ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
ایک اور دھوکہ (کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وفات مسیح کے قائل تھے (معاذاللہ))
مرزائیوں بلکہ خود مرزاجی نے حضرت ابن عباسؓ کے اس قول سے مسلمانوں کو بڑا دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے کہ انہوں نے بخاری میں ’’متوفیک‘‘ کا معنی ’’ممیتک‘‘ کیا ہے کہ میں تجھے موت دینے والا ہوں… گویا وہ وفات مسیح کے قائل ہیں۔ یہ قطعاً دھوکہ اور غلط ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عباسؓ نے ’’متوفیک‘‘ کا معنی ’’ممیتک‘‘ کیا ہے۔ یہ تو تسلی اور وعدہ ہے کہ میں تجھے توفی کر کے اپنی طرف اٹھاؤں گا۔ اب یہ بات کہ یہ وعدہ کب خدا نے پورا کیا ہم کہتے ہیں کہ جب وہ سولی پر چڑھانے کا ارادہ کرنے لگے۔ اﷲتعالیٰ نے وعدہ کے مطابق ان کو پوری طرح قبض کر کے آسمان کی طرف اٹھالیا۔ مرزائی کہتے ہیں کہ پوری پوری تکلیف اور ایذاؤں کے بعد سال گزار کر موت دی۔ موت تو ہر شخص کو دی جاتی ہے یہ کیا وعدہ تھا۔ کیا اﷲتعالیٰ کے شایان شان یہی تھا؟
2525’’مگر اماتت کا معنی صرف موت دینا نہیں بلکہ سلانا اور بے ہوش کرنا بھی ہے۔‘‘
(دیکھو مرزاجی کی کتاب ازالہ اوہام حصہ دوم ص۹۴۳، خزائن ج۳ ص۲۶۱)
تومعنی یہ ہوا کہ اے عیسیٰ میں تجھے سلا کر یا بے ہوش کر کے آسمان کی طرف اٹھانے والا ہوں۔ تو اب تمام آیات اور تفسیریں ایک طرح ہوگئیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر ’’ممیتک‘‘ کا معنی وہی موت دینے کے لئے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھے موت دوں گا یہ نہیں دے سکتے، اور فی الحال آسمان کی طرف اٹھاتا ہوں اور ان لوگوں سے تم کو پاک کرتا ہوں۔ گویا آیت میں وہ تقدیم وتاخیر کے قائل ہیں کہ موت میں دوں گا۔ لیکن بعد میں، اور فی الحال تم کو اٹھاتا ہوں۔
یہ معنی ہم اپنی طرف سے، مرزائیوں کی طرح نہیں کرتے۔ بلکہ مجدد صدی نہم امام جلال الدین سیوطیؒ نے خود حضرت ابن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ تابعی ضحاکؒ حضرت ابن عباسؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ مراد اس جگہ یہ ہے کہ میں تجھے اٹھاؤں گا اور پھر آخری زمانہ میں فوت کروں گا۔
(درمنثور)
اسی طرح مجدد صدی دہم حضرت علامہ محمد طاہر گجراتی مصنف مجمع البحار نے فرمایا کہ:
’’
انی متوفیک ورافعک الیّ علی التقدیم والتاخیر ویجییٔ فی اٰخرالزمان لتواتر خبر النزول
‘‘ {یہ متوفیک اور رافعک الیّ تقدیم وتاخیر کے ساتھ ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانہ میں آئیں گے۔ کیونکہ ان کے نزول کی خبر متواتر ہے۔}
امام رازیؒ نے ’’تفسیر کبیر جلد دوم سورۃ آل عمران‘‘ میں لکھا ہے کہ یہاں واؤ سے ترتیب ثابت نہیں ہوتی کہ پہلے وفات ہو پھر رفع۔ بلکہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ 2526یہ کام کریں گے۔ باقی کب کریں گے؟ کس طرح کریں گے؟ تو یہ بات دلیل پر موقوف ہے اور دلیل سے ثابت ہوچکا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور حضور ﷺ سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ نازل ہوکر دجال کو قتل کریں گے۔ پھر ان کو اﷲتعالیٰ اس کے بعد وفات دیں گے اور یہ تقدیم وتاخیر قرآن میں بہت ہے۔ مثلاً:
۱… ’’
یامریم اقنتی لربک واسجدی وارکعی
(آل عمران:۴۳)‘‘ {اے مریم اپنے رب کی عبادت کر اور سجدہ اور رکوع کر۔} تو یہاں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رکوع سے سجدہ پہلے کرے۔ کیونکہ سجدے کا ذکر پہلے آگیا ہے۔
۲… اسی طرح ’’
واوحینا الیٰ ابراہیم واسماعیل واسحٰق ویعقوب والاسباط وعیسیٰ وایوب ویونس وہارون وآتینا داؤد زبورا
(نسائ:۱۶۳)‘‘
اس آیت میں بھی واؤ سے ترتیب ثابت نہیں ہوتی کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مذکور باقی انبیاء علیہم السلام سے بعد میں آئے ہیں۔ مگر آیت میں ان کا ذکر پہلے ہے۔
۳… اگر ہم کہیں کہ یہاں زید، عمر، بکر اور خالد آئے تو اس کا یہ معنی نہیں کہ پہلے زید آیا پھر عمر آیا پھر بکر اور آخر میں خالد آیا۔ واؤ ترتیب کے لئے نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ سب حضرات آئے۔ باقی کس طرح اور کس ترتیب سے آئے اس کا ذکر نہیں ہے۔
مطلب یہ ہوا کہ حضرت ابن عباسؓ کے لفظوں کا معنی موت دینا ہی لے لیں تو بھی وہ حیات مسیح کے قائل ہیں اور آیت میں تقدیم وتاخیر کے قائل ہیں۔
۱… جب توفی کے بعد رفع ہو اور رفع کا وقوع بھی بعد میں ہو تو اس کا معنی یقینا موت نہ ہوں گے۔ ایسی کوئی مثال (اس کے خلاف) نہیں ہے۔
۲… 2527اس سے پہلے کی آیت میں ہے کہ یہودیوں نے بھی تدبیر کی اور اﷲتعالیٰ نے بھی تدبیر فرمائی اور اﷲتعالیٰ کی طرح کون بہتر تدبیر کر سکتا ہے۔ اب آپ فرمائیں کہ اگر مرزاغلام احمد قادیانی کی تفسیر مان لیں اور متوفیک کا مفہوم ہم تیرہ سو برسوں کے مجددین ومحدثین کے مطابق نہ لیں تو پھر کس کی تدبیر غالب آئی۔ یہود کی یا خداتعالیٰ کی۔ بقول مرزاجی کے یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پکڑوایا، مذاق اڑایا، منہ پر تھوکا، منہ پر طمانچے مارے، سولی پر چڑھایا، ان کے اعضاء میں میخیں ٹھونکیں اور جو کچھ کر سکتے تھے کیا۔ آخر کار مرا ہوا سمجھ کر سولی سے اتارا۔ حالانکہ ان میں ابھی جان تھی۔ خفیہ علاج کیا گیا وہ بچ گئے اور زخم اچھے ہونے کے بعد ماں سمیت وہاں سے چلے گئے اور دو ہزار سال پہلے کے جنگلوں، صحراؤں، دریاؤں، بیابانوں کو طے کرتے کرتے افغانستان پہنچے۔ خدا جانے کس طرح پھر پنجاب آئے۔ کسی نہ کسی طرح سری نگر جا پہنچے وہاں ساری عمر گمنامی میں گزاری اور مر گئے۔ یہودیوں نے اپنی طرف سے قتل کر کے ان کو لعنتی قرار دے دیا، عیسائیوں کو جو موقع پر موجود نہ تھے یقین دلا دیا۔ جنہوں نے کفارہ کا عقیدہ گھڑ لیا۔ اﷲتعالیٰ اتنا ہی کر سکے کہ سولی پر جان نہ نکلنے دی۔
کیا یہ خداتعالیٰ کی بہترین تدبیر تھی۔ پھر اسی تدبیر کا قیامت کے دن احسان جتائیں گے کہ میں نے بنی اسرائیل کو تم سے روکے رکھا کیا یہی روکنا تھا؟
۳… کیا موت کے بعد اوروں کا رفع روحانی نہیں ہوتا۔ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کون سی تخصیص ہے؟
۴… اگر متوفیک کا معنی موت دینا ہے اور رافعک کا معنی بھی روح کا اٹھانا ہے تو پھر رافعک کا لفظ زائد اور بے سود ہو جاتا ہے۔ جس سے قرآن کی بلاغت 2528قائم نہیں رہتی۔ جس کی شان سب سے اعلیٰ وارفع ہے۔ اور نہ عربی میں ایسا ہوتا ہے۔
۵… خداتعالیٰ کی یہ تدبیر تو فتنہ صلیب کے وقت کے لئے تھی۔ اسی وقت کی تسلی کے لئے انی متوفیک فرمایا گیا۔ مرزاجی کے مطابق یہ رفع روحانی اس وقت ہوا اور موت اس وقت واقع ہوئی جب کہ تمام طرح کی تکالیف گزر چکی تھیں۔ اچھی تسلی دی گئی؟
قرآن سے حیاتِ عیسی علیہ السلام کا ثبوت (آیت نمبر ۴)
آیت نمبر۴: ’’
وبکفرہم وقولہم علی مریم بہتانا عظیماً وقولہم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اﷲ وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالہم بہ من علم الاتباع الظن وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ وکان اﷲ عزیزاً حکیما
(نسائ:۱۵۷،۱۵۸)‘‘ {(اور ہم نے ان یہود پر لعنت کی) ان کے کفر اور مریم پر بڑا بہتان باندھنے کی وجہ سے اور کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کر ڈالا ہے جو اﷲ کے رسول ہیں۔ حالانکہ انہوں نے ان کو نہ قتل کیانہ سولی پر چڑھایا۔ البتہ ان کے لئے (ایک آدمی) مشابہ کر دیا گیا اور اس میں اختلاف کرنے والے (خود) شک کے اندر ہیں۔ ان کو اس واقعہ کا کوئی قطعی علم نہیں ہے۔ صرف ظن (تخمین) کی پیروی ہے اور انہوں نے اس (عیسیٰ علیہ السلام) کو یقینا قتل نہیں کیا۔ بلکہ اس کو اﷲتعالیٰ نے اپنی طرف اٹھالیا اور اﷲ بڑے غالب اور حکمت والے ہیں۔}
اس آیت کریمہ نے اصل مسئلے کا بالکل فیصلہ کر دیا کہ نہ تو یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا اور نہ ہی سولی چڑھایا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ 2529مرزاجی کبھی کہتے ہیں کہ روح کو اٹھایا کبھی کہتے ہیں اٹھانا بمعنی عزت دی۔ بھلا آپ خود غور کریں۔
۱… کہ قرآن پاک میں اسی ذات کے اٹھانے کا ذکر ہے جس کے قتل کا یہودی دعویٰ کرتے تھے تو کیا وہ روح کو قتل کرتے تھے۔ یا جسم اور روح دونوں پر قتل کا فعل واقع ہونا تھا۔ اس سے صاف وصریح معلوم ہوا کہ رفع اس کا ہوا جس کو وہ قتل کرنا یا سولی پر چڑھانا چاہتے تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم اور روح دونوں تھے۔ صرف روح نہ تھی۔
۲… ’’
وما قتلوہ وما صلبوہ
‘‘ اور پھر ’’
وما قتلوہ
‘‘ میں جب تمام ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں تو پھر رفعہ اﷲ کی ضمیر کیوں ان کی طرف راجع نہیں؟
۳… بات یہ بھی قابل غور ہے کہ رفع کا ذکر اسی وقت کا ہے جس وقت وہ قتل کرنا چاہتے تھے۔ مرزاجی روح کا رفع مراد لے کر ۸۷سال بعد کشمیر میں رفع روحانی کہتے ہیں۔
ایں کار از تو آید ومرداں چنیں کنند
۴… یہود مطلق قتل کے قائل نہ تھے۔ بلکہ وہ سولی پر چڑھا کر سولی کے ذریعے قتل کے قائل تھے تو جب اﷲتعالیٰ نے فرمایا ’’وما قتلوہ وما صلبوہ‘‘ تو اس کا معنی یہ ہوا کہ ان یہودیوں نے ان کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی سولی پر چڑھایا۔ مرزاجی کا ترجمہ یوں ہے کہ نہ ان کو قتل کیا نہ سولی پر قتل کیا۔ (کتنا بھدا ترجمہ ہے)
۵… آیت میں ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ ہر عقلمند جانتا ہے کہ بل کے بعد والی بات، بل سے پہلے والی بات کی ضد ہوتی ہے۔ جیسے کہا جائے کہ زید لاہور نہیں گیا، 2530بلکہ سیالکوٹ گیا۔ یا یوں کہیں زید مسلمان نہیں بلکہ مرزائی ہے تو اس کا یہی معنی ہے کہ دوسری بات پہلی بات کے خلاف ہے۔
اب اﷲتعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ان کو قتل نہیں کیاگیا۔ بلکہ میں نے اپنی طرف اٹھالیا تو یہ تب ہی صحیح ہوسکتا ہے کہ رفع جسمانی مراد ہو۔ ورنہ مرزاجی کا معنی یہ ہوگا کہ انہوں نے قتل نہیں کیا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کو موت دے دی تو قتل اور موت میں کوئی تضاد نہیں۔ کیونکہ قتل میں بھی موت ہوتی ہے۔
اس ’’بل‘‘ نے بھی مرزائیوں کا بل نکال دیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ قتل میں بھی موت خدا ہی دیا کرتے ہیں تو اس کاکیا مطلب ہوا کہ انہوں نے قتل نہیں کیا۔ بلکہ خدا نے موت دے دی۔ (معاذ اﷲ)
۶… آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل کے ارادے کے وقت خداتعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اٹھا کر بچا لیا اور مرزاجی کہتے ہیں کہ اس واقعہ سے ۸۷سال بعد سری نگر میں گمنامی کی موت مرے۔ (معاذ اﷲ)
۱… اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مجدد صدی نہم امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں۔ ’’اور نہ قتل کر سکے یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اور نہ پھانسی پر ہی لٹکا سکے۔ بلکہ بات یوں ہوئی کہ یہود کے لئے حضرت مسیح علیہ السلام کی شبیہ بنادی گئی اور وہی قتل کیاگیا اور سولی دیا گیا۔‘‘
(تفسیر جلالین ص۹۱، زیر آیت کریمہ)
۲… مجدد صدی سیزدہم حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب دہلویؒ اپنے ترجمہ میں فرماتے ہیں کہ: ’’نہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا نہ سولی چڑھایا۔‘‘ (ترجمہ شاہ عبدالقادرؒ)
۳… 2531’’
وکان اﷲ عزیزاً حکیما
‘‘ اس پر آیت ختم کر دی گئی کہ اﷲتعالیٰ کو کمال قدرت اور کمال علم حاصل ہے تو اﷲتعالیٰ نے متنبہ فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا دنیا سے آسمانوں کی طرف اٹھانا اگرچہ آدمیوں کے لئے تعذر رکھتا ہے۔ مگر میری قدرت وحکمت کے لحاظ سے اس میں کوئی تعذر نہیں ہے۔ یہ تفسیر حضرت امام رازی صاحبؒ مجدد صدی ششم نے بیان فرمائی ہے۔
یہ ہے کہ اگر سولی پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو چڑھایا تھا تو بجائے اس کے کہ لعنت کی وجہ ان کے قتل کا قول بتاتے۔ یوں فرماتے ’’
وبصلبہم
‘‘ یعنی ان پر لعنت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صولی پر چڑھانے کی وجہ سے ہوئی۔
یہ ہے کہ یہودی تو قائل ہی اس بات کے تھے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دے کر قتل کیا ہے۔ تو پھر وہ ماقتلوہ کافی تھا۔ ما صلبوہ کی کیا ضرورت تھی؟ معلوم ہوا کہ صرف سولی پر چڑھانے کو صلیب کہتے ہیں اور اﷲتعالیٰ مکمل طور پر حقیقت آشکار کرنا چاہتے تھے۔
یہ ہے کہ واقعہ صلیب کا ضرور ہوا تھا۔ لاکھوں لوگوں کو علم تھا۔ ایک آدمی کو سولی دی گئی تھی اور مشہور کیاگیا تھا کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام تھے 2532تو سوال پیدا ہوتا تھا کہ سولی دی گئی تھی۔ اگر وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ تھے تو پھر کون تھا؟ اس کا جواب قرآن پاک نے دیا ’’
بل شبہ لہم
‘‘ کہ ایک شخص پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شبیہ ڈال دی گئی (یہی غدار یہودا تھا) اس کو سولی پر لٹکا کر کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔
یہ ہے کہ پھر مسیح علیہ السلام کدھر گئے۔ اس کا جواب دیاگیا کہ ’’
بل رفعہ اﷲ الیہ
(النسائ:۱۵۹)‘‘ کہ ان کو اﷲتعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا۔
آخر میں ’’عزیزاً حکیما‘‘ فرما کر مسلمانوں کے عقیدے کو مضبوط سے مضبوط فرما دیا۔
----------
[At this stage Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali).]
(اس موقع پر ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے اجلاس کی صدارت چھوڑ دی جسے جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) نے سنبھال لیا)
----------
مولانا عبدالحکیم:
قرآن سے حیاتِ عیسی علیہ السلام کا ثبوت (آیت نمبر ۵)
آیت نمبر۵: ’’
وان من اہل الکتاب الا لیؤمننّ بہ قبل موتہ ویوم القیامۃ یکون علیم شہیدا
(النسائ:۱۵۹)‘‘ {جتنے فرقے ہیں اہل کتاب کے سو عیسیٰ علیہ السلام پر یقین لاویں گے اس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا ان پر گواہ۔}
مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب سارے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ان کی وفات سے پہلے پہل ایمان لے آئیں گے اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوں گے۔ اس آیت کریمہ نے تو بہت ہی صفائی سے اعلان کر دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ ان کے مرنے سے پہلے یہود ونصاریٰ ان پر ایمان لائیں گے۔ گویا وہ بیسیوں حدیثیں اس آیت کی 2533شرح ہیں۔ جن میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام عادل، حاکم (فیصلے کرنے والے) ہوکر نازل ہوں گے۔ دجال کو قتل کریں گے۔ اس وقت اسلام تمام اکناف عالم میں پھیل جائے گا اور جو یہود ونصاریٰ بچیں گے سب ان پر ایمان لے آئیں گے اور ایسے معجزات اور فتوحات دیکھنے کے بعد جو اسلامی روایات کے عین مطابق ظہور پذیر ہوں گے کیوں ایمان نہ لائیں گے۔ اب آپ ذرا چوتھی اور پانچویں آیت کا ترجمہ ملا کر پھر پڑھیں۔
۱… مرزاجی اس آیت کے ترجمے اور مطلب میں بری طرح پھنسے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ یہود ونصاریٰ تو قیامت تک باقی رہیں گے۔ حالانکہ صور پھونکنے (بگل بجانے) کے بعد کون زندہ رہے گا۔ ایسی تمام آیتوں میں مراد قرب قیامت ہوتی ہے۔ ورنہ عام محاورہ ہے۔ مثلاً یہ کہیں کہ مرزائی قیامت تک مرزاغلام احمد کو مسلمان ثابت نہیں کر سکتے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمارا مناظرہ قیامت تک جاری رہے گا۔
۲… کبھی مرزاجی کہتا ہے کہ مرنے سے پہلے سارے یہود ونصاریٰ صحیح بات پر ایمان لے آتے ہیں۔ کیونکہ موت کے وقت ان کو حقیقت معلوم ہو جاتی ہے۔ ان باتوں سے مرزاجی اپنے مریدوں کو قابو رکھنے اور سادہ لوگوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ ورنہ سب سمجھ سکتے ہیں کہ آیت کریمہ میں ’’لیؤمنّن‘‘ کے صیغے نے اس بات کو مستقبل کے ساتھ خاص کر لیا ہے کہ آئندہ ایسا ہوگا کہ وہ ضرور ایمان لائیں گے۔ مگر مرزاجی اس کا معنی لیؤمنن کہ جگہ لیؤمن کرتے ہیں کہ تمام اہل کتاب ایمان لے آتے ہیں۔ حالانکہ یہ گرائمر (صرف نحو کے) قواعد کے لحاظ سے بالکل غلط ہے۔
۳… 2534پھر مرزاجی یہاں ایمان کامعنی وہ ایمان کرتے ہیں جو آخری وقت (غرغرہ اور نزع کے وقت) کا ایمان ہے جو ایمان مقبول نہیں جیسے فرعون کا ایمان ڈوبتے وقت کا نامنظور تھا۔ حالانکہ قرآن پاک میں صرف ایک سورۃ بقرہ میں ایمان یا اس کے مشتقات تقریباً پچاس جگہ ذکر ہوئے ہیں۔ ان سب مقامات پر بلکہ قرآن پاک کی دوسری سینکڑوں جگہوں پر ایمان سے مراد ایمان مقبول ہے۔
جب مرزاجی کسی آیت کے معنی میں دھوکہ دینا چاہتے ہیں تو لکھ مارتے ہیں کہ یہ لفظ قرآن میں اتنی جگہ اس معنی میں استعمال ہوا ہے مگر یہاں سینکڑوں مقامات پر ایمان کے معنی ایمان مقبول سے گریز کر کے دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے۔
۴… اگر ایمان سے، ایمان مردود اور نامقبول ہی مراد ہوتا ہے تو پھر لیؤمننّ بہ قبل موتہ نہ کہا جاتا۔ کیونکہ مرنے سے پہلے کا ایمان تو مقبول ومنظور ہے۔ وہاں موت کے وقت یعنی غرغرے کا ایمان مقبول نہیں ہوتا تو قبل موتہ کی جگہ عند موتہ ہونا چاہئے تھا کہ ان اہل کتاب کو موت کے وقت حقیقت کا پتہ چل جاتا ہے۔ حالانکہ قرآن پاک جیسی فصیح وبلیغ کتاب عند موتہ نہیں فرماتی بلکہ قبل موتہ فرماتی ہے۔
۵… کبھی مرزائی آڑ لیتے ہیں کہ قبل موتہ کی ضمیر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع نہیں ہے اور ایک شاذ قرأت کا سہارا لیتے ہیں۔ جس میں قبل موتہ کی جگہ قبل موتہم آیا ہے۔ حالانکہ پہلے تو قرأت متواترہ کے مقابلہ میں قرأت شاذہ کا کیا اعتبار ہے۔ جب کہ وہ کمزور ہے؟ پھر اگر مان لیا جائے تو اس صورت میں معنی اس طرح کریں گے جو قرأت متواترہ کے مطابق ہوں۔ اس طرح معنی 2535یوں ہوں گے کہ جب (عیسیٰ علیہ السلام) دوبارہ آئیں گے تو اس وقت کے بچے ہوئے سارے اہل کتاب اپنے مرنے سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے اور یہ معنی ان بیسیوں حدیثوں کے عین مطابق ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے گا۔
۶… اب آیت نمبر۴ اور آیت نمبر۵ کو ملا کر پھر پڑھیں۔ یہاں ذکر ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے۔ ان کو قتل نہیں کیا۔ ان کو سولی نہیں دی۔ ان کو اﷲتعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا۔ ان پر ان کے مرنے سے پہلے تمام اہل کتاب کو ایمان لانا ہوگا اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوں گے۔ تمام ضمیریں عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں۔ انہیں کا ذکر ہے۔ اس کے سوا کوئی اور معنی کرنا قرآن پاک سے مذاق کرنے کے مترادف ہے۔ قرآن پاک کا فیصلہ بالکل صاف ہے۔
۷… اب آپ مرزاقادیانی کا ترجمہ دیکھ کر ذرا لطف اٹھائیں۔ وہ اس کا معنی (ازالہ اوہام ص۳۷۲، خزائن ج۳ ص۲۹۱) میں یوں لکھتے ہیں: ’’کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیںجو ہمارے اس بیان مذکورہ پر جو ہم نے (خدا نے) اہل کتاب کے خیالات کی نسبت ظاہر کئے ہیں۔ ایمان نہ رکھتا ہو۔ قبل اس کے جو وہ اس حقیقت پر ایمان لاوے۔ جو مسیح اپنی طبعی موت سے مر گیا۔‘‘
پہلے تو مرزاجی کے اس ترجمے کا مطلب ہی کوئی نہ سمجھے گا اگر سمجھ بھی جائے تو مرزاناصر احمد اور سارے مرزائی بتائیں کہ یہ الفاظ جو مرزاجی نے ترجمہ میں گھسیٹے ہیں۔ قرآن پاک کے کن الفاظ کا ترجمہ ہے؟ ورنہ پھر حدیث رسول ﷺ کے مطابق جہنم کے لئے تیار رہیں۔ خود مرزاجی نے لکھا ہے کہ 2536’’مؤمن کا کام نہیں کہ تفسیر بالرائے کرے۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۳۲۸، خزائن ج۳ ص۲۶۷)
اگر ایمان ہے تو تیرہ سو سال کے مجددین یا کسی حدیث سے یہ معنی ثابت کریں۔ اس آیت کریمہ کا مطلب بالکل صاف ہے۔ مگر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مزید وضاحت یا تائید کے لئے بعض بزرگان سلف کے ارشادات بیان کر دئیے جائیں۔
(امام شعرانی الیواقیت والجواہر جلد نمبر۲ ص۱۴۶) میں لکھتے ہیں: ’’
الدلیل علیٰ نزولہ قولہ تعالیٰ وان من اہل الکتب الا لیؤمننّ بہ قبل موتہ اے حین ینزل… والحق انہ رفع بجسدہ الی السماء والایمان بہ واجب
‘‘