ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
جناب یحییٰ بختیار: آپ قادیان کس سال گئے؟ آپ نے فرمایا کہ آپ قادیان چلے گئے۔
مولانا صدرالدین: ۱۹۰۵ء میں۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ مرزا غلام احمد صاحب پر بیعت کب لائے؟
مولانا صدرالدین: ۱۹۰۵ء میں۔ (وقفہ)
اس بارے میں ایک امر گزارش کرتا ہوں کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب اس امر کی بیعت نہیں لیتے تھے کہ : ’’میں نبی ہوں۔‘‘ وہ صرف یہ بیعت لیتے تھے کہ: ’’میں اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق بسر کروں گا۔‘‘ اپنے دعویٰ کے متعلق قطعاً کوئی بات نہ کہتے تھے۔ اگر وہ نبی ہوتے تو ان کا فرض تھا کہ مجھے اِلقاء ۔۔۔۔۔۔۔ تلقین کرتے کہ: ’’مجھے نبی مانو۔‘‘ لیکن وہ نبی قطعاً نہ تھے۔
جناب یحییٰ بختیار: مولانا! میں۔۔۔۔۔۔۔
مولانا صدرالدین: ۔۔۔۔۔۔۔نبوّت محمد رسول اللہ پر ختم ہوگئی۔
جناب یحییٰ بختیار: مولانا! میں آپ سے اس بارے میں بعد میں سوال پوچھوں گا۔ ذرا آپ موقع دیجئے۔ (وقفہ)
آپ کی جماعت کے قادیانی جماعت سے اِختلافات کب ہوئے اور کس بات پر ہوئے؟
(Interruption)
Madam Acting Chariman: I would request the honourable members to keep their voice low.
(محترمہ قائمقام چیئرمین: میں معزز اراکین سے اِلتماس کروں گی کہ وہ اپنی آواز نیچی رکھیں)
جناب عبدالمنان عمر: اب ہم جواب کیسے۔۔۔۔۔۔۔
1519جناب یحییٰ بختیار: ہاں، آپ دے دیجئے، اُن کی طرف سے۔
جناب عبدالمنان عمر: سوال یہ کیا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ لاہور کے اِختلافات اُن لوگوں سے جو اس وقت ربوہ میں ہیں، کب شروع ہوئے؟ اس کے متعلق گزارش یہ ہے۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: اور کس بات پر ہوئے؟
جناب عبدالمنان عمر: اور کس بات پر ہوئے۔ اس کے متعلق گزارش یہ ہے کہ یہ اِختلافات ۱۹۱۴ء میں شروع ہوئے جبکہ اس جماعت کے مرزا صاحب کی وفات کے بعد پہلے سربراہ مولانا نورالدین کی وفات ہوئی۔ گو ذہنوں میں بعض لوگوں کے ممکن ہے کچھ خیالات ایسے ہوں، لیکن باقاعدگی کے ساتھ اس جماعت کے ساتھ اِختلاف کی بنیاد جو ہے وہ یہ تھی کہ یہ لوگ جو احمدیہ انجمن اِشاعتِ اسلام لاہور کے نام سے اس وقت روشناس ہیں، یہ کلیۃً اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے، جیسا کہ آپ نے ابھی مولانا صاحب سے سنا کہ انہوں نے جو مرزا صاحب کی بیعت کی تھی، وہ اس بات پر کی تھی کہ ہم اپنی زندگیوں کو اِسلام کے مطابق، قرآن مجید کے مطابق اور نبیوں کے سردار پاک محمد مصطفیﷺ کی ہدایات کے مطابق اور آپ کے اُسوہ کے مطابق بسر کریں گے۔ ہم نے اُن کو کبھی بھی نبی نہیں مانا، ہم نے کبھی بھی اُن کے دعوے کو نہ ماننے والوں کو کافر نہیں کہا، کبھی اُن کو دائرۂ اسلام سے خارج نہیں سمجھا اور کبھی بھی یہ پوزیشن اِختیار نہیں کی کہ کوئی نیا دِین ہے جو دُنیا میں Introduce کیا جارہا ہے۔ کبھی بھی یہ نقطئہ نگاہ نہ اپنے ذہنوں میں لیا، نہ دُنیا میں کبھی پیش کیا کہ ہم مرزا صاحب کو کوئی ایسا وجود تسلیم کرتے ہیں جس سے اسلام کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں رہتا، نبیوں کے سردارﷺ کی اُمت سے وہ باہر ہوجاتے ہیں، اور یہ کہ اُنہوں نے جو کچھ بھی پیش کیا ہے وہ محمد رسول اللہﷺ کی غلامی میں پیش کیا ہے اور ایک مستقل حیثیت سے جس سے ان کا دائرۂ کار اِسلام سے باہر ہوجائے، اس چیز کو نہ کبھی انہوں نے سمجھا، نہ اِختیار کیا، نہ اپنی جماعت کو یہ تلقین کی، نہ ان کے ماننے والوں میں 1520سے کسی شخص نے کبھی بھی ایسا خیال کیا۔
بنیادی طور پر یہ اِختلاف تین چیزوں پر مبنی تھا۔ ایک اِختلاف یہ تھا کہ نبیوں کے سردار پاک محمد مصطفیa، مرزا صاحب اور آپ کے ماننے والوں کے نزدیک ہر معنوں میں خاتم النّبیین تھے۔ کسی قسم کی نبوّت، اس کا کچھ نام رکھ لو، لیکن وہ ایک محمد مصطفیﷺ کی غلامی سے باہر چیز نہیں ہے، آپ کی تعلیمات سے باہر چیز نہیں ہے، قرآن مجید سے باہر وہ تعلیم نہیں ہے، اِسلام سے باہر وہ تعلیم نہیں ہے۔ ایک میں مرزا صاحب کا ایک شعر عرض کرتا ہوں جو اِن الفاظ میں ہے: ’’مسلماں را مسلماں باز کردن‘‘
یہ تھا ان کا مشن، یہ تھا ان کا کام اور یہ تھی ان کی تعلیم کہ مسلمانوں کو صحیح معنوں میں مسلمان بنادو اور ان کو قرآن مجید کے اُسوہ پر چلنے اور محمدﷺ کے اُسوہ پر چلنے کی تلقین کرو اور ایک ایسی خادمِ اِسلام جماعت پیدا کرو جو اپنے تن من دھن کو صرف اور صرف اسلام کی خدمت کے لئے لگادیں اور دُنیا میں محمد رسول اللہﷺ کے نام کی چمکار کو پھیلادیں۔ یہی مشن تھا۔
چنانچہ ۱۹۱۳ء میں سب سے پہلا اس جماعت نے مشن غیرممالک میں جو قائم کیا وہ ووکنگ میں تھا، جس کے سربراہ اس وقت خواجہ کمال الدین صاحب تھے۔ وہ شخص ایک Known Figure (معروف شخصیت) ہے دُنیا کی۔ اس شخص کے لیکچروں کی دُنیا میں دُھوم ہے۔ وہ کوئی گوشہ نشین شخص نہیں ہے، اس کے خیالات کچھ چھپے ہوئے خیالات نہیں ہیں۔ اس زمانے کے سارے اخبارات دیکھ لیجئے گا، اس زمانے کا سارا لٹریچر دیکھ لیجئے گا، اس زمانے کی اُن کی تقریروں کو دیکھ لیجئے گا، کسی جگہ بھی آپ کو یہ نقطئہ نگاہ نہیں ملے گا کہ یہ کوئی ایسا مشن ہے، یورپ میں، جو اِسلام سے الگ ہوکر کسی نئے دِین کو Preach کرنے کے لئے قائم کیا گیا ہو۔ خواجہ صاحب جب وہاں گئے، میں نے عرض کیا یہ سن ۱۹۱۳ء کی بات ہے۔ اس وقت تک جماعت بالکل اسی نقطئہ نگاہ پر قائم تھی کہ مرزا صاحب نبی نہیں ہیں، مرزا صاحب کا اِنکار موجبِ کفر نہیں ہے، مرزا صاحب کو ماننے سے اسلام کے دائرے سے 1521انسان خارج نہیں ہوجاتا، اور یہ کہ جو شخص بھی مرزا صاحب سے اپنے دامن کو وابستہ کرتا ہے، اس کا کام یہ ہے کہ اس کی زندگی کا مشن یہ ہے کہ جیسا کہ قرآن نے کہا ہے: (عربی)
کہ مسلمانوں کے اندر ایک جماعت ایسی پیدا ہونی چاہئے کہ جو اپنے آپ کو اِسلام کی خدمت کے لئے وقف کردیں، کہ یہ تحریک جو ہے صرف خدمتِ اسلام کی ایک تحریک تھی اور اس میں کسی نئے دِین کا، نئی رِسالت کا، نئے مذہب کا کوئی بھی کسی رنگ میں کوئی تصوّر نہیں تھا۔ تو پہلے اِختلاف کی بنیاد جو ہوئی وہ میں نے یہ عرض کی کہ مرزا صاحب کو ہم لوگوں نے کبھی بھی نہ اُن کی زندگی، نہ ان کی زندگی کے بعد، کسی ایک دور میں ان کو نبی اور رسول تسلیم نہیں کیا۔
دُوسرا اِختلاف اس بنیاد پر تھا کہ ہمارے نزدیک کوئی شخص، اس کا کتنا ہی بڑا مقام کیوں نہ ہو، وہ کتنے ہی بڑے دعوے لے کر کیوں نہ آئے، اس کا خدا سے کتنا ہی تعلق کیوں نہ ہو، لیکن اس کے باوجود وہ محمد رسول اللہﷺ کا کفش بردار ہی رہے گا، اس کے باوجود محمد رسول اللہa کا غلام ہی رہے گا، اس کے باوجود وہ دائرۂ اسلام کے اندر ہی رہے گا، اس کو کوئی نام دے لو، کیونکہ نام میں تو: (عربی)
ہر شخص اس کے لئے کوئی استعمال کرسکتا ہے۔
میں، آپ اس کے لئے کوئی اور لفظ استعمال کریں گے، اُردو میں اور کرلیں گے، کسی دُنیا کی اور زبان میں اس کے لئے کوئی اور ترجمہ کرلیں گے، تصوّر، حقیقت، اس کے پیچھے جو رُوح کارفرما ہوگی وہ یہ ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی بُرا کیوں نہ ہو، لیکن وہ محمد رسول اللہﷺ کی غلامی سے باہر نہیں جاسکتا اور یہی مرزا صاحب کا دعویٰ تھا کہ میں محمد رسول اللہ کا غلام ہوں۔
اب دیکھئے! جو شخص محمد رسول اللہ کا غلام ہے، اس کو ماننے اور نہ ماننے کا تعلق کیا ہے؟ انہوں نے کبھی بھی یہ نہیں کہا، کسی ایک دور میں یہ بات نہیں کہی کہ: ’’جو شخص میرے 1522دعوے کا اِنکار کرتا ہے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔‘‘ تو دُوسرا اِختلاف ہمارا یہ تھا کہ ہم مرزا صاحب کے دعوے پر اِیمان لانے کے باوجود، خود ان کو تسلیم کرنے کے باوجود ان کو یہ مقام نہیں دیتے تھے کہ وہ اسلام سے ہٹ کر، محمد رسول اللہﷺ کی غلامی سے نکل کر کوئی مستقل وجود نہیں جس کا ماننا اور نہ ماننا جزوِ اِیمان کے طور پر ہے۔ ہم ان کے ماننے کو جزوِ اِیمان تصوّر نہیں کرتے تھے۔
تیسرا اِختلاف ہمارا اُن کے ساتھ یہ تھا کہ مرزا صاحب نے یہی تلقین ہمیں کی تھی کہ جو شخص
لا اِلٰہ اِلَّا اللہ محمد رسول اللہ
کا اِقرار کرے، اعمال میں اس کے کتنا ہی سقم ہو، غلطیاں ہوں، معتقدات میں بھی اس سے کچھ قصور ہوں، وہ گنہگار ضرور ہے، وہ قابلِ مؤاخذہ ضرور ہے، وہ قابلِ گرفت ضرور ہے، لیکن وہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوجاتا۔ دُوسرے لفظوں میں ہم نے تکفیرالمسلمین کے نقطئہ نگاہ کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ یہ ہمارا تیسرا اِختلاف تھا ربوہ والوں کے ساتھ کہ ہم مسلمانوں کو، خواہ وہ کسی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں، وہ اہلِ سنت والجماعت سے تعلق رکھتے ہوں، وہ اہلِ تشیع سے تعلق رکھتے ہوں، وہ ان کے شکمی جو فرقے ہیں، ان سے تعلق رکھتے ہوں، کسی جہت سے، کسی رنگ میں بھی ہم اُن لوگوں کو دائرۂ اسلام سے خارج نہیں مانتے۔ نہ صرف یہ، بلکہ ہماری زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ اس بات میں صَرف ہوا ہے، ہم نے جو لٹریچر دُنیا میں پیدا کیا ہے، ہمارے بزرگوں نے جو لٹریچر دُنیا کو دِیا ہے، اس کا ایک بہت بڑا حصہ اس چیز پر صَرف ہوا ہے کہ مسلمانوں کی تکفیر سے اِجتناب کرو۔ اس سلسلے میں مجھے اِجازت دیجئے کہ میں آپ کو جماعت لاہور کا جو اس بارے میں تصوّر ہے، تکفیرالمسلمین کے بارے میں، وہ میں آپ کے سامنے پیش کروں۔
تکفیرالمسلمین کے سلسلے میں ہمارا مسلک یہ ہے، جس پر ہم، جیسا کہ میں نے عرض کیا، قولاً فعلاً آج سے نہیں، آج سے دس سال پہلے سے نہیں، ۱۹۵۳ء کے فسادات کے وقت سے، بلکہ اپنے آغاز سے لے کر اَب تک بڑی مضبوطی کے ساتھ، بڑے اِستحکام کے ساتھ قائم ہیں اور جو ہمارے منشور کا ایک بنیادی نکتہ ہے۔ جو اَخبارات ہمارے سلسلے 1523کی طرف سے شائع ہوتے ہیں، اس کے Heading پر ہم یہ لفظ لکھتے ہیں کہ: ’’ہم تکفیر المسلمین کو تسلیم نہیں کرتے‘‘
اور یہ ہمارے منشور کا ایک بنیادی نکتہ ہے کہ کسی کلمہ گو، اہلِ قبلہ کو دائرۂ اسلام سے باہر قرار دینا بڑی جسارت، بڑا بھاری جرم اور سخت گناہ کی بات ہے۔ اس سے اِتحادِ عالم اسلامی پارہ پارہ ہوجاتا ہے اور مسلمانوں کے دُشمنوں کے ہاتھ اس سے مضبوط ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (عربی)
کہ جو شخص شعائرِ اِسلامی کا اِظہار کرتے ہوئے تمہیں السلام علیکم کہے، اُسے یہ نہ کہو کہ تو مؤمن نہیں۔ حضرت نبی اکرمﷺ کی ایک حدیث ہے، صحیح بخاری اور مسلم میں موجود ہے، اور وہ متفق علیہ حدیث ہے کہ جسے کسی نے بھی غلط نہیں کہا: (عربی)
جو شخص اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے وہ کفر سزا کے طور پر ان دونوں میں سے ایک پر آپڑتا ہے، ۔ اسی طرح دُوسری ایک حدیث ہے: (عربی)
کہ اہلِ قبلہ کی تکفیر مت کرو۔ قرآن مجید کی آیات اور نبی اکرمﷺ کی احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول مسلمانوں کی تکفیر کو کس قدر ناپسند فرماتے ہیں اور اس جرم کی کیسی خطرناک سزا تجویز کی گئی ہے کہ جو شخص مسلمان کو کافر کہتا ہے وہ کفر اُلٹ کر اُس کہنے والے ہی پر آپڑتا ہے۔ اس قدر سخت سزا کیوں تجویز کی گئی؟ اس کی یہی وجہ ہے کہ تاآں مسلمان اس خطرناک طریق سے جو اِسلامی وحدت کو پارہ پارہ کردینے والا ہے، مجتنب رہے۔ حدیث میں ہے:
(عربی)
یہ بخاری کی حدیث ہے۔ یعنی: ’’جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے، ہمارے قبلے کی طرف منہ کرے، ہمارا ذَبیحہ کھائے، تو وہ مسلمان ہے، جس کے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلعم کی امان ہے۔‘‘
1524قرآن مجید اور اَحادیثِ رسول کے ان کھلے کھلے اِرشادات کے ہوتے ہوئے، یہ صحیح طریق نہیں کہ دُوسروں کے بارے میں موشگافیاں کرکے، بدظنیاں کرکے، متشابہات کے پیچھے پڑکے اور شکوک وشبہات سے کام لے کر اُنہیں کافر قرار دینے لگ جائیں۔ حضرت خاتم النّبیینﷺ فرماتے ہیں: (عربی)
یعنی قیامت کے روز اُمتِ محمدیہ کی کثرت میرے لئے وجہ فخر ہوگی۔ پس ایسا کوئی اقدام جس سے اُمتِ محمدیہ کا دائرہ سکڑتا ہو اور اُس سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں کی تعداد کم ہوتی ہو، دُرست طریق نہیں، ہم دُنیا میں یہ مؤمن بنانے کے لئے آئے ہیں، کافر بنانے کے لئے نہیں آئے۔
اُمتِ محمدیہ پر، ہمارا نقطئہ نگاہ یہ ہے، کہ بہت سے مصائب آئے، اندرونی فسادات ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے ہی میں مسلمانوں کے ایک گروہ نے بیت المال میں زکوٰۃ دینے سے اِنکار کردیا۔ حضرت عثمانؓ مسلمان کہلانے والوں کے ہاتھ شہید ہوئے۔ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان برادرانہ جنگیں ہوئیں، لیکن کیا پاک باطن وہ لوگ تھے۔ حضرت حیدرکرارؓ نے اس شدید مخالفت کے باوجود یہی فرمایا، جو ہمارے لئے اُسوۂ حسنہ کے طور پر ہے، کہ یہ ہمارے بھائی ہیں، جنہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے، ہم انہیں کافر نہیں کہتے۔ یہ اُس خلیفہ راشد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے جو ظاہری اور باطنی دونوں خلافتیں اپنے اندر جمع رکھتا تھا۔
جنابِ والا! یہ خوارج کی جماعت تھی جس نے سب سے پہلے مسلمانوں میں تکفیر کی بنیاد ڈالی۔ اس کے بعد تکفیربازی کے مشغلے نے اس قدر ترقی کی کہ بڑے بڑے اولیاء اور ربانی علماء بھی اس قسم کے فتوؤں سے نہ بچ سکے۔ اگر اس قسم کے فتوؤں کی بنیاد پر مسلمانوں کی مردُم شماری کی جائے تو پوری دُنیائے اسلام میں شاید ایک متنفس بھی ایسا نہیں ملے گا جسے دائرۂ اسلام میں شمار کیا جاسکے۔ تکفیر کے فتوؤں کی ارزانی دیکھنی ہو تو فتوؤں کے اُس انبار پر نظر ڈالئے جو حضراتِ مقلدین نے وہابیوں اور دیوبندیوں پر 1525لگائے ہیں۔ شیعہ حضرات سُنّیوں کے متعلق جو خیالات رکھتے ہیں، اُن کے بیان کی حاجت نہیں۔ بریلویوں اور بدایونیوں کے بارے میں حضراتِ اہلِ حدیث کے جو فتوے ہیں، اُن سے کون واقف نہیں۔ مختصر یہ کہ ہر فرقہ دُوسرے فرقے کے علماء کے نزدیک کافر ہے۔ ہم نہیں چاہتے…یہ بھی ہمارا مسلک ہے… ہم نہیں چاہتے کہ فتاویٰ کا وہ انبار آپ کے سامنے پیش کرکے آپ کے اوقاتِ گرامی کا حرج کریں۔ ایسے مہروں سے مزین فتوے جتنی تعداد میں آپ چاہیں، بازاروں میں آپ کو مل سکتے ہیں۔
محترمہ قائمقام چیئرمین: آپ سے تو پوچھا تھا کہ کس چیز پہ آپ کا اِختلاف ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: میں نے گزارش یہ کی ہے کہ ہمارا اِختلاف اس بات پر ہے کہ مسلمانوں کی تکفیر کرنی جائز نہیں ہے۔ جو شخص اس بارے میں ۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا مسلک وہی ہے جو حضرت اِمام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے کہ اگر کسی شخص میں ننانوے(۹۹) وجوہ کفر بھی پائے جائیں اور صرف ایک وجہ اِیمان آپ اُس میں دیکھیں تو تب بھی اُس شخص کو کافر نہ کہیں۔ یہ ہمارا اِختلاف ہے جو اہلِ ربوہ سے ہمیں ہوا۔ یہ میں اب تک آپ کی خدمت میں تین اِختلاف پیش کرچکا ہوں۔
چوتھا اِختلاف جماعتِ ربوہ کے ساتھ ہمارا یہ ہے کہ ہم لوگ مرزا صاحب کے بعد اُس قسم کی خلافت کو جو ربوہ میں پائی جاتی ہے، تسلیم نہیں کرتے۔ ہمارے نزدیک خلافت کا وہ انداز جو اپنے اندر ایک نبوّت کی خلافت کا رنگ رکھتا ہے، ہم اُس کو جائز نہیں سمجھتے۔ ہمارے نزدیک جو بھی خلافت ہے، وہ صرف شیوخ کی خلافت ہے، اور شیوخ کی خلافت ہی وہ چیز ہے جس پر ہم نے اپنے نظام کی بنیاد رکھی ہے۔ ہم لوگ نہ تو اس چیز کے قائل ہیں کہ کوئی ایسا نظام بنایا جائے جو سیاسی کام کرے۔ ہم جس چیز کو اپنے ہاں مانتے ہیں، وہ اس قسم کی خلافت کو قطعاً تسلیم نہیں کرتے کہ کوئی پارٹی انڈرگراؤنڈ ہوکر کوئی سیاسی کام کرے، یہ بھی ہمارے نزدیک ناجائز ہے۔ ہم خلافت اس معنوں میں بھی نہیں لیتے کہ وہ شخص غیرمأمور ہوکر، خطاؤں کا پُتلا ہوکر، ہزار غلطیوں کا مبدأ ہونے کے باوجود، اُس کی پوزیشن ایسی بنادی جائے کہ وہ سب پر حاکم ہے، اور جمہوریت کا قلع قمع 1526کردیا جائے۔ یہ بھی ہمارے نزدیک خلافت کا وہ مفہوم نہیں۔ تو یہ چوتھا پوائنٹ تھا جس پر ہمارا ربوہ والوں سے اِختلاف ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: مولانا! یہ فرمائیے، پہلے جو سب سے آخری بات آپ نے کی میں اُس پر آتا ہوں، پھر میں کچھ اور سوالات پوچھوں گا۔ آپ نے فرمایا کہ آپ ایسی خلافت کے خلاف ہیں جو کہ ڈکٹیٹرشپ کی ٹائپ کی ہو اور جو ایک ادنیٰ آدمی کو اتنا طاقت ور بنادے، جو ربوہ میں ہے۔ یہ آپ نے تجربے کی بنا پر کہا یا کس وقت آپ کو اس بات کا اِحساس ہوا؟ کس وقت وہ شخص بیٹھا جس نے ڈکٹیٹرشپ کی، جس کو آپ نے محسوس کیا اور آپ اُن سے مخالف ہوئے؟
جناب عبدالمنان عمر: جناب! پیش کروں؟
جناب یحییٰ بختیار: ہاںجی۔
جناب عبدالمنان عمر: جنابِ والا! ہمارے اس خیال کی بنیاد حضرت مرزا صاحب کی وصیت پر ہے۔ یہ وصیت ہے جو مرزا صاحب نے ۱۹۰۵ء میں اپنی جماعت کو کی۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں، میرا سوال آپ نہیں سمجھے۔ یہ اِختلاف کب پیدا ہوا؟ کس بات پر؟ کس تاریخ کو؟
جناب عبدالمنان عمر: ۱۹۱۴ء میں۔
جناب یحییٰ بختیار: ۱۹۱۴ء میں کون ڈکٹیٹر بیٹھا تھا جس نے آپ کو اس بات کا اِحساس دِلایا کہ یہ غلط قسم کی ڈکٹیٹرشپ کر رہا ہے اور آپ کو اس پارٹی سے جدا ہونا چاہئے؟
جناب عبدالمنان عمر: میری گزارش یہ ہے کہ ۱۹۱۴ء میں جبکہ مولانا نورالدین کی وفات ہوئی تو مرزا محمود احمد صاحب نے یہ موقف اِختیار کیا کہ جماعت کا ایک خودمختار ہیڈ (Head) ہونا چاہئے جو خلیفہ ہونا چاہئے۔ یہ ۱۹۱۴ء میں اُنہوں نے یہ بات کہی۔ ہم نے اس بات کو اس لئے تسلیم نہیں کیا کہ اُن کی ڈکٹیٹرشپ کے کچھ واقعات 1527ہمارے سامنے تھے، بلکہ ہم نے اُصولاً اس چیز کو رَدّ کردیا، کیونکہ مرزا صاحب نے جو ہمیں وصیت کی تھی، وہ یہ تھی کہ اُنہوں نے اپنے بعد ایک انجمن قائم کی تھی، اپنی زندگی ہی میں ایک انجمن کو قائم کردیا تھا اور کہا تھا یہ انجمن کثرتِ رائے سے اس جماعت کے معاملات کو سراَنجام دے۔