• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی شبہات کے جوابات (کامل )

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
سے باندھ دیا۔ پھر اندر داخل ہوئے اور فرشتوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ انہوں نے پوچھا کہ اے جبریل ! یہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ جواب دیا کہ یہ محمد ﷺ خاتم النبیین ہیں۔‘‘}
۱۲……’’ عن علی ؓفی شمائلہ ﷺوبین کتفیہ خاتم النبوۃ وخاتم النبیین۰ شمائل ترمذی ص ۳ ‘‘ { حضرت علی ؓ آنحضرت ﷺ کے شمائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کے شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی اور آپ ﷺ خاتم النبیین تھے۔}
۱۳……’’ عن ابن عباس ؓ فی حدیث الشفاعۃ فیأتون عیسی فیقولون اشفع لنا الی ربنا حتی یقضی بیننا فیقول انی لست ھناکم انی اتخذت وامی الھین من دون اﷲ ولکن ارائیتم لو ان متاعا فی وعاء قد ختم علیہ اکان یوصل ای مافی الوعاء حتی یفض الخاتم فیقولون لا فیقول فان محمد ﷺ قد حضر الیوم۔ مسند ابودائود طیالسی ص ۳۵۴‘‘ {حضرت ابن عباسؓ سے حدیث شفاعت میں مروی ہے کہ (حضرت آدم ‘ حضرت نوح‘ حضرت ابراھیم‘ حضرت موسیٰ‘ علیٰ نبینا وعلیہم السلام کے بعد) لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو آپ یہ عذر کریں گے کہ مجھے اور میری والدہ کو اﷲ تعالیٰ کے سوا معبود بنایا گیا ۔ اس لئے میں اس کا اہل نہیں۔ پھر فرمائیں گے کہ اچھا یہ بتائو کہ اگر کچھ سامان کسی ایسے برتن میں ہو جسے سربمہر کردیا گیا ہو جب تک مہر کو نہ توڑا جائے کیا اس برتن کے اندر کی چیز تک رسائی ممکن ہے؟ حاضرین اس کا جواب نفی میں دیں گے تو آپ فرمائیں گے کہ پھر محمدﷺ آج یہاں موجود ہیں ان کی خدمت میں جائو۔ }
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اس تشبیہ سے مقصد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ خاتم النبیین ہیں۔ لہذا جب تک نبیوں کی مہر کو نہ کھولا جائے اور آپ ﷺ شفاعت کا آغاز نہ فرمائیں تب تک انبیاء علیہم السلام کی شفاعت کا دروازہ نہیں کھل سکتا۔ اور نہ ہی کسی نبی کی شفاعت کا حصول ممکن ہے۔ لہذا تم لوگ سب سے پہلے حضرت خاتم النبیین ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو۔ پہلے ’’ نبیوں کی مہر‘‘ کو کھولو ۔ آپ ﷺ سے شفاعت کا آغاز کرائو۔ تب کسی اور نبی کی شفاعت ممکن ہے۔ واﷲ اعلم۔
۱۴……’’عن ابی امامۃ الباھلی ؓ عن النبی ﷺ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔قال انا آخر الانبیاء وانتم آخرالامم۔ ابن ماجہ ص ۲۹۷‘‘ { حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔}
۱۵……’’ حضرت ابوقتیلہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا:
’’ لانبی بعدی ولا امۃ بعدکم ۰ مجمع الزوائد ص ۲۷۳ ج۳کنز العمال ص ۹۴۷ ج ۱۵ حدیث نمبر ۴۳۶۳۸‘‘ {میرے بعد کوئی نبی نہیںاور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔}
۱۶……’’ امام بیہقی ؒ نے کتاب الرؤیا میں حضرت ضحاک بن نوفل ؓ کی حدیث روایت کی ہے کہ:
’’ قال قال رسول اﷲ ﷺ لانبی بعدی ولاامۃ بعد امتی ۰ ختم نبوت کامل ص ۲۷۲‘‘ {رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری امت کے بعد کوئی امت نہیں۔}
۱۷……’’ طبرانی وبیہقی ؒ نے ابن زمیل ؓ کی حدیث نقل کی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے ایک خواب کی تعبیر ارشاد فرمائی ۔ اس کا آخری حصہ یہ ہے:
’’ واما الناقۃ فھی الساعۃ علینا تقوم لانبی بعدی ولا امۃ بعدی امتی۰خصائص کبری سیوطی ص ۱۷۸ ج ۲‘‘ {لیکن اونٹنی (جس کو تم نے مجھے اٹھاتے ہوئے دیکھا) پس وہ قیامت ہے وہ ہم پر قائم ہوگی۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں اورمیری امت کے بعد کوئی امت نہیں۔}
۱۸……’’ عن ابی ذر ؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ یا اباذر اول الرسل آدم وآخر ھم محمد ۰ کنزالعمال ص ۴۸۰ ج ۱۱ حدیث نمبر ۳۲۲۶۹‘‘ {حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ابو ذر ! نبیوں میں سب سے پہلے نبی آدم
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
ہیں اور سب سے آخری نبی محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) ہیں۔}

حدیث نمبر۸​

’’ عن عقبۃ بن عامر ؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ لوکان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب ۰ ترمذی ص ۲۰۹ ج ۲ ‘‘ {حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ؓ ہوتے۔}
یہ حدیث حضرت عقبہ بن عامرؓ کے علاوہ مندرجہ ذیل حضرات سے بھی مروی ہے:
۱……حضرت ابوسعید خدری ؓ (فتح الباری ص ۵۱ ج ۷‘ مجمع الزوائد ص ۶۸ج۹)
۲…… عصمہ بن مالک ؓ (مجمع الزوائد ص ۶۸ج۹)
’’ لو ‘‘ کا لفظ فرض محال کے لئے آتا ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ میں نبوت کی صلاحیت کامل طور پر پائی جاتی ہے۔ مگر چونکہ آپﷺ کے بعد کسی کا نبی ہونا محال ہے اس لئے باوجود صلاحیت کے حضرت عمر ؓ نبی نہیں بن سکے۔ امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ ؒ فرماتے ہیں:
’’ درشان حضرت فاروقؓ فرمودہ است علیہ وعلیٰ الہ الصلوٰۃ والسلام ’’ لوکان بعدی نبی لکان عمر ؓ‘‘ یعنی لوازم وکمالاتیکہ درنبوت درکار است ہمہ راعمرؓدارد اما چوںمنصب نبوت بخاتم الرسل ﷺ ختم شدہ است علیہ وعلیٰ الہ الصلوٰۃ والسلام بدولت منصب نبوۃ مشرف نگشت۰ مکتوب ۲۴ ص ۲۳ دفتر سوم‘‘ {حضرت فاروق اعظمؓ کی شان میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا :’’ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا توعمرؓ ہوتے۔‘‘ یعنی وہ تمام لوازمات وکمالات جو نبوت کے لئے درکار ہیں سب حضرت عمر ؓ میں موجود ہیں۔لیکن چونکہ منصب نبوت خاتم الرسل ﷺ پرختم ہوچکا ہے اس لئے وہ منصب نبوت کی دولت سے مشرف نہیں ہوئے۔}

حدیث نمبر۹​

’’عن جبیر بن مطعم ؓ قال سمعت النبی ﷺ یقول ان لی اسمائ‘ انا محمد‘ وانا احمد ‘ وانا الماحی الذی یمحواﷲ بی الکفر‘ وانا الحاشر الذی یحشر الناس علی قدمی‘ وانا العاقب والعاقب الذی لیس بعدہ نبی (متفق علیہ)مشکوٰۃ ص ۵۱۵‘‘ {حضرت جبیر بن معطم ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے خودسنا ہے کہ میرے چند نام ہیں۔ میں محمد ہوں‘ میں احمد ہوں‘ میں ماحی (مٹانے والا) ہوں۔ کہ میرے ذریعے اﷲ تعالیٰ کفر کو مٹائیں گے۔ اور میں حاشر (جمع کرنے والا) ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے اور میں عاقب (سب کے بعد آنے والا) ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ }
اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کے دو اسمائے گرامی آپ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کی دلالت کرتے ہیں۔ اول ’’ الحاشر ‘‘ حافظ ابن حجر ؒ فتح الباری میں اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ بشارۃ الی انہ لیس بعدہ نبی ولا شریعۃ ۔۔۔۔۔۔ فلما کان لا امۃ بعد امتہ لانہ لا نبی بعدہ‘ نسب الحشر الیہ لانہ یقع عقبہ۰ فتح الباری ص ۵۵۷ ج۶‘‘ {یہ اس طرف اشارہ ہے کہ آپﷺکے بعد کوئی نبی اور کوئی شریعت نہیں۔۔۔۔۔۔ سوچونکہ آپ ﷺ کی امت کے بعد کوئی امت نہیں اور چونکہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اس لئے حشر کو آپ ﷺ کی طرف منسوب کردیا گیا ۔ کیونکہ آپ ﷺ کی تشریف آوری کے بعد حشر ہوگا۔}
دوسر اسم گرامی ’’ العاقب ‘‘ جس کی تفسیر خود حدیث میں موجود ہے ۔ یعنی کہ :
’’ الذی لیس بعدہ نبی ۰‘‘ { آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔}
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
ہیں اور سب سے آخری نبی محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) ہیں۔}

حدیث نمبر۸​

’’ عن عقبۃ بن عامر ؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ لوکان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب ۰ ترمذی ص ۲۰۹ ج ۲ ‘‘ {حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ؓ ہوتے۔}
یہ حدیث حضرت عقبہ بن عامرؓ کے علاوہ مندرجہ ذیل حضرات سے بھی مروی ہے:
۱……حضرت ابوسعید خدری ؓ (فتح الباری ص ۵۱ ج ۷‘ مجمع الزوائد ص ۶۸ج۹)
۲…… عصمہ بن مالک ؓ (مجمع الزوائد ص ۶۸ج۹)
’’ لو ‘‘ کا لفظ فرض محال کے لئے آتا ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ میں نبوت کی صلاحیت کامل طور پر پائی جاتی ہے۔ مگر چونکہ آپﷺ کے بعد کسی کا نبی ہونا محال ہے اس لئے باوجود صلاحیت کے حضرت عمر ؓ نبی نہیں بن سکے۔ امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ ؒ فرماتے ہیں:
’’ درشان حضرت فاروقؓ فرمودہ است علیہ وعلیٰ الہ الصلوٰۃ والسلام ’’ لوکان بعدی نبی لکان عمر ؓ‘‘ یعنی لوازم وکمالاتیکہ درنبوت درکار است ہمہ راعمرؓدارد اما چوںمنصب نبوت بخاتم الرسل ﷺ ختم شدہ است علیہ وعلیٰ الہ الصلوٰۃ والسلام بدولت منصب نبوۃ مشرف نگشت۰ مکتوب ۲۴ ص ۲۳ دفتر سوم‘‘ {حضرت فاروق اعظمؓ کی شان میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا :’’ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا توعمرؓ ہوتے۔‘‘ یعنی وہ تمام لوازمات وکمالات جو نبوت کے لئے درکار ہیں سب حضرت عمر ؓ میں موجود ہیں۔لیکن چونکہ منصب نبوت خاتم الرسل ﷺ پرختم ہوچکا ہے اس لئے وہ منصب نبوت کی دولت سے مشرف نہیں ہوئے۔}

حدیث نمبر۹​

’’عن جبیر بن مطعم ؓ قال سمعت النبی ﷺ یقول ان لی اسمائ‘ انا محمد‘ وانا احمد ‘ وانا الماحی الذی یمحواﷲ بی الکفر‘ وانا الحاشر الذی یحشر الناس علی قدمی‘ وانا العاقب والعاقب الذی لیس بعدہ نبی (متفق علیہ)مشکوٰۃ ص ۵۱۵‘‘ {حضرت جبیر بن معطم ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے خودسنا ہے کہ میرے چند نام ہیں۔ میں محمد ہوں‘ میں احمد ہوں‘ میں ماحی (مٹانے والا) ہوں۔ کہ میرے ذریعے اﷲ تعالیٰ کفر کو مٹائیں گے۔ اور میں حاشر (جمع کرنے والا) ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے اور میں عاقب (سب کے بعد آنے والا) ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ }
اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کے دو اسمائے گرامی آپ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کی دلالت کرتے ہیں۔ اول ’’ الحاشر ‘‘ حافظ ابن حجر ؒ فتح الباری میں اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ بشارۃ الی انہ لیس بعدہ نبی ولا شریعۃ ۔۔۔۔۔۔ فلما کان لا امۃ بعد امتہ لانہ لا نبی بعدہ‘ نسب الحشر الیہ لانہ یقع عقبہ۰ فتح الباری ص ۵۵۷ ج۶‘‘ {یہ اس طرف اشارہ ہے کہ آپﷺکے بعد کوئی نبی اور کوئی شریعت نہیں۔۔۔۔۔۔ سوچونکہ آپ ﷺ کی امت کے بعد کوئی امت نہیں اور چونکہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اس لئے حشر کو آپ ﷺ کی طرف منسوب کردیا گیا ۔ کیونکہ آپ ﷺ کی تشریف آوری کے بعد حشر ہوگا۔}
دوسر اسم گرامی ’’ العاقب ‘‘ جس کی تفسیر خود حدیث میں موجود ہے ۔ یعنی کہ :
’’ الذی لیس بعدہ نبی ۰‘‘ { آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔}
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
اس مضمون کی احادیث مندرجہ ذیل حضرات سے بھی مروی ہیں:
۱…… حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ ان کی حدیث کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
’’ کان رسول اﷲ ﷺ یسمی لنا نفسہ اسماء فقال انا محمد واحمد والمقفی والحاشر ونبی التوبۃ ونبی الرحمۃ۰ صحیح مسلم ص ۲۶۱ ج ۲‘‘ {آنحضرت ﷺ ہمارے سامنے چند اسمائے گرامی ذکر فرماتے تھے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا میں محمد ہوں‘ احمد ہوں‘ مقفی (سب نبیوں کے بعد آنے والا) ہوں‘ حاشر ہوں‘ نبی توبہ ہوں‘ نبی رحمت ہوں۔}
۲……حضرت حذیفہ ؓ ان کی روایت کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
’’ قال انا محمد وانا احمد وانا الرحمۃ ونبی التوبۃ وانا المقفی وانا الحاشر ونبی الملاحم۰ شمائل ترمذی ص ۲۶‘ مجمع الزوائد ص ۸۴ج۸‘‘ {فرمایا میں محمد ہوں‘ میں احمد ہوں‘ میں نبی رحمت ہوں‘ میں نبی توبہ ہوں‘ میں مقفی (سب نبیوں کے بعد آنے والا )ہوں‘ میں حاشر ہوں اور نبی ملاحم (مجاہد نبی)ہوں۔}
۳……حضرت جابر بن عبداﷲ ؓ ان کی روایت کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
’’ انا احمد وانا محمد وانا الحاشر الذی احشر الناس علی قدمی۰ مجمع الزوائد ص ۲۸۴ ج ۸‘‘ {میں محمد ہوں‘ میں احمد ہوں‘ میں حاشر ہوں کہ لوگوں کو میرے قدموں میں جمع کیا جائے گا۔}
۴…… حضرت ابن عباس ؓ ان کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
’’ وانا احمد ومحمد والحاشر والمقفی والخاتم ۰ مجمع الزوائد ص ۲۸۴ ج ۸‘‘ { میں احمد ہوں‘ محمد ہوں‘ حاشر ہوں‘ مقفی ہوں اور خاتم ہوں۔}
۵…… مرسل مجاہد ؒ ان کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
’’ انا محمد واحمد انا رسول الرحمۃ انا رسول اللملحمۃ انا المقفی والحاشر بعثت بالجھاد ولم ابعث بالزارع ۰ طبقات ابن سعد ص ۱۰۵ ج ۱‘‘ { میں محمد ہوں اور احمد ہوں‘ میں رسول رحمت ہوں ‘ میں ایسا رسول ہوں جسے جنگ کا حکم ہوا ہے۔ میں مقفی اور حاشر ہوں‘ میں جہاد کے ساتھ بھیجا گیا ہوں‘ کسان بناکر نہیں بھیجاگیا۔}
۶…… حضرت ابوالطفیلؓ فتح الباری ص ۵۵۵ ج ۶‘‘

حدیث نمبر۱۰​

متعدد احادیث میں یہ مضمون آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
’’ بعثت انا والساعۃ کھاتین‘‘ {مجھے اور قیامت کوان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے۔}
اس مضمون کی احادیث مندرجہ ذیل حضرات سے مروی ہیں :
۱…… سہل بن سعد ؓ (بخاری ص ۹۶۳ ج ۲‘ مسلم ص ۴۰۶ ج ۲)
۲…… ابوہریرہ ؓ (بخاری ص ۹۶۳ج۲)
۳…… انس بن مالکؓ (بخاری ص ۹۶۳ج۲)
۴…… مستوردبن شداد ؓ( ترمذی ص ۴۴ ج ۲)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
۵…… جابربن عبداﷲؓ(مسلم ص۲۸۴ج۱‘نسائی ص۲۳۴ج۱)
۶…… سہل بن حنیفؓ(جامع الاصول ص ۳۸۵ ج ۱۰)
۷…… بریدہ ؓ (مسند احمد ص ۳۴۸ ج ۵)
۸…… ابی جبیرہؓ (مجمع الزوائد ص ۳۱۲ ج ۱۰)
۹…… جابر بن سمرہؓ (مسند احمد ص ۱۰۳ ج ۵)
۱۰…… وہب السوائی ؓ (مجمع الزوائد ص ۳۱۱ ج ۱۰)
۱۱……ابوجحیفہؓ (کنزص ۱۹۵ ج ۱۴ ‘ مسنداحمدص ۳۰۹ ج۴)
ان احادیث میں آنحضرت ﷺ کی بعثت کے درمیان اتصال کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری قرب قیامت کی علامت ہے اور اب قیامت تک آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ چنانچہ امام قرطبی ؒ’’ تذکرہ ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ واما قولہ بعثت انا والساعۃ کھاتین فمعناہ انا النبی الا خیر فلا یلینی نبی آخر وانما تلینی القیامۃ کما تلی السبابۃ الوسطی ولیس بینھا اصبع آخری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ولیس بینی وبین القیامۃ نبی۰ التذکرۃ فی احوال الموتی وامور الآخرۃ ص ۷۱۱‘‘ {اور آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ مجھے اورقیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیںکہ میں آخری نبی ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ میرے بعد بس قیامت ہے۔ جیسا کہ انگشت شہادت درمیانی انگلی کے متصل واقع ہے۔ دونوں کے درمیان اور کوئی انگلی نہیں۔۔۔ ۔۔۔ اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی نہیں۔}
علامہ سندھی ؒ حاشیہ نسائی میں لکھتے ہیں:
’’ التشبیہ فی المقارنۃ بینھما ای لیس بینھما اصبع اخری کما انہ لا نبی بینہ ﷺوبین الساعۃ۰ حاشیہ سندھی ؒ برنسائی ص ۲۳۴ج ۱‘‘ {تشبیہ دونوں کے درمیان اتصال میں ہے۔ (یعنی دونوں کے باہم ملے ہوئے ہونے میں ہے) یعنی جس طرح ان دونوں کے درمیان کوئی اورانگلی نہیں اسی طرح آنحضرت ﷺ کے درمیان اور قیامت کے درمیان کوئی اور نبی نہیں۔}
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ نے اپنی کتاب ختم نبوت کامل کے حصہ دوم میں دو سو دس احادیث مبارکہ رحمت دو عالم ﷺ کی ختم نبوت پر نقل فرمائی ہیں۔ حضرت مفتی صاحب ؒ کے زمانہ میں بہت کم احادیث شریف کے انڈکس تیار ہوئے تھے۔ آج کل بہت زیادہ انڈکس احادیث پر مشتمل کئی کئی جلدوں کے مل جاتے ہیں۔ ان سے اس موضوع ’’ختم نبوت‘‘ کا کام لیا جائے تو دو صد دس احادیث سے کہیں زیادہ ذخیرہ احادیث ختم نبوت کے موضوع پر تیار ہوسکتا ہے: ’’ کم ترک الا ولون لآاخرون۰‘‘
اجماع کی حقیقت اور اس کی عظمت
خدائے تعالیٰ کے ہزاروں درود اس ذات مقدس پر جس کے طفیل میں ہم جیسے سراپا گناہ اور سراسر خطا وقصور بھی خیر الامم ‘ امت وسطی‘ امت مرحومہ‘ شہدائے خلق کے القاب گرامی کے ساتھ پکارے جاتے ہیں:؎
کہ دار دزیر گردوں میر سامانے کہ من دارم
وہ بے شمار خدا وندی انعام واکرام جو ہمارے آقائے نامدار ﷺ کی بدولت ہم پر مبذول ہوئے ہیں۔ اجماع امت بھی ان میں سے ایک امتیازی فضلیت ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ اس امت کے علمائے مجتہدین اگر کسی مسئلہ میں ایک حکم پر اتفاق کرلیں تو یہ حکم بھی ایسا ہی واجب الاتباع اور واجب التعمیل ہوتا ہے جیسے قرآن وحدیث کے صریح احکام۔ جس کی حقیقت دوسرے عنوان سے یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ پر جب نبوت ختم کردی گئی تو آ پ ﷺ کے بعد کوئی ہستی معصوم باقی نہیں
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
رہتی جس کے حکم کو غلطی سے پاک اور ٹھیک حکم خدا وندی کا ترجمان کہا جاسکے۔ اس لئے رحمت خدا وندی نے امت محمد یہ کے مجموعہ کو ایک نبی معصوم کا درجہ دے دیا ۔ کہ ساری امت جس چیز کے اچھے یا برے ہونے پر متفق ہوجائے وہ علامت اس کی ہے کہ یہ کام اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ایسا ہی ہے جیسا امت کے مجموعہ نے سمجھا ہے۔
اسی بات کو رسول کریم ﷺ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے:
’’ لن تجتمع امتی علی الضلالۃ۰‘‘ {یعنی میری امت کا مجموعہ کبھی گمراہی پر متفق نہیں ہوسکتا۔}
اسی لئے اصول کی کتابوں میں اس کے حجت ہونے اور اس کے شرائط ولوازم پر مفصل بحث کی جاتی ہے۔ اور احکام شرعیہ کی حجتوں میں قرآن وحدیث کے بعد تیسرے نمبرپر اجماع کو رکھا جاتا ہے۔

اجماع بھی دراصل دلیل ختم نبوت ہے​


درحقیقت اجماع کا شرعی حجتوں میں داخل ہونا اور اس امت کے لئے مخصوص ہونا خود بھی ہمارے زیر بحث مسئلہ ختم نبوت کی روشن دلیل ہے۔ جیسا کہ صاحب توضیح لکھتے ہیں:
’’وما اتفق علیہ المجتہدون من امۃ محمد ﷺ فی عصر علیٰ امرفھذامن خواص امۃ محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام فانہ خاتم النبیین لاوحی بعدہ وقد قال اﷲ تعالیٰ الیوم اکملت لکم دینکم ولاشک ان الا حکام التی تثبت بصریح الوحی بالنسبۃ الی الحوادث الواقعۃ قلیلۃ غایۃ القلۃ فلو لم تعلم احکام تلک الحوادث من الوحی الصریح وبقیت احکامھا مھملۃ لا یکون الذین کا ملا فلا بد ان یکون للمجتھدین ولا یۃ استنباط احکا مھا من الوحی۰توضیح مصری ص ۴۹ ج ۱ ‘‘ {اور وہ حکم جس پر محمد ﷺ کی امت کے مجہتدین کا کسی زمانہ میں اتفاق ہوجائے اس کا واجب التعمیل ہونا اس امت کی خصوصیات میں سے ہے۔ کیونکہ آپﷺ خاتم النبیین ہیں۔ اور آپ ﷺ کے بعد کسی پر وحی نہیں آئے گی اور ادھر یہ اشارہ خدا وندی ہے کہ ہم نے تمہارا دین کامل کردیا ہے اور اس میں بھی شک نہیں بلکہ جو احکام صریح وحی سے ثابت ہوئے ہیں وہ بہ نسبت روز مرہ کے پیش آنے والے واقعات کے نہایت قلیل ہیں۔ پس جب ان واقعات کے احکام وحی صریح سے معلوم نہ ہوئے (اب اگر اجماع وقیاس کو حجت نہ بنایا جائے )اور شریعت میں ان واقعات کے متعلق احکام نہ ہوں تو دین کامل نہیں رہتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس امت کے مجتہدین کو وحی(رہنمائی) سے ان احکام کے استنباط کرنے کا حق حاصل ہو۔}
الغرض جس طرح قرآن وحدیث سے احکام شرعیہ ثابت ہوئے ہیں اسی طرح بتصریح نصوص قرآن وحدیث اور باتفاق علمائے امت اجماع سے قطعی احکام ثابت ہوتے ہیں۔ البتہ اس میں چند درجات ہیں۔ جن میں سب سے مقدم اور سب سے زیادہ قطعی اجماع صحابہ کرام ؓ ہے۔ جس کے متعلق علمائے اصول کا اتفاق ہے کہ اگر کسی مسئلہ پر تمام صحابہ کرام ؓ کی آراء بالتصریح جمع ہوجائیں تو وہ بالکل ایسا ہی قطعی ہے جیسا کہ قران مجید کی آیات ۔ اور اگر یہ صورت ہوکہ بعض نے اپنی رائے بیان فرمائی اور باقی صحابہ کرام ؓ نے اس کی تردید نہ کی بلکہ سکوت اختیار کیا۔ تو یہ بھی اجماع صحابہ کرام ؓ میں داخل ہے اور اس سے جو حکم ثابت ہو وہ بالکل ایسا ہی قطعی ہے جیسے احادیث متواترہ کے احکام قطعی ہوتے ہیں۔
بلکہ اگر غور سے کام لیا جائے تو تمام ادلہ شرعیہ میں سب سے زیادہ فیصلہ کن دلیل ہے اور بعض حیثیات سے تمامحججشرعیہ پر مقدم ہے۔ کیونکہ قرآن وسنت کے مفہوم ومعنی متعین کرنے میں آراء مختلف ہوسکتی ہیں۔ اجماع میں اس کی بھی گنجائش نہیں۔ چنانچہ حافظ حدیث علامہ ابن تیمیہ تحریر فرماتے ہیں:
’’واجماعھم حجۃ قاطعۃ یجب اتبا عھا بل ھی اوکد الحجج وھی مقدمۃ علیٰ غیرھا ولیس ھذا موضع تقریر ذالک فان ھذا الا صل مقرر فی موضعہ ولیس فیہ بین الفقھاء ولا بین سائر المؤمنین الذین ھم المؤمنون خلاف ۰ اقامۃ الدلیل ص ۱۳۰ج۳‘‘ {اور اجماع صحابہ حجت قطعیہ ہے اس کا اتباع فرض ہے بلکہ وہ تمام شرعی حجتوں سے زیادہ موکد اور سب سے مقدم ہے۔ یہ موقع اس
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
بحث کے پھیلانے کا نہیں۔ کیونکہ ایسے موقعے (یعنی کتب اصول) میں یہ بات باتفاق اہل علم ثابت ہوچکی ہے۔ اور اس میں تمام فقہاء اور تمام مسلمانوں میں جو واقعی مسلمان ہیں کسی کا بھی خلاف نہیں۔}

صحابہ کرام ؓ کا سب سے پہلا اجماع​


اسلامی تاریخ میں یہ بات درجہ تواتر کو پہنچ چکی ہے کہ مسیلمہ کذاب نے آنحضرت ﷺ کی موجودگی میں دعوائے نبوت کیا۔ اور بڑی جماعت اس کی پیروہوگئی۔اور آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد سب سے پہلی مہم جہاد جو صدیق اکبرؓ نے اپنی خلافت میں کی وہ اسی کی جماعت پر تھا۔جمہورصحابہ کرام ؓ مہاجرین وانصار نے اس کو محض دعوائے نبوت کی وجہ سے اور اس کی جماعت کو اس کی تصدیق کی بناء پر کافر سمجھا۔ اور باجماع صحابہ ؓ وتابعینؒ ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا گیا جو کفار کے ساتھ کیاجاتا ہے۔ اور یہی اسلام میں سب سے پہلا اجماع تھا۔ حالانکہ مسیلمہ کذاب بھی مرزا قادیانی کی طرح آنحضرت ﷺ کی نبوت اور قرآن کا منکر نہ تھا بلکہ بعینہ مرزا قادیانی کی طرح آپ ﷺ کی نبوت پر ایمان لانے کے ساتھ اپنی نبوت کا مدعی تھا۔ یہاں تک کہ اس کی اذان میں برابر ’’ اشھد ان محمد رسول اﷲ‘‘ پکارا جاتا تھا۔اور وہ خود بھی بوقت اذان اس کی شہادت دیتا تھا۔ تاریخ طبری میں ہے:
’’ وکان یؤذن للنبی ﷺ وشھد فی الا ذان ان محمد رسول اﷲوکان الذی یؤذن لہ عبداﷲ بن النواحۃ وکان الذی یقیم لہ حجیربن عمیر ویشھد لہ وکان مسیلمہ اذادنی حجیر من الشھادۃ قال صرح حجیر فیزید فی صوت ویبالغ التصدیق نفسہ۰ تاریخ طبری ص ۲۴۴ ج ۳‘‘ {وہ (مسیلمہ) نبی کریم ﷺ کے لئے اذان میں یہ گواہی دیتا تھا کہ محمد رسول اﷲ ہیں اور اس کا موذن عبداﷲ ابن نواحہ اور اقامت کہنے والا حجیر ابن عمیر تھا۔ اور جب حجیر شہادت پر پہنچتا تھا تو مسیلمہ بآواز بلند کہتا تھا کہ حجیر نے صاف بات کہی اور پھر اس کی تصدیق کرتا تھا۔}
الغرض نبوت وقرآن پر ایمان اور نماز روزہ سب ہی کچھ تھا۔ مگر ختم نبوت کے بدیہی مسئلہ کے انکار اور دعوائے نبوت کی وجہ سے باجماع صحابہ کرام ؓ کافر سمجھا گیا اور حضرت صدیق اکبرؓ نے صحابہ کرام ؓ مہاجرین وانصار اور تابعین کا ایک عظیم الشان لشکر حضرت خالد بن ولیدؓ کی امارت میں مسیلمہ کے ساتھ جہاد کے لئے یمامہ کی طرف روانہ کیا۔
جمہور صحابہ کرام ؓمیں سے کسی ایک نے بھی اس کا انکار نہ کیا اور کسی نے نہ کہا کہ یہ لوگ اہل قبلہ ہیں‘ کلمہ گو ہیں‘ قرآن پڑھتے ہیں‘ نماز ‘روزہ ‘ حج‘ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں‘ ان کوکیسے کافر سمجھ لیا جائے؟۔ حضرت فاروق اعظم ؓ کا ابتدائ خلاف کرنا اوربعد تحقیق حق کے صدیق اکبرؓ کے ساتھ موافقت کرنا جو روایات میں منقول ہے وہ بھی اس واقعہ میں نہیں تھا۔ بلکہ مانعین زکوٰۃ پر جہاد کرنے کے معاملہ میں تھا۔
بعض لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے بعد زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کیا تھا۔ صدیق اکبر ؓ نے ان پر جہاد کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت فاروق اعظم ؓ نے وقت کی نزاکت اور مسلمانوں کی قلت وضعف کا عذر پیش کرکے ابتدائ ان کی رائے سے خلاف ظاہر فرمایا تھا۔ لیکن حضرت صدیق اکبر ؓکے ساتھ تھوڑے سے مکالمہ کے بعد ان کی رائے بھی موافق ہوگئی ۔
الغرض حضرت فاروق اعظم ؓ کا ابتدائ خلاف کرنا بھی مسیلمہ کذاب کے واقعہ میں ثابت نہیں۔ اس طرح حضرت اسامہ ؓ کے لشکر کی روانگی کے مسئلہ پر بھی حضرت عمر ؓنے اختلاف کیا۔ مگر مسیلمہ کذاب جھوٹے مدعی نبوت کے خلاف جہاد کرنے کے مسئلہ پر کسی ایک صحابی ؓنے بھی اختلاف نہیں کیا۔یہ دلیل ہے کہ سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر منعقد ہوا۔ امت کو اجماع‘ ختم نبوت کے صدقے ملا۔ امت نے بھی سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر کیا۔۱۲ سو صحابہ کرام ؓ اسی جنگ میں شہید ہوئے۔ جن میں سات سو قرآن مجید کے حافظ وقاری تھے۔رحمت دو عالم ﷺ کی امت کا سب سے قیمتی اثاثہ صحابہ کرام ؓ اس مسئلہ پر شہید ہوئے جس سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ ختم نبوت کی صحابہ کرام ؓ کے نزدیک کتنی اہمیت تھی۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
نیز مسلک الختام فی ختم نبوت سیدالانام کے ص ۱۰ پر حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی ؒ نے صراحت فرمائی ہے کہ :
امت محمدیہ میں سب سے پہلا اجماع جو ہوا ہے وہ اس مسئلہ پر ہوا کہ مدعی نبوت قتل کیا جائے۔‘‘ (احتساب قادیانیت ج دوم مجموعہ رسائل مولانا ادریس کاندھلوی ؒ ص ۱۰)
مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری ؒ فرماتے ہیں:
’’ اور سب سے پہلا اجماع جو اس امت میں منعقد ہوا۔ وہ مسیلمہ کذاب کے قتل پر اجماع تھا۔ جس کا سبب صرف اس کا دعویٰ نبوت تھا۔ اس کی دیگر گھنائونی حرکات کا علم صحابہ کرام ؓ کو اس کے قتل کے بعد ہوا تھا۔ جیسا کہ ابن خلدون نے نقل کیا ہے۔( خاتم النبیین مترجم ص ۱۹۷ مطبوعہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان)

اجماع امت کے حوالہ جات​

(۱)…علامہ علی قاری ؒ شرح فقہ اکبر میں لکھتے ہیں:
’’دعوی النبوۃ بعد نبینا ﷺ کفر بالا جماع۰ شرح فقہ الاکبر ص ۲۰۲‘‘ { ہمارے نبی ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا بالاجماع کفر ہے۔}
(۲)…حجتہ الا سلام امام غزالی ؒ ’’الاقتصاد‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ ان الا مۃ فھمت بالا جماع من ھذا اللفظ ومن قرائن احوالہ انہ افھم عدم نبی بعدہ ابدا۔۔۔۔۔۔ وانہ لیس فیہ تاویل ولا تخصیص فمنکر ھذا لایکون الا منکر الا جماع ۰ الا قتصاد فی الا عتقاد ص ۱۲۳‘‘ {بے شک امت نے بالا جماع اس لفظ (خاتم النبیین) سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺکے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ رسول۔ اور اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل وتخصیص نہیں۔ پس اس کا منکر یقینا اجماع امت کا منکر ہے۔}
(۳)…حضرت قاضی عیاض ؓنے اپنی شہرہ آفاق کتاب الشفاء میں خلیفہ عبدالملک بن مروان کے عہد خلافت کا واقعہ نقل کیاہے کہ ان کے زمانہ میں حارث نامی ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیاتو خلیفہ نے وقت کے علماء (جوصحابہ کرام ؓ وتابعینؒتھے)کے فتویٰ سے اسے قتل کردیا۔ اور سولی پر چڑھایا۔ قاضی عیاض صاحب ؒ اس واقعہ کو نقل کرکے لکھتے ہیں:
’’ وفعل ذالک غیر واحد من الخلفاء والملوک باشباھم واجمع علماء وقتھم علی صواب فعلم والمخالف فی ذالک من کفر ھم کافر۰ شفا ص ۲۵۷‘۲۵۸ج۲‘‘ {اور بہت سے خلفاء وسلاطین نے ان جیسے مدعیان نبوت کے ساتھ یہی معاملہ کیا ہے۔ اور اس زمانہ کے علماء نے ان سے اس فعل کے درست ہونے پر اجماع کیا ہے۔ اور جوشخص ایسے مدعیان نبوت کی تکفیر میں خلاف کرے وہ خود کافر ہے۔}
(۴)…قاضی عیاض ؒاپنی کتاب شفاء میں اسی اجماع کی تصریح ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
’’لانہ اخبر ﷺ انہ خاتم النبیین لانبی بعدہ واخبر عن اﷲ تعالیٰ انہ خاتم النبیین وانہ ارسل کافۃ للناس واجمعت الامۃ علی حمل ھذا الکلام علیٰ ظاھرہ وانہ مفھومہ المراد بہ دون تاویل ولاتخصیص فلا شک فی کفر ھؤ لأ الطوائف کلھا قطعا اجماعا وسمعا ۰ شفاء قاضی عیاض ؒ ص ۲۴۷ج۲ مطبوعہ مصر‘‘ {اس لئے کہ آپ ﷺ نے خبر دی ہے کہ آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں اور آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی ہے کہ آپ ﷺ انبیاء کے ختم کرنے والے ہیں۔ اور اس پر امت کا اجماع ہے کہ یہ کلام بالکل اپنے ظاہری معنوں پر محمول ہے ۔اور جو اس کا مفہوم ظاہری الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے وہ ہی بغیر کسی تاویل یا تخصیص کے مراد ہے۔ پس ان لوگوں کے کفر میں کوئی شبہ نہیں۔ جو اس کا انکار کریں اور یہ قطعی اور اجماعی عقیدہ ہے۔}
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
(۵)…اور علامہ سید محمو د آلوسی ؒ مفتی بغداد اپنی تفسیر روح المعانی میں اسی اجماع کو الفاظ ذیل میں نقل فرماتے ہیں:
’’ ویکون ﷺ خاتم النبیین مما نطقت بہ الکتاب وصدعت بہ السنۃ واجمعت علیہ الا مۃ فیکفر مدعی خلافہ ویقتل ان اصرا۰ روح المعانی ص ۳۹جزء ۲۲‘‘ {اور آنحضرت ﷺ کا خاتم النبیین ہونا ان مسائل میں سے ہے جس پرکتاب( بلکہ تمام آسمانی کتابیں) ناطق ہیں۔ اور احادیث نبوی ﷺ اس کو بوضاحت بیان کرتی ہیں۔ اور تمام امت کا اس پر اجماع ہے۔ پس اس کے خلاف کا مدعی کافر ہے ۔ اگر توبہ نہ کرے تو قتل کردیا جائے۔}
(۶)…اور اسی مضمون کو علامہ ابن حجر مکی ؒ نے اپنے فتاویٰ میں اس طرح بیان فرمایا ہے:
’’ومن اعتقد وحیابعد محمد ﷺ کفر باجماع المسلمین‘‘ {اور جو شخص آنحضرت ﷺ کے بعد کسی وحی کا معتقد ہو وہ باجماع مسلمین کافر ہے۔}
(۷)…کتاب الفصل فی الملل والنحل پر ہے:
’’ صح الا جماع علیٰ ان کل من حجر شیاء صح عندنا باالا جماع ان رسول اﷲ ﷺ بہ فقد کفر‘‘ {رسول اﷲ ﷺ سے کسی چیز (مسئلہ) کے اجماعی طور پر ثابت ہوجانے سے اس کا انکار کرنے والا بھی بالاجماع کافر ہے۔}

خلاصہ بحث​

(۱)… مسئلہ ختم نبوت قرآن مجید کی ننانوے آیات بینات سے ثابت ہے۔
(۲)… مسئلہ ختم نبوت دو سو دس احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔
(۳)… مسئلہ ختم نبوت تواتر سے ثابت ہے۔
(۴)… مسئلہ ختم نبوت اجماع امت سے ثابت ہے۔
(۵)… مسئلہ ختم نبوت پر امت کا سب سے پہلا اجماع منعقد ہوا۔
(۶)… مسئلہ ختم نبوت کے لئے بارہ سو صحابہ کرام ؓ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ جس میں سات سو قرآن مجید کے حافظ وقاری اور بدری صحابہ کرام ؓ تھے۔
(۷)… مسئلہ ختم نبوت کی وجہ سے اﷲ رب العزت نے امت کو اجماع کی نعمت سے نوازا۔
(۸)… مسئلہ ختم نبوت کی وجہ سے رحمت دو عالم ﷺ پر نازل شدہ وحی قرآن مجید کی حفاظت کا اﷲ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا۔
(۹)… ختم نبوت کے تحفظ کی پہلی جنگ کے بعد قرآن مجید کو جمع کرنے کا صدیق اکبر ؓ کے زمانہ میں امت نے اہتمام کیا۔
(۱۰)… ختم نبوت کے منکر یعنی جھوٹے مدعی نبوت سے اس کے دعویٰ نبوت کی دلیل طلب کرنے والا بھی کافر ہے۔ نیز یہ کہ جھوٹے مدعی نبوت اور اس کے پیروکاروں کی شرعی سزا قتل ہے۔
(۱۱)…دنیا میں کہیں کسی آسمانی کتاب کے حافظ موجود نہیں۔ جبکہ قرآن مجید کے حافظ وقاری ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہیں۔ یہ اس لئے کہ پہلی کتب عارضی ومحدود دور کے لئے تھیں۔ قرآن مجید قیامت کی صبح تک کے لئے ہے۔ اس اعتبار سے تو اصحاب صفہؓ سے لے کر اس وقت تک دنیا کے ہر خطہ میں حافظ وقاری ختم نبوت کی دلیل ہیں۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
(۱۲)… مسیحی قوم اپنی عبادت گاہوں کوفروخت کرکے دوسرے مقاصد (دکان ومکان)کے لئے استعمال کرتی ہے۔ جہاں مسجد بن جائے امت محمدیہؐ اس جگہ کو دوسرے مقصد کے لئے استعمال نہیں کرسکتی۔ پہلے انبیاء کی شریعت محدود وقت کے لئے ‘ان کی عبادت گاہیں بھی محدود وقت کے لئے۔ آپ ﷺ کی نبوت قیامت تک کے لئے تو مساجد بھی قیامت تک کے لئے ۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو مسجد نبوی ؐسے لے کر کائنات کے ہرخطہ کی ہر مسجد ختم نبوت کی دلیل نظر آتی ہے۔
ان تمام امور پر نظر کریں تو گویا پورا دین ختم نبوت کے گرد گھومتا نظر آتا ہے۔

قادیانی شبہات کے جوابات​


(۱)…خاتم النبیین کون؟​


مرزائیوں سے ختم نبوت واجرائے نبوت پر بحث کرنا اصولی طور پر غلط ہے۔اس لئے کہ ہمارے اور قادیانیوں کے درمیان ختم نبوت واجرائے نبوت کا مسئلہ مابہہ النزاع ہی نہیں۔ مسلمان بھی نبوت کو ختم مانتے ہیں‘ قادیانی بھی۔اہل اسلام کے نزدیک رحمت دو عالم ﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نیا نبی نہیںبن سکتا۔ مرزائیوں کے نزدیک مرزا غلام احمد قادیانی کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں۔
اب فرق واضح ہوگیا کہ مسلمان رحمت دو عالم ﷺ پر نبوت کو بند مانتے ہیں۔ قادیانی مرزا غلام احمد قادیانی پر‘ اس وضاحت کے بعد اب قادیانیوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ سارے قرآن وحدیث سے ایک آیت یا ایک حدیث پڑھیں۔ جس میں لکھا ہوا ہو کہ نبوت رحمت دو عالم ﷺ پر ختم نہیں بلکہ حضور ﷺ کے بعد چودہ سو سال میں ایک مرزا صاحب نبی بننے ہیں۔ اور مرزا قادیانی کے بعد قیامت تک اور کوئی نبی نہیں بنے گا۔ قیامت تک تمام زندہ مردہ قادیانی اکٹھے ہوکر ایک آیت اور ایک حدیث اس سلسلہ میں نہیں دیکھا سکتے۔
’’ ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین۰ وان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوالنار۰‘‘
حوالہ جات ملاحظہ ہوں:
مرزا قادیانی کی امت جتنی احادیث یا آیات وغیرہ سے ختم نبوت کا انکار ثابت کرنے کے لئے تحریفات کیا کرتے ہیں ۔ ان تحریفات کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو ان سب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد بہت سے نبی آیا کریں گے۔ گویا نبیوں کا ایک پھاٹک کھول دیا کرتے ہیں۔ لیکن ان کا چیف گرو مرزا غلام احمد قادیانی تو آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت صرف اپنے لئے ہی محفوظ رکھا کرتا ہے۔ اس کے عقیدہ میں تو نبوت صرف مرزا کے لئے ہی مخصوص ہے مگر امت اس قدر فیاض واقع ہوئی ہے۔ کہ وہ کہیں نبوت کی حد بندی ہی نہیں کرتی اور مرزا قادیانی ہی نہیں بلکہ اس کا بیٹا محمود قادیانی بھی بعض جگہ یہی لکھ گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد میرا ابا ہی نبوت سے فائز ہوا ہے تو گویا نام نہاد خلیفہ ثانی بھی طائفہ قادیانیہ کے خلاف ہے۔
(۱)… حقیقت الوحی ص ۳۹۱‘ روحانی خزائن ص ۴۰۶‘۴۰۷ ج ۲۲ پر مرزا نے لکھا ہے:
’’ غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک مرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزرچکے ہیں ۔ ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس کے مستحق نہیں۔‘‘
(۲)… ایک غلطی کا ازالہ ص ۱۱ خزائن ص ۲۱۵ ج ۱۸‘ ضمیمہ حقیقت النبوۃ ص ۲۶۸ پر ہے:
 
Top