ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
جناب یحییٰ بختیار: یہ کہاں تک دُرست ہے کہ مرزا صاحب کے دو تین۔۔۔۔۔۔ دو لڑکے تھے جو ان پر بیعت نہیں لائے، احمدی نہیں ہوئے؟
جناب عبدالمنان عمر: پھر آگے فرمائیے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ دُرست ہے کہ تھے مرزا صاحب کے کوئی ایسے لڑکے؟
جناب عبدالمنان عمر: مرزا صاحب کے پانچ بیٹے تھے جن میں سے سب سے بڑے کا نام مرزا سلطان احمد، مرزا سلطان احمد، وہ اپنی وفات سے پہلے احمدی ہوچکے تھے۔
جناب یحییٰ بختیار: کوئی اور لڑکا جو احمدی نہیں تھا؟
جناب عبدالمنان عمر: جی، ایک تھا جو فضل احمد صاحب تھے۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ احمدی نہیں تھے؟
1627جناب عبدالمنان عمر: احمدی کا سوال نہیں ہے، بلکہ اُن کے اپنے باپ کے ساتھ اتنے خطرناک تعلقات۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: میں آپ سے ایک Simple (آسان) سوال پوچھتا ہوں، آپ کیوں بیچ میں اور باتیں لے آتے ہیں؟ وہ احمدی ہوئے یا نہیں ہوئے؟ جس وجہ سے نہیں ہوئے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: احمدی نہیں ہوئے، مگر جنازے کی میں نے عرض۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: میں جنازے پر بھی آجاتا ہوں۔ میں نے ساری تفصیل نوٹ کی ہے۔ ہم یہی کام کرتے رہے ہیں، اور کچھ نہیں کیا۔ اُن کی وفات پر مرزا صاحب نے جنازے میں شرکت کی؟
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں کی۔ مرزا صاحب نے یہ کہا کہ: ’’یہ میرا بڑا فرمانبردار بیٹا تھا‘‘؟
جناب عبدالمنان عمر: مگر ساتھ یہ کہا کہ اُس نے ایک دِین کے معاملے میں ایسے لوگوں کے ساتھ اِتحاد کیا تھا جو خداتعالیٰ کی منشاء کے خلاف تھا۔
جناب یحییٰ بختیار: اِتحاد کیا تھا؟
جناب عبدالمنان عمر: کہ ان کے خاندان میں، ایک مرزا صاحب کے خاندان میں پٹی کے ایک خاندان تھا وہ۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں کہ اُس نے کوئی فتویٰ دیا تھا مرزا صاحب کے خلاف؟
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، جناب! فتویٰ نہیں ہے۔ اُن کے تعلقات گھریلو جو ہیں…
1628جناب یحییٰ بختیار: بس جی، اور باتیں چھوڑ دیجئے۔ ہم بات کر رہے تھے فتویٰ کی۔ آپ نے کہا: اُنہوں نے فتویٰ دیا اس لئے اُن کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ میں نے کہا: اُن کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے، وہ لڑکا بڑا ہوا ہے، وہ بڑا فرمانبردار اور نیک لڑکا ہے، وہ احمدی نہیں ہوا، وہ مرتا ہے، اُس نے فتویٰ نہیں دیا، مرزا صاحب نے اُس کی نماز نہیں پڑھی۔
جناب عبدالمنان عمر: میں نے عرض کیا، جناب! وہ اس لئے نہیں کہ مرزا صاحب نے یہ کہا ہو۔ ایک لفظ مرزا صاحب کا یہ دِکھایا جائے کہ: ’’میں اس شخص کا اس لئے نمازِ جنازہ نہیں پڑھتا کہ اس نے مجھے نہیں مانا؟‘‘ ایک لفظ دِکھائیے سارے لٹریچر میں سے؟
جناب یحییٰ بختیار: اور وجہ کیا تھی؟
جناب عبدالمنان عمر: تعلقات کی خرابی۔
جناب یحییٰ بختیار: تعلقات؟ مُردے سے کیا تعلقات؟ اپنے بچے سے کیا تعلقات؟ انہوں نے کہا کہ یہ فرمانبردار ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: یہ اِعتراض ہوسکتا ہے۔ مگر اس کا تعلق اس سے نہیں ہے کہ وہ دِین کی وجہ سے یا اُن کے نہ ماننے کی وجہ سے وہ جنازہ نہیں پڑھا۔ ایسی کوئی مثال نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھیں، دیکھیں، صاحبزادہ صاحب! ایک Simple (آسان) بات ہے۔ ایک طرف سے مرزا صاحب کا یہ بیان ہمارے سامنے ہے جو کہتا ہے کہ: ’’یہ میرا بیٹا نیک تھا اور فرمانبردار تھا۔۔۔۔۔۔‘‘
جناب عبدالمنان عمر: میرا خیال ہے یہ لفظ ’’نیک‘‘ وہاں نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’فرمانبردار‘‘؟
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’فرمانبردار۔‘‘ فرمانبردار نیک ہی ہوتا ہے ناںجی۔
1629جناب عبدالمنان عمر: نہیں، اس میں اور چیز بھی آتی ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: تو فرمانبردار وہ خود کہتے ہیں کہ یہ تھا۔ پھر ان کی وفات ہوتی ہے اور اس کے بعد مرزا صاحب جنازے میں شرکت نہیں کرتے۔
جناب عبدالمنان عمر: یہ دیکھئے دو باتیں ہیں۔ میں بہت سے لوگوں کا جو لاہور میں یا راولپنڈی میں فوت ہوں، میں اُن کے جنازے میں شرکت نہیں کروں گا یا نہیں ہوا ہوں گا۔ اس سے کوئی شخص یہ نتیجہ نکالے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی، یہ بات اور ہے کہ لاہور میں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: یہ دکھائیے کہ مرزا صاحب نے یہ کہا ہو کہ: ’’میں اس کا جنازہ اس لئے نہیں پڑھتا ہوں کہ یہ مجھے نہیں مانتا‘‘؟
جناب یحییٰ بختیار: بس چھوڑ دیجئے۔ میں نے یہ آپ کو بتادیا کہ وہ احمدی نہیں ہوا، میں نے یہ بتادیا کہ وہ فرمانبردار تھا، میں نے یہ بتادیا کہ مرزا صاحب نے وفات پر جنازہ نہیں پڑھا۔ اِس کے علاوہ کوئی زیادہ Evidence (شہادت) کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ کوئی چیز ہے تو ہمیں بتائیے۔
جناب عبدالمنان عمر: وہ میں نے عرض کیا کہ اُن کے تعلقات اس قدر خراب تھے سوشل، اِس قدر خراب تھے سوشل کہ وہ اس وجہ سے شامل نہیں ہوسکتے تھے۔
(مرزا صاحب نے بیٹے کو کہا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دو)
جناب یحییٰ بختیار: میں پھر ایک اور بات کرلوں۔ مرزا صاحب نے اس کو کہا تھا کہ ’’تم اپنی بیوی کو طلاق دو۔‘‘ مرزا صاحب نے کہا کہ: ’’میں تمہاری ماں کو بھی طلاق دیتا ہوں کیونکہ تم کوشش نہیں کرتے کہ محمدی بیگم مجھ سے شادی کرے۔‘‘ یہ دُرست ہے یہی وجہ تھی؟
جناب عبدالمنان عمر: جناب! میں، کیونکہ محمدی بیگم کا واقعہ آگیا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ جو کہتے ہیں کہ اور وجوہات تھیں۔
1630جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔اس لئے اب مجھے عرض کرنے کی اِجازت ہوگئی ہے۔
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: نماز کا وقت ہوگیا ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: پہلا یہ اِعتراض یہ فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ: ’’اپنی بیٹی کو ۔۔۔۔۔۔ بیوی کو طلاق دے دو!‘‘ جناب! یہ واقعہ بالکل اِس سے ملتاجلتا ہے۔۔۔۔۔۔
Mr. Yahya Bakhtiar: Still five minutes more......
ابھی پانچ منٹ ہیں۔
(جناب یحییٰ بختیار: صرف پانچ منٹ ہیں۔۔۔۔۔۔)
محترمہ قائم مقام چیئرمین: اچھا، Five (پانچ) منٹ ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: شکایت یہ کی گئی کہ انہوں نے کہا کہ: ’’اپنی بیوی کو طلاق دے دو!‘‘ یہ گھریلو معاملات ہوتے ہیں۔ ایک باپ زیادہ صحیح سمجھتا ہے کہ میری بہو جو ہے کن اوصاف کی مالک ہونی چاہئے۔ اُس کو اِتنا حق ضرور ملنا چاہئے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں میں اِس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ یہی وجہ تھی یا اور کوئی وجہ تھی؟
جناب عبدالمنان عمر: نہیں، نہیں، یہ وجہ نہیں تھی۔
جناب یحییٰ بختیار: پھر اِس کو چھوڑ دیجئے۔ جو وجہ ہے وہ بتائیے آپ؟
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض یہ کر رہا تھا کہ پٹی کا ایک خاندان تھا جو ان کا دُور کا رشتہ دار بھی تھا، مرزا صاحب کا۔ اِن لوگوں کی اخلاقی، دِینی اور مذہبی حالت بہت ہی بُری تھی، مرزا صاحب کی نظر میں۔ اِس لئے مرزا صاحب نے کوشش کی کہ اُن لوگوں کو، جس طرح کہ وہ باہر کے لوگوں کو دِین دار بنانے کی کوشش کرتے تھے، اِس لئے انہوں نے یہ کوشش کی کہ اُس خاندان میں بھی مذہب کو، اِسلام کو، نبی کریمﷺکو روشناس کرائیں۔ لیکن وہ لوگ قریب دہریت کے پہنچ گئے تھے اور وہ اِس قسم کی وعظ ونصیحت سے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ وہ محمدی بیگم کے خاندان کی بات کر رہے ہیں یا کوئی اور ہے؟
1631جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: وہی Indirectly کہتے ہیں، یہ گھریلو معاملے پھر لے آتے ہیں آپ۔ مرزا احمد بیگ کا ذِکر کر رہے ہیں آپ؟
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض کر رہا تھا کہ آپ نے پوچھا کہ محمدی بیگم۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ مرزا احمد بیگ کا ذِکر رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔؟
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: بات وہی ہوگی جو میں کہتا ہوں تو کہتے ہیں: ’’نہیں، یہ نہیں ہے، یہ گھریلو معاملہ ہے۔‘‘
جناب عبدالمنان عمر: نہیں، میں نے تو عرض کیا کہ وہی بات ہے۔
(محمدی بیگم کی شادی مجھ سے کردوگے تو تمام تکلیفات دور)
جناب یحییٰ بختیار: وہ سب ہم Study (مطالعہ) کرچکے ہیں، صاحبزادہ صاحب! اور اسی لئے میں نے عرض کیا کہ ان کی گھریلو حالت بہت خراب تھی، دہریے ہو رہے تھے، اِسلام سے دُور جارہے تھے، اور مرزا صاحب نے کہا کہ: ’’محمدی بیگم کی شادی مجھ سے کردوگے تو اِسلام کے قریب آجاؤگے، تکلیفات دُور ہوجائیں گی۔‘‘
جناب عبدالمنان عمر: نہیں جناب! اِس طرح واقعہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔
----------
[At this stage Madam Acting Chairman vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali).]
----------
جناب عبدالمنان عمر: یہ اِ س طرح واقعہ نہیں ہے۔ واقعہ اِس طرح ہے کہ مرزا صاحب نے کہا کہ: ’’میں تمہیں ایک رحمت یا عذاب کا نشان دِکھاتا ہوں، کیونکہ معمولی وعظ ونصیحت سے تم لوگ صحیح راستے پر نہیں آسکتے ہو۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کے نشانات ایک ایسی چیز ہے کہ اُس کو دِکھانے سے، اگر وہ واقع میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نشان انسان دیکھے تو اُس شخص کی ذات پر اثر ہوسکتا ہے۔ یہ ہے Strating Point۔
1632جناب یحییٰ بختیار: نہیں یہ ٹھیک ہے جی، دیکھئے ناں، بات یہ ہے، صاحبزادہ صاحب! میں باربار آپ کی بات میں دخل دے رہا ہوں، دراصل یہ سب کچھ جو ہے، یہ واقعات بڑی تفصیل سے آچکے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مرزا صاحب اس بات پہ ناراض ہوگئے کہ لڑکے نے اُن کے کہنے پر اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی؟ اور مرزا صاحب، ٹھیک ہے، باپ ٹھیک جانتا ہے کہ کیسی بہو ہونی چاہئے، وہ آپ کی بات میں مانتا ہوں۔ مگر مرزا صاحب اس بات پہ ناراض ہوگئے اُن سے اور نمازِ جنازہ نہیں پڑھی؟
جناب عبدالمنان عمر: نہیں جناب! یہ میں نے کہا کہ نہیں، کوئی تاریخ میں مجھے نہیں ملی کم سے کم… اگر آپ کے علم میں ہو تو میرے لئے بڑی خوشی کا موجب ہوگا… کہ مرزا صاحب نے اس لئے اُس کا جنازہ نہیں پڑھا، یہ وجہ بیان کی ہو مرزا صاحب نے۔ میرے علم میں جناب…!
جناب یحییٰ بختیار: کوئی وجہ آپ کو معلوم نہیں؟
جناب عبدالمنان عمر: جناب! نہیں، یہ وجہ نہیں معلوم۔
جناب یحییٰ بختیار: کیا وجہ تھی اُنہوں نے نہیں پڑھائی؟ آپ کہتے ہیں وجہ بتائیں گے آپ۔
جناب عبدالمنان عمر: میں نے عرض کیا تھا کہ گھریلو تعلقات خراب تھے۔
جناب یحییٰ بختیار: یعنی کس بات پر؟
جناب عبدالمنان عمر: بہت سے ہیں، وہ تو بہت سی باتیں ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھیں ناں جی، بیٹا جو باپ کی بات نہیں مانتا تو باپ ناراض ہوجاتا ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: ٹھیک ہے، دو چار مثالیں آپ دے دیں گے۔ آپ ایک نوے ستر سال کا پُرانا واقعہ ہے، اُس کی Details (تفصیلات) آپ مجھ سے یوں دریافت کرنا چاہیں کہ وہ گھر میں کیا واقعہ ہوا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ تعلقات خراب تھے۔
1633جناب یحییٰ بختیار: آپ کو علم نہیں ہے اس کا؟
جناب عبدالمنان عمر: نہیں، میں نے عرض کیا کہ تعلقات خراب تھے، میرے علم میں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: تعلقات خراب تھے؟
جناب عبدالمنان عمر: مگر یہ موجب نہیں تھا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، دیکھیں ناں یہ میں… ادھر نماز کا وقت ہو رہا ہے… ایک عرض کروں گا آپ سے کہ اپنے دِماغ میں ایک چیز رکھئے جب یہ جواب دیں کہ تعلقات خراب تھے، باپ ناراض ہوگیا، جنازہ نہیں پڑھا۔ باپ کہتا ہے: ’’فرمانبردار تھا، میں جنازہ نہیں پڑھتا۔‘‘ آپ کیسے اس کو Reconcile کرتے ہیں؟ اس پر آپ سوچیں۔ پھر نماز کے بعد بات کریں گے۔
Mr. Chairman: And break for Maghrib.
(جناب چیئرمین: نمازِ مغرب کے لئے وقفہ)
The Delegation to come back at 7: 30.
(وفد کو ۳۰:۷بجے شام تک کی اِجازت ہے)
The honourable members may keep sitting.
(معزز اراکین تشریف رکھیں)
The Delegation is permitted to leave, to come back in the House at 7: 30.
(آپ جائیں، ساڑھے سات بجے تشریف لے آئیں۔ ساڑھے سات)
(The Delegation left the Chamber)
(وفد باہر چلا گیا)
Mr. Chairman: The House to meet at 7: 30 p.m.
(جناب چیئرمین: ایوان کا اِجلاس شام ۳۰:۷بجے ہوگا)
----------
[The Special Committee adjourned for Maghrib prayers to re-assemble at 7:30 p.m.]
(خصوصی کمیٹی کا اِجلاس مغرب کی نماز کے لئے ملتوی ہوا، پھر ۳۰:۷بجے شام ہوگا)
----------
1634[The Special Committee re-assembled after Maghrib Prayers. Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اِجلاس مغرب کی نماز کے بعد مسٹر چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) کی صدارت میں ہوا)
----------
EVASIVE ANSWERS AND PREPARED SPEECHES BY THE WITNESS
(گواہ کے ٹال مٹول پر مبنی جوابات اور پہلے سے تیار شدہ تقاریر)
Mr. Chairman: I would like to know from the Attorney-General about the procedure, because I have just arrived. I do not know what has happend in the morning.
(جناب چیئرمین: چونکہ میں ابھی آیا ہوں، مجھے معلوم نہیں صبح سے کیا کارروائی ہوئی ہے۔ میں چاہوں گا کہ اٹارنی جنرل صاحب مجھے ضابطے کے بارے میں بتائیں)
Mr. Yahya Bakhtiar: Sir, I am making super-human efforts to ask him some questions ......
(جناب یحییٰ بختیار: میں اس (یعنی گواہ) سے کچھ سوالات پوچھنے کی مافوق الفطرت کوشش کر رہا ہوں)
Mr. Chairman: No. Any difficulty? I have only requested the Attorney-General to guide me if the Chair's assistance is needed......
(جناب چیئرمین: نہیں، کیا کوئی مشکل پیش آرہی ہے؟ میں نے اٹارنی جنرل صاحب سے درخواست کی ہے کہ وہ بتائیں کہ ان کو صدارت کی طرف سے کسی اِمداد کی ضرورت تو نہیں؟)
Mr. Yahya Bakhtiar: Sir, what happend, this morning......
Mr. Cahirman: ....... because I am totally blank as to what they have said and now the questions have been put.
(جناب چیئرمین: ۔۔۔۔۔۔ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ انہوں نے کیا کہا ہے، اور سوالات کس طرح پوچھے گئے ہیں)
Mr. Yahya Bakhtiar: Sir, I just briefly explain. This morning, I asked him some quetions about Mirza Sahib's claim. He was not answering and was avoiding; and so I left the subject with a view to come back on the subject. Again he was avoiding. I left it. I went to a third subject. And now I am coming back to the same subject again. But I have to give up the subject because the man insists on delivering speeches which he has prepared.
(جناب یحییٰ بختیار: آج صبح میں نے گواہ سے مرزا صاحب کے موقف کے بارے میں چند سوالات پوچھے تھے، وہ جواب نہیں دے رہا اور ٹال مٹول کر رہا ہے، چنانچہ میں نے موضوع چھوڑ دیا اور دُوسرے موضوع کو لے لیا۔ گواہ نے پھر بھی ٹال مٹول کیا۔ میں نے اُسے بھی چھوڑ دیا اور ایک تیسرے موضوع پر آگیا، اور اب میں پھر اسی موضوع کو لوٹ رہا ہوں۔ لیکن مجھے موضوع چھوڑنا پڑے گا، کیونکہ گواہ اپنی طرف سے پہلے سے تیار شدہ تقریریں کرنے پر مصر ہے)
Mr. Cahirman: No, we are not here to hear .......
Mr. Yahya Bakhtiar: After all, he has got a right to speak, but he has prepared some speeches .......
(جناب یحییٰ بختیار: گواہ کو جواب دینے کا حق ہے، مگر اس نے کچھ تقریریں تیار کر رکھی ہیں)
Mr. Chairman: But, they have to reply to questions. (جناب چیئرمین: انہیں سوالات کا جواب دینا چاہئے)
Mr. Yahya Bakhtiar: ...... anticipating certain questions. And actually they should have been examined first. And they have prepared those speeches. They would have been very useful to us at that stage. But we are all well-aware of what happend in the 1635Course of two weeks. So, he is repeating those facts and, once or twice, I was rather harsh also. I left sorry that I should not have stopped him, but he would not listen.
(جناب یحییٰ بختیار: اصل میں ان کا بیان ہی ہونا چاہئے تھا، پھر یہ تقریریں سودمند ہوتیں، گواہ باتوں کو باربار دُہرا رہا ہے۔ ایک مرتبہ تو سختی سے مجھے کہنا پڑا کہ وہ متعلقہ بات کرے اور باتوں کو باربار دُہرانے سے اسے روک دیا، جس کا مجھے افسوس ہے)
Mr. Chairman: Just, just a minute. And my submission would be, we must try to finish it, if not this night, tomorrow in the morning session, try to finish it.
(جناب چیئرمین: صرف ایک منٹ، میں محسوس کرتا ہوں کہ گواہ کا بیان آج رات، یا کل صبح ختم کرنے کی ہمیں کوشش کرنا چاہئے)
Mr. Yahya Bakhtiar: That is what my efforts .......
Mr. Chairman: ...... because then our whole schedule and the programme would be upset. By tomorrow morning, we must in the morning session, try to finish it.
(جناب چیئرمین: ورنہ ہمارا تمام پروگرام تہ وبالا ہوجائے گا، صبح کے اِجلاس میں ہمیں اسے (گواہ کے بیان کو) ختم کرنا چاہئے)
Mr. Yahya Bakhtiar: We should sit as far as possible.
(جناب یحییٰ بختیار: جہاں تک ممکن ہو ہمیں اجلاس جاری رکھنا چاہئے)
Mr. Chairman: Dr. Muhammad Shafi.
(جناب چیئرمین: ڈاکٹر محمد شفیع)
ڈاکٹر محمد شفیع: ان کا تعارف ذرا ہمیں چاہئے۔ ہمیں پتا نہیں یہ کون کون ہیں؟ سوائے…
جناب چیئرمین: تعارف پہلے جو کرادیا تھا۔ یہ میں آپ کو بتادیتا ہوں:
مولانا صدرالدین، امیر جماعت، انجمن اشاعتِ اسلام، لاہوری۔
مرزا مسعود بیگ، جنرل سیکریٹری۔
ایک آواز: سر! وہ جو ہے ایک کان والا، وہ کیا ہے؟
جناب چیئرمین: جی؟
ایک آواز: ایک کان والا۔ اُس کا ایک کان نہیں ہے۔ وہ کون ہے، جو ادھر بیٹھتا ہے؟ دیکھ لیں، میں مذاق نہیں کرتا، نہیں ہے ایک کان۔
Mr. Chairman: I have shown my ingorance because I have returned just now. So, I will take some time to have my own impression. So, after time, we will discuss it.
1636صاحبزادہ صفی اللہ: جنابِ والا!
جناب چیئرمین: جی، کورم نہیں ہے؟
صاحبزادہ صفی اللہ: نہیں، میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ پہلے وفد کو آپ نے کچھ ہدایات دی تھیں اور وہ ان ہدایات کے مطابق کچھ چلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اب اِن کو پتا نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل صاحب سوال پوچھتا ہے تو وہ بیچ میں شروع کردیتا ہے۔ پورا تقریر وہ۔۔۔۔۔۔
جناب چیئرمین: میں نے سر اسی واسطے پوچھا کہ مجھے گائیڈ کریں کہ مجھے صبح سے پتا نہیں ہے کہ کس طریقے سے چلا رہا ہے۔ جو آپ۔۔۔۔۔۔
صاحبزادہ صفی اللہ: وہ قواعد کی بالکل خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
جناب چیئرمین: میں نے چیمبر میں اٹارنی جنرل صاحب سے ڈسکس کیا ہے۔ کہ سوال ۔۔۔۔۔۔۔ He has shown me certain difficulties
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: نہیں، اب اس وقت محترم اٹارنی جنرل صاحب نے اُس کو صحیح طریقے سے چیک کیا ہے۔
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے۔
مولانا شاہ احمد نورانی: اب تو ٹھیک چل رہا ہے۔
جناب چیئرمین: اچھا۔ مجھے اٹارنی جنرل صاحب نے کہا ہے کہ وہ میں وہ procedure adopt کروں گا اگر کوئی Difficulty ہو تو then, he will ask the Chair to get a definite answer. So, we can call them now. (تب وہ صاحب صدر کے ذریعے (گواہ سے) حتمی جواب حاصل کرنے کے لئے اِلتماس کریں گے۔ اب ہم انہیں بلالیتے ہیں)
(The Delegation entered the Chamber)
(وفد ہال میں داخل ہوا)
Mr. Chairman: Yes, Mr. Attorney-General.
(جناب چیئرمین: جی اٹارنی جنرل صاحب)
(انوارخلافت کا حوالہ کہ غیراحمدی کا جنازہ پڑھنا)
1637جناب یحییٰ بختیار: صاحبزادہ صاحب! یہ ایک میں پھر گستاخی کرتا ہوں اور بشیرالدین محمود احمد صاحب کا جو ہے ناں ’’انوارِخلافت‘‘ اِس سے اِسی مسئلے پر جو میں آپ کو کہہ رہا تھا کہ مرزا صاحب کے بیٹے کی وفات ہوئی اور انہوں نے جنازہ نہیں پڑھا، وہ جس طرح یہ Describe (ذِکر) کرتے ہیں، اُس سے جو بھی آپ سمجھتے ہیں کہ جہاں غلط ہے، آپ پوائنٹ آؤٹ کردیں کہ یہ حصہ مانتے ہیں، یہ نہیں مانتے۔ تو یہ میں آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں۔ ’’انوار خلافت‘‘ صفحہ:۹۱ پہ ہے، ninety-one:
’’غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا:
پھر ایک سوال غیراحمدی کا جنازہ پڑھنے کے متعلق کیا جاتا ہے۔ اس میں ایک یہ مشکل پیش آتی ہے کہ حضرت مسیحِ موعود نے بعض صورتوں میں جنازہ پڑھنے کی اجازت دے دی (جیسے آپ نے فرمایا یہ مشکل تھی) اس میں شک نہیں کہ بعض حوالے ایسے ہیں جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے اور ایک خط بھی ملا ہے جس پر غور کیا جائے گا۔ لیکن حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کا عمل اس کے برخلاف ہے۔ چنانچہ آپ کا ایک بیٹا فوت ہوگیا جو آپ کی زبانی طور پر تصدیق بھی کرتا تھا۔ جب وہ مرا تو مجھے یہ یاد ہے کہ آپ ٹہلتے جاتے اور فرماتے کہ اس نے کبھی شرارت نہ کی تھی بلکہ میرا فرمانبردار ہی رہا ہے۔ ایک دفعہ میں سخت بیمار ہوا اور شدّتِ مرض سے مجھے غش آگیا۔ جب مجھے ہوش آیا تب میں نے دیکھا وہ میرے پاس کھڑا نہایت درد سے رو رہا تھا۔ آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ میری بڑی عزت کرتا تھا۔ لیکن آپ نے اُس کا جنازہ نہیں پڑھا۔ ورنہ وہ اتنا فرمانبردار تھا کہ بعض احمدی بھی اتنے نہ ہوں گے۔ محمدی بیگم کے متعلق جب جھگڑا ہوا تو اُس کی بیوی 1638کے رشتہ دار بھی اُس کے ساتھ شامل ہوگئے۔ حضرت صاحب نے اس کو فرمایا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔ اُس نے طلاق لکھ کر حضرت صاحب کو بھیج دی کہ آپ جس طرح مرضی ہے اس طرح کریں۔ لیکن باوجود اس کے جب وہ مرا تو آپ نے اُس کا جنازہ نہ پڑھا۔‘‘
ایک تو وہ لفظ یہ اِستعمال کرتے ہیں: ’’مرا‘‘، ’’وفات‘‘ کا نہیں کہتے۔ ’’مرحوم‘‘ نہیں کہتے۔ یہ خیر، ان کا point of view (نقطئہ نظر) ہے۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ Fact جو ہے ناں، میں اس کی وجہ آپ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا وجہ تھی؟ آپ نے کہا کہ آپ بتائیں گے۔ ایک طرف سے وہ فرمانبردار ہے، اور پھر کہتے ہیں کہ سوشل تعلقات ایسے تھے کہ جس کی بنا پر ایک اتنے مرتبے کا آدمی، آپ جس کو محدث سمجھتے ہیں، وہ اپنے بیٹے کا جنازہ نہ پڑھے!
جناب عبدالمنان عمر: میری گزارش اس سلسلے میں یہ ہے کہ میں پھر عرض کروں گا کہ مرزا محمود احمد صاحب اس معاملے میں ہمارے فریق مقدمہ ہیں۔ اس بات میں ہمارا اور اُن کا اِختلاف ہے۔ وہ کچھ تاریخی باتیں جمع کرنا چاہتے ہیں، کچھ حوالے جمع کرنا چاہتے ہیں، کچھ اِدھراُدھر کی باتیں اکٹھی کرکے یہ تأثر دینا چاہتے ہیں کہ جو اُن کے معتقدات ہیں، جو اُن کا رویہ ہے، وہ دُرست ہے اور ہم یہ موقف رکھتے ہیں کہ اُن کا رویہ غلط ہے، اُن کے معتقدات غلط ہیں۔ ہم اِس وجہ سے اُن سے اِختلاف کرتے ہیں۔ میں بڑے ادب سے گزارش کروں گا کہ جناب! اُس فریقِ مقدمہ کو آپ بطورِ گواہ میرے سامنے لاتے ہیں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، گواہ نہیں، میں تو حقائق پیش کر رہا ہوں۔
جناب عبدالمنان عمر: جی، میں عرض کرتا ہوں کہ یہ بالکل کتاب ایسی ہے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں کتاب کی بات نہیں کر رہا، میں نے کہا کہ لفظ ’’مرا‘‘ اِستعمال کیا، آپ ضرور وہ اِستعمال نہیں کریں گے۔ اِن چیزوں کو چھوڑ دیجئے کہ یہ حقیقت 1639ہے کہ نہیں کہ مرزا صاحب کے بیٹے تھے، وفات کرگئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ فرمانبردار تھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مرزا صاحب نے جنازہ نہیں پڑھا۔ تو اُس کے بعد آپ نے کہا کہ ایک اور وجہ آپ بتاسکیں گے۔
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض کرتا ہوں۔ میں عرض یہ کر رہا ہوں جی کہ اِس شخص کے واقعات کو آپ مُسلّمہ مان لیتے ہیں پہلے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، اس کو نہیں، میں ۔۔۔۔۔۔۔ اِس کو چھوڑ یں۔ ابھی میں نے اس واسطے کہا تاکہ آپ کو۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، اِس کو ہمارے سامنے پیش نہیں ہونا چاہئے، یہ حجت نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھیں ناںجی، مجبوراً ہمیں پیش کرنے پڑتے ہیں، چونکہ انہی کی کتابوں سے تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ کیا Attitude (رویہ) رہا ہے۔ آپ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ’’ہم اِس کو َردّ کرتے ہیں‘‘ کس حد تک رَدّ کرتے ہیں۔ بعض آدمی، جس کو آپ سمجھتے ہیں کہ بالکل جھوٹا بھی ہے، غلطی سے بھی کبھی سچ کہہ دیتا ہے۔ بعض سچا آدمی غلطی سے جھوٹ کہہ دیتا ہے۔ تو یہ چیزیں ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ کی اپنی تعلیمات، تجربے اور اپنے علم کے مطابق کون سی بات صحیح ہے، کون سی نہیں ہے۔
اب یہ بات آپ نے تسلیم کی کہ مرزا صاحب کے بیٹے فضل احمد تھے۔ یہ بات آپ نے تسلیم کرلی کہ وہ احمدی نہیں ہوئے۔ یہ بات آپ نے تسلیم کرلی کہ اُن کی وفات مرزا صاحب کی زندگی میں ہوئی۔ یہ آپ نے تسلیم کرلیا کہ اُس نے اُن کا جنازہ نہیں پڑھا۔ اب اس کے بعد باقی جو وجوہات ہیں، وہ کہتے ہیں کیونکہ وہ غیراحمدی تھے، اِس وجہ سے جنازہ نہیں پڑھا، آپ کہتے ہیں کہ نہیں، اور وجہ ہے۔ تو اُس پر آپ بتادیجئے۔
1640جناب عبدالمنان عمر: میں نے عرض یہ کیا تھا کہ پہلا میرا اِستدلال یہ ہے کہ کسی جگہ سارے لٹریچر میں سے، مرزا محمود احمد صاحب کی اِن ساری کتابوں کے باوجود، وہ کبھی بھی ایسا کوئی حوالہ نہیں پیش کرسکے کہ مرزا صاحب نے اُن کا جنازہ اِس وجہ سے نہیں پڑھا کہ وہ غیراحمدی تھے۔ کوئی ایک حوالہ نہیں، کوئی ایک مثال نہیں، کوئی ایک واقعہ نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ، میں نے عرض کیا کہ آپ بتائیں کہ وجہ کیا تھی؟
جناب عبدالمنان عمر: ہاںجی، میں گزارش یہ کرتا ہوں، اس چیز کو میں عرض کر رہا ہوں۔
دُوسری میں نے گزارش یہ کی تھی کہ یہ جہاں سے آپ نے یہ واقعات لئے ہیں، یہ عجیب بات ہے کہ یہ ۱۹۱۵ء کی کتاب چھپی ہوئی ہے۔ اُس کے بعد آج تک اتنے Controversial Point (متنازعہ مسئلے) پر اس کتاب کو اُس شخص نے دوبارہ نہیں چھاپا۔ نصف صدی سے زیادہ اُس کا وقت گزرا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس قدر کمزور پوزیشن انہوں نے اس میں اِختیار کی۔
تیسری بات میں اس سلسلے یہ عرض کرتا ہوں کہ مرزا فضل احمد کے متعلق یہ جو کہا کہ ’’وہ فرمانبرار بھی تھا‘‘ اگر آپ… اور جب وہ فوت ہوئے، اگر آپ ان دونوں کے زمانوں کو مدنظر رکھ لیں تو شاید یہ مسئلہ فوراً حل ہوجائے۔ جب کہا کہ: ’’وہ فرمانبردار تھا اور وہ اچھا تھا۔‘‘ وہ ۱۸۹۲ء کے قریب کی بات ہے۔ تو اُس کے کئی سال کے بعد کا یہ واقعہ ہے جب وہ شخص فوت ہوا۔ تو آپ سمجھتے ہیں کہ انسان میں تغیر نہیں آتا؟ اُس کے اخلاق کسی وقت Deteriorate (پست) نہیں کرجاتے؟ تو وہ اور زمانے کی شہادت ہے، یہ دُوسرے زمانے کی شہادت ہے۔ اِس لئے اُس کو پیش نہیں کیا جاسکتا۔
جناب یحییٰ بختیار: ایک اور میں اُن کا حوالہ پڑھ کر سناتا ہوں "Review of Religions" سے۔ مرزا یا اُن کا ہے یا بشیر احمد صاحب کا ہے۔ وہ صاحبزادے ہیں اُن 1641کے۔ دونوں زیادہ لکھتے رہے ہیں اُس دور میں۔ تو یہ میں نکال دُوں آپ کو "Review of Religions" کے صفحہ۱۲۹ پر، وہ کہتے ہیں:
’’حضرت مسیحِ موعود نے غیراحمدیوں کے ساتھ صرف وہی سلوک جائز رکھا جو نبی کریم نے عیسائیوں کے ساتھ کیا۔ غیراحمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں۔ اِن کو لڑکیاں دینا حرام قرار دیا گیا۔ اِن کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا۔ اب باقی کیا رہا؟ کیا رہ گیا ہے جو ہم اُن کے ساتھ کرسکتے ہیں؟ دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں۔ ایک دِینی، دُوسرے دُنیاوی۔ دِینی تعلقات کا سب سے بڑا ذریعہ عبادت کا اِکٹھا ہونا ہے اور دُنیاوی تعلق کا بھاری ذریعہ رشتہ اور ناطہ ہے۔ سو یہ دونوں ہمارے لئے حرام قرار دئیے گئے۔ اگر کہو کہ یہ ہم کو اِن کی لڑکیاں لینے کی اِجازت ہے تو میں کہتا ہوں کہ نصاریٰ کی لڑکیاں لینے کی بھی اِجازت ہے اور اگر یہ کہو کہ غیراحمدیوں کو سلام کیوں کیا جاتا ہے؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ حدیث سے ثابت ہے کہ بعض اوقات نبی کریم نے یہود تک کو سلام کا جواب دیا۔‘‘
تو میں نے ایسے کہا کہ یہ چیز یہ باربار کہتے رہے ہیں۔ اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ یہ ۱۵-۱۹۱۴ء کی بات ہے، بعد میں نہیں کہی، تو ہوسکتا ہے، مگر پریکٹس اور Practical Experince (عملی صورت) یہ رہا ہے کہ احمدی لڑکی کی شادی غیراحمدی سے بہت بُرا سمجھتے ہیں۔ بعض دفعہ ہوجاتی ہے، وہ اور بات ہے۔ مگر اس کی وجہ یہی ہے کہ اُنہوں نے، مرزا صاحب کا کوئی یہ آرڈر ہے جو میں نے آپ کو پڑھ کر سنایا، ۱۸۹۸ء میں کہ آپ ایسا نہ کریں۔
جناب عبدالمنان عمر: میری گزارش یہ ہے کہ جناب! یہ حوالہ جو آپ نے پڑھا، یہ مرزا بشیراحمد صاحب کا حوالہ ہے، جو اُن کے چھوٹے بھائی ہیں۔ یہ ہم رَدّ کرتے ہیں ان باتوں کو۔ ہم ان کو غلط سمجھتے ہیں۔ ہم اس کو Hate کرتے ہیں ان باتوں کو اور ہمارے متعلق آپ ہمارے کسی لٹریچر کو پیش فرمائیے۔ یہ چیزیں غلط ہیں۔ یہ اُن کے موقف غلط 1642ہیں۔ ہم اس وجہ سے اُن سے الگ ہوچکے ہوئے ہیں۔ ہم اُن کو اس رستے میں صحیح نہیں سمجھتے۔ تو یہ فرمانا کہ مرزا بشیراحمد نے یہ کہا تھا، مرزا محمود احمد صاحب نے یہ کہا، یہ چیزیں ہمارے لئے حجت نہیں ہیں ہمارے لئے۔۔۔۔۔۔
(تحریک احمدیہ کا اسلام کے مقابلہ میں وہی مقام ہے جو کہ عیسائیت کا یہودیت کے مقابلے میں)
جناب یحییٰ بختیار: اب ایک اور ہے کہ:
"Ahmadia Movement stands in the same relation to Islam in which Christainity stood to Judaism."
(تحریکِ احمدیہ کا اسلام کے مقابلے میں وہی مقام ہے جو کہ عیسائیت کا یہودیت کے مقابلے میں ہے)
جناب عبدالمنان عمر: جنابِ عالی! یہ کس کا مضمون ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: یہ مولانا محمد علی صاحب کا ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: نہیں ہے، جناب!
جناب یحییٰ بختیار: یہ مجھے کہا گیا ہے کہ "Review of Religions"…
جناب عبدالمنان عمر: "Review of Religions" میں ہر مضمون اُن کا نہیں ہوتا۔
جناب یحییٰ بختیار: اُن کا نہیں؟ مجھے یہ کہا گیا ہے اُن کا ہے، مجھے یہ کہا گیا ہے اور ۱۹۰۶ء کا مضمون ہے یہ۔
جناب عبدالمنان عمر: یہ میں نے عرض کیا ناں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ نوٹ کرلیجئے، آپ دیکھ لیجئے۔
جناب عبدالمنان عمر: میرے پاس نوٹ ہے جی کہ "Review of Religions" میں میرا خیال ہے کہ یہ نہیں دِکھایا جاسکے گا کہ یہ مولانا صاحب کا وہ۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: اچھا۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: اب میں اس کے متعلق عرض کردیتا ہوں تاکہ بات Clear (واضح) ہوجائے…
جناب یحییٰ بختیار: آپ کے پاس ہوگا یہ؟
1643جناب عبدالمنان عمر: کچھ تمثیلیں ایسی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ ۱۹۰۶ء کا ہے جی، یہ آپ کے پاس ہوگا۔ "Review of Religions" in English ۔ مولانا محمد علی اُس کے ایڈیٹر تھے اُس زمانے میں۔
جناب عبدالمنان عمر: نہیں، یہاں نہیں ہے، یہ یہاں نہیں ہے۔
تو اس کے متعلق میں آپ کو گزارش کردُوں کہ بعض دفعہ جب تمثیل بیان کی جاتی ہے تو وہ ایک یہ مراد نہیں ہوتی کہ اس کے ایک ایک لفظ کو، ایک ایک حصے میں وہ تمثیل ہو۔
جناب یحییٰ بختیار: ابھی آپ نے صبح یہ فرمایا کہ اگر کفر کا فتویٰ دیا جائے تو لوٹ کے آجاتا ہے وہ۔
جناب عبدالمنان عمر: یہ میں نے نہیں عرض کیا، میں نے حدیث پیش کی۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، حدیث ہے جو ناں، اُس کی بنا پر وہ آپ کے خلاف فتوے دئیے اُنہوں نے۔ تو مجبوراً آپ اُن کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے ہوں گے اُن کے پیچھے۔ یہ وجہ تھی۔ اُس سے پیشتر آپ نے یہ کہا کہ جو آدمی کلمہ پڑھتا ہو وہ آپ کی نظر میں کافر نہیں ہوتا۔
جناب عبدالمنان عمر: حقیقی کافر نہیں ہوتا، دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوجاتا۔