ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ فرقہ تھا یا جماعت تھی، وہ تبلیغ کا کام کررہے تھے یا اپنا فرض سمجھتے تھے، اس کے نتیجے میں مسلمان کا بڑا سخت Reaciton (ردعمل) ہوا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ قبرستان میں نہیں دفن ہونے دیتے تھے، مسجدوں میں نہیں جانے دیتے تھے، احمدیوں کو ایک قسم کا Persecute (تشدد) کرنا شروع کیا اُنہوں نے، آپ کے نقطئہ نظر سے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ایک طبقے نے۔
1598جناب یحییٰ بختیار: جی ہاں، تو آخر کیوں۔۔۔؟
جناب عبدالمنان عمر: وہ اس لئے جی۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ کیا بات تھی جو مرزا صاحب نے کہی کہ جس پر وہ اتنے غصّے میں آگئے؟
جناب عبدالمنان عمر: وہ میں عرض کرتا ہوں جناب! کہ بات یہ ہے کہ کسی کا غصّے میں آنا، کسی کا ناراض ہونا، کسی کا اس قدر اِشتعال میں آجانا اور ایسے ایسے اقدام کرنا، اس کے لئے قطعاً قطعاً اس چیز کی ضرورت نہیں ہے کہ اُس شخص نے کوئی بڑا ہی بھیانک فعل کا اِرتکاب کیا ہے۔ ایسی ایسی لڑائیاں ہمارے اس ملک میں ہوئی ہیں کہ کسی شخص نے آمین بالجہر کہہ دی ہے، کسی شخص نے تشہد میں اُنگلی اُٹھادی ہے، اور اس قسم کے معمولی فروعی اِختلافات جو سب کے بیان ہیں۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: مولانا! یہ، یہ آپ دُرست فرما رہے ہیں، میں وہ نہیں کہہ رہا۔ ایک بات، ایک آدمی غصّے میں کوئی بھی بات کرجاتا ہے، بعد میں سوچتا ہے۔ مگر یہ ایک مسلسل ستر(۷۰)، اَسّی(۸۰) سال سے چیز آرہی ہے۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ہاںجی۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔ کہ احمدیوں کے خلاف بڑا سخت Reaction (ردعمل) ہوتا ہے۔ باقی آپ نے دُرست فرمایا کہ سارے مسلمان فرقے ایک دُوسرے کو کافر کہتے رہتے ہیں۔ مگر یہ Reaction نہیں ہوا کبھی کہ نماز مت پڑھو اکٹھی، شادیاں مت کرو، کفن مت دو اِن کو، دفن مت ہونے دو۔ یہ Reaction کیوں ہوا اتنا؟
جناب عبدالمنان عمر: جنابِ والا! میں بڑے ادب سے عرض کروں گا کہ یہ دونوں باتیں مجھے تسلیم نہیں، نہ ۱۹۵۳ء سے پہلے اس قسم کا دنگا اور فساد کبھی بھی ہوا ہے۔ وہ واقعات ملک گیر نہیں تھے، وہ جیسا کہ اُس وقت کی منیر انکوائری کمیٹی میں تحقیق کے بعد۔۔۔۔۔۔
(بغیر پولیس کے مرزاصاحب تقریر نہیں کرسکتے تھے کیوں؟)
1599جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ مرزا صاحب کے زمانے میں… جہاں تک میں نے حالات پڑھے ہیں، اور میں آپ کو سناؤں گا، آپ کو ان سے اِتفاق ہو یا نہ ہو… جب تک کہ بہت زیادہ پولیس کی Protection نہیں ہوتی تھی، مرزا صاحب کسی جگہ تقریر نہیں کرسکتے تھے اور زیادہ مخالف عیسائی اور آریہ سماجی نہیں تھے، بلکہ مسلمان تھے۔ حالانکہ ایک ایسا اسٹیج تھا کہ مسلمانوں کے وہ ہیرو تھے، ایک ایسا اسٹیج تھا جب وہ آریہ سماجیوں سے بحث کرتے تھے، اُن کے جوابات دیتے تھے، عیسائیوں کے جوابات دیتے تھے۔ تو جب اُنہوں نے دعویٰ کیا، آپ سمجھتے ہیں اُنہوں نے نہیں کیا، بہرحال جو Impression (تأثر) پڑا مسلمانوں پر، پھر اُنہوں نے کہا کہ: ’’میں مہدی ہوں، میں مسیحِ موعود ہوں یا نبی ہوں یا اُمتی نبی ہوں۔‘‘ اُس کے بعد بڑا Sharp Reaction ہوا ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: جنابِ عالی! میں پھر گزارش کروں گا، یہ جو مرزا صاحب کے الفاظ آپ نے بیان فرمائے ہیں، یہ ’’توضیح مرام‘‘ میں موجود ہیں، جو اُن کی بالکل اِبتدائی تصنیفات میں سے ہے، یعنی ’’براہینِ احمدیہ‘‘ کے بعد وہی کتاب ہے۔ یہ کہنا کہ اُس وقت مرزا صاحب نے ایسی باتیں نہیں کہی تھیں، یہ باتیں اُس وقت بھی کہی تھیں۔ دُوسرا آپ نے فرمایا کہ اُن کو کبھی بھی تقریر کی اِجازت نہ دی گئی، وہ پبلک میں نہ آسکے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، اِجازت تھی مگر پولیس کی بہت زیادہ Protection (حفاظت) تھی۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، میں، میں اس سے اِختلاف کرنے کی جرأت کروں گا۔ میں آپ کو دو(۲) سفروں کے حالات آپ کے سامنے رکھوں گا۔ مرزا صاحب نے ۱۹۰۴ء میں غالباً جہلم کا سفر کیا ہے۔ کوئی فوج نہیں، کوئی پولیس نہیں، کوئی 1600Protection نہیں، مرزا صاحب کے مریدوں کا کوئی اِجتماع نہیں، کچھ بھی نہیں۔ مرزا صاحب آتے ہیں اور ہزاردرہزار انسان جو ہے اُن کے گرد جمع ہوگیا ہے، اور اُن کی باتیں سنتا ہے اور اُن کی پذیرائی کرتا ہے۔ تو یہ کہنا کہ جناب وہ کبھی بھی یہ نہیں ملا، یہ واقع نہیں ہے۔ میں نے جو کچھ گزارش کی۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: کبھی ہوا ہوگا، عام طور پر نہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، میں تو ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں آپ سے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: میں دُوسرا واقعہ سیالکوٹ کا عرض کرتا ہوں۔ تیسرا واقعہ میں آپ کو لاہور کا عرض کرتا ہوں۔ آپ کا ایک مضمون پڑھا گیا جس میں مرزا صاحب خود تشریف رکھتے تھے، جو دُنیا کی بہت سی زبانوں میں اِسلامی اُصول کی فلاسفی پر شائع ہوا۔ یہ پڑھا گیا اور اُس وقت کے جو اُس کے Moderator تھے، اُس وقت کے صدر تھے، جو لوگ اُس میں حاضر تھے، جو نمائندے اخبارات کے اُس وقت موجود تھے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ دیکھیں ہمیں اس کا علم ہے جی۔ ۱۸۹۶ء کی بات کر رہے ہیں آپ۔ میں اُس وقت کی بات نہیں کر رہا، میں آپ کو یہ حوالے دُوں گا کہ جہاں جہاں، لاہور میں بھی، اس میٹنگ میں کتنی پولیس موجود تھی، جب اُن کو لے آئے وہاں سے، امرتسر میں کتنی موجود تھی، سیالکوٹ میں کتنی موجود تھی۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، یہ صرف دہلی کا ایک واقعہ ہے جس میں وہ۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: خیر، وہ بات اور ہوجاتی ہے۔ آپ مجھے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: وہ اور بات ہے، وہ ایک مناظرے کا رنگ تھا۔
Mr. Yahya Bakhtiar: We will have ......
(جناب یحییٰ بختیار: ہم کریں گے۔۔۔۔۔۔)
1601جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔ تو۔۔۔۔۔۔
Mr. Yahya Bakhtiar: ...... break?
(جناب یحییٰ بختیار: وقفہ کریں گے۔۔۔۔۔۔)
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض یہ کر رہا تھا کہ مرزا صاحب۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ابھی آپ۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: یہ ضروری نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: بعد میں، پھر بعد میں۔
محترمہ قائم مقام چیئرمین: ابھی ہم بریک کریں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: لنچ کے لئے بریک کریں گے۔
محترمہ قائم مقام چیئرمین: پھر ساڑھے پانچ بجے آئیے گا۔
----------
The Delegation .......
----------
جناب یحییٰ بختیار: ساڑھے پانچ، ساڑھے پانچ۔
Madam Acting Chairman: The Delegation is allowed to leave. You will have to come at 5: 30 p.m.
(محترمہ قائمقام چیئرمین: وفد کو جانے کی اجازت ہے، وفد ۳۰:۵بجے شام واپس آئے)
کتاب؟ کیا آپ کی ہیں؟ ہوں۔ دروازے بند کردیں۔ ہاں، چھوڑ جائیے۔
Members are requested to keep sitting.
(ممبران تشریف رکھیں)
نہیں آپ جاسکتے ہیں۔
(The Delegation left the Chamber)
(وفد ہال سے باہر چلا گیا)
----------
Madam Acting Chairman: The Attorney-General has to say anything? Any member wants to say something?
(محترمہ قائمقام چیئرمین: اٹارنی جنرل صاحب نے کچھ کہنا ہے؟ یا کوئی رکن کچھ کہنا چاہتا ہے؟)
1602[The Special Committee adjourned for lunch break to meet at 5:30 p.m.]
(خصوصی کمیٹی کا اِجلاس دوپہر کھانے کے لئے ملتوی ہوا، پھر ساڑھے پانچ بجے شروع ہوگا)
----------
[The Special Committee re-assembled after lunch break. Madam Acting Chairman (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi) in the Chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اِجلاس دوپہر کھانے کے بعد میڈم چیئرمین کی صدارت میں ہوا)
----------
(The Delegation entered the Chamber)
(وفد ہال میں داخل ہوا)
----------
Madam Acting Chairman: Yes, Mr. Attorney-General.
(محترمہ قائمقام چیئرمین: جی اٹارنی جنرل صاحب)
جناب یحییٰ بختیار: میں آپ سے سوال پوچھ رہا تھا کہ جہاں بھی مرزا صاحب جاتے تھے لیکچر دینے کے لئے، تو بڑی سختی سے مخالفت ہوتی تھی اور جو شخص نبوّت کا دعویٰ نہ کرے اور اس بارے میں کوئی غلط فہمی نہ ہو تو کیوں اُن کی سخت مخالفت ہوتی تھی؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں، ایک دفعہ ہی مخالفت ہوئی تھی جب دہلی گئے تھے۔ باقی جگہ مخالفت نہیں ہوتی رہی اور صرف پولیس کی Protection (حفاظت) میں ہی جلسے سے خطاب کرسکتے تھے اور شاذ ونادر ہی اُنہوں نے جلسے سے خطاب کیا ہو جہاں پولیس کی Protection (حفاظت) نہ ہو۔ تو اُس پر آپ نے فرمایا کہ وہاں گئے تھے جہلم۔ جہلم میں کوئی جلسہ یا لیکچر دینے نہیں گئے تھے، مقدمے کے سلسلے میں گئے تھے۔ وہاں نہ کوئی اُنہوں نے لیکچر دیا۔ اُس کے علاوہ جہاں تک لاہور کا تعلق تھا، آپ نے کہا کہ اُنہوں نے ۱۸۹۶ء میں لیکچر دیا تھا۔ تو اس لیکچر میں وہ خود موجود نہیں تھے۔
جناب عبدالمنان عمر: موجود تھے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہاں جو میرے پاس ریکارڈ ہے، نہیں تھے، وہ نہیں تھے۔ اُدھر سے وہ لیکچر اُن کا پڑھ کر سنایا گیا تھا وہاں۔ ایک اور لیکچر میں موجود تھے، شاید آپ اس کی طرف۔۔۔۔۔۔
1603جناب عبدالمنان عمر: لاہور کا لیکچر ’’لیکچر لاہور‘‘ کے نام سے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، وہ ایک اور ہے، اُس میں وہ موجود تھے۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ مرزا بشیرالدین محمود صاحب جو ہیں، اُنہوں نے اُن کی ایک بائیوگرافی لکھی تھی:
"Ahmad, the Messanger of the latter days" (احمد، آخری دنوں کا پیغمبر) یہ اُردو میں لکھی تھی۔ اُس کا یہ ترجمہ ہوا ہے۔ تو یہ تو میں نہیں کہتا کہ جو کہہ رہے ہیں، دُرست کہہ رہے ہیں، مگر وہ موقع پر موجود رہے ہیں اور وہ یہ لاہور میں جو لیکچر دیا، اُس وقت وہ سین Describe (پیش) کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں:
"Sinse it had been known by experience that wherever he went, people of every religion and sect displayed a keen animosity towards him....."
(یہ بات تجربے میں آئی تھی کہ وہ جہاں کہیں بھی گیا ہر طبقے اور مذہب کے لوگوں نے اس کی دُشمنی کا مظاہرہ کیا)
"...... especially the so-called Musalmans."
خاص طور پر وہ جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
"The police authorities had on the occasion made very admirable arrangements for his safety."
(اس موقع پر پولیس حکام نے اس کی حفاظت کے لئے قابلِ تعریف اِنتظامات کئے تھے)
اب میں وہ Arrangements (اِنتظامات) آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں، جب وہ جلسے سے خطاب کرکے نکل رہے ہیں، وہ کہتے ہیں:
"They had, therfore, taken special precaution to ensure the safety of the Promised Messiah on his return journey from the lecture hall. First rode a number of mounted plice. Then came the carriage bearing the Promised Messiah. This was followed by a member of policemen on foot. After them there rode a number of mounted men. Thereafter walked another party of the policemen. Thus was the Promised Messiah escorted back to his residence with the greatest possible care."
(۔۔۔۔۔ چنانچہ انہوں نے مسیحِ موعود کی لیکچر ہال سے واپسی پر اس کی حفاظت کے لئے خصوصی اِحتیاطی تدابیر اِختیار کی تھیں۔ سب سے آگے پولیس گھڑسواروں کا دستہ تھا، اس کے پیچھے مسیحِ موعود کی بگھی تھی، جس کے پیچھے بہت سارے پیدل پولیس والے تھے، پھر ان کے پیچھے گھڑسواروں کا ایک اور دستہ تھا، اور آخر میں پیدل پولیس کی ایک اور پارٹی تھی۔ اس طرح مسیحِ موعود کو اپنی جائے رہائش تک انتہائی اِحتیاط کے ساتھ واپس پہنچایا گیا)
1604تو آپ دیکھیں گے کہ جہاں بھی مرزا صاحب گئے ہیں، وہ دہلی ہو، امرتسر ہو، اُس میں یہی حالت رہی ہے کہ جہاں وہ لیکچر دیتے رہے ہیں، وہاں پر بہت ہی زیادہ پولیس والے ہوتے اور خاص طور پر اُن کو ایک شکوہ مرزا بشیرالدین صاحب کو ہے: ’’جہاں یوروپین پولیس والے نہیں ہوتے، باقی پولیس والے اتنا اِحتیاط نہیں کرتے تھے۔‘‘ تو میں یہ آپ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا وجہ تھی کہ مسلمان اتنے زیادہ اُن کی مخالفت کررہے تھے؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے نبوّت کا دعویٰ نہیں کیا، ایک محدث تھے، اور یہ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ دعویٰ کرنے سے پیشتر مسلمان اُن کی عزت کرتے تھے اور انہوں نے کافی خدمت کی۔ مگر جب اُنہوں نے یہ دعویٰ کیا مہدی کا اور مسیحِ موعود کا، یا نبی کا، تو اتنی سخت مخالفت ہوئی، اور آپ کہتے ہیں وہ دعوے کی کوئی مخالفت نہیں ہوئی، نہ اُس پر کوئی جھگڑا تھا، نہ اُس پر کوئی شک تھی، یہ سب ۱۴-۱۹۱۳ء کے بعد شروع ہوا۔
جناب عبدالمنان عمر: میری گزارش یہ ہے، میں عرض یہ کر رہا تھا کہ جب کسی شخص کی مخالفت ہو تو ضروری نہیں ہوتا کہ اُس مخالفت کے اسباب اُس شخص کی طرف سے پیدا کئے گئے ہوں، اور یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ وہ کوئی ایسا دعویٰ کر رہا ہو جو صحیح نہ ہو۔ اِس کے بعد میں نے یہ گزارش کی تھی کہ مرزا صاحب نے جب یہ دعویٰ کیا تو اس کی ایک ہسٹری ہے ہمارے پاس، اس کی ایک تاریخ ہے ہمارے سامنے۔ جنابِ والا! مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کی ایک کتاب کا حوالہ میرے سامنے رکھا ہے۔ میں بڑے ادب سے گزارش کروں گا کہ میں اُن کو کسی جہت سے بھی اس قابل نہیں سمجھتا ہوں کہ ان کی باتوں پر اِعتماد کیا جائے یا ان کی کسی کتاب کو بطور ریفرنس کے ایک مُسلّمہ……!
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، دیکھیں ناں، مرزا صاحب! میرا یہ مطلب نہیں ہے۔ میں نے کہا ممکن ہے کہ یہ غلط ہوگیا ہو۔ میں نے یہ کہا اور میں یہ کہتا ہوں کہ ہمارے 1605پاس کوئی اس کے علاوہ اور شہادت نہیں ہے جس کو یہ رَدّ کرے۔ ایک شخص موجود رہا ہے، باپ کے ساتھ جاتا رہا ہے، یہ بھی اپنے باپ کی عزت کرتا تھا، اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ جہاں بھی میرا والد جاتا گیا، لوگ اُن کو گالیاں دیتے تھے۔
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض کرتا ہوں کہ جب اُن کے والد فوت ہوئے، اُن کی عمر زیادہ سے زیادہ صرف اُنیس(۱۹) سال تھی اور جب کا یہ واقعہ بیان فرما رہے ہیں اُس وقت آپ اندازہ کرلیں کہ اُن کی عمر کیا ہوگی؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مگر یہ کہ ایک بچہ اگر آٹھ سال کا بھی ہو، دس کا بھی ہو، جو پولیس ہوتی ہے، پولیس پارٹی ہوتی ہے، اور اس کی اور جگہ بھی Evidence (شہادت) مل جاتی ہے کہ مرزا صاحب جب لیکچر پر جاتے تھے تو بہت ہی زیادہ پولیس کی ضرورت پڑتی تھی۔
جناب عبدالمنان عمر: تو میں گزارش یہ کر رہا تھا کہ جس کا ہمارے سامنے حوالہ دیا گیا، وہ ایک حجت نہیں ہے۔
دُوسری گزارش میں یہ کر رہا ہوں کہ جنابِ والا! حضرت مرزا صاحب ۱۳؍فروری ۱۸۳۵ء کو پیدا ہوئے۱؎ اور اس کے بعد یہ ۱۸۶۶ء سے ۱۸۶۸ء تک سیالکوٹ میں مقیم رہے۔ اُس وقت اُن کی پوزیشن یہ تھی کہ ’’زمیندار‘‘ اخبار کے مولانا ظفرعلی خان کے والد مولانا سراج الدین صاحب بھی اُس زمانے میں وہاں تھے۔ اُس کی شہادت اس بارے میں یہ ہے کہ مرزا صاحب نے ایک متقی اور پارسا اور دِین دار اِنسان کی سی زندگی بسر کی۔ مجھے اِجازت دیجئے گا، میں ذرا تھوڑی سی ہسٹری… اُن کی بات آپ نے کی ہے اس لئے مجھے Quote (حوالہ دینا) کرنا پڑ رہا ہے… اور وہیں علامہ اقبال کے اُستاذ شمس العلماء مولانا میرحسن صاحب اُس زمانے میں وہاں تھے۔ اُنہوں نے بھی جو شہادت مرزا صاحب کے کام کے بارے میں دی، وہ یہ تھی کہ وہ نہ صرف یہ کہ متقی، بزرگ اور پاکباز اِنسان تھے، بلکہ یہ کہ انہوں نے، اسلام کی اِشاعت کا اُن کو اتنا درد تھا کہ وہ اپنے اوقات کا بہت بڑا حصہ یا قرآن مجید کے 1606مطالعے میں صَرف فرماتے تھے، اور یا پھر وہ عیسائیوں وغیرہ کے مقابلے میں مناظرے کرکے اور اِسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے میں اپنے اوقات کو صَرف کرتے تھے۔ اِس کے بعد انہوں نے ۱۸۸۰ء سے لے کر ۱۸۸۴ء تک، یہ ان کی تصنیفی زندگی کا ایک باقاعدہ آغاز ہوتا ہے، اور انہوں نے اس میں وہ اپنی معرکۃالآرا کتاب لکھی جس میں سب سے زیادہ اُن کے اِلہامات اور پیش گوئیاں درج ہیں۔ یہ میں خاص طور پر جناب کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں اُنہوں نے اپنے بہت سے اِلہامات اور اپنی وحی کو بیان کیا ہے۔ یہ ہے جہاں سے نقطئہ آغاز ہونا چاہئے اُس شخص کی مخالفت کا۔ لیکن اس کے مقابلے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ لاہوری اور قادیانی دونوں کا جھوٹ پر اِتفاق ہے، یہ تاریخِ پیدائش غلط بیان کر رہے ہیں۔ خود مرزاقادیانی کتاب البریہ میں لکھتا ہے کہ: ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں میری پیدائش ہوئی۔ خوب تماشا۔۔۔! ’’نبی صاحب‘‘ فرماتے ہیں کہ میں ۴۰-۱۸۳۹ء میں پیدا ہوا، ’’اُمت‘‘ کہتی ہے نہیںجی، آپ ۱۸۳۵ء میں پیدا ہوئے۔ اچھا تھا پیدا ہی نہ ہوتے نہ اختلاف پڑتا!
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
میں واقعہ کیا ہے کہ اُس زمانے میں بڑے مقتدر لیڈر مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی، وہ بڑے زور سے… میں آپ کے اوقات کو زیادہ نہیں لوں گا اس میں… وہ اس کتاب کی اتنی تعریف کرتے ہیں اور اُس کو ایک تیرہ سو سال کا ایک کارنامہ بتاتے ہیں۔ اگر وحی اور اِلہام جس پر کہ مرزا صاحب نے، میں نے بتایا کہ اُن کا شروع سے لے کر آخر تک موقف جو رہا، اِس دعوے کا رہا، یہ دعویٰ ہے جو انہوں نے پہلے دِن پیش کیا، یہ دعویٰ ہے جو انہوں نے آخری دن تک پیش کیا۔ یہ دعویٰ اُس وقت موجود ہے، وحی اور اِلہام ہو رہا ہے اُن کے دعوے کے مطابق، اُس کو وہ شائع کر رہے ہیں، لیکن جو ایک بہت بڑا عالمِ دِین ہے، وہ اُس کی تعریف کرتا ہے…
(مولانا محمدحسین بٹالویؒ کے علاوہ کسی عالم دین کا ذکر کہیں سنا)
جناب یحییٰ بختیار: دیکھیں، سوائے اِس عالمِ دِین کے ہم نے کسی اور کا ذِکر نہیں سنا، کیا بات ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: جی؟
جناب یحییٰ بختیار: پہلے جو ربوہ گروپ آیا تھا، انہوں نے بھی بٹالوی صاحب کا ہی حوالہ دیا ہمیں کہ ’’براہین احمدیہ‘‘ کی اتنی بڑی تعریف کی۔
جناب عبدالمنان عمر: میں ایک اور بہت بڑے انسان کا نام۔۔۔۔۔۔
1607جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں کہتا ہوں کہ اُس پر ہمیں کوئی شک نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: نہیں، میں ایک اور بڑے انسان کا نام لے لیتا ہوں، شیخ الحدیث مولانا نذیر حسین۔
جناب یحییٰ بختیار: اِن کا بھی ذِکر کیا ہے، اِن کا بھی ذِکر کیا۔
جناب عبدالمنان عمر: یہ بھی شاید نام۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، انہوں نے ذِکر کیا۔
جناب عبدالمنان عمر: تو اِس لئے اُن لوگوں، انہوں نے بھی… میں اور شخص کا ذِکر…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، اس کی بات نہیں ہے۔ دیکھیں ناں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: میرا پوائنٹ یہ ہے اگر وہ دعویٰ اِس قابل تھا کہ لوگ اُس سے بھڑک اُٹھتے اور شروع سے لے کر اَخیر تک جہاں تک ہمارا۔۔۔۔۔۔
(مرزا کے دعویٰ نبوت کی بناپر مسلمان ان کے مخالف ہوگئے)
جناب یحییٰ بختیار: دیکھیں، دیکھیں، صاحبزادہ صاحب! ایک معمولی سی بات ہے، ایک کتاب لکھتا ہے ایک شخص بڑی محنت سے، چار سال لگتے ہیں، چار پانچ ان کے Volume ہیں، عام ملک میں ہمارے جو مسلمان ہیں، وہ پڑھے لکھے لوگ نہیں ہوتے۔ بہت کم لوگ پڑھتے ہیں۔ ویسے بھی اتنی بڑی کتاب کون پڑھیں گے؟ پانچ پڑھیں گے، دس پڑھیں گے، سو پڑھیں گے۔ تو لوگوں کو علم نہیں ہوتا تمہارا۔ ایک شخص یہ اِشتہار جاری کردیتا ہے کہ: ’’میں نبی ہوں!‘‘ تب لوگوں کو خیال آجاتا ہے کہ بھئی! کیا بات ہوگئی؟ تو میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ کیا بات ہوگئی کہ ایک دم ۔۔۔۔۔۔ ایک شخص نے خدمت بھی کی، میں آپ سے اِتفاق کرتا ہوں کہ عیسائیوں کے خلاف، آریہ سماجیوں کے خلاف مناظرے کئے، پمفلٹ لکھے، اِشتہار لکھے، خدمت کی انہوں نے اور مسلمان ان کی بڑی قدر کررہے تھے اور اچانک ایک دَم اتنے ان کے مخالف ہوگئے کہ ہر جگہ اُن کو گالیاں 1608پڑرہی ہیں، پولیس کی Protection (حفاظت) کیوں؟ اگر اُس شخص نے نبی کا دعویٰ نہیں کیا، ایسی کون سی بات تھی کہ جس سے مسلمان اتنے سیخ پا ہوگئے؟
جناب عبدالمنان عمر: میں گزارش یہ۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان ناراض نہیں ہوئے، تو اور بات ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی مخالفت نہیں ہوئی تو اور بات ہے۔ اگر آپ مانتے ہیں کہ اُس زمانے سے شروع ہوگئی اور بڑے زور سے شروع ہے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: میں جو گزارش کر رہا ہوں وہ یہ نہیں ہے کہ میں ان کی کتاب ’’براہینِ احمدیہ‘‘ کی کسی عظمت کا ذِکر کر رہا ہوں۔ میرا یہ موقف نہیں ہے۔ میرا موقف یہ ہے کہ مرزا صاحب کا دعویٰ شروع سے لے کر آخر تک ’ملہم من اللہ‘ ہونے کا تھا، مکالمہ مخاطبہ اِلٰہیہ کا تھا۔ اِس دعوے پر وہ پہلے دن آئے، اِس دعوے پر وہ ساری عمر رہے اور اِس دعوے پر انہوں نے اپنی زندگی کو ختم کیا۔ میرے گزارش کرنے کا منشا یہ ہے کہ اگر وہ معتقدات، اگر وہ دعوے، اگر وہ وحی، اگر وہ اِلہام، اگر وہ مکالمہ مخاطبہ اِلٰہیہ جس کا انہوں نے دعویٰ کیا تھا، اِس قدر اِشتعال انگیز تھا تو کم سے کم عوام نہ سہی… آپ کہتے ہیں کہ عوام نے نہیں پڑھا… میں تو اُس زمانے کے چوٹی کے علماء کا ذِکر کرتا ہوں، چوٹی کے لیڈروں کا ذِکر کرتا ہوں، اُس زمانے کی فعال جماعت کا ذِکر کرتا ہوں، کہ اُن لوگوں نے اُس کتاب کو دیکھا اور یہ نہیں کہ نظرانداز کردیا۔ اُس کتاب کو دیکھ کے انہوں نے اس پر تبصرے کئے، اُس کتاب کو دیکھ کر اپنے خیالات کا اِظہار کیا اور میں گزارش کروں کہ یہ وہ کتاب ہے جس کا ہزارہا کی تعداد میں اُس زمانے میں… اندازہ کیجئے ۱۸۸۰ء سے ۱۸۸۴ء تک کا زمانہ… اُس زمانے میں اِس کتاب کا ہزارہا کی تعداد میں انگریزی زبان میں اِشتہار شائع کیا گیا اور اُردو زبان میں شائع کیا گیا ہے اور اِس کے نسخے، مجھے پیچھے جب جانے کا اِتفاق ہوا، وہاں امریکا اور انگلینڈ 1609میں، تو وہاں کی لائبریریوں میں اُس زمانے کے بھی رکھے ہوئے نسخے موجود تھے۔ تو یہ چیزیں جو ہیں، یہ نہیں کہ یہ کتاب Unknown (غیرمعروف) رہی ہے، یہ نہیں کہ عوام کو اس کا علم نہیں ہوا ہے۔ یہ بڑے بڑے رُؤسا سے لے کر عام آدمی تک اور معمولی پڑھے لکھوں سے لے کر بہت بڑے علماء تک کی نظروں سے یہ کتاب گزری ہے، اور ان کا یہ دعویٰ، اور اِلہام اور وحی کا، اُس میں موجود ہے اور اس کو انہوں نے پڑھا ہے، اور اُس وقت اُن کو اِشتعال پیدا نہیں ہوا۔
اس کے بعد میں گزارش یہ کروں گا جناب! کہ ۱۸۹۳ء میں پنجاب کی سب سے بڑی دِینی جماعت انجمن حمایتِ اسلام اپنا ایک اِجلاس منعقد کرتی ہے، اور اس کی صدارت کے لئے کس کو چنتی ہے؟ انہی مرزا صاحب کے سب سے بڑے مرید مولانا نورالدین کو۔ وہ اُن کے جلسے کی صدارت کرتے ہیں، وہ اس میں قرآن مجید کی تفسیر بیان فرماتے ہیں۔ اُس میں وہ ایک بڑا تفصیلی لیکچر دیتے ہیں۔ اگر اُن کے خلاف یہی بات تھی کہ یہ لوگ کوئی جلسہ کرہی نہیں سکتے تھے یا عوام کو خطاب ہی نہیں کرسکتے تھے، اُن کی اتنی شدید مخالفت تھی کہ ان کے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھئے! میں مرزا صاحب کا کہہ رہا ہوں، آپ دُوسری طرف چلے جاتے ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: یعنی میں مرزا صاحب کی زندگی کی بات عرض کر رہا ہوں۔ اُن کے سب سے بڑے مرید کی بات کر رہا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، آپ مرید کی بات نہ کریں۔ آپ مرزا صاحب پر پہلے اگر رہیں تو بہتر ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: تو اُس وقت بھی یہ جماعت جو ہے اپنے معتقدات، اور مرزا صاحب اپنے معتقدات کے باوجود اس قسم کے کشتنی اور گردن زدنی نہیں قرار دئیے 1610گئے تھے۔ اس کے بعد میں عرض کرتا ہوں کہ ۱۸۹۶ء میں جلسہ مذاہب عالم ہوا، جس میں مرزا صاحب کا ایک مضمون پڑھا گیا۔ تو دیکھئے اگر اُس شخص کے دعوے ایسے تھے، اگر اُس کے معتقدات ایسے تھے تو ٹھیک ہے، مرزا صاحب نہ ہوں، مگر مرزا صاحب ہی کا مضمون سنایا جارہا ہے، مرزا صاحب ہی کے خیالات کو پھیلایا جارہا ہے، مرزا صاحب ہی کی Representation (تعبیر) جو اِسلام کی وہ دیتے ہیں، وہ بیان کی جارہی ہے۔ تو اگر اس قدر ہی وہ خیالات ایسے تھے جو برداشت نہیں ہوسکتے تھے تو واقعہ کیا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ اُس وقت وہ مضمون اس قدر دِلچسپی، اس قدر خاموشی کے ساتھ، اس قدر توجہ کے ساتھ سنا گیا کہ تمام لوگ جو ہیں وہ رطب اللسان تھے اُس کی خوبی کے۔ تو ایک شخص کافر ہو، بے اِیمان ہو، بہت بُرے عقائد رکھتا ہو، بہت بُرے خیالات اور دعوؤں کا اِظہار کر رہا ہو، مسلمان اُس کے خیالات کو اس طرح سنیں گے؟ یہ کہنا کہ اُن کو کسی جگہ Representation نہیں ہوتی تھی، اُن کے خیالات کو سننے کے لئے کوئی نہیں ہوتا تھا…
جناب یحییٰ بختیار: میں نے یہ پوچھا آپ سے، دیکھیں، صاحبزادہ صاحب! کہ یہ اُن کی مخالفت کیوں ہوئی؟ آپ یہ بتادیجئے۔
جناب عبدالمنان عمر: میں وہیں حاضر ہو رہا ہوں، وہی بات عرض کرنے لگا ہوں۔ تو اُس کے بعد ۱۹۰۰ء کا زمانہ آتا ہے۔ انگلینڈ سے ایک پادری لفرائے آتے ہیں۔ وہ پنجاب میں ایک طوفان مچاتے ہیں عیسائیت کی تبلیغ کا، اور وہ ایک سلسلۂ تقاریر شروع کرتے ہیں، ’’زِندہ نبی‘‘، ’’معصوم نبی۔‘‘ اس قدر مشکلات پیدا ہوتی ہیں لوگوں کو کہ پھر مرزا صاحب ہی کی طرف رُجوع کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آپ اِس کا مقابلہ کریں۔ چنانچہ اس شخص نے جو اپنا گڑھ بنایا تھا، وہ لاہور میں انارکلی کے لوہاری دروازے کی طرف کا جو گرجا ہے، وہاں انہوں نے شروع کیا اور اس کے بعد یہ شخص وہاں سے ایسا 1611بھاگا ہے اور مرزا صاحب نے اس کا اس قدر تعاقب کیا ہے کہ وہ وہاں سے کراچی گیا، بمبئی گیا، اور آخر وہ ملک چھوڑ کر چلا گیا اور دعویٰ وہ یہ لے کر آیا تھا کہ: ’’میں چند سال میں اس برصغیر کے مسلمانوں کو (نعوذباللہ) عیسائیت کی آغوش میں لے جاؤں گا۔‘‘ تو مرزا صاحب کو اُن لوگوں نے اپنا Representative بنایا۔ بعض لوگوں نے کہا، میں اِعتراف کرتا ہوں جنابِ والا! اس بات کا کہ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ کافر ہے اور یہ چیز پادری لفرائے نے پیش کی کہ جناب۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: جی، میں مان گیا کہ اُن کی کسی نے مخالفت نہیں کی! ابھی مجھے اگلا سوال پوچھنے دیجئے۔ میں مان گیا کہ کسی نے مخالفت نہیں کی اُن کی!
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، میں نے یہ نہیں کہا کہ کسی نے اُن کی مخالفت نہیں کی۔
جناب یحییٰ بختیار: میں اگلا سوال پوچھتا ہوں۔ اگر آپ نے ہر سوال کا اسی طرح سوال کا جواب دینا ہے تو بڑا مشکل ہوجائے گا، کیونکہ یہ ساری باتیں صاحبزادہ صاحب! ہم سُن چکے ہیں، ایک ایک مناظرے کا ہم سُن چکے ہیں، ایک ایک بحث سُن چکے ہیں، ایک ایک حوالہ اُن کا ہم پڑھ چکے ہیں۔ یہ پندرہ دن اسی میں گزرے۔ اسی لئے ہم آپ کو تکلیف نہیں دینا چاہتے تھے۔
جناب عبدالمنان عمر: وہ چونکہ خفیہ تھا اس لئے ہمیں علم نہیں تھا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں میں اس واسطے کہہ رہا ہوں کہ یہ اگر یہ۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: میں گزارش یہ کر رہا تھا کہ یہ میرا موقف نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: لاہور کے لیکچر اُن کے آگئے، باقی لیکچر آگئے، ایک ایک پادری ایک ایک ’’انجامِ آتھم‘‘ سارے کے سارے جو وعدے تھے جو ’’عبداللہ آتھم‘‘ نے کہا، یہ قصے ہم سُن چکے ہیں۔
1612جناب عبدالمنان عمر: میں وہ قصے نہیں سنا رہا ہوں، میں Stand آپ کو اپنا یہ…
جناب یحییٰ بختیار: میں نے صرف یہ سوال پوچھا کہ آخر اگر وہ۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ کہ اُن کی مخالفت کیوں ہوئی؟
جناب یحییٰ بختیار: … اُس زمانے میں وہ ہیرو تھے، ایک دَم اُن کی مخالفت ہوتی ہے…
جناب عبدالمنان عمر: اسی کے متعلق میں عرض کرنے لگا ہوں کہ میں گزارش یہ کر رہا تھا جنابِ والا! کہ اُن کی مخالفت کے لئے ضروری نہیں تھا کہ وہ کوئی ایسا عقیدہ پیش کرتے جس سے کہ مخالفت ہوتی، جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ یہ عقیدہ اور یہ اپنا موقف اور یہ اپنا مقام اُنہوں نے ’’براہین‘‘ کے زمانے میں بھی پیش کیا تھا۔
(مرزا صاحب کے زمانہ میں مسلمانوں سے سوشل تعلقات کیسے تھے؟)
جناب یحییٰ بختیار: بس ٹھیک ہے جی، ابھی میںایک اور سوال آپ سے یہ پوچھتا ہوں، میں پوچھ رہا تھا Actually کہ آپ کے سوشل تعلقات باقی مسلمانوں کے ساتھ… آپ نے کہا کہ احمدیہ فرقہ ایک علیحدہ فرقہ ہے اور ایسے ہی Census میں درج کیا گیا ۱۹۰۱ء میں۔ باقی مسلمان جو ہیں اُن کے ساتھ احمدی مسلمانوں کے کیا تعلقات رہے ہیں مرزا صاحب کے زمانے سے؟ آج کا میں نہیں کہتا کہ مرزا بشیرالدین۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: مرزا صاحب کے زمانے سے اُن کے تعلقات یہ رہے ہیں کہ مرزا صاحب کے سب سے بڑے بیٹے مرزا محمود احمد صاحب کی جو شادی ہوئی پہلی، وہ اپنے باپ کی دو بیٹیاں تھیں، اُن میں سے ایک بیٹی مرزا محمود احمد سے یعنی مرزا صاحب کے بڑے بیٹے سے بیاہی گئی، اور دُوسری بیٹی اُن کی خلیفہ اسداللہ صاحب، جو جماعت سے تعلق نہیں رکھتے تھے، اُن کے ساتھ بیاہی گئی اور یہ باپ جو تھا ان 1613بیٹیوں کا، وہ اس انجمن کے بانی ممبروں میں سے تھا، سب سے اِبتدائی جو چودہ ممبر اس انجمن کے مرزا صاحب نے قائم کئے تھے، وہ معمولی شخصیت کا آدمی نہیں تھا، بہت بڑی شخصیت کا آدمی تھا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ جماعت کا ممبر تھا؟
جناب عبدالمنان عمر: جماعت کا ممبر تھا، جماعت کا سرکردہ ممبر تھا۔ اُس کی ایک بیٹی ایک احمدی کے ساتھ بیاہی جاتی ہے، دُوسری بیٹی اُس کی دُوسرے احمدی کے ساتھ بیاہی جاتی ہے، غیراحمدی کے ساتھ جو جماعت میں شامل نہیں، اُس کا کوئی تعلق نہیں ہے، وہ اُس کے ساتھ بیاہی جاتی ہے۔ تو یہ کہنا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں میں تو پوچھتا ہوں، میں نے ابھی آپ سے پوچھا، میں نے ابھی کچھ کہا نہیں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: میں تو صرف گزارش کر رہا ہوں کہ واقعہ کیا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، تو آپ کو اس پر کوئی اِعتراض نہیں ہے کہ اگر کسی احمدی لڑکی کی شادی کسی غیراحمدی مسلمان سے ہو؟
جناب عبدالمنان عمر: محض اس بنیاد پر، کیونکہ شادیوں میں آپ جانتے ہیں کہ بہت سے خیالات، بہت سی چیزیں کفو کے سلسلے میں دیکھنی پڑتی ہیں۔ اس لئے یہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے، یہ کوئی دِینی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک سوشل مسئلہ ہے۔ جیسے ہم اور آپ شادیوں کے موقع پر اور بہت سی باتیں دیکھتے ہیں، اسی طرح ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کسی ایسی جگہ شادی نہ ہو کہ جس میں اُن کے گھریلو تعلقات، میاں اور بیوی کے، محض مذہبی عقائد کی وجہ سے خراب ہوجائیں۔ اس نقطئہ نگاہ سے تو ہم ضرور دیکھیں گے اور یہ ہر شخص کا اِنفرادی فعل ہوگا۔ لیکن اس لئے وہ مرزا صاحب کو نہیں مانتا، اور یہ اتنا بڑا جرم اُس کا ہوگیا، اُس وجہ سے شادی مت کرو، یہ Stand نہیں ہے ہمارا اور بہت سے 1614اس وقت بھی بہت سے ہمارے سرکردہ لوگ ہیں، اُن کی شادیاں جو ہیں وہ ایسے گھرانوں میں ہوئی ہیں جو مرزا صاحب کے ماننے والے نہیں ہیں، اُن کی لڑکیاں ایسے گھرانوں میں آئی ہیں، جو مرزا صاحب کو ماننے والے ہیں۔ تو یہ چیز مذہبی نقطئہ نگاہ سے نہیں ہے۔
اب لیجئے سوشل تعلقات میں سے جنازہ وغیرہ، اب رہ گیا جنازہ وغیرہ۔ یہ بھی ایک ٹھیک ہے، مذہبی حصہ ہے، لیکن اس کا بہت سا سوشل حصہ ہے۔ تو اس کے متعلق میں آپ کو گزارش کروں گا کہ مرزا صاحب کا اور ہماری جماعت کا موقف یہ ہے کہ ہم لوگ ۔۔۔۔۔۔ میں ایک خط کا فوٹواسٹیٹ آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور یہ لکھنے والا شخص اس جماعت کا بہت بڑا اِنسان یعنی مولانا نورالدین ہے، اور وہ الفاظ اپنے نہیں لکھتا بلکہ مرزا صاحب کا لکھتا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’جو مخالف نہیں اور شرارت نہیں کرتے اور للہ الکریم نماز پڑھتے ہیں اُن کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔‘‘ یہ الفاظ حضرت مرزا صاحب کے ہیں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ یہ میں نے مرزا صاحب کا ایک خط پیش کیا ہے۔