(مرزاقادیانی کی ذاتی اغراض)
محترم! اس بارے میں صرف ایک دو باتیں کروں گا۔ یعنی یہ کہ مرزاغلام احمد نے ان پوشیدہ خزانوں کا پتہ لگا لیا۔ جن تک گذشتہ تیرہ سو سالوں میں کوئی مسلمان نہیں پہنچ سکا تھا۔ اس میں کسی شک وشبہ یا تردید کی گنجائش نہیں کہ قرآن کریم خزائن کا مجموعہ ہے۔ یہ عقل وحکمت کا منبع ہے۔ جوں جوں انسان ترقی کرے گا اور قرآن کے اندر گہرا تدبر کرے گا۔ عقل ودانش کے اسرار ورموز اس پر عیاں ہوتے چلے جائیں گے۔ میں نے مرزاناصر احمد سے خصوصی طور پر سوال کیا کہ وہ کون سے انکشافات تھے جو مرزاغلام احمد سے قبل کسی اور مسلمان پر ظاہر نہ ہوئے۔ ماسوائے ختم نبوت کے مطلب کے بارے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے بارے میں کہ آیا وہ زندہ ہے یا نہیں۔ میرے اس سوال کے جواب میں مرزاناصر احمد نے کہا کہ مرزاغلام احمد کی سورۃ فاتحہ کی تفسیر اس تفسیر کا ستر فیصد حصہ نیا ہے۔ اس بارے میں فیصلہ کرنا یا کوئی رائے دینا اس ایوان کے فاضل علماء کا کام ہے۔ مجھے اور کچھ نہیں کہنا۔ مجھے تو صرف علامہ اقبالؒ کا وہ قول یاد ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ؎
عصر من پیغمبرے ہم آفرید
آن کہ در قرآن بجز از خود ندید
یعنی ہمارے دور میں ایک ایسا نبی پیدا ہوا جس کو قرآن میں اپنے سوا کچھ اور نظر ہی نہیں آتا۔ میرا خیال ہے یہ ایک نہایت ہی مناسب تبصرہ ہے۔ جہاں تک ہم سمجھ سکے ہیں۔ مرزاصاحب نے قرآن مجید کی صرف انہی حصوں کی تفسیر کی جس میں ان کو ذاتی دلچسپی تھی۔
محترم! اب میں مرزاغلام احمد کی زندگی اور دینی تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے تین مراحل کا ذکر کروں گا۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے۔ شروع میں مرزاغلام احمد بھی عام مسلمانوں کی طرح ایک دینی رہنما تھا اور انہی جیسے عقائد رکھتاتھا۔ اس نے عیسائیوں اور آریہ سماجیوں کا مقابلہ کیا۔ یہ ۷۶۔۱۸۷۵ء تا ۸۹۔۱۸۸۸ء کا دور تھا۔ مرزاغلام احمد کے اس دور کے عقائد کا ذکر کرتے ہوئے میں اس کی اپنی کتاب ’’حمامتہ البشریٰ روحانی خزائن‘‘ جلد۷ ص۲۰۰ کا ترجمہ پیش کروں گا۔
’’کیا تو نہیں جانتا کہ پروردگار رحیم وصاحب فضل نے ہمارے نبی ﷺ کا بغیر کسی استثناء کے خاتم النّبیین نام رکھا اور ہمارے نبی نے اہل طلب کے لئے اس کی تفسیر اپنے قول لانبی بعدی میں واضح طور پر فرمادی اور اگر ہم اپنے نبی کے بغیر کسی نبی کا ظہور جائز قرار دیں تو گویا ہم باب وحی بند ہوجانے کے بعد اس کا کھلنا جائز قرار دیں گے اور یہ صحیح نہیں۔ جیسا کہ مسلمانوں پر ظاہر ہے اور ہمارے رسول اﷲ ﷺ کے بعد نبی کیونکر آسکتا ہے۔ درآں حالیکہ آپ کی وفات کے بعد وحی منقطع ہوگئی اور اﷲتعالیٰ نے آپ پر نبیوں کا خاتمہ فرمادیا۔‘‘
یہ بالکل واضح بات تھی۔ اس (مرزاغلام احمد) نے خاتم النّبیین کے بارے میں اپنے عقیدے کا اظہار کر دیا۔ اس کے بعد اس نے مزید کہا: ’’آنحضرت ﷺ نے باربار فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حدیث ’’لانبی بعدی‘‘ ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت پر کلام نہ تھا اور قرآن شریف کا ہر لفظ قطعی ہے۔ اپنی آیات ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین‘‘ اس بات کی تصدیق کرتا تھا کہ ہمارے نبی ﷺ پر نبوت ختم ہوچکی ہے۔‘‘
یہ اقتباس ’’کتاب البریہ‘‘ جلد:۱۳، ’’روحانی خزائن‘‘ حاشیہ ص۲۱۷،۲۱۸ سے تھا۔ پھر وہ اپنی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ جو کہ ’’روحانی خزائن‘‘ جلد۳ ص۴۱۲ میں شائع ہوئی۔ کہتا ہے: ’’ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ اگر خداتعالیٰ صادق الوعد ہے اور جو آیت خاتم النّبیین میں وعدہ کیاگیا ہے جو جو حدیثوں میں بہ تصریح بیان کیاگیا ہے کہ اب جبرائیل بعد وفات رسول اﷲ ﷺ ہمیشہ کے لئے وحی نبوت لانے سے منع کیاگیا ہے۔ یہ تمام باتیں سچ اور سچ ہیں تو پھر کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبی کے بعد ہرگز نہیں آسکتا۔‘‘
اس کے بعد یہ مرزاصاحب کے ایک اشتہار کی عبارت کا حوالہ ہے۔ جو ۲۰؍شعبان کو رسالہ ’’تبلیغ‘‘ میں شائع ہوا: ’’ہم مدعی نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں۔ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کے قائل ہیں اور حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کے ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
یہ اس کی (مرزاغلام احمد کی) ذہنی زندگی کا پہلا دور تھا۔ دوسرے دور کا آغاز ۱۸۸۸ء کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ جب اس نے اپنے پیروکاروں سے بیعت لینا شروع کی۔ میں حلف بیعت کے متعلق مرزابشیرالدین محمود کی کتاب کے ص۳۰ کو پڑھتا ہوں: ’’المختصر کتاب کا اثر (براہین احمدیہ کا ذکر کرتے ہوئے) آہستہ آہستہ پھیلنا شروع ہوا اور مسیح موعود کو کئی لوگوں نے تحریری خطوط لکھے کہ وہ ان سے بیعت لیں۔ لیکن مرزاغلام احمد نے نہ مانا اور جواب دیا کہ اس کے تمام اعمال الہامی ہدایت کے تابع ہیں۔ دسمبر ۱۸۸۸ء میں مرزاغلام احمد کو الہام ہوا کہ وہ اپنے پیروکاروں سے بیعت لیں۔ سب سے پہلی بیعت لدھیانہ میں ۱۸۸۹ء میں لی گئی (جس کا ذکر میں نے پہلے کیا) یہ بیعت میاں احمد جان کے گھر میں لی گئی اور سب سے اوّل بیعت کرنے والا مولوی نوردین تھا۔ اس روز کل چالیس آدمیوں نے بیعت کی۔ اس وقت تک اس نے مسیح موعود یا نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ اس وقت تک وہ یہی کہتا تھا کہ اس کا خدا سے رابطہ ہے اور اسے الہامی پیغامات وصول ہوتے ہیں۔‘‘
محترم! اب ہم اس کی زندگی کے دوسرے دور کی طرف جاتے ہیں کہ اس کا آغاز اس نے کیسے کیا۔ میں غلطی کر سکتا ہوں۔ مگر جہاں تک میں سمجھا ہوں کہ مرزاغلام احمد نے پہلے جو پوزیشن اختیار کی تھی اس کو تبدیل کرتے ہوئے اس نے بڑی احتیاط سے کام لیا۔ سیالکوٹ کے لیکچر اور راولپنڈی کے مباحثے میں مرزاغلام احمد نے چند ایک دلچسپ انکشافات کئے۔ اس نے نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ اس نے کہا: ’’تم بغیر نبیوں اور رسولوں کے ذریعے وہ نعمتیں کیوں کر پاسکتے ہو۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ تمہیں یقین اور محبت کے مرتبہ پر پہنچانے کے لئے خدا کے انبیاء وقتاً فوقتاً آتے رہیں جن سے تم وہ نعمتیں پاؤ۔ اب کیا تم خداتعالیٰ کا مقابلہ کرو گے اور ان کے قدیم قانون کو توڑ دو گے۔‘‘
یہ اگلا قدم ہے جو کہ میں نے ’’روحانی خزائن‘‘ جلد۲۰ ص۲۲۷ سے پڑھا ہے۔ پھر ’’تجلیات الٰہیہ‘‘، ’’روحانی خزائن‘‘ جلد۲۰ ص۴۱۲ پر مرزاغلام احمد کہتا ہے: ’’اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت نبی ہوسکتا ہے۔ مگر وہی جو پہلے امتی ہو۔ پس اس بناء پر میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی۔‘‘
چنانچہ اب اس نے نبی یا ایک ذیلی نبی ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ وہ مکمل نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا وہ کہتا ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی امت میں سے ہے اور ان( ﷺ ) کے وسیلہ سے یہ مقام حاصل کیا ہے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے ’’تجلیات الٰہیہ‘‘ ص۲۰، ’’مباحثہ راولپنڈی‘‘ اور ’’روحانی خزائن‘‘ جلد۲۰ ص۴۱۲ پر رقمطراز ہے: ’’میرے نزدیک نبی اس کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی اور قطعی بکثرت نازل ہو جو غائب پر مشتمل ہو۔ اس لئے میرا نام نبی رکھا مگر بغیر شریعت کے۔‘‘
اگلا قدم یا دلیل مرزاغلام احمد نے ’’حقیقت الوحی‘‘ جو کہ ’’روحانی خزائن‘‘ کی جلد۲۲ کے صفحہ۹۹،۱۰۰ پر شائع ہوئی ہے۔ جس میں وہ کہتا ہے: ’’خدا کی مہر نے یہ کام کیا کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی کرنے والا اس درجہ پر پہنچا کہ ایک پہلو سے وہ امتی ہے اور ایک پہلو سے نبی ہے۔‘‘
پھر وہ ’’نزول مسیح‘‘ حاشیہ از ’’مباحثہ راولپنڈی‘‘، ’’روحانی خزائن‘‘ جلد۱۸ ص۳۸۱ پر کہتا ہے: ’’میں رسول اور نبی ہوں یعنی بااعتبار ظلیت کاملہ کے میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے۔‘‘
میں معزز ایوان کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ صرف ایک یا دو اقتباسات پڑھوں گا۔ ’’حقیقت الوحی‘‘ روحانی خزائن جلد۲۲ ص۱۰۰ پر کہتا ہے: ’’اﷲ جل شانہ نے آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم بنایا۔ یعنی آپ کو افاضۂ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی۔ اس وجہ سے آپ کا نام خاتم النّبیین ٹھہرایا۔ یعنی آپ کی پیروی ’’کمالات نبوت‘‘ بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی ’’نبی تراش‘‘ ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی ہے۔‘‘
----------
(اس مرحلہ پر مسٹر چیئرمین کرسی صدارت پر تشریف لائے)
----------
(جناب یحییٰ بختیار: اس کے بعد ہم اس (مرزاغلام احمد) کی زندگی کے تیسرے دور کی طرف آتے ہیں۔ لیکن اس کا ذکر کرنے سے بیشتر میں ایوان کی توجہ ایک دو حوالہ جات کی طرف مبذول کراؤں گا۔ یہ ان کے مطابق لفظ ’’خاتم النّبیین‘‘ کے معنی کے بارے میں ہیں۔ تاکہ معلوم ہو سکے کہ قادیانیوں یا مرزاغلام احمد یا اس کے پیروکاروں کے عقیدے کی رو سے نبی کی ضرورت کیوں تھی۔ اس دلیل کا ذکر ’’کلمتہ الفصل‘‘ جو ریویو آف ریلجن (Review of Religin) کی جلد۱۴ کے شمارے نمبر۳،۴، مارچ،اپریل ۱۹۱۵ء میں ملتا ہے۔ یہ دلچسپ ہونے کے ساتھ جگر سوز بھی ہے۔ ایسا کیوں ہے میں نہیں جانتا۔ مگر مرزاغلام احمد کے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرنے کا پس منظر ص۱۰۱ پر اس طرح درج ہے: ’’دجال نے پورے زور کے ساتھ خروج کیا تھا یاجوج ماجوج کی فوجیں ہر ایک اونچی جگہ سے امڈی چلی آتی تھیں۔ اسلام عیسائیت کے پاؤں پر جان کنی کی حالت میں پڑا تھا اور دہریت اپنے آپ کو ایک خوبصورت شکل میں پیش کر رہی تھی۔ مگر اس پر بھی مسلمانوں کے کانوں پر جوں تلک نہ رینگی اور وہ خواب غفلت میں سویا کیے۔ حتیٰ کہ وقت آیا جب محمد ﷺ کی روح اپنی امت کی حالت زار کو دیکھ کر تڑپتی ہوئی آستانہ الٰہی پر گری اور عرض کیا کہ اے بادشاہوں کے بادشاہ! اے غریبوں کی مدد کرنے والے! میری کشتی ایک خطرناک طوفان میں گھر گئی ہے۔ میری بھیڑوں پر بھیڑیے ٹوٹ پڑے ہیں۔ میری امت شیطان کے پنجے میں گرفتار ہے تو خود میری مدد فرما اور میری بھیڑوں کے لئے کسی چرواہے کو بھیج۔ تب یکا یک آسمان پر سے ظلمت کا پردہ پھٹا اور خدا کا ایک نبی فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے زمین پر اترا تاکہ دنیا کو اس طوفان عظیم سے بچائے اور امت محمدیہ کی گرتی ہوئی عمارت کو سنبھال لے۔‘‘
مزید وہ کہتا ہے: ’’وہ جو دنیا کا آخری نجات دینے والا بن کر آسمان پر سے دنیا کی مصیبت کے وقت زمین پر اترا وہ جو امت محمدیہ کی بھیڑوں پر حملہ کرنے والے بھیڑیوں کو ہلاک کرنے کے لئے آیا وہ جو اسلام کی کشتی کو طوفان میں گھرے ہوئے دیکھ کر اٹھاتا اسے کنارہ پر لگائے۔ وہ جو خیرالامم کو شیطان کے پنجہ میں گرفتار پاکر شیطان پر حملہ آور ہوا وہ جو دجال کو زوروں پر دیکھ کر اس کے طلسم کو پاش پاش کرنے کے لئے آگے بڑھا۔ وہ جو یاجوج ماجوج کی فوجوں کے سامنے اکیلا سینہ سپر ہوا وہ جو مسلمانوں کے باہمی جھگڑوں کو دور کرنے کے لئے امن کا شہزادہ بن کر زمین پر آیا وہ جو دنیا پر اندھیرا چھایا ہوا پاکر آسمان پر سے نور کو لایا ہاں وہ محمد ﷺ کا اکلوتا بیٹا جس کے زمانہ پر رسولوں نے ناز کیا تھا۔ جب وہ زمین پر اترا تو امت محمدیہ کی بھیڑیں اس کے لئے بھیڑیے بن گئیں۔ اس پر پتھر برسائے گئے۔ اس کو مقدمات میں گھسیٹا گیا۔ اس کے قتل کے منصوبے کئے گئے۔ اس پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔ اس کو اسلام کا دشمن قرار دیا۔ اس کے پاس جانے سے لوگوں کو روکا گیا اس کے متبعین کو طرح طرح سے تکلیفیں دی گئی…‘‘
جناب والا! مجھے اس پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایک طرف تو احمدیوں یا قادیانیوں کی طرف سے بڑے طمطراق سے کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول آسمان سے نہیں ہوگا۔ (جب کہ دوسرے مسلمانوں کا ایمان ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نزول فرمائیں گے) لیکن اس اقتباس میں پرزور طریقے سے ایسی تصویر پیش کی گئی ہے۔ گویا وہ جسمانی طور پر آسمان سے اتر رہے ہیں۔ اس سارے قصہ کا جگرسوز پہلو یہ ہے کہ ایک طرف بتایا جارہا ہے کہ اس (مرزاغلام احمد) کی کس قدر شدید ضرورت تھی۔ اس نے کیا کیا۔ کارنامے انجام دینا تھے او رمسلمانوں کی مدد کے لئے اس کے کیا کیا مقاصد تھے۔ لیکن پھر وہ کہتا ہے کہ: ’’بھیڑیں بھیڑیے بن گئیں۔‘‘
یہ ردعمل کیوں ہوا۔ ایک اپنے آدمی کے خلاف جو ایک دوست تھا۔ ہیرو تھا۔ امداد کر رہا تھا۔ اس قدر شدید مخالفت کیوں ہوئی۔ اس پر ہمیں غور کرنا ہے اور اس کا جواب بالکل سادہ ہے۔ وہ یہ کہ اس نے مسلمانوں کے بنیادی عقیدہ ایمان پر حملہ کیا تھا۔ میرا مطلب مسلمانوں کے ’’خاتم النّبیین‘‘ کے ایمانی تصور سے ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان اس کی اس قدر شدید مخالفت کرتے۔
جناب والا! مرزاغلام احمد نبی اور مسیح موعود کیوں بنا۔ اس کی ضرورت کیا تھی۔ مرزاغلام احمد کے اور اس کے پیروکاروں کے ختم نبوت کے متعلق کیا تصورات ہیں۔ ان سب سوالوں کا جواب مرزابشیرالدین محمود احمد کی کتاب ’’احمدیت یا سچا اسلام‘‘ ۱۹۳۷ء ایڈیشن ص۱۰،۱۱ پر ملتا ہے۔ جسے میں پیش کرتا ہوں: ’’ہمارا ایمان ہے کہ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی بنیاد کی جانشینی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ کیونکہ عقل اس سلسلہ کے دائمی طور پر موقوف ہونے کو تسلیم نہیں کرتی۔ جب تک دنیا میں نفسیاتی تاریکیوں کے دور آتے رہیں گے جب تک انسان اپنے خالق سے دور ہوتا رہے گا۔ جب تک لوگ صراط مستقیم سے بھٹکتے رہیں گے اور یاس وناامیدی کے اندھیروں میں گم ہوتے رہیں گے… اور جب تک حسن کے متلاشی سچائی کی تلاش کے لئے کوشاں رہیں گے تو پھر یہ ناممکن ہے کہ حق کا راستہ دکھانے والے نورانی رہبروں کا ظہور موقوف ہو جائے۔ کیونکہ یہ بات اﷲتعالیٰ کی صفت ’’رحمانیت‘‘ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اﷲتعالیٰ علاج کی اجازت تو دے مگر اس کا علاج پیدا نہ کرے۔ وہ دلوں میں حق کی جستجو کی خواہش تو پیدا کرے مگر اس خواہش کی تکمیل کرنے والوں کی آمد کا سلسلہ بند کر دے۔ ایسا خیال کرنا بھی اﷲتعالیٰ کی صفت ’’رحمانیت‘‘ کی توہین ہے اور ایسا خیال روحانی اندھا پن ہے۔ اگر دنیا میں کبھی بھی کسی نبی کی ضرورت تھی تو آج یہ ضرورت سب سے زیادہ ہے۔ کیونکہ مذہب اور سچائی کھوکھلے ہو چکے ہیں۔‘‘