ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
۲۹؍مئی۱۹۷۴ء کو چناب نگر ریلوے اسٹیشن پر قادیانی اوباشوں نے قادیانی دھرم کے نام نہاد چوتھے گرو مرزا طاہر احمد کی قیادت میں نشترمیڈیکل کالج ملتان کے طلباء پر قاتلانہ حملہ کیا۔ اس کے ردعمل میں پاکستان میں تحریک چلی۔ اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ قادیانی مسئلہ کو قومی اسمبلی میں فیصلہ کے لئے پیش کریں گے۔ جہاں قومی اسمبلی کے اراکین، جو آزادانہ، منصفانہ اور جمہوری فیصلہ کریں گے۔ وہ سب کے لئے قابل قبول ہوگا۔ یہ اعلان ہونے کی دیر تھی کہ قادیانی جماعت نے وزیر اعظم پاکستان اور قومی اسمبلی کے جنرل سیکرٹری کو درخواست بھجوائی کہ اسمبلی میں ہمارے عقائد پر بحث ہونا ہے تو ہمیں بھی قومی اسمبلی میں پیش ہونے کا موقعہ دیا جائے۔ چنانچہ وزیر اعظم پاکستان نے قائد حزب اختلاف، مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ سے مشاورت کے بعد قادیانی ولاہوری دونوں گروہوں کے سربراہوں کو ان کی درخواست پر قومی اسمبلی میں آکر موقف پیش کرنے کی اجازت دے دی۔
اس وقت قومی اسمبلی کے سپیکر جناب صاحبزادہ فاروق علی خان تھے۔ وہ قومی اسمبلی کی اس خصوصی کمیٹی کے بھی چیئرمین قرار پائے۔ ان کی زیر صدارت مہینہ بھر کمیٹی کے اجلاس وقفہ وقفہ سے منعقد ہوتے رہے۔
قادیانی جماعت کے تیسرے چیف گرو مرزا ناصر احمد اور لاہوری گروپ کے لاٹ پادری صدرالدین لاہوری، مسعود بیگ لاہوری، عبدالمنان لاہوری پیش ہوئے۔ جبکہ اس وقت پاکستان کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار تھے۔ چنانچہ طے ہوا کہ تمام قومی اسمبلی کے اراکین جوخصوصی کمیٹی کے بھی اراکین قرار پائے تھے۔ وہ قادیانی، لاہوری گروپ کے قائدین سے قادیانی دھرم کے بارے میں سوالات کرسکتے ہیں۔ لیکن وہ تمام سوالات اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار کے ذریعہ ہوں گے۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو قومی رہنما تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ قادیانی مسئلہ ایسے طور پر حل ہو کہ باہر کی دنیا کا کوئی شخص اس پر حرف گیری نہ کرسکے۔ اس لئے آپ نے قادیانی مسئلہ کو قومی اسمبلی کے سپرد کیا کہ وہ آزادانہ فیصلہ کریں۔ اب مشکل یہ پیش آئی کہ قادیانی ولاہوری گروپ کے سربراہان اور ان پر سوال کرنے والے جناب اٹارنی جنرل قومی اسمبلی کے ارکان نہ تھے۔ انہیں قومی اسمبلی کی کارروائی میں حصہ لینے کا کیسے اہل قرار دیا جائے؟۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے پوری قومی اسمبلی کو ’’خصوصی کمیٹی برائے بحث قادیانی ایشو‘‘ میں بدل دیا گیا۔ قومی اسمبلی کے تمام ممبران کو اس خصوصی کمیٹی کا ممبر قراردیا گیا۔ یوں قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں غیر ممبران قومی اسمبلی کو بھی بلانے کا راستہ نکالا گیا۔ ان دنوں قومی اسمبلی کے اجلاس سٹیٹ بینک اسلام آباد کی بلڈنگ میں ہوتے تھے۔ چنانچہ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں ۵؍اگست ۱۹۷۴ء بروز پیر صبح دس بجے قومی اسمبلی کے ہال واقع سٹیٹ بینک اسلام آباد میں مرزا ناصر پر جرح کا آغاز ہوا۔
۵؍اگست سے لے کر ۱۰؍اگست تک۶؍دن اور پھر۔۲۰؍اگست سے لے کر۲۴؍اگست تک۵؍دن۔ کل گیارہ دن مرزا ناصر احمدچیف قادیانی گروہ پر جرح ہوئی۔ ۲۷؍اگست اور ۲۸؍اگست ۲؍دن … صدرالدین، عبدالمنان عمر اور مرزا مسعود بیگ، لاہوری گروپ کے نمائندوں پر جرح ہوئی۔کل تیرہ دن قادیانی ولاہوری گروپ کے نمائندوں پر جرح مکمل ہوئی۔
قادیانی گروپ کے مرزا ناصر احمد نے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں ۵؍اگست سے پہلے اپنا ایک بیان پڑھا تھا۔ قادیانی گروپ لیڈر نے قومی اسمبلی کے ہر رکن کو اس کی ایک ایک مطبوعہ کاپی دے دی تھی۔ اس لئے تمام اراکین نے اس کا مطالعہ کرلیا۔ اسے اپنے طور پر قادیانیوں نے شائع بھی کیا۔ حکومت نے جو سرکاری رپورٹ شائع کی ہے۔ اس کا آغاز ۵؍اگست کی کارروائی یعنی مرزا ناصر احمد پر پہلے دن کی جرح سے کیا ہے۔
کل جماعتی مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کی طرف سے ملت اسلامیہ کا قادیانی فتنہ کے خلاف موقف پیش کرنا تھا۔ چنانچہ مرکزی مجلس عمل کے سربراہ شیخ الاسلام حضرت مولانا محمدیوسف بنوریؒ نے راولپنڈی میں ڈیرہ جمالیا۔ پارک ہوٹل میں آپ کا قیام طے ہوا۔ دفتر مرکزیہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان کی لائبریری سے قادیانیت کی کتب اور اخبارات کا ایک ذخیرہ راولپنڈی منتقل کیا گیا۔ قادیانی فتنہ سے متعلق مذہبی بحث کو لکھنے کے لئے شیخ الاسلام حضرت مولانا محمدتقی عثمانی اور سیاسی بحث لکھنے کے لئے حضرت مولانا سمیع الحق صاحب کو راولپنڈی بلالیا گیا۔ حضرت مولانا محمد تقی عثمانی کی مدد کے لئے فاتح قادیان حضرت مولانا محمدحیاتؒ اور حضرت مولانا عبدالرحیم اشعرؒ کے ذمہ حوالجات مہیا کرنے کا کام لگایاگیا۔ قادیانی فتنہ سے متعلق سیاسی بحث لکھنے کے لئے حوالجات مہیا کرنے کا کام حضرت مولانا تاج محمودؒ اور حضرت مولانا محمدشریف جالندھریؒ کے ذمہ لگایا گیا۔ دن بھر خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ، امام اہل سنت حضرت مولانا شاہ احمد نورانیؒ، فخر قوم چوہدری ظہور الٰہی مرحوم، عزت مآب جناب پروفیسر غفور احمدؒ شریک ہوتے۔ رات کو حضرت شیخ بنوریؒ کے ہاں یہ سب حضرات یا جو فارغ ہوتے، تشریف لاتے۔ البتہ حضرت مفتی صاحبؒ بہرحال ہر روز تشریف لاتے۔دن بھر میں محضر نامہ کا جتنا حصہ تیار ہوجاتا، وہ سنتے۔ حضرت شیخ بنوریؒ کے حکم پر حضرت پیر طریقت سید نفیس الحسینیؒ اپنے کاتب شاگردوں کی ٹیم کے ہمراہ راولپنڈی تشریف لائے۔ جو حصہ محضر نامہ کا تیار ہوجاتا، وہ حضرت سید نفیس الحسینی ؒ کے سپرد کردیا جاتا۔ وہ اس کی کتابت کراتے۔ غرض اﷲ رب العزت نے فضل فرمایا کہ دن رات مشین کی طرح تمام حضرات اپنا اپنا کام کرتے رہے۔ ادھر ۲۸؍اگست کو لاہوری گروپ پر جرح مکمل ہوئی۔
اگلے دن ۲۹؍اگست (ملت اسلامیہ کا موقف جو پہلے سے لکھا جاچکا تھا) کو حضرت مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ نے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں پڑھنا شروع کیا۔ ۲۹، ۳۰؍اگست کو حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے اپنا بیان مکمل فرمایا جو ملت اسلامیہ کا موقف اور چار ضمیمہ جات پر مشتمل تھا۔ ضمیمہ نمبر۱، فیصلہ مقدمہ بہاول پور۔ ضمیمہ نمبر۲، فیصلہ مقدمہ راولپنڈی، ضمیمہ نمبر۳ ، فیصلہ مقدمہ جمیس آباد، ضمیمہ نمبر۴، فیصلہ مقدمہ جی ڈی کھوسلہ گرداسپور۔ یہ تمام مسودہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے دو دن میں مکمل فرمایا۔
مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ایم این اے نے اپنی طرف سے علیحدہ محضر نامہ تیار کیا تھا۔ جسے حضرت مولانا عبدالحکیم ایم این اے نے ۳۰؍اگست کے اجلاس کے آخری حصہ میں پڑھنے کا عمل شروع فرمایا۔ جو ۳۱؍اگست کے اجلاس کے اختتام تک مکمل ہوگیا۔۲؍ستمبر کے اجلاس میں سردار مولا بخش سومرو، شہزادہ سعید الرشید عباسی، صاحبزادہ صفی اﷲ، ڈاکٹر ایس محمودعباس بخاری، سردار عنایت الرحمن عباسی، چوہدری جہانگیر علی، کرنل حبیب احمد، مولاناغلام غوث ہزاروی، مغل اورنگزیب، رائو خورشید علی خان، مولانا عبدالمصطفیٰ ازہری، میاں عطاء اﷲ، بیگم نسیم جہاں، پروفیسر غفور احمد، خواجہ غلام سلیمان تونسوی، سید عباس حسین گردیزی، جناب عبدالعزیزبھٹی، حضرت مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی، چوہدری غلام رسول تارڑ، جناب محمدافضل رندھاوا، چوہدری ممتاز احمد، غلام نبی چوہدری، ملک کرم بخش اعوان، جناب غلام حسن خان ڈھانڈلہ، مخدوم نورمحمدہاشمی اور دیگر ممبران نے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی بحث میں حصہ لیا اور قادیانی مسئلہ پر اظہار خیال کیا۔ قادیانی ولاہوری گروپ پر جرح کے بعد قادیانی مسئلہ پر جو ان کی رائے تھی، اپنے اپنے خطابات میں اس کا کھل کر اظہار کیا۔
۳؍ستمبر کو جناب غلام رسول تارڑ، جناب کرم بخش اعوان، مولانا غلام غوث ہزاروی، پروفیسر غفور احمد، ڈاکٹر محمدشفیع، چوہدری جہانگیر علی، مولانا ظفر احمد انصاری، جناب حنیف خان، خواجہ جمال کوریجہ، حضرت مولانا عبدالحق، ممبران قومی اسمبلی نے بحث میں حصہ لیا۔
(۴؍ستمبر کو سری لنکا کے وزیر اعظم تشریف لائے۔ ان کے اعزاز میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ اس لئے اس دن کی کارروائی خصوصی کمیٹی کا حصہ نہ تھی)
۵؍ستمبر کو پھر قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا۔ جناب چوہدری محمدحنیف خان، ارشاد احمد خان، ملک محمدسلیمان، جناب عبدالحمید جتوئی، ملک محمدجعفر، ڈاکٹر غلام حسین، چوہدری غلام رسول تارڑ، احمدرضا خان قصوری کے قادیانی مسئلہ پر قومی اسمبلی میں بیانات ہوئے۔ آج کے اجلاس کے آخری حصہ میں جناب یحییٰ بختیار اٹارنی جنرل نے بحث کو سمیٹنا شروع کیا۔
۶؍ستمبر کو ممبران قومی اسمبلی اور جناب یحییٰ بختیار کے بیانات وبحث اختتام کو پہنچی۔
۷؍ستمبر کو بھی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں ممبران نے بحث میں حصہ لیا۔ ۵؍اگست سے ۷؍ستمبر تک مہینہ بھر سے زائد کے عرصہ میں اسمبلی کی اس مسئلہ پر کارکردگی کے کل ۲۱؍دن ہیں۔ جس کا خلاصہ یوں ہے:
مرزا ناصر احمد پر جرح ۱۱؍دن ہوئی۔
لاہوری گروپ پر جرح ۲؍دن ہوئی۔
حضرت مولانا مفتی محمودؒ کا بیان ۲؍دن ہوا۔
حضرت مولانا عبدالحکیم کا بیان ۱؍دن ہوا۔
ممبران قومی اسمبلی کے بیانات ۳؍دن ہوئے۔
ممبران ویحییٰ بختیار کے بیانات ۲؍دن ہوئے۔
کل ۲۱؍دن کی کارروائی تھی
۷؍ستمبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں قادیانی، لاہوری، مرزا قادیانی کے ماننے والے دونوں گروہوں کو غیر مسلم اقلیت قراردے دیاگیا۔ اس زمانہ میں قومی اسمبلی کی یہ تمام تر کارروائی آڈیو ریکارڈ کے ذریعہ محفوظ کی گئی۔ خصوصی کمیٹی کی اس تمام کارروائی کو ٹاپ سیکرٹ (انتہائی خفیہ)قرار دے کر سربمہر کردیاگیا۔ البتہ اسمبلی کے قواعد وضوابط کے مطابق تمام آڈیو کیسٹوں سے اسے کاغذ پر اسمبلی کے عملہ نے منتقل کیا۔ اس خصوصی کمیٹی کی کارروائی کو انتہائی خفیہ کارروائی قرار دے کر اس کی اشاعت کو ممنوع اس لئے قرار دیا گیا کہ قادیانی گروہ نہیں چاہتا تھا کہ ہمارا کچا چٹھا قادیانی عوام کے سامنے آئے کہ کس طرح دن رات ہر اجلاس میں کئی بار قادیانی قیادت نے اپنے عقائد ونظریات سے انحراف کیا اور سیاہ دلی کے ساتھ سفید جھوٹ بولے۔ قادیانی شاطر قیادت دن رات جھوٹ بول کر اپنی عوام کے سامنے میاں مٹھو بنی کہ اگر اسمبلی کی وہ کارروائی چھپ جائے تو آدھا پاکستان قادیانی ہوجائے۔ قادیانی سربراہ مرزاطاہر کا یہ بیان تاریخ کا حصہ ہے۔
ان دنوں جس ٹیم نے قادیانی مسئلہ کو قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کے لئے محنت کی۔ فقیرراقم کو بھی ان کی جوتیوں میں بیٹھنے کی سعادت حاصل تھی۔ تب مفکراسلام مولانا مفتی محمودؒ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ، چوہدری ظہور الٰہی اور دیگر اراکین اسمبلی دن بھر کی کارروائی سنانے کے لئے شیخ الاسلام حضرت مولانا محمدیوسف بنوریؒ کے پاس راولپنڈی پارک ہوٹل تشریف لاتے۔ ان کی تمام گفتگو، قادیانیوں سے سوالات وجوابات کو تفصیل کے ساتھ فقیر نے کاپی پر نوٹ کیا ۔ اسمبلی میں بھی رپورٹنگ کے لئے ساتھی موجود ہوتے تھے۔ جو کارروائی لکھتے رہے۔ وہ تمام کارروائی فقیر نے بھی قلمبند کی۔ کچھ مواد ممبران سے بھی مل گیا۔ اس طرح ’’تاریخی قومی دستاویز‘‘ کتاب تیار ہوگئی۔ اس دوران میں اﷲ رب العزت کے کرم کامعاملہ ہوا کہ جوہانسبرگ میں لاہوری گروپ کی طرف سے ایک کیس دائر ہوا۔ جوہانسبرگ افریقہ کے مسلمانوں نے رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ سے اس کیس کی پیروی کے لئے مدد مانگی۔ رابطہ نے پاکستان کے اس وقت کے صدر جناب ضیاء الحق سے اس کیس کی معاونت اور پیروی کے لئے درخواست کی۔ پاکستان سے ایک سرکاری وفد افریقہ کے لئے گیا۔ اس میں پاکستان کے لاء سیکرٹری جناب جسٹس (ر) محمدافضل چیمہ صاحب بھی تھے۔ چنانچہ چیمہ صاحب کے ذریعہ وفد کو پاکستان کی قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی وہ کارروائی جو آڈیو سے رجسٹروں پر منتقل کی گئی تھی۔ اس کی کاپی صدر مملکت کے حکم پر فراہم کی گئی۔ اس وفد میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنمایان حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانویؒ، مولانا عبدالرحیم اشعرؒ، جناب عبدالرحمن باوا، مولانا منظور احمدالحسینیؒاور بہت سارے حضرات شریک تھے۔ چنانچہ اس خصوصی کمیٹی کی انتہائی خفیہ کارروائی کی کاپی عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ان رہنمائوں کو بھی میسر آگئی۔ اس تمام مواد سے ملحض کتاب فقیر نے مرتب کی تھی۔ وہ بلامبالغہ پچاس ساٹھ ہزار کے قریب چھپ کر دنیا میں تقسیم ہوئی۔ انگلش، بنگلہ وغیرہ زبانوں میں بھی اس کے تراجم ہوئے۔
قادیانی جب اسمبلی کی کارروائی کا تذکرہ کرتے تو اس کا خلاصہ یامفہوم (تاریخی قومی دستاویز) جو بھی آپ فرمائیں، ان کے سامنے کیا جاتاتو وہ دم بخود ہوجاتے۔ قادیانی قیادت اس صورت حال سے بہت پریشان ہوئی۔ ’’قومی تاریخ دستاویز‘‘ پونے چار سو صفحات کی کتاب کی اہمیت کم کرنے کے لئے قادیانی قیادت نے مستقل جھوٹ گڑھنے والی پارٹی کا اجلاس کیا اور ایک مضمون تیار کرکے انٹر نیٹ پررکھ دیا کہ یہ کتاب غلط بیانی پر مشتمل ہے۔ ہم ان سے کہتے رہے اگر یہ غلط ہے تو جو صحیح ہے، وہ آپ آئیں۔ لیکن جھوٹ بولنا اور جھوٹ کی پردہ داری پر سانپ سونگھ جانا۔ یہ قادیانی قیادت کے حصہ میں لکھا ہے۔ غرض اس پر سالہاسال بیت گئے۔
ایک بار محترمہ بینظیربھٹو کے عہد حکومت میں قومی اسمبلی کے ریکارڈ روم میں آگ بھڑک اٹھی۔ جو ریکارڈ جل گیا ان میں وہ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کا آڈیوریکارڈ بھی تھا۔ اس سے تشویش ہوئی کہ قادیانی اس ریکارڈ کو ضائع کرنے کے درپے ہیں۔ لیکن اطمینان تھا کہ وڈیو سے وہ کاغذوں پر منتقل شدہ حصہ ریکارڈ محفوظ تھا۔ آج سے تقریباً ڈیڑھ سال قبل ایک دن خبر آئی کہ محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اسپیکر قومی اسمبلی پاکستان نے اس کارروائی کو اوپن کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ اور وہ کارروائی قومی اسمبلی سیکرٹریٹ شائع کررہا ہے۔ اس اقدام کا ملک بھر میں خیرمقدم کیا گیا۔ اس پر خوشی کے جذبات پرمشتمل مضامین ہم نے شائع کئے۔
لیکن زخمی سانپ کی طرح قادیانی قیادت بلوں میں تڑپتی رہی۔ انہوں نے چپ کا روزہ نہ توڑا۔ محترمہ فہمیدہ مرزا کے بیان پر بھی چھ ماہ بیت گئے۔ اسمبلی کی کارروائی نہ چھپی تو پھر قادیانیوں نے کہنا شروع کیا کہ وہ کیوں نہیں چھاپتے۔ وہ اعلان کا کیا بنا؟۔ ہمیں اس پر شبہ ہوا کہ شاید پھر قادیانیوں نے اس پر پابندی نہ لگوادی ہو۔ آج سے چند ماہ قبل بزنس ریکارڈز اسلام آباد میں بٹ صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا کہ وہ کارروائی چھپ گئی ہے۔ اس کی بابت تسلی تو ضرور ہوئی۔ لیکن ابھی واہمہ کا شکار تھے کہ اب ۲۰؍جنوری۲۰۱۲ء کے روزنامہ جنگ میں خبر شائع ہوئی ہے جسے پڑھ کر ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ خوشی سے وجد کرنے لگا۔ آپ بھی خبر پڑھیں اور اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کریں:
قادیانیوں کو اقلیت قراردینے کا خفیہ پارلیمانی ریکارڈ اوپن کردیاگیا
’’اسلام آباد(طاہرخلیل) قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا خفیہ پارلیمانی ریکارڈ اوپن کردیاگیا۔ اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے ۳۸سال بعد قادیانی آئینی ترمیم کا خفیہ ریکارڈ اوپن کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ ۷؍ستمبر۱۹۷۴ء کو بھٹودور میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے لئے قومی اسمبلی نے دوسری آئینی ترمیم کی منظوری دی تھی۔ اس مقصد کے لئے پورے ایوان کو قائمہ کمیٹی قرار دے کر اس کے خفیہ اجلاس منعقد کئے گئے۔ چار خفیہ اجلاس میں جماعت احمدیہ کے اس وقت کے سربراہ مرزا طاہر احمد نے دلائل دئیے تھے جس پر اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے تفصیلی جرح کی۔ چونکہ ساری کارروائی خفیہ تھی۔ اس لئے تحریری ریکارڈ پارلیمنٹ ہائوس میں سربمہر رکھا گیا۔ ذرائع نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کوئی بھی دستاویز ۳۰سال تک خفیہ رہ سکتی ہے۔ تیس سال کے بعد اسے اوپن کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ ۳۸سال کے بعد موجودہ اسپیکر نے خفیہ قادیانی ترمیمی بل کا سارا ریکارڈ اوپن کرنے کی منظوری دے دی۔
ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا کہ قادیانی آئینی بل کا خفیہ آڈیو ریکارڈ بینظیر دور ۱۹۹۳ء میں جل گیا تھا۔ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے خفیہ ریکارڈ کی تیاری اور طباعت پر قومی اسمبلی کو ۴۶لاکھ روپے خرچ کرنا پڑے ہیں اور سارا ریکارڈ اوپن کرکے جمعرات کو پارلیمنٹ ہائوس کی لائبریری میں رکھ دیا گیا ہے۔ جہاں اراکان اس سے استفادہ کرسکیں گے۔ علاوہ ازیں سینٹ کے اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالغفور حیدری نے بھی قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا پارلیمانی ریکارڈ حاصل کرنے کے لئے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے باضابطہ رابطہ کرلیا ہے۔‘‘
اس خبر اور بٹ صاحب کے مضمون کے بعد سے ہم مسکین اس کی تلاش میں فکر مند ہوئے۔ حضرت مولانا محمدخان شیرانی صاحب چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان سے دفتر ختم نبوت ملتان میں مستقل ایک میٹنگ کی۔ گزشتہ سال ۱۴۳۲ھ کے حج سے پہلے سکھر میں حضرت مولانا عبدالغفور حیدری سے میٹنگ ہوئی۔ حج کے بعد دوبارہ رابطہ ہوا۔ کئی سفر کئے۔ مولانا عزیزالرحمن ثانی، قاری نذیر احمد لاہور سے اسلام آباد اتنی بار آئے، گئے کہ شاید ڈائیوو والے بھی پریشان ہوگئے ہوں گے۔ لیکن کام نہ ہوا۔ مولانا قاضی ہارون الرشید، مولانا قاری احسان اﷲ، مولانا مفتی محمداویس عزیز، پیر طریقت حضرت مولانا عزیزالرحمن ہزاروی، مولانا محمدطیب فاروقی، مولانا عبدالوحید قاسمی، مولانا محمداکرم طوفانی، پتہ نہیں جنون کی حالت میں کس کس کی منتیں کیں۔ بخدا! اس آفیشل اور مکمل کارروائی کو حاصل کرنے کے لئے اتنا جنون تھا کہ بس نہ پوچھئے کہ غم عاشقی میں کہاں کہاں سے گزرگیا۔
روبرو، کوبکو، دربدر اور سربسر۔کہاں کہاں پر کوشش کی؟۔ یہ بے قراری کی حالت میں مخلصانہ محنت کی کیفیات تو اﷲ رب العزت جانتے ہیں۔ جب بیل منڈھے چڑھتی نظر نہ آئی تو حضرت صاحبزادہ سعید احمد صاحب کے گھر لاہور میں مخدوم گرامی حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم سے میٹنگ کرنے کے لئے ملتان سے سفر کرکے لاہورگیا۔ مولانا عزیزالرحمن ثانی، صاحبزادہ سعید احمد، ڈاکٹر قاری عتیق الرحمن، سیکرٹری جنرل جمعیت علمائے اسلام پنجاب کے ہمراہ پون گھنٹہ حضرت مولانا فضل الرحمن سے میٹنگ ہوئی۔ قائد جمعیت نے فرمایا کہ رکاوٹ کیا ہے؟۔ عرض کیا کہ حضرت حیدری صاحب مدظلہ کئی ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ سپیکر فہمیدہ صاحبہ نہیں مان رہی۔ کارروائی چھپ گئی ہے۔ کئی اس کے سیٹ تیار ہوکر اسمبلی، ڈپٹی سپیکر کے دفتر کے ساتھ والے کمرہ میں محفوظ ہیں۔ لیکن تقسیم کے لئے محترمہ آمادہ نہیں۔ اس پر چھیالیس لاکھ ہماری غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق گورنمنٹ کا طباعت پر خرچہ آیا ہے۔ لیکن محترمہ تقسیم پر راضی نہیں۔ مخدوم محترم قائدجمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب نے فرمایا کہ آپ کے خیال میں اس کے نہ دینے کا باعث کیا ہے؟۔ فقیر نے عرض کیا کہ حکومت کی دون ہمتی یا قادیانی لابی نے باہر سے زور ڈلوایا ہے کہ تقسیم نہ ہو یا حکومت کا واہمہ کہ کوئی قضیہ نہ کھڑا ہوجائے۔ لیکن ہمارے لئے مسئلہ یہ ہے کہ چاہے خود قادیانی رکاوٹ ہوں۔ لیکن وہ میاں مٹھو بن جائیں گے کہ باہر کیوں نہیں لاتے؟۔ تو اس کا تقاضہ ہے کہ یہ ملنی چاہئے۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ …! اس پر حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم نے روک دیا۔ فرمایا چھوڑ دیجئے۔ میں سمجھ گیا۔ کوشش کرتے ہیں۔ وقت لگے گا نکلوانے میں۔ لیکن مل جائے گی۔ اس پر بھی کافی عرصہ بیت گیا۔ تو مولانا صاحبزادہ عزیزاحمد کے ذریعہ بارہا حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم کو یاد دہانی کرائی۔ لیکن حضرت مولانا کا خیال مبارک تھا کہ ایک دفعہ کہوں گا اور ایسے طور پر کہ وہ انکار نہ کرسکیں۔ حضرت مولانا کا موقف سوفیصد صحیح تھا۔ لیکن ہماری بے قراری کو کارروائی حاصل کئے بغیر کیسے قرار آئے گا؟ مولانا صاحبزادہ عزیزاحمد صاحب دامت برکاتہم کے اس مسئلہ پر اتنے کان کھائے کہ ان کو اس کا نام سنتے ہی الرجی ہوجاتی۔
قارئین کرام! ہر کام کے لئے وقت مقرر ہوتا ہے۔ تھوڑا عرصہ ہوتا ہے کہ برادر زادہ مولانا سہیل باوا کا لندن سے فون آیا کہ لندن کی ایک ویب سائٹ پر قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے قادیانی مسئلہ کی سرکاری آفیشل مکمل کارروائی آگئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ ان سے عرض کیا کہ اس کی سی ڈی بنوائیں۔ ابھی فقیر یہ خبر چھپائے ہوئے تھا کہ برادر جناب محمدمتین خالد صاحب نے فرمایا کہ ویب سائٹ پر کارروائی بندہ نے مکمل دیکھ لی ہے۔ مبارک ہو۔اب سوچوں کہ یا اﷲ یہ کیسے ملے گی؟۔ کچھ دیر کے بعد جناب مولانا قاضی احسان احمد صاحب کا کراچی سے فون آیا کہ قومی اسمبلی کی کارروائی ویب سائٹ پر آگئی ہے۔ آپ کے علم میں ہے؟۔ فقیر نے عرض کیا، سنا تو ہے۔ لیکن جب تک دیکھ نہ پائیں، آنکھیں کیسے ٹھنڈی ہوں؟۔ قاضی صاحب نے فرمایا کہ برادر نبیل صاحب اور جناب سید انوارالحسن صاحب نے اس کا پرنٹ نکالنا شروع کردیا ہے۔ فقیر اب ان دونوں سے ڈائریکٹ ہوگیا اور عرض کیا: کاغذ اچھا لگائیں۔ کوئی صفحہ رہ نہ جائے۔
لیجئے! خلاصہ یہ کہ مکمل کارروائی انٹر نیٹ لندن کی ویب سائٹ سے مل گئی۔ کل ۲۱؍دنوں کی کارروائی کے ۲۱حصص اور ۳۰۸۳صفحات تھے۔
مطبوعہ کارروائی کی کاپی ۲۰۱۲ء عید قربان سے چند دن قبل فقیر کو انٹرنیٹ سے ملی۔ پہلے مرحلہ میں مکمل کارروائی کو علیحدہ علیحدہ جلد کرایا۔ اکیس دنوں کی کارروائی اکیس جلدوں میں جلد ہوئی۔ پھر دوبارہ ہر جلد کا دوسرا فوٹوسٹیٹ کرایا اور اس پر کام کا آغاز کیا۔
ابتداء میں یہی خیال تھا کہ اس کا مکمل عکس لے کر شائع کردیا جائے۔ چونکہ انٹرنیٹ پر ایک چیز پہلے سے موجود ہے۔ حکومت نے شائع کی، مگر تقسیم نہیں کر رہی۔ قادیانیوں نے اسے شائع نہیں کرنا، اب ہمارا فرض بنتا ہے کہ اسے شائع کریں۔ لیکن اس کو چونکہ انٹرنیٹ سے لیا تھا جس نے انٹرنیٹ پر اس کو لوڈ کیا۔ اس نے بھی سکین کر کے اپ لوڈ کیا اور ہم نے اس کا پرنٹ لیا۔ پرنٹ میں تمامتر احتیاط کے باوجود نقل درنقل سے یہ محصّلہ کاپی ایسے نہ تھی جو شائع ہوسکے۔ اب شائع بھی کرنا چاہتے ہیں۔ کمپوزنگ موجود نہیں جو شائع شدہ ہے۔ دوبارہ شائع کرنے سے زرلٹ صحیح نہ آئے گا۔ مجبوراً فیصلہ کیا کہ اس کو دوبارہ کمپوز کرایا جائے۔
۲… خیال ہوا کہ جب کمپوزنگ دوبارہ کرانا ہے تو جتنا انگریزی کا حصہ ہے اس کا ترجمہ بھی ہو جائے تاکہ اردو پڑھا لکھا تمام طبقہ اس کے ایک ایک حرف سے فائدہ حاصل کر سکے۔ جو کارروائی کی قلمی کاپی جوہانسبرگ کیس کے سلسلہ میں ملی تھی، اس کاپی میں انگلش کا اردو ترجمہ شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ نے راولپنڈی کے جناب کے۔ایم سلیم سے اس زمانہ میں کرایا تھا۔ اب جو مطبوعہ سرکاری پرنٹ شدہ کاپی کا عکس انٹرنیٹ سے ملا۔ اس قلمی نسخہ کا ترجمہ اس پرنٹ شدہ نسخہ پر نقل کیاگیا۔ لائبریری میں فقیر کے معاون مولانا محمد صفدر نے بہت مدد کی۔ آج اس موقعہ پر مجھے حضرت مولانا اجمل شہید جو کراچی میں مجلس کے مبلغ تھے اور شہادت کی سعادت سے بہروہ ور ہوئے وہ بہت یاد آرہے ہیں اور ان کی جدائی کے صدمہ نے پھر زخم کو ہراکر دیا ہے۔ اﷲتعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائیں کہ قلمی نسخہ کے کے۔ایم سلیم کے ترجمہ کو مطبوعہ سرکاری رپورٹ کے صفحات پر منتقل کیا اور اس کے لئے مرحوم نے بلامبالغہ دن رات ایک کر دئیے۔ بہت ہی کام کے آدمی تھی۔ آج ان کے کام کو دیکھتا ہوں تو وجدان میں یادوں کی ٹیس بے قرار کردیتی ہے۔ جب تک یہ کتاب دنیا میں رہے گی مرحوم کو ثواب ملتا رہے گا۔ مرحوم کے لئے یہ کتاب صدقہ جاریہ ہے۔مولانا محمد صفدر، مولانا محمد اجمل دونوں انگریزی سے بقدر ضرورت شناسائی رکھتے تھے۔ جہاں ضرورت پیش آتی مزید رہنمائی عزیز مکرم مولانا حافظ محمد انس سے لیتے تھے۔ اب جونہی ترجمہ کی نقل کا کام مکمل ہو جاتا وہ حصہ فقیر کے سپرد کر دیتے۔ فقیر ان کے حوالہ جات پر کام کرنا شروع کر دیتا۔ جن جلدوں پر کام مکمل ہو جاتا وہ کمپوزنگ کے لئے دے دی جاتیں۔ کچھ جلدیں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کے جانشین حضرت مولانا محمد یحییٰ لدھیانوی کو بھجوائی گئیں کہ وہ انگلش کی پروف ریڈنگ، ترجمہ کی چیکنگ اور سرخیاں لگادیں۔ آپ نے یہ کام جناب مکرم اطہر عظیم صاحب کو دیا۔ انہوں نے شروع کیا۔ جتنا کیا خوب کیا۔ لیکن ان کی دفتری اپنی مصروفیات کراچی کے حالات کا مدوجزر، پھر اچانک ان کی صحت بگڑ گئی۔ ادھر فقیر کی بے قراری جو کام جتنا جس حالت میں تھا، منگوا لیا۔ اردو کے پروف خود پڑھے۔ انگریزی کے پروف پڑھنے کے لئے عزیز مکرم مولانا محمد انس نے سرتوڑ کوشش کی۔ مولانا محمد صفدر ان کے ساتھ رہے، وہ مرحلہ مکمل ہوا۔
۳… ملتان میں کمپوزنگ جناب برادر عدنان سنپال نے کی ان کی معاونت مخدوم زادہ حافظ یوسف ہارون نے کی۔ کچھ کام حضرت مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ نے کراچی سے کرایا۔ بہت سی فائلیں ملتان وکراچی کی کمپوز شدہ ان کی پروف ریڈنگ اور سرخیاں قائم کرنے کا کام مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ نے سرانجام دیا اور بہت محنت فرمائی۔ اس کراچی کے کام کے انگلش حصہ کی پروف ریڈنگ عزیز مکرم مولانا حافظ محمد انس نے کی۔ غلطیاں جناب برادر عدنان سنپال نے لگائیں ۔
۴… پورے اکیس حصص میں بعض مکمل، بعض ناقص حصے ایسے تھے جن کا انگلش سے اردو میں ترجمہ کا کام باقی تھا۔ وہ جناب برادر عبدالرؤف صاحب کے ذریعہ جناب راؤ ارشد سراج الدین لاہور نے کیا اور دن رات ایک کر کے کیا۔ وہ حصہ اتنا جامع ترجمہ ہے کہ بہت ہی خوشیوں کا سماں باندھے ہوئے ہے۔ محنت ان دوستوں کی۔ دعا حضرت صاحبزادہ خلیل احمد سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ کی، کہ کام ہوا اور خوب ہوا۔ کچھ حصص کا ترجمہ حضرت مولانا عزیزالرحمن ثانی کی توجہ سے مولانا غضنفر عزیز پروفیسر ہیں۔ انہوں نے کر کے یا کراکے دیا۔
غرض جناب کے۔ایم سلیم راولپنڈی، جناب راؤ ارشد سراج الدین لاہور، جناب مولانا غضنفر عزیز کی محنتوں سے ترجمہ کا کام ہوگیا۔ حکومت کے شائع شدہ نسخہ میں انگلش کا حصہ بغیر ترجمہ کے ہے۔ ہمارے اس مطبوعہ جدید ایڈیشن میں انگلش متن کے ساتھ، اس کا اردو ترجمہ بھی ہے۔ گویا یہ اس جدید ایڈیشن کی وہ خوبی ہے جس نے اس کتاب سے استفادہ کو ہر اردو پڑھے لکھے دوست کے مطالعہ کے قابل بنادیا ہے۔ البتہ ترجمہ کو ہم نے بین القوسین (ان بریکٹ) کر دیا ہے تاکہ حکومتی ایڈیشن کا امتیاز واضح رہے۔
۵… اپریل ۲۰۱۳ء کے اوائل میں قریباً کمپوزنگ کا کام اور ترجمہ مکمل ہوگئے تھے۔ فقیر نے حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب جالندھری دامت برکاتہم سے اجازت لے کر ڈیرہ غازیخان کے مبلغ حضرت مولانا محمد اقبال صاحب کو اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ دن رات، سفر وحضر میں پروف ریڈنگ کا کام ہم کرتے رہے۔ بس ان دنوں مسودہ تصحیح کرتے کرتے نیند آتی تھی اور جاگتے ہی پھر کام پر جت جاتے تھے۔ اوّل سے آخر تک تمام پروف پڑھے۔ سرخیاں جہاں ضرورت تھی قائم کیں۔ پھر پورے مسودہ کے انگلش حصہ کی دوبارہ عزیز مکرم حافظ محمد انس حفظہ اﷲ تعالیٰ نے پروف ریڈنگ کی۔ اب برادر جناب عبدالرؤف صاحب کا اصرار تھا کہ تمام مسودہ کا انگریزی حصہ اور ترجمہ جناب راؤ ارشد سراج الدین کی نظر سے گذرنا چاہئے۔ یہ فقیر کے دل کی آواز تھی۔ ۲۸؍اپریل ۲۰۱۳ء کی صبح مسودہ راؤ ارشد سراج الدین صاحب کے سپرد کیا کہ وہ نظر ثانی کریں اور فقیر حجاز مقدس اور ختم نبوت کانفرنس برمنگھم کے سفر پر روانہ ہوگیا۔ روانہ ہوتے وقت فقیر کے اندر کی حالت یہ تھی کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہورہا تھا کہ مجھے حجاز مقدس کے سفر کی خوشی زیادہ تھی یا اس کتاب کے کام رکنے کا غم زیادہ تھا۔ کام رکنے کا معنی یہ ہے کہ اگر فقیر پاکستان ہوتا تو محترم راؤ ارشد سراج الدین صاحب جتنا مکمل کرتے جاتے فقیر اس کی غلطیوں کی تصحیح کے بعد فائنل کرتا جاتا۔ مہینہ بھر تو یوں گذر گیا۔ پھر چناب نگر کورس کی مصروفیت، یوں دو ماہ گذر گئے۔
محترم راؤ صاحب جتنا مکمل کرتے جاتے وہ برادر عدنان سنپال غلطیاں لگا کر مکمل کرتے جاتے۔ دن رات سفر جاری رہا۔ ۱۰؍رمضان المبارک کو کراچی کے سفر سے ملتان حاضر ہوا تو تمام جلدوں کی پروف ریڈنگ، غلطیوں کی تصحیح وغیرہ کا کام ایک دو دن میں مکمل ہوگیا۔
۶… حکومت کے شائع کردہ نسخہ میں پہلی سطر سے سوال وجواب شروع ہوا۔ پھر تقاریر وتجاویز، چل سو چل ہزارہا صفحات پر پھیلا ہوا مسودہ ۲۱حصوں پر مشتمل۔ اوّل سے آخر تک کہیں نہیں معلوم تھا کہ کون سی بات کہاں ہے، ضرورت تھی کہ اس مسودہ کی سرخیاں لگائی جائیں۔ عنوانات قائم کئے جائیں تاکہ استفادہ مزید آسان ہو جائے۔
۷… قومی اسمبلی کے ممبر حضرات کو قادیانیت کے مباحثہ سے پہلی بار پالا پڑا۔ قادیانی ولاہوری گروپ کے سربراہ قادیانیت کی چالبازیوں کے امام اور فن چکر بازی میں مرزاقادیانی کا مکمل پرتو لئے ہوئے تھے۔ بہت سارے مقامات پر حوالہ جات میں ایسا چکر ڈال دیتے کہ سامنے والا جو مکمل آگاہی نہیں رکھتا وہ ایک بار چونک اٹھے کہ کیا ہوگیا۔ مثلاً سیرۃ الابدال کا حوالہ پیش ہوا کہ ص۱۹۳ پر عبارت ہے۔ مرزا ناصر نے سر پر آسمان اٹھالیا کہ ۱۶صفحہ کی کتاب ہے۔ ص۱۹۳ کہاں سے آگیا۔ اتنی بڑی غلط بیانی، یوں غلط بیانی سے قادیانیت کو بدنام کیا جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ! اب حوالہ نہ اٹارنی جنرل کو پڑھنے ہی دیا گیا نہ وہ کارروائی میں پیش ہوا۔ نہ مرزا ناصر نے حوالہ کا ذکر کیا کہ کیا حوالہ ہے۔ اتنا شور کیا کہ بات ۱۶اور ۱۹۳صفحہ کے شورمیں دب گئی۔ اب حوالہ پیش ہی نہیں ہوا۔ کون سا حوالہ تھا۔ کیا فرق لگا۔ کچھ اشارہ بھی ہوتا تو فقیر حوالہ تلاش کر کے لاتا اور معاملہ قارئین پر صاف ہوتا۔ وہ تو نہ ہوا۔ لیکن فقیر عرض کرتا ہے کہ مثلاً تجلیات کے ص۴ پر عبارت ہے: ’’اﷲ تعالیٰ نے مجھے چاند قرار دیا اور خود کو سورج قرار دیا۔‘‘ اب قادیانیوں نے کئی کتابوں کو یکجا کر کے شائع کرنا شروع کیا اور اس سلسلہ اشاعت کا نام روحانی خزائن رکھا۔ اس کی جلد۲۰ کے صفحہ۳۹۷ پر یہ عبارت ہے۔ اسی صفحہ کی پیشانی پر تجلیات الٰہیہ بھی لکھا ہے۔ صفحہ۳۹۷ بھی لکھا ہے۔ صفحہ کے بغل میں سائیڈ پر ۴ لکھا ہے۔ اب ایک صاحب صفحہ کی پیشانی کا صفحہ۳۹۷ دیکھ کر کہہ دے کہ تجلیات الٰہیہ ص۳۹۷۔ تو مرزائی عیار کہیں گے کہ کتاب ۲۰صفحات کی ہے۔ ۳۹۷ کدھر سے آگئے، ناواقف تو ایک دم پریشان ہوجائے گا اور یہی کاریگری مرزاناصر کرتا رہا۔
دوسری مثال ایک غلطی کا ازالہ مرزاقادیانی کا رسالہ ۶ورقی ہے۔ لیکن خزائن جلد۱۸ کے ص۲۰۸ سے ۲۱۶ پر یہ شامل اشاعت کیا ہے۔ ہر صفحہ کی پیشانی پر ایک غلطی کا ازالہ بھی درج ہے۔ صفحات ۲۰۸سے۲۱۶ تک بھی درج ہیں۔ اب پہلی بار جو مرزا کی کتب کو دیکھے، وہ ایک غلطی کا ازالہ ص۲۰۸ کہہ دے تو قادیانی عیار قیادت کو دھوکہ دہی کے لئے موقعہ مل جائے گا کہ چھ ورقی رسالہ کے صفحات ۲۰۸ کیسے؟ یہ جھوٹ ہے۔ یہ الزام ہے۔ ایک رٹی رٹائی گردان دہرا دیں گے۔ سننے والے، پڑھنے والے حیران ہو جائیں گے۔ حالانکہ جس نے حوالہ دیا وہ بھی صحیح ہے کہ جو لکھا دیکھا، وہی کہہ دیا۔ یہ تو قادیانی دجل ہے کہ ص۲ کو ص۲۰۸ پر پہنچا دیا۔ تو حوالہ جات میں جگہ جگہ قادیانی قیادت نے یہی عیاری کی۔ اب قادیانیوں نے اس دھوکہ دہی کا شاہکار کتاب ’’خصوصی کمیٹی میں کیا گزری‘‘ شائع کی جو مرزاسلطان احمد کی مرتب کردہ ہے۔ یہ کتاب فقیر کے سامنے ہے۔ کچھ حصہ دیکھا بھی مگر فقیر اس کو قابل جواب نہیں سمجھتا کہ قادیانی ہمیں الجھانا چاہتے ہیں۔ یہ ہوا تھا، یہ ہوا تھا۔ اب اس بحث کی ضرورت نہیں۔ جب مکمل کارروائی چھپ کر آگئی ہے، اسے عام کرو ہر آدمی خود پڑھ کر فیصلہ کرے کہ کون جیتا کون ہارا؟ چنانچہ قادیانی الجھنوں میں پڑنے کی بجائے ہم نے یہی راستہ اختیار کیا کہ مکمل کارروائی کو شائع کر دیا جائے۔ جو پیش خدمت ہے۔ انہی امور کے لئے بعض بعض مقامات پر مختصر حواشی (فٹ نوٹ) لکھنے پڑے جو اس ایڈیشن کا امتیازی وصف ہے۔
۸… تین دن برادر عزیز جناب حافظ محمد یوسف ہارون صاحب اور فقیر نے حواشی اور سرخیاں کمپیوٹر پر پڑھیں۔ یوں آج ۲۵؍جولائی ۲۰۱۳ء ۱۵؍رمضان ۱۴۳۳ھ کو اس کام سے فارغ ہوگئے۔ اب برادر عدنان وبرادر ہارون اس کتاب کی سیٹنگ کر رہے ہیں اور فقیر یہ سطریں لکھ رہا ہے۔ فلحمد لللّٰہ تعالیٰ اوّلاً وآخراً! یہاں پر اس اعتراف کے بغیر چارہ نہیں کہ مدرسہ ختم نبوت مسلم کالونی چناب نگر کے صدرمدرس مولانا غلام رسول دین پوری نے اس کتاب کے لئے فقیر راقم سے بھی زیادہ محنت کی۔ حق تعالیٰ سب کو جزائے خیر دیں۔
۱… حکومت کے شائع کردہ ایڈیشن میں انگلش کا ترجمہ نہیں۔ لیکن اس ایڈیشن میں انگلش کا جگہ جگہ ترجمہ بین القوسین موجود پائیں گے۔
۲… اس ایڈیشن میں قادیانی،لاہوری جرح پر بعض ناگزیر حواشی موجود پائیں گے۔
۳… حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ نے دو دن حکومت اور اپوزیشن دونوں کی طرف سے ’’مؤقف ملت اسلامیہ‘‘ نامی کتاب پڑھی۔ اس کا ضمیمہ نمبر۳ فیصلہ مقدمہ جیمس آباد مطبوعہ حکومتی کارروائی میں اشاعت کے دوران خلط ہوگیا۔ فیصلہ کا ص۲۲ پہلے کمپوز کر دیا۔ پھر ص۲۱۔ اس سے مفہوم ہی بدل گیا۔ ہم نے اسے صحیح کمپوز کر دیا۔ اس سے حکومتی ایڈیشن کی کمپوزنگ کی غلطی دور ہوگئی۔
۴… حکومتی شائع شدہ کارروائی میں جہاں عربی تھی وہ… عربی… کمپوز کر کے چھوڑ دی۔ اگر کتاب کا حوالہ تھا تو ہم نے وہ مکمل عربی عبارت نقل کر دی جس سے پہلے ایڈیشن کی نسبت یہ ایڈیشن جامع ہوگیا۔ اگر حوالہ ہی نہ تھا تو وہ جگہ مجبوراً ایسے گزارنا پڑی۔
۵… حکومت کے شائع کردہ ایڈیشن اور ہمارے اس ایڈیشن کے کمپوزنگ میں صفحات کا فرق آگیا۔ چنانچہ اصل حکومتی ایڈیشن کے صفحات کو اس جدید ایڈیشن کے صفحات کے درمیان (بین السطور) میں باریک کر کے ہم نے لکھ دیا۔ اس ایڈیشن کے صفحات کو سامنے رکھ کر حکومتی ایڈیشن سے اس ایڈیشن کا آسانی سے تقابل کیا جاسکتا ہے۔ انشاء اﷲ کوئی فرق نہ پائیں گے۔ گویا اس جدید ایڈیشن کے صفحات پہلے ایڈیشن کے صفحات کو بھی واضح کرتے ہیں۔ فلحمد للّٰہ! ہاں البتہ یاد رہے کہ حکومتی ایڈیشن کی جلد۱۶، ص۲۶۱۷ پر ختم ہوئی۔ جلد۱۷، چارصفحے ٹائٹل کے بعد ص۲۶۲۲ سے شروع ہونی چاہئے تھی مگر وہ ص۲۶۹۹ سے شروع ہوئی۔ گویا ستتر صفحات چھوڑ کر اگلا نمبر لگادیا۔ یہ حکومتی ایڈیشن میں صفحات لگانے میں سرکاری اہلکاروں سے غلطی ہوئی۔ درمیان میں مسودہ غائب نہیں ہے۔ ہر لحاظ سے حکومتی ایڈیشن مکمل ہے۔ ہم نے بھی ہر صفحہ پر بین السطور حکومتی ایڈیشن کے جو صفحات لگائے ان میں اسی غلطی کو رہنے دیا۔ تاکہ حکومتی ایڈیشن اور اس ایڈیشن کا تقابل کیا جائے تو ابہام پیدا نہ ہو۔
۶… حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کا مرتب کردہ محضرنامہ میں مرزاقادیانی نے اپنی ’’مقدس نبوت‘‘ کے قلم سے مخالفین کو جو گالیاں دیں وہ درج تھیں۔ مولانا نے قادیانیوں کی جن جن کتابوں سے جمع کردہ قادیانی مغلظات کی فہرست دی، ہم نے ہر ایک گالی کے آگے قادیانی کتابوں کے حوالے لگادئیے۔ آپ پڑھیں گے تو حیران رہ جائیں گے کہ الف سے یاء تک کوئی ایسا لفظ نہیں جس میں مرزاقادیانی نے گالی نہ دی ہو۔ یہ سبّاب اعظم کا ’’سب نامہ‘‘ باحوالہ اس ایڈیشن میں موجود ہے۔ پڑھیں پھر سوچیں کہ مرزاقادیانی لکھنؤ کی بھٹیا رنیوں سے بھی گالیوں میں نمبر لے گئے یا نہیں۔ یہ فیصلہ قارئین کریں گے۔
۷… حکومتی ایڈیشن کو سامنے رکھ کر جہاں کہیں ترجمہ سرخیوں، حواشی اور حوالہ جات پر ہم نے کام کیا ہے۔ ان سب کو بین القوسین کر دیا ہے۔ تاکہ اصل ایڈیشن سے یہ چیزیں ممتاز رہیں۔ متن میں ایک لفظ کی بھی تبدیلی نہیں کی۔ یوں، یہ ایک ایسا ایڈیشن ہے۔ جو پہلے سے باالکل جدا بھی ہے اور ایک حرف کا بھی فرق نہیں۔
بایں ہمہ انسان خطاء کا پتلا ہے۔ کہیں غیر ارادی طور پر کوئی سہو ہوا تو اعتراف قصور کے ساتھ گزارش ہے کہ اس کی اطلاع کر کے قارئین ممنون فرمائیں گے تاکہ تصحیح کی جاسکے۔
۸… حکومت کے شائع کردہ ایڈیشن کے ۲۱حصے تھے جو ہم نے اس ایڈیشن کی پانچ جلدوں میں سمودئیے۔ تفصیل یہ ہے۔
حکومتی ایڈیشن کا حصہ ۱،۲،۳ مکمل… اس ایڈیشن کی جلد۱ میں ہے۔
حکومتی ایڈیشن کا حصہ ۴،۵،۶،۷،۸ مکمل… اس ایڈیشن کی جلد۲ میں ہے۔
حکومتی ایڈیشن کا حصہ ۹،۱۰،۱۱،۱۲ مکمل… اس ایڈیشن کی جلد۳ میں ہے۔
حکومتی ایڈیشن کا حصہ ۱۳،۱۴،۱۵ مکمل… اس ایڈیشن کی جلد۴ میں ہے۔
حکومتی ایڈیشن کا حصہ ۱۶،۱۷،۱۸،۱۹،۲۰،۲۱ مکمل… اس ایڈیشن کی جلد۵ میں ہے۔
۱… حکومتی سطح پر اس کارروائی کے اوپن ہوتے ہی قادیانیوں نے ایک کتاب شائع کی۔ ’’خصوصی کمیٹی میں کیا گزری‘‘ کتاب کیا ہے۔ تمسخر، بدکلامی، پھبتیوں کا مجموعہ مثلاً (۱)’’عقل سلیم سے عاری‘‘ (۲)’’پرلے درجہ کی بے عقلی‘‘ (۳)’’پوری اسمبلی اس معاملہ میں ناکام ہوئی‘‘ (۴)’’ان… کی قوت فیصلہ کو مفلوج کر دیا تھا‘‘ (۵)’’مگر عقل وشعور اس کمیٹی میں (جملہ ممبران قومی اسمبلی) ایک جنس نایاب کی حیثیت رکھتی تھی‘‘ (۶)’’جو کچھ کارروائی کے نام پر ہوا۔ وہ محض ایک ڈھونگ تھا‘‘ یہ کلمات ممبران قومی اسمبلی کے لئے استعمال کئے گئے۔ یہ چھ جملے صرف نمونہ کے طور پر پیش کئے ہیں۔ اس کتاب کو پڑھ کر لگتا ہے کہ حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی کی کمیٹی کارروائی کیا شائع ہوئی گویا قادیانیت کے قدموں کے نیچے آگ کا تندور دہکا دیا گیا کہ وہ اب ننگی گالیوں اور بدزبانیوں پر اتر آئے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوسکتا کہ اس وقت ان کے دل ودماغ کی کیا حالت بد ہے جو انہیں کسی کروٹ چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔
قادیانیوں نے زیادہ تر حوالہ جات پر دھوکہ دہی کی ہے۔ راقم نے جگہ جگہ بین القوسین (ان بریکٹ) اصل قادیانی کتب کے موجودہ ایڈیشن کے حوالہ جات لگا دئیے ہیں۔ قادیانیوں نے اس کتاب میں کیا کہا۔ اس کا نوٹس ہی نہیں لیا۔ حوالہ جات صحیح درج ہونے سے مختلف ایڈیشنوں کے صفحات سے وہ جو دجل کی بولی بولتے تھے وہ از خود بند ہوگئی۔ البتہ حواشی میں جو آب آں غزل میں اس قادیانی کتاب کے مصنف مرزاسلطان کو منہ لگائے بغیر فقیر نے مرزاناصر کو کھری کھری سنانے میں کسی بخل سے کام نہیں لیا۔ قادیانی مصنف پوری اسمبلی کو عقل سے عاری، مفلوج، پرلے درجے کے بے عقل کہے اور ہم جواب میں مرزاناصر کو کچھ سنادیں تو قادیانیوں کو ہے یہ گنبد کی صداء جیسے کہو ویسے سنو، کا مراقبہ کر لینا چاہئے۔
۲… پاکستان پیپلزپارٹی کا ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں قادیانی جماعت نے ساتھ دیا۔ سپورٹ کی، الیکشن مہم چلائی، مالی، جانی امدادکی۔ اس کتاب ’’خصوصی کمیٹی کیا گزری‘‘ مرزاناصر احمد کا یہ قول نقل کیا۔ ’’ہمیں خداتعالیٰ کا یہ منشاء معلوم ہوتا تھا کہ کسی ایک پارٹی کو مستحکم بنایا جائے۔ چنانچہ ہم نے اپنی عقل سے… پاکستان پیپلزپارٹی کو… ووٹ دینا ملکی مفاد کے عین مطابق سمجھا۔‘‘
قادیانی جماعت نے خدائی اشارہ کو جو اپنی عقل سے سمجھا، وہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حمایت کی شکل میں ظہور میں آیا۔ اب قادیانی عوام غور فرمائیں۔ خدائی اشارہ میں گڑبڑ ہوگئی یا مرزاناصر کی عقل نے مار کھائی کہ جس جماعت کے متعلق خدائی اشارہ سمجھا تھا کہ اس کا ساتھ دو، اسی جماعت نے ان کو غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا۔ یہ خدائی اشارہ تھا کہ جس کا نتیجہ غیرمسلم ہونے کی شکل میں بھگتنا پڑا؟
۳… اس قادیانی کتاب میں اس پر بڑا زور دیا گیا ہے کہ کسی اسمبلی کو کسی کے مذہب کے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو ہمارا صرف اتنا سوال ہے کہ آپ درخواست دے کر کیوں اسمبلی کی کارروائی کا حصہ بنے۔ اگر یہ بات بنیادی طور پر غلط تھی۔ تو تمہیں درخواست کر کے اس غلط کارروائی کا حصہ نہیں بننا چاہئے تھا۔ درخواست دے کر کارروائی کا حصہ بنے جب دیکھا کہ بات نہیں بنتی نظر آتی تو واویلا شروع کر دیا کہ اسمبلی کو اس فیصلہ کا حق نہیں۔ پھر جرح کے دوران مان بھی لیا کہ کون مسلمان ہے کون نہیں۔ اس پر متعلقہ اتھارٹی کو فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔
قارئین کرام!
۱… اسمبلی کی کارروائی کے دوران میں ایک ممبر اسمبلی ایسا نہیں تھا جس نے ایک دفعہ بھی یہ کہا ہو کہ قادیانی مسلم ہیں ان کو غیرمسلم قرار نہ دیں۔ بلکہ تمام ممبران اسمبلی کا اس امر پر اتفاق تھا کہ قادیانی غیرمسلم ہیں۔ آزاد خیال، آزادانہ ماحول میں بحث سننے کے بعد تمام ممبران قومی اسمبلی متفق اللسان تھے کہ قادیانی کافر ہیں۔ ان کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مرزاناصر پر جو سوالات ہوئے مرزاناصر نے جوابات میں جو جو گوہر فشانی کی اس کا نتیجہ پوری قادیانیت کے سامنے ہے۔
آپ کتاب پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ کس طرح مرزاناصر لاجواب ہوا، مبہوت ہوا، ششدر رہ گیا، جواب نہ دے سکا۔ چیئرمین نے رولنگ دی کہ گواہ جواب دینے سے کترا رہا ہے۔ انہیں کہنا پڑا کہ سوال کا جواب نہیں آیا۔ مرزاناصر کو کئی مقامات پر کہنا پڑا کہ میں غلط سمجھا تھا۔ وہ میری غلطی تھی۔ میں معافی چاہتا ہوں۔ یہ منظر دیکھ کر کتاب پڑھتے پڑھتے کئی مقامات پر میری طبیعت میں وجد کی کیفیت پیدا ہوئی۔ قارئین بھی ایسے ہی محسوس کریں گے۔ میں نے یہ چیزیں ارتجالاً عرض تو کر دیں مگر عمداً حوالہ نہیں دیا کہ آپ خود پڑھیں اور فقیر کی طرح حق کی فتح اور باطل کی ذلت آمیز شکست کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور پھر اﷲتعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجالائیں کہ کفر ہار گیا اور اسلام جیت گیا۔ جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا!
۲… قادیانی فرماتے تھے کہ اسمبلی کی کارروائی چھپ جائے تو آدھا پاکستان قادیانی بن جائے۔ ہمارے ایک وفد نے اب حال ہی میں قومی اسمبلی کے اس زمانہ کے سپیکر جناب فاروق علی خان سے انٹرویو لیا۔ انہوں نے فرمایا کہ اب قادیانیوں سے کہیں ناں کہ وہ کارروائی چھپ گئی ہے، آدھے ملک کو کیوں قادیانی نہیں بناتے۔ بناؤ ناں! اب کیا رکاوٹ ہے؟ لیکن اس موقعہ پر فقیر درخواست گزار ہے کہ جو انصاف پسند قادیانی اسے تعصب وبغض سے خالی ہو کر پڑھے، وہ ضرور قادیانیت پرچار حرف ڈال کر حق کو قبول کر لے گا۔ پڑھیئے کہ پڑھنے کی چیز ہے۔
۳… اس کارروائی میں آپ پڑھیں گے کہ جب ایک ممبر نے مرزاقادیانی کے متعلق کہا کہ مرزاصاحب نے فلاں جگہ یوں لکھا ہے تو دوسرا ممبر کھڑا ہوگیا، اسمبلی کی کارروائی کے دوران، اسمبلی ہال میں کہ ’’مرزاقادیانی… الحرام تھا‘‘ یہ قومی اسمبلی کے ممبر جناب خواجہ محمد جمال کوریجہ کے الفاظ تھے۔ اتنی بڑی گالی لڑھکائی جو دوران مطالعہ آپ پڑھیں گے۔ اس کارروائی کا یہ حصہ ہے۔ ریکارڈ پر ہے میرے نزدیک مرزاناصر کی جرح کے جوابات کا یہ اثر اسمبلی کے ممبران پر پڑا تھا جن کے متعلق کہا جاتا تھا کہ اس کارروائی کو پڑھ کر آدھا ملک قادیانی ہو جائے گا۔ میرا مؤقف یہ ہے کہ اس کارروائی کو پڑھنے کے بعد خود قادیانی قیادت اپنے عوام کے سامنے سے منہ چھپائے گی۔
۴… قادیانی قیادت اب بحث بند کرے۔ قیاس کے گھوڑے نہ دوڑائے۔ فریب کے چکر نہ دے۔ کتاب کو ہم نے شائع کر دیا ہے۔ وہ صرف اپنے عوام سے کہے کہ اس کتاب کا مکمل مطالعہ کریں۔ اپنے نصاب کا حصہ سمجھیں۔ یہی اپیل میں اپنے مسلمان بھائیوں سے کرتا ہوں۔ انشاء اﷲ! جو بھی مطالعہ کرے گا، اس کے سامنے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ مطالعہ شرط ہے۔
قارئین کرام! اتنے عرصہ کے بعد یہ کارروائی سامنے آئی ہے۔ جو سرکاری رپورٹ ہے۔ اس کو پڑھیں کہ میں اب آپ کے اور اس کتاب کے مطالعہ کے درمیان حائل نہیں رہنا چاہتا۔ پڑھیں اور اپنے بزرگوںکی محنت کی داد دیں کہ کس طرح منبر ومحراب کی صداء کو حق تعالیٰ نے قومی اسمبلی میں بلند کرنے کا سامان پیدا کیا۔ فقیر کے خیال میں یہ سب ورفعنالک ذکرک کا مشاہدہ ہے۔ تاکہ حق الیقین کا درجہ حاصل ہو۔ حق کو اﷲتعالیٰ نے سرخرو کیا۔ وتعز من تشائ! قادیانیت پسپا ہوئی۔ وتذل من تشائ! اور اسی منظر کو آپ اس کتاب میں دیکھیں گے۔ حرف آخر اس کتاب کی تیاری کے لئے جس جس دوست نے جتنا جتنا حصہ لیا، وہ سب مبارک باد کے مستحق ہیں۔ حق تعالیٰ شانہ انہیں اجر عظیم نصیب فرمائیں۔ فقیر نے مرحلہ بمرحلہ سب کا تذکرہ کر دیا ہے۔ اگر کسی دوست کا تذکرہ ہونا رہ گیا ہو تو اﷲتعالیٰ خطاؤں کو معاف فرمانے والے ہیں۔ مجھے شکریہ ادا کرنا ہے اپنے مخدوم ومطاع حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی مدظلہ، حضرت مولانا عزیزالرحمن جالندھری مدظلہ، حضرت مولانا مفتی خالد محمود کراچی، حضرت مولانا مفتی شہاب الدین پوپلزئی، حضرت مولانا محمد اعجاز مصطفی کا کہ وہ گاہے بگاہے اس کتاب کی بابت پوچھتے رہے اور یوں فقیر کی ڈھارس بندھواتے رہے۔
قومی اسمبلی میں پہلا دن
Monday, August 5. 1974.
(بروز پیر، ۵؍اگست ۱۹۷۴ئ) ----------
The Special Committee of the Whole House of the National Assembly of Pakistan met in Camera in the Assembly Chamber, (State Bank Building), Islamabad, at ten of the clock, in the morning. Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.
(پاکستان کی قومی اسمبلی کے مکمل ایوان کی خصوصی کمیٹی کا بند کمرہ کا اجلاس اسمبلی کے چیمبر (اسٹیٹ بینک بلڈنگ) اسلام آباد میں صبح دس بجے منعقد ہوا۔ اسپیکر نیشنل اسمبلی (صاحبزادہ فاروق علی) بحیثیت چیئرمین تھے)
---------- (Recitation from the Holy Quran)
(تلاوت قرآن شریف)
2PROCEDURE OF CROSS EXAMINATION
(جرح کا طریقۂ کار)
Mr. Chairman: I think we will start just with in 5 minutes. The Attorney General is busy in my chamber discussing the question with Maulana Zafar Ahmad Ansari and he will be here with in two or three minutes.
(جناب چیئرمین: میرے خیال میں ہم کارروائی بس پانچ منٹ کے اندر شروع کریں۔ (کیونکہ) اٹارنی جنرل میرے چیمبر میں مولانا ظفر احمد انصاری کے ساتھ سوالات کے بارے میں مصروف گفتگو ہیں اور وہ دو یا تین منٹ میں یہاں پہنچ جائیں گے)
ہاں! بلوالیں ان کو۔ وہ ہاؤس میں ہی آ جائیں۔ یہاں ڈسکس کر لیں۔ نہیں، ابھی نہیں۔ ڈیلی گیشن کو نیچے بلوالیں۔
And again I will request the honourable members that in the presence of the delegation and in the presence of the witnesses, no controversial issues should be raised. The Attorney General may be allowed to put the questions, and if any honourable member is not satisfied with the question or he thinks that the answer is evasive, he can send a chit to me or to the Attorney General and if something of a very important nature comes to the notice of any honourable member, he can make a request and we can adjourn the House for five or ten minutes. We can ask the witness to wait outside and we can discuss the matter among ourselve.
(میں ممبران گرامی سے ایک مرتبہ پھر درخواست کروں گا کہ وفد اور گواہان کی موجودگی میں کوئی متنازعہ فیہ معاملہ نہ اٹھایا جائے۔ (بس) اٹارنی جنرل کو سوالات کرنے کی اجازت ہوگی اور اگر کوئی ممبر اس سوال سے (جو کیا جائے گا) مطمئن نہ ہو یا وہ سمجھے کہ جواب میں ٹالنے والی بات کی گئی ہے تو وہ (ممبر صاحب) مجھے یا اٹارنی جنرل کو رقعہ بھیجیں اور اگر کسی معزز ممبر کے علم میں کوئی ایسی بات آتی ہے جو بہت اہم نوعیت کی ہے تو (پھر) وہ (ممبر) درخواست پیش کرسکتا ہے اور ہم پانچ یا دس منٹ کے لئے اجلاس کی کارروائی روک سکتے ہیں اور (پھر) ہم گواہان سے کہیں گے کہ وہ باہر انتظار کریں اور (اس دوران) ہم آپس میں اس معاملہ پر غوروخوض کریں گے)
جناب محمد حنیف خان: موقع پر کسی کے ذہن میں کوئی نیا سوال آئے، تو اس کے متعلق کیا پروسیجر (طریقہ کار) ہے؟
جناب چیئرمین: اس کے متعلق……
جناب محمد حنیف خان: اٹارنی جنرل صاحب کو لکھوادیں؟
جناب چیئرمین: آپ نوٹ کر کے اٹارنی جنرل صاحب کو دے دیں اور اس کے بعد اٹارنی جنرل صاحب نے یہ کہا تھا پرسوں اسٹیرنگ کمیٹی میں بھی کہ As a Lawyer (بحیثیت ایک وکیل کے) جو Difficulties (مشکلات) ہوتی ہیں، جو Method (طریقۂ کار) ہوتا ہے، ہر Lawyer (وکیل) کا اپنا Method (طریقۂ کار) ہوتا ہے of putting the questions and getting the answers تو وہ کہتے ہیں کہ:
for two hours or for one day, let him be allowed to have a free hand in cross-examination, and if the honourable members feel that something is missing or lacking, they can guide him and instruct him. Mr. Attorney General, have you anything to say? 3Have you anything to add? اچھا Should we call the witness? One thing also. I will request that during the cross-examination the quorum may be kept 10 from this side and 30 from that side. The honourable members can come and go but the quorum may be kept intact.
(دو گھنٹے یا ایک دن کے لئے تو ان کو (اٹارنی جنرل) اجازت دیں کہ وہ جرح کرنے میں آزاد ہوں۔ لیکن اگر معزز ممبران محسوس کریں کہ کوئی بات رہ گئی ہے تو وہ اٹارنی جنرل کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔ کیا آپ کو اس بارے میں کچھ کہنا ہے؟ اچھا۔ کیا اب ہم گواہ کو بلا لیں۔ ایک بات اور، میں گزارش کروں گا کہ جرح کے دوران کورم پورا رکھا جائے، اس طرف سے دس ممبران ہوں اور اس طرف سے تیس۔ بے شک ممبران گرامی آتے جاتے رہیں۔ لیکن کورم برقرار رہے)
ہاں جی بلالیں۔
I will request the honourable members to be in their seats. Can come nearer, to the unoccupied seats according to their choice. If they want to sit where they are, it is up to them.
(میں معزز ممبران سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنی نشستوں پر بیٹھے رہیں۔ وہ اپنی پسند کے مطابق قریبی خالی نشستوں پر آکر بیٹھ سکتے ہیں۔ اگر وہ اپنی نشست پر بیٹھنا چاہتے ہوں تو یہ ان کی مرضی ہے)
(The delegation entered the Chamber)
(وفد ہال میں داخل ہوا)
OATH TAKING BY WITNESS OF
THE QADIANI GROUP
(قادیانی گروپ کے گواہ کا حلف لینا)
Mr. Chairman: Now we will start the proceedings. I will request the witness to take the oath.
(جناب چیئرمین: اب کارروائی شروع کی جاتی ہے۔ گواہ سے گزارش ہے کہ وہ حلف اٹھائیں)
مرزا ناصر احمد (گواہ، سربراہ جماعت احمدیہ ربوہ): میں خداتعالیٰ کو حاضر وناظر جان کر جو کہوں گا ایمان سے سچ کہوں گا۔
----------
METHOD OF RECORDING THE
CROSS-EXAMINATION
(جرح کو ریکارڈ کرنے کا طریقۂ کار)
Mr. Chairman: Yes, the Attorney General. For the reporters، for every question and answer there should be a separate sheet. Yes.
(جناب چیئرمین: جی! اٹارنی جنرل۔ سرکاری رپورٹروں کے لئے یہ ہے کہ ہر سوال اور جواب کے لئے وہ علیحدہ صفحہ استعمال کریں۔جی!)
Rana Muhammad Hanif Khan: The proceedings are going to be lengthy. I think if the Attorney General can keep on sitting, that will be much better.
(رانا محمد حنیف خان: کارروائی بہت لمبی ہوگی۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اٹارنی جنرل اگر (دوران کارروائی) بیٹھے رہیں تو اچھا ہوگا)
Mr. Chairman: It is up to him.
(جناب چیئرمین: یہ ان پر منحصر ہے)
Rana Muhammad Hanif Khan: He might face some difficulty.(رانا محمد حنیف خان: انہیں کچھ مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے)
4Mr. Chairman: It is up to him. It is up to the Attorney General, because we allowed the witness even to make a statement while sitting.
(جناب چیئرمین: یہ ان پر منحصر ہے۔ یہ اٹارنی جنرل پر منحصر ہے کیونکہ ہم نے تو گواہ کو اجازت دے دی ہے کہ وہ بیٹھ کر اپنا بیان دے سکتا ہے)
Rana Muhammad Hanif Khan: That is why. It is up to him. (رانا محمد حنیف خان: یہی وجہ ہے کہ یہ ان پر منحصر ہے)
Mr. Chairman: It is up to him
(جناب چیئرمین: یہ ان پر منحصر ہے)
----------
CROSS-EXAMINATION OF THE QADIANI GROUP DELEGATION
(قادیانی جماعت کے وفد سے جرح)
Mr. Yahya Bakhtiar (Attorney General of Pakistan): Mirza Sahib, I would be asking you certain questions, but if you find that you don't want to answer any question or you cannot answer any question......
(جناب یحییٰ بختیار(اٹارنی جنرل پاکستان): مرزا صاحب! میں آپ سے چند سوال کروں گا۔ اگر آپ دیکھیں کہ (میرے) کسی سوال کا آپ جواب دینا نہیں چاہتے یا دے نہیں سکتے…)
Mr. Chairman: The Mike .....
(جناب چیئرمین: مائیک…)
Mr. Yahya Bakhtiar: I repeat .....
(جناب یحییٰ بختیار: میں دہراتا ہوں…)
Mr. Chairman: The mike is all right, but the ....
(جناب چیئرمین: مائیک ٹھیک ہے، لیکن…)
Mr. Yahya Bakhtiar: Will you .....
(جناب یحییٰ بختیار: کیا آپ…)
جناب چیئرمین: نہیں، آنریبل اٹارنی جنرل صاحب کا قد لمبا ہے۔
ایک رکن: ہاں جی۔
Mr. Yahya Bakhtiar: No, it's all right.
(جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ ٹھیک ہے)
Mr. Chairman: The member can use the earphone.
(جناب چیئرمین: ممبران Earphone (ایئرفون) استعمال کر سکتے ہیں)
Mr. Yahya Bakhtiar: I will be asking you certain questions. If you find that you cannot answer these questions or any one of them or you do not want to answer that question, you are not bound to do so. But you will appreciate that the Special Committee will draw such inference as it considers 5appropriate from your refusal to answer any particular question. That inference may be favourable to your cause or may be adverse. If you are not in a position to answer any question straightaway, You may ask the Committee for time; and if it so considers, it will give you time to answer the question.
Now, Sir, will you tell us who was the founder of the Ahmedia Movement?
(جناب یحییٰ بختیار: (میں کہہ رہا تھا کہ) میں آپ سے کچھ سوالات پوچھوں گا۔ اگر آپ دیکھیں کہ آپ ان سوالات کے جوابات نہیں دے سکتے یا کسی ایک سوال کا جواب نہیں دے سکتے یا نہیں دینا چاہتے تو (آپ کی خوشی ہے) آپ پر (جواب دینے کی) پابندی نہیں ہے۔ لیکن آپ یہ ضرور سمجھ لیں کہ خصوصی کمیٹی آپ کے جواب نہ دینے سے وہ نتائج اخذ کرنے کی مجاز ہو گی جو وہ مناسب سمجھے گی۔ وہ اخذ شدہ نتائج آپ کے کاز کے لئے سود مند بھی ہوسکتے ہیں یا اس کے برخلاف بھی۔ (ہاں) اگر آپ اس پوزیشن میں نہ ہوں کہ فوری طور پر جواب دے سکیں تو آپ کمیٹی سے وقت مانگ سکتے ہیں، اور اگر وہ مناسب سمجھے تو وہ آپ کو سوال کا جواب دینے کے لیے وقت دے گی۔
جناب! کیا اب آپ ہمیں بتائیں گے کہ احمدیہ تحریک کا بانی کون تھا؟)
مرزا ناصر احمد: حضرت مرزا غلام احمد صاحب۔
Mr. Yahya Bakhtiar: Will you please give us the brief account of his life? When I say brief account of his life, I mean when was he born? Where he was born? What was his education, the family background and the date of his death and place of his death?
(جناب یحییٰ بختیار: کیا آپ براہ کرم ان کی زندگی کا مختصر خاکہ ہمارے سامنے پیش کریں گے؟ جب میں کہتا ہوں کہ مختصر خاکہ تو اس سے میرا مطلب یہ ہے کہ کب وہ پیدا ہوئے؟ کہاں پیدا ہوئے؟ تعلیم کیا ہے؟ خاندان وغیرہ، کب اور کہاں انتقال ہوا؟)
مرزاناصر احمد: اس کے متعلق میں یہ درخواست کروں گا کہ مجھے وقت دیا جائے، میں کل لکھا ہوا آپ کی خدمت میں پیش کردوں گا۔
Mr. Yahya Bakhtiar: Thank you.
(جناب یحییٰ بختیار: شکریہ)
Mr. Yahya Bakhtiar: You are Mirza Ghulam Ahmad's grandson?
(جناب یحییٰ بختیار: کیا آپ مرزاغلام احمد کے پوتے ہیں؟)
مرزاناصر احمد: ہاں جی۔
Mr. Yahya Bakhtiar: His son's son?
(جناب یحییٰ بختیار: اس (مرزاقادیانی) کے بیٹے کا بیٹا؟)
Mirza Nasir Ahmad: His son's son.
(مرزاناصر احمد: جی، بیٹے کا بیٹا)
Mr. Yahya Bakhtiar: Will you please give us some brief account of your life, your education, your date of birth? Because the whole record is being prepared, that's why I am asking?
(جناب یحییٰ بختیار: کیا آپ اپنی مختصر سوانح حیات بتائیں گے؟ اپنی تعلیم؟ تاریخ پیدائش؟ چونکہ پورا ریکارڈ تیار کیا جارہا ہے، اس لئے میں پوچھ رہا ہوں)
مرزاناصر احمد: میں نے سنا ہے کہ میں سولہ نومبر ۱۹۰۹ء میں پیدا ہوا تھا اور …
6میاں گل اورنگزیب: جناب! آواز نہیں آرہی۔
جناب چیئرمین: تھوڑی سی Volume (آواز) آپ Increase کر (بڑھا) دیں۔ Not too much (بہت زیادہ نہیں) کہ شور ہو۔ Is it all right? (کیا اتنی صحیح ہے؟)