• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی شبہات کے جوابات (کامل )

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
؎حسن یوسف دم عیسیٰ یدبیضاداری
آنچہ خوباں ہمہ دار ند توتنہاداری​

اعترض نمبر۶ :خاتم کا معنی انگشتری​

قادیانی :خاتم النبیین میں خاتم بمعنی نگینہ ‘ انگشتری لے کر زینت مراد لیا جائے اور کلام کے معنے یہ ہوں کہ آپ ﷺ سب انبیاء کی زینت ہیں۔ اور اس صورت میں آیت کو ختم نبوت سے کوئی تعلق ہی باقی نہیں رہتا۔
جواب:لیکن جب ہم اس کو اصول تفسیر پر رکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض قرآن پر افتراء ہے۔ اس کی ہرگز وہ مراد نہیں۔
۱… اول تو اس وجہ سے کہ خاتم بمعنے زینت مراد لینا مجازی معنی ہیں۔ اور جبکہ اس جگہ حقیقی معنی بلاتکلف درست ہیں تو حسب تصریحات علماء لغت وبلاغت واصول ‘ معنی مجازی کی طرف جانے کی کوئی وجہ نہیں۔
۲… احادیث متواترہ نے جو تفسیر اس آیت کی صاف صاف بیان کی ہے۔ یہ اس کے خلاف ہے۔
۳… یہ تفسیر اجماع اور آثار سلف کے بھی خلاف ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر مفصل عرض کیا ہے۔
۴…آئمہ تفسیر کی شہادتیںبھی اس کے خلاف ہیں۔
پھر کیا کوئی مسلمان قرآن عزیز کے ایسے معنے تسلیم کرسکتا ہے؟ جو قواعد عربیت کے بھی خلاف ہوں اور خود تصریحات قرآن مجید کے بھی‘ احادیث متواترہ اور آثار سلف بھی اس کو رد کرتے ہوں اور آئمہ تفسیر بھی۔
اور اگر اسی طرح ہر کس وناکس کے خیالات اور ہر حقیقی یا مجازی معنی قرآن عزیز کی تفسیر بن سکتے ہیں تو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ تمام قرآن مجید میں جہاں کہیں اقیموالصلوٰۃ وغیرہ کے الفاظ سے نماز کی فرضیت کی تاکید کی گئی ہے سب جگہ محض درود بھیجنا اور دعا کرنا مراد ہے۔ جو لفظ صلوٰۃ کے لغوی معنی ہیں۔
اسی طرح آیت کریمہ : ’’ من شھد منکم الشھر فلیصمہ ‘‘ وغیرہ جن میں روزہ کی فرضیت ثابت ہے۔ اس کا لغوی ترجمہ اور مطلب یہ ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آئے تو تم رک جائو۔ کیونکہ لغت عرب میں صوم کے لغوی معنی صرف رک جانا ہیں۔
اسی طرح حج اور زکوٰۃ وغیرہ کے الفاظ میں ان سب کے معنی اگر احادیث اور آثار سلف وغیرہ سے آنکھیں بند کرکے صرف ازروئے لغت کئے جائیں تو مرزا قادیانی اور ان کے اذناب کی عنایت سے سارے فرائض سے چھٹی ہوجائے گی ۔ بلکہ عجب نہیں کہ خود دین اسلام سے بھی آزادی مل جائے۔ (والعیاذ باﷲ تعالی۰)
لیکن آیات مذکورہ میں صوم وصلوٰۃ اور حج وغیرہ کے الفاط سے ان کے معنی لغوی کو اس لئے چھوڑا جاتا ہے کہ قرآن عزیز کی دوسری آیات اور احادیث متواترہ اور آثار سلف سے جو تعبیر ان کی ثابت ہے اس کے خلاف ہے۔ اور اگر آج کوئی ان آیات کے وہ لغوی معنی بتلا کر لوگوں کو ان فرائض کی پابندیوں سے آزاد کرنا چاہے تو بحمداﷲ مسلمانوں کا ہر جاہل وعالم یہی جواب دے گا: ’’ اذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاما۰‘‘
غرض کوئی جاہل سے جاہل بھی اس قسم کی تحریفات کے ماننے پر تیار نہیں ہوسکتا۔ ٹھیک اسی طرح اگرچہ خاتم بمعنیزینت مجازا مراد لینا محتمل ہے۔ لیکن چونکہ یہ احتمال نصوص قرآن وحدیث اور تفاسیر سلف کے خلاف ہے۔ اس لئے اسی طرح مردود اور ناقابل قبول ہوگا۔ جس طرح صوم وصلوٰۃ وحج وزکوٰۃ وغیرہ ارکان دین کے مشہور لغوی معنی لینا باتفاق مردود ہیں۔

لفظ خاتم کا مرزا قادیانی کے ہاں استعمال​

 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
مرزا قادیانی نے سینکڑوں مرتبہ لفظ خاتم استعمال کیااور ان مقامات کے بغیر جہاں ’’ خاتم النبیین ‘‘ کی تفسیر ’’ نبی ساز ‘‘ کرتے ہیں۔ باقی ہر مقام پر اس لفظ کو ’’ آخری‘‘ کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ مثلا
(۱)… خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں بارہ موسوی خلیفوں کا ذکر فرمایا ۔ جن میں سے ہر ایک موسیٰ کی قوم میں سے تھا اور تیرھواں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر فرمایا جو موسیٰ کی قوم کا خاتم الانبیاء تھا۔ (تحفہ گولڑویہ ص ۳۶ خزائن ص ۱۲۳ ج ۱۷)
(۲)…یہ ماننا ضروری ہے کہ وہ (خود مرزا قادیانی) اس امت کا خاتم الاولیا ہے۔ جیسا کہ سلسلہ موسویہ کے خلیفوں میں حضرت عیسیٰ خاتم الانبیاء ہے۔(تحفہ گولڑویہ ص ۳۹ خزائن ص ۱۲۷ ج ۱۷)
(۳)… وہ مسیح خاتم خلفائے محمد ؐیہ ہے جو سلسلہ خلافت محمدؐیہ کا سب سے آخری خلیفہ ہے۔ (تحفہ گولڑویہ ص ۹۲ خزائن ص۱۸۳ج۱۷)
(۴)… ہمارے نبی ﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ نہ کوئی نیا نہ پرانا۔( انجام آتھم حاشیہ ص ۲۷ خزائن ص ۲۷ج۱۱)
(۵)… اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح کو ( بنی اسرائیل)کا خاتم الانبیاء بنایا۔(ترجمہ خطبہ الہامیہ ص ۴۶ خزائن ص ۷۹ ج ۱۶)
(۶)… ’’ انا خاتم الاولیاء لاولی بعدی ‘‘ (خطبہ الہامیہ ص ۳۵ خزائن ص ۷۰ ج۱۶)
(۷)… اہل کشف نے مسیح موعود کو جو آخری خلیفہ اور خاتم الخلفا ہے۔ (حقیقت الوحی ص ۲۰۱ خزائن ص ۲۰۹ ج۲۲)
(۸)… اور میں جانتا ہوں کہ تمام نبوتیں اس (حضور ﷺ) پر ختم ہیں اور اس کی شریعت خاتم الشرائع ہے۔ (چشمہ معرفت ص ۳۲۴ خزائن ص۳۴۰ ج۲۳)
(۹)… خدا کی کتابوں میں مسیح موعود کے کئی نام ہیں۔ منجملہ ان کے ایک نام خاتم الخلفا ہے۔ یعنی ایسا خلیفہ جو سب سے آخر میں آنے والا ہے۔ (چشمہ معرفت ص ۳۱۸ خزائن ص ۳۳۳ ج ۲۳)
(۱۰)… ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے ۔( ازالہ اوہام ص ۶۰ خزائن ص ۱۷۰ج۳)
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ مرزا قادیانی نے لفظ خاتم کو باقی ہر مقام پر آخری کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ لیکن جب خاتم النبیین کی تفسیر کرنے لگے تو فرمایا:
’’ اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھہر ا۔ یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے۔اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے۔‘‘(حقیقت الوحی ص ۹۶ خزائن ص۱۰۰ ج ۲۲)
اور اس سے عجب تر یہ ہے کہ جب اپنے آپ کو خاتم الخلفا والانبیاء قرار دیتے ہیں تو لفظ خاتم کو پھر ’’ آخری‘‘ کے مفہوم میں استعمال کرتے ہیں۔

اعترض نمبر۷: ایک شبہ اور اس کا جواب​

قادیانی : شبہ یہ ہے کہ مرزا قادیانی کی یہ تحریرات نومبر ۱۹۰۱ء سے پیش ترکی ہیں۔ کہ جس وقت مرزا قادیانی کو نبوت نہیں ملی تھی۔ لہذا یہ تمام تحریریں منسوخ کہی جائیں گی۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
جواب:یہ ہے کہ نسخ عقائد میں جاری نہیں ہوتا تنسیخ احکام میں ہوتا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ جو بات پہلے کفر کی تھی وہ بعد میں اسلام بن جائے۔نیز انبیاء کفر سے ‘قبل از نبوت بھی پاک ہوتے ہیں۔ نیز بدعقل اور بدفہم کبھی نبی نہیں ہوسکتا۔
مرزائی جماعت سے ایک سوال
مرزا قادیانی کی ان تمام عبارات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ دعوائے نبوت سے پہلے مرزا قادیانی بھی خاتم النبیین کے معنے وہی سمجھتا تھا جو تیرہ سو برس سے تمام دنیا کے مسلمان سمجھتے چلے آئے اور کسی نئے اور پرانے نبی کا آنا ختم نبوت کے منافی سمجھتے تھے اور ختم نبوت کا انکار اور خاتم الانبیاء کے بعد دعوائے نبوت کو کفر بتلاتے تھے۔ مرزا قادیانی کا یہ پہلا عقیدہ تھا اور اب دعوائے نبوت کے بعد مرزا قادیانی خاتم النبیین کے دوسرے معنی بیان کرتا ہے۔ جس کی بناپرنبوت کا جاری ہونا ضروری ہوگیا۔ اور جس مذہب میں وحی نبوت نہ وہ شیطانی اور لعنتی مذہب کہلانے کا مستحق ہے۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ۱۳۹‘ ۱۳۸ خزائن ص۳۰۶ ج۲۱)
اور یہ کہتے ہیں کہ جو شخص یہ کہے کہ رسول اﷲ ﷺکے بعد کوئی نبی نہ ہوگا وہ دین دین نہیں اور نہ وہ نبی نبی ہے۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ۱۳۸ خزائن ص ۳۰۶ ج ۲۱)
اب سوال یہ ہے
کہ خاتم النبیین کے کون سے معنے صحیح ہیں۔پس اگر خاتم النبیین کے جدید معنے صحیح ہوں (کہ جو مرزا قادیانی نے دعوائے نبوت کے بعد بیان کئے اور جس کی بنا پر نبوت کا جاری رہنا ضروری ہوا) تو یہ لازم آئے گا کہ تیرہ سوسال میں جس قدر بھی مسلمان اس عقیدہ پر گزرے وہ سب کافر اور بے ایمان مرے۔ گویا کہ عہد صحابہ کرام ؓ سے لے کر اس وقت تک تمام امت کفرپر گزری اور دعوائے نبوت سے پہلے خود مرزا صاحب بھی جب تک اسی سابقہ عقیدہ پر رہے کافر رہے۔ دعوائے نبوت کے بعد مرزا قادیانی کا ایمان صحیح اور درست ثابت ہوا۔ اور پچاس برس تک مرزا صاحب کفر اور شرک کی گندگی میں آلود ہ اور ملوث رہے۔ اور غباوت اور بدعقلی کے داغ سے داغی رہے کہ پچاس برس تک آیات اور احادیث کا مطلب غلط سمجھتے رہے اور تمام امت کا اس پر اجماع ہے کہ کافراور غبی نبی نہیں ہوسکتا۔ اور جوشخص تمام امت کی تکفیر وتضلیل اور تحمیق اور تجہیل کرتا ہو وہ بالا جماع کافر اور گمراہ ہے اور اگر خاتم النبیین کے پہلے معنی صحیح ہوں جو تمام امت نے سمجھے اور مرزا صاحب بھی دعوائے نبوت سے پہلے وہی سمجھتے تھے تو لازم آئے گا کہ پہلے لوگ تو سب مسلمان ہوں اور مرزا صاحب دعوائے نبوت کیبعد سابق عقیدہ کے بدل جانے کی وجہ سے خود اپنے اقرار سے کافر اور مرتد ہوجائیں۔ غرض یہ کہ خاتم النبیین کے جونسے بھی معنی لئے جائیں۔ مرزا صاحب ہر صورت میںکافر ہیں۔

اعتراض نمبر۸: آپ ﷺ کی توجہ نبی تراش​

قادیانی :مرزا صاحب نے نبی بننے کے شوق میں حاشیہ حقیقت الوحی ص ۹۷ خزائن ص۱۰۰ ج ۲۲ میں تو آیت خاتم النبیین کی تحریف کرتے ہوئے آیت کے معنی یہ بتلائے:
’’ آپ ﷺ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ ﷺ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے۔ اور حقیقت الوحی ص ۲۸ خزائن ص ۳۰ ج۲۲ پر لکھا کہ : اور یہ کہ ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت مل سکتی ہے ۔‘‘
جواب :ہم اس وقت اس بحث میں نہیں جاتے کہ خاتم النبیین کے یہ معنی لغت اور عربی زبان کے اعتبار سے بھی ہوسکتے ہیں یا نہیں۔ اور اس بحث کو بھی چھوڑتے ہیں کہ اس نوایجاد تفسیر کا تو یہ نتیجہ ہے کہ کسی کو نبی بنانا رسول اﷲ ﷺکے اختیار میں ہے کہ جس پر آپ ﷺ چاہیں نبوت کی مہر لگادیں۔ حالانکہ ارسال رسل والعباد صرف حق تعالیٰ کا ہی کام ہے۔ جبھی تو وہ رسول اﷲ یا نبی اﷲ ہوتے ہیں۔ ورنہ وہ رسول الرسول یا نبی الرسول ہوتے۔
مرزا صاحب کی اس غلطی کو بھی نظر انداز کرتے ہیں کہ اس غلطی کی رو سے نبوت ایک اکتسابی چیز بن جاتی ہے کہ جو کوئی آنحضرت ﷺ کی مکمل پیروی کرلے وہ نبی بن جائے۔ حالانکہ تبصریحات قرآن کریم ‘ نبوت حاصل کرنا کسی کے اختیار میں نہیں۔ وہ خالص حق تعالیٰ کی موہبت ہے۔ وہ جس کو مناسب سمجھتے ہیں نبی ورسول بنادیتے ہیں۔ کسی انسان کے اختیار میں تو کیا بلکہ انسان کو اس کا علم بھی نہیں ہوسکتا ۔ قرآن شریف کا ارشاد اس مضمون کے لئے کھلا ہوا ہے:
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
’’ اﷲ اعلم حیث یجعل رسالۃ ‘‘ {یعنی اﷲ تعالیٰ ہی جاتنے ہیں کہ اپنی رسالت کس کو سپرد کریں۔}
ہاں ہم اس جگہ اسی نو ایجاد تفسیر کے اس نتیجہ پر آپ کو متوجہ کرتے ہیں کہ اگر اس کو صحیح مان لیا جائے تو اس کامطلب یہ ہوگا کہ اس امت میں جتنے زیادہ نبی اور رسول آئیں اتنا ہی حضور ﷺ کا کمال ظاہر ہوگا۔
لیکن مرزا صاحب خود بھی اس دروازہ کو اتنا کھولنا نہیں چاہتے کہ اس میں ان کے سوا کوئی دوسرا آسکے۔ اور تیرہ سو برس میں کبھی ایک شخص کے نبی بننے کے وہ بھی قائل نہیں۔ تو یہ کس قدر عجیب بات ہوگی کہ جس ہستی کو اﷲ تعالیٰ نے یہ اعزار بخشا کہ ان کی توجہ روحانی بقول مرزا ’’ نبی تراش‘‘ ہے۔ اس کی توجہ روحانی اپنے ایک لاکھ سے زائد جاں نثار صحابہ کرام ؓ میں سے کسی کو نبی نہ بناسکی۔ اور پھر ان کے بعد جن لوگوں کو آ پ ﷺ نے خیر القرون فرمایا ان میں بھی کوئی ایسا نہ نکلا جو آپ ﷺ کی پیروی کرکے آپ ﷺ کی توجہ روحانی سے نبی بن سکتا۔
تیرہ سو برس تک یہ توجہ روحانی معاذاﷲ کوئی کام نہ کرسکی۔ یہاں تک کہ چودھویں صدی میں مرزا صاحب نے جنم لیا۔ تو اس توجہ روحانی کا ثمرہ صرف ایک شخص بنا۔ معاذاﷲ یہ قرآن کی تحریف کے ساتھ رسول اﷲ ﷺ کی کس قدر توہین ہے۔ نعوذباﷲ۔ اور مرزا قادیانی کے بعدپھر آپ ﷺ کی توجہ روحانی معطل !جیسا کہ پہلے حوالہ جات گذرچکے ہیں۔
جواب۲ : خاتم النبیین دو الفاظ سے مرکب ہے۔ خاتم اور النبیین۔ النبیین جمع ہے نبی کی۔ عربی میں جمع کا اطلاق کم از کم تین پر ہوتا ہے۔ کتب کم از کم تین کتابیں۔ مساجد کم از کم تین مسجدیں۔ اگر خاتم سے مراد نبی تراش مہر لی جائے تو خاتم النبیین کی تفسیر ہوگئی کہ کم از کم تین نبی بنانے والی مہر۔ لیکن مرزا صاحب اپنی آخری کتابوں میں اعلان کرچکے ہیں کہ میں اس امت کا پہلا اور آخری نبی ہوں۔

اعتراض نمبر۹: یٰبنی آدم امایاتینکم​

قادیانی: ’’ یبنی آدم اما یاتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی فمن اتقیٰ واصلح فلاخوف علیھم ولاھم یحزنون۰ اعراف ۳۵‘‘ یہ آیت آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئی۔ لہذا اس میں حضور ﷺ کے بعد آنے والے رسولوں کا ذکر ہے۔ آپ ﷺ کے بعد بنی آدم کو خطاب ہے۔ لہذا جب تک بنی آدم دنیا میں موجود ہیں اس وقت تک نبوت کا سلسلہ جاری ہے۔
جواب۱ :اس آیت کریمہ سے قبل اسی رکوع میںتین بار ’’ یابنی آدم ‘‘ آیا ہے۔ اور اول ’’ یابنی آدم ‘‘ کا تعلق ’’ اھبطو ابعضکم لبعض عدولکم‘‘ سے ہے۔ اھبطوا کے مخاطب سیدنا آدم علیہ السلام وسیدہ حوا ہیں۔ لہذا اس آیت میں بھی آدم علیہ السلام کے وقت کے اولاد آدم کو مخاطب بنایا گیا ہے۔پھر زیر بحث آیت نمبر ۳۵ ہے۔ آیت نمبر۱۰ سے سیدنا آدم علیہ السلام کا ذکر شروع ہے۔ اس تسلسل کے تناظر میں دیکھا جائے تو دو رکوع سے پہلے جو مضمون چلا آرہا ہے اس کی ترتیب وتنسیق خود ظاہر کرتی ہے کہ جب آدم وحوا کو اپنے اصلی مسکن (جنت) سے عارضی طور پر جدا کیا گیا تو ان کی مخلصانہ توبہ وانابت پر نظر کرتے ہوئے مناسب معلوم ہوا کہ اس حرمان کی تلافی اور تمام اولاد آدم کو اپنی میراث آبائی واپس دلانے کے لئے کچھ ہدایات دی جائیں۔ چنانچہ ھبوط آدم کا قصہ ختم ہونے کے یا بنی آدم قد انزلنا علیکم لباسا سے خطاب شروع کرکے تین چار رکوع تک ان ہی ہدایات کا مسلسل بیان ہوا ہے۔ تو حقیقت میں یہ خطاب اولین اولاد آدم علیہ السلام کو ہے۔ اس پر قرینہ اس کا سباق ہے ۔ تسلسل اور سباق آیات کی صراحۃ دلالت موجود ہے کہ یہاں پر حکایت حال ماضیہ کے طور پر اس کو حکایت کیا گیا ہے ۔ نون ثقیلہ گرچہ مستقبل کے لئے ہے تو اولین اولاد آدم سے اﷲ تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا۔ اس وعدہ کا ایفاء یوں ہوا۔
’’ ولقد ارسلنانوحا الیٰ قومہ ۰ اعراف ۵۹‘‘ ’’ والیٰ عاد اخاھم ھودا۰ اعراف ۶۵‘‘ ’’ والیٰ مدین اخاھم صالحا۰ اعراف ۷۳‘‘ ’’ ولوطا اذقال لقومہ ۰اعراف ۸۰‘‘ ’’والیٰ مدین اخاھم شعیبا ۰ اعراف ۸۵‘‘ ’’ ولقد جاء تھم رسلھم باالبنیت ۰ اعراف ۱۰۱‘‘ ’’ ثم بعثنا من بعدھم موسیٰ بایاتنا الیٰ فرعون وملأہ۰ اعراف ۱۰۳‘‘ ’’ الذین یتبعون الرسول النبی الامیی الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوراۃ والا نجیل ۰ اعراف ۱۵۷‘‘
یہاں انجیل کے ضمن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے۔
’’ قل یا ایھا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا۰ الذی لہ ملک السٰموت والارض۰ اعراف ۱۵۸‘‘ آپ ﷺ کے تمام انسانوں کی طرف مبعوث ہونے کا ذکر ہے۔ جس سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ کی نبوت ہر قوم اور ہر زمانہ کے لئے ہے۔ اس میں آپﷺ
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
کا ذکر مبارک ہوا۔ آگے ہے : ’’ومن قوم موسیٰ امۃ یھدون باالحق۰ اعراف ۱۵۹‘‘ آ پ ﷺ کے ذکر کے بعد قرآن مجید نے پھر موسیٰ علیہ السلام کا ذکر دوبارہ شروع کردیا۔ آپﷺ کے ذکر کے بعد پرانے نبی کا ذکر کرنا اس پر دال ہے کہ حضور ﷺ کے بعد اور کسی نئے نبی کا آنا مقدر نہیں ورنہ اس کا ذکر ہوتا۔ علاوہ ازیں یہ بھی ثابت ہوا کہ یابنی آدم میں رسولوں کے مبعوث کرنے کا جوذکر تھا۔ وہ حضرت نوح علیہ السلام سے شروع کرکے آپ ﷺ کی ذات گرامی پر ختم کردیا۔ تفسیر القرآن بالقرآن کی رو سے ثابت ہوا کہ اس آیت میں بنی آدم اولین مراد ہیں نہ کہ حضور ﷺ کے بعد کے بنی آدم۔
جواب۲ :قرآن مجید کے اسلوب بیان سے یہ بات ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کی امت اجابت کو ’’یا ایھا الذین آمنوا‘‘ سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ اور آپ ﷺ کی امت دعوت کو: ’’ یاایھاالناس‘‘ سے خطاب ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں کہیں بھی آپ ﷺکی امت اجابت کو یابنی آدم سے خطاب نہیں کیا گیا۔ یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ آیت بالا میں حکایت ہے حال ماضیہ کی۔
ضروری وضاحت
ہاں البتہ ’’یابنی آدم ‘‘ کی عمومیت کے حکم میں آپ ﷺ کی امت کے لئے وہی سابقہ احکام ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ منسوخ نہ ہوگئے ہوں۔ اگر وہ منسوخ ہوگئے یا کوئی ایسا حکم جو آپ ﷺ کی امت کو اس عمومیت میں شمول سے مانع ہو تو پھر آپ ﷺ کی امت کااس عموم سے سابقہ نہ ہوگا۔
جواب۳ :کبھی قادیانی کرم فرمائوں نے یہ بھی سوچا کہ بنیآدم میں تو ہندو‘ عیسائی‘ یہودی ‘ سکھ‘ سبھی شامل ہیں۔کیا ان میں سے نبی پیدا ہوسکتا ہے۔ اگر نہیں تو پھر ان کو اس آیت کے عموم سے کیوں خارج کیا جاتا ہے؟۔ ثابت ہوا کہ خطاب عام ہونے کے باوجود حالات وواقعات وقرائن کے باعث اس عموم سے کئی چیزیں خارج ہیں۔ پھر بنیآدم میں تو عورتیں ‘ہیجڑے بھی شامل ہیں۔ تو کیا اس عموم سے ان کو خارج نہ کیا جائے گا؟ ۔ اگر یہ کہا جائے کہ عورتیں وغیرہ تو پہلے نبی نہ تھیں اس لئے وہ اب نہیں بن سکتیں تو پھر ہم عرض کریں گے کہ پہلے رسول مستقل آتے تھے۔ اب تم نے رسالت کو اطاعت سے وابستہ کردیا ہے۔ تو اس میں ہیجڑے وعورتیں بھی شامل ہیں۔ لہذا مرزائیوں کے نزدیک عورتیں وہیجڑے بھی نبی ہونے چاہیئں۔
جواب۴ :اگر ’’ یا بنی آدم امایاتینکم رسل ‘‘ سے رسولوں کے آنے کا وعدہ ہے تو ’’اما یاتینکم منی ھدی‘‘ میں وہی یاتینکم ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نئی شریعت بھی آسکتی ہے۔تو مرزائیوں کے عقیدہ کے خلاف ہوا۔ کیونکہ تمہارے نزدیک تو اب تشریعی نبی نہیں آسکتا۔ کیونکہ خود مرزا نے کہا:’’ رسول کا لفظ عام ہے۔ جس میں رسول اور نبی اور محدث داخل ہیں۔‘‘ (آئینہ کمالات ص ۳۲۲ خزائن ص ۳۲۲ ج ۵) اگر کہا جائے کہ ’’ قلنااھبطوا منھا جمیعا ‘‘ قرینہ ہے کہ ہبوط آدم کے وقت کے لئے یہ آیت مخصوص ہے تو ہم عرض کریں گے کہ ’’ یابنی آدم ‘‘ قرینہ ہے کہ یہ حکم اولین اولادآدم کو تھا۔ اس میں آپ ﷺ کی امت کوخطاب نہیں کیا گیا۔ بلکہ حکایت حال ماضیہ کی گئی ہے۔
جواب۵ :اما حرف شرط ہے۔ جس کا تحققضروری نہیں۔ یاتینکم مضارع ہے اور ہر مضارع کے لئے استمرار ضروری نہیں ۔جیسا کہ فرمایا ’’ اما ترین من البشر احدا‘‘ کیا حضرت مریم قیامت تک زندہ رہیں گی اور کسی بشر کو دیکھتی رہیں گی؟۔ مضارع اگرچہ بعض اوقات استمرار کے لئے آتا ہے ۔ مگر استمرار کے لئے قیامت تک رہنا ضروری نہیں۔ جو فعل دو چار دفعہ پایا جائے اس کے لئے مضارع استمرارسے تعبیر کرنا جائزہے۔ اس کی ایک مثال گزر چکی۔ نمبر۲ …یہ ہے : ’’ انا انزلنا التوراۃ فیھا ھدی ونور یحکم بھا النبیون۰‘‘ ظاہر ہے کہ تورات کے موافق حکم کرنے والے گزر چکے۔ آپ ﷺکی بعثت کے بعد کسی کو حتیٰ کہ صاحب تورات کو بھی حق حاصل نہیں اس کی تبلیغ کا۔ نمبر۳…: ’’ واوحی الی ھذا القرآن لانذرکم ومن بلغ ۰‘‘ چنانچہ حضور ﷺ ایک زمانہ تک ڈراتے رہے مگر اب بلاواسطہ آپ کی انذاروتبشیرمسدود ہے۔ نمبر۴…: ’’ وسخرنا مع داؤد الجبال یسبحن والطیر۰‘‘ تسبیح دائود کی زندگی تک ہی رہی پھر مسدود ہوگی مگر ہر جگہ صیغہ مضارع کا ہے۔
جواب۶ (۱)…… ’’ اما یاتینکم منی ھدی۰ بقرہ‘‘
(۲)…… ’’ واما ینسینکم الشیطان فلا تقعد بعدالذکریٰ مع القوم الظالمین۰ انعام ۶۸‘‘
(۳)…… ’’فاما تشقفنھم فی الحرب فشرد بھم من خلفھم لعلھم یذکرون۰ انفال ۵۷‘‘
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
(۴)…… ’’ واما نرینکم بعض الذی نعدھم اونتوفینکم فاالینا مرجعھم۰ یونس ۴۶‘‘
(۵)…… ’’اما یبلغن عندک الکبر احدھما اوکلاھما فلا تقل لھما اف ولا تنھر ھما ۰ بنی اسرائیل ۲۳‘‘
(۶)…… ’’فاما ترین من البشر احدا فقولی انی نذرت لرحمن صوما۰ مریم ۲۶‘‘
(۷)…… ’’ اما ترینی ما یوعدون رب فلا تجعلنی فی القوم الظالمین۰مومنون ۹۳‘‘
(۸)…… ’’ واما ینز غنک من الشیطان نزغ فاستعذبااﷲ ۰ سجدہ ۳۶‘‘
(۹)…… ’’ فاما نذھبن بک فانا منھم منتقمون ۰ زخرف ۴۱‘‘
(۱۰)…… ’’ فاما نرینک بعض الذی نعدھم۰‘‘
تلک عشرۃ کاملۃ
ان تمام آیات میں’’اما ‘‘ مضارع موکدنون ثقیلہ پر داخل ہے۔ اور معنی حرف شرط کے ’’ اگر ‘‘ ہیں۔ ثابت ہوا کہ مرزائی معنی ’’ ضرور‘‘ آئیں گے۔یہ نحو عربی واصطلاح قرآنی کے لحاظ سے غلط اور خود ساختہ ہیں۔ اور اما یاتین کے معنی اگر آئیں تمہارے پاس رسل‘ معنی صحیح ہیں۔اور یہ خطاب ’’ یابنی آدم ‘‘ سے اولاد آدم علیہ السلام کو ہے۔ یعنی اس خطاب کی ابتداء آدم علیہ السلام سے ہے۔ نہ کہ مصطفی ﷺ سے جو ظاہر نص سے ثابت ہے۔
جواب۷ :آیت زیر بحث میں ہے ’’ یقصون علیکم آیاتی ‘‘ تو معلوم ہوا کہ آنے والے رسول شریعت لائیں گے۔ جیسا کہ ’’ نحن نقص علیک احسن القصص ‘‘ سے ثابت ہے۔ تو مرزائیوں کے دعویٰ کے یہ آیت بھی خلاف ہوئی کہ کیونکہ ان کے نزدیک تو اب صاحب شریعت نبی نہیں آئیں گے۔ چنانچہ مرزا صاحب بھی شریعت کے اجراء کے قائل نہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ :’’میں حضور ﷺ کو خاتم الانبیاء حقیقی معنوں سے سمجھتا ہوں اور قرآن کو خاتم الکتاب تسلیم کرتا ہوں۔‘‘ (سراج منیر ص ۴ خزائن ص ۶ ج ۱۲)
جواب۸ :درمنشور ج ۳ ص ۸۲ میں زیر بحث آیت ھذا لکھا ہے:
’’ یا بنی آدم اما یاتینکم رسل منکم الایۃ۰ اخرج ابن جریر عن ابی یسار السلمی فقال ان اﷲ تبارک وتعالیٰ جعل آدم وذریۃ فی کفہ فقال یا بنی آدم اما یاتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی۰ ثم نظر الیٰ الرسل فقال یا ایھا الرسل کلوا من الطیبات واعلموا صالحا۰‘‘ {ابی یسار سلمی سے روایت ہے کہ اﷲ رب العزت نے سیدنا آدم علیہ السلام اور ان کی جملہ اولاد کو (اپنی قدرت ورحمت کی) مٹھی میں لیا اور فرمایا’’یابنی آدم اما یاتینکم رسل منکم۔۔۔۔۔ ۔۔۔ الخ‘‘ پھر نظر (رحمت) رسولوں پر ڈالی تو ان کو فرمایا کہ’’ یا ایھا الرسل۔۔۔ ۔۔۔ الخ ‘‘ غرض یہ کہ عالم ارواح کے واقعہ کی حکایت ہے۔}

مرزائی عذر​

اس آیت میں حضور ﷺ کے زمانہ کے بعد بنیآدم کو ہی خطاب ہے۔ جیسے ’’یابنی آدم خذوا زینتکم عند کل مسجد‘‘اس میں مسجد کا لفظ ہے اور یہ لفظ محض امت محمدیہ ہی کی عبادت گاہ کے لئے وضع کیا گیا ہے۔

الجواب​

امم سابقہ کے لئے بھی لفظ مسجد مستعمل ہوا ہے۔ جیسا کہ ’’ قال الذین غلبوا علیٰ امرھم لنتخذن علیھم مسجدا۰ کہف‘‘
جواب۹ :باالفرض والتقدیر اگر اس آیت کو اجرائے نبوت کا مستدل مان بھی لیا جائے تب بھی مرزا غلام احمد قیامت کی صبح تک نبی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ وہ بقول خود آدم کی اولاد ہی نہیں۔ اور یہ آیت تو صرف بنی آدم سے متعلق ہے۔ اس نے خود اپنا تعارف بایں الفاظ کرایا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار​
(براہین احمدیہ پنجم خزائن ص ۱۲۷ ج ۲۱)​
اب اگر وہ بنیآدم میں سے تھا جیسا کہ ہمارا اس کے بارے میں ابھی تک یہی خیال ہے تو پھر اس نے اپنی آدمیت کا انکار کرکے سفید جھوٹ بولا ہے۔ اور جھوٹا آدمی نبی نہیں بن سکتا۔ اور اگر واقعی وہ دائرہ آدمیت سے خارج تھا (یعنی اولاد شیطان تھا) تو پھر ’’ یا بنی آدم۔۔۔۔۔۔ الخ‘‘ کی آیت سے اس کی نبوت ثابت ہی نہیں کی جاسکتی۔ اس لئے مرزائیوں کا اجرائے نبوت کے لئے یہ دلیل پیش کرنے کی کوشش کرنا سراسر سعی لاحاصل ہے۔

شعر میں تاویل​

مذکورہ بالا شعر میں مرزائی یہ تاویل کرتے ہیں کہ دراصل ہمارے حضرت صاحب بہت زیادہ متواضع اور منکسر المزاج تھے۔ اس لئے کسر نفسی کی بنا پرانہوں نے یہ شعر کہہ دیا ۔ اس سے اپنا اصلی تعارف کرانا مقصود نہ تھا۔ لہذا یہ شعر ہماری بحث سے خارج ہونا چاہئیے۔

تاویل کا تجزیہ​

پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی عقل مند آدمی ایسی تواضع نہیں کرتا کہ اپنے آدمی ہونے کا ہی انکار کردے۔ اور ساتھ میں اپنے کو ’’ بشر کی جائے نفرت‘‘ (شرم گاہ) قرار دے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص متواضع ہوتا ہے وہ ہر جگہ اپنی تواضع اور کسر نفسی کا اظہار کرتا ہے۔ یہ نہیں کہ ایک جگہ تو اپنے کو آدمیت سے ہی خارج کردے اور دوسری جگہ اپنے کو دنیا کا سب سے عظیم المرتبت انسان قرار دے۔ لیکن اس الٹی منطق کا ارتکاب مرزا صاحب ایک جگہ نہیں ‘بے شمار جگہ کرتے ہیں۔ چند ایک ان کی نام نہاد تواضع کے نمونے ملاحظہ ہوں۔ جو مرزائیوں کی مذکورہ تاویل کا منہ چڑا رہے ہیں۔ دیکھئے :
(۱)…؎
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے​
(دافع البلاء خزائن ص ۲۴۰ ج ۱۸)​
استاذ محترم حضرت مولانا محمد حیات ؒ فاتح قادیان نے یہ شعر اس طرح بدلا ہے:
ابن ملجم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بدتر غلام احمد ہے​
ابن ملجم حضرت علی ؓ کا قاتل ہے۔
(۲)…؎
روضئہ آدم کہ تھا نا مکمل اب تلک
میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ وبار​
(براہین احمدیہ پنجم خزائن ص ۱۴۴ ج۲۱)​
(۳)…؎
کربلائے است سیر ہر آنم
صد حسین است درگریبانم​
(نزول مسیح خزائن ص 488 ج18)​
(۴)…؎
آدمم نیز احمد مختار
در برم جامہ ہمہ ابرار​
(نزول المسیح ص ۹۹ خزائن ص ۴۷۷ ج ۱۸)​
(۵)…؎
آنچہ داد است ہر نبی راجام
داد آں جام رامرا بتمام​
(نزول المسیح ص ۹۹ خزائن ص ۴۷۷ ج ۱۸)​
(۶)…؎
انبیا گرچہ بودہ اند بسے
من بعر فان نہ کمترم زکسے​
(نزول المسیح ص ۹۹ خزائن ص ۴۷۷ ج ۱۸)​
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
خود ہی سوچئے۔ کیا کوئی ہوشمند انسان ایسے متکبر اور گھمنڈی کو منکسر المزاج کہہ سکتا ہے؟۔ مرزا قادیانی نے کہا کہ :’’کربلائے ایست سیر ہرآنم‘‘مرزا کے بیٹے مرزامحمود قادیانی نے اس پر یہ رنگ چڑھایا :
’’ حضرت مسیح موعود (مرزا مردود) نے فرمایا کہ میرے گریبان میں سوحسین ہیں۔ لوگ اس کے یہ معنی سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ میں سوحسین کے برابر ہوں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ اس سے بڑھ کر اس کا مفہوم یہ ہے کہ سو حسین کی قربانی کے برابر میری ہر گھڑی کی قربانی ہے۔ وہ شخص جو اہل دنیا کی فکروں میں گھلا جاتا ہے جو ایسے وقت میں کھڑا ہوتا ہے جبکہ ہر طرف تاریکی اور ظلمت پھیلی ہوئی ہے۔ اور اسلام کا نام مٹ رہا ہے۔ وہ دن رات دنیا کا غم کھاتا ہوا اسلام کو قائم کرنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس کی قربانی سو حسین کے برابر نہ تھی۔ پس یہ تو ادنی سوال ہے کہ حضرت مسیح موعود امام حسین کے برابر تھے یا ادنی۔‘‘(خطبہ محمود مندرجہ اخبار الفضل قادیان ۲۶ جنوری ۱۹۲۶ئ)
اب قادیانی تبائیں کہ کیا یہ منکسرالمزاجی تھی؟۔
(۲)… ’’ کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں‘‘ اگر یہ عاجزی ہے تو تمام مرزائی اجتماعی طور پر مرزا قادیانی کی سنت پر عمل کرکے عاجزی کریں اور اعلان کریں کہ وہ آدم زاد نہیں۔
(۳)… ’’ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار‘‘ تو انسان کی جائے نفرت دو مقام ہیں۔ مرزا ئی وضاحت کریں کہ وہ کونسی جگہ تھا۔ (لاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم۰)

اعتراض نمبر۱۰:من یطع اﷲ والرسول​

’’ومن یطع اﷲ والرسول فاولیئک مع الذین انعم اﷲ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین وحسن اولیٔک رفیقا۰ نساء ۲۹‘‘
قادیانی :جو اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں وہ نبی ہوں گے‘ صدیق ہوں گے‘ شہید ہوں گے‘ صالح ہوں گے ۔اس آیت میں چار درجات کے ملنے کا ذکر ہے۔اگر انسان صدیق ‘ شہید‘صالح بن سکتا ہے تو نبی کیوں نہیں بن سکتا؟۔تین درجوں کو جاری ماننا ایک کو بند ماننا تحریف نہیں تو اور کیا ہے؟۔ اگر صرف معیت مراد ہو تو کیا حضرت صدیق اکبر ؓ ‘حضرت فاروق اعظم ؓ صدیقیوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوں گے۔ خود صدیق اور شہید نہ تھے؟۔
جواب۱ :آیت مبارکہ میں نبوت ملنے کا ذکر نہیں بلکہ جو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ کی اطاعت کرے وہ آخرت میں انبیاء ‘ صدیقوں ‘شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ جیسا کہ آیت کے آخری الفاظ ’’حسن اولئک رفیقا۰‘‘ ظاہر کرتے ہیں۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
جواب ۲: یہاں معیت ہے عینیت نہیں ہے۔ معیت فی الدینا ہر مومن کو حاصل نہیں اس لئے اس سے مراد معیت فی الآخرۃ ہی ہے۔ چنانچہ مرزائیوں کے مسلمہ دسویں صدی کے مجدد امام جلال الدین نے اپنی تفسیر جلالین شریف میں اس آیت کا شان نزول لکھا ہے:
’’قال بعض الصحابۃ للنبی ﷺ کیف نرٰک فی الجنۃ وانت فی الدرجات العلی۰ ونحن اسفل منک فنزل ومن یطع اﷲ والرسول فیما امربہ فااولیئک مع الذین انعم اﷲ من النبیین والصدیقین ۰ افاضل اصحاب الا نبیاء لمبا لغتھم فی الصدق والتصدیق والشھداء القتلی فی سبیل اﷲ والصلحین غیر من ذکر وحسن اولیئک رفیقا۰ رفقاء فی الجنۃ بان یستمتع فیھا برویتھم وزیارتھم والحضور معھم وان کان مقرھم فی درجات عالیۃ۰ جلالین ص ۸۰‘‘ {بعض صحابہ کرام ؓ نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ﷺ جنت کے بلندو بالا مقامات پر ہوں گے۔ اور ہم جنت کے نچلے درجات پر ہوں گے۔ تو آپ ﷺ کی زیارت کیسے ہوگی؟۔ پس یہ آیت نازل ہوئی ’’ من یطع اﷲ والرسول۔۔۔۔۔۔ الخ‘‘ یہاں رفاقت سے مراد جنت کی رفاقت ہے کہ صحابہ کرام ؓ انبیاء علیہم السلام کی زیارت وحاضری سے فیض یاب ہوں گے۔ اگرچہ ان (انبیائ) کا قیام بلند مقام پر ہوگا۔}
اسی طرح تفسیر کبیر ص ۱۷۰ ج۱۰ میں ہے:
’’من یطع اﷲ والرسول ذکروا فی سبب النزول وجوھا۰ الا ول رویٰ جمع من المفسرین ان ثوبان ؓ مولیٰ رسول اﷲ ﷺ کان شدید الحب لرسول اﷲ ﷺ قلیل الصبرعنہ فاتاہ یوما وقد تغیر وجھہہ ونحل جسمہ وعرف الخزن فی وجھہ فسالہ رسول اﷲ ﷺ عن حالہ فقال یا رسول اﷲ مابی وجع غیرانی اذالم ارٰک اشتقت الیک واستو حشت وحش شدید حتی القاک فذکرت الاخرۃ فخفت ان لااراک ھناک لاانی ان ادخلت الجنۃ فانت تکون فی الدرجات النبیین وانا فی الدرجۃ العبید فلا اراک وان انالم ادخل الجنۃ فحینٔد لااراک ابدا فنزلت ھذہ الایۃ۰‘‘{’’من یطع اﷲ ۔۔۔ ۔۔۔الخ‘‘ (اس آیت) کے شان نزول کے کئی اسباب مفسرین نے ذکر کئے ہیں۔ ان میں پہلا یہ ہے کہ حضرت ثوبان ؓ جو آنحضرت ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ وہ آپ کے بہت زیادہ شیدائی تھے۔ (جدائی پر)صبر نہ کرسکتے تھے۔ ایک دن غمگین صورت بنائے رحمت دو عالم ﷺ کے پاس آئے۔ ان کے چہرہ پر حزن وملال کے اثرات تھے۔ آپ ﷺ نے وجہ دریافت فرمائی ۔ تو انہوں نے عرض کیا کہ مجھے کوئی تکلیف نہیں ۔ بس اتنا ہے کہ آپ ﷺ کو نہ دیکھیں تو اشتیاق ملاقات میں بے قراری بڑھ جاتی ہے۔ آپ ﷺ کی زیارت ہوئی آپ ﷺ نے قیامت کا تذکرہ کیا تو سوچتا ہوں کہ جنت میں داخلہ ملا بھی تو آپ ﷺ سے ملاقات کیسے ہوگی۔اس لئے کہ آپﷺ تو انبیاء کے درجات میں ہوں گے۔ اور ہم آپ ﷺ کے غلاموں کے درجہ میں۔ اور اگر جنت میں سرے سے میرا داخلہ ہی نہ ہوا تو پھر ہمیشہ کے لئے ملاقات سے گئے۔ اس پریہ آیت ناز ل ہوئی۔}
معلوم ہوا کہ اس معیت سے مراد جنت کی رفاقت ہے۔
ابن کثیر ‘ تنویر المقیاس روح البیان میں بھی تقریبا یہی مضمون ہے:
حدیث نمبر۱
’’ عن معاذبن انس ؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ من قرء الف آیۃ فی سبیل اﷲ کتب یوم القیامۃ مع النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین وحسن اولیئک رفیقا۰منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند احمد ص ۳۶۳ ج ۱ ‘ابن کثیر ص ۲۳ ج ۱‘‘ {حضرت معاذ ؓ فرماتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ایک ہزار آیت اﷲ (کی رضا) کے لئے تلاوت کرے ۔ طے شدہ ہے کہ وہ قیامت کے دن نبیوں‘ صدیقوں‘ شہداء وصالحین کے ساتھ بہترین رفاقت میں ہوگا۔}
حدیث نمبر۲
’’قال رسول اﷲ ﷺ التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشہداء ۰ منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند احمد ص ۲۰۹ ج ۲‘ ابن کثیر ص ۵۲۳ ج۱ طبع مصر‘‘ {آپ ﷺ نے فرمایا کہ سچا تاجرامانت دار (قیامت کے دن) نبیوں صدیقوں اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔}
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
مرزائی بتائیں کہ اس زمانہ میں کتنے امین وصادق تاجر نبی ہوئے ہیں۔
حدیث نمبر۳
’’ عن عائشہ ؓ قالت سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول مامن نبی یمرض الا خیربین الدنیا والآخرۃ وکان فی شکواہ الذی قبض اخذتہ مجۃ شدیدا فسمعتہ یقول مع الذین انعمت علیھم من النبیین فعلمتہ انہ خیر۰ مشکوٰۃ ص ۵۴۷ ج ۲‘ ابن کثیر ص ۵۲۲ ج ۱ طبع مصر‘‘ {حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺسے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ ہر نبی مرض (وفات) میں اسے اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں رہنا چاہتا ہے یا عالم آخرت میں۔ جس مرض میں آپ ﷺ کی وفات ہوئی آپ ﷺ اس مرض میں فرماتے تھے ’’ مع الذین انعمت علیھم من النبیین ‘‘اس سے میں سمجھ گئی کہ آ پ ﷺ کو بھی (دنیا وآخرت میں سے ایک کا) اختیار دیا جارہا ہے۔}
کتب سیر میں یہ روایت موجود ہے کہ آنحضرت ﷺ نے وصال کے وقت یہ الفاظ ارشاد فرمائے:
’’ مع الرفیق الا علیٰ فی الجنۃ مع الذین انعمت علیھم من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین۰ البدایہ والنھایہ ص ۲۴۱ ج ۵‘‘ {رفیق اعلیٰ کے ساتھ جنت میں انعام یافتہ لوگوں (یعنی) انبیاء وصدیقین وشہداء وصالحین کے ساتھ۔}
معلوم ہوا کہ اس آیت میں نبی بننے کا ذکر نہیں کیونکہ نبی تو پہلے بن چکے تھے آپ ﷺ کی تمنا آخرت کی معیت کے متعلق تھی۔
حدیث نمبر۴
’’ عن انس ؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ من احبنی کان معیی فی الجنۃ۰ ابن عساکر ص ۱۴۵ ج ۳ بحوالہ موسوعۃ اطراف الحدیث النبوی ص۳۴ج۸‘‘ {حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص مجھ سے (دنیا میں )محبت کرے گا (آخرت) جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔}
حدیث نمبر۵
’’ عن عمربن مرۃ الجہنی ؓ قال جاء رجل الی النبی ﷺ فقال یا رسول اﷲ ﷺ اشہدت ان لاالہ لااﷲ وانک رسول اﷲ وصلیت الخمس وادیت زکوٰۃ مالی وصمت رمضان فقال ﷺ من مات علیٰ ھذا کان مع النبیین والصدیقین والشہداء یوم القیامۃ ھکذا ونصب اصبعیہ۰ مسند احمد ‘ ابن کثیر ص ۵۲۳ ج ۱‘‘ {ایک صحابی نے عرض کیا کہ میں کلمہ پڑھتا ہوں‘ نماز پڑھتا ہوں‘ زکوٰۃ دیتا ہوں‘ روزے رکھتا ہوں‘ آپ ﷺ نے فرمایا ان اعمال پر جس کو موت آجائے وہ قیامت میں نبیوں ‘ صدیقوں ‘ شہیدوں کی معیت وصحبت میں اس طرح ہوگا۔(اپنی دونوں انگلیوں کو اکٹھا کرکے دکھلایا۔)}
حدیث نمبر۶
’’قال علیہ السلام المرٔ مع من احب۰ مسند احمد ص ۱۰۴ ج۳‘‘ {آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس سے محبت ہوگی۔}
ان تمام احادیث میں مع کا لفظ ہے۔ جو معیت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ان کو عینیت کے معنوں میں لینا ممکن ہی نہیں۔ محض اختصار سے یہ روایات عرض کی ہے ۔ ورنہ اس طرح کی بے شمارروایات ہیں۔ جیسے ’’الماھر بالقران مع الکرام البررۃ‘‘ وغیرہ ۔ ان کا احاطہ کرنا ممکن ہی نہیں۔

درجات کے ملنے کا تذکرہ​

قرآن کریم میں جہاںدنیا میں درجات ملنے کا ذکر ہے وہاں نبوت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اگرچہ باقی تمام درجات مذکور ہیں جیسے دیکھو!
 
Top