• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں ہونے والی اکیس دن کی مکمل کاروائی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانی سربراہ کا جھوٹ)
2671جناب والا! یہاں مرزاناصر احمد تشریف لائے۔ میں دینی معاملات کا ماہر نہیں، میں سیدھا سادہ مسلمان ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک شخص ہمارے سامنے، ان ممبر صاحبان کے سامنے جو ساری قوم سے ایلیکٹ ہوکر یہاں آئے ہیں، ان کا حافظہ اتنا کمزور نہیں کہ تین چار سال پہلے کی بات بھول جائیں۔ ان سے جب سوال ہوا تھا کہ کیا آپ سیاست میں حصہ لیتے ہیں، کیا آپ سیاسی جماعت ہیں، تو انہوں نے بڑے Confidence (اعتماد) سے فرمایا تھا کہ نہ ہم نے کبھی پہلے سیاست میں حصہ لیا نہ اب لے رہے ہیں اور کبھی نہیں لیں گے۔ میں خود کہہ سکتا ہوں اور میرے بھائی اس بات کو تسلیم کریں گے کہ انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کو پوری طرح سپورٹ کیا ہے۔ ان کے افراد نے ہر طریقہ سے ان کی پوری مدد کی۔ ان کے ہیڈ کوارٹر اور ان کے خلیفہ کی طرف سے ہدایات تھیں کہ ان کی بھرپور حمایت کی جائے۔ واضح طور پر انہوں نے ہمارا ساتھ دیا تھا۔
----------
[At this stage Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali).]
(اس موقع پر ڈاکٹر بیگم اشرف خاتون عباسی نے کرسی صدارت کو چھوڑا جو جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) نے سنبھال لی)
----------
ڈاکٹر غلام حسین: ان کا سیاسی نکتۂ نظر کچھ بھی سہی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے الیکشن میں حصہ لیا۔ انہوں نے یہاں ممبر صاحبان کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہم نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(تعداد کے بارہ میں مرزاناصر کا جھوٹ)
ان کی تعداد کے بارے میں باربار سوال کیا گیا کہ آپ کی پاکستان میں کتنی ہے تو انہوں نے آئیں بائیں شائیں میں جواب دینے کی کوشش کی۔ کبھی کہتے ہیں کہ ۳۰لاکھ، کبھی کہتے ہیں ۳۵لاکھ، کبھی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ریکارڈ نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ان کے پاس ایک ایک فرد کا ریکارڈ موجود ہے۔ جو کوئی نیا شخص ان کے فرقے میں داخل ہوتا ہے وہ ابتدائی فارم کے ذریعہ اپنا شجرہ نسب اور تمام تفصیلات دیتا ہے۔ آپ یہ 2672بھی جانتے ہیں کہ وہ ایک منظم جماعت ہے۔ ان کا ہر شخص اپنی آمدنی کا دس فیصد بیت المال ان کاجو So- Called (نام نہاد) بیت المال ہے، جو انہوں نے بزنس کا ذریعہ بنارکھا ہے، جیسے مالیہ وصول کرتے ہیں اسی طرح یہ مالیہ وصول کرتے ہیں۔ ان کے پاس ریکارڈ کیسے نہ ہو۔ پھر یہ کیوں جھوٹ بولتے ہیں۔ تعداد بتانے میں حرج ہی کیا ہے؟
تیسری بات انہوں نے جو کہی ہے وہ میں ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے بتاؤں گا کہ بیماری اﷲتعالیٰ کی طرف سے آسکتی ہے اور کسی شخص کو کوئی بیماری لگ سکتی ہے۔ اس میں بے عزتی کیا ہے؟ لیکن یہ کہنا کہ مرزا صاحب کو ہیضہ نہیں ہوا تھا اور یہ کہ ان کو Gastro- entritis ہوئی تھی۔ Acute Gastro- entritis ہیضے کا انگریزی ترجمہ ہے۔ ہیضے کا انگریزی ترجمہ کر کے جھوٹ بولنے کی کوئی تک نہیں ہے۔ جب ایک شخص ایک جھوٹ بول سکتا ہے تو اس کے ساتھ ہزاروں جھوٹ بھی بولے جاسکتے ہیں۔ چاولوں کی دیگ سے چند دانے ٹٹولے جاتے ہیں نہ کہ تمام دیگ۔ لہٰذا یہ لوگ نہایت خوبصورتی سے جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹے ہیں۔
Mr. Chairman: Thank you very much.
(ڈاکٹر غلام حسین: صرف ایک منٹ جناب والا!
Mr. Chairman: Sir, we have been sitting for ten days and most of the....
ڈاکٹر غلام حسین: جناب والا! صرف ایک منٹ کے بعد ختم کر دوں گا۔
جناب چیئرمین: میری بات تو سن لیں۔
I am not stopping you. We have been sitting for open debate for the last ten days and most of the honourable members present today were absent; and I have been requesting them that today we have got full opportunity, a member can speak for two hours or three hours. And 5th was fixed for Attorney- General. The time schedule has been announced also, and if today everybody wants to consume the maximum time, it cannot be allowed. I am sorry. You may speak and try to wind up.
(میں آپ کو روک نہیں رہا۔ ہم گزشتہ دس دنوں سے کھلی بحث کے لئے بیٹھتے رہے ہیں اور بہت سے معزز اراکین جو آج موجود ہیں گزشتہ دنوں میں غیر حاضر رہے ہیں اور میں ان سے گزارش کرتا رہا ہوں کہ آج ہمارے پاس پورا موقع ہے۔ آپ دوگھنٹے یا تین گھنٹے بھی بات کر سکتے ہیں اور پانچ تاریخ اٹارنی جنرل کے لئے متعین تھی۔ ٹائم شیڈول کا پہلے سے اعلان کیا جاچکا ہے اور اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ آج ہر شخص زیادہ ٹائم لینا چاہے۔ میں معذرت خواہ ہوں آپ بات کیجئے اور اسے جلد مکمل کرنے کی کوشش کیجئے)
2673ڈاکٹر غلام حسین: میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے بولنے کے لئے وقت دیا۔ میری آخری گزارش یہ ہے کہ یہ دینی مسئلہ ہے۔ اگر اس کو صحیح معنوں میں حل کرنا ہے اور Once for all (ہمیشہ کے لئے) حل کرنا ہے تو جیسے ہماری تجویزیں آئی ہیں، ریزولیوشنز آئے ہیں، پہلے جس طرح سمٹ کانفرنس بلائی گئی تھی اسی طریقے سے ہمیں ساری دنیا کے علماء کرام کی ایک سمٹ کانفرنس بلانی چاہئے اور ان میں سے Fundamental Truths (بنیادی سچائیاں) نکال کر ایک واحد پلیٹ فارم بنا کر پھر آگے چلنا چاہئے اور جہاں تک ہو سکے آپس کے اختلافات ختم کرنے چاہئیں اور یہ ہمارے اسلام کی اور اسلامی برادری کے اتحاد کی علامت اور ضمانت ہوگی۔
آخر میں میرا مطالبہ ہے کہ قادیانیوں کو نہ صرف غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ بلکہ بیرونی ملکوں میں ان کے پروپیگنڈے کو Counter (رد) کرنے کے لئے حکومتی سطح پر مشن قائم کئے جائیں جو ’’احمدیت‘‘ کی بجائے صحیح اسلام کو متعارف کراسکیں۔ شکریہ!
Mr. Chairman: Dr. Mrs. Abbasi. Two minutes by watch. (جناب چیئرمین: ڈاکٹر بیگم عباسی، گھڑی دیکھ کر دو منٹ)
Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi: Mr. Chairman, Sir, I want to associate myself, on behalf of the lady members of this House, with this important issue under discussion in this Special Committee. The importance of the issue is evident because it is being discussed in this august Committee of the whole House. We just cannot overlook the complications of this issue because this has stood unsolved for ninety long years. But, Sir, after hearing the discussions and the speeches of the honourable members and the 'Mahzarnamas' that have been produced in this august Special Committee, and the cross- examination of two leaders of Ahmadi Jamaat, has crystalised and there is no doubt that these Ahmadis and Quadianis or whatever you call them are not amongst us. They are not one with us, the Muslims as we are, I want to emphasise that the women population of Pakistan are as much concerned about this issue as the male population of Pakisatan.
2674We know, Sir, that the issue has crystalised and we are going to pass certain laws to solve this issue once for all. After this issue is solved, we will have to combat after- effects of the solution. Sir, I want to bring to the notice of the honourable members that when they solve this issue, they must also go in the public and let them understand the complications and what should be the solution of these complications because, after all, when you speak face to face and when you tell the people how they have to behave, they understand promptly. The modesty of the women is not molested. The other things, i.e. the international and national implications will be solved, Insha Allah, if we put our shoulder to it.
Thank you very much.
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(ڈاکٹر بیگم اشرف خاتون عباسی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)
(ڈاکٹر بیگم اشرف خاتون عباسی: جناب چیئرمین! میں اس ایوان کی خواتین ارکان کی طرف سے خصوصی کمیٹی میں زیربحث اس مسئلے میں شرکت کرنا چاہوں گی۔ مسئلے کی اہمیت اسی بات سے واضح ہے کہ یہ پورے ایوان کی اس معزز کمیٹی میں زیربحث ہے۔ ہم اس مسئلے کی پیچیدگیوں کو صرف اس لئے نظرانداز نہیں کر سکتے کہ انہیں پچھلے ۹۰سالوں سے حل نہیں کیاگیا۔ لیکن جناب معزز ارکان کی تقریروں اور بحثوں کو سننے اور اس معزز خصوصی کمیٹی میں پیش کردہ ’محضرناموں‘ کو پڑھ کر اور احمدی جماعت کے دولیڈروں پر بحث کو سن کر اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ یہ احمدی اور قادیانی یا آپ انہیں کچھ بھی کہیں، ہم میں سے نہیں ہیں۔ وہ ہم مسلمانوں میں سے نہیں ہیں۔ میں یہ بات زور دے کر کہنا چاہتی ہوں کہ پاکستان کی خواتین بھی اس مسئلے میں اسی طرح شریک ہیں جیسے پاکستان کے مرد۔
جناب والا! ہم جانتے ہیں کہ بات واضح ہوچکی ہے اور ہم ہمیشہ کے لئے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے چند قوانین منظور کرنے والے ہیں۔ جب یہ مسئلہ حل ہو جائے گا تو ہمیں اس حل کے نتیجے میں پیش آنے والی مشکلات سے بھی نمٹنا ہوگا۔ جناب! میں معزز اراکین کو توجہ دلانا چاہوں گی کہ اس مسئلے کے حل کے بعد وہ عوام کے پاس جائیں اور انہیں مسئلے کی پیچیدگیوں اور ان کے حل کے متعلق انہیں بتائیں۔ کیونکہ بہرحال جب آپ لوگوں کے سامنے بیٹھ کر ان سے بات کرتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ انہیں کیسا رویہ اختیار کرنا چاہئے تو وہ فوراً سمجھ جاتے ہیں۔ لوگوں کے اس رویے میں خواتین کی شرافت کا لحاظ ہمیشہ رکھا جائے۔ دوسری باتیں مسائل جیسے اس فیصلے کے قومی اور بین الاقوامی نتائج، انشاء اﷲ تعالیٰ! جلد حل ہو جائیں گے۔ اگر ہم سب شانہ بشانہ چلیں۔ آپ کا بہت شکریہ!)
(چوہدری غلام رسول تارڑ کھڑے ہوئے)
جناب چیئرمین: آپ تقریر کل کر لیں۔ یہ کوئی بات نہیں ہے۔ ہم ۱۵دن آپ کا انتظار کرتے رہے۔
چوہدری غلام رسول تارڑ: میں نے اٹھ کر بھی کہا تھا، آپ کو یاد ہوگا۔ (پنجابی)
جناب چیئرمین: ڈیڑھ بجے ہم نے Wind up (ختم) کرنا ہے۔ The Attorney- General must speak today for one hour. Mr. Ahmad Raza Khan Qasuri. (اٹارنی جنرل نے آج ایک گھنٹے کے لئے ضروری بات کرنی ہے۔ جناب احمد رضا خان قصوری) جنہوں نے دستخط کئے ہیں ان کو تھوڑا ٹائم ملے گا۔
جناب احمد رضا خان قصوری: جناب چیئرمین!…
جناب چیئرمین: آپ کل نہیں بولیں گے؟ Mr. Randhawa is a witness to it, Mr. Ahmad Raza Khan, I requested you to speak twenty times. (رندھاوا صاحب اس کے گواہ ہیں۔ احمد رضا خان صاحب میں نے ۲۰مرتبہ آپ سے بولنے کی درخواست کی) رضا صاحب! آپ بھی کل بول لیں۔
جناب احمد رضا خان قصوری: میں جلدی ختم کر دوں گا۔
جناب چیئرمین: نہیں، آپ کل ہی بول لیں۔
2675جناب احمد رضا خان قصوری: جیسے آپ مناسب سمجھیں۔
Mr. Chairman: Mr. Attorney- General.
(جناب چیئرمین: جناب اٹارنی جنرل صاحب!)
Mr. Yahya Bakhtiar (Attorney- Genral of Pakistan): Do you want me to address now or after the break?
(جناب یحییٰ بختیار (اٹارنی جنرل آف پاکستان): کیا آپ حضرات مجھے خطاب کے لئے ابھی یا وقفہ کے بعد کا آپ فرمائیں گے)
Mr. Chairman: We can break for ten minutes. And those honourable members who want to speak tomorrow, they can get so many points from the speech of the Attorney- General, and if certain points are covered by the Attorney- General, those points need not be repeated. So, we will meet at 12:15 p.m sharp.
(جناب چیئرمین: ہم دس منٹ کا وقفہ کر سکتے ہیں اور وہ قابل احترام ممبر جو کل گفتگو کرنا پسند کریں گے ان کو اٹارنی جنرل صاحب کی گفتگو سے بہت سارے نکات مل جائیں گے اور جن طے شدہ نکات پر اٹارنی جنرل گفتگو مکمل کر لیں گے ان کو دہرانے کی ضرورت نہ ہوگی۔ چنانچہ ۱۲بج کر ۱۵منٹ دوپہر کو ملیں گے)
----------
(The Special Committee adjourned for tea break to re-assemble at 12:15 pm.)
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس چائے کے وقفہ کے لئے ملتوی ہوا۔ سوابارہ بجے دوبارہ ہوگا)
----------
[The Special Committee re-assembled after tea break, Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس چائے کے وقفہ کے بعد دوبارہ شروع ہوا۔ جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) نے صدارت کی)
----------
Mr. Chairman: Yes Mr. Attorney- General.
(جناب چیئرمین: جی! جناب اٹارنی جنرل صاحب)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب یحییٰ بختیار کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
Mr. Yahya Bakhtiar: Mr. Chairman, Sir, in the first place, I express my apology for absence from the House for about a week and, therefore, I was not in a position to hear some of the speeches delivered by the honourable members. I understand that some very valid points were made and cogent reasons were given and many interesting points were brought out. I really do not know whether I would be repeating some of the speeches already delivered, but it was a call of duty which compelled me to go to Karachi.
Another thing, Sir, which I want to clarify and, I hope, the honourable members will appreciate, is my position as 2676Attorney- General. I have limitations and short comings which, I hope, the honourable members will appreciate. First of all, in this subject, my shortcomings were obvious as for the language was concerned or the languages were concerned and the subject matter itself. But I did my best according to the instructions of this House and I am grateful to the honourable members for the confidence that they have reposed in me and for the cooperation that they have extended.
Sir, I did my best, to the best of my ability. I did my duty in accordance with the wishes of the honourable members, and I think that the questions which were supplied to me were properly formulated by me.
Secondly, Sir, as far as the evidence is concerned, it will be my duty to bring it to the attention of the House as to what has come on record and to sum it up. But, as Attorney- General, I am not a member of the House and I cannot give findings as the Judges do, and I cannot express any opinion also. I feel, it is my duty to assist the honourable House in an impartial manner. We must realise and we must see that I am not here just to plead the cause of one party against another, but it will be my duty, as you are the Judges, to bring to your notice both the points of view so that nobody should feel and nobody should say that this was a one- sided show or that the Attorney- General, taking advantage of his position or abusing his position, tried to influence the decision one way or the other. So, I hope, that, with these limitations of mine in mind, the honourable members will appreciate if I also put forward the other point of view, or, in other words, both points of view.
As far as the decision is concerned, Sir, that is for the members to take, and I am sure, and I am hopeful that this is going to be a fair decision, a just decision, in accordance with the sentiments and feelings of the people of this country. We should have in mind the interests of Islam and the interests of the country, and I have not the slightest doubt that the patriotic sentiments and sentiments of love for Islam and for the love of the country are there and, therefore, I have no doubt that the members will take the right decision.
2677I had the honour and privilege of discussing this matter with the Prime Minister, who is also very anxious and is worried man, because this is going to be a very important decision. He thinks just as any other Muslim thinks, and he has the sentiments like those of any other Muslim but he is also the Prime Minister of the country, and he has got the responsibility to see that nobody is deprived of his rights and nobody is deprived of his life, liberty, honour and reputation in any manner except in accordance with law so, Sir, I hope and I understand that the leaders in this House have put thier heads together and they are trying to come to a decision which would be a fair decision and a just decision. You will recall, Sir, that in the course of the cross- examination also I tried to impress upon the leader of the Ahmadiya Jamaat, Rabwah, that this House do not want to harm anybody or hurt anybody; this House wanted to give a just and fair decision. Keeping that in mind, I will make my submission and recapitulate the circumastances very briefly which brought us to this day, to these proceedings.
Sir, before the House, there is a resolution and a motion. There is a motion, which was moved by the honourable the law Minister, which is as follows:
"I hereby give notice, under rule 205 of the Rules of Procedure and Conduct of Business in the National Assembly, 1973, of my intention to make the following motion.
That this House do appoint a Special Committee comprising the whole House, including persons who have the right to speak and otherwise take part in the proceedings of the House, with the Speaker as its Chairman, performing the following functions:
1- To discuss the question of the status in Islam of persons who do not believe in the finality of Prophethood of Muhammad (peace be upon him).
2- To receive and consider proposals, suggestions, resolutions, etc. from its members within a period to be specified by the Committee.
3- to make recommendations for the determination of the above issue as a result of its deliberations, 2678examination of witnesses and perusal of documents, if any.
The quorum of the Committee shall be forty, out of which ten will be from the parties opposed to the Government in the National Assembly."
Then Sir, there is also a resolution, which was moved by thirty- seven honourable members of this House.
----------
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi).]
----------
Mr. Yahya Bakhtiar: This reads, Sir, as follows:
"We beg to move the following:
Whereas it is a fully established fact that Mirza Ghulam Ahmed of Qadian clamied to be a prophet after the last Prophet MUHAMMAD (peace be upon him);
And whereas his false declaration to be a prophet, his attempts to falsify numerous Quranic texts and to abolish Jihad were treacherous to the main issues of Islam;
And whereas he was a creation of imperialism for the sole purpose of destroying Muslim solidarity and falsifying Islam;
And whereas there is a consensus of the entire Muslim Ummah that Mirza Ghulam Ahmed's followers, whether they believe in the prophethood of the said Mirza Ghulam Ahmed or consider him as their reformer or religious leader in any from whatsoever, are outside the pale of Islam;
2679And whereas his followers, by whatever name they are called, are indulging in subversive activities internally and externally by mixing with Muslims and pretending to be a sect of Islam;
And whereas in the Conference of the World Muslim Organization held in the holy city of Mecca- Al- Mukarrama between the 6th and 10th April, 1974, under the auspices of Al- Rabita Al- Alam- Al- Islami wherein delegations from one hundred and forty Muslim Organizations and institutions from all parts of the world participated, it has been unanimously held that Qadianism is a subversive movement against Islam and Muslim World which falsely and deceitfully claims to be an Islamic sect.
Now this assembly do proceed to declare that the followers of Mirza Ghulam Ahmed, by whatever name they are called, are not Muslims and that an official Bill be moved in the National Assembly to make adequate and necessary amendments in the Constitution to give effect to such declaration and to provide for the safeguard for their legitimate rights and interests as a non- Muslim minority of the Islamic Republic of Pakistan."
Sir, these are the two motions; a resolution and a motion. Apart from that, some other resolutions are also pending before the House, but they mostly deal with proposals for amending the Constitution, and I will respectfully submit that I will not say anything about them for two reasons. Firstly, only these two documents, were published in the press and on the basis of these two documents the communities affected or likely to be affected filed their written statements or memorials. On the basis of these documents they were examined. Therefore, it will not be fair to say anything with regard to the other resolutions. The Committee is authorised and competent to deal with them at any stage, but I will confine myself to these two documents and I shall make brief comments before I go into the procedure adopted for considering these documents. I hope I am not misunderstood if I am very frank in my comments on these two documents.
2680To begin with, first the motion by the honourable Law Minister, Now, Sir, here it says "to discuss the question of the status in Islam of persons who do not believe in the finality of Prophethood of Muhammad (peace be upon him)". Let us take the expression "To discuss the question of the status in Islam". If the House is of the view that people who do not believe in the finality of the Prophedhood of Hazrat Muhammad (peace be upon him) are not Muslims, then they have no status in Islam. They have nothing to do with Islam. The motion is a contradiction in terms. If it were said: "to discuss the question of the status in Islam or in relation to Islam", I could understand that; but to say "the status in Islam" is presuming that they are Muslims. I think, it is a contradiction which may not be of importance but it was my duty to bring it to the notice of the House. You cannot say what is their status in Islam, "in relation to Islam", yes.
Again, Sir, with all respect, the resolution moved by thirty- seven members is, in my opinion, in some parts contradictory. I will not go in great details, but the honourable members will take notice of the fact that it says in one place that whereas Mirza Ghulam Ahmad "was the creation of imperialism for the sole purpose of destroying Muslim solidarity and falsifying Islam", then it says "Whereas there is consensus of the Muslim Umma that these followers of Mirza Ghulam Ahmad are outside the pale of Islam." Then it further said that the followers by whatever name they are called, are indulging in subversive activities internally and externally by mixing with Muslims and pretending to be a sect of Islam. This is all very well. Then later they say: declare them as a minority, a non- Muslim religious community and amend the Constitution, provide for the safeguards subversion: Do you want to perpetuate the things which you condemn in the preamble of this resolution: This is the contradiction to which I wanted to draw your attention. On the one hand you say: declare them a minority, declare them a separate entity; and once you declare them as such, then you have to protect their rights. There is no alternative; and this is a very good part of this resolution. I appreciate it, I commend it, when they say that their legitimate rights and interests should be protected, but what are those rights? On the one hand they say they are a subversive movement, they indulge in subversion inside and outside. What is 2681that subversion: Propagating their religion, practising their religion, whatever they may be? You want to safeguard their rights and at the same time condemn them. You cannot have both. This is something which is obvious. I am not criticising. I have no right to criticise, but it is my duty do draw the attention of the honourable members of the House that if you declare a section of population as a separate religious community, then not only the Constitution but even your religion enjoins upon you to respect their right to profess and paractise their religion and to propagate it. I don't want to say anything more because I am fully conscious of the fact that there is very limited time at my disposal.
Now, in view of these two documents, the motion as well as the resolution, the honourable House has to determine certain points or issues. I shall formulate and read these out:
1- Whether Mirza Ghulam Ahmed of Qadiyan claimed to be a prophet?
2- What is the effect of such a claim of prophethood in Islam or in relation to Islam? I had to mention both "in Islam" and "in relation to Islam".
3- What is the meaning of the concept of Khatam-i- Nabuwwat; when we say "Khatim-un- Nabieen" what does it mean?
4- Whether there is a consensus of the Muslim world that followers of Mirza Ghulam Ahmad of Qadiyan, who consider him as a prophet or promised Massiha, or both, are outside the pale of Islam?
5- Whether Mirza Ghulam Ahmad and his followers consider Muslims who deny his claim to be a prophet or the promised Massiha as Kafirs and outside the pale of Islam?
6- Whether Mirza Ghulam Ahmad founded a separate religious community outside the pale of Islam or he merely started a new sect within its fold?
7- If he founded a seperate religious community, what would be its status in relation to Islam and what rights it will have under the Constitution of Pakistan?
2682Next, I will very briefly recapitulate some of the circumstances from the day the motion and the resolution were moved. These were moved on the 30th June, 1974. After they were published, two memorials were filed by the two Groups who follow Mirza Ghulam Ahmed. Then represntatives of both the Groups were invited to read, on oath, their statements and memorials, and I understand that they expressed a desire to be heard, so that they might further clarify and elaborate their points of view. In these documents which they filed, they refuted all the allegations made against them in the resolution.
It was decided by the House Committee to appoint a Steering Committee to receive questions and to examine them. For that prupose the Committee directed that I should be here in Islamabad with efect from 25th july, 1974. In compliance with that direction I was here on 21st july. The Steering Committee took about a week to scrutinise these questions which came in hundreds.
The delegation of Ahmadiya Community of Rabwa headed by their Imam or leader, Mirza Nasir Ahmad, was examined from 5th to 10th August and then there was a break of ten days. He was again examined from 20th August to 24th August. In all, the examination lasted for 11 days. Thereafter the other section of this Community, headed by Maulana Sadruddin, who spoke through Mian Abdul Mannan Omar because he is an old man and cannot hear properly, was examined. They were examined for two days. The reason was not that the House was discriminating between the two or attached more importance to one and not to the other, but for the simple reason that most of the facts about, and documents and writings of, Mirza Ghulam Ahmad had come on the record through the first Group and there was no need to go further into these details as far as the second Group was concerned.
As for the first issue whether Mirza Ghulam Ahmad claimed to be a prophet, I think it will be appropriate to say somthing briefly about his life and works and the Ahmadyia Movement. While dealing with this, I will be, in a way, dealing with the first issue itself. Mirza Nasir Ahmad has filed a brief biodata of Mirza Ghulam Ahmad. It is as follows:
2683’’آپ ۱۳؍فروری ۱۸۳۵ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۱؎۔ آپ کے والد صاحب کا نام مرزاغلام مرتضیٰ صاحب تھا۔
آپ کی ابتدائی تعلیم چند استادوں کے ذریعے سے گھر پر ہی ہوئی۔ آپ کے اساتذہ کے نام فضل الٰہی، فضل احمد اور گل محمد تھے۔ جن سے آپ نے فارسی، عربی اور دینیات کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور علم طب اپنے والد صاحب سے پڑھا۔ آپ شروع سے ہی اسلام کا درد رکھتے تھے اور دنیا سے کنارہ کش تھے۔ آپ کا ایک شعر ہے ؎
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ یہاں قادیانیوں کی مہیا کردہ مرزا کی تاریخ پیدائش بیان ہوئی جو غلط اور دجل ہے۔ خود مرزاقادیانی نے کتاب البریہ اور دیگر کتابوں میں بیسیوں جگہ لکھا ہے کہ میری پیدائش ۱۸۳۹ئ، ۱۸۴۰ء میں ہوئی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دگر استاد را نامے ندانم
کہ خواندم در دبستان محمدؐ

آپ نے عیسائیوں اور آریوں کے ساتھ ۱۸۷۶ء کے قریب اسلام کی طرف سے مناظرے اور مباحثے بھی کئے اور ۱۸۸۴ء میں اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت کی جو قرآن کریم، آنحضرت ﷺ اور اسلام کی تائید میں ایک بے نظیر کتاب مانی گئی ہے۔ ۱۸۸۹ء میں آپ نے باذن الٰہی سلسلہ بیعت کا آغاز کیا اور ۱۸۹۱ء میں خداتعالیٰ سے الہام پاکر مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔
آپ کی تمام عمر اسلام کی خدمت میں گزری اور آپ نے ۸۰ کے قریب کتابیں تصنیف فرمائیں جو عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں ہیں اور ان تینوں زبانوں میں آپ کا منظوم کلام بھی ملتا ہے۔
2684آپ کا اور آپ کی جماعت کا واحد مقصد دنیا میں اسلام کی اشاعت وتبلیغ تھا اور ہے۔ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو آپ کی وفات ہوئی اور ملک کے اخباروں رسالوں نے آپ کی اسلامی خدمات کا پرزور الفاظ میں اعتراف کیا۔
آپ کی وفات کے وقت آپ کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں اور اس وقت آپ کے خاندان کے افراد کی تعداد دو سو کے قریب ہے۔‘‘

Now, Madam, I have some more details of Mirza's life wich I could collect from the material placed at my disposal. I shall relate these details.
He belonged to an important and respectful Mughal family of the Punjab which had migrated from Samerkand to India at the time of Mughal Emperor Baber. The first ancestor of Mirza Ghulam Ahmad to come to India was Mirza Hadi Beg. Laquel Griffin, in his book "The Punjab Chiefs" says as follows, and I quote:
"Mirza Hadi Beg was appointed Qazi or Magistrate over seventy villages in the neighbourhood of Qadian, which town he is said to have founded and named it 'Islampuwr Qazi- Qazi', from which Qadian by natural change has arisen. For several generations the family hold offices under the Imperial Government and it was only when the Sikhs became powerful that it fell into poverty."
Thereafter, I will read a portion from the Enquiry Committee- Court of Enquiry- presided over by Mr. Justice Mohammad Munir in 1953-54. About Mirza Ghulam Ahmad the Court says, and I quote:
The grand son of Mirza Ghulam Murtaza, who was a General in the Sikh Durbar; he learnt Persian and Arabic languages at home but does not appear to have received any Western education. In 1864 he got some employment in the District Court, Sialkot, where he served for four years. On his father's death he devoted himself whole- heartedly to study religious literature and between 1880-84 wrote his famous 'Baraheen-i-Ahmadiya' in four volumes and later 2685wrote some more books. Acute religious countroversies were going on in those days. There were repeated attacks on Islam, not only by Christian missionaries but also preachers of Arya Samaj a liberal Hindu movement, which was becoming very popular.
Here I believe Mr. Justice Munir is not correct in describing Mirza Sahib as grandson of Mirza Ghulam Murtaza because Mirza Nasir Ahmad in his paper says that, that was his father's name.
According to the statement of Mirza Nasir Ahmad before the House, between the years 1860-1880, the British brought with them, what he called, an army of Padris- about 70 in number, as he mentioned and fierce religious controversies started, as these Padris, according to him, had declared that they would convert Muslims in India to Christianity. And Mirza Nasir Ahmad said with regard to these padris and their attack on Islam and on Holy Prophet Mohammad (peace be upon him) that-
حکومت کے بل بوتے پہ انہوں نے یہ کیا اور کر رہے تھے۔
At that stage, according to Mirza Nasir Ahmad, some Ulema and other leaders of Muslims religious thought came forward to reply to these Christian attacks and to repulse these attacks, and these included Nawab Sadiq Hasan Khan, Maulvi Aley Hasan, Maulvi Rahmatullah Mohajir Delhvi, Ahmad Raza Sahib and Mirza Ghulam Ahmad, and he said- I do not know about all of them- but I believe about all of them and not just Mirza Ghulam Ahmad: ’’اﷲ نے فراست دی تھی اور اسلام کا پیار دیا تھا۔‘‘
And that was the reason why they came forward to repulse these attaks on Islam and the Holy Prophet (peace be upon him). These controversies, these Munazeras, naturally made all those Muslims, including Mirza Ghulam Ahmad, very popular amongst Muslims. They became their heroes and it seems that Mirza Ghulam Ahmad was leading them in popularity among Muslims for repulsing these attacks on Islam, although, as it has become apparent from the record, that some of the methods adopted by him and may be by others in repulsing these attacks, were not desirable and were rather 2686objectionable- the way Jesus Christ was attacked or insulted, is not only objectionable today but even at that time Muslims had objected to that. Even at that time Mirza Ghulam Ahmad had to come out with explanation after explanation. But I will not go into that detail. Because of this popularity and because they were Muslims who treated him as hero, in 1889 we find that Mirza Ghulam Ahmed decided at the age of 54 that he should accept the oath of discipleship from his followers or those who respected him or who were willing to accept him as their religious leader. Now here we find that in Baraheen-i-Ahmadiya he had already mentioned that he received some divine messages or was in communication with Allah; that was known; but in 1889, actually in December 1889, according to his son, Second Khalifa of Ahmadiya Jamaat, Rabwah or Qadian, he actually founded this movement in March 1889, and the foundation of the movement does not refer to his claim to prophethood or of Massih-e- Mauood but to the effect that he started receiving oath of descipleship from his followers. There is no doubt that at that stage he got followers because the writings which we have seen leave no doubt that he had a very forceful pen, very eloquent pen, and he was undoubtedly a very capable person. He wrote eloquently in Arabic, Persian and Urdu. But one fact must be kept in Mind that, in 1889, and there is some confusion on the point- in one place I read that in December 1889, he received a message that he was Messih-e- Mauood, but he did not announce it and did not proclaim it. He only went to Ludhiana from Qadian to receive the oath of discipleship. Why? Why he did not announce it there in Qadian is for you to judge. But I find from the book of Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmad, the book called "Ahmadiyat or True Islam", that he went to Ludhiana to receive it, this oath of discipleship, and his other book, a small biography. In some other literature I read that according to Muslim religious literature, the Messiah was to come in a place, not come in a place but announce and proclaim his being Messiah in a place called 'Lud'. Probably keeping this in view he thought it appropriate to go to Ludhiana for the purpose or to receive oath of discipleship. He did not begin it in Qadian. This is what I want to point out. I shall go in greater detail about these controversies with Christians at a later stage.
Here it is also my duty to bring to the notice of the House that it was seriously alleged that his prophethood and Ahmadi movement were inspired and nurtured by the British Imperialism. This is not only mentioned in the resolution but also in a lot of 2687other literature that it was done at a time when the call for Jehad was raised against these foreign imparialists, from Sudan to Samatra. It was felt, they say by the British, to stop this call for Jehad, and for that purpose they utilised Mirza Sahib's services. This is an aspect also to which I draw your attention. It is also alleged that the followers of Mirza Ghulam Ahmad, because of the oath of discipleship, which contained a caluse, or that was part of his faith, should be loyal to the British Government, or that loyalty to the British Government was made an article of faith- a very servious factor- which was very much resented by the Muslims who wanted to get rid of the foreign imperialists who had usurped their Government and their authority in this sub- continent. In this way, it is alleged that because of that faith or part of that faith- loyalty to the British Government. The Ahmadi's or the followers of Mirza Ghulam Ahmad provided very good and excellent spies to the British Government. We find a reference that in 1925 there was one Mulla Abdul Hakim and another Mulla Noor Ali; two Ahmadis who in Afghanistan were declared 'Murtad' and Killed, not because they were Murtad, not only for that reason, but according to the statements of those days, and I understand 'Al-Fazil' of 3rd March, 1925 also, confirmed this fact that they were found in possession of some documents indication that they were agents of the British Government and that they wanted to overthrow the Government. I have to bring it to the notice of the House that these are the facts which have been mentioned. I do not say they are correct.
As regards Mirza Sahib's interpretation of, or his approach to, the Holy Quran, as far as I understand, his approach was similar to that of Sir Syed Ahmad Khan, except for a few Ayyats which according to him concern Messiah or his own Prophethood. He had a rationalistic interpretation of the Holy Quran. The most spectacular weapon that he used to overcome and over- awe Muslims and others was his prophesies, I should say his reckless prodictions about the persons who opposed him that they would come to sad end within a limited period or suffer miserably.
Madam, in 1891, Mirza Sahib claimed to be the Promised Messiah and later on he also claimed to be a prophet. I will deal with as to what kind of prophet he claimed he was, later on. According to his son, Mirza Bashir -ud-Din Mahmud Ahmad, and I quote from his book "Ahmadiyyat or the True Islam".
2688"His task was to sift all errors and mis interpretations which may have crept into an existing religious system owing to lapse of time; but he had a much higher mission to perform. He had to discover in it new and limitless treasures or eternal truths and hidden powers.
By pointing out this miracle of the Holy Quran, the Promised Messiah has effected a revolution in spiritual matters. The Muslims certainly believed that the Holy Quran was perfect, but during the last thirteen hundred yerars nobody had imagined that not only was it perfect but that it was an inexhaustible store house in which the needs of all future ages had been provided for, and that on investigation and research it would yield far richer treasures of spiritual knowledge than the material treasures which nature is capable of yielding. The Holy Founder of the Ahmadiyya Movement has, by presenting to the world this miraculous aspect of the Holy Quran, thrown open the door to a far wider field of discovery and research in spiritual matters, than any scientific discovery has ever done in the realm of physical science. He not only purified Islam of all extraneous errors and presented it to the world but also presented the Holy Quran to the world in a light which served at once to satisfy all the intellectual needs of mankind which the rapidly changing conditions of the world had brought into existence and to furnish a key to the solution of all future difficulties."
Now, Madam, I shall briefly say one or two things on this point, namely, that he discovered hidden treasures in the Holy Quran which for thirteen hundred years no other Muslim had been able to discover. Nobody doubts that the Holy Quran has a wealth or treasure that mankind will discover; nobody can deny that. it is full of wisdom. As man progresses, as we go deep into it, we find new meanings and new discoveries. But when I pointedly asked Mirza Nasir Ahmad as to what the discoveries were which except Mirza Sahib no Muslim knew before, apart from his interpretation of 'Khatim-un- Nabiyyeen', or about the life of Hazrat Essa whether he is alive or not, he pointed out that there was his commentary on "Surah Fateha" in which 70 percent of his interpretation and commentary was new. That is for the learned Ulama of the House to judge and comment on. I have nothing to 2689say; but I know of only Allama Iqbal's opinion about his discoveries in the Holy Quran, namely:
عصر من پیغمبرے ہم آفرید
آن کہ در قرآں بجز از خود ندید
(Our age has also produced a porphet, who in the Quran could see nothing but himself.)
And I think it is a very fair assessment. As far as we could understand, Mirza Sahib interpreted or re- interpreted those provisions which interested him.
Now, Madam, while dealing with his life and religious career, I will draw the attention of the House to three different stages in his life, and in this career, as already mentioned, the first stage was when he was a religious leader like other Muslim religious leaders having the same faith, the same views, the same notions, and he crossed swords with Christians and Arya Samajes. To indicate his view at this stage, say from 1875-76 to 1888-1889, I will first read a quotation. It is a translation from Arabic from 'Roohani Khazain', volume:7, page:220, by Mirza Ghulam Ahmad Quadiani, Here he says:
’’کیا تو نہیں جانتا کہ پروردگار رحیم وصاحب فضل نے ہمارے نبی ﷺ کا بغیر کسی استثناء کے خاتم النّبیین نام رکھا اور ہمارے نبی نے اہل طلب کے لئے اس کی تفسیر اپنے قول لانبی بعدی میں واضح طور پر فرمادی اور اگر ہم اپنے نبی کے بغیر کسی نبی کا ظہور جائز قرار دیں تو گویا ہم باب وحی بند ہوجانے کے بعد اس کا کھلنا جائز قرار دیں گے اور یہ صحیح نہیں۔ جیسا کہ مسلمانوں پر ظاہر ہے اور ہمارے رسول اﷲ ﷺ کے بعد نبی کیونکر آسکتا ہے۔ درآں حالیکہ آپ کی وفات کے بعد وحی منقطع ہوگئی اور اﷲتعالیٰ نے آپ پر نبیوں کا خاتمہ فرمادیا۔‘‘
This was in clear terms. He expressed his views on the subject of "Khatim-un- Nabiyyeen". Then he further said:
2690’’آنحضرت ﷺ نے باربار فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حدیث ’’لانبی بعدی‘‘ ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت پر کلام نہ تھا اور قرآن شریف کا ہر لفظ قطعی ہے۔ اپنی آیات ’’ ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین ‘‘ اس بات کی تصدیق کرتا تھا کہ ہمارے نبی ﷺ پر نبوت ختم ہوچکی ہے۔‘‘

(جاری ہے)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب یحییٰ بختیار کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب) بقیہ
This was from 'Kitabul Bariya', volume:13, Roohani Khazain, Hashia:217-218.
Again he says his ’’ازالہ اوہام‘‘ appearing in ’’روحانی خزائن‘‘ volume:3, page:412, I quote:
’’ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ اگر خداتعالیٰ صادق الوعد ہے اور جو آیت خاتم النّبیین میں وعدہ کیاگیا ہے جو جو حدیثوں میں بہ تصریح بیان کیاگیا ہے کہ اب جبرائیل بعد وفات رسول اﷲ ﷺ ہمیشہ کے لئے وحی نبوت لانے سے منع کیاگیا ہے۔ یہ تمام باتیں سچ اور سچ ہیں تو پھر کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبی کے بعد ہرگز نہیں آسکتا۔‘‘
Then there is quotation from an اشتہار of Mirza Sahib published on the 20th of Shaban in Tabligh of Mirza Sahib Resalat. Here he says and I quote:
’’ہم مدعی نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں۔ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کے قائل ہیں اور حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کے ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
This was the first stage of his religious carreer.
The second stage starts somewhere 1888 when the oath of discipleship was taken from his followers. I will read about the oath of discipleship from the book of Mirza Bashiruddin Mahmud Ahmad, page:30. It says:
2691"In short the effect of the book began (he is talking of ’’براہین احمدیہ‘‘) gradually to spread and many a people wrote to the promised Messiah praying that he might accept from them the oath of discipleship. But he always declined and replied that all his actions depended upon Divine guidance till the month of December, 1888, when the revelation came to him that he should accept from people the oath of discipleship. Accordingly, the first oath took place in the year 1889 at Lodhiana (as I have already mentioned) in the house of one sincere followers named Mian Ahmad Jan and the first to take the oath was Maulana Moulvi Nooruddin (May God be pleased with him). The same day altogether 40 persons took the oath."
As already mentioned by him, at this stage he had not proclaimed that he was a promised Messiah or prophet. He had only mentioned that he was receiving divine revelation and was in communication with God.
Then, Madam, we go to the second stage of his career and how he starts the beginning. I may be wrong, but as far as I could understand, he moved very cautiously, very carefully, to change the position which he had taken before. The lecture in Sialkot, and 'Mubahsa' in Rawalpindi, at these places, he made some utterances which are interesting. He does not claim that he is a prophet. But he says, and I quote:
’’تم بغیر نبیوں اور رسولوں کے ذریعے وہ نعمتیں کیوں کر پاسکتے ہو۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ تمہیں یقین اور محبت کے مرتبہ پر پہنچانے کے لئے خدا کے انبیاء وقتاً فوقتاً آتے رہیں جن سے تم وہ نعمتیں پاؤ۔ اب کیا تم خداتعالیٰ کا مقابلہ کرو گے اور ان کے قدیم قانون کو توڑ دو گے۔‘‘
Then the next step we find is this which I have just read from his 'Roohani Khazain', volume:20, page:327. Then 'Tajaliat-i- Ilahia'. Again, I quote from 'Roohani Khazin', volue 20,page 412, here he says:
2692’’اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت نبی ہوسکتا ہے۔ مگر وہی جو پہلے امتی ہو۔ پس اس بناء پر میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی۔‘‘
So now he has claimed to be a prophet or a 'Nabi' of a sub-ordinate nature. He is not a full- fledged prophet. He says he belongs to the 'Umat' of the holy Prophet of Islam and through his benedication and blessing he has acquired that status. And when he is asked to define, then in 'Tajilliat-i- Ilahia', 'Mubahsa Rawalpindi' again in 'Roohani Khazain', volume:20, page:412, he says:
’’میرے نزدیک نبی اس کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی اور قطعی بکثرت نازل ہو جو غائب پر مشتمل ہو۔ اس لئے میرا نام نبی رکھا مگر بغیر شریعت کے۔‘‘
The next step or argument advanced by him is in 'Haqiaqt-ul- Wahi', published in 'Roohani Khazain', volume:22, page:99-100. Here he says and clearly says:
’’خدا کی مہر نے یہ کام کیا کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی کرنے والا اس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلو سے وہ امتی ہے اور ایک پہلو سے نبی ہے۔‘‘
Then he says in 'Nazool Masih', 'Hashia Az Mubahsa Rawalpindi', in 'Roohani Khazain', volume:18, page:381:
’’میں رسول اور نبی ہوں یعنی بااعتبار ظلیت کاملہ کے میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے۔‘‘
I will not take more of the honourable House's time but I will read at this stage only one or two small quotations. He says in "Haqiqat-ul- Wahi' again from 'Roohani Khazain', volume:22, page:100:
’’اﷲ جل شانہ نے آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم بنایا۔ یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی۔ اس وجہ سے آپ کا نام خاتم النّبیین ٹھہرایا۔ یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی ہے۔‘‘
----------

2693[At this stage Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali).]
----------
Mr. Yahya Bakhtiar: After that we reach the third stage of his carrer, but before I come to that, Sir, there are one or two references to which I will draw your attention. They are about their interpretation of ’’خاتم النّبیین‘‘ and why there was need for a Prophet according to the Qadianis or Mirza Ghulam Ahmaed himself or his followers. This reason is given in ’’کلمتہ الفصل‘‘ which is published in the Review of Religions, volume:XIV, No.3, March and April 1915 issue. I find it interesting and pathetic, and I do not have to say why, but the background and the reasons why Mirza Sahib had to claim or was sent as Massih-e-Mouood is given here on page:101. I will just read some portions of it. It is written- narration- he says:
’’دجال نے پورے زور کے ساتھ خروج کیا تھا یاجوج ماجوج کی فوجیں ہر ایک اونچی جگہ سے امڈی چلی آتی تھیں۔ اسلام عیسائیت کے پاؤں پر جان کنی کی حالت میں پڑا تھا اور دہریت اپنے آپ کو ایک خوبصورت شکل میں پیش کر رہی تھی۔ مگر اس پر بھی مسلمانوں کے کانوں پر جوں تلک نہ رینگی اور وہ خواب غفلت میں سویا کیے حتیٰ کہ وقت آیا جب محمد ﷺ کی روح اپنی امت کی حالت زار کو دیکھ کر تڑپتی ہوئی آستانہ الٰہی پر گری اور عرض کیا کہ اے بادشاہوں کے بادشاہ! اے غریبوں کی مدد کرنے والے! میری کشتی ایک خطرناک طوفان میں گھر گئی ہے۔ میری بھیڑوں پر بھیڑیے ٹوٹ پڑے ہیں۔ میری امت شیطان کے پنجے میں گرفتار ہے تو خود میری مدد فرما اور میری بھیڑوں کے لئے کسی چرواہے کو بھیج۔ تب یکا یک آسمان پر سے ظلمت کا پردہ پھٹا اور خدا کا ایک نبی فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے زمین پر اترا، تاکہ دنیا کو اس طوفان عظیم سے بچائے اور امت محمدیہ کی گرتی ہوئی عمارت کو سنبھال لے۔‘‘
Then further he says:
2694’’وہ جو دنیا کا آخری نجات دینے والا بن کر آسمان پر سے دنیا کی مصیبت کے وقت زمین پر اترا وہ جو امت محمدیہ کی بھیڑوں پر حملہ کرنے والے بھیڑیوں کو ہلاک کرنے کے لئے آیا وہ جو اسلام کی کشتی کو طوفان میں گھرے ہوئے دیکھ کر اٹھاتا اسے کنارہ پر لگائے۔ وہ جو خیرالامم کو شیطان کے پنجہ میں گرفتار پاکر شیطان پر حملہ آور ہوا وہ جو دجال کو زوروں پر دیکھ کر اس کے طلسم کو پاش پاش کرنے کے لئے آگے بڑھا۔ وہ جو یاجوج ماجوج کی فوجوں کے سامنے اکیلا سینہ سپر ہوا وہ جو مسلمانوں کے باہمی جھگڑوں کو دور کرنے کے لئے امن کا شہزادہ بن کر زمین پر آیا وہ جو دنیا پر اندھیرا چھایا ہوا پاکر آسمان پر سے نور کو لایا ہاں وہ محمد ﷺ کا اکلوتا بیٹا جس کے زمانہ پر رسولوں نے ناز کیا تھا۔ جب وہ زمین پر اترا تو امت محمدیہ کی بھیڑیں اس کے لئے بھیڑیے بن گئیں۔ اس پر پتھر برسائے گئے۔ اس کو مقدمات میں گھسیٹا گیا۔ اس کے قتل کے منصوبے کئے گئے۔ اس پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔ اس کو اسلام کا دشمن قرار دیا۔ اس کے پاس جانے سے لوگوں کو روکا گیا اس کے متبعین کو طرح طرح سے تکلیفیں دی گئی…‘‘
I do not have to comment on this, Sir. On the one hand it has been eloquently said on behalf of Ahmedis or Qadianis that Messiah will not come from heaven above as the other Muslims believe. Here they depict that picture showing him descending physically and that is being emphasised. Then the pathetic part is that on the one hand it is said that how much this man was needed and how much he did and what was his cause, what was his aim, what was his purpose to help Muslamans, to save them, and yet as he says:
’’بھیڑیں بھیڑیے بن گئیں۔‘‘
Why? Why this reaction? Why this sharp, violent, hostile reaction against a person who is a hero, who is a friend, who has been helping them? This we have to consider and this is simple because he had struck at the roots of one of the cardinal principles of our 2695faith, the faith of Musalmans, the concept of خاتم النّبیین, There was not other reason why Muslims sould attack a person and be so hostile to him as his own son describes.
Again, Sir, the reason why Mirza Sahib came into this world as a Nabi or Messiah and what was the need for it and the interpretation of his followers and Mirza Sahib himself about the concept of ختم نبوت is given in Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmed's book 'Ahmadiyyat or True Islam', page:10 and 11. I will read from there. It is 1937 edition. I quote:
"We hold the belief that this succession of Prophets will continue in the future as it has existed in the past, for reason repudiates any permanent cessation of this system. If this world is to continue to pass through ages of spiritual darkness, aged in which men will wander away from their Maker; if from time to time men are to be liable to go astray from the right path and to grope in the thick darkness of doubt and despair in their efforts to regain it; if they are to continue their search after the light in all such ages and times, it is impossible to believe that Divine Torch- bearers and Guides should cease to appear; for it is inconsistent with رحمانیت (Rahmaniyyat), the Mercy of God, that he should permit the ill but should not provide the remedy, that he should create the yearning but should abolish the means of satisfying it. To imagine so would be to offer an insult to the Fountain- head of mercy and compassion, and to betray one's spiritual blindness... If the world was ever in need of a Prophet, it is much more in need of one today, when religion has become hollow and Truth is, as it were, dead."
Now, Sir, this is a rationalistic approach. They say that, well, after all, the world is a new place; different people will come and from time to time, as Allah sent his Prophets before, he will continue to send his Prophets. This sounds reasonable, it seems sensible. He says that this process should not stop. Mankind will need revelation from Allah or somebody to come and interpret the revelation which has already come. This is their rational approach. They have published the book in England for English people. When I asked Mirza Nasir Ahmed whether any prophet had come 2696after the Holy Prophet Muhammad (Peace be upon him) and before Mirza Ghulam Ahmad, he said, 'No'; when I asked whether any prophet has come or is likely to come after him, he said 'No'. So, all this reasoning and rationalism disappeared in fog and mist; and what does it actually mean: It simply means that he is خاتم النّبیین, Mirza Ghulam Ahmad is the last of all prophets. They come to that conclusion.
Mr. Chairman: I think, the rest we will take up tomorrow. So, tomorrow, we meet at 9:30 am. as the Committee of the whole House.
Thank you very much.
----------
(The Special Committee of the whole House adjourned to meet at half past nine of the colck, in the morning, on Friday, the 6th September, 1974)
----------
(جناب چیئرمین: مسٹر اٹارنی جنرل)
(جناب یحییٰ بختیار: کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسی وقت اپنے دلائل پیش کروں یا کچھ وقت کے بعد)
(جناب چیئرمین: ہم دس منٹ کے لئے وقفہ کریں گے جو معزز ممبران کل تقریر کرنا چاہتے ہوں۔ انہیں اٹارنی جنرل کے خطاب سے بہت سے نکات حاصل ہو سکیں گے۔ اسی طرح جو نکات اٹارنی جنرل کے خطاب میں حل ہو جائیں۔ انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ چنانچہ ہم سوابارہ بجے اجلاس کریں گے)
----------
(کمیٹی کا اجلاس چائے کے وقفہ کے لئے پندرہ منٹ کے لئے ملتوی ہوا)
----------
(کمیٹی کا اجلاس چائے کے وقفہ کے بعد دوبارہ شروع ہوا)
----------
(جناب چیئرمین: جی! اٹارنی جنرل صاحب)
(جناب یحییٰ بختیار: جناب چیئرمین صاحب! سب سے پہلے میں ایوان سے اپنی ایک ہفتے کی غیرحاضری کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ جس کے باعث میں چند ایک معزز اراکین کی تقاریر نہ سن سکا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تقاریر کے دوران بہت قوی اور معقول دلائل دئیے گئے اور بہت سارے دلچسپ نکات سامنے لائے گئے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ میں انہی دلائل یا نکات کا اعادہ کروں گا یا نہیں۔ لیکن مجھے ادائیگی فرض کے سلسلے میں کراچی جانا پڑا۔
دوسری بات جو جناب والا! میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں اور جس کا پورا احساس معزز اراکین کریں گے وہ میری سرکاری حیثیت بطور اٹارنی جنرل کے لئے۔ میری کچھ قیود اور مجبوریاں ہیں۔ مجھے امید ہے کہ معزز اراکین ان کو بھی مدنظر رکھیں گے۔ سب سے پہلے تو موضوع کے حوالے سے میری زبان دانی کی مجبوری تھی۔ تاہم میں نے ہاؤس کی ہدایات کے مطابق حتیٰ المقدور بہترین طریقے سے فرض کو نبھانے کی کوشش کی اور اس کے لئے معزز اراکین نے مجھ پر جو اعتماد کیا اس کے لئے میں بہت شکر گزار ہوں اور اس تعاون کے لئے بھی جو مجھے معزز اراکین کی طرف سے دیا گیا۔
جناب والا! میں نے اپنی اہلیت کے مطابق اپنا فرض نبھانے کی پوری کوشش کی اور ادائیگی فرض کو معزز اراکین کی خواہشات کے مطابق ادا کرنے کی کوشش کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو سوالات مجھے دئیے گئے تھے ان کو میں نے مناسب انداز میں پیش کیا۔
دوسری بات جناب والا! جہاں تک شہادت کا تعلق ہے۔ میری کوشش ہوگی جو کچھ ریکارڈ پر شہادت موجود ہے۔ اسے مختصر طور پر پیش کروں۔ لیکن بحیثیت اٹارنی جنرل میں ایوان کا رکن نہیں ہوں۔ اس لئے نہ تو میں کوئی فیصلہ جج کی طرح دے سکتا ہوں اور نہ ہی اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرا فرض ہے کہ میں غیرجانبدارانہ طور پر اس ایوان کی امداد کروں۔ ہم سب کو احساس ہوگا کہ میں یہاں پر صرف ایک فریق کی نمائندگی یا دوسرے فریق کی مخالفت نہیں کرتا۔ آپ اس معاملہ میں بحیثیت منصف کے ہیں۔ اس لئے میرا فرض منصبی ہے کہ میں معاملہ کے دونوں پہلو آپ کے سامنے پیش کروں تاکہ نہ تو کوئی یہ محسوس کرے اور نہ ہی کہہ سکے کہ یہ یکطرفہ کاروائی تھی اور اٹارنی جنرل نے اپنی حیثیت کا جائز یا ناجائز استعمال کرتے ہوئے فیصلہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ چنانچہ مجھے امید ہے کہ میری ان مجبوریوں کے مدنظر اگر میں دونوں فریقوں کے نقطہ نظر یا دوسرے فریق کے نقطۂ نظر کو بھی پیش کروں تو اسے صحیح انداز میں ہی سمجھا جائے گا۔
جناب والا! جہاں تک فیصلہ کا تعلق ہے وہ تو معزز اراکین نے ہی کرنا ہے اور مجھے یقین واثق ہے کہ یہ ایک بہت ہی منصفانہ فیصلہ ہوگا۔ صحیح فیصلہ ہوگا۔ جو کہ ملک کے عوام کی خواہشات اور احساسات کے مطابق ہوگا۔ ہمیں اسلام اور ملک کے مفادات کو ذہن نشین رکھنا چاہئے اور مجھے ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ حب الوطنی اور اسلام کے ساتھ محبت کے احساسات ہر لمحہ موجود ہیں اور اس لئے مجھے اس بارے میں بھی قطعاً کوئی شبہ نہیں کہ معزز اراکین بالکل درست فیصلہ کریں گے۔
مجھے اس موضوع پر وزیراعظم کے ساتھ بحث مباحثہ کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ وزیراعظم صاحب اس معاملے کے متعلق بہت بیتاب ہیں۔ کیونکہ اس کا فیصلہ بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ وزیراعظم کی سوچ ایک عام مسلمان کی سوچ کی مانند ہے اور ان کے جذبات ایک عام مسلمان کے جذبات ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ وزیراعظم بھی ہیں۔ اس لئے یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ کوئی شخص اپنے حقوق سے محروم نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی کو بلاقانونی جواز اپنی زندگی، آزادی عزت اور شہرت سے محروم کیا جائے۔ جناب والا! میں امید کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اس ایوان کے اندر جو رہنما موجود ہیں انہوں نے کافی سوچ بچار کیا ہے اور ان کی انتہائی کوشش ہے کہ اس معاملہ کا ایک نہایت ہی مناسب اور منصفانہ فیصلہ ہو۔ جناب والا! آپ کو یاد ہوگا کہ جرح کے دوران میں نے امیر جماعت احمدیہ ربوہ پر واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ یہ ایوان نہ تو کسی کو کوئی نقصان پہنچانا چاہتا ہے اور نہ ہی کسی کی دل آزاری کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایوان ایک منصفانہ فیصلہ کرنا چاہتا ہے۔ ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اپنی گزارشات کروں گا اور تمام حقائق اور واقعات کو اختصار کے ساتھ پیش کروں گا)
(جناب یحییٰ بختیار: جناب والا! ایوان کے سامنے ایک ریزولیوشن اور ایک تحریک ہے۔ تحریک جو کہ معزز وزیرقانون نے پیش کی تھی کا متن حسب ذیل ہے: ’’رولز آف بزنس کے قاعدہ نمبر۲۰۵ کے تحت میں مندرجہ ذیل تحریک پیش کرنے کا نوٹس دیتا ہوں۔ یہ کہ یہ ایوان ایک ایسی خصوصی کمیٹی کی تشکیل کرے جو کہ پورے ایوان پر مشتمل ہو، اس کمیٹی میں وہ تمام اشخاص شامل ہوں جو ایوان کو خطاب کرنے کا حق رکھتے ہوں۔ نیز ایوان کی کاروائی میں حصہ لینے کا استحقاق رکھتے ہوں۔ سپیکر صاحب! اس خصوصی کمیٹی کے چیئرمین ہوں اور یہ کمیٹی مندرجہ ذیل امور سرانجام دے:
۱… دین اسلام کے اندر ایسے شخص کی حیثیت یا حقیقت پر بحث کرنا جو حضرت محمد ﷺ کے آخری نبی ﷺ ہونے پر ایمان نہ رکھتا ہو۔
۲… کمیٹی کی جانب سے متعین کردہ میعاد کے اندر اراکین سے تجاویز، مشورے، ریزولیوشن وصول کرنا اور ان پر غور کرنا۔
۳… مندرجہ بالا متنازعہ امور کے بارے میں شہادت لینے کے بعد اور ضروری دستاویزات پر غور کرنے کے بعد سفارشات پیش کرنا۔
کمیٹی کی کاروائی کے لئے ’’کورم‘‘ چالیس اشخاص کا ہوگا۔ جن میں سے دس کا تعلق ان پارٹیوں سے ہوگا جو کہ قومی اسمبلی کے اندر حکومت کی مخالف ہیں یعنی حزب اختلاف سے تعلق رکھتے ہوں۔‘‘
جناب والا! ایک دوسرا ریزولیوشن ہے۔ جو کہ اس ایوان کے سینتیس(۳۷) معزز اراکین نے پیش کیا تھا)
----------
(اس مرحلہ پر ڈپٹی سپیکر نے کرسی صدارت سنبھالی اور چیئرمین صاحب نے کرسی صدارت چھوڑ دی)
----------
(جناب یحییٰ بختیار: جناب والا! اس ریزولیوشن کا متن یہ ہے:
ہم مندرجہ ذیل ریزولیوشن پیش کرنے کی التماس کرتے ہیں۔ ہر گاہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔
اور ہر گاہ مرزاغلام احمد کا جھوٹا دعویٰ نبوت کئی ایک قرآنی آیات کی غلط تاویل کرنے کی کوشش اور جہاد کو منسوخ کرنے کی کوشش۔ یہ سب باتیں اسلام کے بنیادی اصولوں کے ساتھ دغا اور فریب ہیں۔
اور ہرگاہ وہ (مرزاغلام احمد قادیانی) سراسر سامراج کا پیدا کردہ تھا۔ جس کا واحد مقصد اسلامی اتحاد کو پارہ پارہ کرنا اور اسلام کو بدنام کرنا تھا۔
اور ہرگاہ تمام ملت اسلامیہ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ مرزاغلام احمد کے پیروکار، خواہ وہ اسے نبی مانتے ہوں یا اسے کسی شکل میں بھی مذہبی رہنما یا مصلح متصور کرتے ہوں۔ تمام کے تمام دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
اور ہرگاہ اس کے پیروکار خواہ وہ کسی بھی نام سے جانے جاتے ہوں۔ سب کے سب اپنے آپ کو اسلام کا ایک فرقہ ظاہر کرتے ہوئے ملک کے اندر اور ملک سے باہر تخریب کاری میں ملوث ہورہے ہیں۔
اور ہرگاہ ۶؍اپریل تا۱۰؍اپریل ۱۹۷۴ء کو مکہ المکرمہ میں ورلڈ مسلم آرگنائزیشن کی کانفرنس جو کہ رابطہ عالم اسلامی کے تحت منعقد ہوئی اور جس میں تمام دنیا کی ۱۴۰ تنظیموں نے حصہ لیا۔ اس کانفرنس نے متفقہ طور پر اعلان کیا کہ قادیانیت، اسلام اور تمام عالم اسلام کے خلاف ایک تخریبی تحریک ہے جو کہ محض جھوٹ اور فریب سے اپنے کو اسلام کا ایک فرقہ ظاہر کرتی ہے۔
چنانچہ یہ اسمبلی یہ اعلان کرتی ہے کہ مرزاغلام احمد کے پیروکار، خواہ وہ کسی نام سے بھی پکارے جاتے ہوں۔ مسلمان نہیں ہیں اور یہ کہ اسمبلی میں ایک مسودہ قانون پیش کیا جائے۔ تاکہ اس اعلان کو قانونی طور پر نافذ کرنے کے لئے آئین میں ضروری ترمیم کی جاسکیں اور ان کے جائز قانونی حقوق کو بطور غیرمسلم اقلیت کے تحفظ دیا جاسکے۔
جناب والا! یہ دو تحاریک ہیں۔ ایک ریزولیوشن ہے اور ایک تحریک، ان کے علاوہ کچھ اور ریزولیوشن بھی ہیں جو کہ اس ایوان کے زیرغور ہیں۔ لیکن ان کا زیادہ تر تعلق آئینی ترامیم کی تجاویز کے بارے میں ہے۔ دو وجوہات کے باعث میں ان کے متعلق کچھ گذارش پیش کروں گا۔ نمبرایک صرف یہی دو دستاویزات اخباروں میں شائع ہوئی تھیں اور ان دستاویزات کی بنیاد پر متعلقہ جماعت (احمدیہ) نے اپنے اپنے جوابات اور عرض داشتیں پیش کی تھیں۔ ان کے بیانات بھی ان ہی دستاویزات کی بنیاد پر لئے گئے تھے۔ اس لئے دوسرے ریزولیوشن کے بارے میں کچھ کہنا قرین انصاف نہ ہوگا۔ کمیٹی کو ان کے بارے میں کاروائی کرنے کا پورا اختیار ہے۔ جسے کسی مرحلہ پر استعمال کرنے کی مجاز ہے۔ تاہم میں اپنی گذارشات کو ان دو دستاویزات تک محدود رکھوں گا اور مختصر تبصرہ کروں گا۔ پیشتر ازیں کہ اس ضابطہ پر بات کروں جو کہ ان دستاویزات پر غور کرنے کے لئے اختیار کیا گیا تھا۔ مجھے امید ہے کہ اگر میں بے باکی سے اپنی گذارشات پیش کروں تو اس کا غلط مطلب نہیں لیا جائے گا۔
آغاز میں پہلے وہ تحریک جو کہ عزت مآب وزیرقانون نے پیش کی تھی۔ جناب والا! تحریک کے الفاظ ہیں: ’’دین اسلام کے اندر ایسے شخص کی حیثیت یا حقیقت پر بحث کرنا جو حضرت محمد ﷺ کے آخری نبی ہونے پر ایمان نہ رکھتا ہو۔‘‘
آئیے! پہلے اس جملہ یا ترکیب کو لیں۔ ’’اسلام کے اندر حیثیت یا حقیقت پر بحث کرنا۔‘‘ اگر ایوان کی یہ رائے ہو کہ جو لوگ حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے وہ مسلمان نہیں ہیں۔ تو پھر ایسے لوگوں کا اسلام میں کوئی مقام نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کا اسلام سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ تحریک بذات خود اپنے اندر تضاد رکھتی ہے۔ اگر یہ کہا جاتا کہ ’’اسلام میں یا اسلام کے حوالہ سے بحث کرنا‘‘ تو پھر بات سمجھ میں آسکتی تھی۔ لیکن یہ کہنا کہ اسلام میں حیثیت یا مقام اس سے قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک تضاد ہے جو زیادہ اہم نہ بھی ہو۔ لیکن یہ تضاد ایوان کے نوٹس میں لانا میرا فرض تھا۔ یہ آپ نہیں کہہ سکتے کہ اسلام میں ان کی حیثیت کیا ہے۔ ہاں! یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کے حوالے سے ان کی حیثیت کیا ہے۔ جناب والا! جو ریزولیوشن سینتیس(۳۷) اراکین نے پیش کی ہے میں نہایت ادب سے گزارش کروں گا کہ اس میں بھی کچھ تضاد ہے۔ میں زیادہ تفصیل میں تو نہیں جاؤں گا۔ تاہم معزز اراکین اس بات کو نوٹ کریں کہ ایک جگہ کہا گیا ہے کہ: ’’ہرگاہ مرزاغلام احمد سامراج کا پیدا کردہ تھا جس کا واحد مقصد اسلامی اتحاد کو پارہ پارہ کرتا اور اسلام کو بدنام کرتا تھا۔‘‘
پھر آگے چل کر کہا گیا: ’’ہرگاہ ملت اسلامیہ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ مرزاغلام احمد کے ماننے والے خواہ وہ اسے نبی مانتے ہوں یا مذہبی رہنما یا مصلح تصور کرتے ہوں۔ اسلام کے دائرے سے خارج ہیں۔‘‘
پھر آگے چل کر: ’’(مرزاغلام احمد کے) پیروکار خواہ وہ کسی نام سے پکارے جاتے ہوں۔ سب کے سب اپنے آپ کو اسلام کا ایک فرقہ ظاہر کرتے ہوئے ملک کے اندر اور ملک کے باہر تخریب کاری میں ملوث ہورہے ہیں۔‘‘
یہ بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن اس کے بعد مطالبہ ہے کہ انہیں غیرمسلم اقلیت قرار دو۔ یعنی غیرمسلم مذہبی اقلیت اور آئین میں ترمیم کرو اور ان کے جائز قانونی حقوق کا تحفظ کرو۔ کیا آپ تخریب کاری کو دوام دینا چاہتے ہیں۔ کیا آپ ان چیزوں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں جن کا ذکر دیباچہ میں کیاگیا ہے۔ یہ ایک ایسا تضاد ہے جس کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا تھا۔ ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ انہیں ایک اقلیت قرار دو۔ ایک الگ اکائی بناؤ اور جب آپ ایسے کرتے ہیں تو آپ کو ان کے حقوق کا تحفظ کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر چارہ کار نہیں اور یہ ریزولیوشن کا ایک بہت ہی عمدہ جزو ہے۔ میں اس کی قدر کرتا ہوں۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے جائز حقوق کا قانونی تحفظ کیا جائے تو اس کی تعریف کرتا ہوں۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ (جماعت احمدیہ) ایک تخریبی تحریک ہے۔ وہ ملک کے اندر اور ملک کے باہر تخریب کاری میں ملوث ہیں۔ وہ تخریب کاری کیا ہے۔ ان کے اپنے مذہب (یا عقیدے) کا پرچار۔ ان کے (اپنے عقیدے کے مطابق) مذہب پر عمل درآمد، آپ ان کے حقوق کا تحفظ بھی چاہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کی مذمت بھی کرتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں یک جانہیں ہوسکتیں۔ یہ تو بالکل صاف بات ہے۔ میں کوئی تنقید نہیں کر رہا۔ مجھے تنقید کرنے کا کوئی حق نہیں۔ لیکن میرا فرض ہے کہ میں معزز اراکین کی توجہ اس امر کی طرف دلاؤں کہ اگر آپ شہری آبادی کے کسی حصے کو ایک الگ مذہبی جماعت قرار دیتے ہیں تو پھر نہ صرف ملک کا آئین بلکہ آپ کا مذہب تقاضا کرتا ہے کہ آپ ان کے حقوق کی حفاظت کریں۔ ان کو اپنے مذہب کے پرچار اور عمل کا حق دیں۔ اس سے زیادہ میں کچھ اور نہیں کہنا چاہتا۔ کیونکہ مجھے پورا احساس ہے کہ میرے پاس وقت بہت ہی محدود ہے۔
چنانچہ ان دو دستاویزات کی روشنی میں (تحریک اور ریزولیوشن) اس معزز ایوان نے کچھ متنازعہ امور کا فیصلہ کرنا ہے جوکہ مندرجہ ذیل ہیں۔
۱… کیا مرزاغلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا۔
۲… اس دعوے کا اسلام میں یا اسلام کے حوالے سے کیا مضمرات ہیں۔ میں نے اسلام میں اور اسلام کے حوالے سے دونوں کا ذکر کیا ہے۔
۳… ختم نبوت کا مطلب یا تصور کیا ہے۔ جب ہم خاتم النّبیین کہتے ہیں تو ہمارا کیا مطلب ہوتا ہے۔
۴… کیا ملت اسلامیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مرزاغلام احمد کے پیروکار جو اسے نبی یا مسیح موعود مانتے ہیں یا دونوں حیثیتوں سے مانتے ہیں، دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
۵… کیا مرزاغلام احمد اور اس کے پیروکار ایسے مسلمانوں کو جو مرزاغلام احمد کو نبی یا مسیح موعود نہیں مانتے۔ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تصور کرتے ہیں۔
۶… کیا مرزاغلام احمد نے ایک علیحدہ مذہبی جماعت کی بنیاد رکھی جو کہ دائرہ اسلام سے باہر ہے۔ یا کہ اس نے اسلام کے اندر ہی نئے فرقے کا آغاز کیا۔
۷… اگر اس نے الگ مذہبی جماعت کی بنیاد رکھی تو ایسی جماعت کا اسلام کے حوالے سے کیا مقام یا حیثیت ہوگی اور آئین کے مطابق اس جماعت کے حقوق کیا ہوں گے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانیوں اور لاہوریوں کی اسمبلی میں پیش ہونے کی درخواست)
اب میں مختصر طور پر ان واقعات کا ذکر کروں گا جو ریزولیوشن اور تحریک کے پیش ہونے کے دن سے رونما ہوئے۔ یہ (ریزولیوشن اور تحریک) ۳۰؍جون ۱۹۷۴ء کو پیش کئے گئے تھے۔ ان کے شائع ہونے کے بعد مرزاغلام احمد کے ماننے والے دو گروپوں کی طرف سے دو یادداشتیں داخل کی گئی تھیں۔ اس کے بعد دونوں گروپوں کے نمائندوں کو بلایا گیا تھا کہ وہ حلف لینے کے بعد اپنے بیانات اور یادداشتوں کو پڑھ کر سنائیں۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے زبانی بیان دینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ تاکہ وہ اپنا نقطۂ نظر زیادہ طور پر واضح کر سکیں۔ جو دستاویزات انہوں نے داخل کیں۔ ان میں ریزولیوشن میں عائد کردہ تمام الزامات سے انکار کیاگیا۔ ایوان کی کمیٹی نے ایک سٹیرنگ کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ سوالات کو وصول کرے اور ان کا تجزیہ کرے۔ اس مقصد کے لئے کمیٹی نے مجھے ہدایت کی ہے۔ ۲۵؍جولائی ۱۹۷۴ء سے اسلام آباد میں موجود رہوں۔ اسی ہدایت کے مطابق میں ۲۱؍جولائی کو اسلام آباد آگیا تھا۔ سٹیرینگ کمیٹی نے سوالات کی جانچ پڑتال ایک ہفتہ میں کرلی۔ حالانکہ سوالات سینکڑوں کی تعداد میں تھے۔ مرزاناصر احمد کی سربراہی میں احمدیہ جماعت ربوہ کا بیان ۵؍اگست تا۱۰؍اگست کو ہوا۔ اس کے بعد دس یوم کا وقفہ رہا۔ مرزاناصر احمد کا مزید بیان ۲۰؍اگست تا۲۴؍اگست ہوا۔ کل گیارہ روز تک بیان ہوتا رہا۔ اس کے بعد احمدیہ جماعت کے دوسرے گروہ کا بیان ہوا۔ جس کے سربراہ مولانا صدرالدین تھے۔ چونکہ مولانا صدرالدین کافی بوڑھے ہیں اور اچھی طرح بات سننے کی قوت نہیں رکھتے۔ اس لئے ان کا بیان میاں عبدالمنان عمر کے وسیلہ سے ہوا۔ ان کا بیان دو دن میں ہوا۔ یہ اس وجہ سے نہیںہوا کہ ایوان کسی قسم کا امتیاز برت رہا تھا۔ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت سے حقائق، دستاویزات اور مرزاغلام احمد کی تحریریں پہلے گروپ کے بیانات میں ریکارڈ پر آچکے تھے اور جہاں تک دوسرے گروہ کا تعلق ہے۔ مزید تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہ تھی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاقادیانی کا دعویٰ نبوت)
جہاں تک پہلے متنازعہ امر کا تعلق ہے۔ یعنی کیا مرزاغلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا یا نہیں۔ اس سلسلے میں مرزاغلام احمد کی زندگی، تصانیف اور احمدیہ تحریک کے بارے میں اختصار کے ساتھ ذکر کرنا سود مند ہوگا۔ اس طرح حقیقت میں میں دراصل پہلے متنازعہ امر کا احاطہ ہی کروں گا۔ مرزاناصر احمد نے مرزاغلام احمد کے زندگی کے مختصراً حالات اس طرح بیان کئے: ’’آپ ۱۳؍فروری ۱۸۳۵ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۱؎۔ آپ کے والد صاحب کا نام غلام مرتضیٰ صاحب تھا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم چند استادوں کے ذریعے سے گھرپر ہی ہوئی۔ آپ کے اساتذہ کے نام فضل الٰہی، فضل احمد اور گل محمد تھے۔ جن سے آپ نے فارسی، عربی اور دینیات کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور علم طب اپنے والد صاحب سے پڑھا۔
آپ شروع سے ہی اسلام کا درد رکھتے تھے اور دنیا سے کنارہ کش تھے۔ آپ کا ایک شعر ہے ؎
دگر استاد را نامے ندانم
کہ خواندم در دبستان محمدؐ

آپ نے عیسائیوں اور آریوں کے ساتھ ۱۸۷۶ء کے قریب اسلام کی طرف سے مناظرے اور مباحثے بھی کئے اور ۱۸۸۴ء میں اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت کی۔ جو قرآن کریم آنحضرت ﷺ اور اسلام کی تائید میں ایک بے نظیر کتاب مانی گئی ہے۔ ۱۸۸۹ء میں آپ نے باذن الٰہی سلسلہ بیعت کا آغاز کیا اور ۱۸۹۱ء میں خداتعالیٰ سے الہام پاکر ’’مسیح موعود‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا۔
آپ کی تمام عمر اسلام کی خدمت میں گذری اور آپ نے ۸۰ کے قریب کتابیں تصنیف فرمائیں جو عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں ہیں اور ان تینوں زبانوں میں آپ کا منظوم کلام بھی ملتا ہے۔ آپ کا اور آپ کی جماعت کا واحد مقصد دنیا میں اسلام کی اشاعت وتبلیغ تھا اور ہے۔ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو آپ کی وفات ہوئی اور ملک کے اخباروں، رسالوں نے آپ کی اسلامی خدمات کا پرزور الفاظ میں اعتراف کیا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ مرزاناصر احمد کا کذب محض اور خالص دجل ہے۔ مرزاقادیانی ۱۹۳۵ء میں نہیں بلکہ ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں پیدا ہوا۔ جیسا کہ مرزاقادیانی کی اپنی تحریرات اس پر گواہ ہیں۔ تفصیل گذر چکی ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آپ کی وفات کے وقت آپ کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں اور اس وقت آپ کے خاندان کے افراد کی تعداد دوسو کے قریب ہے۔‘‘
محترم! مرزاغلام احمد کی زندگی کے بارے میں میں کچھ مزید تفصیلات بیان کروں گا جو کہ مجھے ان دستاویزات سے حاصل ہوئی ہیں جو مجھے دیکھنے کا موقع ملا۔
مرزاغلام احمد کا تعلق پنجاب کے معروف اور معزز ’’مغل خاندان‘‘ سے تھا جو کہ مغل بادشاہ بابر کے زمانے میں سمرقند سے ہندوستان نقل مکانی کر کے آیا تھا۔ مرزاغلام احمد کے اجداد میں سے ہندوستان آنے والے پہلے شخص کا نام مرزا ہادی بیگ تھا۔ Laquel Griffin ’’لیکل گرفن‘‘ نے اپنی کتاب ’’پنجاب چیف‘‘ میں لکھا ہے کہ: ’’مرزاہادی بیگ کو قادیان کے گردوپیش ستر(۷۰) دیہاتوں پر قاضی یا مجسٹریٹ تعینات کیاگیا تھا۔ قادیان جسے مرزاہادی بیگ نے آباد کیا، کا پہلا نام ’’اسلام پور قاضی‘‘ تھا۔ جو بعد میں بدلتے بدلتے قادیان بن گیا۔ کئی نسلوں تک یہ خاندان سرکاری عہدوں پر فائز رہا۔ جب سکھ اقتدار میں آئے تو یہ خاندان کسمپرسی اور غربت کا شکار ہوگیا۔‘‘
اس کے بعد میں جسٹس منیر احمد (مرحوم) کی انکوائری کمیٹی ۵۴۔۱۹۵۳ء کی رپورٹ سے اقتباس عرض کروں گا۔ مرزاغلام احمد کے متعلق کورٹ آف انکوائری رپورٹ میں درج ذیل ہے: ’’مرزاغلام مرتضیٰ جو کہ سکھ دربار کا جرنیل تھا، کا پوتا۔ اس نے فارسی اور عربی زبان کی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ مگر کوئی مغربی تعلیم حاصل نہ کی۔ ۱۸۶۴ء میں اس نے ضلع کچہری سیالکوٹ میں کوئی ملازمت حاصل کی اور چارسال ملازمت میں گذارے۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ دل وجان سے مذہبی ادب کی طرف متوجہ ہوا اور ۸۴۔۱۸۸۰ء کے درمیان مشہور زمانہ کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ چار جلدوں میں تصنیف کی۔ اس کے بعد اور کتابیں تصنیف کیں۔ اس زمانے میں شدید مذہبی تکرار اور مناظرے ہورہے تھے۔ اسلام پر نہ صرف عیسائیوں بلکہ آریہ سماج کی طرف سے باربار حملے ہورہے تھے۔ آریہ سماج ایک ہندو تحریک تھی جو کہ ان دنوں ہردلعزیز بنتی جارہی تھی۔‘‘
میرے خیال میں جسٹس منیر احمدکا یہ کہنا درست نہیں کہ مرزاغلام احمد، مرزاغلام مرتضیٰ کا پوتا تھا۔ اسی کی وجہ یہ ہے کہ مرزاناصر احمد نے کہا ہے کہ مرزاغلام مرتضیٰ، مرزاغلام احمد کے والد کا نام ہے۔ (نہ کہ دادا کا) ایوان میں مرزاناصر احمد کے بیان کے مطابق ۸۰۔۱۸۶۰ء کے درمیان انگریز اپنے ساتھ پادریوں کی ایک فوج ظفرموج لائے تھے۔ جن کی تعداد کوئی ستر کے لگ بھگ تھی۔ جس کے باعث شدید قسم کے مذہبی مناظرے شروع ہوگئے۔ ان پادریوں نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو عیسائی بنادیں گے۔ ان پادریوں کے اسلام اور حضرت محمد ﷺ پر حملوں کے بارے میں مرزاناصر احمد نے کہا: ’’حکومت کے بل بوتے پر انہوں نے یہ کیا اور کر رہے تھے۔‘‘
مرزاناصر احمد کے مطابق چند علماء اور اسلام کا درد رکھنے والے رہنما عیسائیوں کے حملوں کو روکنے کے لئے آگے بڑھے ایسے لوگوں میں نواب صادق (صدیق) حسن خان، مولوی آل حسن، مولوی رحمت اﷲ مہاجر دہلوی، احمد رضا صاحب اور مرزاغلام احمد شامل تھے۔ مرزاناصر احمد نے کہا کہ میں ان سب کو تو نہیں جانتا تاہم میرا ایمان صرف مرزاغلام احمد پر ہی نہیں ان سب پر ہے۔ ’’اﷲ نے فراست دی تھی، اسلام کا پیار دیا تھا۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاغلام احمد قادیانی کے نامناسب رویے)
اور یہی وجہ تھی جس کی وجہ سے وہ عیسائیوں کے اسلام اور حضرت محمد ﷺ پر حملوں کو پسپا کرنے کے لئے میدان میں آئے۔ یہی مباحثے اور مناظرے مرزاغلام احمد سمیت ان تمام مسلمانوں کی ہردلعزیزی کا باعث بنے۔ وہ مسلمانوں کے ہیرو بن گئے اور ایسا معلوم ہوتا ہے۔ اسلام کے خلاف حملوں کی پسپائی میں مرزاغلام احمد ہردلعزیزی میں سرفہرست تھا۔ گویہ بات شہادت سے بالکل عیاں ہوتی ہے کہ ان حملوں کی پسپائی کے لئے جو طریقے اختیار کئے گئے۔ ان میں سے چند ایک نامناسب بلکہ قابل اعتراض تھے۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جس طرح توہین کی گئی۔ یہ نہ صرف آج بھی قابل اعتراض ہے۔ بلکہ اس دور میں مسلمانوں نے اس پر اعتراضات کئے تھے۔ اس دور میں بھی مرزاغلام احمد کو باربار وضاحتیں کرنا پڑتی تھیں۔ میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ یہ غالباً اس ہردلعزیزی کا ہی نتیجہ تھا کہ ۱۸۸۹ء میں مرزاغلام احمد نے ۵۴سال کی عمر میں اپنے پیروکاروں اور معتقدین سے بیعت لینے کا فیصلہ کیا۔ پتہ چلتا ہے کہ مرزاغلام احمد نے ’’براہین احمدیہ‘‘ میں پہلے ہی ذکر کر دیا ہوا تھا کہ اس کا اﷲتعالیٰ سے رابطہ قائم ہے اور اسے الہامی پیغامات موصول ہوتے ہیں۔ یہ سب کو معلوم تھا۔ دسمبر ۱۸۸۹ء میں مرزاغلام احمد کے بیٹے یعنی خلیفہ دوئم جماعت احمدیہ ربوہ یا قادیان کے مطابق۔ مرزاغلام احمد نے اس تحریک کی بنیاد رکھی۔ مارچ ۱۸۸۹ء میں حقیقتاً اس تحریک کی بنیاد رکھی گئی۔ تحریک کی ابتداء میں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس نے نبی یا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ تاہم یہ ذکر ملتا ہے کہ مرزاغلام احمد نے اپنے پیروکاروں سے بیعت لینا شروع کر دیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کو پیروکار ملتے رہے۔ وجہ یہ تھی کہ مرزاغلام احمد ایک قابل انسان تھا۔ جس کی تحریروں میں بلا کی روانی اور طاقت تھی۔ وہ روانی کے ساتھ عربی، فارسی اور اردو میں لکھتا تھا۔ ہاں! ایک حقیقت کو ذہن میں رکھیں کہ ۱۸۸۹ء میں اس بارے میں کچھ شبہ ہے۔ ایک جگہ دسمبر ۱۸۸۹ء کا ذکر ہے۔ مرزاغلام احمد کو الہام ہوا کہ وہ مسیح موعود ہے۔ کہیں اس نے اس کا اظہار یا اعلان نہیں کیا۔ بلکہ وہ قادیان سے لدھیانہ گیا اور اپنے پیروکاروں سے بیعت لی۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس نے اس کا اعلان قادیان میں کیوں نہ کر دیا۔ اس کا فیصلہ آپ پر منحصر ہے۔ مرزابشیرالدین محمود احمد کی کتاب ’’احمدیت اور سچا اسلام‘‘ (ص۱۰) سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ وہاں بیعت لینے گیا تھا۔ دوسری جگہ کسی اور اسلامی ادب میں میں نے پڑھا ہے کہ مسیح موعود اپنے مسیح موعود ہونے کا اعلان ’’لد‘‘ نامی جگہ پر کرے گا۔غالباً اس کے پیش نظر مرزاغلام احمد نے ’’لدھیانہ‘‘ جانا مناسب خیال کیا کہ وہاں جاکر ہی بیعت لینا چاہئے۔ اس نے اس کا آغاز قادیان سے نہیں کیا۔ یہ بات میں آپ کو خصوصی طور پر گذارش کرنا چاہتا ہوں۔ عیسائیوں کے ساتھ مناظروں کے بارے میں میں مزید تفصیلات بعد میں عرض کروں گا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانی انگریز کے جاسوس)
ایوان کے نوٹس میں یہ بات لانا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ایک سنگین اعتراض یہ عائد کیاگیا ہے کہ مرزاغلام احمد کی نبوت اور احمدیہ تحریک انگریز کی ایماء اور مشورے کی مرہون منت ہے۔ اس بات کا ذکر صرف ریزولیوشن میں ہی نہیں کیاگیا۔ بلکہ بہت سے علمی ادب پاروں میں بھی ذکر ملتا ہے کہ (مرزاغلام احمد کی نبوت اور احمدیہ تحریک) کا شوشہ اس وقت پیدا کیاگیا جب سوڈان سے لے کر سماٹرا تک بیرونی سامراجیت کے خلاف اعلان جہاد ہوا۔ یہ سب انگریزوں نے جہاد کو روکنے کے لئے کیا اور مرزاغلام احمد کی خدمات سے فائدہ اٹھایا۔ یہ بھی ایک پہلو ہے جس کی طرف میں آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ یہ بھی کیاگیا ہے کہ مرزاغلام احمد کے پیروکاروں کے لئے انگریزوں سے مکمل وفاداری جزو ایمان ہے۔ اس کا عہد وہ بیعت کے وقت کرتے ہیں۔ یہ ایک نہایت ہی اہم بات ہے۔ کیونکہ انگریزوں سے وفاداری کی شرط کی مسلمان بہت مخالفت کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ بیرونی سامراجیت جس نے ان کی حکومت اور اختیارات کو غصب کر رکھا تھا، سے نجات حاصل کی جائے۔ انگریزوں سے وفاداری کی شرط ایمان ہونے کی وجہ سے احمدی یا مرزاغلام احمد کے پیروکاروں کی شکل میں انگریزوں کو بہت ہی اعلیٰ قسم کے جاسوس مل گئے تھے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(افغانستان میں دو قادیانیوں کا قتل)
ہمیں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ ۱۹۲۵ء میں افغانستان میں دو مرزائیوں/ احمدیوں کو قتل کر دیا گیا نہ محض اس وجہ سے کہ وہ مرتد ہوگئے تھے۔ بلکہ ان کے قبضہ سے ایسی دستاویزات برآمد ہوئی تھیں جن سے پتہ چلا کہ وہ انگریز حکومت کے جاسوس تھے اور وہ افغان حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے۔ ایوان کے نوٹس میں میں یہ حقائق لانا چاہتا ہوں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ درست یا سچ ہیں۔
جہاں تک مرزاصاحب کی قرآن کے فہم یا سوچ کا تعلق ہے۔ میں سمجھتا ہوں وہ کم وبیش سرسید احمد خان جیسی ہی ہے۔ ماسوائے چند آیات کے جن کا تعلق حضرت مسیح علیہ السلام سے ہے یا جن کا تعلق مرزاصاحب کی اپنی نبوت کے بارے میں ہے۔ وہ قرآن کے فہم کا ادراک رکھتا تھا۔ اپنے مخالفین کو ڈرانے دھمکانے کے لئے اس کا نمایاں ہتھیار اس کی وہ پیش گوئیاں تھیں جن کے ذریعہ وہ محدود مدت کے اندر اندر مخالفین کی موت یا تذلیل کا دعویٰ کیا کرتا تھا۔
محترم! ۱۸۹۱ء میں مرزاصاحب نے پہلے مسیح موعود ہونے کا اعلان اور بعد میں نبی ہونے کا اعلان کیا۔ اس نے کس قسم کی نبوت کا اعلان کیا۔ اس کا ذکر میں بعد میں کروں گا۔ مرزاغلام احمد کے بیٹے مرزابشیرالدین محمود احمد اپنی کتاب ’’احمدی یا سچا اسلام‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اس کا کام ان غلطیوں اور غلط توجیہات کا ازالہ کرنا تھا جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دین کے اندر سرایت کر گئی تھیں۔ بلکہ اس کو اس سے بھی اعلیٰ مقصد کی تکمیل کرنا تھی۔ اس ضمن میں اس کو لامحدود خزانے، اٹل سچائیاں اور پوشیدہ قوتیں تلاش کرنا تھیں۔ قرآن کے اس معجزے کا اعلان کرتے ہوئے مسیح موعود نے ایک روحانی انقلاب برپا کر دیا۔ مسلمانوں کا یہ تو پختہ ایمان تھا کہ قرآن کریم ایک مکمل کتاب ہے۔ لیکن گذشتہ پندرہ سو سالوں میں کسی نے یہ خیال نہیں کیا تھا کہ قرآن کریم نہ صرف مکمل کتاب ہے۔ بلکہ اس میں مستقبل کی ضروریات کے لئے ایک کبھی نہ ختم ہونے والا ذخیرہ موجود ہے جس کی تفتیش اور تحقیق سے روحانیت کے انمول خزانے رونما ہوں گے۔ دنیا کے سامنے قرآن کے اس اعجاز کو نمایاں کر کے بانی سلسلہ احمدیہ نے روحانیت کی تفتیش اور تحقیق کے راستے کھول دئیے۔ یہ دنیاوی سائنس کے مقابلہ میں بہت ہی اعلیٰ اقدام ہے۔ مرزاغلام احمد نے نہ صرف اسلام کو تمام غلطیوں سے پاک کر دیا۔ بلکہ قرآن کریم پر ایسی روشنی ڈالی جس سے دنیا اور انسانیت کے سامنے عقل ودانش کی تسکین کا سامان بہم پہنچایا۔ گویا مستقبل کی تمام مشکلات کو حل کرنے کی کلید پیش کر دی۔‘‘
 
Top