• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں ہونے والی اکیس دن کی مکمل کاروائی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں عقائد(مرزاغلام احمدقادیانی کا عقیدہ)
مرزاقادیانی نے نہ مسلمانوں کے عقیدے کو صحیح قرار دیا نہ یہودونصاریٰ کی بات کو درست مانا۔ بلکہ اس نے چونکہ خود آنے والا مسیح ابن مریم بننا تھا۔ اس لئے پہلے تو یہ کہا کہ اصل عیسیٰ بن مریم فوت ہوچکے ہیں اور فوت شدہ کوئی آدمی دنیا میں دوبارہ نہیں 2511آسکتا۔ اس لئے آنے والا مسیح بن مریم میں ہوں اور اپنی طرف سے مسیح موعود کی اصطلاح گھڑ لی۔ حالانکہ تمام پرانی کتابوں میں مسیح ابن مریم علیہما السلام یا عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام مذکور ہے۔ مسیح موعود کا لفظ کہیں نہیں ہے۔
مرزاجی کہتے ہیں کہ یہودی قتل تو نہیں کر سکے مگر سولی پر عیسیٰ علیہ السلام کو ضرور چڑھایا۔ ان کو گرفتار کیا۔ ان کے منہ پر تھوکا، ان کے منہ پر طمانچے مارے، ان کا مذاق اڑایا اور سولی پر چڑھایا۔ ان کے جسم میں میخیں ٹھونکیں اور ان کو مار کر اپنی طرف سے مرا ہوا سمجھ کر سولی سے اتار لیا۔ مگر دراصل اس میں ابھی رمق باقی تھی۔ مرہم لگائے گئے۔ خفیہ علاج کیاگیا اور اچھا ہوکر وہ وہاں سے چپکے سے نکل گئے اور ماں سمیت کہیں چلے گئے۔ جاتے جاتے وہ افغانستان پہنچے۔ وہاں سے پنجاب آئے۔ پھر کشمیر چلے گئے اور سری نگر میں دن گزارے۔ وہیں مر گئے۔ ان کی قبر بھی وہیں ہے۔
اور آنے والا مسیح ابن مریم میں ہوں اور آگیا ہوں۔ مجھ پر ایمان لے آؤ۔ میں کہتا ہوں انگریز سے جہاد حرام ہے۔ اس کی اطاعت آدھا اسلام ہے۔ ۱۸۵۷ء کا جہاد غنڈوں کا کام تھا۔ میرے سارے خاندان نے انگریزی خدمات بجالائیں۔ میں فقیر تھا اور کچھ نہ ہوا تو ممانعت جہاد کی کتابیں لکھ لکھ کر سارے مسلمان ملکوں تک پہنچا دیں۔ خدا قیصرۂ لنڈن کا اقبال ہمیشہ قائم رکھے۔ اس کی سلطنت میں ہم سب کچھ کر سکتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ آنے والے مسیح تو پہلے زمانے میں نبی تھے اور اب بھی ان کی شان نبوت اسی طرح رہے گی۔ وہ امت محمدیہ کی خدمت اسی شریعت کی رو سے کر کے اس کو غالب بنائیں گے۔ تو مرزاجی نے کہا میں بھی نبی ہوں اور بے شک نبوت ختم ہوگئی ہے۔ مگر میں فنا فی الرسول ہوکر نبی بنا ہوں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، حضرت پیران پیرؒ، حضرت خواجہ اجمیریؒ، امام ربانیؒ اور شیخ اکبرؒ کوئی بھی میرے برابر درجہ حاصل نہیں کر سکا۔ نبوت کا نام صرف مجھے ملا ہے۔ قیامت 2512تک اور بھی امت میں سے کوئی نبی نہ ہوگا۔ میری شان اس پرانے عیسیٰ بن مریم سے ہر طرح بلند ہے۔ بلکہ میرے معجزات اتنے ہیں کہ ایک ہزار پیغمبروں کی پیغمبری ان سے ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ ہے مرزاقادیانی اور یہ ہے اس کا عقیدہ۔ اب ہم قرآن وحدیث سے اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہیں۔ آپ تمہید میں بیان کئے ہوئے اصول کو پھر پڑھیں اور پیش نظر رکھیں۔ نیز مجددوں کی تفسیر کی اہمیت بھی سمجھ رکھیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قرآنی آیات سے حیات عیسیٰ علیہ السلام کا ثبوت
پہلی آیت:
’’ واذ قالت الملائکۃ یٰمریم ان اﷲ یبشرک بکلمۃ منہ اسمہ المسیح عیسیٰ ابن مریم وجیہا فی الدنیا والآخرۃ (آل عمران:۴۵)‘‘
{اور جب کہا فرشتوں نے اے مریم بے شک اﷲتعالیٰ تم کو خوشخبری سناتا ہے۔ اپنے ایک کلمہ کی (یعنی بچے کی) اس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہے جو دنیا میں بھی صاحب عزت ووجاہت ہے اور آخرت میں بھی۔}
اس آیت میں اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دنیوی وجاہت کا ذکر ہی نہیں کیا۔بلکہ اس کی خوشخبری دی۔ اب یہ وجاہت وہ وجاہت وعزت تو ہے نہیں جو دنیاداروں کو عام طور پر حاصل ہوتی ہے۔ ورنہ اس کے ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ خاص کر ذکر انعام واکرام کے موقعہ پر؟
روحانی وجاہت بھی مراد نہیں ہے۔ وہ تو حضرت مریم علیہا السلام کو لفظ کلمہ سے اور اُخروی وجاہت سے معلوم ہوسکتا تھا۔ وجیہاً فی الدنیا کے بیان کا کیا مقصد ہے؟ پھر اﷲتعالیٰ کی دی ہوئی عزت ووجاہت معمولی عزت ووجاہت بھی نہیں ہوسکتی جو خاص طور پر بطور نعمت وبشارت کے ہو۔
2513اب ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پہلی عمر میں دنیوی وجاہت تو حاصل نہیں ہوئی۔ بلکہ یہود کی مخالفت نے جو گل کھلائے وہ سب کے سامنے ہیں۔ لازماً اس سے وہی وجاہت مراد ہے جو نزول کے بعد ہوگی۔ اس وقت تمام اہل کتاب بھی آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ ساری دنیا مسلمان ہو جائے گی۔ وہ چالیس سال تک دنیا بھر میں شریعت محمدیہ کی روشنی میں دین کی خدمت کریں گے۔ بیوی اور اولاد بھی ہوگی۔ اس سے بڑھ کر دنیوی وجاہت کیا ہوسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں مرزائی حوالہ جات بھی ملاحظہ ہوں۔
۱… رسالہ (مسیح ہندوستان میں ص۵۱، خزائن ج۱۵ ص۵۳) میں مرزاجی کہتے ہیں:
’’دنیا میں مسیح علیہ السلام کو اس زندگی میں وجاہت، عزت، مرتبہ، عظمت وبزرگی ملے گی اور آخرت میں بھی، اب ظاہر ہے کہ حضرت مسیح نے ہیرودیس کے علاقہ میں کوئی عزت نہیں پائی۔ بلکہ غایت درجہ تحقیر کی گئی۔‘‘
۲… مولوی محمد علی لاہوری (امیر جماعت لاہوری مرزائی) نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے کہ:
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود بیت المقدس میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔‘‘
(تفسیر بیان القرآن جلد نمبر۱ ص۲۱۱)
۳… مرزاجی کو جب تک خود عیسیٰ ابن مریم بننے کا شوق نہیں چرایا تھا تو خود انہوں نے بھی (براہین احمدیہ ص۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۳) میں لکھا:
’’ ہوالذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلّہ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبۂ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیاگیا ہے۔ وہ غلبہ مسیح کے دوبارہ آنے سے ظہور میں آئے گا۔‘‘
پس مسلمانوں کے اس معنی کو مانے بغیر کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آکر دنیوی جاہ وجلال کے مالک ہوں گے چارہ ہی نہیں ہے۔ اس کے سوا سری نگر میں کسی 2514وجاہت کی بات کسی مفسر یا مجدد کے قول سے مرزائی ثابت نہیں کر سکتے۔

دوسری آیت:
’’ فلما احسّ عیسیٰ منہم الکفر قال من انصاری الیٰ اﷲ قال الحواریّون نحن انصار اﷲ آمنا باﷲ واشہد بانا مسلمون ربنا اٰمنا بما انزلت واتبعنا الرسول فاکتبنا مع الشاہدین ومکروا ومکراﷲ واﷲ خیر الماکرین (آل عمران:۵۲تا۵۴)‘‘
{پھر جب عیسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں کی طرف سے انکار محسوس کیا فرمایا کون کون اﷲ کی راہ میں میرے مددگار ہوں گے۔ حواریین نے کہا ہم اﷲ کے دین کی مدد کریں گے۔ ہم اﷲ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے اس پر جو آپ نے نازل کیا اور پیغمبر کی ہم نے اطاعت کی تو ہم کو گواہوں میں لکھ دے اور انہوں (یہودیوں) نے تدبیر کی اور اﷲ نے بھی تدبیر کی اور اﷲتعالیٰ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ (تمام مدبروں سے بڑھ کر)}
اس آیت میں اﷲتعالیٰ نے بتایا کہ یہودیوں نے تدبیر کی اور ہم نے بھی تدبیر کی اور ہماری تدبیر سے کس کی تدبیر بہتر ہوسکتی ہے؟
یہودیوں کی تدبیر یہ تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کرا کر سولی پر چڑھادیں کہ بقول مرزاجی تورات کی تعلیم کے مطابق (معاذ اﷲ) وہ لعنتی ہو جائیں۔
اﷲتعالیٰ کی تدبیر یہ تھی کہ عیسیٰ علیہ السلام کو فرشتے کے ذریعے آسمان پر اٹھا لیا اور ان کی شکل وصورت کے مشابہ ایک اور آدمی کو کر دیا کہ جس نے جاسوسی کر کے آپ کو پکڑوا کر سولی دلانی تھی۔
چنانچہ وہی (جاسوس) سولی پر چڑھایا گیا۔ اس کا سارا واویلا فضول گیا۔ سب نے اس کو مسیح ابن مریم ہی سمجھا۔ وہ لوگوں کو پاگل سمجھ رہا تھا کہ مجھ بے گناہ کو کیوں قتل کر 2515رہے ہیں اور لوگ اس کو پاگل سمجھتے اور کہتے تھے کہ اب موت سے بچنے کے لئے یہ پاگل بنتا ہے۔ اب آپ مرزاجی کی قابلیت کی داد دیں کہ تورات کی تعلیم یہ تھی کہ جو سولی پر لٹکایا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے۔ کیا کوئی بے گناہ سولی پر لٹکائے جانے سے خدا کے ہاں لعنتی ہوسکتا ہے؟ تورات میں بھی گنہگار اور مجرم آدمی کا ذکر ہے۔ بے گناہ تو کتنے پیغمبر خود قرآن کے ارشادات کے مطابق قتل کئے گئے جو شہید ہوئے۔
----------
[At this stage Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali)]
(اس موقع پر ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے صدارت چھوڑ دی۔ جسے مسٹر چیئرمین صاحبزادہ فاروق علی نے سنبھال لیا)
----------
مولانا عبدالحکیم: مرزاجی کی دوسری قابلیت کی بھی داددیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام گرفتار ہوئے۔ ان کے منہ پر (معاذ اﷲ) تھوکا گیا۔ طمانچے مارے گئے۔ سولی پر چڑھائے گئے۔ میخیں ٹھوکی گئیں۔ خوب مذاق اڑایا گیا اور وہ چیخ چیخ کر خدا کو پکارتے رہے اور آخر کار ان کو مقتول سمجھ کر اتار دیا گیا۔ بھلا یہ خدا کی تدبیر تھی! جو بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ اس طرح تو یہود کی تدبیر کامیاب ہوئی اور بقول مرزاجی کے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہر طرح ذلیل کیاگیا اور جو یہودی چاہتے تھے وہ کر گزرے۔ حتیٰ کہ نصرانیوں کو بھی یقین دلادیا کہ ہم نے یسوع مسیح کو قتل کر دیا۔ مرزاجی کہتے ہیں کہ خدا کی تدبیر یہ ہوئی کہ جان نہیں نکلنے دی۔
کیا یہی وہ تدبیر تھی کہ جس کو قیامت میں اﷲتعالیٰ بطور احسان کے جتلائیں گے؟ پس معلوم ہوا کہ جو مسلمان سمجھے ہیں وہ حق ہے۔
اس آیت کریمہ کے ضمن میں مجددینؒ نے کیا لکھا ہے وہ سن لیجئے۔
۱… حضرت مجدد صدی ششم امام فخرالدین رازیؒ نے (تفسیر کبیر ص۶۹،۷۰، ج۴ جز نمبر۸، آل عمران:۵۴) میں لکھا ہے کہ یہود کی تدبیر تو قتل کی تیاری تھی اور خدا کی تدبیر یہ تھی کہ جبرائیل 2516علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مکان کے روزن سے آسمان کو اٹھالے گئے اور ایک اور شخص کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شکل پر کر دیا۔ جس کو یہودیوں نے سولی پر چڑھادیا۔ اس طرح اﷲتعالیٰ نے یہود کا شران تک نہ پہنچنے دیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مجدد صدی ششم حضرت حافظ ابن کثیرؒ کی تفسیر
۲… (ابن کثیر ص۳۶۵، آل عمران:۵۴) میں انہوں نے بھی لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر لے جایا گیا اور ان کی جگہ اس غدار شخص کو سولی دی گئی۔ جس کی شکل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح کر دی گئی تھی۔
۳… حضرت مجدد صدی نہم امام جلال الدین سیوطیؒ نے فرمایا کہ یہود نے عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے لئے انتظام کیا۔ مگر اﷲتعالیٰ نے یہ تدبیر کی کہ ان کو آسمان پر اٹھا لیا اور ایک اور آدمی کو ان کی شکل پر کر دیا۔ جس کو سولی دے دی گئی۔ (جلالین ص۵۲، آل عمران:۵۴)
۴… یہی تفسیر مجدد صدی دوازدہم حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب دہلویؒ نے کی اور فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا نے آسمان کی طرف اٹھا لیا اور دوسرے آدمی کو عیسیٰ علیہ السلام سمجھ کر قتل کر دیا گیا۔ اب ان مجددین کی تفسیر کو صحیح نہ ماننے والا کیسے مسلمان ہوگا؟

آیت نمبر۳:
اس آیت میں اﷲتعالیٰ نے اپنی تدبیر کی تفصیل بتاکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اطمینان دلایا۔
’’ واذ قال اﷲ یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّ ومطہرک من الذین کفروا وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ ثم الیّ مرجعکم فاحکم بینکم فیما کنتم فیہ تختلفون (آل عمران:۵۵)‘‘
{جب کہا اﷲ نے اے عیسیٰ علیہ السلام میں تم کو پوری طرح اپنی طرف اٹھاؤں گا اور کافروں سے پاک کردوں گا اور تمہارے متبعین کو کافروں پر (قرب) یوم قیامت تک 2517غالب رکھوں گا۔ پھر میرے پاس آؤ گے اور میں تمہارے درمیان فیصلہ کروں گا۔}
یہاں بھی مرزاقادیانی کی جہالت آپ پر خوب واضح ہو جائے گی۔ کیونکہ مرزاجی نے متوفیک کامعنی کیا ہے۔ ’’میں تجھے موت دوں گا۔‘‘
بھلا یہ بھی کوئی تسلی ہے کہ یہودی تو کہیں ہم اس کو قتل کرتے ہیں اور اﷲتعالیٰ تسلی دیتے ہیں کہ میں موت دوں گا۔ یوں تو اور ڈرانا اور پریشان کرنا ہے۔ متوفیک کے معنی میں ان مجددین کے اقوال ملاحظہ فرمائیں کہ جو مرزائیوں کے ہاں بھی مسلمہ مجدد ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ایک مجدد کی تفسیر
اس آیت کا معنی اور مطلب مجدد صدی ششم امام رازیؒ (تفسیر کبیر ج۴ جز۸ ص۷۱،۷۲، آل عمران:۵۵) میں وہی لکھتے ہیں جو ہم نے یہاں بیان کیا۔ فرماتے ہیں توفی کے معنی ہیں ’’اخذ الشییٔ وافیاً‘‘ یعنی کسی چیز کو ہر لحاظ سے اپنے قابو میں کر لینا۔ اے عیسیٰ میں تیری عمر پوری کروں گا اور پھر تجھے وفات دوں گا میں ان یہود کو تیرے قتل کے لئے نہیں چھوڑوں گا۔ بلکہ تجھے آسمان کی طرف اٹھا لوں گا اور تجھ کو ان کے قابو میں آنے سے بچالوں گا۔ اﷲتعالیٰ کو معلوم تھا کہ بعض لوگ خیال کریں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم نہیں بلکہ روح اٹھائی گئی تھی۔ اس لئے متوفیک فرمایا تاکہ معلوم ہو کہ روح اور جسد دونوں آسمان کی طرف اٹھائے گئے۔ اگر کہا جائے کہ جب توفی کے معنی پوری طرح قابو کر لینا ہے تو پھر اس کے بعد رافعک کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پوری طرح قابو کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک توفی موت کے ذریعے ہوتی ہے۔ ایک بمعہ جسم آسمان کی طرف اٹھا لینے سے، ورافعک نے دوسرے معنی کو متعین کر دیا۔ (یہ سارا بیان حضرت امام رازیؒ کا تھا)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2518دوسرے مجدد کی تفسیر
امام جلال الدین سیوطیؒ ’’جو قادیانی، لاہوری دونوں کے ہاں مجدد صدی نہم ہیں اور ان کو اس دجہ کا آدمی سمجھتے ہیں کہ وہ متنازعہ فیہ مسائل میں آنحضرت ﷺ سے بالمشافہ پوچھ لیتے تھے۔ (ازالہ اوہام ص۱۵۱، خزائن ج۳ ص۱۷۷) وہ فرماتے ہیں: ’’ یا عیسیٰ انی متوفیک (قابضک) ورافعک الیّ (من الدنیا من غیر موت) (تفسیر جلالین ص۵۲، آل عمران۵۵)‘‘
ہم نے قرآن پاک کے وہ معانی کئے جن کی تائید دوسری آیات بھی کرتی ہیں۔ پھر حضور ﷺ قسم کھا کر نزول عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کا ذکر کرتے ہیں جو بلحاظ اصول مذکورہ ظاہر پر محمول ہے۔ پھر صحابہؓ نے یہی فرمایا اور دو مجددوں کی تفسیر بھی آپ کے سامنے ہے۔ مگر مرزائی ایک ہی رٹ لگاتے چلے جاتے ہیں اور اس مقولے پر عمل کئے ہوئے ہیں کہ جھوٹ اتنا بولو کہ اس کے سچ ہونے کا گمان ہونے لگے۔ مرزائی ہلدی کی گرہ لے کر پنساری بننے کی کوشش کرتے ہیں اور خاص کر ابن عباسؓ کے معنی کو لے کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ توفی کے معنی اور حضرت ابن عباسؓ کی تفسیر پر ذرا تفصیلی روشنی ڈالیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
لفظ توفی کی تحقیق
توفی کا لغوی معنی اخذ الشییٔ وافیاً۔ یعنی کسی چیز کو پوراپورا قابو کر لینا یا پورا پورا لے لینا۔ یہ وفاء سے ہے فوت سے نہیں۔ اس کا اصلی معنی وہی ہے جو دو مجددین نے بیان کر دیا۔
اب ان مجددین کے مقابلہ میں ہم انگریز کے خاص وفادار مرزاقادیانی کی بات کیسے مان سکتے ہیں؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2519تیسرے مجدد کی تفسیر
امام ابن تیمیہؒ مجدد صدی ہفتم اپنی کتاب (الجواب الصحیح لمن بدّل دین المسیح جلدنمبر۲ ص۲۸۰) پر لکھتے ہیں: ’’ لفظ التوفی فی لغۃ العرب معناہ الاستیفاء والقبض وذالک ثلثۃ انواع احدہا توفی النوم والثانی توفی الموت والثالث توفی الروح والبدن جیمعاً فانہ بذالک خرج عن حال اہل الارض ‘‘
{توفی کا معنی لغت عرب میں استیفاء اور قبض (یعنی کسی چیز کو پورا پورا لے لینا اور اس کو اپنے قابو میں کر لینا ہے) اس کی پھر تین قسمیں ہیں۔ ایک نیند کی توفی ایک موت کی توفی اور ایک جسم اور روح دونوں کی توفی اور عیسیٰ علیہ السلام اسی تیسرے طریقہ سے اہل زمین سے جدا ہوگئے ہیں۔}
جناب چیئرمین: مولانا صاحب! دو منٹ کے لئے ریسٹ کر لیں۔ باقی تقریباً ۸۰صفحے رہتے ہیں۔ دو گھنٹے میں ختم ہو جائیں گے۔ (وقفہ)
مولانا عبدالحکیم: جناب! اجازت ہے؟
جناب چیئرمین: پھر دو بجے تک جاری رکھیں۔ شام کو ایک گھنٹہ میں ختم ہو جائے گا۔
مولانا عبدالحکیم: جناب اجازت ہے؟
جناب چیئرمین: ایک سیکنڈ۔ پھر ہم ڈیڑھ بجے تک جاری رکھتے ہیں، پھر شام کو ساڑھے پانچ بجے دوبارہ شروع کریں گے اور نماز مغرب تک ختم کر دیں گے۔
2520میاں محمد عطاء اﷲ: جناب والا! میری رائے میں جو میٹریل اب باقی رہ گیا ہے وہ ایک گھنٹہ میں آسانی سے مولانا صاحب پڑھ سکتے ہیں۔
جناب چیئرمین: نہیں، آدھ گھنٹہ ٹھیک ہے۔ پھر اس کے بعد ریویو کریں گے۔
مولانا عبدالحکیم: جناب اجازت ہے؟
ترجمہ: اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی دلیل یہ آیت ہے۔ ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ای حین ینزل… اور حق یہ ہے کہ وہ جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور اس بات پر ایمان لانا واجب ہے۔‘‘
۲… مجدد صدی ہفتم امام ابن تیمیہؒ اپنی کتاب (الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح جلد دوم ص۲۸۱) میں فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’الا لیؤمننّ بہ میں ایمان نافع مراد ہے جو قبل از موت ہے۔ موت کے وقت غرغرے اور نزع کے وقت کا ایمان نہیں ہے جس سے کوئی فائدہ نہیں اور تمام کافروں کے لئے ہے اور تمام باتوں کے مان لینے کے لئے ہے۔ جس سے بھی انکار کرتے تھے۔ اس میں حضرت مسیح کو کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ لیؤمننّ مستقبل ہی میں مستعمل ہوتا ہے اور سب اہل کتاب حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات سے پہلے ایمان لے آئیں گے۔‘‘
۳… حضرت ابوہریرہؓ جلیل القدر صحابی ہیں۔ انہوں نے ایک حدیث بیان کر کے یہ آیت کریمہ پڑھی اور بتایا کہ اس آیت کریمہ میں اسی مسیح علیہ السلام کی زندگی کا ذکر کیا ہے جن کے نزول کی خبر سرور عالم ﷺ نے دی ہے۔ ہزاروں صحابہؓ میں سے کسی نے انکار نہیں کیا اور اس طرح اس مسئلہ پر اجماع صحابہؓ منعقد ہوگیا۔
2521جناب چیئرمین: ڈیڑھ بج گیا ہے۔ آپ کا کتنا Stamina (قوت برداشت) ہے؟
مولانا عبدالحکیم: بیجان ہوگیا ہوں بالکل۔
جناب چیئرمین: کیا رائے ہے آپ کی؟
Members: Monday. (ممبران: بروز پیر)
جناب چیئرمین: منڈے نہیں۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ کل صبح نہیں، آج شام کو ایک گھنٹہ لگے گا۔ ساڑھے پانچ بجے۔ اس کے بعد اگر کوئی ممبر صاحبان مختصر بحث کرنا چاہیں تو بیشک شام تک کرلیں۔ اس کے بعد جب کتاب ختم ہو جائے گی تو پھر جنرل ڈیبیٹ منڈے مارننگ سے شروع ہوگی۔
The Committee of the whole House is adjourned to meet at 5:30 pm. today.
(کل ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل کمیٹی کا اجلاس شام ساڑھے پانچ بجے تک ملتوی کر دیا گیا)
----------
The Special Committee adjourned for lunch break to re-assemble at 5:30 pm.
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس دوپہر کے کھانے کے وقفہ کے لئے شام ساڑھے پانچ بجے تک ملتوی کر دیا گیا)
----------
The Special Committee re-assemble after lunch break, Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس دوپہر کے کھانے کے وقفہ کے بعد دوبارہ شروع ہوا۔ مسٹر چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) صدارت کر رہے ہیں)
----------
Mr. Chairman: Yes, Maulana Abdul Hakim.
(جناب چیئرمین: ہاں جی! مولانا عبدالحکیم صاحب)
جناب چیئرمین: ہاں جی! شروع کریں۔
----------
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was accupied by Dr. Mrs Ashraf Khatoon Abbasi.]
(اس موقع پر جناب چیئرمین نے اجلاس کی صدارت چھوڑ دی جسے ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے سنبھال لیا)
----------
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2522قرآن پاک اور لفظ توفی
مولانا عبدالحکیم: قرآن پاک میں لفظ توفی بائیس مقامات پر آیا ہے۔ اگر توفی کا حقیقی معنی بقول مرزاجی کے موت دینے کے مانے جائیں تو بعض مقامات پر معنی ہی نہیں بنتا۔
۱… ’’ اﷲ یتوفی الانفس حین موتہا والتی لم تمت فی منامہا فیمسک التی قضیٰ علیہا الموت ویرسل الاخریٰ الیٰ اجل مسمٰی (الزمر:۴۲)‘‘ {اﷲتعالیٰ قابو کر لیتا ہے روحوں کو ان کی موت کے وقت جو مری نہیں ان کو قابو کر لیتا ہے نیند میں، پھر جن کا فیصلہ موت کا کیا اس کو روک دیتے ہیں اور دوسری روحوں کو واپس کر دیتے ہیں معیّن میعاد تک۔} اگر موت دینا مراد لیں تو معنی یہ ہوگا کہ اﷲتعالیٰ روحوں کو موت دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔ بلکہ معنی یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ روحوں کو قابو کر لیتے ہیں موت کے وقت بھی اور نیند کے وقت بھی۔
۲… ’’ وھوالذی یتوفاکم باللیل ویعلم ماجر حتم بالنہار (آل عمران:۶۰)‘‘
{خدا وہ ہے جو تم کو رات کے وقت قابو کر لیتا ہے اور جو تم دن کو کرتے ہو اس کو جانتا ہے۔}
یہاں بھی توفی سے مراد نیند ہے۔ ورنہ لازم آئے گا کہ رات کو سارے لوگ مرجایا کریں۔
۳… ’’ والذین یتوفون منکم (بقرہ:۲۳۴)‘‘ {اور وہ لوگ جو تم میں سے اپنی عمر پوری کر لیتے ہیں۔}
جب قرأت زبر کے ساتھ ہو تو پھر یہاں موت دینے کے معنی بن ہی نہیں سکتے ورنہ معنی یہ ہوگا جو لوگ اپنے کو موت دیتے ہیں۔
2523توفی کااصلی اور لغوی معنی تو یہ ہوا اور چونکہ موت میں بھی روح قابو (قبض) کی جاتی ہے۔ اس لئے اس کو توفی کہہ دیتے ہیں۔ اسی طرح نیند میں بھی روح کو ایک طرح قبض کیا جاتا ہے۔ اس لئے اس کو بھی توفی کہہ دیا جاتا ہے۔ مگر اصلی معنی کے سوا باقی معانی کے لئے قرینے اور دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے قرآن پاک کی بعض دوسری آیات میں قرینے موجود ہیں۔ جن کی وجہ سے وہاں موت کا معنی ہوتا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ایک مسئلہ
باقی رہا یہ مسئلہ کہ کسی لفظ کا استعمال زیادہ تر اس کے اصل معنی کی بجائے شرعی معنی یا عرفی معنی میں ہونے لگے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اب اصلی معنی میں یہ لفظ کبھی استعمال نہ ہوگا۔ یہ قطعاً غلط ہے۔
پہلی مثال
مثلاً صلوٰۃ کے معنی دعا کے ہیں۔ مگر شرعی اصطلاح میں صلوٰۃ ایک خاص عبادت ہے جس میں رکوع اور سجدے وغیرہ ہوتے ہیں اور قرآن پاک میں اس اصطلاحی معنی میں سینکڑوں جگہ صلوٰۃ کا استعمال ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً قرآن پاک میں ہے۔
’’ وصلّ علیم ان صلوتک سکن لہم (التوبہ:۱۰۳)‘‘ {اور آپ ان کے لئے دعا کریں ۔اس لئے کہ آپ کی دعا ان کے لئے باعث سکون ہے۔}
دوسری مثال
اسی طرح زکوٰۃ کا لفظ ایک خاص معنی میں زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی مالی عبادت کا ایک مخصوص طریقہ۔ مگر اصلی معنی میں بھی بلاروک ٹوک استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً: ’’ وحناناً من لدناوز کوٰۃ وکان تقیاً (مریم:۱۳)‘‘ {اور یحییٰ علیہ السلام کو ہم نے اپنی طرف سے شوق دیا اور ستھرائی اور تھاپرہیزگار۔}
یہاں زکوٰۃ اپنے اصلی معنی پاکی میں مستعمل ہوا۔ یعنی ستھرائی اور پاکیزگی۔ اسی 2524طرح توفی کا لفظ ہے۔ زیادہ تر اس کا استعمال روح کو قبض کرنے میں ہوتا ہے۔ چاہے نیند کی صورت میں ہویا موت کی صورت میں۔ لیکن کبھی اس کا استعمال روح اور جسم دونوں کے قبض کرنے میں بھی ہوتا ہے اور یہی اس کے اصل معنی ہیں۔ یعنی: ’’ اخذ الشیٔ وافیا ‘‘ {کسی چیز کو پوری طرح تو قابو کر لینا۔} جیسے کہ اہل لغت اور مجددین نے کہا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ایک مرزائی ڈھکوسلہ اور اس کا جواب
مرزاقادیانی اور اس کے پیرو کہہ دیا کرتے ہیں کہ توفی کا فاعل خدا ہو اور مفعول کوئی ذی روح ہو تو اس کا معنی قبض روح اور موت ہی کے ہوتے ہیں۔ یہ ایک دھوکہ یا ڈھکوسلہ ہے۔ ہم کہتے ہیں توفی کا فاعل خدا ہو مفعول ذی روح ہو اور اس کے بعد رفع کا ذکر ہو تو توفی کا معنی جسم وروح دونوں کا اٹھایا جانا مراد ہوتا ہے۔
 
Top