ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
جناب یحییٰ بختیار: الیکشن کب ہوا تھا اُن کا؟
جناب مسعود بیگ مرزا: مارچ ۱۹۱۴ء میں۔
جناب یحییٰ بختیار: تو اس دوران میں مولانا محمد علی نے اُس پہ بیعت۔۔۔۔۔۔
جناب مسعود بیگ مرزا: مولانا محمد علی صاحب نے بیعت نہیں کی، لیکن قادیان میں رہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، کیوں؟ کیونکہ ابھی تک وہ دفعہ نہیں تھی ختم۔
جناب مسعود بیگ مرزا: میں، میں عرض کرتا ہوں، وہ اس لئے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ گزارش کرلیجئے۔
جناب مسعود بیگ مرزا: میں آپ کے سامنے اُس زمانے کے اخبار ’’الہلال‘‘ کا ایک Quotation پیش کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: پہلے آپ جواب دے دیجئے۔
جناب مسعود بیگ مرزا: وہ اسی میں جواب ہے۔ جی، یہ الفاظ ہی اُس جواب کے ہیں:
’’اس عرصہ کے ۔۔۔۔۔۔ ایک عرصہ سے اس جماعت میں مسئلہ تکفیر کی بنا پر دو جماعتیں پیدا ہوگئی تھیں۔ ایک گروہ ۔۔۔۔۔۔۔ بنیاد مسئلہ تکفیر تھی۔۔۔۔۔۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: یہ کس سال کا ’’الہلال‘‘ ہے؟
جناب مسعود بیگ مرزا: یہ جناب ’’الہلال‘‘ کا حوالہ میں عرض کر رہا ہوں، ۲۰؍مارچ ۱۹۱۴ء کا ہے۔ میں نے اس لئے عرض کیا کہ اس میں اس سوال کا، غالباً شاید آپ کے سوال کا جواب آجائے:
1536’’جماعت ۔۔۔۔۔۔۔ ایک عرصہ سے اس جماعت میں مسئلہ تکفیر کی بنا پر دو جماعتیں پیدا ہوگئی تھیں۔ ایک گروہ کا یہ اِعتقاد تھا کہ غیراحمدی مسلمان نہیں گو وہ مرزا صاحب کے دعوؤں پر اِیمان نہ لائیں۔ لیکن دُوسرا گروہ صاف صاف کہتا تھا کہ جو لوگ مرزا صاحب پر اِیمان نہ لائیں، قطعی کافر ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! آخری جماعت کے رئیس صاحبزادہ بشیرالدین محمود ہیں۔ اس گروہ نے انہیں اب خلیفہ قرار دیا ہے۔ مگر پہلا گروہ تسلیم نہیں کرتا۔ مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے نے اس بارے میں جو تحریر شائع کی ہے اور جس عجیب وغریب جرأت اور دلاوری کے ساتھ قادیان میں رہ کر اِظہارِ خیال کیا ہے، جہاں پہلے گروہ کے رُؤساء نہیں، وہ فی الحقیقت ایک ایسا واقعہ ہے جو ہمیشہ اس سال کا ایک یادگار واقعہ سمجھا جائے گا۔‘‘
تو میری گزارش یوں ہے جی! اب آپ کے سوال کے جواب میں کہ اِختلاف کی بنیاد جو ہے وہ مسئلہ تکفیر تھی، وہ مسئلہ نبوّت تھی، اور مرزا محمود احمد صاحب کے یہ خیالات تھے کہ خلافت کو ایک ڈکٹیٹرانہ نظام کے ماتحت چلایا جائے۔ اس کے لئے وہ مولانا نورالدین کو بھی وقتاً فوقتاً یہ مشورہ دیتے رہے تھے کہ: ’’جناب! اس طرح نہ کیجئے، بلکہ خلافت کو پوری طرح اپنے ہاتھ میں لیجئے اور مالی معاملات کو بھی اپنے ہاتھ میں لیجئے۔‘‘
(مولانامحمدعلی نے حکیم نوردین کے ہاتھ پر بیعت کی تھی؟)
جناب یحییٰ بختیار: آپ یہ فرمائیے کہ مولانا محمد علی صاحب نے حکیم نورالدین کے ہاتھ پر بیعت کیا تھا؟
جناب مسعود بیگ مرزا: جی ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: تو پھر یہ کیوں اِعتراض کیا کہ چونکہ میں مرزا صاحب کے ہاتھ پہ بیعت کرچکا ہوں اس لئے مرزا بشیرالدین کی بیعت نہیں کروں گا؟ آپ فرما رہے تھے۔۔۔۔۔۔
جناب مسعود بیگ مرزا: میں، میں اس کے متعلق گزارش کروں گا، مولانا صاحب نے خود اس کا جواب دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ: ’’میں نے حضرت مرزا صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور اس کے بعد مولانا نورالدین کے ہاتھ پر 1537بیعت کی تھی۔ ان دونوں نے مجھے تکفیرالمسلمین کی کبھی تلقین نہیں کی تھی۔ مگر مرزا محمود احمد اس کی تلقین کرتے ہیں، اس لئے اس خیال کو رکھ کر میں ان کی بیعت میں شامل نہیں ہوسکتا۔ اگر مرزا صاحب، مرزا محمود صاحب اس خیال کو چھوڑ دیں تو ہمیں ان کی بیعت سے کوئی انکار نہیں۔‘‘ (وقفہ)
جناب یحییٰ بختیار: آپ نے فرمایا کہ تکفیر کا سلسلہ پہلے شروع ہوگیا تھا۔ ۱۹۰۶ء یا ۱۹۰۸ء یا۔۔۔۔۔۔۔
جناب مسعود بیگ مرزا: جی نہیں، ۱۹۰۶ء اور ۱۹۰۸ء میں نہیں، بلکہ مرزا صاحب کی وفات کے بعد۔
جناب یحییٰ بختیار: ۱۹۰۸ء کے بعد۔
جناب مسعود بیگ مرزا: جی آ۔
جناب یحییٰ بختیار: اور کس نے شروع کیا تھا یہ؟
جناب مسعود بیگ مرزا: یہ اصل میں یہ ایک بڑی تاریخی سی بحث ہے کہ اس کا آغاز کرنے والا کون شخص تھا؟ بظاہر جو معلومات ہمارے سامنے ہیں وہ ایک شخص ظہیرالدین اروپی تھا۔ اس نے ۱۹۱۱ء میں کچھ اس قسم کے خیالات کا اِظہار کیا اور مرزا صاحب کی نبوّت کو پیش کیا۔ اس سے غالباً… یہ تو محض قیاس آرائی ہے… اس سے غالباً مرزا محمود احمد صاحب نے یہ آئیڈیا مستعار لیا اور پھر اپنے خیالات کو اس کے سانچے میں ڈھال کر پھر اس بات کو آگے پھیلانا شروع کیا۔
جناب یحییٰ بختیار: میں آپ کی توجہ کچھ مرزا صاحب کے Followers (پیروکاروں) کی طرف دِلاؤں گا۔ پیشتر اس کے، کچھ سوال ایسے نہیں کہ ان کا اگر جواب دے دیں تو پھر آسانی ہوجائے گی۔ ’’کفر‘‘ سے کیا مراد ہے؟ میں آپ سے Simple (آسان) پوچھا ہوں کہ ’’اِنکار کرنے والا‘‘؟
1538جناب عبدالمنان عمر: جی، میں عرض کرنے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں سمجھتا ہوں، بے شک مطلب تو یہی ہے ناں؟
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، میں عرض کرتا ہوں۔ ’’کفر‘‘ کے لفظ کو دو طرح اِستعمال کیا گیا ہے اِسلامی لٹریچر میں، اور یہی دو طرز کا اِستعمال مرزا صاحب کے ہاں بھی پایا جاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص اِرادۃً تارک الصلوٰۃ ہوجائے، وہ کافر ہوتا ہے۔ لیکن اس کو اِصطلاحی کفر نہیں کہتے۔ اِصطلاح میں جو اس کے لئے لفظ ہے، مجھے معاف کیجئے گا، وہ ہے ’’کفر دُون کفر‘‘ عربی کے الفاظ ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ رہتا تو اِنسان دائرۂ اسلام کے اندر ہے، لیکن حقیقی طور پر وہ مسلمان نہیں ہوتا۔ اس کی جو رُوح ہے اسلام کی، اس پر پوری طرح وہ شخص کاربند نہیں ہوتا۔ ان معنوں میں بھی ’’کفر‘‘ کا لفظ۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: گنہگار ہوگیا ایک قسم۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ لیکن ’’کفر‘‘ کا جو حقیقی اِستعمال ہے، اس کے جو حقیقی معنے ہیں، وہ یہ ہیں کہ کوئی شخص محمد مصطفیﷺ کی رسالت سے اور کلمہ طیبہ لا اِلٰہ اِلَّا اللہ سے منکر ہوجائے۔ اصل میں اِصطلاحاً کفر صرف اور صرف ان معنوں میں اِستعمال ہوسکتا ہے۔
(قرآن کریم میں مذکور انبیاء کا منکر کافر نہیں ہوگا؟)
جناب یحییٰ بختیار: اگر کوئی شخص ان انبیاء کا اِنکار کرے جن کا ذِکر قرآن شریف میں ہے تو وہ کافر نہیں ہوگا؟
جناب عبدالمنان عمر: بات یہ ہے کہ قرآن مجید کے شروع میں آیا ہے کہ: (عربی)
کہ مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ محمد رسول اللہﷺ کی وحی پر بھی اِیمان لائے اور اس وحی کو بھی تسلیم کرے اور اِیمان لائے جو کہ آپ سے پہلے ہوچکی ہے، یہ بالکل شروع کے الفاظ ہیں۔
1539جناب یحییٰ بختیار: میں کہتا ہوں کہ جو انبیاء ہیں اللہ کے، جن کا ذِکر قرآن شریف میں ہے، ان پر اِیمان لانا بھی ضروری ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: اگر ان پر اِیمان نہ لایا جائے تو اِنسان کافر ہوجاتا ہے۔ اب یہ مسیحِ موعود، جو مرزا صاحب نے دعویٰ کیا تھا، آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مسیحِ موعود تھے؟
جناب عبدالمنان عمر: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: مسیحِ موعود بھی نبی تھے۔ مسیح؟
جناب عبدالمنان عمر: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ نبی تھے اللہ کے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ اور یہ ان کا دوبارہ آنا ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ ان کی نبوّت تو نہیں ختم ہوگئی اس دوران میں؟
جناب عبدالمنان عمر: جی، میری گزارش اس سلسلے میں یہ ہے کہ میں اس جماعت کا نقطئہ نگاہ بڑی وضاحت سے آپ کے سامنے رکھ دُوں۔ وہ یہ ہے کہ ہمارا اِعتقاد یہ ہے، جس کو ہم قرآن مجید اور اَحادیثِ نبویہ اور بزرگانِ اُمت کے اقوال سے ثابت کرتے ہیں، کہ وہ مسیح جو بنی اِسرائیل کی طرف سے رسولاً اِلیٰ بنی اِسرائیل کے مطابق مبعوث ہوئے تھے، وہ اپنی طبعی موت کے ساتھ فوت ہوچکے ہوئے ہیں اور یہ جو اَحادیث میں آتا ہے کہ آخری زمانے میں مسیحِ موعود کے رنگ میں۔۔۔۔۔۔
1540جناب یحییٰ بختیار: مولانا۔۔۔۔۔۔!
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ مسیح ناصری کا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ میں ایک عرض کروں گا کیونکہ اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ خواہ وہ جسمانی طور سے آئیں یا کسی اور صورت میں، وہ تو آپ کا اِختلاف ہے، وہ اس کی بات نہیں ہے۔ مگر اس سے اِنکار نہیں وہ آئے کسی نہ کسی شکل میں؟
جناب عبدالمنان عمر: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: تو جب جس شکل میں وہ آئیں، جسمانی طور پر آسمان سے اُترے یا کسی اور اِنسان کی شکل میں، جن میں وہ ساری خوبیاں ہوں، اس صورت میں وہ آئیں تو نبی تو ہوں گے کہ نہیں؟
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ میں پوچھ رہا ہوں۔
جناب عبدالمنان عمر: جی آ۔
جناب یحییٰ بختیار: کہ نبوّت ان کی ختم ہوجاتی ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، میں عرض کرتا ہوں، نبی اکرمﷺ نے مسیح کی آمدِثانی کا ذِکر کیا ہے اور صحیح مسلم کی حدیث کے الفاظ ہیں کہ: ’’وہ نبی اللہ ہوگا۔‘‘ لیکن اگر تو وہی مسیح آنا ہے، کیا اس نے حقیقی نبوّت کو لے کر آنا ہے؟ تو یہ محمد رسول اللہa کی ختمِ نبوّت کے منافی ہے۔ ہمارے رائے میں، ہمارے علم میں، ہمارے اِعتقاد کی رُو سے، جس شکل میں بھی اس مسیح نے آنا ہے، ہمارے نزدیک وہ بروزی رنگ ہے، کسی اور شخص کی شکل میں اُس نے آنا ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کے ذہن میں یہ ہے کہ اُسی مسیح نے آنا، تو محمد رسول اللہﷺ کے بعد کوئی شخص نبوّت کو لے کر نہیں آسکتا۔ حقیقی نبوّت اگر اس کو حاصل ہے تو ہمارے 1541نزیک وہ ختمِ نبوّت کا منکر ہے وہ شخص اور ہمارے نزدیک مرزا صاحب ۔۔۔۔۔۔ نبی اکرمﷺ کے بعد نہ پُرانا نبی آسکتا ہے نہ نیا نبی آسکتا ہے، لیکن کیونکہ نبی اکرمﷺ نے اس کے لئے ’’نبی اللہ‘‘ کا لفظ اِستعمال کیا ہے، اس لئے ہم اس عزت کے لئے جو اس پاک وجود کی ہمارے دِلوں میں ہے، ہم سمجھتے ہیں، اس سے مراد غیرحقیقی رنگ میں اس رنگ کی نبوّت ہے جس کو بعض اولیاء نے ’’انبیاء الاولیائ‘‘ کا نام دیا ہے۔ ایسی شکل میں تو وہ نبوّت آسکتی ہے۔ لیکن اپنے حقیقی معنوں میں، ان معنوں میں کہ محمدﷺ کے بعد ایک مستقل وجود آگیا، یہ ہمارے نزدیک جائز نہیں ہے اور ہم ایسی۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، اب تو، اب تو مولانا! سوال اب یہ ہوجاتا ہے کہ مرزا صاحب نے مسیحِ موعود کا دعویٰ کیا۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ اور آپ کہتے ہیں کہ ہاں، وہ مسیحِ موعود تھے اور یہ بھی آپ فرماتے ہیں کہ کسی قسم کے نبی وہ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کا لفظی کہیں، بروزی کہیں۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔ ظِلّی کہیں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں بالکل۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ مجازی کہیں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: میں، میں بڑی وضاحت سے عرض کروں گا، کسی قسم کی نبوّت کے ہم قائل نہیں۔ یہ جو ظِلّی اور بروزی ہیں، یہ نبوّت کی قسمیں نہیں ہیں، یہ غیرنبی کے لئے لفظ اِستعمال ہوئے ہوئے ہیں اور میں آپ کو۔۔۔۔۔۔
1542جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مرزا صاحب نے جو اپنے لئے ’’نبی‘‘ کا لفظ اِستعمال کیا ہے…
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، ان معنوں میں کیا جن معنوں میں پہلے لوگوں نے ’’نبی‘‘ کا لفظ بمعنی ’’محدث‘‘ اِستعمال کیا، یہی معنی مرزا صاحب نے لئے ہیں اور مرزا صاحب کی تحریر میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ تو تحریر میں آپ سے پوچھوں گا۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ تحریر آپ نے یہاں نقل کی ہوئی ہیں، وہ ہم آپ دیکھ چکے ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: جی۔ میں، میں گزارش آپ کے سوال کے سلسلے میں کر رہا تھا کہ وہ جو آنے والا ہے، اس کے بارے میں آپ لوگ کیا سمجھتے ہیں کہ وہ نبی ہوگا کہ نہیں ہوگا؟
جناب یحییٰ بختیار: فرمائیے۔
جناب عبدالمنان عمر: اس کے لئے گزارش یہ ہے کہ آنے والے مسیحِ موعود کا… یہ مرزا صاحب کی ایک کتاب ہے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: کس تاریخ کی ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: جی، یہ ’’انجامِ آتھم‘‘ ہے جی اس کا نام۔ اس میں فرماتے ہیں:
’’آنے والے مسیحِ موعود کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبانِ مقدس حضرت نبوی سے نبی اللہ نکلا ہے، وہ ان ہی مجازی معنوں کی رُو سے ہے جو صوفیا کرام کی کتابوں میں مسلم اور ایک معمولی محاورہ مکالمات الٰہیہ کا ہے۔ ورنہ خاتم النّبیین، خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا۔‘‘
1543یہ مرزا صاحب کی تحریر ہے جس سے واضح ہوگیا ہوگا کہ مرزا صاحب اور ہم ان کی اِقتدا میں آنے والے، مسیحِ موعود کے بارے میں ’’نبی اللہ‘‘ کا لفظ مجازی معنوں میں، غیرحقیقی معنوں میں، صرف ’’محدث‘‘ کے معنوں میں، صرف خدا کا ہم کلام ہونے والوں کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں، نبوّت کے حقیقی معنوں کی رُو سے کبھی استعمال نہیں ہوا۔