں کے علاوہ مجھے اچھی طرح سے ایک اور ایک دو کی طرح یاد ہے کہ جب حضور کی گاڑی لارنس گارڈنز اور لاٹ صاحب کی کوٹھی سے کچھ آگے جانب غرب بڑھی تھی تو اس موقعہ پر دو یاتین احمدی دوست لاہور کے سیر کرتے ہوئے وہاں ملے۔ جنہوں نے السلام علیکم کہی اور حضور کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ کر تعجب کا اظہار کیا اور اشاروں سے دریافت حال کیا تھا۔ گویا ان دوستوں نے بھی حضور کی اس حالت تبتل و انقطاع کو خلاف معمول سمجھا تھا۔ اور پھر مجھے یہ بھی خوب یاد ہے کہ دوسرے دن وصال کے بعد انہوں نے یا ان میں سے بعض نے آج کے چشم دید واقعہ کا ذکر کر کے بیان کیا تھا کہ ’’ ہم نے توکل ہی حضور کی حالت سے اندازہ کر لیا تھا کہ حضور اس عالم میں موجود نہیں ہیں۔ ‘‘ مگر افسوس کہ میں ان دوستوں کے نام یاد نہیں رکھ سکا۔ یہ یقین ہے کہ تھے وہ مقامی دوست ہی۔
میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ ابتداء ً حضور خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں رہتے تھے اور کم و بیش قیام لاہور کا نصف عرصہ حضور وہیں مقیم رہے۔ اس کے بعد اس مکان کو چھوڑ کر ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان کے بالائی حصہ میں تشریف لے گئے اور آخری دن تک وہیں رہے۔
اس ہجرت کی بڑی وجہ
علاوہ بعض اور وجوہات کے یہ تھی کہ لاہور پہنچنے کے بعد حضور کو الہام ہوا ’’ اَلرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْل‘‘ حضور پُرنور کی عادت وسنت تھی کہ خواب اورالہامات کو حتی الوسع ظاہری رنگ میں پورا کرنے کی کوشش فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں حضور اکثر صدقات ، خیرات اور قربانیاں ادا کرتے رہتے تھے بلکہ بعض اوقات تو بعض خدام اور بچوں تک کی خوابوں کو پورا کرتے اور قربانیاں کروایا کرتے ۔ اسی طرح اس الہام کو ظاہر طور پر پورا کرنے کی غرض سے حضور نے یہ نقل مکانی اختیار فرمائی تھی۔ الغرض حضور کا یہ سفر قضاء وقدر اور مشیّت ایزدی کا نمونہ ،خدا کی حکمتوں اور مصلحتوں کی ایک مثال اور وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ کی عملی تفسیر تھی۔ خدا کا برگزیدہ رسول، نبی آخرالزمان خدا کے دئیے ہوئے علم کے ماتحت آنے والے واقعہ ’’ ستائیس کو ایک واقعہ (ہمارے متعلق) اَللّٰہُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی‘‘ سے نہ صرف آگاہ تھا بلکہ واقعات اور حالات پر یکجائی نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہو گا کہ یقین پر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضور نے حتیّٰ الوسع مناسب حد تک اس سفر کو ٹالنے اور التوا میں ڈالنے کی کوشش کی اور امر واقعہ یہی ہے کہ حضور کو انشراح نہ تھا ۔ چنانچہ جہاں حضور خود دعا و استخارہ میں مصروف تھے وہاں خاندان اور خدام کو بھی اس سفر کے متعلق دعا اور استخارہ کی تاکید کی جاتی رہی۔ کئی مرتبہ تیاری کا سامان ہوا اور ملتوی ہو جاتا رہا۔ خدا کی وحی واضح اور کھلی تھی اور اس کے سمجھنے میں کسی قسم کا اشتباہ نہ تھا۔ دعائیں اور استخارے اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچ کر ’’ مباش ایمن ازبازیٔ روزگار ‘‘ کا غیر مشتبہ جواب پا چکے تھے مگر الٰہی نوشتوں اور مقادیر کو کون ٹال سکتا ہے وہ بہر صورت پورے ہو کر رہتے ہیں اور خدا کے یہ مقدسین انبیاء و راستباز جو کہ ’’ انا اوّل المسلمین ‘‘ کا عہد اپنے خدا سے باندھتے ہیں عملاً اپنے عہد کے باریک در باریک شرائط اور سارے ہی پہلوئوں کی پوری طرح نگہداشت کرتے اور ان کو بطریق احسن نباہتے، اپنی مرضی کو پوری طرح سے اپنے خدا کی مرضی کے ماتحت کر دیا کرتے، اس کی قضاء و قدر کے سامنے گردن ڈال دیتے اور سر تسلیم جھکا دیا کرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ایک مناسب اور جائز حد تک اس سفر کو روک دینے کی کوشش کی مگر بالکل اسی طرح جس طرح منذر رؤیا و کشوف کے وقت حضور دعا، صدقہ اور خیرات کیا کرتے تھے تا کہ تقدیر معلق ہو تو ٹل جائے مگر جب خداتعالیٰ کی بار بار کی وحی کے ماتحت حضور کو یہ یقین ہو گیا کہ یہ قضاء مبرم ہے، ٹل نہیں سکے گی تو حضور نے ’’ مرضی مولا ازہمہ اولیٰ ‘‘ کی تعمیل کا مصمم ارادہ فرما لیا۔ جب دیکھا کہ قضاوقدر اور منشاء ایزدی یہی ہے کہ یہ سفر اختیار کیا جائے تو حضور نے توکلاً علی اللہ تیاری کا فیصلہ فرما کر یہ سفر اختیار کر لیا۔ سفر کی تیاری اور قافلہ کی ہیئت ترکیبی ، سفر کی تیاری خود اس امر پر شاہد ہے کہ حضرت کو آنے والے واقعہ کا پوری طرح سے علم تھا ۔چنانچہ جہاں حضور نے اپنے سارے خاندان کو ساتھ لیا۔ ضروریات فراہم کیں۔ سواریاں لیں۔ (گھوڑی اور رتھ ) ۔وہاں حتی الوسع ایسے تمام بزرگوں اور خدام کو بھی ہمرکابی کا شرف بخشا جو حضور کی مجلس کا جزوِ ضروری تھے یا جن کی موجودگی کو حضور پسند فرماتے تھے۔ حضرت مولانا مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ معہ خاندان کو درس قرآن کریم کے لئے تو محترم حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو کاروبار ڈاک کے واسطے ہمرکابی کا حکم دیا۔ اسی طرح حضرت فاضل امروہی اور بعض دوسرے ضروری ارکان کو بھی شرف ہمرکابی بخشا۔ وحی الٰہی
داغ ہجرت
اور ’’ ستائیس کو ایک واقعہ (ہمارے متعلق) واللّٰہُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی ‘‘ اللہ تعالیٰ کی کسی خاص مشیّت اور قضاء کی مظہر تھیں۔ سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی علالت اور اس کے نتیجہ میں سفر لاہور پر اصرار کے واقعات بھی اس کی تائید میں تھے۔ مہبط انوار الہٰیہ سب سے زیادہ اس کلام کے منشاء و مقصد کو سمجھتے ہیں جو ان پر خدا کی طرف سے نازل ہوتا ہے۔ چنانچہ باوجود صاحبزادہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی اچانک بیماری اور باوجود ۲۶ ؍ اپریل ۱۹۰۸ء کے الہام
مباش ایمن از بازیٔ روزگار
کے نزول کے جس سے ہم لوگوں کے علم کے مطابق یقینی طور پر سفر کے التوا و روک کا حکم نکلتا تھا حضور نے ۲۷؍ اپریل ۱۹۰۸ء کی صبح کو سفر کا فیصلہ فرمایا اور اس طرح کلام الٰہی ’’ ستائیس کو ایک واقعہ (ہمارے متعلق) واللّٰہُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی‘‘ کی صداقت آج اور دوسری مرتبہ ایک ماہ بعد یعنی ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو جب حضور پُرنور کا جسد مبارک کفن میں لپیٹ کر لایا گیا ،ظاہر ہو گئی اور ساتھ ہی یہ امر بھی پایۂ ثبوت کو پہنچ گیا کہ مشیت ایزدی اور قضا و قدر کے اسی منشاء کے ماتحت سیدنا حضرت اقدس نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اس سفر کو اختیار فرمایا تھا تا رضاء وتسلیم کا وہ مقام جو حضور پُرنور کو حاصل تھا، دنیا عملاً دیکھ کر ایک سبق حاصل کرے۔ چنانچہ اس امر کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جب قیام لاہور کے بالکل آخری ایام یعنی صرف ایک عشرہ قبل وصال
مکن تکیہ بر عمر ناپائیدار
اور پھر صرف پانچ چھ روز قبل وصال
الرحیل ثم الرحیل والموت قریب
کی وحی حضور پر نازل ہوئی تو سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان سے متاثر ہو کر گھبرا کر حضرت کے حضور عرض کی کہ چلو واپس قادیان چلیں۔
مگر حضور نے یہی جواب دیاکہ
اب تو جب خدا لے جائے گا چلیں گے ہمارا اپنا اختیار کچھ نہیں ہے
ورنہ اگر صرف حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مرضی و خواہش ہی اس سفر کا موجب ہوتی تو یہ ایسا موقعہ تھا کہ حضو ر فوراً واپسی کا حکم دے دیتے مگر حضور پر نور کا یہ جواب بڑی صفائی سے میرے خیال کی تصدیق کرتا ہے۔ اس امر کی مزید ایک دلیل کہ حضور کو آنے والے واقعہ کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا تھا، کئی رنگ میں ملتی ہے۔ یہ ایک امر واقعہ ہے کہ حضور کو مہمان نوازی کا کمال اشتیاق تھا اور مہمانوں کو حضور حتی الوسع جلدی سے رخصت و اجازت نہ دینا چاہتے تھے بلکہ حضور کی دلی خواہش ہوا کرتی تھی کہ مہمان زیادہ سے زیادہ حضور کی صحبت میں رہیں تا ان کے ایمان تازہ و مضبوط ہوں اور زندہ خدا کے تازہ نشان ان کے عرفان میں زیادتی کریں مگر اس سفر میں حضور کی یہ خواہش خصوصیت سے اپنے کمال پر تھی اور مہمانوں سے بڑھ کر اپنے خدام اور غلاموں تک کو جداہی نہ کرنا چاہتے تھے بلکہ ضرورت کو بھی کسی دوسرے رنگ میں پورا کر لینے کی ہدایت فرماتے تا خدام حضور سے تھوڑے وقت کے لئے بھی جدا نہ ہوں۔ چنانچہ مکرمی مفتی فضل الرحمن صاحب کو ان کے گھر والوں کی تکلیف وغیرہ کی اطلاع پر فرمایا کہ ؛
’’ میاں فضل الرحمن کیا اچھا ہو کہ آپ کو جانا بھی نہ پڑے اور آپ کے گھر والے آ بھی جائیں ۔‘‘
اور خدا کی شان کہ حضور کی یہ خواہش اسی رنگ میںپوری ہو گئی اور مکرمی مفتی صاحب کے گھر والے ان کی شدید بیماری کی غلط خبر پا کر از خود ہی لاہور سٹیشن پر پہنچ گئے۔ جن کی آمد کی اطلاع حضور تک کسی خادم کے ذریعہ پہنچی اور حضور نے اپنی سواری بھیج کر ان کو سٹیشن سے مکان پر منگا لیا۔ اسی طرح خود مَیں نے ایک عریضہ ضرورتاً حضرت کے حضور لکھ کر خواہش کی تھی کہ مجھے قادیان آکر گھر والوں کو کسی محفوظ جگہ رکھنے کی اجازت دی جاوے۔ جس پر زیادہ سے زیادہ ایک دن خرچ ہوتا مگر حضور نے اتنا بھی گوارا نہ فرمایا۔میرا عریضہ اور حضور کا جواب اصحاب بصیرت کے لئے موجب تسکین و عرفان ہو گا ،جو درج ذیل ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
آقائی و مولائی فداک روحی ایدکم اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضور قادیان سے حضور کی خادمہ کا آج ہی خط آیا ہے کہ رات کے وقت ہمیں تنہائی کی وجہ سے خوف آتا ہے۔ کیونکہ جس مکان میں میں رہتا ہوں وہ بالکل باہر ہے۔ لہٰذا اگر حکم ہو اور حضور اجازت دیں تو میں جا کر ان کو کسی دوسرے مکان میں تبدیل کر آئوں یا اگر حضور کے دولت سرائے میں کوئی کوٹھڑی خالی ہو تو وہاں چھوڑ آئوں۔ جیسا حکم ہو تعمیل کی جاوے۔ حضور کی دعائوں کا محتاج۔ خادم در
عبدالرحمن قادیانی احمدی
۸؍۵؍۱۴
جواب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ابھی جانا مناسب نہیں ہے۔ لکھ دیں کہ کسی شخص کو یعنی کسی عورت کو رات کو سلا لیا کریں یا مولوی شیر علی صاحب بندوبست کر دیں کہ کوئی لڑکا ان کے پاس سویا کرے۔ مرزا غلام احمد
ان سب سے بڑھ کر وہ واقعہ اس بات پر شاہد ہے جو ۲۵؍ مئی ۱۹۰۸ء کی رات کو گیارہ اور دو بجے کے درمیان مرض الموت کی ابتداء میں حضور نے خود سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ایک استفسار پر فرمایا جس کی تفصیل یہ ہے کہ حضور کی بیماری کی تکلیف اور کمزوری بڑھتے دیکھ کر سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے حضور سے عرض کی۔
یا اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے ؟
اس پر حضور نے فرمایا :۔
’’ وہی جو میں آپ سے کہا کرتا تھا ‘‘
اور اس کا اشارہ صاف ظاہر ہے کہ واقعۂ وصال ہی کی طرف تھا۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حضور نے سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک جائز خواہش کا احترام کرتے ہوئے ان کے اصرار کو بھی آخر کار شرف قبولیت بخش کر یہ سفر اختیار کیا تھا کیونکہ حضور کے اخلاق حمیدہ میں اپنے اہل بیت کی مرضی و خواہش کو پورا کرنے اور ان کی بات مان لینے کا پہلو اتنا نمایاں و واضح اور زبان زد خاص و عام تھا کہ جاہل واکھڑ خادمات کے دل و دماغ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے اور وہ بے ساختہ پکار اٹھتیں کہ ’’مِرجا بیوی دی بڑی مَن دا اے ‘‘
یہ امر ثبوت ہے اس بات کا کہ حضور کو اخلاق فاضلہ میں انتہائی کمال ا ور بالکل امتیازی شرف حاصل تھا۔ اور اس میں بھی دنیا کے لئے عورتوں سے حسن سلوک، حسن معاشرت، ان کی عزت و احترام اور محبت و اکرام کے عملی سبق کے علاوہ ان کے جائز حقوق اور آزادیٔ مناسب کا عملی سبق دے کر ایک اسوہ حسنہ قائم کرنا مقصود تھا کیونکہ حضور پرنور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کمال اخلاق کا اس لحاظ سے بھی کامل اور اکمل واَتم نمونہ واُسوہ تھے۔ مگر اس میں بھی کلام نہیں کہ حضور نے رضاء بالقضاء اور
مَاتَشَاؤُنَ اِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ
کا بھی اعلیٰ ترین اُسوہ و نمونہ پیش کر کے دنیا جہاں پر اپنے آخری عمل سے بھی ثابت کر دیا کہ واقعی حضور اپنے خدا میں فنا اور اسی کی رضاء کے طالب تھے۔ خدا کے برگزیدہ نبی و رسول سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی زندگی کے آخری دو تین روز ایک ایسی اہم اور مہتمم بالشان تصنیف میں مصروف رہے جس میں نسل انسانی کے لئے بے نظیر اور فقیدالمثال خدمت کا مواد اور امن عالم کے قیام کی تجاویز درج ہیں۔ جس کا نام اس شہزادہ صلح و آشتی اور امن و سلامتی نے مضمون کی مناسبت اور وقت کی ضرورت کے لحاظ سے ’’پیغام صلح ‘‘ تجویز فرمایا۔کتابت و طباعت کی خدمات کا اعزاز ہمارے محترم بزرگ میر مہدی حسین صاحب کے حصہ آیا اور حضور نے بھری مجلس میں میر صاحب موصوف کی خدمات متعلقہ ، طباعت چشمۂ معرفت کا ذکر خیر فرماتے ہوئے فرمایا کہ
’’ یہ کام بھی ہم میر مہدی حسین کے سپرد کرتے ہیں ‘‘
چنانچہ ایک کاپی ۲۴ ؍ مئی ۱۹۰۸ء ؁کو تیار کرا کر میر صاحب موصوف برفاقت مکرمی شیخ رحمت اللہ صاحب و حکیم محمدحسین صاحب قریشی کارکنان نولکشور پریس کو دے کر پروف کے واسطے تاکید کر آئے۔ دوسرے دن پروف لینے گئے مگر منتظمین نے کسی خوردسال بچہ کی موت کا عذر کر کے اگلے دن کا وعدہ کیا۔ ادھر دوسری کاپی تیار تھی مگر وہ پریس کو نہ دی گئی اس خیال سے کہ پہلا پروف آجائے تو دوسری کاپی دی جائے گی۔ ۲۵؍ مئی ۸ء ؁ و عصر کے وقت اندر سے دادی آئیں اور میر مہدی حسین صاحب کو مخاطب کر کے بآواز بلند کہا حضرت صاحب فرماتے ہیں ’’ آج ہم تو اپنا کام ختم کر چکے۔ ‘‘مکرمہ دادی صاحبہ والدہ مکرمی میاں شادی خان صاحب مرحوم نے جس خوشی اوربشاشت سے یہ خبر آکے سنائی وہ تو اس تصنیف کے اتمام سے متعلق تھی اور بالکل ایسی ہی تھی جیسے کسی اہم کام کے سر انجام پہنچنے پر ہوا کرتی ہے مگر یہ الفاظ سننے والوں میں سے بعض کا ماتھا ٹھنکا اور ان کے ذہن کسی دوسری طرف منتقل ہو گئے خصوصاً مکرمی میر مہدی حسین صاحب نے تو اس کو بے حد محسوس کیا۔ چنانچہ حضور پرنور کے وصال کے بعد ہمیشہ وہ اس فقرہ کو دہرایا کرتے اور اپنے تاثر کا ذکر کیا کرتے ہیں۔
اس موقعہ پر میں حضور کے بعض وہ فقرات جو حضور نے اس سفر کی تقریروں میں اپنے کام کے پورا کر چکنے اور تکمیل تبلیغ سے متعلق فرمائے۔مختصراً درج کر دیتا ہوں تا دنیا کو معلوم ہو کہ خدا کا یہ برگزیدہ نبی اپنا کام پورا کرچکنے کے بعد ہی واپس بلایا گیا تھا۔
(۱) چنانچہ مورخہ ۳۰؍ اپریل ۸ ء ؁کی تقریر میں فرماتے ہیں ’’جب بات حد سے بڑھ جاتی ہے تو فیصلہ کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ ہمیں چھبیس سال ہوئے تبلیغ کرتے۔ جہاں تک ممکن تھا ہم ساری تبلیغ کر چکے ہیں۔ اب وہ خود ہی کوئی ہاتھ دکھائے اور فیصلہ کرے گا۔‘‘ (الحکم ۲۶،۳۰؍ اگست ۱۹۰۸ئ)
(۲) پھر ۲؍ مئی ۸ ء ؁ مسٹر محمد علی جعفری ایم ۔ اے وائس پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور کو مخاطب کر کے ایک لمبی تقریر فرمائی جو اخبار الحکم ۰۸۔۰۶۔۱۸ کے بڑے سائزکے نو کالموں میں درج ہے۔
فرمایا: ’’ہمارا کام صرف بات کا پہنچا دینا ہے۔ ماعلی الرسول الا البلاغ ۔ تصرف خدا کا کام ہے۔ ہم اپنی طرف سے بات کو پہنچا دینا چاہتے ہیں ایسا نہ ہو کہ ہم پوچھے جاویں کہ کیوں اچھی طرح نہیں بتایا۔ اسی واسطے ہم نے زبانی بھی لوگوں کو سنایا ہے ۔ تحریری بھی اس کام کو پورا کر دیا ہے۔ دنیا میں کوئی کم ہی ہو گا جو اب بھی یہ کہہ دے کہ اُس کو ہماری تبلیغ نہیں پہنچی یا ہمارا دعویٰ اس تک نہیں پہنچا۔‘‘ (الحکم ۰۸۔۰۶۔۱۸)
(۳) پھر اسی روز یعنی مورخہ ۲؍ مئی ۸ ء ؁کو بعد نماز عصر شہزادہ محمد ابراہیم خان صاحب کی ملاقات کے وقت تقریر فرمائی جو الحکم ۱۴ ۔ مئی ۸ء ؁کے قریباً چودہ کالموں میں شائع ہوئی تھی۔
فرمایا: ’’ہم نے اپنی زندگی میں کوئی کام دنیوی نہیں رکھا۔ہم قادیان میں ہوں یا لاہور میں۔ جہاں ہوں ہمارے انفاس اللہ ہی کی راہ میں ہیں۔ معقولی رنگ میں اور منقولی طور سے تو اب ہم اپنے کام کو ختم کر چکے ہیں۔ کوئی پہلو ایسا نہیں رہ گیا جس کو ہم نے پورا نہ کیا ہو۔ البتہ اب تو ہماری طرف سے دعائیں باقی ہیں۔
(۴) مورخہ ۱۷؍ مئی ۸ ء ؁کو گیارہ بجے قبل دوپہر سے ایک ڈیڑھ بجے بعد دوپہر تک حضور نے ایک تقریر رئوسا و عمائد لاہور و مضافات کے سامنے فرمائی جو بڑے سائز کے ۳۶ کالموں میں چھپی ۔ اور یہ وہ تقریر ہے جس کا نام ہی تکمیل التبلیغ و اتمام الحجّۃ اور نام ہی سے تقریر کا خلاصہ مطلب عیاں ہے۔ (الحکم ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ نمبر ۱ کالم نمبر ۲)
(۵) پھر ۱۹؍ مئی ۸ء ؁کو عبدالحکیم کی کتاب کا ذکر تھا کہ اس نے بہت سے اعتراض کئے ہیں ۔
فرمایا: ’’ہم نے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے ۔ بحثیں ہو چکیں۔ کتابیں مفصل لکھی جا چکی ہیں۔ اب بحث میں پڑنا فضولیوں میں داخل ہے۔ ‘‘ (بدر ۲۴؍ مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۷ کالم نمبر ۲)
ان کے علاوہ اور بھی بعض تقاریر میں زبانی طور سے یاد پڑتا ہے کہ حضور نے بڑے زور دار الفاظ میں اس امر کا اعلان فرمایا کہ ’’ ہم تو اپنا کام کر چکے۔ اب خدا اپنا ہاتھ دکھائے گا۔ ‘‘
ممکن ہے کہ تفصیلی محنت سے ایسے اور حوالے بھی مل جائیں یا بعض احباب کی یاد داشت میری تصدیق کر دے ۔ میں اس وقت زیادہ محنت کے قابل نہیں۔
نماز عصر ہوئی اور حضور پُرنور سیر کے واسطے تشریف لے آئے۔ یہ سیر وہی سیر تھی جس کا میں اوپر ذکر کر آیا ہوں۔ آخری دن کی خاموش اور پُر معنی سیر ۔ جس کی وجہ سے طرح طرح کے خیالات پیدا ہوتے رہے۔ مگر باقی معاملات بالکل نارمل اور اپنے معمول پر تھے۔مکان پر رات کو باقاعدہ پہرہ ہوا کرتا اور ہم لوگ باری سے اس خدمت کو بجا لاتے تھے۔ ڈیوٹی والے پہرہ پر اور باقی اپنی جگہ آرام اور سیر وتفریح میں تھے۔ کوئی غیر معمولی امر درپیش نہ تھا۔اچانک گیارہ بجے مکرم حافظ حامد علی مرحوم نے مجھے جگایا۔ میں سمجھا میرے پہرے کا وقت آگیا۔ پوچھا ۔کیا ایک بج گیا ہے؟ حافظ صاحب مرحوم نے دھیمی سی آواز میں جواب دیا ۔ایک تو نہیں ِبجا۔ حضرت صاحب بیمار ہیں، تمہیں یاد فرمایا ہے۔ حضور کی بیماری کی خبر سے میں چونکا ،ہوشیار ہوا۔ نیند کے غلبہ کی غفلت اڑ گئی۔ سیڑھی ، ورانڈہ اور دالان کے چار ہی قدم کر کے فوراً حضرت کے حضور حاضر ہوا ۔سلام عرض کیا ،جواب پایا اور حضور کے پائوں کی طرف فرش پر بیٹھ کر دبانے لگا۔ کیونکہ سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت کے سرہانے چارپائی کے کونے پر بیٹھی تھیں۔ حضور نے چارپائی پر بیٹھ کر زور سے دبانے کا ارشاد فرمایا جس کی تعمیل میں پائنتی کی طرف چارپائی کے اوپر بیٹھ کر اپنی پوری طاقت اور سارے زور کے ساتھ پائوں ، پنڈلیاں، ران ، کمر اور پسلیوں کو دباتا رہا۔
حضور پُر نور اس وقت ایک چار پائی پر مکان کے بالائی حصہ کے صحن میں شرقاً غرباً لیٹے ہوئے تھے۔ سیدۃالنساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور کے سرہانے اسی چارپائی کے شمال غربی کونہ پر تشریف فرما تھیں اور حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ چار پائی کے شمالی جانب ایک کرسی پر حسب عادت خاموش سر ڈالے بیٹھے تھے۔ حضور کا جسد اطہر ٹھنڈا ،کمزور اور آواز بالکل دھیمی تھی۔ کیونکہ حضور پُر نور کو میرے پہنچنے سے پیشتر ایک بڑا اسہال ہو چکا تھا ۔ مجھ پر اس وقت یہی اثر تھا کہ حضرت اقدس کو اُسی پرانی بیماری اسہال اور بردِ ا طراف کا دورہ لاحق ہے جو اکثر دماغی کام میں انہماک اور شبانہ روز کی محنت کے نتیجہ میں ہو جایا کرتا تھا اور چونکہ ایسی تکلیف میں اکثر مجھے خدمت کی عزت نصیب ہوتی رہتی تھی جس کے بارہا میسر آنے کی وجہ سے مجھے حضرت کے جسم مبارک کی حالت کا اندازہ اور خدمت کے متعلق مزاج شناسی اور تجربہ حاصل تھا۔ چنانچہ اسی مشاہدہ ،تجربہ اور احساس کی بنا پر میں اس یقین اور بصیرت پر ہوں کہ حضور پر متواتر و مسلسل سخت دماغی محنت اور دن رات کی مصروفیت کے باعث اسی پرانی بیماری و عارضہ کا حملہ ہوا تھاجواس سے قبل بارہا حضور کی زندگی میں ہوا کرتا تھا اور یہی علامات ان تکالیف میں بھی نمایاں ہوا کرتی تھیں جو بعض اوقات کئی کئی مضبوط اور قوی غلاموں کی گھنٹوں کی محنت ، کوشش اور خدمت سے ،جو دبانے اور مالش چاپی وغیرہ کے ذریعہ کی جایا کرتی تھی، بصد مشکل زائل ہوا کرتی تھیں۔ حضور کا جسم مبارک برف کی طرح ٹھنڈا ہو جانے کے بعد گرم ہوا کرتا تھا۔ نبض کی حرکت بحال ہوا کرتی تھی۔
بعینہٖ وہی علامات آج میں نے محسوس کیں اور اسی رنگ میں حضور کے برف کی مانند ٹھنڈے جسم کو گرمانے کی ان تھک کوشش جاری رکھی۔ محترم بزرگ حافظ حامد علی صاحب مرحوم اور میاں عبدالغفار خانصاحب کابلی بھی کچھ دیر بعد میرے ساتھ شریک عمل ہوئے اور اپنی طاقت سے بڑھ کر ہر کسی نے مالش و چاپی کے ذریعہ حضور کے جسم مبارک کو گرمانے کی کوشش کی مگر لَا حَاصل ۔ جسدِ اطہر میںگرمی پیدا ہوئی نہ نبض ہی سنبھلی بلکہ جسم زیادہ ٹھنڈا اور نبض زیادہ کمزور ہوتی چلی گئی اور حضور کو پھر ایک دست ہوا جس کی وجہ سے ہم لوگ اوٹ میں ہو گئے واپس پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضور کو ایک قے بھی ہوئی اور ضعف اتنا بڑھا کہ حضور چارپائی پر گر گئے۔
سیدنا حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی اس حالت کو دیکھ کر سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کسی قدر جھک کر حضرت کے حضور عرض کیا
’’یا اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے؟ ‘‘
جس کے جواب میں حضور نے فرمایا:
’’ وہی جو میں آپ سے کہا کرتا تھا ‘‘
میرے حضرت کے حضور پہنچنے کے قریباً ایک گھنٹہ بعد حضرت مولوی صاحب کو حضور نے گھر جاکر آرام کرنے کا حکم دیا اورحضرت مولوی صاحب تعمیل ارشاد میں تشریف لے گئے مگر جب حالت زیادہ نازک اور کمزور ہوتی گئی، جسم بجائے گرم ہونے کے اور زیادہ سرد ہوتا گیا تو حضرت مولوی صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کو دوبارہ بلوایا گیا۔ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب چونکہ شہر میں دور رہتے تھے ان کو بھی آدمی بھیج کر بلوایا گیا اور جب انہوں نے پہنچ کر سلام عرض کیا تو حضور نے جواب کے بعد فرمایا۔
’’ ڈاکٹر صاحب علاج تو اب خدا ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ مگر چونکہ رعایت اسباب ضروری ہے وہ بھی کریں ۔ مگر ساتھ ہی دعائیں بھی کریں۔‘‘ چنانچہ ڈاکٹروں نے بعض انگریز ماہرین اور سول سرجن کے مشورہ سے انجیکشن کرنے کا فیصلہ کیا جو حضور کے بائیںپہلو کی پسلیوں میں دل کے اوپر کیا گیا۔ باوجود اس کے حضور کو کوئی افاقہ نہ ہوا بلکہ تین بجے رات کے قریب ایک اور دست حضور کو آگیا جس سے کمزوری اتنی بڑھی کہ ڈاکٹر اور طبیب خود بھی گھبرا گئے۔ دوبارہ ایک پچکاری٭ حضور کے اسی پہلو میں اور کی گئی۔ ان پچکاریوںسے حضور کو درد محسوس ہوا جس کی وجہ سے حضرت نے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش بھی فرمائی ۔ باوجود اس کے اس مرتبہ بھی پچکاری کرہی دی گئی ۔مجھے حضرت کی تکلیف سے سخت تکلیف ہوئی اور ڈاکٹر صاحب کی جرأت پر تعجب کہ کس دل سے انہوں نے حضرت کے جسم مبارک میں اتنا لمبا سوا لگایا ،خطرہ بجائے کم ہونے کے بڑھتا گیا جس کی وجہ سے حضور کی چارپائی صحن میں سے اٹھوا کر دالان میں شرقاً غرباً چھت کے نیچے بچھائی گئی اور خاندان کے اراکین کو بلوایا گیا۔ صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب سلمہ ربہ ،ہمارے موجودہ خلیفۃ المسیح الثانی کے اہل بیت حرم اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس شب اپنے والد بزرگوار حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آبائی مکان واقعہ پتھراں والی حویلی میں تشریف فرما، ان کو وہاں سے خود حضرت صاحبزادہ صاحب والاتبار جا کر لے آئے اور حضرت نواب صاحب قبلہ کو ان کی کوٹھی سے راتوں رات بلوا لیا گیا۔
نیند رات بھر حضرت کو بالکل نہ آئی البتہ انتہائی ضعف اور کمزوری کے باعث کبھی کبھی خاموش اور بالکل بے حس و حرکت پڑے رہتے تھے۔ نبض ڈھونڈے سے نہ ملتی تھی حتیّٰ کہ ایک مرتبہ تو یہی سمجھا گیا کہ حضور کا وصال ہو گیا جس کی وجہ سے سب پر سکتہ چھا گیامگر وقفہ سے پھر کسی قدر حرکت اور اضطراب و گھبراہٹ ہونے لگی۔ سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نہ صرف یہ کہ رات بھر آنکھوں میں کاٹی بلکہ حضرت کی خدمت اور دوائی درمن کے علاوہ بار بار نہایت ہی اضطراب اور بیقراری میں خدا کے حضور گر گر کر عاجزی و تضرّع سجدات میں بھی اور بیٹھے ،کھڑے یا چلتے پھرتے بھی دعائوں اور التجائوں ہی میں گزاری۔ جزع فزع یا شکوہ شکایت کی بجائے ہمت و استقلال اور تحمل و وقار ہمرکاب اورشامل حال نظر آتا تھا۔ اور نہ صرف خود سنبھلتے بلکہ اوروں کو بھی سنبھالتے تھے اور خاندان کی بیگمات، معصوم شہزادیوں اور بچوں کو پیار کرتے اور تسلیاں دیتے تھے۔ خاندان کے تمام اراکین حضور کی چارپائی کے سرہانے کی طرف کھڑے دعائوں میں لگے ہوئے تھے۔ سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سلمہ ربہ
٭ انجیکشن
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
موجودہ خلیفۃ المسیح الثانی، قبلہ حضرت نانا جان، قبلہ حضرت نواب صاحب اور شہزادے سبھی حضور کے گرد مختلف رنگ میں خدمات بجا لاتے ،خدا سے دعائیں کرتے اور گڑگڑاتے ہی نظر آتے تھے۔ سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد حضور پُر نُور کے دہن مبارک میں گلاب کیوڑہ یا شہد وغیرہ ڈالتے اور کہتے
’’ اے خدا میری عمر بھی ان کو دے دے ، ان کو مدتوں تک زندہ سلامت رکھ تا تیرے دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں‘‘۔ یہ اور اسی قسم کی مختلف دعائیں سیدۃ طاہرہ یَاحَیُّ یَا قَیُّوم کے نام کے واسطہ سے ایسے دردناک اور پُرسوز لہجہ میں کرتی تھیں جن کے اثر سے کلیجہ پھٹا جاتا تھا۔ اور بات برداشت سے باہر ہوئی جا رہی تھی۔ حضرات صاحبزادگان والاتبار بھی اپنی جگہ اپنے رنج و غم اور درد و الم پر قابو پائے، ضبط کئے ،بحالت کظم یاد الٰہی اور دعائوں میں مصروف تھے اور ایسا معلوم دیتا تھا کہ ان کی نظریں اس دنیا سے نکل کر کسی دوسرے عالم کی طرف اٹھ رہی ہیں اور ان کے عزائم کسی پروگرام کی تیاری میں مصروف اور وہ اپنے خدا سے کوئی نئے عہد و پیماں باندھ رہے ہیں۔
دور کہیں صبح کی اذان ہوئی جس کی بالکل دھیمی سی آواز ہمارے کانوں نے محسوس کی اور ساتھ ہی سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے باوجود انتہائی کمزوری و ضعف اور باوجود شدت کرب خود دریافت فرمایا:
’’کیا صبح ہو گئی یا اذان ہو گئی ؟‘‘
میں نے عرض کیا۔ حضور اذان ہو گئی۔ جس پر حضور پُرنور نے تیمم کی غرض سے ہاتھ بڑھائے۔ کوئی صاحب مٹی کی تلاش میں نکلے مگر حضور نے بستر کے کپڑے ہی پر ہاتھ مار کر تیمم کیا اور پھر کافی دیر تک نماز ہی میں مصروف رہے۔
اگرچہ جس وقت سے حضور بیمار ہوئے اور میں حاضر خدمت ہوا۔ میرے کان آشنا ہیں ۔میرا دماغ محفوظ رکھتا ہے اور دل اس بات کے اظہار میں بے حد لذت محسوس کرتا ہے کہ بیماری کی تکلیف اور سختی کے اوقات میں بھی حضور کی زبان مبارک سے میں نے ’’ ہائے ۔ وائے۔ میں مر گیا۔ یہ ہو گیا وہ ہو گیا ‘‘ کے نازیبا اور بے صبری کے الفاظ میں سے قطعاً قطعاً نہ صرف یہ کہ کوئی ایک لفظ بھی نہ سنا بلکہ کوئی ایسی خفیف سی حرکت بھی میں نے دیکھی ،نہ محسوس کی۔ اور جو کچھ دیکھا ، سنا ، یا محسوس کیاوہ سرتاپا نور اور کلیۃً نورٌ علیٰ نور، روح پرور ، ایمان افزا اور سبق آموزہی تھا۔ شدت کرب اور انتہائی تکلیف کے اوقات میں بھی حضور متواتر ،مسلسل اور بلا وقفہ ذکر الٰہی اور یاد خدا میں رطب اللسان تھے اور نہایت ہی صبر کے ساتھ تسبیحی کلمات شکر بجا لاتے ہوئے ان تکالیف کو برداشت کرتے رہے ۔جزع فزع یا بے حوصلگی و گھبراہٹ کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی حرکت بھی میں نے نہ دیکھی بلکہ پورے وقار اور رضا کا مقام حضور کو میسر تھا۔ وہ نور نبوت اور روحانی چمک جو شدت امراض یا مشکلات کے گھٹا ٹوپ اوقات میں بھی حضور کے چہرۂ انور پر موجود رہا کرتی تھی اور جس کو میں نے حضور کی جبینِ مبارک سے کبھی جدا ہوتے نہ دیکھا تھا۔ آج بھی برابر حضور کے رخسار اور جبین مبارک پر قائم و سلامت نظرآرہی تھی اور حضور کی روشن و درخشاں پیشانی پر کسی بل یا شِکن کا کوئی اثر بھی نہ تھا۔حضور کو علم تھا کہ خدائی وعدوں اور الٰہی وحیوں کے پورا ہونے کے سامان ہو رہے ہیں مگر باوجود اس کے نہ صرف یہ کہ حضور کو بے چینی و بیقراری یا اضطراب نہ تھا بلکہ حضور کو ایک اطمینان و سکون حاصل تھا۔ حضور کادل وصال کی لذت میں اور زبان ذکر کے ترانوں میں مشغول یہی کہہ رہی تھی۔
’’اے میرے خدا ! اے میرے پیارے اللہ اور اے میرے پیارے اور پیارے کے پیارے خدا ! سبحان اللّٰہ ، الحمد للّٰہ ، یا حیّ یا قیّوم‘‘یہی ذکر تھا اور یہی ورد جس کی لذت و سرور میں حضور پر بیماری کی تکالیف اور اضطراب و کرب ہیچ اور بے اثر تھے اور اگرچہ بتقاضائے بشریت حضور کے اعضاء طبعی اور اضطراری حرکات کر رہے تھے مگر حضور کا دل اپنے آقا کی یاد میں محو و مطمئن اور روح اس کے وصال کے لئے پرواز شوق میں مصروف تھی۔ حضور کے چہرۂ مبارک پر اطمینان اور سکون کے ساتھ اَنوارِ الٰہیہ کے آثار نمایاں تھے۔ خاندان نبوت کے علاوہ اور بھی بہت سے دوست حضور کی علالت کی خبر پا کر جمع ہو رہے تھے۔ چارپائی کے گرد ایک ہجوم حلقہ باندھے کھڑا دعائوں میں مصروف قدرت الٰہی اور بے نیازی کا رنگ دیکھ رہا تھا۔ اس بڑھتے ہوئے ہجوم کو انتظام و ترتیب میں لا کر سبھی خدام کو خدمت و قربت کا موقعہ بہم پہنچانے کی غرض سے پہرہ کا انتظام کیا گیا۔ اور باری باری چند چند دوستوں کو موقعہ زیارت اور شرف خدمت دیاجاتا تھا ۔ سورج نکل کر بلند ہو چکا تھا ۔ دھوپ میں شدت اور تیزی پیدا ہو چکی تھی۔ قریباً ۹ بجے کاوقت ہو گا کہ حضور کی بڑھتی ہوئی کمزوری اور حالت کی نزاکت کے مدنظر پوچھا گیا ۔ جس پر ہمارے آقاء نامدار فداہ روحی نے کچھ اشارہ کیا جسے سمجھ کر قلم دوات اور کاغذ حضرت کے حضور پیش ہوا اور حضور نے کچھ لکھنے کی کوشش کی مگر ضعف و نقاہت کا یہ عالم تھا کہ بہت تھوڑا لکھا جا سکا۔ اور قلم حضور کا پھسل گیا۔ حضور نے قلم اور کاغذ چھوڑ دیا۔ جس کے پڑھنے کی کوشش کی گئی مگر ناکام۔آخر مکرمی میر مہدی حسین صاحب کو دیا گیا کیونکہ ان کو حضرت کے دست مبارک کی تحریر کے پڑھنے کی زیادہ اور تازہ مشق تھی ۔چنانچہ میر صاحب محترم نے جو کچھ پڑھا وہ یہ تھا۔
’’ تکلیف یہ ہے کہ آواز نہیں نکلتی ۔دوائی پلائی جائے ۔‘‘
اور وہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات پر اس طرح یقین ہے جس طرح آیات قرآنی پر۔ کہ بالکل یہی الفاظ حضور نے تحریر فرمائے تھے مگر انجام کار چونکہ میری یاد میں اس کاغذ کا محترم حضرت پیر جی منظور محمد صاحب کے پاس پہنچنا تھا لہذا میں اس مرحلہ پر صاحب ممدوح کی خدمت میں حاضر ہوا تا اس مقدس دستاویز کے متعلق معلوم کروں۔ تو حضرت پیر صاحب نے جو کچھ فرمایا وہ یہ تھا کہ
تکلیف یہ ہے کہ آواز نہیںنکلتی…… حلق…… علاج کیا جائے…… پہلا حصہ جس پر دونوں بزرگوں کا اتفاق ہے
’’تکلیف یہ ہے کہ آواز نہیں نکلتی‘‘۔ بہر حال مسلّم ہے اور مجھے بھی پوری طرح سے یہی یاد ہے۔ اگلے حصہ کے متعلق میری یاد یہی تھی کہ وہ قیاسی تھا۔
ایک حنائی رنگ کے کاغذ پر حضور نے حسب عادت اسے تہ کر کے صرف دو چھوٹی چھوٹی سطریں لکھیں۔ یہ کاغذ حضرت کے ہاتھ سے ڈاکٹر نور محمد صاحب نے لیا اور وہی اس حالت میں سب سے پیش پیش تھے اور انہی کے بار بارکے تقاضا و اصرار پر حضرت نے کاغذ پر کچھ لکھا تھا۔ پہلے خود ڈاکٹر صاحب نے پڑھنے کی کوشش کی۔ ان سے اور وں نے لیا اور پڑھنے کی کوشش کی مگر جب دیکھا کہ کسی سے بھی پوری تحریر حضور کی پڑھی نہیں گئی تو مکرمی میر مہدی حسین صاحب کو دے کر پڑھوانے کی کوشش کی کیونکہ وہ حضرت کی طرزِ تحریر سے زیادہ واقف سمجھے گئے کچھ انہوں نے پڑھا اور آخر کار وہ دستاویز جو حضورپُرنور کی آخری دستی تحریر تھی۔ قبلہ حضرت پیر جی منظور محمد صاحب مصنف و موجد قاعدہ یسرناالقرآن کے ہاتھ آئی اور چونکہ وہ بھی سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریر کے پڑھنے کا خاص ملکہ و مہارت رکھتے تھے ،انہوں نے پڑھااور جو کچھ انہوں نے پڑھا وہ بھی اوپر درج کیا گیا ہے۔ مجھے یاد تھا کہ وہ کاغذ مبارک حضرت پیر صاحب موصوف ہی کے پاس ہے چنانچہ میں اسی خیال سے ان کی خدمت میں حاضر ہوا کہ وہ کاغذ حاصل کر کے اس کا عکس اتروا لوں مگر صاحب ممدوح نے بتایا کہ وہ کاغذ مبارک پانچ ماہ تک میرے پاس رہا اس کے بعد سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھ سے منگا لیا تھا۔ اب انہی کے پاس ہو گا۔
ڈاکٹر صاحبان نے اس مرحلہ پر ایک اور انجکشن کرنے کا فیصلہ کیا جو اسی طرح چھاتی کے بائیں جانب دل کی حرکت ظاہر کرنے والے مقام کے اوپر ہوا جس کے ساتھ گرم پانی میں ملا ہوا نمک بھی استعمال کیا گیا حضور نے بالکل اطمینان سے یہ انجکشن کرا لیا ۔کوئی گھبراہٹ ،درد یا اضطراب ظاہر نہیں ہوا۔ اس وقت بھی حاضرین نے ڈاکٹروں کے اس عمل کو ناپسند کیا کہ کیوں حضور کو اس حال میں تکلیف دیتے ہیں مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اور بجائے فائدہ و آرام ہونے یاطاقت و قوت آنے کے حضور کی کمزوری بڑھتی گئی اور نقاہت غلبہ ہی پاتی گئی۔ سیدنا حضرت نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حسب عادت سر ڈالے ایک طرف بیٹھے دعائیں کر رہے تھے اس موقعہ پر اٹھ کر خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان کی ایک تنہا کوٹھڑی میں کھٹولے پر جا بیٹھے ۔ حضرت پیر جی منظور محمد صاحب بھی حضرت کے پیچھے ہی پیچھے گئے اور حضرت کی طبیعت کے متعلق سوال کیا جس پر حضرت نورالدین نے جو فرمایا وہ یہ تھا کہ
’’ایسی بیماری کے مریض کو میں نے تو بچتے کبھی نہیں دیکھا‘‘
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حالت لحظہ بلحظہ زیادہ کمزور ،زیادہ نازک اور نڈھال ہوتی جا رہی تھی۔ خاندان نبوت کے مردو زن چھوٹے بڑے سبھی جمع تھے اور اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنہ کے واسطے دے دے کر دعا ،تضرّع اور ابتہال میں مشغول تھے۔ سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا بے قرار ہو ہو کر پکار رہی تھیں۔’’اے میرے خدا! اے ہمارے پیارے اللہ! یہ تو ہمیں چھوڑے جاتے ہیں پر تُو ہمیں نہ چھوڑیو ‘‘
سیدنا صاحبزادہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد سلمہ ربہ ،ہمارے موجودہ امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الثانی آنکھیں بند کئے ایک عزم مقبلانہ لئے
یَا حَیُّ یَا قَیُّوم ۔ یَا حَیُّ یَا قَیُّوم
کہہ کہہ کر ہمیشہ ہمیش باقی رہنے والی ذات والاصفات سے دعاء والتجاء اور رازو نیاز میں مصروف تھے۔ اور یہ تو وہ بعض الفاظ ہیں جو ہمارے کانوں میں پڑ گئے اور یاد بھی رہ گئے ورنہ خاندان کے سارے ہی اراکین بڑے بوڑھے ،بیگمات اور شہزادے شہزادیاں اپنی اپنی جگہ بڑے ہی الحاح اور عجز و انکسار سے ذکر الٰہی، یاد خدا اور دعا و التجاء میں مصروف تھے ۔ تسبیح وتہلیل اور ذکر واذکار کی ایک گونج تھی جس سے جَو بھرا معلوم دیتا اور فضا گونج رہی تھی۔ ان مقدسین کے دل و دماغ میں کیا عزائم ،کیا ارادے یا کیا کیا پاک خیالات تھے اور ان میں سے ہر ایک اپنے خدا سے کس کس رنگ میں راز و نیاز اور قول و قرار باندھنے میں مصروف تھا۔
کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا
وہ خود ہی بیان کریں تو علم ہو یا پھر ان کا خدا اظہار کرے تو پتہ چلے ورنہ ہم لوگ تو ان عزائم و خیالات کی گرد کو بھی پہنچنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ لاَ رَیب ان کے چہرے ان کے عزائم اور ارادوں کے آئینہ دار تھے مگر ان کا پڑھنا یا سمجھنا ہر کسی کا کام نہ تھا۔
خدام بھی پروانوں کی طرح اس نور الٰہی اور شمع ہدایت کے گرد جمع تھے اور ہر ایک اپنے اپنے رنگ میں مصروف دعا الٰہی جبروت اور شان بے نیازی کو دیکھ رہا تھا۔ حالت حضور کی اس مرحلہ پر پہنچ چکی تھی کہ خواتین مبارکہ اور صاحبزادگان والاتبار کے علاوہ خدام و غلاموں کی نظریں حضور کے چہر ۂ مبارک پر ہی گڑ رہی تھیں۔ محترم حکیم محمد حسین صاحب قریشی اور حافظ فضل احمد صاحب حالت کی نزاکت محسوس کر کے خودبخود حضرت اقدس کی چارپائی کے پاس بیٹھے سورہ یٰسٓ پڑھتے رہے۔ حضور کے قلب مبارک کی حرکت جو کرب کی وجہ سے پہلے تیز تھی ہلکی پڑنے لگی مگر تنفس میں سُرعت اور بے قاعدگی شروع ہو گئی اور ساتھ ہی لب ہائے مبارک کی جنبش جس سے ہم اندازہ کرتے تھے کہ حضور پُرنور اس حال میں بھی ذکر الٰہی میں مصروف ہیں، میں بھی وقفے ہونے لگے۔ اور ہوتے ہوتے بالکل بے ساختہ اور نہایت ہی بے بسی کے عالم میں میرے مونہہ سے کسی قدر اونچے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ نکل گیا کیونکہ میں نے حضور کے آخری سانس کی حرکت کو بند ہوتے محسوس کر لیا تھا اور اس کے ساتھ ہی ہر طرف سے اس مصیبت عظیمہ پر رضاء و تسلیم کے اظہار کے طور پر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کی درد بھری ندا بلند ہو گئی۔ اس وقت کم و بیش پچاس ساٹھ خدام اور خاندان نبوت کے اراکین و خواتین مبارکہ حضور پُرنور کے پلنگ کے گرد جمع ہوں گے۔ حضور کی روح اطہر تو اس قفس عنصری سے پرواز کر کے واصل بحق ہو کر اپنے محبوب حقیقی سے جا ملی اور اس طرح
جلد آ پیارے ساقی اب کچھ نہیں ہے باقی
دے شربت تلاقی حرص و ہوا یہی ہے
اپنے مقصد اصلی کو پا کر ابدی حیات، سچی راحت اور مقام رضاء و محمود پر سب سے اونچے بچھائے گئے تخت پر جا متمکن ہوئی مگر حضور کے غلام بحالت یُتم بالکل اس شیر خوار بچے کی مانند بلبلاتے اور سسکیاں لیتے نہایت ہی قابل رحم حالت میں رہ گئے جو بالکل چھوٹی عمر میں مہر مادری سے محروم کر دیا گیا ہو اور نقشہ اس وقت کا اس کی سچی کیفیت کے ساتھ الٰہی کلام ’’ اس دن سب پر اداسی چھا جائے گی‘‘ کے بالکل مطابق تھا۔
منگل کا دن ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء مطابق ۲۴ربیع الثانی۱۳۲۶ہجری المقدس دس اور ساڑھے دس بجے دن کے درمیان کا وقت اس سانحہ ارتحال اور محبوب الٰہی کے وصال کی اطلاع آن واحد میں جہاں شہر بھر میں پھیل گئی وہاں خبر رساں ایجنسیوں ، پرائیویٹ خطوط ،اخباروں اور تاروں بلکہ ریل گاڑی کے مسافروں کے ذریعہ ہندوستان کے کونہ کونہ بلکہ اکناف عالم میں بجلی کی کوند کی طرح پھیل گئی اور اس اچانک حادثہ کی وجہ سے بعض ایسے مقامات کے احمدیوں نے تو اس اطلاع کو معاندانہ پراپیگنڈا یا جھوٹ و افتراء کے خیال سے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جو دور دراز اور علیحدہ تھے۔ حضور پُرنور کا وصال کوئی معمولی حادثہ نہ تھا بلکہ موت عالم کا ایک نقشہ تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بعض برگزیدہ بندے دنیا وما فیھا کو اپنے اندر لئے ہوتے ہیں اور ان کا وجود حقیقۃً سارے عالم کا مجموعہ ہوتا ہے۔
مَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَ نَّمَا اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا
قول خداوندی بھی اسی حقیقت کی تفسیر ہے۔ دنیا ہماری آنکھوں میں اندھیر تھی اور زمین باوجود اپنی فراخی و کشائش کے ہم پر تنگ تھی اور گویا رنج و غم کے پہاڑ تلے دب جانے کے باعث ہم لوگ پاگل اور مجنون ہو رہے تھے اور کچھ سوجھتا تھا نہ حواس ٹھکانے تھے کیونکہ آج وہ مقدس وجود جس نے آکر خدا دکھایا، رسول منوائے اور نور ایمان دلوایا اچانک یوں ہم میں سے اٹھا لیا گیا کہ خدا کے بعض وعدوں کے باقی ہونے کے خیال سے بے وقت اٹھایا جانا سمجھا گیا۔ اور وہ وجود مقدس جس کا نام خود خدا نے
جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء
یعنی
پہلوانِ حضرت رب جلیل برمیاں بستہ زشوکت خنجرے
جامع کمالات انبیاء سابقین رکھ کر نہ صرف اسے ایک عالم کا مجموعہ قرار دیاتھا بلکہ اسے مظہر صفات کل انبیاء ہونے کی وجہ سے عالمین کے فضائل و برکات اور خصائص و حسنات کا حامل و عامل ہونے کی عزت و شرف سے سرفراز فرمایا تھا۔
وہ ہم سے جدا ہو گیا
وائے بر مصیبت ما۔ فانا للّٰہ وانا الیہ راجعون
سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جس صبر اور رضا بالقضاء کا نمونہ دکھایا اور جس طرح خاندان بھر کی دردمند اور رنجور و غمزدہ بیگمات کو سنبھال کر انہیں ڈھارس دی۔ سیدہ طاہرہ کا وہ نمونہ مردوں کے لئے بھی مشعل راہ بنا۔ سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب نے جس عزم و استقلال سے اس مصیبت کے پہاڑ کو برداشت کیا اور مقام شکر پر نہ صرف خود قائم رہے بلکہ جماعت کے قیام کا بھی موجب بنے وہ آپ کی اولوالعزمی اور کوہ وقاری کی ایک زندہ اور بے نظیر مثال تھی اور نہ صرف یہی بلکہ خاندان نبوت کے ہر رکن کا نمونہ خدا کے برگزیدہ نبی کی صداقت کا ایک معیار نظر آرہا تھا۔ اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بے نظیر قوت قدسی۔ اعلیٰ روحانی تربیت اور کامل تعلق باللہ کا ہر فرد خاندان ایسا شاہد ناطق اور گواہ عادل ثابت ہو رہا تھا کہ بجز کاملین اور خدا کے خاص برگزیدہ بندوں کے اس کی مثال محال ہے۔ میں حضرت مولوی صاحب مولانا نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اطلاع دینے کی غرض سے خواجہ صاحب کے مکان کی اس کوٹھڑی میں پہنچا جہاں ابھی ابھی حضرت ممدوح سیدنا حضرت اقدس کی حالت نزع کو دیکھنے کی تاب نہ لا کر چلے گئے تھے اور تنہائی میں سر نیچے ڈالے دعائوں میں مصروف تھے۔ میں نے روتے ہوئے سانحہ ارتحال کی اطلاع دی تو فرمایا :
’’تمہیں اب معلوم ہوا ؟مگر میں تو رات ہی اس نتیجہ پر پہنچ چکا تھا کیونکہ اس مرتبہ جتنا سخت حملہ حضور کو اس مرض کا ہوا اس سے قبل میں نے اتنا سخت حملہ کبھی نہ دیکھا تھا۔ ‘‘
اور فوراً اٹھ کر تشریف لے آئے۔ جبین مبارک پر بوسہ دیا۔ لوگوں کو روتے دھوتے اور غم میں نڈھال دیکھ کر نصیحت فرمائی ۔صبر کی تلقین کی۔ مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی بھی اور دوستوں کی طرح مضطرب و بیقرار زارو نزار تھے۔ حضرت مولوی صاحب کی نصیحت سے سنبھلے اور بے ساختہ جوش میں بول اٹھے۔
انت الصدیق۔ انت الصدیق ۔ انت الصدیق
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد آپ ہی اہل اور احق ہیں کہ جس طرح آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی خدمت کا مقام اور مسلمانوں کی سیادت عطا فرمائی تھی اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رفع الی اللہ کے بعد آپ صدیق اکبر ہو کر جماعت کو سنبھالیں اور حضرت اقدس کے کام کی باگ ڈور تھامیں۔ وغیرہ۔ گو حضرت مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اس قسم کی باتوں سے روک دیا۔ مگر باوجود اس کے اس وقت سے ہر کام میں آپ کی اجازت اور مرضی لی جانے لگی اور آپ ہی کے زیر ہدایت ضروری امور انجام پذیر ہونے لگے۔
سیدنا حضرت اقدس کی بیماری کی خبر جہاں احمدی احباب کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے ملتی گئی اور جہاں حضور کے غلام اور فرشتہ سیرت لوگ تکلیف کی اطلاع پا پاکر عیادت اور خدمت کو جمع ہو رہے تھے اور دوائی درمن کے علاوہ دعائوں میں لگے ہوئے تھے وہاں شیاطین اور ان کے چیلے چانٹوں کے کان میں بھی حضورپُرنور کی علالت کی اطلاعات پہنچ گئی تھیں اور حضرت کے خدام اور غلاموں کی دوڑ دھوپ کے باعث وہ لوگ حالت کی نزاکت کو بھانپ کر کثیرتعداد میں جمع ہو کر ہا۔ہو کے شورو شر۔ گالی گلوچ اور گندی بکواس میں مصروف تھے۔ وصال کی خبر پاتے ہی ان بدبخت۔ ننگ انسانیت غنڈوں نے جس غنڈہ پن کا مظاہرہ کیا اور جس طرح مکان پر حملہ آور ہوئے وہ خونخوار درندوں اور جنگلی بھیڑیوں کے حملہ سے کم نہ تھا۔ کمینگی۔ بزدلی۔ اور پست فطرتی کا جو مظاہرہ لاہور کی اس سیاہ دل ٹولی نے کیا اس کی نظیر شاید ہی دنیا نے کبھی دیکھی سنی ہو گی۔ ایسے ایسے سوانگ بھرے کہ ان کے ذکر سے کلیجہ مونہہ کو آتا ہے ۔ ایسے ایسے آوازے کسے کہ ان کے خیال سے بھی دل خون ہوتا ہے۔ جنازہ نکالا۔ سیاپا کیا اور اپنے جنازے کا اپنے ہاتھوں مونہہ کالا کر کے ایسی حرکات کیں اور وہ اودھم مچایا کہ الامان والحفیظ!قصہ کوتاہ وہ دن ہم پر یوم احزاب سے کم نہ تھاخطرہ بڑھتے بڑھتے یہاں تک بڑھ گیا تھا کہ حملہ آوروں سے مکان کے اندر داخل ہو کر بے حرمتی کرنے کا خوف پیدا ہو گیا۔ چنانچہ دوستوں نے مشورہ کے بعد حضرت مولوی صاحب کی اجازت سے پولیس کی امداد طلب کی جس نے موقعہ پر پہنچ کر ڈنڈے سے ان غنڈوں کو منتشر کیا۔ جب جا کر یہ غول بیابانی کچھ گھٹا اور کم ہوا ورنہ وہ ہر لحظہ بڑھتا ہی جا رہا تھا مگر باوجود پولیس کے انتظام کے ایک حصہ دشمنوں کا لب سڑک کھڑا گالیاں دیتا، بکواس کرتا ہی رہا۔
اصحاب حل عقد نے حضرت مولوی صاحب کے مشورہ سے تقسیم عمل کر کے دوستوں کی ڈیوٹیاں لگا دیں تا کہ ضروری کام خوش اسلوبی اور تیزی سے انجام پذیر ہو سکیں اور یہ فیصلہ ہو گیا کہ شام کی گاڑی سے جنازہ قادیان کے لئے روانہ ہو گا۔ چنانچہ جماعتوں کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کی اطلاعات کے خطوط اور تاروں کی ترسیل کا کام محترم حضرت مفتی محمد صادق صاحب انچارج ڈاک سیدنا حضرت اقدس کے سپرد ہوا۔ نعش مبارک کو ریل گاڑی کے ذریعہ بٹالہ لانے کے لئے حسب قاعدہ ریلوے طبی سرٹیفیکیٹ کی ضرورت تھی کیونکہ بعض امراض سے فوت ہونے والوں کے متعلق ریلوے کا قانون ان کی لاش کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کی اجازت نہیں دیتا اور چونکہ ڈاکٹر صاحبان رات ہی سے حضور کے علاج کے متعلق سول سرجن اور بعض دوسرے بڑے بڑے انگریز ڈاکٹروں سے مشورے کرتے چلے آرہے تھے لہٰذا مطلوبہ سرٹیفیکیٹ کے حصول میں کوئی دقت نہ ہوئی۔ گو سننے میں آیا تھا کہ دشمنوں نے اس مرحلہ پر بھی بڑی شرارت کی تھی تا کہ جنازہ قادیان نہ جا سکے اور لاش کی بے حرمتی ہوتی دیکھ کر وہ خوش ہوں۔ یہ خدمت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ و ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحبان کے ذمے لگائی گئی۔ غسل اور تجہیز و تکفین کی ڈیوٹی ڈاکٹر نور محمد صاحب اور محترم حکیم محمد حسین صاحب قریشی کو ملی۔ خاندان نبوت کے اراکین اور قافلہ کے سفر کی تیاری اور رخت سفر کا انتظام مجھ غلام اور حضرت میاں شادی خان صاحب مرحوم کے حصے آیا۔ علیٰ ہذا مال گاڑی کا ڈبہ اور سٹیشن پر کے انتظامات ریلوے کے بعض ان دوستوں کے سپرد ہوئے جن کا تعلق ریلوے سے تھا۔ اس طرح تقسیم عمل سے کام جہاں بطریق احسن انجام پذیر ہوئے وہاں جلدی بھی ہو گئے۔
سیدنا حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نعش مبارک کے غسل میں حسب ذیل دوست شریک تھے۔ ڈاکٹر نور محمد صاحب۔ حکیم محمد حسین صاحب قریشی۔ میاں شادی خان صاحب مرحوم۔ میر مہدی حسین صاحب اور خاکسار راقم الحروف عبدالرحمن قادیانی۔ غسل وغیرہ سے فارغ ہو کر جنازہ اندرونی سیڑھیوں کے راستہ اس مکان کے نچلے حصہ میں لے جایا گیا جہاں حاجی الحرمین حضرت مولوی نورالدین صاحب نے موجود الوقت دوستوں سمیت نماز جنازہ ادا کی۔ اس وقت بھی اس قدر ہجوم تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے مکان کا نچلا حصہ اندر باہر بالکل بھر گیا تھا بلکہ ایک حصہ دوستوں کا کوچہ میں کھڑا تھا۔ اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بعض شریف غیر احمدی لوگ بھی نماز جنازہ میں شریک تھے۔ چنانچہ خلیفہ رجب دین صاحب کا یہ اعلان کہ
’’ آئو لوگو! حضرت کا چہرہ مبارک دیکھ کر تسلی کر لو۔ کیسا نورانی۔ کتنا روشن اور کس قدر پاک صورت ہے۔ جن کو شبہ ہو وہ اپنا شک ابھی نکال لیں ۔ پیچھے باتیں بنانا فضول ہو گا۔‘‘ وغیرہ۔
اور درحقیقت اس اعلان کی ضرورت اشرار کی بدزبانی ۔ الزام تراشی اور بعض بیہودہ بکواس کی وجہ سے پیش آئی۔ چنانچہ اس طرح دیر تک اپنے بھی اور پرائے بھی حضور کے چہرہ انور کی زیارت کرتے رہے۔ اپنے تو خیر پرائے بھی چہرہ اقدس کی زیارت کر کے بے ساختہ سبحان اللہ ۔ ماشاء اللہ پکار اٹھتے تھے۔ نماز جنازہ حضرت پر کئی بار لاہور میں پڑھی گئی۔ جوں جوں لوگ آتے رہے چند چند مل کر نماز جنازہ پڑھتے اور زیارت سے مشرف ہوتے رہے۔ بعض ہندو شرفاء بھی حضرت کے آخری درشن کو آئے اور مہاپرش۔ دیوتا۔ مہاتما اور اوتار وغیرہ کے الفاظ بآواز بلند کہتے ہوئے نذر اخلاص و عقیدت کے پھول چڑھا گئے۔ مکرم میاں مدد خان صاحب اور ایک دو اور دوستوں کی ڈیوٹی وہاں لگائی گئی تھی۔ جب سب انتظام درست ہو گئے تو حضور کی نعش مبارک کو سٹیشن پر لے جانے کی تیاری ہوئی۔ نماز ظہر و عصر دونوں جمع کی جا چکی تھیں۔ اس موقعہ پر پھر مخالف لوگ کثرت سے جمع ہو گئے اور سبّ و شتم کرنے لگے جس کی وجہ سے جنازہ لے کر نکلنا سخت مشکل تھا۔ کیونکہ مشتعل و مفسد ہجوم سے یہ خطرہ پیدا ہو چکا تھاکہ مبادا جنازہ پر حملہ کر کے بے حرمتی کا ارتکاب کریں اور یہ خطرہ اتنا بڑھا ہوا تھا کہ مجبوراً پولیس کی مدد حاصل کرنا پڑی جس کے نتیجہ میں آخر ایک انگریز پولیس افسر معہ خاصی تعداد کنسٹیبلان نے آ کر پھر ان لوگوں کو منتشر کیا اور ساتھ ہو کر جنازہ سٹیشن پر پہنچایا جہاں ایک متعصب ہندو بابو گیٹ کیپر کی شرارت کی وجہ سے جنازہ تھوڑی دیر رکا رہا مگر ایک کالے عیسائی نے آکر اس بابو کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور جنازہ کو احترام کے ساتھ اندر لے جانے میں مدد کی۔
اس طرح سٹیشن پر تھوڑی دیر جنازہ اقدس کے رکے رہنے کی وجہ سے بھی بہتوں کا بھلا ہو گیا اور کئی لوگ زیارت سے مشرف ہوئے جن میں احمدیوں کے علاوہ ہندو شرفاء بھی تھے اور غیر احمدی بھی۔ جنازہ تابوت میں رکھ کر مخصوص گاڑی میں رکھا گیا جس کے ساتھ چند دوست سوار تھے مگر افسوس کہ ان کے نام نامی مجھے یاد نہیں۔ باقی خاندان نبوت کے اراکین اور خدام و مہمان مختلف گاڑیوں میں سوار تھے۔ گاڑی لاہور سے چھ بجے شام کے قریب چلی امرتسر کے بعض احمدی دوست بھی امرتسر سے ہمرکاب ہو گئے اور امرتسر سے چل کر دس بجے کے قریب گاڑی بٹالہ سٹیشن پر پہنچی جہاں گاڑی کے پہنچنے سے قبل بہت سے دوست بٹالہ ،قادیان اور مضافات کے موجود تھے۔ لاہور سے بٹالہ تک احمدی احباب میں پیش آمدہ حالات ہی کا تذکرہ ہوتا چلا آیا الگ الگ بھی اور مل مل کر بھی۔ دوستوں نے جماعت کے مستقبل کے متعلق ذکر اذکار جاری رکھے حتیّٰ کہ خلافت کے انتخاب کا معاملہ بھی ایک طرح سے گاڑی ہی میں حل ہو گیا تھا اور جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے مجھے یاد نہیں کہ اس بارہ میں موجود احباب میں کوئی اختلاف ہوا ہو۔
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جسد اطہر ایک لکڑی کے تابوت میں تھا جس کے اندر کافی تعداد برف کی بھری تھی اور وہ پگھل پگھل کر پانی کے قطروں کی شکل میں تابوت میں سے گرتی تھی سید احمد نور صاحب کابلی جو قادیان سے بٹالہ پہنچے تھے، وفور محبت میں بے تاب گاڑی کے اندر ہی تابوت سے جا لپٹے اور یہاں تک بڑھے کہ تابوت سے گرنے والے قطرات ہاتھ میں لے لے کر پیتے رہے۔ تابوت کچھ دیر بعد گاڑی سے اتار کر پلیٹ فارم پر رکھ لیا گیاجس کے گرد حلقہ بگوش خدام نے محبت و عقیدت کا حلقہ بنایا اور پہرہ دیتے رہے۔
خاندان نبوت کی ’’خواتین مبارکہ‘‘ معصوم بچیاں اور بچے ،شہزادے اور شہزادیاں بھی سب کے سب مردوں سے ذرا ہٹ کر اسی پلیٹ فارم کے ناہموار فرش پر جس کے کنکر پتھر کسی پہلو بھی چین نہ لینے دیتے تھے ۔ کچھ دیر کے لئے لیٹ گئے اور ہم غلاموں نے جہاں پہرہ اور نگرانی کی خدمات ادا کیں وہاں سامان کی درستی اور یکے گاڑیوں پر بار کرنے کا کام بھی ساتھ ہی ساتھ کر لیا اور اس طرح قریباً تین بجے ستائیس مئی کی صبح کو یہ غمزدہ قافلہ کچھ آگے پیچھے ہو کر خدا کے برگزیدہ نبی سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تابوت کے ہمرکاب پورے ایک ماہ کی جدائی اور ’’داغ ہجرت ‘‘ کے صدمات لئے قادیان کو روانہ ہوا۔ ستائیس اپریل ۱۹۰۸ء کو قادیان سے رخصت ہو کر پھر ستائیس مئی ۱۹۰۸ء کی صبح ہی کو قادیان پہنچا اور اس طرح خدا کے مونہہ کی وہ بات کہ ’’ ستائیس کو (ہمارے متعلق) ایک واقعہ۔ اَللّٰہُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی ‘‘ پوری ہو کر رہی ۔
جسد مبارک کو تابوت سے نکال کر چارپائی پر رکھا گیا اور اس کے ساتھ لمبے لمبے بانس باندھ کر اٹھانے والوں کے لئے زیادہ گنجائش نکال لی گئی اور اس طرح حضور کا جنازہ اپنے غلاموں کے کندھوں ہی کندھوں پر بآسانی و جلد تر دارالامان پہنچ گیا۔ بٹالہ سے روانگی کے وقت بھی تقسیم عمل کر کے احباب کی ڈیوٹیاں مختلف شعبہ جات میں تقسیم کر دی گئی تھیں۔ قادیان اور مضافات سے آنے والے خدام اور بعض لاہور، امرتسر و بٹالہ کے دوست اور مہمان حضرت اقدس کے جنازہ کے ہمرکاب تھے۔ پیدل بھی اور سوار بھی۔ قادیان کے بعض دوست بٹالہ اور دیوانی وال کے تکیہ کے درمیان آن ملے اور پھر یہ سلسلہ برابر قادیان تک جاری رہا۔ پیشوائی کو آنے والے آ آ کر شامل ہوتے گئے اور اس طرح جہاں ہجوم بڑھتا گیا، رفتار ہلکی پڑتی گئی۔ مولوی محمد علی صاحب ایم اے بھی معہ چند اور دوستوں کے سنا تھا کہ نہر او ر سوئے کے درمیان بے اختیار دھاڑیںمار مار کر روتے ہوئے ملے تھے۔ بعض دوستوں کی ڈیوٹی سامان کے گڈوں کے ساتھ لگائی گئی جو سامان کو لے کر قادیان کو روانہ ہوئے ۔میری ڈیوٹی سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہمرکاب تھی جو اپنی رتھ میں معہ بیگمات سوار تھیں اور چونکہ ابھی اندھیرا تھا ۔لہٰذا چند اور مخلصین بھی ہمرکاب تھے۔ سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد سلمہ ربہ ہمارے موجودہ خلیفۃ المسیح بھی معہ دوسرے عزیزوں کے اجالا ہو جانے تک سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سواری کے ہمرکاب رہے۔ اس قافلہ نے نماز صبح پو پھٹتے ہی اول وقت میں اس جگہ لب سڑک اداکی جہاں اے ایل او ای ہائی سکول کی ایک گرائونڈ واقع ہے اور بیرنگ ہائی سکول اس جگہ سے قریباً ایک فرلانگ جانب شرق آتا ہے۔ امام الصلوٰۃ اس مختصر سے قافلہ کے سیدنا حضرت صاحبزادہ والاتبار مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سلمہ ربہ تھے۔ سورۃ قٓ حضرت ممدوح نے اس نماز میں پڑھی۔ یہ نماز اپنی بعض کیفیات کے لحاظ سے ان چند خاص نمازوں کے شمار میں آتی ہے جو اس سے قبل مجھے اس بارہ تیرہ سالہ قیام دارالامان میں کبھی کبھار اللہ تعالیٰ کے خاص ہی فضل کے ماتحت خدا کے نبی و رسول سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اقتداء میں نصیب ہوئیں یا پھر کسی خاص ہی موقعہ پر اللہ کریم نے حضور و سرور عطا فرما کر نوازا۔ سچ مچ ہماری یہ نماز صحیح معنوں میں ایک معراج تھا۔جس میں شرف حضوری بخشا گیا۔ رقت و سوز کا یہ عالم تھا کہ روح پگھل کر آستانہ الوہیت پہ بہنے لگی اور دل نرم ہو کر پارہ بنا جا رہا تھا۔ آتش محبت میں ایسی تیزی اور حدت پیدا ہوئی کہ ماسوا اللہ کے خیالات جل کر راکھ ہو گئے اور وحدت ذاتی نے یوں اپنی چادر توحید میں لپیٹ لیا کہ ہمارا کچھ بھی باقی نہ رہا اور ہم اپنے خدا میں فنا ہو گئے۔ یہ سب کچھ اس مقدس ہستی کی تقدیس اور پاک خیالات سے لبریز روحانی لہروں کا اثر تھا جو اس پاک نفس ہستی کے قلب صافی سے نکل کر اثر انداز ہو رہی تھیں اور جن سے سارے ہی مقتدین علیٰ قدر مراتب متاثر ہورہے تھے ۔جس کو خدائے علیم و خبیر نے ایک عرصہ پہلے ’’نورآتا ہے نور‘‘کا مصداق قرار دے کر غفلت و گناہ کے اسیروں کی رستگاری کا موجب بنا کر نوازا۔ قرا ء ت میں آپ کا درد بھرا لہجہ لحن دائودی بن کر پتھر کو موم اور نار کو گلزار بنا رہا تھا۔ جس کی نہ مٹنے والی لذت و سرور آج اکتیس بتیس برس بعد بھی میں ویسے ہی محسوس کر رہاہوں جیسے اس روز۔ مجھے اس بات کا تو اندیشہ نہیں کہ نعوذ باللہ میں کسی غلویا مبالغہ آمیزی سے کام لے کر بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہوں بلکہ اندیشہ ہے تو یہ کہ مبادا اپنی کمزوریٔ بیان و تحریر کی وجہ سے اصل حقیقت کے اظہار سے قاصر رہ جانے کے باعث حق پوشی کا مجرم نہ بن جائوں۔ اور حق بھی یہی ہے کہ مجھے یہی خطرہ بڑھا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ میں اس روحانی لذت و سرور کی صحیح تصویر دکھانے سے عاجز اور ان تاثرات کے اظہارسے عاری ہوں جو مجھے اس نماز میں نصیب ہوئے اور آج تک میں برابر ان اثرات کو محسوس کرتا۔ ان کی مہک اور خوشبو سونگھتا اور لذت اٹھاتا چلا آرہا ہوں۔
 
Top