ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
(’’یہ خود کاشتہ پودا‘‘ مرزاقادیانی کے خاندان کی طرف اشارہ ہے؟)
جناب یحییٰ بختیار: مرزاصاحب! میں وہ… میں مرزاصاحب کا وہ خط پڑھ رہا تھا جو انہوں نے گورنمنٹ کو لکھا تھا۔ یہاں سوال یہ تھا کہ: ’’اس خودکاشتہ پودا کی نسبت نہایت ہی احتیاط اور تحقیق سے کام لیں اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائیں کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداریوں اور اخلاق کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت کی نظر سے دیکھیں۔‘‘ (خزائن ج۱۳ ص۳۵۰)آپ نے فرمایا کہ: ’’یہ خود کاشتہ پودا‘‘ مرزاصاحب کے خاندان کی طرف اشارہ ہے، جماعت کی طرف نہیں یا…
1187مرزاناصر احمد: یہ جو ہے ناں خط، یہ شروع سے اس طرح چلتا ہے: ’’بحضور نواب لیفٹیننٹ گورنر بہادر دام اقبالہ‘‘ اس کے… (وقفہ)
اگر اجازت ہو، میں ابھی… ذرا لمبا چلے گا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں صرف یہ کہتا تھا کہ آپ جب اس کے بارے میں کچھ Clarification (وضاحت) دیں تو میں یہ ’’پودا‘‘ جو ذکر آیا اس کا، تو میں اس وقت آپ سے پوچھ رہا تھا کہ یہ جماعت کی طرف اشارہ ہے یا خاندان کی طرف اشارہ ہے یا مرزاصاحب کی ذات کی طرف اشارہ ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ نہیں، یہ خاندان کی طرف اشارہ ہے۔ تو اس قسم کے مرزاصاحب مزید سوال یہ آجاتے ہیں کہ یہ آپ کا خاندان تو بڑا پرانا مغل خاندان ہے…
مرزاناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: … اور یہ سمرقند سے مرزاصاحب کے بزرگ آئے تھے۔ انگریز کا تو یہ ’’کاشتہ پودا‘‘ نہیں ہوسکتا۔ دوسرا یہ کہ مرزاصاحب کے بارے میں بھی نہیں کہہ سکتے کہ انگریز کا خود کاشتہ پودہ تھا…
مرزاناصر احمد: نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: … تو یہ صرف جماعت جو ہے انگریز کے دور میں…
مرزاناصر احمد: جماعت جو ہے، صرف اسی کے متعلق زیادہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ خود کاشتہ پودا نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، تو میں یہ کہتا ہوں، وہ جو کہہ رہے ہیں مرزاصاحب، یہ تو Process of Elimination (ختم کرنے کی کارروائی) ہے کہ ایک…
مرزاناصر احمد: اس کا جواب تو میں لمبا دے سکتا ہوں۔
1188جناب یحییٰ بختیار: … مغل خاندان جو ہے، اس کی فیملی سے تعلق ہے، اور یہ انگریز کی خود کاشتہ فیملی نہیں تھی، جو میں تھوڑا بہت پڑھ چکا ہوں…
مرزاناصر احمد: یہ اس کا جو ہے سارا شروع سے پڑھیں اگر، تو اس میں جواب ہے۔ اگر مجھے اجازت دیں تو میں جواب دے دیتا ہوں ورنہ۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی، میں صرف اپنا سوال Clarify (واضح) کرنے کے لئے عرض کر رہا ہوں کہ یہ جو ہے ناں ’’خود کاشت پودا‘‘ یہ خاندان پر نہیں۔ Apply (لاگو) ہوتا، اس وجوہات سے جو میں نے بتایا کہ مغل خاندان کی فیملی ہے، مشہور فیملی ہے، Well to do family (خوشحال خاندان) ہے۔ دوسرے یہ ہے…
مرزاناصر احمد: آپ وجہ لے رہے ہیں باہر سے، حالانکہ وجہ اس کے اندر موجود ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ آپ بتادیں گے ناں جی۔
مرزاناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: اور دوسرے یہ کہ مرزاصاحب پر بھی یہ نہیں ہوسکتا سوائے جماعت کے کہ ان کے زمانے میں یہ وجود میں آئی، انگریز کے زمانے میں اور یہ Implication ہے کہ انگریز نے بنائی یا بنوائی۔ اس کو دور کرنے کے لئے آپ Clarification (وضاحت) کر دیں۔
مرزاناصر احمد: جی، بالکل۔
جناب یحییٰ بختیار: اور ایک ساتھ ہی میں یہ عرض کروں گا کہ اسی خط میں مرزا صاحب فرماتے ہیں: ’’کہ میں باربار اعلان دے چکا ہوں کہ میرے بڑے بڑے پانچ اصول ہیں…‘‘ چار اصولوں کے بعد پھر وہ کہتے ہیں: ’’چوتھے یہ کہ اس گورنمنٹ محسنہ کی نسبت جس کے ہم زیرسایہ ہیں، یعنی گورنمنٹ انگلشیہ کوئی مفسدانہ خیالات دل میں نہ لانا اور خلوص دل سے 1189اس کی اطاعت میں مشغول رہنا۔‘‘
(خط بحضور گورنمنٹ ص۱۱، ملحقہ کتاب البریہ، خزائن ج۱۳ ص۳۴۸)
یہ اس پر آپ ذرا Clarification (وضاحت) دے دیجئے۔
مرزاناصر احمد: میں یہ…
جناب یحییٰ بختیار: کیسی یہ محسن تھی؟ کیا احسان تھے؟
مرزاناصر احمد: ہاں جی، یہ وہ میں… بالکل، بالکل۔ ہاں، ہاں میں کوشش کروں گا، جلدی ختم ہو جائے۔ یہ خط یہاں سے شروع ہوتا ہے…
جناب یحییٰ بختیار: یہ، مرزاصاحب! وہ دوسرا بھی جو ہے ناں…
مرزاناصر احمد: … وہ بھی ساتھ لے لیتے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ بھی آج… اس وقت آپ نے کہا تھا کہ اس میں کچھ کافی لمبا جواب ہے…
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: … تو اس پر بھی مجھے خیال نہیں تھا، صبح پوچھنا تھا، تاکہ… ٹائم کم رہ گیا ہے۔ اس کا بھی آنا ضروری ہوگا۔
مرزاناصر احمد: وہ میں ابھی اس کے بعد شروع کر دیتا ہوں: ’’چونکہ مسلمانوں کا ایک نیا فرقہ جس کا پیشواء اور امام اور پیر یہ راقم ہے، پنجاب اور ہندوستان کے اکثر شہروں میں زور سے پھیلتا جاتا ہے اور بڑے بڑے تعلیم یافتہ، مہذب اور معزز عہدہ دار اور نیک نام رئیس اور تاجر پنجاب اور ہندوستان کے اس فرقہ میں داخل ہوتے جاتے ہیں اور عموما…‘‘
جناب یحییٰ بختیار: یہ شروع سے آپ پڑھ رہے ہیں؟
مرزاناصر احمد: ہاں جی، شروع سے۔ ویسے میں بیچ میں چھوڑتا جاؤں گا: ’’… اور عموماً پنجاب کے شریف مسلمانوں کے نو تعلیم یاب جیسے بی۔اے، 1190ایم۔اے اس فرقے میں داخل ہیں اور داخل ہورہے ہیں اور ایک گروہ کثیر ہوگیا ہے جو اس ملک میں روز بروز ترقی کر رہا ہے۔ اس لئے میں نے یہ قریب مصلحت سمجھا کہ اس فرقہ جدیدہ اور نیز اپنے تمام حالات سے جو اس فرقے کا پیشوا ہوں، حضور گورنر بہادر کو آگاہ کروں اور یہ ضرورت اس لئے بھی پیش آئی کہ یہ ایک معمولی بات ہے کہ ہر ایک فرقہ جو ایک نئی صورت سے پیدا ہوتا ہے، گورنمنٹ کو حاجت پڑتی ہے کہ اس کے اندرونی حالات دریافت کرے اور بسااوقات ایسے نئے فرقے کے دشمن اور خود غرض، جن کی عداوت اور مخالفت ہر ایک نئے فرقہ کے لئے ضروری ہے۔ گورنمنٹ میں خلاف واقعہ خبریں پہنچاتے ہیں اور مفسد یا نہ مخبریوں سے گورنمنٹ کو پریشانی میں ڈالتے ہیں۔ پس چونکہ گورنمنٹ عالم الغیب نہیں ہے، اس لئے ممکن ہے کہ گورنمنٹ عالیہ ایسی مخبریوں کی کثرت کی وجہ سے کسی قدر بدظنی پیدا کرے یا بدظنی کی طرف مائل ہو جائے۔ لہٰذا گورنمنٹ عالیہ کی اطلاع کے لئے۔ چند ضروری اور ذیل میں لکھتاہوں:
۱… سب سے پہلے میں یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ میں ایک ایسے خاندان میں سے ہوں جس کی نسبت گورنمنٹ نے ایک مدت دراز سے قبول کیا ہوا ہے کہ وہ خاندان اوّل درجے پر سرکار دولت مدار انگریزی کا خیرخواہ ہے۔ (وہ خاندان) چنانچہ چیف کمشنر بہادر…‘‘
آگے وہ چٹھیوں کی جو تاریخیں ہیں، وہ بڑی اہم ہیں۔ ایک تاریخ ہے… اس سے پہلے میں یہ بتادوں کہ آپ کا دعویٰ ۱۸۹۱ء کا ہے۔ Eighteen ninety one (۱۸۹۱) یہاں جو خط ہے اس کی تاریخ پہلے کی ہے۔ Eighteen fifty- eight (۱۸۵۸) اٹھارہ سو اٹھاون دوسرے کی ہے۔ 1191۱۸۷۶ء June اور تیسرے کی ہے ۱۸۴۹ئ۔ تو یہ خاندان کے متعلق ہے۔ اس عمر میں ایک نوجوان کی حیثیت سے زندگی گزار رہے تھے اور آپ کا ان خاندانی حالات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پہلے کی ہیں یہ ساری چٹھیاں یہاں یہ بتایا کہ گورنمنٹ ہمیشہ سے یہ جانتی ہے، خطوط آئے ہوئے ہیں ان کے، کہ ہم مفسدنہیں، امن پسند ہیں۔ خاندانی لحاظ سے، اپنے متعلق نہیں ابھی بات شروع ہوئی:’’دوسرا اور قابل گزارش یہ ہے کہ میں ابتدائی عمر سے اس وقت تک جو قریباً ساٹھ برس کی عمر تک پہنچا ہوں، اپنی زبان اور قلم سے اس اہم کام میں مشغول ہوں تاکہ مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی محبت اور خیرخواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں اور ان کے بعض کم فہموں کے دلوں سے غلط خیال جہاد (جہاد کا غلط خیال ہے اس کو) کو دور کروں…‘‘
جہاد کے خلاف نہیں، جہاد کے غلط خیال کو دور کروں:’’…جوان کو دلی صفائی اور مخلصانہ تعلقات سے روکتے ہیں اور اس سلسلے میں…‘‘
نمبردو کے نیچے آپ لکھتے ہیں عربی اور فارسی اور اردو میں تالیف کر کے ممالک اسلامیہ کے لوگوں کو بھی مطلع کیا کتابیں بھیج کر: ’’…عربی اور فارسی اور اردو میں تالیف کر کے، ممالک اسلامیہ کے لوگوں کو بھی مطلع کیا۔ ان کو یہ اطلاع دی کہ ہم لوگ کیونکر امن اور آرام اور آزادی سے گورنمنٹ انگلشیہ کے سایہ عاطفت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور ایسی کتابوں کے چھاپنے اور شائع کرنے میں ہزارہا روپیہ خرچ کیاگیا۔ مگر بایں ہمہ میری طبیعت نے کبھی نہیں چاہا کہ ان متواتر خدمات کا اپنے حکام کے پاس ذکر بھی کروں۔ کیونکہ میں نے کبھی صلہ اور انعام کی خواہش سے نہیں بلکہ ایک 1192حق بات کو ظاہر کرنا اپنا فرض سمجھتا اور درحقیقت وجود سلطنت انگلشیہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے ایک نعمت تھی جو مدت دراز کی تکلیفات کے بعد ہم کو ملی۔ اس لئے ہمارا فرض تھا کہ اس نعمت کا باربار اظہار کریں۔ ہمارا خاندان سکھوں کے ایام میں ایک سخت عذاب میں تھا… ہماری اور تمام پنجاب کے مسلمانوں کی (سکھوں کے زمانے میں ہماری اور پنجاب کے تمام مسلمانوں کی) دینی آزادی کو بھی روک دیا۔ ایک مسلمان کو بانگ نماز پر مارے جانے کا اندیشہ تھا۔ (اور کئی ایسے واقعات ہوئے کہ اذان دی اور ان کو قتل کر دیا گیا) چہ جائیکہ اور رسوم عبادات آزادی سے بجا لاسکتے۔ پس یہ اس گورنمنٹ محسنہ کا ہی احسان تھا کہ ہم نے اس جلتے ہوئے تندور سے خلاصی پائی۔ (جو سکھوں کا تھا) خدا تعالیٰ نے (وہ سکھوں کے اس عذاب سے کہ اذان دینا بھی بند ہوگیا تھا چھڑانے کے لئے) ایک ابر رحمت کی طرح اس گورنمنٹ کو ہماے آرام کے لئے بھیج دیا۔‘‘ اور پھر آگے وہ سارے وہ احسانات وغیرہ کا ذکر کر کے:
’’مگر میں جانتا ہوں…‘‘ یہ اس پیرا کے آخر میں ہے، تین سطریں اوپر: ’’…مگر میں جانتا ہوں کہ وہ اسلام کی اس اخلاقی تعلیم سے (وہ جو بعض ان پڑھ مسلمان ہیں اور غلط خیال جہاد کا رکھتے ہیں وہ اسلام کی اس اخلاقی تعلیم سے بھی) بے خبر ہیں جس میں یہ لکھا ہے کہ جو شخص انسان کا شکر نہ کرے وہ خدا کا شکر بھی نہیں کرتا۔‘‘ یعنی اپنے محسن کا شکر کرنا ایسا فرض ہے جیسا کہ خدا کا:
’’یہ تو ہمارا عقیدہ ہے۔ مگر افسوس کہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اس لمبے سلسلہ اٹھارہ برس کی تالیفات کو جن میں بہت سی پر زور تقریریں اطاعت 1193گورنمنٹ کے بارے میں ہیں کبھی ہماری گورنمنٹ محسنہ نے توجہ سے نہیں دیکھا اور کئی مرتبہ میں نے یاد دلایا مگر اس کا اثر محسوس نہیں ہوا۔ لہٰذا میں پھر یہ یاد دلاتا ہوں کہ مفصلہ ذیل کتابوں اور اشتہاروں کو توجہ سے دیکھا جائے اور وہ مقامات پڑھے جائیں (یہ بڑا اہم ہے۔ وہ ساری کتابیں جہاد کے متعلق نہیں ہیں) اور وہ مقامات پڑھے جائیں جن کے نمبر صفحات میں نے ذیل میں لکھ دئیے ہیں…‘‘
پہلی دو… دو صفحے ساری کتاب کے ’’براہین احمدیہ‘‘ حصہ سوم، بڑی کتاب ہے۔ اس میں صرف دو صفحے لکھے ہوئے ہیں اس کے متعلق، اور وہ بھی جہاد کی حقیقت جو آپ سمجھتے تھے اس کے متعلق ’’براہین احمدیہ‘‘ حصہ چہارم چار صفحے اور یہ ’’نوٹس دربارہ توسیع دفعہ ۲۹۸‘‘ اور کتاب ’’آریہ دھرم‘‘ اس کے ہیں کوئی چھ، سات صفحے اور آگے ہے ’’التماس‘‘ یہ اشتہار ہے۔ اس کے چار صفحے اور پھر آگے اشتہار۔ ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ بڑی موٹی کتاب ہے اتنی بڑی کتاب کئی سو صفحے کی چھ سات سو صفحے کی ہے، چھ سو صفحے کی کتاب میں سے سترہ سے بیس تک، یہ کہ ہوگئے چار، اور پانچ سو گیارہ سے اٹھائیس تک، یہ ہو گئے ستاراں، یہ سارے یہ صفحے ہیں۔ اعلان درکتاب ’’نورالحق‘‘ تیئس سے چوّن صفحے تک اور کتاب ’’شہادت القرآن‘‘ یہ چند صفحے ہیں۔ ’’نور الحق‘‘ حصہ دوم انچاس، پچاس صرف دو صفحے ہیں ساری کتاب کے۔ ’’سر الخلافہ‘‘ صفحہ اکہتر، بہتر، تہتر۔ یہ بھی پہلے ضروری نہیں کہ پہلے صفحے سے، اکہتر سے شروع ہو، اس کے صفحے کے کسی حصے سے شروع ہے اور تہتر کے کسی حصے میں ختم ہوگیا۔ ’’اتمام الحجہ‘‘ پچیس سے، اسی طرح تین صفحوں کے اندر یہ آگیا اور اسی طرح ان کتابوں کے، جو ہزاروں صفحات پر مشتمل ہیں، یہ سارے صفحے مل کے سو بھی نہیں بنتے۔
1194جناب یحییٰ بختیار: یہ ’’تحفہ، قیصریہ‘‘ تمام کتاب اور بھی ہیں، تمام کتابیں بھی ہیں اس کے بعد۔
مرزاناصر احمد: ’’تحفہ قیصریہ‘‘ کتنے صفحوں کی کتاب ہے؟ یہ پچاس صفحے کی کتاب بھی نہیں اور اس کا تمام کتاب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام کتاب ہی یہ ہے مطلب یہ ہے کہ یہ مضمون پھیلا ہوا بیان ہوا ہے۔ مختلف جگہوں پر، اس واسطے علیحدہ علیحدہ صفحات نہیں لکھے گئے اور یہ اصل یہ کتا ب کا مضمون ہے، ملکہ وکٹوریہ کو یہ دعوت کہ تم اسلام کو قبول کرو اور اسلام کی حقانیت پر اس کو دلائل دئیے گئے ہیں اور اس میں ساتھ یہ بھی، شکریہ بھی ادا کیاگیا ہے۔ اشتہار سمیت اس کے ہاں، اشتہار وغیرہ ملا کے یہ ۲۴ صفحے ہیں اور یہ بھی اب غلطی ’’تحفہ قیصریہ‘‘ کے متعلق پیدا ہوگئی ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مرزاصاحب! میں تو اس پر، Detail (تفصیل) میں تو آپ سے پوچھ رہا تھا کہ مرزاصاحب خود کہتے ہیں کہ: ’’اتنا میں نے لکھا ہے کہ پچاس الماریاں بھر جاتی ہیں۔‘‘
مرزاناصر احمد: میں آجاتا ہوں، میں اس طرف آتا ہوں۔ ٹھیک ہے، اس طرف آجاتا ہوں مطلب یہ ہے کہ اس اشتہار سے ایک غلط تاثر بعض لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوا۔ تو ہر ایک کے ہو جاتا ہے۔ اس کی میں وضاحت کر رہا ہوں۔ ان کتابوں کے دیکھنے کے بعد ہر ایک شخص۔ اس نتیجے پر پہنچتا ہے، جو آپ نے لکھا ہے وہ یہ ہے: ’’کیا اس کے حق میں یہ گمان ہوسکتا ہے کہ وہ اس گورنمنٹ محسنہ کا خیرخواہ نہیں۔ جو شکایتیں جا رہی تھیں گورنمنٹ کے پاس اور میں دعویٰ سے گورنمنٹ کی خدمت میں اعلان دیتا ہوں کہ یہ جورپورٹیں بھیجی جارہی ہیں کہ یہ مہدی سوڈانی کی طرح ایک فتنہ پیدا کرنے والا اور بغاوت کرنے 1195والا گروہ ہے یہ غلط ہے اور ہمارا جو یہ ہے جہاد کا جو صحیح تصور، عین اسلامی، وہ جماعت کے لوگوں میں پیدا کیا گیا ہے اس لئے ایسی گورنمنٹ کے خلاف جنہوں نے سکھوں کے مظالم سے مسلمانوں کو نجات دلائی یہ غداری نہیں کریں گے۔‘‘
(پھر اسی کے اندر آجاتا ہے) ڈلیسی پادریوں کے نہایت دل آزار حملے اور توہین آمیز کتابیں جن کے متعلق لکھتے ہیں: ’’یہ کتابیں درحقیقت ایسی تھیں کہ اگر آزادی کے ساتھ ان کی مدافعت نہ کی جاتی اور ان کے سخت کلمات کے عوض میں کسی قدر مہذبانہ سختی عمل میں نہ آتی تو بعض جاہل تو جلد تر بدگمانی کی طرف جھک جاتے ہیں۔ سارے یہ خیال کرتے کہ گورنمنٹ کو پادریوں کی خاص رعایت ہے۔ مگر اب ایسا خیال کوئی نہیں کر سکتا اوربالمقابل کتابوں کے شائع ہونے سے وہ اشتعال جو پادریوں کی سخت تحریروں سے پیداہونا ممکن تھا اندر ہی اندر دب گیا اور لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ ہماری گورنمنٹ عالیہ نے ہر ایک مذہب کے پیروں کو اپنے مذہب کی تائید میں عام آزادی دی ہے جس سے ہر ایک فرقہ برابر فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ پادریوں کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔‘‘
اور اس میں پھر اگلے پیرے میں ہے۔ ’’امہات المؤمنین‘‘ کا ذکر جو نہایت ہی گندی اور فحش کتاب تھی اور بڑی بھڑکانے والی تھی اور یہ بتایا کہ: ’’میں نے یہ سختی اس لئے کی ہے کہ وہ لوگ جو زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں، ان کے… جوش میں آجاتے ہیں ان کا تدارک کیا جاسکے۔‘‘ پھر آگے لکھتے ہیں، اسی نمبر۲ کے نیچے، کہ:1196 ’’لیکن اسلام کا مذہب مسلمانوں کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی مقبول القوم نبی کو برا کہیں۔ بالخصوص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت جو پاک اعتقاد عام مسلمان رکھتے ہیں اور جس قدر محبت اور تعظیم سے ان کو دیکھتے ہیں۔ وہ ہماری گورنمنٹ پر پوشیدہ نہیں۔ میرے نزدیک ایسی فتنہ انگیز تحریروں کے روکنے کے لئے بہتر طریق یہ ہے کہ گورنمنٹ عالیہ یا تو یہ تدبیر کرے کہ ہر ایک فریق مخالف کو ہدایت فرمائے کہ وہ اپنے حملہ کے وقت تہذیب اور نرمی سے باہر نہ جاوے اور صرف ان کتابوں کی بناء پر اعتراض کرے جو فریق مقابل کی مسلم اور مقبول ہوں اور اعتراض بھی وہ کرے جو اپنی مسلم کتابوں میں وارد نہ ہوسکے اور اگر گورنمنٹ عالیہ یہ نہیں کر سکتی تو یہ تدبیر عمل میں لاوے کہ یہ قانون صادر فرمادے کہ ہر ایک فریق صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیا کرے اور دوسرے فریق پر ہرگز حملہ نہ کرے۔ میں دل سے چاہتا ہوں کہ ایساہو اور میں یقینا جانتا ہوں کہ قوموں میں صلح کاری پھیلانے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی تدبیر نہیں…‘‘
’’تیسرا امر جو قابل گزارش ہے وہ یہ ہے کہ میں گورنمنٹ عالیہ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ فرقہ جدیدہ جو برٹش انڈیا کے اکثر مقامات میں پھیل گیا ہے جس کا میں پیشوا اور امام ہوں۔ گورنمنٹ کے لئے ہر گز خطرناک نہیں (جو رپورٹیں جارہی تھیں) اور اس کے اصول ایسے پاک اور صاف اور امن بخش اور صلح کاری کے ہیں کہ تمام اسلام کے موجودہ فرقوں میں اس کی نظیر گورنمنٹ کو نہیں ملے گی جو ہدایتیں اس فرقہ کے لئے میں نے مرتب کی ہیں، یعنی جن کو میں نے ہاتھ سے لکھ کر اور چھاپ کر ہر ایک مرید کو دیا ہے، ان کو اپنا دستور العمل رکھے، وہ ہدایتیں میرے اس رسالہ میں مندرج ہیں جو ۱۲؍جنوری ۱۸۸۹ء میں چھپ کر عام مریدوں میں شائع ہوا ہے جس کا نام 1197تکمیل تبلیغ مع شرائط بیعت جس کی ایک کاپی اسی زمانہ میں گورنمنٹ میں بھیجی گئی تھی… یہ سچ ہے کہ میں کسی ایسے، مہدی، ہاشمی، قریشی، خونی کا قائل نہیں ہوں۔ جو دوسرے مسلمانوں کے اعتقاد میں (یہاں سارے مسلمان نہیں مراد وہی مراد ہیں جن کا یہ اعتقاد تھا) بنی فاطمہ میں سے ہوگا اور زمین کو کفار کے خون سے بھر دے گا۔ میں ایسی حدیثوں کو صحیح نہیں سمجھتا اور محض ذخیرہ موضوعات جانتا ہوں۔ ہاں، میں اپنے نفس کے لئے اس مسیح موعوود کا ادّعا کرتا ہوں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح غربت کے ساتھ زندگی بسر کرے گا اور لڑائیوں اور جنگوں سے بیزار ہوگا اور نرمی اور صلح کاری اور امن کے ساتھ قوموں کو اس سچے ذوالجلال خدا کا چہرہ دکھائے گا جو اکثر قوموں سے چھپ گیا ہے۔ میرے اصولوں اور اعتقادوں اور ہدایتوں میں کوئی امر جنگ جوئی اور فساد کا نہیں ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔‘‘ یہاں مسئلہ جہاد سے وہ مراد نہیں جو صحیح مسئلہ ہے، بلکہ وہ مراد ہے جس کے متعلق پہلے آیا ہے کہ غلط مسئلہ جہاد بعض ذہنوں میں پھیلا ہوا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: آگے Explain (واضح) کر دیتے…
مرزاناصر احمد: ہاں جی۔
جناب یحییٰ بختیار: آگے خود Explain (واضح) ہو جاتا ہے۔
مرزاناصر احمد: آگے خود Explain (واضح) ہو جاتا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’… کیونکہ مجھے مسیح…‘‘
1198مرزاناصر احمد: ’’اوّل یہ کہ خداتعالیٰ کو واحدہ، لاشریک (اپنے اصول بتائے ہیں) اوّل یہ (میرے جو اصول ہیں، میرے بڑے اصول پانچ ہیں) اوّل یہ کہ خداتعالیٰ کو وحدہ لاشریک اور ہر ایک منقفت موت اور بیماری اور لاچاری اور درد اور دکھ اور دوسری نالائق صفات سے پاک سمجھنا۔ (اور یہ جو فقرہ جو ہے یہ بڑی کاری ضرب لگاتا ہے۔ عیسائی مذہب اوران کے خیالات پر… یہ میں اپنی طرف سے کہہ رہا ہوں) دوسرے یہ کہ خداتعالیٰ کے سلسلہ نبوت کا خاتم اور آخری شریعت لانے والا اور نجات کی حقیقی راہ بتلانے والا حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفیٰa کو یقین رکھنا۔ تیسرے یہ کہ دین اسلام کی دعوت محض دلائل عقلیہ اور آسمانی نشانوں سے کرنا اور خیالات غازیانہ اور جہاد اور جنگ جوئی کو اس زمانے کے لئے قطعی طور پر حرام اور ممتنع اورایسے خیالات کے پابند کو…‘‘
سید عباس حسین گردیزی: … متعلق اور یہ بہت ساری باتیں ہوتی جاتی ہیں جو موضوع سے باہر ہوکر بیان فرمارہے ہیں۔
Mr. Chairman: You may contact the Attorney- General as decided on the very first day.
(جناب چیئرمین: آپ جیسا کہ پہلے روز فیصلہ ہوا تھا، اٹارنی جنرل سے رابطہ کریں)
جناب یحییٰ بختیار: بیٹھ جائیے۔
مرزاناصر احمد: میں شروع کر دوں؟
جناب یحییٰ بختیار: کر دیجئے۔
مرزاناصر احمد: ’’… اور باغیانیہ اور خیالات غازیانہ اور جہاد اور جنگ جوئی کو اس زمانے کے لئے قطعی طور پر حرام اور ممتنع سمجھنا… چوتھے یہ کہ اس گورنمنٹ محسنہ 1199کی نسبت جس کے ہم زیرسایہ ہیں یعنی گورنمنٹ انگلشیہ کوئی مفسدانہ خیالات دل میں نہ لانا۔ (مفسدانہ خیالات) اور خلوص دل سے اس کی اطاعت میں مشغول رہنا Law Abiding (امن پسند) پانچویں یہ کہ بنی نوع انسان سے ہمدردی کرنا اور حتی الوسع ہر ایک شخص کی دنیا اور آخرت کی بہبودی کے لئے کوشش کرتے رہنا اور امن اور صلح کاری کا مؤید ہونا اور نیک اخلاق کو دنیا میں پھیلانا۔‘‘
یہ پانچ اصول ہیں جن کی اس جماعت کو تعلیم دی جاتی ہے۔ چوتھے… میں نے چھوڑ دیا بیچ میں سے:
۴… چوتھی گزارش یہ ہے کہ جس قدر لوگ میری جماعت میں داخل ہیں اکثر ان میں سے سرکار انگریزی کے معزز عہدوں پر ممتاز یا اس ملک کے نیک نام رئیس اور ان کے خدام اور احباب اور یا تاجر اور یاوکلاء یا نو تعلیم یافتہ انگریزی خوان اور یا ایسے نیک نام علماء اور فضلاء اور شرفاء ہیں جو کسی سرکار انگریزی کی نوکری کر چکے ہیں یا اب یا نوکری پر ہیں یا ان کے اقارب رشتہ دار اور دوست ہیں…
۵… میرا اس درخواست سے، جو بحضور کی خدمت میں مع اسماء مریدین روانہ کرتا ہوں، مدعا یہ ہے کہ اگرچہ میں ان خدمات خاصہ کے لحاظ سے جو میں نے اور میرے بزرگوں نے محض صدق دل اور اخلاص اور جوش وفاداری سے سرکار انگریزی کی خوشنودی کے لئے کہی ہیں، عنایت خاص کا مستحق ہوں۔ لیکن یہ سب امور گورنمنٹ عالہ کی توجہات پر چھوڑ کر باالفعل ضروری استغاثہ کہ مجھے متواتر اس بات کی خبر ملی ہے کہ بعض حاسد بداندیش جو بوجہ اختلاف عقیدہ یا کسی اور وجہ سے مجھ سے بغض اور عداوت رکھتے ہیں یا جو میرے دوستوں کے دشمن ہیں، میری نسبت 1200اور میرے دوستوں کی نسبت خلاف واقعہ امور گورنمنٹ کے معزز حکام تک پہنچاتے ہیں۔ اس لئے اندیشہ ہے کہ ان کے ہر روز کی مفتریانہ کارروائیوں سے گورنمنٹ عالیہ کے دل میں بدگمانی پیدا ہو کہ وہ تمام جانفشانیاں پچاس سالہ میرے والد مرحوم… اور میرے حقیقی بھائی… اور جن کا تذکرہ سرکاری چٹھیات… میں ہے۔ سب کو ضائع اور برباد نہ جائیں اور خدا ناخواستہ سرکار انگریزی اپنے ایک قدیم وفادار خیرخواہ خاندان کی نسبت کوئی تکدر خاطر اپنے دل میں پیدا کرے۔ اس بات کا علاج تو غیرممکن ہے کہ ایسے لوگوں کا منہ بند کیا جائے کہ جو اختلاف مذہبی کی وجہ سے یا نفسانی حسد اور بغض اور کسی ذاتی غرض کے سبب سے جھوٹی مخبری پر کمربستہ ہو جاتے ہیں۔ صرف یہ التماس ہے کہ سرکار دولتمدار ایسے خاندان کی نسبت (جن کی گواہیاں ہیں پہلے مان رہے سرکار انگریزی ایسے خاندان کی نسبت)… ایک وفادار جانثار خاندان ثابت کر چکی ہے۔ (جو چٹھیاں جو ہیں) (ایک جانثار خاندان ثابت کر چکی ہے) اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیرخواہ اور خدمت گزار ہیں…
… اس میں خود کاشتہ پودا خاندان کے متعلق کہا ہے۔ بڑا واضح ہے یہاں۔ اس خاندان کے اس حصہ کے متعلق جس کے لئے اپنے ایک الہام میں یہ کہا کہ تیرے آباؤ اجداد سے تیرا تعلق قطع کر دیا جائے گا اور تیرے سے شروع کیا جائے گا:
یہ یہ ’’خود کاشتہ پودا‘‘ بڑے واضح الفاظ ہیں یہ کہ صرف اپنے خاندان کے لئے کہا ہے۔ اپنے لئے یا جماعت کے لئے نہیں کہاگیا۔
1201’’… وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیرخواہ اور خدمت گزار ہیں۔ اس خود کاشتہ پودا کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق سے کام لے۔ لہٰذا ہمارا حق ہے کہ ہم (اگلا صفحہ) کہ ہم خدمات گزشتہ کے لحاظ سے سرکار دولت مدار کی پوری عنایات اور خصوصیت توجہ کی درخواست کریں(اور درخواست یہ ہے) کہ تاہر ایک شخص بے وجہ (اتنی درخواست ہے سارے اشتہار میں) تاہر ایک شخص بے وجہ ہماری آبروریزی کے لئے دلیری نہ کر سکے…‘‘ آگے وہ نام ہیں۔ اگلا میں اگلا… تین ہیں ناں۔ یہ لے لیں۔ دوسرا…
جناب یحییٰ بختیار: میں اس پہ جی کچھ…
مرزاناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: … پوچھتا ہوں کیونکہ ابھی تک وہ جو ہے ناں جی، آپ نے لفظ ’’جماعت‘‘ نہیں پڑھا: ’’… (اس واسطے وہ) مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کے راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا اور نہ اب فرق ہے۔ لہٰذا ہمارا حق ہے کہ ہم خدمات گذشتہ کے لحاظ سے سرکار دولت مدار کی پوری عنایات اور خصوصیات کی توجہ سے درخواست کریں تاکہ ہر ایک شخص بے وجہ ہمارے آبروریزی کے لئے دلیری نہ کر سکے۔ اب کسی قدر اپنی جماعت کے نام ذیل میں لکھتا ہوں…‘‘
(خط بحضور گورنر ص۱۳، ملحقہ کتاب البریہ، خزائن ج۱۳ ص۳۵۰)
ان ساروں کے نام بھی دے رہے ہیں۔
1202مرزاناصر احمد: جی، ’’خصوصی عنایات‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ہماری کوئی بے عزتی نہ کرے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ تو ٹھیک ہے…
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: یعنی ’’ہماری‘‘ سے یہاں مطلب ان کے خاندان کی بھی ہوسکتی ہے اور یہ جماعت کی بھی، کیونکہ دونوں استعمال کر رہے ہیں…
مرزاناصر احمد: نہیں، نہیں…
جناب یحییٰ بختیار: … اور خاندان کی لسٹ نہیں دے رہے، جماعت کی لسٹ دے رہے ہیں۔
مرزاناصر احمد: آپ نے صحیح فرمایا۔
جناب یحییٰ بختیار: میں، دیکھیں ناں اس واسطے…
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں۔ آپ نے صحیح فرمایا۔ لیکن جہاں ’’خود کاشتہ‘‘ لکھا، وہ صرف اپنے اس خاندان کے متعلق لکھا جس سے منقطع ہوچکے ہیں آپ۔
جناب یحییٰ بختیار: تو ٹھیک ہے جی۔ نہیں، میں اس واسطے…
مرزاناصر احمد: لیکن یہاں، دیکھیں ناں، یہاں ’’پوری عنایات اور خصوصیات سے توجہ کی درخواست‘‘ اور درخواست یہ ہے کہ ’’بے وجہ ہمارے آبروریزی کے لئے کوئی شخص دلیری نہ کرے۔‘‘ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں مانگا۔
جناب یحییٰ بختیار: میں تو یہی… مرزا صاحب! مجھے تعجب اس بات کا تھا، جو میں صبح عرض کر رہا تھا، کہ آپ اس گورنمنٹ کو محسن گورنمنٹ کہتے ہیں کہ یہاں قانون ہے، انصاف ہے…
1203مرزاناصر احمد: (اپنے وفد کے ایک رکن سے) وہ کہاں ہے رسالہ؟
جناب یحییٰ بختیار: … یہاں انصاف ہے، قانون ہے، اس کے بعد اتنی زیادہ ان کو بتانے کے لئے کہ ہمارے خاندان نے اتنی خدمت کی ہے، اس کے لئے خدا کے لئے ہماری آبروکو بچایا جائے۔ یہ گورنمنٹ اس قابل تھی کہ اس کی تعریف کی جاتی کہ وہاں اتنی منتوں کے بعد، خوشامدوں کے بعد یہ کہا جائے کہ بھئی! ہمیں پروٹیکشن دیجئے؟
مرزاناصر احمد: ہم… اس کے علاوہ اور کچھ ہے ہی نہیں یہاں…
جناب یحییٰ بختیار: تو یہ تو اس گورنمنٹ… وہ گورنمنٹ اس قابل نہیں کہ جس کی کہ اطاعت کرو۔ یہ تو ڈیوٹی تھی اس گورنمنٹ کی، فرض تھا گورنمنٹ کا کہ ہر ایک Citizen (شہری) کی…
مرزاناصر احمد: یہ تو حکومتیں اپنے فرضوں کو کبھی کبھی بھول بھی جایا کرتی ہیں۔ ہمیشہ ہی…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں یہ کہہ رہاہوں۔ ہمیں ان حالات کا اندازہ نہیں۔ ممکن ہے کہ وہ ایسے حالات سے گزرے ہیں اور کیا ہوا ہے۔ میں اس میں نہیں کہہ رہا کچھ…
مرزاناصر احمد: وہ تو اگر وہ اس وقت کوئی ہوں ناں تو بتائیں گے آپ کو کہ سکھ کس قدر مظالم ڈھایا کرتے تھے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی، وہ تو ٹھیک ہے، میں ہسٹاریکل بیک گراؤنڈ میں سمجھ رہا ہوں۔ میں اس واسطے کہہ رہا ہوں کہ یہ چیزیں جن سے تعجب ہوتا ہے…
مرزاناصر احمد: صرف یہ مطالبہ کیا ہے کہ بے وجہ آبرو ریزی پر دلیری نہ دکھایا کریں، اور بے وجہ آبروریزی پر دلیری، جھوٹی مخبری ہے جو حکومت کو کی جارہی تھی۔
1204جناب یحییٰ بختیار: یہاں ایک…
مرزاناصر احمد: یہ اگر اجازت ہو تو میں ایک رسالہ بھی…
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی، فائل کر دیجئے۔
مرزاناصر احمد: … داخل کروانا چاہتا ہوں اس میں، اسی میں اور دوسروں کے حوالے بہت سارے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے، دے دو جی۔
یہ مرزاصاحب! یہ خزائن ج۱۳ ص۳۴۰ پر…
مرزاناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: اسی خط کے ص۳۴۰ پر کتاب میں جو خط ہے…
مرزاناصر احمد: جی (اپنے وفد کے ایک رکن سے) نکال لیں۔
جناب یحییٰ بختیار: … کیونکہ آپ نے کچھ Portion (حصہ) پڑھا ہے تو میں آپ کی توجہ کچھ اور Portions (حصوں) کی طرف دلانا چاہتا ہوں…
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’…جن کی وجہ سے وہ نہایت بے وقوفی سے اپنی گورنمنٹ محسن کے ساتھ ایسے طور سے صاف دل اور سچے خیرخواہ نہیں ہوسکتے تھے جو صاف دلی اور خیرخواہی کی شرط ہے۔ بلکہ بعض جاہل ملاؤں کے ورغلانے کی وجہ سے شرائط اطاعت اور وفادری کا پورا جوش نہیں رکھتے تھے… (شرائط اطاعت اور وفاداری کا پورا جوش نہیں رکھتے تھے)… تو میں نے نہ کسی بناوٹ اور ریاکاری سے بلکہ محض اس اعتقاد کی تحریک سے جو خداتعالیٰ کی طرف سے میرے دل میں پڑی زور سے باربار اس بات کو مسلمانوں 1205میں پھیلایا ہے کہ ان کو گورنمنٹ برطانیہ کی، جو درحقیقت ان کی محسن ہے، سچی اطاعت اختیار کرنی چاہئے۔‘‘ مرزاصاحب! میرا جو سوال تھا صبح…
مرزاناصر احمد: جی۔
(مرزاقادیانی نے انگریز کی اطاعت کے لئے سب کچھ کیا)
جناب یحییٰ بختیار: … اس کے لئے میں نے کافی وقت لیا ہے اور پھر میں اس طرف آنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ یہ ایک خط اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ جو بھی عیسائیوں نے اسلام پر حملے کئے اور آنحضرتﷺ کی شان میں گستاخیاں، لیکن انہیں مرزاصاحب نے جواب جہاد کے جذبے میں یا ایمان کے جوش میں نہیں دئیے۔ بلکہ انگریز کی اطاعت اور ان کی گورنمنٹ کو برقرار رکھنے کے لئے، امن برقرار رکھنے کے لئے، وحشی مسلمانوں کا جوش ٹھنڈا کرنے کے لئے، اس لئے انہوں نے یہ سب کچھ کیا۔ یہ میرا سوال تھا۔
مرزاناصر احمد: نہیں، اس میں بھی یہی لکھا ہوا ہے جو میں نے ابھی بتایا ناں، آپ یہ لکھتے ہیں، یہ اسی میں جہاں آپ نے پڑھا ہے ناں ، اس سے چند سطریں پہلے: ’’اور اس ارادہ اور قتل کی اوّل وجہ یہی ہے کہ خداتعالیٰ نے مجھے بصیرت بخشی اور اپنے پاس سے مجھے ہدایت فرمائی تاکہ میں ان وحشیانہ خیالات کو سخت نفرت اور بیزاری سے دیکھوں جو بعض نادان مسلمانوں کے دلوں میں مخفی تھے…‘‘
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی، ٹھیک ہے، وہ…
مرزاناصر احمد: ’’… اور جہاد کی جو اصل تعلیم ہے اسلام کے اندر اس کا پرچار کروں۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: اسلام کی تعلیم یہ ہے۔ جہاد کی کہ انگریز کی اطاعت کرو، سچے دل سے کرو، محبت سچے دل سے انگریز کی کرو؟ یہ باربار کہہ رہے ہیں۔
مرزاناصر احمد: ہاں، اس زمانہ کے…
1206جناب یحییٰ بختیار: وہ ہسٹاریکل بیک گراؤنڈ ہوگا اس کا۔
مرزاناصر احمد: بات یہ ہے کہ ہم نے سکھوں کے مظالم نہیں سہے…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ درست فرمارہے ہیں آپ…
مرزاناصر احمد: … اس زمانہ کے لوگ، بڑے بڑے سمجھدار علماء چوٹی کے جوتھے ناں، جو اس تندور میں پڑ کے باہر نکلے تھے، ان سب نے یک زبان ہوکر خداتعالیٰ کا شکرادا کیا کہ اس نے اس عذاب سے ہمیں نجات دلائی۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزاصاحب! آپ بجا فرماتے ہیں میں اس کو Question (سوال) نہیں کرتا، سکھوں نے بڑا ظلم کیا، اس میں کوئی Dispute (تنازعہ) نہیں ہے، اذانیں بند کرائیں، اس میں کوئی Dispute (تنازعہ) نہیں ہے۔ انگریز کی حکومت اس کے بعد آئی۔ وہ انصاف کی گورنمنٹ تھی سکھوں کے مقابلے میں، اس میں Dispute (تنازعہ) نہیں ہے۔ سوال میرا صرف اتنا تھا کہ ایک جو مشنریوں کے خلاف کیا، کس جذبے سے کیا تاکہ یہ اچھی گورنمنٹ ہے، اس کو مضبوط کیا جائے، یہ جذبہ تھا، اس کی اطاعت کی جائے۔
دوسری بات کہ وہ مہدی ہیں۔ مہدی آتے ہیں۔ مہدی نے سور کو ختم کرنا، قتل کرنا ہے، صلیب کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے۔ یہ انگریز کہ صلیب لے کر آیا اور سور کو پالنے والا آیا اور سور کو کھانے والا آیا۔ کہتے ہیں اس کی اطاعت کرو اور ایران تک، افغانستان تک، مصر تک ان ہی کا پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں تو یہ کہتے ہیں یہ مہدی اور اس مہدی میں کتنا فرق ہے۔ یہ چیز میں لارہا ہوں۔ آپ کے سامنے۔ یہ جو تھا ناں…
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں آپ پھر وہ واپس دے سکتے ہیں ذرا، ہاں، رسالہ، یہ جو میں نے ابھی داخل کروایا تھا۔ اس میں نواب صدیق محسن خان صاحب نے ’’مواحد الفوائد‘‘ میں… وہاں یہ حوالہ ہے ان کا… نہایت خوبی اور تحقیق سے بیان فرمایا ہے: 1207’’اور جیسے اور کتابیں ہندوستان سے لے کر مصر اور استنبول تک اور پشاور سے لے کر تہران تک تقسیم ہوگئیں ویسے ہی یہ کتاب بھی جابجا پہنچے گی۔‘‘ یعنی یہی ہے، جہاد کی مخالفت اور انگریز کی اطاعت میں۔ اصل بات یہ ہے کہ جس وقت ہم زمانہ کے لحاظ سے اس Context (سیاق وسباق) سے جدا ہو جاتے ہیں تو ہمارے لئے مشکل ہو جاتا ہے۔ ان باتوں کا سمجھنا۔
(مرزاقادیانی عوامی نبی نہیں تھے، بلکہ بڑے بڑے لوگوں کو پسند کرتے تھے)
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ میں آپ سے Agree (اتفاق) کرتا ہوں۔ کیونکہ… (یہاں) میں نے ایک اور چیز نوٹ کی، میں نے توجہ نہیں دلائی… کیونکہ مجھے کچھ غیب معلوم ہوتا ہے کہ جب مرزاصاحب کہتے ہیں: ’’چوتھی گزارش یہ ہے کہ جس قدر لوگ میری جماعت میں داخل ہیں اکثر ان میں سے سرکار انگریزی کے معزز عہدے پر ممتاز اور اس ملک کے نیک نام، رئیس اور ان کے خدام اور احباب اور یا تاجر اور وکلاء اوریا نو تعلیم یافتہ انگریزی خوان اور یا ایسے نیک نام علماء اور فضلاء ہیں…‘‘ (خطبہ بحضور گورنر ص۱۲، ملحقہ کتاب البریہ، خزائن ج۱۳ ص۳۴۸،۳۴۹)
مطلب یہ ہے کہ یہ عوامی نبی نہیں تھے، بڑے بڑے آدمیوں کو ہی پسند کرتے تھے کہ ان کے ساتھ ہوں۔ یہ تاثر پڑتا ہے اور آج کل تو ہر ایک کہتا ہے کہ میرے ساتھ غریب ہوں۔ میرے ساتھ… میرے ساتھ… میں ان کا نبی ہوں۔ یہ کہتے ہیں کہ ’’میں تو بڑے بڑے آدمیوں کا نبی ہوں۔‘‘
مرزاناصر احمد: یہ بڑے بڑے آدمیوں کی تعداد کتنی ہے اس میں؟
جناب یحییٰ بختیار: تین سو، چار سو کے قریب دی ہے اس میں۔
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں اور کئی ہزار میں…
1208جناب یحییٰ بختیار: اور پھر انہوں نے Ignore (نظرانداز) کر دیا۔ They are not worthy... (اس لائق نہیں)
مرزاناصر احمد: نہیں، نہیں، کئی ہزار آدمیوں میں ان کا انتخاب کیاگیا جن کا ذکر حکومت کو متوجہ کر سکتا تھا۔ یہ نہیں کہ اپنا کوئی اس میں تھا…
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، یہ ہوسکتا ہے…
مرزاناصر احمد: یہ نہیں کہ اپنا کوئی اس میں سے…
جناب یحییٰ بختیار: … زمانے میں…
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: ابھی وہ جو مرزاصاحب! آپ نے…
مرزاناصر احمد: یہ ابھی ایک رہتا ہے اور تین آپ نے پڑھے تھے ناں۔
جناب یحییٰ بختیار: اسی ضمن میں؟
مرزاناصر احمد: نہیں، یہ تو ختم ہوگیا ناں۔ اسی، اسی میں آپ نے تین چیزیں پڑھی تھیں صبح۔ اگر کہیں تو میں چھوڑ دیتا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ تو آچکا ہے جی کافی۔ میں تو چاہتا تھا کہ وہ جو آپ نے کوئی جواب تیار کیا تھا۔ وقت کم ہوگیا، اسپیکر صاحب مجھے کہہ رہے ہیں کہ وہ Important (اہم) چیز ہے۔ وہ جتنا آپ مختصر کر سکیں۔
مرزاناصر احمد: جی، ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ چونکہ Important (اہم) ہے، وہ Separatism (علیحدگی) پہ آپ نے کہا تھا کہ کچھ فرمائیں گے۔
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں۔ تاریخ احمدیت، ہماری جو زندگی ہے، اس پر یہ ایک طائرانہ نظر ہے، موٹی موٹی چند باتیں لی گئی ہیں۔ شروع کیا ہے میں نے اسے ۱۸۸۰ئ، 1209۱۸۸۴ء جو ’’براہین احمدیہ‘‘ کی تصنیف کا زمانہ ہے۔ مسلمانوں میں وحدت کے قیام کی ایک تحریک اس زمانے میں آپ نے کی۔ ’’مسلمانوں میں وحدت کا قیام۔‘‘ یہ میں ذرا عنوان پڑھ دیتا ہوں تاکہ اس سے وہ…
جناب یحییٰ بختیار: آپ Brief کر دیں۔ باقی فائل کر دیں آپ۔
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں۔ نہیں، میں وہ پہلے عنوان پڑھ دوں گا، پھر ایک ایک حوالہ دیتا چلا جاؤں گا۔ Brief کروں گا۔
’’دو قومی نظریہ کی تائید۔‘‘ یہ ۱۸۸۰ء اور ۱۸۸۴ء کے درمیان۔
جنگ مقدس ۱۸۹۳ئ، جس کے اوپر بعض دفعہ اعتراض بھی ہوجاتا ہے۔ اس کی جو بیک گراؤنڈ ہے وہ بڑی دلچسپ ہے اور وہ بتاتی ہے کہ کس طرح ایک جان ہوکر دوسروں کے ساتھ جب اسلام کے دفاع اور اسلام کی حفاظت کا سوال ہوتا تھا، آپ اور آپ کی جماعت کھڑی ہوتی تھی۔ یہ ۹۳ میں ۱۸۹۳ء میں پیش گوئی پنڈت لیکھ رام جو احمدیوں پر حملہ آور نہیں ہوا تھا، بلکہ وہ برا ایسا دماغ تھا اس کا کہ وہ نبی اکرمa پر حملہ آور ہوا تھا۔ ’’ناموس مصطفیٰ کے دفاع اور مذہبی مؤاخات کے متعلق آئینی تحریک‘‘ ۱۸۹۵ئ، ۱۸۹۶ء میں یہ سوال اٹھا تھا کہ جمعہ کی دقت ہے ان مسلمانوں کو جو حکومت کے دفاتر میں کام کرتے ہیں، اس لئے ان کو جمعہ کو تعطیل دی جائے یا جمعہ کے لئے ان کو رخصت دی جائے۔ یہ ۱۸۹۶ء میں یہ اٹھا۔ یہ آپ نے تحریک کی اور ساروں کے ساتھ مل کے یہ کوشش کی گئی۔
۱۸۹۶ء میں ہی ایک غیرمسلم تنظیم کی طرف سے جلسہ مذاہب کا انعقاد کیاگیا اور اس میں جو مسلمانوں کی طرف سے ایک کامیاب لیکچر ہے۔ وہ اس وقت آیا۔ میں اس کا صرف پس منظر بتاؤں گا۔
1210۱۹۰۰ء میں پھر ایک بشپ جارج ایلفریڈیفرا وہ شخص ہے، وہ بھی اس طرح حملہ آور ہوا، اور نہایت گندہ ذہن تھا۔ اس سے آپ نے تمام مسلمانوں کی طرف سے مقابلہ کیا اور اس کو یہاں سے بھاگنا پڑا۔
پھر ہم آتے ہیں ۱۹۰۲ء میں ۔ یہ ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی امریکہ کا رہنے والا تھا۔ اپنے آپ کو خدا کا رسول کہتا تھا… خداوند یسوع مسیح کا رسول، خدا کانہیں۔ مجھ سے غلطی ہوئی۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، جو وہ تو کہتے ہیں مر گیا تھا، وہ میں نے پڑھا…
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں، وہ پیش گوئی جو ہے، یہ ۱۹۰۲ء کی ہے اور اس نے یہ کہا تھا کہ ’’میں دنیا سے اسلام کو مٹا دوں گا۔‘‘ یہ اعلان کیا تھا اس نے اور اس کے مقابلے میں آپ کھڑے ہوئے اور اﷲتعالیٰ سے علم پاکر یہ پیش گوئی کی اور اﷲتعالیٰ نے، جو اسلام کو مٹانا چاہتا تھا اس کو ذلیل کرکے دنیا سے نیست ونابود کر دیا۔
۱۹۱۰ء میں جماعت کی طرف سے مسلم پریس ایسوسی ایشن کے قیام کی تحریک کی گئی، مسلم پریس ایسوسی ایشن۔
۱۹۱۱ء میں احمدیہ پریس کی طرف سے ۱۹۱۱ء میں مسلم لیگ کی تائید کی گئی۔
جناب یحییٰ بختیار: ۱۹۰۶ء میں مخالفت کی گئی۔
مرزاناصر احمد: ۱۹۱۱ء میں احمدیہ پریس کی طرف سے مسلم لیگ کی تائید کی گئی۔
جناب یحییٰ بختیار: ۱۹۰۶ء میں مجھے… وہ آپ ایک Step (مرحلہ) بیچ میں رہ گئے ہیں، وہ جو کمشنر صاحب آتے ہیں ان کو ملنے کے لئے…
مرزاناصر احمد: وہ میں دیکھ لیتا ہوں، میرے ذہن میں نہیں تھا۔
جناب یحییٰ بختیار: انہوں نے مخالفت کی۔
مرزاناصر احمد: اس وقت، دیکھ لیتے ہیں وہ۔ ٹھیک ہے۔ ۱۹۱۰ء میں۔ وہ تو میں دیکھ لیتا ہوں۔ میرے اوپر اعتراض جس کی مرضی ہے کرے، لیکن میرے ذہن میں نہیں 1211تھی وہ بات۔ لیکن چیک ہونے والی ہے۔ پتہ نہیں آپ کو کیا Version (ترجمہ شدہ) ملی ہے اس کی۔ ۱۹۱۰ء میں مدرسہ الٰہیات کے لئے امداد۔ یہ اس وقت مسلمانوں نے ایک مدرسہ کھولا۔ اس کے لئے کوشش کی گئی۔
۱۹۱۸ء میں مسلمانان ہند بڑے پیمانے پر کروڑوں چراغ جلا کر جشن فتح منارہے تھے۔ ان کی خوشی میں جماعت احمدیہ شریک ہوئی۔
Mr. Chairman: We break for Maghrib to re-assemble at 7:30.
The Delegation is permitted to withdraw till 7:30 pm.
(جناب چیئرمین: مغرب کی نماز کے لئے ساڑھے سات بجے شام تک التوا دیا جاتا ہے۔ وفد کو ساڑھے سات بجے تک جانے کی اجازت ہے)
مرزاناصر احمد: ہاں، ٹھیک ہے جی۔
Mr. Chairman: The honourable members may keep sitting. (جناب چیئرمین: معزز اراکین تشریف رکھیں)
(The Delegation left the Chamber)
(وفد ہال سے باہر چلا گیا)
Mr. Chairman: The honourable members may keep sitting. Yes, the honourable members may keep sitting.
(جناب چیئرمین: معزز اراکین تشریف رکھیں جی، معزز اراکین تشریف رکھیں)
ایک رکن: سر! یہ آپ نے فیصلہ کرنا…
جناب چیئرمین: آپ تشریف رکھیں۔ مولانا! یہ اپنی باتیں ہیں، آپس میں کرتے ہیں۔ ایک اصول طے ہوچکا ہے۔
----------
Mr. Chairman: Yes, the Law Minister.
(جناب چیئرمین: جی، وزیر قانون صاحب)
Mr. Abdul Hafeez Pirzada: Sir, what I have to submit has nothing to do with the issue.
(جناب عبدالحفیظ پیرزادہ: جناب والا! میں نے جو گزارش کرنا ہے اس کا زیر بحث موضوع سے کوئی تعلق نہیں)
Mr. Chairman: Yes. (جناب چیئرمین: جی ہاں)
Mr. Abdul Hafeez Pirzada: It is a matter of public importance and the Prime Minister has directed me to bring it to 1212the notice of the National Assembly of Pakistan as to what has happened at Tarbela. But, since the National Assembly is not in session and there will be a lot of speculations, I would suggest, I would request that permission may be given to me to say something. And this may be reported as part of the proceedings of the Assembly.
(جناب عبدالحفیظ پیرزادہ: لیکن معاملہ کی اہمیت کے پیش نظر مجھے وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ جو کچھ تربیلا میں واقعہ پیش آیا ہے وہ میں قومی اسمبلی کے نوٹس میں لاؤں۔ چونکہ قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں ہورہا اور کئی طرح کی قیاس آرائیوں کا امکان ہے۔ اس لئے میری تجویز ہے کہ مجھے کچھ کہنے کی اجازت دی جائے اور اسے قومی اسمبلی کی کاروائی کے طور پر رپورٹ کیا جائے)
Mr. Chairman: You have to say it today?
(جناب چیئرمین: کیا آپ آج ہی بتانا چاہتے ہیں؟)
Mr. Abdul Hafeez Pirzada: Sir, it is a matter of great importance.
(جناب عبدالحفیظ پیرزادہ: یہ نہایت ہی اہم معاملہ ہے)
Mr. Chairman: If today, then, after Maghrib, we will hold…
(جناب چیئرمین: اگر آج ضروری ہے تو مغرب کی نماز کے بعد اجلاس کر لیں گے)
Mr. Abdul Hafeez Pirzada: If you permit....
(جناب عبدالحفیظ پیرزادہ: اگر آپ اجازت دیں…)
Prof. Ghafoor Ahmad: Many members. We can meet as Assembly.
(پروفیسر غفور احمد: ہم بطور اسمبلی اجلاس کر سکتے ہیں)
Mr. Chairman: If it is of that importance, we will, after Maghrib, convert it into National Assembly.
(جناب چیئرمین: اگر اتنا ہی اہم معاملہ ہے تو پھر مغرب کی نماز کے بعد اسے قومی اسمبلی کے اجلاس میں تبدیل کر لیں گے)
Mr. Abdul Hafeez Pirzada: Because already I have said something at Tarbela.
(جناب عبدالحفیظ پیرزادہ: کیونکہ میں پہلے ہی آج تربیلا میں کچھ بتاچکا ہوں)
Mr. Chairman: There would not be any Reporter or any Gallaries; but whatever you say, we will send it to the Press.
(جناب چیئرمین: گیلری میں کوئی رپورٹر نہیں ہوگا، ہم پریس کو بیان جاری کر دیں گے)
Mr. Abdul Hafeez Pirzada: Whatever we say, it shall be reported because....
Mr. Chairman: Any honourable member has any objection? (جناب چیئرمین: کسی رکن کو کوئی اعتراض ہے؟)
Members: No objection.
(اراکین: کوئی اعتراض نہیں)
Mr. Chairman: So, after 7:30, we will meet as National Assembly. I request the members to be present. And we call the Delegation after that.
(جناب چیئرمین: ساڑھے سات بجے کے بعد ہم بطور نیشنل اسمبلی اجلاس کریں گے۔ میں اراکین کے حاضر ہونے کی درخواست کرتا ہوں اور اس کے بعد ہم وفد کو بلالیں گے)
Mr. Abdul Hafeez Pirzada: Alright, Sir.
(جناب عبدالحفیظ پیرزادہ: ٹھیک ہے، جناب والا!)
1213Mr. Chairman: They may be informed that they will be called at 8: 00 pm.
(جناب چیئرمین: انہیں مطلع کر دیں کہ انہیں ۸بجے بلایا جائے گا)
Mr. Abdul Hafeez Pirzada: All right.
(جناب عبدالحفیظ پیرزادہ: ٹھیک ہے)
Mr. Chairman: Yes. Otherwise, tomorrow morning, Mr. Law Minister, tomorrow morning, Senate is meeting; we are not meeting tomorrow morning.
(جناب چیئرمین: جی ہاں! بصورت دیگر کل صبح وزیر قانون صاحب کل صبح سینٹ کا اجلاس ہورہا ہے۔ ہمارا کل کوئی اجلاس نہیں ہے)
Mr. Abdul Hafeez Pirzada: Yes, Sir, because this is.... (جناب عبدالحفیظ پیرزادہ: جی ہاں! جناب والا کیونکہ یہ…)
Mr. Chairman: We will convert it. Yes, it is alright. (جناب چیئرمین: ہم اس کو تبدیل کر لیں گے، جی ٹھیک ہے)
Mr. Abdul Hafeez Pirzada: Sir, therefore, I have to inform the House.
(جناب عبدالحفیظ پیرزادہ: جناب والا! میں نے ایوان کو مطلع کرنا ہے)
Mr. Chairman: So, the House is adjourned to meet at 7:30 sharp.
(جناب چیئرمین: تو ایوان کا اجلاس ساڑھے سات بجے تک ملتوی کیا جاتا ہے)
Thank you very much. (آپ کا بہت بہت شکریہ)
[The Special Committee adjourned for Maghrib Prayers to meet at 7:30 pm. as National Assembly and at 8: 00 pm. as Special Committee of the whole House.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس مغرب کی نماز کے لئے ملتوی کیا جاتا ہے۔ ۳۰:۷ بجے دوبارہ ہوگا۔ بطور نیشنل اسمبلی کے اور ۸بجے پورے ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی کا اجلاس ہوگا)
----------
[The Special Committee re-assembled for National Assembly meeting, Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ ہوا، نیشنل اسمبلی کے اجلاس کے بعد۔ چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) کی صدارت میں)
----------
Mr. Chairman: Proceedings of the Committee of the whole House. Mr. Attorney- General, honourable members, and Maulana Mufti Mahmood, now the private discussion should be stopped and we will proceed.
(جناب چیئرمین: پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کی کاروائی شروع کر رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل صاحب! معزز اراکین اور مولانا مفتی محمود صاحب اب غیر متعلقہ گفتگو کو بند کریں اور ہم کاروائی شروع کریں)
بلا لیں جی۔ بلا لیں ان کو، ڈیلی گیشن کو بلالیں۔ وہ آجائیں جی۔
----------
1214(The Delegation entered the Chamber)
(وفد ہال میں داخل ہوا)
----------
Mr. Chairman: Yes, Mr. Attorney- General.
(جناب چیئرمین: جی! اٹارنی جنرل صاحب)
I will request to the honourable members to be attentive, I request the honourable members.
(میں درخواست کرتا ہوں کہ معزز اراکین توجہ فرمائیں۔ میں معزز اراکین سے درخواست کرتا ہوں)
Yes, Mr. Attorney- General. (جی اٹارنی جنرل صاحب)
----------
CROSS- EXAMINATION OF THE QADIANI GROUP DELEGATION
(قادیانی وفد پر جرح)
Mr. Yahya Bakhtiar: Mirza Sahib, you will continue to reply to that question?
(جناب یحییٰ بختیار: مرزاصاحب! اسی سوال کا جواب جاری رکھیں گے)
مرزاناصر احمد: جی ہاں، میں ابھی شروع کر رہا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: جو آپ پہلے سنا رہے تھے۔
مرزاناصر احمد: اور ایک فقرہ پہلے کہوں گا۔ میں آپ کا بڑا ممنون ہوں کہ ایک عظیم Landmark رہ گیا تھا، وہ آپ نے مجھے یاد کروادیا…۱۹۰۶ء والا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ تو مرزاصاحب میری ڈیوٹی ہے۔
مرزاناصر احمد: ہاں، یہ میں نے نوٹ کر لیا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ میں نے پڑھا اس پر۔
مرزاناصر احمد: جی شکریہ!
۱۵…عالمگیر لجنڈ اسلامیہ کے قیام کا مشہورہ، ۱۹۲۰ء
ترکی اور حجاز کے حقوق کی حفاظت ۱۹۲۱ئ۔
تحریک شدھی اور مجاہدین احمدیت کے کارنامے، ۱۹۳۳ئ۔
خدمات ملک شام کی تحریک آزادی اور جماعت احمدیہ ۱۹۲۵ئ۔
’’رنگیلا رسول‘‘ اور ورتمان کا فتنہ اور اس کے تدارک کے لئے جہاد ۱۹۲۷ئ۔
1215سیرۃ النبیﷺ کے جلسوں کی تحریک اور ابتداء ۱۹۲۸ئ۔
مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ ۱۹۲۸ئ۔
سائمن کمیشن رپورٹ پر تبصرہ اور ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل ۱۹۳۰ئ۔
قفیہ فلسطین اور جماعت احمدیہ کی مساعی ۴۸۔۱۹۳۹ئ۔
آزادی ہند اور قیام پاکستان کے لئے جماعت احمدیہ کی مساعی ۴۷۔۱۹۴۰ئ۔
۲۵۔انڈونیشیا کی تحریک آزادی اور جماعت احمدیہ ۱۹۴۴ئ۔ پاکستان کے روشن مستقبل کے لئے امام جماعت احمدیہ کے چھ لیکچر ۱۹۴۷ئ۔
فرمان بٹالین ۱۹۴۸ئ۔
چوہدری سرمحمد ظفر اﷲ خان صاحب کی اسلامی خدمات ۱۹۴۷ء اور ۱۹۵۲ئ۔
یہ عنوان ہیں۔ یہ ایک طائرانہ نظر جو ہوتی ہے کہ کس طرح ہر موقع پر جماعت احمدیہ کے افراد اور دوسرے جو تھے مختلف فرقوں کے افراد انہوں نے ایک جان ہوکر اسلام کی، اسلام کے جو مسائل تھے ان کو حل کرنے کی کوشش کی۔ میں… ایک وہ کشمیر کا مسئلہ یہاں لکھنے سے رہ گیا ہے۔ ویسے وہ نوٹ تیار ہیں۔ جو کشمیر کی، تحریک کشمیر جو ہے وہ ۳۳۔۳۲۔۱۹۳۱ء کی ہے۔ وہ بھی ایک مسلمان کے خلاف ایک عظیم ظالمانہ رویہ کے خلاف جہاد تھا اور اس میں سب کے ساتھ مل کر جماعت احمدیہ نے بھی ایسا کام کیا جو سب کی نظر میں پسندیدہ تھا اس وقت، اور وہ حوالے یہاں موجود ہیں۔
’’براہین احمدیہ‘‘… ’’براہین احمدیہ‘‘ بانی سلسلہ احمدیہ نے اس وقت لکھی جب ابھی مہدی اور مسیح ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ جس کے چار حصے ہیں۔ ۸۸۔۱۸۸۴ء میں یہ شائع ہوئی۔ اس پر صرف ایک اقتباس میں پڑھوں گا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی، ایڈووکیٹ اہل حدیث، نے ’’براہین احمدیہ‘‘ کے متعلق لکھا: 1216’’ہماری رائے میںیہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی وجانی وقلمی ولسانی، حالی وقالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے۔ ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم کوئی ایک ایسی کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً فرقہ آریہ وبرہمو سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہے، ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشاندہی کرے۔ جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی وجانی وقلمی ولسانی کے علاوہ خالی نصرت کا بیڑہ اٹھا لیا ہو اور مخالفین اسلام اور منکرین الہام کے مقابلہ میں مردانہ تہدی کے ساتھ دعویٰ کیا ہو کہ جس کو وجود الہام کا شک ہو وہ ہمارے پاس آکر تجربہ مشاہدہ کر لے اور اس تجربہ مشاہدہ کا اقوام غیر کو مزہ بھی چکھا دیا گیا ہو۔‘‘ (رسالہ اشاعت السنہ ج۷ نمبر۶ اور ۱۱)
یہ اس کے بعد اور دو تین ہی حوالے ہم نے لئے تھے۔ لیکن میں نہیں پڑھوں گا وہ، چونکہ وقت نہیں رہا۔ ایک ہی حوالہ صرف یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ بعد میں مولوی صاحب، مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی علیحدہ ہو گئے، دوستی ہٹ گئی اور مخالف ہو گئے۔ لیکن اپنی ساری زندگی میں، جہاں تک مجھے یاد ہے اور میں دوستوں سے مشورہ کر لوں، مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنے اس بیان کی تردید نہیں کی کہ یہ کتاب واقعی ایسی ہے (اپنے وفد کے اراکین سے) کی ہے کبھی؟ اٹارنی جنرل سے نہیں، کبھی تردید نہیں کی۔ یہ لمبے ہیں۔ میں بالکل ایک ہی حوالہ پڑھ کے، تاکہ وقت نہ ضائع ہو…
1217جناب یحییٰ بختیار: فائل کرنے کے لئے ہیں ناں جی؟
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں۔ یہ میں نے وہی کہا ناں، صرف ورقے اٹھنے کی اجازت دے دیں۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، نہیں وہ صرف آپ Gist (خلاصہ) سنادیجئے۔ Gist اس پر…
مرزاناصر احمد: بالکل، ایک ایک حوالہ کر دیتے ہیں ہم اس پر۔ دوسرے مسلمانوں میں وحدت کا قیام: ’’خداتعالیٰ چاہتا ہے…‘‘
یہ بانی سلسلہ کے الفاظ ہیں: ’’خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں، کیا یورپ اور کیا ایشیائ، ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔‘‘
اس کے اوپر، یہ تو دعویٰ تھا ناں، جو اس کے حق میں ایک چھوٹا سا تین سطرں کا حوالہ یہ ہے، یہ مولانا ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر ’’زمیندار‘‘ ہیں۔ ایک وقت میں ’’زمیندار‘‘ بند ہوگیا تھا تو انہوں نے ’’ستارہ صبح‘‘ کے نام سے اخبار ’’زمیندار‘‘ کی بجائے نکالا تھا۔ ۸؍دسمبر ۱۹۱۶ء میں… یہ ویسے بحوالہ ’’کان کابلی‘‘ مارچ ۱۹۳۷ء ہے… اخبار کا حوالہ ۸؍دسمبر ۱۹۱۶ء ہے: ’’جناب مرزاغلام احمد صاحب قادیانی کی زندگی کا ایک بڑا مقصد آپ کے متعدد دعاوی کے لحاظ سے جو احاطہ تحریر میں آچکے ہیں مسلمانوں میں وحدت قائم کرنا تھا۔‘‘
باقی میں حوالے چھوڑ رہا ہوں۔
1218یہ ایک اور عنوان کے ماتحت وہی ایک ۱۹۰۶ء آگیا تھا۔ وہ ہماری غلطی تھی۔ تیسرے نمبر پر آیا ہوا ہے…
جناب یحییٰ بختیار: ایک فقرہ تو آپ نے پڑھ دیا تھا۔
مرزاناصر احمد: نہیں، نہیں، وہ تو… یہ میں یہاں سے نکال کے تو دوسری جگہ ملا دیں گے۔
۱۸۹۳ء میں یہ ایک عجیب واقعہ ہوا اور وہ یہ کہ جنڈیالہ ضلع امرتسر میں عیسائیوں کا ایک سنٹر تھا اور کافی بڑا، بہت کام کرنے والا تھا۔ ان کے وہاں کے مقامی مسلمانوں کے ساتھ… احمدی نہیں ہیں وہ… ان کے ساتھ ہر وقت بحث رہتی تھی۔ آخیر ایک دفعہ عیسائیوں کی طرف سے وہاں کے مقامی مسلمانوں کو یہ کہاگیا کہ روز ہم ایک دوسرے کے متعلق باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ایک مناظرہ ہو جائے۔ چنانچہ یہ مسیحان جنڈیالہ ضلع امرتسر نے مسلمانوں کو مندرجہ ذیل خط لکھا:
’’بخدمت شریف میاں محمد بخش صاحب وجملہ شرکاء اہل اسلام جنڈیالہ۔
جناب من! بعد سلام کے واضح روئے شریف ہو کہ چونکہ ان دنوں میں قصبہ جنڈیالہ میں مسیحیوں اور اہل اسلام کے دریان دینی چرچے بہت ہوتے ہیں اور چند صاحبان آپ کے ہم مذہب دین عیسوی پر حرف لاتے ہیں اور کئی ایک سوال وجواب کرتے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں اور نیز اسی طرح سے مسیحیوں نے بھی دین محمدیؐ کے حق میں کئی تحقیقاتیں کر لی ہیں اور مبالغہ از حد ہو چلا ہے۔ لہٰذا راقم رقعہ ہذا کی دانست میں طریقہ بہتر اور مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک جلسہ عام کیا جائے جس میں صاحبان اہل اسلام مع علماء ودیگر بزرگان دین کے جن پر کہ ان کی تسلی ہو، موجود ہوں اور اس طرح سے مسیحیوں کی طرف سے بھی کوئی صاحب اعتبار پیش کئے جاویں۔ 1219تاکہ جو باہمی تنازعے ان دنوں میں ہورہے ہیں، خوب فیصل کئے جاویں، نیکی اور بدی،حق اور خلاف ثابت ہوویں۔ لہٰذا چونکہ اہل اسلام جنڈیالہ کے درمیان آپ صاحب ہمت گنے جاتے ہیں(جن کو مخاطب کیا) ہم آپ کی خدمت میں ازطرف مسیحان جنڈیالہ التماس کرتے ہیں کہ آپ خواہ خود یا اپنے ہم مذہبوں سے مصلحت کر کے ایک وقت مقرر کریں اور جس کسی بزرگ پر آپ کی تسلی ہو، اسے طلب کریں اور ہم بھی وقت متعین پر محفل شریف میں کسی اپنے کو پیش کریں گے۔‘‘ الراقم: مسیحان جنڈیالہ دستخط: مارٹن کلارک، امرتسر مسلمانان جنڈیالہ کی طرف سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی خدمت میں عیسائیوں کے ساتھ مباحثہ کرنے کی درخواست:
’’
الحمدﷲ ونحمدہ ونستعینہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
!
حضرت جناب فیض مآب مجدد الوقت فاضل اجل حامی دین رسول، حضرت غلام احمد صاحب!
از طرف محمد بخش
السلام علیکم! گذارش یہ ہے کہ کچھ عرصے سے قصبہ جنڈیالہ کے عیسائیوں نے بہت شور وشر مچایا ہوا ہے۔ بلکہ آج بتاریخ ۱۱؍اپریل ۱۸۹۳ئ، عیسائیان جنڈیالہ نے معرفت ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب امرتسر، بنام فدوی بذریعہ رجسٹری ایک خط ارسال کیا ہے۔ جس کی نقل خط ہذا کی دوسری طرف واسطے ملاحظہ 1220کے پیش خدمت ہے۔ عیسائیوں نے بڑے زور شور سے لکھا ہے کہ اہل اسلام جنڈیالہ اپنے علماء اور دیگر بزرگان دین کو موجود کر کے ایک جلسہ کریں اور دین حق کی تحقیقات کی جائے۔ ورنہ آئندہ سوال کرنے سے خاموشی اختیار کریں۔ اس لئے خدمت بابرکت میں عرض ہے کہ چونکہ اہل اسلام جنڈیالہ اکثر کمزور اور مسکین ہیں، اس لئے خدمت شریف عالی میں ملتمس ہوں کہ آنجناب ﷲ اہل اسلام جنڈیالہ کو امداد فرماؤ ورنہ اہل اسلام پر دھبہ آجائے گا۔ نیز عیسائیوں کے خط کو ملاحظہ فرماکر یہ تحریر فرمادیں کہ ان کو جواب خط کا کیا لکھا جاوے۔ جیسا آنجناب ارشاد فرماویں، ویسا عمل کیا جاوے فقط!
اس عرصے میں، جب یہ خط وکتابت ہورہی تھی، بعض علماء کی طرف سے مارٹن کلارک کو یہ کہاگیا کہ یہ شخص جو جنڈیالہ کے مسلمان تمہارے مقابلے میں، عیسائیوں کے مقابلے میں لارہے ہیں، ان کو تو مولوی کافر کہتے ہیں یہ اسلام کی نمائندگی نہیں کر سکتے…‘‘
جناب یحییٰ بختیار: وہاں سے وہ…
مرزاناصر احمد: نہیں، وہ…
جناب یحییٰ بختیار: … آتھم آگیا، وہاں عبداﷲ آتھم آگیا تھا اور جہاں سے مرزاصاحب چلے گئے تھے… یہ وہی تھا ناں جی؟
مرزاناصر احمد: نہیں، یہاں اس سے پہلے بہت کچھ تھا جو مخفی ہے۔ وہ ذرا سامنے آئے تو مزا آتا ہے دونوں مذاہب کے مقابلے کا۔ یہ پاندہ صاحب نے مولویوں کو خط لکھنے شروع کئے کہ پادریوں سے اسلام کی صداقت پر بحث کے لئے جنڈیالہ تشریف لائیں۔ میاں پاندہ صاحب مولویوں کے جواب کے منتظر تھے کہ دیکھیں مولوی صاحبان کیا جواب دیتے ہیں۔ اس میں دو ہفتہ گزر 1221گئے۔ مولوی صاحبان نے پاندہ صاحب کو جواب دیا کہ ہمارے واسطے رہائش، سفرخرچ، آمدورفت، کھانے پینے کا کیا انتظام کیا ہے اور بعد جلسہ ہمیں رخصتانہ کیا ملے گا، وغیرہ، وغیرہ۔ اس کو میں چھوڑ رہا ہوں۔ اس وقت یہ ڈر گیا، مارٹن کلارک، کہ ہمارے سامنے ان کو پیش کیا جارہا ہے، بانی سلسلہ احمدیہ کو۔ اس پر یہ محمد بخش صاحب نے یہ لکھا… یہ اس کی فوٹوسٹیٹ کاپی ہے ان کی… اس میں یہ لکھتے ہیں ڈاکٹر ہنری کلارک کو:
’’بخدمت شریف جناب ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک، میڈیکل مشن امرتسر۔
بعد سلام کے واضح ہوکہ خط آنجناب کا بذریعہ رجسٹری پہنچا۔ تمام کیفیت معلوم ہوئی۔ بموجب لکھنے آپ کے اہل اسلام جنڈیالہ نے اپنی طرف سے حضرت مرزاغلام احمد صاحب کو واسطے مباحثے کے پیش کیا ہے جن کو آپ نے بخوشی منظور کر کے مباحثہ کے شرائط بھی میرے روبرو قرار پاچکے ہیں۔ اب بعد چند روز کے آپ نے ایک حجت نکال کر اس جنگ مقدس سے دل چرا کر دفع الوقتی کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن آپ کے حق میں کیا تصور کیا جاوے جو آپ نے بلاسمجھے بوجھے ان مسائل فروعی کو حجتاً پیش کیا ہے جو ہر ایک مذاہب میں ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے۔ آپ صاحب کن خیالوں میں مبتلا ہورہے ہیں اور اسلام سے آپ کی محض ناواقفی ثابت ہوتی ہے۔ اگر کچھ واقفی ہوتی تو ایسا کچھ ہر گز تحریر نہ کرتے۔ آپ نے اسلامی فتویٰ کی آڑ لے کر مباحثہ سے دل چرانا چاہا۔ لیکن اب وہ وقت گزر گیا اور علماء اسلام اور دیگر علماء مذاہب میں ہمیشہ اختلاف رہا کرتا ہے۔ دیکھو اوّلاً مقلد غیر مقلدوں کو بے دین کہتے ہیں اور غیرمقلد…‘‘
خیر! اور یہ آگے انہوں نے لکھا ہے کہ… انہوں نے لکھا ہے کہ… ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ… اپنے کہ تم نے اپنے ان کو نہیں لکھا… آگے انہوں نے لکھا ہے جی… میں خط ہی فائل 1222کروا دوں گا… کہ اپنے مذہب کو دیکھو۔ تمہارے اندر اتنے فرقے ہیں۔
Inquistion ہوئی… یعنی الفاظ میرے ہیںِ مفہوم میں لے رہا ہوں، بعد میں داخل کروادوں گا… تم آپس میں لڑتے رہے ہو، اور اب بھاگنا چاہتے ہو۔ ہمارے فرقوں اور آپس کے اختلافات کا تو ذکر نہیں کر دیا یہاں:
’’سنو! اوّل… کافر وہ ہوتا ہے جو خدا کو نہ مانتا ہو۔ دوئم… اس کے نبی اور اس کے کلام کا منکر ہو، بلکہ اس کے نبی سے دشمنی کرے اور کلمہ اور نماز اور روزہ سے نفرت کرے۔ حضرت مرزاغلام احمد کلمہ نبی کا پڑھتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور روزہ بھی رکھتے ہیں۔ بلکہ بڑے بھاری عابد اور پرہیزگار بزرگ ہیں۔ سنو اور غور کرو۔ دیکھو جناب ہی کافر پروٹسٹنٹ اور فرقہ کتھولک میں کتنا بھاری اختلاف ہے۔‘‘
خیر یہ انہوں نے یہ کہا اور اس کے بعد ایک حافظ غلام قادر صاحب کا خط جس کی فوٹوسٹیٹ کاپی ہے: ’’…چنانچہ فی الحال ایک قطعیہ اشتہار ڈاکٹر ہنری کلارک نے مشتہر کیا ہے جس میں مباحثہ مقرر شدہ سے صاف گریز کیا ہے۔ ہم پادری صاحب کی اس اعلیٰ لیاقت وذہانت پر خوش ہوکر تہ دل سے مبارکباد دیتے ہیں۔ اگر پہلے مرزا غلام احمد صاحب جیسی بلائے عظیم (یعنی عیسائیوں کے لئے) اگر پہلے مرزاغلام احمد صاحب جیسی بلائے عظیم کو چھیڑا اور اب پیچھا چھڑانے کے لئے تدبیریں سوچنے لگے۔‘‘
اس میں یہی انہوں نے کہا کہ پیچھا کیوں چھڑاتے ہو…
جناب یحییٰ بختیار: یہ اس کے ساتھ…
1223مرزاناصر احمد: یہ اس کے ساتھ لگ کے اور…
جناب یحییٰ بختیار: … اور وہ آجائیں گے۔
مرزاناصر احمد: چنانچہ ہنری مارٹن کلارک جنڈیالہ کے ان مسلمانوں کی طرف سے، جن کا احمدی فرقہ مسلمان سے کوئی تعلق نہیں تھا، ان سے پہلے بچنے کی کوشش کی، پھر مجبور ہو کے وہ مباحثہ ہوا اور جو مباحثہ ہوا اس کے متعلق مباحثہ کروانے والے اور وہ لوگ امرتسر کے جو اس وقت موجود تھے، انہوں نے خوشی کا مظاہرہ کیا اور مبارکباد دی۔ اس وقت جو اس کا اثر ہوا وہ بہت اچھا اثر ہوا۔ اسلام کے حق میں اور عیسائیوں کے دلائل کے بودا پن میں۔ خواجہ یوسف شاہ صاحب آنریری مجسٹریٹ، جو برابر مباحثے میں آتے رہے تھے، مختصر سی تقریب میں وہیں جب اکٹھے ہوئے، نہایت عمدگی سے ختم ہونے پر شکریہ ادا کیا اور ضمناً انہوں نے کہا کہ: ’’اس مباحثے سے اسلام کی حقیقت اور عیسائیت کے عقائد پر غور کرنے کا موقع ملے گا۔ مرزاصاحب نے اگرچہ اپنے فرض منصبی کو ادا کیا ہے۔ مگر میں مسلمانوں کی طرف سے خاص طور پر ان کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے تمام مسلمانوں کی طرف سے اسلام پر حملوں کا ڈیفنس کیا۔‘‘ یہ دراصل متعلق ہے اس کے۔ اس کے بعد ہم آتے ہیں، پھر ۱۸۹۳ء کا واقعہ ہے۔ پنڈت لیکھ رام، پنڈت لکھ رام نے ’’کلّیات آریہ‘‘ میں اس کی طرف منسوب کیا ہے: ’’محمد صاحب(ﷺ) عرب کے جاہل اور وحشی بدوؤں کے پیشوا تھے…‘‘
جناب یحییٰ بختیار: یہ نہ پڑھیں، اس کی ضرورت نہیں۔
مرزاناصر احمد: اچھا ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ یعنی اس نے بہت بیہودہ بات کی۔ میرا آپ نہیں دل کرتا ان کو… اس کی اس گندہ دہنی کے مقابلے میں بانی سلسلہ احمدیہ نے 1224دعائیں کرنے کے بعد اس کو یہ کہا کہ ’’اﷲتعالیٰ نے مجھے یہ خبر دی ہے اس کے مطابق تجھے میں یہ کہتا ہوں…‘‘ فارسی کے شعر میں:
الا اے دشمن نادان و بے راہ
بترس از تیغ بران محمدؐ
الا اے منکر از شان محمدؐ
ہم از نور نمایان محمدؐ
کرامت گرچہ بے نام ونشان است
بیا بنگرز غلمان محمدؐ
اور آپ نے… ’’سراج منیر‘‘ کی یہ عبارت ہے آج کی… لکھا اس کو: ’’آج کی تاریخ سے (۲۰؍فروری ۱۸۹۳ء ہے) چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں، یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اﷲﷺ کے حق میں کی ہیں، عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا۔‘‘ اور جیسا کہ یہ پیش گوئی کی گئی تھی… میں باقی حوالے وہ میں چھوڑ رہا ہوں۔ کیونکہ اس وقت…
جناب یحییٰ بختیار: سب کو معلوم ہیں جی۔
مرزاناصر احمد: ہاں جی۔
پھر ہم آتے ہیں ۱۸۹۰ء میں۔ اس وقت مباحثات میں ایک دوسرے کے خلاف جو چیز پیدا ہوگئی تھی اسے دیکھتے ہوئے بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ اعلان کیا کہ اس قسم کی گندہ دہانی چھوڑ کے اصل چیز یہ ہے کہ تبادلہ خیال کر کے حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ تو کچھ اصول مذہبی دنیا کے ان مناظرین کے سامنے رکھے۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ناموس رسولؐ کے تحفظ اور مذہبی مناظرات کی اصلاح کے لئے ایک آئینی تحریک کا آغاز فرمایا۔ جس کی نامی گرامی علماء سرکاری افسران، وکلاء اور تجار حضرات نے تائید کی (یعنی جو جماعت کے نہیں تھے) اور یہ ’’آریہ دھرم‘‘ کا حوالہ ہے۔ اس موقع پر نواب محسن الملک نے حضرات بانی سلسلہ کی اسلامی خدمات کو سراہتے مکتوب میں لکھا: 1225’’جناب مولانا ومخدومنا:
بعد سلام مسنون عرض یہ ہے کہ آپ کا چھپا ہوا خط مع مسودہ درخواست کے پہنچا۔ میں نے اسے غور سے پڑھا اور اس کے تمام مألہ، ماعلیہ پر غور کیا۔ درحقیقت دینی مباحثات ومناظرات میں جو دل شکن اور درد انگیز باتیں لکھیں اور کہی جاتی ہیں وہ دل کو نہایت بے چین کرتی ہیں اور اس سے ہر شخص کو جسے ذرا بھی اسلام کا خیال ہوگا روحانی تکلیف پہنچتی ہے۔ خدا آپ کو اجر دے کہ آپ نے دلی جوش سے مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہا ہے۔ یہ کام بھی آپ کا منجملہ اور بہت سے کاموں کے ہے جو آپ مسلمانوں کے بلکہ اسلام کے لئے کرتے ہیں۔‘‘
۱۸۹۶ء میں… میں ایک ایک کو پڑھتا ہوں، جہاں زیادہ ہیں وہ چھوڑ دیتا ہوں… تعطیل جمعہ کی تعریف۔ اس کا ذکر میں نے پہلے بھی کیا تھا۔ یہ اشتہار ایک دیا اور اس کا آغاز کیا بانی سلسلہ نے، یعنی ایک میموریل وائسرائے ہند کے نام دیا۔ اس میں یہ لکھا: ’’یہ روز جمعہ جس کی تعطیل کے لئے ہم مسلمانان رعایا یہ عرضداشت بھیجتے ہیں۔ اگرچہ بہت اہم کام اس میں عبادات کا خاص طور پر ادا کرنا اور اسلامی ہدایات کو اپنے علماء سے سننا ہے۔ لیکن اور کئی رسوم مذہبی بھی اسی دن میں ادا ہوتی ہیں اور خدا نے ہمیں قرآن میں اس دن کے انتظار کی اس قدر تاکید کی ہے کہ خاص اسی کے انتظام کے لئے ایک سورت قرآن میں ہے۔ اس کا نام ’’سورۃ الجمعہ‘‘ ہے اور حکم ہے کہ سب کام چھوڑ کر جمعہ کے لئے مسجد میں حاضر ہو جاؤ۔ تو ہر ایک دیندار کو یہی غم ہے کہ ہم ہمیشہ کے لئے خدا کے نافرمان نہ ٹھہریں۔‘‘
اخبار ’’ملت‘‘ نے یہ لکھا کہ مولانا مولوی نورالدین یہ ۱۹۱۱ء کا ہے۔ میں نے بتایا ناں طائرانہ نظر ڈال رہا ہوں: 1226’’مولانا مولوی نورالدین صاحب سے کلی اتفاق کر کے جملہ انجمن ہائے وشاخ ہائے مسلم لیگ ومعزز اہل اسلام اور اسلامی پبلک اور معاصرین کرام کی خدمت میں نہایت زور مگر ادب کے ساتھ درخواست کرتے ہیں کہ مولانا ممدوح کی خواہش کے مطابق اس میموریل کی پرزور تائید کی جائے۔‘‘
لیکن وہ یہاں نہیں تھا ناں تو ۱۹۰۶ء سے جمپ (Jump) کر کے میں پہنچ گیا ۱۱ء پر۔ اب ۱۹۰۶ء پر واپس جاتا ہوں… ۱۹۰۶ئ…
جناب یحییٰ بختیار: یہ Important (اہم) نہیں، چھوٹی بات ہے۔
مرزاناصر احمد: نہیں، بڑی اہم بات ہے، بڑی عجیب بات ہے۔ بات یہ ہے کہ ۱۹۰۶ء میں جیسا کہ آپ نے فرمایا، فنانشل کمشنر صاحب بہادر وہاں آئے قادیان، اور باتیں کیں۔ باتیں یہ تھیں کہ کمشنر بہادر صاحب جو تھے، وہ زور دے رہے تھے بانی سلسلہ احمدیہ پر… انگریزی حکومت کا آدمی… کہ یہ جو مسلم لیگ بنی ہے، آپ اس کی تائید کریں اور جماعت کی دو تین آدمی بھی یہ زور دے رہے تھے۔ حکومت کی طرف سے زور تھا اور… لیکن آپ نہیں مانے… آپ نے فرمایا… یہ ۱۹۰۶ء کی بات ہے… آپ نے فرمایا: ’’میرے نزدیک یہ راہ خطرناک ہے…‘‘
لمبا حوالہ ہے، میں یہاں سناتا نہیں اور آپ نے فرمایا کہ ’’اس سے مجھے بو آتی ہے کہ یہ بھی ایک دن کانگریس کا رنگ اختیار کرے گی۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: حکومت کے خلاف ہو جائے گی۔
مرزاناصر احمد: ہاں! یہ ۱۹۰۶ء کی بات ہے اور ہے ۱۹۰۷ئ۔ آپ کی زندگی میں ہی، انگریز کے کہنے پر مسلم لیگ کو نہیں مانا۔ لیکن جب بنگلہ دیش میں وہاں کے مسلمانوں 1227کو ہندوؤں کی طرف سے دکھ پہنچا تو آپ نے اس کے حق میں اعلان کر دیا۔ یہ ہے اصل بات جو میں بتانا چاہتا تھا کہ ۱۹۰۶ء میں انکار کیا، اور ۱۹۰۷ء میں… اس کی تفصیل ’’پیسہ اخبار‘‘ لاہور میں چھپ چکی ہے، ۳؍دسمبر ۱۹۰۷ئ: ’’ان کے خیالات وحرکات سے ہمیں قطعی نفرت ہے۔‘‘
ہندوؤں کا ذکر ہے بنگال میں وہ ہوا تھا…
جناب یحییٰ بختیار: وہ بنگال کی بات تھی؟
مرزاناصر احمد: ہاں۔ ’’ہماری جماعت کو ان سے الگ رہنا چاہئے۔ تعجب کی بات ہے کہ جو قوم حیوان کو انسان پر ترجیح دیتی ہو اور ایک گائے کے ذبح سے انسان کا خون کر دینا کچھ بات نہ سمجھتی ہو، وہ حاکم ہوکر کیا انصاف کرے گی اور (چند سطریں ہیں) یہ بات ہر ایک شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ مسلمان اس بات سے کیوں ڈرتے ہیں کہ اپنے جائز حقوق کے مطالبات میں ہندوؤں کے ساتھ شامل ہو جائیں اور کیوں آج تک ان کا کانگریس کی شمولیت سے انکار کر رہے ہیں۔ (یعنی یہ اس کی تائید میں ہے، انکار کی) اور کیوں آخر کار ہندوؤں کی درستی رائے کو محسوس کر کے ان کے قدم پر قدم رکھا۔ مگر الگ ہوکر ان کے مقابلے پر ایک مسلم انجمن قائم کر دی اور ان کی شراکت کو قبول نہ کیا اور اس کے سائے کو… اس کا باعث دراصل مذہب ہی ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ اور ساتھ میں اس کی تائید کی، بڑے زور سے تائید کی اور اس وقت ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کے حق میں اور بھی بولے ہوں گے۔ میرا تو مؤقف ہی یہ ہے کہ سب کے ساتھ مل کر اسلام اور مسلمانوں کی تائید کی۔
۱۸۹۶ئ…
1228جناب یحییٰ بختیار: یہ وہی لاہور کا لیکچر آگیا ہے؟
----------
At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by Madam Deputy Speaker (Dr. Mrs Ashraf Khatoon Abbasi)
(اس مرحلہ پر چیئرمین صاحب نے کرسی صدارت چھوڑ دی اور ڈپٹی چیئرمین (ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی) نے کرسی صدارت سنبھالی)
----------
مرزاناصر احمد: ہاں، جلسہ ہے مذاہب والا۔ اخبار ’’چودھویں صدی‘‘ راولپنڈی یکم؍فروری ۱۸۹۷ئ۔ یہ اس کی فوٹوسٹیٹ بھی ہے۔ میں ساتھ لگا دوں گا: ’’ہم مرزاصاحب کے مرید نہیں ہیں اور نہ ہم کو ان سے کوئی تعلق ہے۔ لیکن بے انصافی ہم کبھی نہیں کر سکتے اور نہ کوئی سلیم فطرت اور صحیح Conscience اس کو روا رکھ سکتا ہے۔ مرزاصاحب نے کل سوالوں کے جواب جیسا کہ مناسب تھا قرآن شریف سے دئیے اور تمام بڑے بڑے اصول وفروع اسلام کو دلائل عقلیہ وبراہن فلسفہ کے ساتھ مبرہن اور مزین کیا۔ بہرحال اس کا شکریہ ہے کہ اس جلسہ میں اسلام کا بول بالا ہوا اور تمام غیرمذاہب کے دلوں پر اسلام کا سکہ بیٹھ گیا۔‘‘
اور بھی ہیں حوالے جنہیں میں چھوڑ رہا ہوں۔
اب آتے ہیں ہم ۱۹۰۰ء بشپ جارج ایلفریڈ لفرائے سے مقابلہ اور اس کا صلہ جارج ایلفریڈ لفرالے، ۱۸۵۴۔ ۱۹۱۹ء ہندوستان کے افق پر مسلمانوں کے لئے ایک چیلنج بن کر ابھرا۔ اس نے ہندوستان کی مذہبی فضاء میںتہلکہ مچا دیا۔ چنانچہ لکھا ہے: ’’انہوں نے عربی اور اردو میں کافی مہارت پیدا کر لی۔ مسلمانوں سے بحث کرتے رہتے تھے۔ جس کی وجہ سے دہلی کا نابینا مولوی احمد مسیح خدا کے پاس کھینچا چلا آیا۔ ان کی محنت، جان نثاری اور حقیقی تبلیغی جوش کو دیکھ کر جس 1229کے لارڈ کچنر اور لارڈ کرزن تک مداح تھے انہیں ۱۸۹۹ء کو لاہور کابشپ مقرر کیا گیا۔ بشپ ہوتے ہی انہوں نے اپنے انگریز بھائیوں پر اس بات کو واضح کر دیا کہ خداوند نے ہندوستان کو بطور امانت ہمارے سپرد کیا ہے۔ اس لئے تن دہی سے ہمیں خدمت کرنا لازم ہے۔ ورنہ خداوند اس امانت کا حساب ضرور لے گا۔‘‘
یہ ان کی Religious Book Society کی کتاب کا حوالہ ہے۔ بانی سلسلہ احمدیہ نے اس بشپ کو، جس کے متعلق پادریوں نے یہ لکھا تھا، چیلنج دیا اور وہ بھاگ گیا۔ اس کے متعلق مولوی اشرف علی صاحب تھانوی… میں ان اپنے بھائیوں کے حوالوں میں سے ایک لوں گا… مولوی اشرف علی صاحب تھانوی نے ایک ترجمہ قرآن کیا ہے۔ اس کا دیباچہ جو مولوی نور محمد صاحب نقشبندی انہی کے ہم مذہب نے لکھا ہے، یہ دیباچے کا ہے اقتباس جو میں پڑھوں گا:
’’اسی زمانے میں پادری لفرائے پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت لے کر حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنالوں گا۔ ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہوکر بڑا تلاطم برپا کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر بجسم خاکی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا۔ مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہوگئے اور لفرائے اور اس کی جماعت سے کہا ’’عیسیٰ جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرف سے فوت ہوکر دفن ہوچکے ہیں اور جس عیسیٰ کے آنے کی خبر ہے وہ 1230میں ہوں۔ پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھ کو قبول کر لو۔‘‘ اس ترکیب سے ان نیلفرائے کو اس قدر تنگ کیا کہ اس کا اپنا پیچھا چھڑانا مشکل ہوگیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی۔‘‘
اب ظاہر ہے اس کے الفاظ، کہ یہ دوست کا نہیں ویسے مخالف ہے، لیکن سچی بات کہنے سے دریغ بھی نہیں کرتا۔ "Indian Spectator", "Indian Daily Telegraph" (انڈین سیکٹر ڈیلی ٹیلی گراف) ان کے یہ حوالے ہیں۔
اب ہم آتے ہیں ۱۹۰۰ء سے ۱۹۰۲ء ڈاکٹر ڈوئی شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کا پادری تھا۔ وہ شروع ہی سے اسلام اور بانی اسلام کا معاند تھا۔ یہ اس کا ہے: ’’حال ہی میں ملک امریکہ میں (وہ میں نے حوالہ وہ میں نے عبارت چھوڑ دی ہے) یسوع مسیح کا ایک رسول پیداہوا جس کا نام ڈوئی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یسوع مسیح نے بحیثیت خدائی دنیا میں اس کو بھیجا ہے۔ تاکہ سب کو اس بات کی طرف کھینچے کہ بجز مسیح کے اور کوئی خدا نہیں اور یہ کہ تمام مسلمان تباہ اور ہلاک ہو جائیں گے۔ (یہ اعلان کیااس شخص نے) تو ہم ڈوئی صاحب کی خدمت میں باادب عرض کرتے ہیں کہ اگر ڈوئی اپنے دعوے میں سچا ہے اور درحقیقت یسوع مسیح خدا ہے تو یہ فیصلہ (سارے مسلمان ہلاک کرنے کی کیا ضرورت ہے) یہ فیصلہ ایک ہی آدمی کے مرنے سے ہو جائے گا۔ کیا حاجت ہے کہ تمام ملکوں کے مسلمانوں کو ہلاک کیا جائے۔‘‘
لیکن ڈوئی بجائے باز آنے کے تکبر اور شرارتوں میں اور بڑھ گیا اور اسلام کے خلاف پہلے سے زیادہ بدزبانی شروع کر دی۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے کچھ انتظار کے 1231بعد اپنا چیلنج طبع کروا کے اس کو وہاں بھجوایا اور امریکہ کے وسیع الاشاعت اخبار میں وہ چھپا اور اس کے ردعمل پر جب ایک سال گزر گیا تو بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ لکھا: ’’مسٹر ڈوئی اگر میری درخواست پر مباہلہ قبول کرے گا اور صراحتاً یا اشارتاً میرے مقابلے پر کھڑا ہو گا تو میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کو چھوڑ دے گا۔ پس یقین سمجھو کہ اس کے سہیون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے۔‘‘
CROSS- EXAMINATION OF THE QADIANI GROUP DELEGATION
(قادیانی وفد پر جرح) (بقیہ)
یہ مشرق ۲۲؍ستمبر ۱۹۲۷ئ۔ 1237اور بس میں یہ ایک ہی پڑھوں گا۔ یہ رئیس الاحرار مولانا محمد علی صاحب جوہر، جو پرانے احرار ہیں، ان کا بھی حوالہ ہے۔ یہ بہت سے ورق الٹنے میں اتنی دیر لگی۔ بڑی جلد ختم ہورہا ہے۔ بس اب تھوڑا سا رہ گیا ہے…
جناب یحییٰ بختیار: اگر لمبا بہت زیادہ ہے تو کل پھر کر دیتے۔
مرزاناصر احمد: نہیں، ابھی کل چلے گا؟
جناب یحییٰ بختیار: کل تو کچھ رہ گیا ہے۔
مرزاناصر احمد: اچھا! تو… نہیں، اگر ویسے آپ کی مرضی۔ لیکن میں، میرا خیال ہے، پانچ سات منٹ میں ختم کر دیتا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: بس ٹھیک ہے جی۔
مرزاناصر احمد: ۱۹۲۸ء میں سیرت النبیﷺ کے جلسوں کی تحریک ہوئی اور یہ تھا کہ میں اس کا جو اصل مغز تھا وہ یہ تھا کہ نبی اکرمﷺ کی سیرت پر جلسے اور ہندوؤں اور عیسائیوں اور ان کو بلاؤ کہ وہ بھی تقریر کریں۔ آنحضرتﷺ کی سیرت پر اور جو عملاً ہوا وہ یہ ہے کہ ان کے پاس تو اپنا نہ مواد تھا اور نہ انہوں نے اس کو سوچا تھا تو وہ مسلمانوں سے مواد لے کر اور بڑے اچھے رنگ میں وہاں آکر تقریر کر دیتے تھے اور اس طرح پر نبی اکرمﷺ کی شان اور جلالیت، وہ جو ان کی وجہ سے ان کے ساتھی عیسائی یا ہندو وغیرہ آتے تھے، ان کے سامنے آپ کی سیرت کا ایک چمکتا ہوا بیان آجاتا تھا۔ اس واسطے اس کے کہنے کے بعد میں سارا اس طرح کر دیتا ہوں۔ نہرو رپورٹ ایک شائع ہوئی۔ تو یہ بڑی عیار قوم ہے اور بڑی ہوشیاری سے چکر دے کر انہوں نے ایک ایسی رپورٹ کی تھی جو…
جناب یحییٰ بختیار: سب کو علم ہے جی اس کا۔
1238مرزاناصر احمد: ہاں… اس کے اوپر ایک تبصرہ کیا ہے، جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک بڑا تبصرا ہوا ہے اور اس کا دو سطری خلاصہ یہ تھا، اس تبصرے کا، کہ یہ مشورہ دیا کہ ایک آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد ہو اور اس میں یہ یہ تجویزیں ہوں۔ نہ صرف اسلامی حقوق کی حفاظت کر لی گئی ہو بلکہ دوسرے تمام امور کے متعلق بھی ایک مکمل قانون یہ پیش کرے۔ یہ دو آئٹمز رہ گئی ہیں، وہ پھر کل کر لیں گے؟
جناب یحییٰ بختیار: اور کیا رہ گیا ہے؟
مرزاناصر احمد: ایک تو کشمیر۔ وہ تو بڑا اہم ہے۔ ہاں، ایک تو… ہاں، تین چار رہ گئے ہیں۔ کچھ تو سائمن کمیشن رپورٹ پر۔ یہ میں اس طرح داخل کروادیتا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھئے ناں، مرزاصاحب! یہ تو جنرل باتیں ہیں۔
مرزاناصر احمد: قضیہ فلسطین اور جماعت احمدیہ کی مساعی… یہ بڑا اہم ہے۔ کیونکہ اعتراض ہو جاتے ہیں ناں کہ پہلے فلسطین تھا، اسرائیل بن گیا اور اکثر کو پتہ ہی نہیں کہ کس تاریخ کو بن گیا۔
جناب یحییٰ بختیار: پھر کل Afternoon (بعد دوپہر) کو ہوگا۔ کل صبح تو کہتے ہیں کہ نہیں ہورہا جی۔ 6 O'clock tomorrow? (کل چھ بجے؟)
محترمہ چیئرمین: اور آپ کو کوئی Question (سوال) تو نہیں پوچھنا ہے؟
Mr. Yahya Bakhtiar: نہیں Unless... Not now, because he has not concluded.
(جناب یحییٰ بختیار: ابھی نہیں، کیونکہ ابھی انہوں نے ختم نہیں کیا)
Madam Chairman: So, we meet again tomorrow at 5:30 pm.
(محترمہ چیئرمین: تو ہم کل ساڑھے پانچ بجے دوبارہ اجلاس کریں گے)
Mr. Yahya Bakhtiar: 5:30 pm tomorrow?
(جناب یحییٰ بختیار: کل ساڑھے پانچ بجے؟)
Madam Chairman: 5:30 pm tomorrow.
(محترمہ چیئرمین: ساڑھے پانچ بجے)
Mr. Yahya Bakhtiar: Because there is Senate Session, those journalists come and security arrangements....
1239مرزاناصر احمد: تو؟
Madam Chairman: 5:30 pm tomorrow.
(محترمہ چیئرمین: کل ساڑھے پانچ بجے)
مرزاناصر احمد: میرا حق نہیں ہے، مگر کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کے خیال میں کیا اندازہ ہے، کل ختم ہو جائے گا؟
جناب یحییٰ بختیار: یعنی یہ تو آپ پر Depend (انحصار) کر رہا ہے۔
مرزاناصر احمد: میں تو پانچ دس منٹ سے زیادہ نہیں لوں گا جی۔
جناب یحییٰ بختیار: تو ایک دو آئٹمز رہ گئے ہیں۔ میرے خیال کچھ زیادہ ٹائم نہیں، کوشش یہی ہے…
مرزاناصر احمد: … کہ کل شام کو ہو جائے ختم…
جناب یحییٰ بختیار: … کیونکہ سوال تو ابھی اتنے زیادہ رہ گئے ہیں۔ میں ممبر صاحبان سے Request (گزارش) کرتا ہوں کہ وہ Give up کر دیں تاکہ وہ…
مرزاناصر احمد: ہاں!
محترمہ چیئرمین: اچھا جی!
The Delegation is allowed to leave.
(وفد کو جانے کی اجازت ہے)
(The Delegation left the Chamber)
(وفد ہال سے باہر چلاگیا)
محترمہ چیئرمین: وہ جو فائل کرنے تھے، وہ لے لئے سب آپ نے؟
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی! اچھا ہے تاکہ وہ ختم ہو جائیں۔
----------
[The Special Committee adjourned to meet at half past five of the clock, in the afternoon, on Friday, the 23rd August, 1974.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس بروز جمعہ ۲۳؍اگست ۱۹۷۴ء بعد دوپہر ساڑھے پانچ بجے تک ملتوی کیا جاتا ہے)
----------
مرزاناصر احمد: ہاں، جلسہ ہے مذاہب والا۔ اخبار ’’چودھویں صدی‘‘ راولپنڈی یکم؍فروری ۱۸۹۷ئ۔ یہ اس کی فوٹوسٹیٹ بھی ہے۔ میں ساتھ لگا دوں گا: ’’ہم مرزاصاحب کے مرید نہیں ہیں اور نہ ہم کو ان سے کوئی تعلق ہے۔ لیکن بے انصافی ہم کبھی نہیں کر سکتے اور نہ کوئی سلیم فطرت اور صحیح Conscience اس کو روا رکھ سکتا ہے۔ مرزاصاحب نے کل سوالوں کے جواب جیسا کہ مناسب تھا قرآن شریف سے دئیے اور تمام بڑے بڑے اصول وفروع اسلام کو دلائل عقلیہ وبراہن فلسفہ کے ساتھ مبرہن اور مزین کیا۔ بہرحال اس کا شکریہ ہے کہ اس جلسہ میں اسلام کا بول بالا ہوا اور تمام غیرمذاہب کے دلوں پر اسلام کا سکہ بیٹھ گیا۔‘‘
اور بھی ہیں حوالے جنہیں میں چھوڑ رہا ہوں۔
اب آتے ہیں ہم ۱۹۰۰ء بشپ جارج ایلفریڈ لفرائے سے مقابلہ اور اس کا صلہ جارج ایلفریڈ لفرالے، ۱۸۵۴۔ ۱۹۱۹ء ہندوستان کے افق پر مسلمانوں کے لئے ایک چیلنج بن کر ابھرا۔ اس نے ہندوستان کی مذہبی فضاء میںتہلکہ مچا دیا۔ چنانچہ لکھا ہے: ’’انہوں نے عربی اور اردو میں کافی مہارت پیدا کر لی۔ مسلمانوں سے بحث کرتے رہتے تھے۔ جس کی وجہ سے دہلی کا نابینا مولوی احمد مسیح خدا کے پاس کھینچا چلا آیا۔ ان کی محنت، جان نثاری اور حقیقی تبلیغی جوش کو دیکھ کر جس 1229کے لارڈ کچنر اور لارڈ کرزن تک مداح تھے انہیں ۱۸۹۹ء کو لاہور کابشپ مقرر کیا گیا۔ بشپ ہوتے ہی انہوں نے اپنے انگریز بھائیوں پر اس بات کو واضح کر دیا کہ خداوند نے ہندوستان کو بطور امانت ہمارے سپرد کیا ہے۔ اس لئے تن دہی سے ہمیں خدمت کرنا لازم ہے۔ ورنہ خداوند اس امانت کا حساب ضرور لے گا۔‘‘
یہ ان کی Religious Book Society کی کتاب کا حوالہ ہے۔ بانی سلسلہ احمدیہ نے اس بشپ کو، جس کے متعلق پادریوں نے یہ لکھا تھا، چیلنج دیا اور وہ بھاگ گیا۔ اس کے متعلق مولوی اشرف علی صاحب تھانوی… میں ان اپنے بھائیوں کے حوالوں میں سے ایک لوں گا… مولوی اشرف علی صاحب تھانوی نے ایک ترجمہ قرآن کیا ہے۔ اس کا دیباچہ جو مولوی نور محمد صاحب نقشبندی انہی کے ہم مذہب نے لکھا ہے، یہ دیباچے کا ہے اقتباس جو میں پڑھوں گا:
’’اسی زمانے میں پادری لفرائے پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت لے کر حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنالوں گا۔ ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہوکر بڑا تلاطم برپا کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر بجسم خاکی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا۔ مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہوگئے اور لفرائے اور اس کی جماعت سے کہا ’’عیسیٰ جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرف سے فوت ہوکر دفن ہوچکے ہیں اور جس عیسیٰ کے آنے کی خبر ہے وہ 1230میں ہوں۔ پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھ کو قبول کر لو۔‘‘ اس ترکیب سے ان نیلفرائے کو اس قدر تنگ کیا کہ اس کا اپنا پیچھا چھڑانا مشکل ہوگیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی۔‘‘
اب ظاہر ہے اس کے الفاظ، کہ یہ دوست کا نہیں ویسے مخالف ہے، لیکن سچی بات کہنے سے دریغ بھی نہیں کرتا۔ "Indian Spectator", "Indian Daily Telegraph" (انڈین سیکٹر ڈیلی ٹیلی گراف) ان کے یہ حوالے ہیں۔
اب ہم آتے ہیں ۱۹۰۰ء سے ۱۹۰۲ء ڈاکٹر ڈوئی شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کا پادری تھا۔ وہ شروع ہی سے اسلام اور بانی اسلام کا معاند تھا۔ یہ اس کا ہے: ’’حال ہی میں ملک امریکہ میں (وہ میں نے حوالہ وہ میں نے عبارت چھوڑ دی ہے) یسوع مسیح کا ایک رسول پیداہوا جس کا نام ڈوئی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یسوع مسیح نے بحیثیت خدائی دنیا میں اس کو بھیجا ہے۔ تاکہ سب کو اس بات کی طرف کھینچے کہ بجز مسیح کے اور کوئی خدا نہیں اور یہ کہ تمام مسلمان تباہ اور ہلاک ہو جائیں گے۔ (یہ اعلان کیااس شخص نے) تو ہم ڈوئی صاحب کی خدمت میں باادب عرض کرتے ہیں کہ اگر ڈوئی اپنے دعوے میں سچا ہے اور درحقیقت یسوع مسیح خدا ہے تو یہ فیصلہ (سارے مسلمان ہلاک کرنے کی کیا ضرورت ہے) یہ فیصلہ ایک ہی آدمی کے مرنے سے ہو جائے گا۔ کیا حاجت ہے کہ تمام ملکوں کے مسلمانوں کو ہلاک کیا جائے۔‘‘
لیکن ڈوئی بجائے باز آنے کے تکبر اور شرارتوں میں اور بڑھ گیا اور اسلام کے خلاف پہلے سے زیادہ بدزبانی شروع کر دی۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے کچھ انتظار کے 1231بعد اپنا چیلنج طبع کروا کے اس کو وہاں بھجوایا اور امریکہ کے وسیع الاشاعت اخبار میں وہ چھپا اور اس کے ردعمل پر جب ایک سال گزر گیا تو بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ لکھا: ’’مسٹر ڈوئی اگر میری درخواست پر مباہلہ قبول کرے گا اور صراحتاً یا اشارتاً میرے مقابلے پر کھڑا ہو گا تو میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کو چھوڑ دے گا۔ پس یقین سمجھو کہ اس کے سہیون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے۔‘‘
پہلے ڈوئی کی اخلاقی موت، اس کے… اخبار ’’نیویارک ورلڈ‘‘ اس وقت تھا۔ ڈوئی کے ساتھ خطوط اس اخبار نے شائع کئے کہ ’’میں ولد الحرام ہوں، اپنے باپ کا بیٹانہیں۔‘‘ یہ پہلی موت اس کی ہوئی۔ پھر یکم؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو اس پر فالج ہوا۔ پھر ۱۹؍دسمبر۱۹۰۵ء کو دوسرا فالج ہوا، اور ۹؍مارچ ۱۹۰۷ء کو بڑے دکھ اور حسرت سے مرا بڑی لمبی کہانی ہے، بڑی دردناک کہانی ہے۔ میں اس کو چھوڑ رہا ہوں۔ میں بڑا مختصر کر رہا ہوں اور پڑھ بھی تیز رہا ہوں، جیسا کہ آپ سن رہے ہیں۔
۱۹۱۰ئ… مسلم پریس ایسوسی ایشن کے قیام کی تاریخ ۱۰؍فروری ۱۹۱۰ء کو ’’الحکم‘‘ کے ذریعے ہندوستان کے تمام مسلم اخبارات کو باہم متحد ہونے اور ایک مسلم پریس ایسوسی ایشن کے قیام کی تحریک کی۔ تو یہ اس وقت کا تقاضا تھا اور سارے مسلمان یکجان ہوکر اس کام کو کریں، ہماری طرف سے نہیں۔ بہرحال ایک تحریک ہوئی اور وہ ہر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ نہایت مفید تحریک تھی اور کوئی کسی اختلاف کا نہ کوئی شائبہ تھا نہ اس کا اظہار کیا، نہ ہماری طرف سے، نہ کسی اور کی طرف سے۔ اس پر بعض حوالے ہیں یہاں جو دوسروں کے وہ میں چھوڑ دیتا ہوں۔
ایک مدرسہ الٰہیات کے لئے امداد کا سوال تھا۔ اس کی تحریک کی گئی وہ بھی جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں رکھتا۔
1232اب ہم پہنچے ہیں ۱۹۱۸ء پر۔ ۱۹۱۸ء میں ملت اسلامیہ ہندوستان نے خوشی کے دن منائے اور کروڑوں چراغ جلائے گئے اور جلسے ہوئے اور اس کے متعلق میں ایک حوالہ پڑھ دوں گا۔ ایک تو اس پر علامہ اقبال نے جو اشعار سنائے اور چھپ چکے ہیں، وہ بڑے دلچسپ ہیں۔ پڑھنے کے قابل ہیں۔ میں یہاں چھوڑتا ہوں اور غلام بھیک بی۔اے نیرنگ، صدر انجمن دعوت وتبلیغ اسلام انبالہ نے ایک نظم لکھی اس کو بھی میں چھوڑتا ہوں۔ یہ وہ ایک مقبول عام نظم ہے، خان احمد حسین خان صاحب، مشہور مصنف ہیں، ان کی، اس کو میں چھوڑتا ہوں۔ یہ ہے ’’حق‘‘ ایک اخبار، اس کی بھی فوٹوسٹیٹ کاپی یہاں ہم دے دیں گے۔ شیخ عبدالقادر صاحب، بی۔اے، بیرسٹر ایٹ لائ، خادم اسلام، معروف ہستی ہیں۔ انہوں نے ۲۳؍نومبر ۱۹۱۸ء کو ایک مضمون لکھا لمبا ہے ناں جی، یہ مضمون جی۔ اس میں سے چار سطریں میں نے لی ہیں چھوٹی سی:
’’ماہ نومبر کی بارھویں تاریخ جو خوشیاں سارے ملک میں منائی گئی ہیں، وہ مدتوں تک یاد رہیں گی اور اس ایک دن کی خوشی نے لڑائی کے زمانے کی بہت کلفتوں کو دھو ڈالا۔‘‘
تو یہ Vein ہے جس میں اس وقت کا مسلمان بات کر رہا تھا۔ تو ان کروڑوں دیوں میں ان چراغوں… چراغاں دیوں سے ہوتی تھی، بلب ابھی نہیں آئے تھے… اگر چند سو دئیے تو وہ قابل اعتراض نہیں ہونے چائیں ہمارے نزدیک۔ میں، یہ سارا مسالہ ہے، اس کو میں چھوڑ دیتا ہوں۔ وقت بڑا تنگ ہے۔
معاہدہ ترکیہ پر مسلمانوں کو عالمگیر الجنۂ اسلامیہ کے قیام کا مشورہ۔ ایک بڑا دکھ دہ واقعہ ہوا تھا، جس رنگ میں ترکی کے ساتھ معاہدہ کیا گیا تھا، Allies (اتحادیوں) کا اور ترکی کا، یعنی 1233ترکی مجبور ہوا۔ اس کے متعلق ’’الفضل‘‘ ۳؍جون ۱۹۲۰ء کے صفحہ ایک پر ہے:
’’فاتح اتحادی ملکوں نے ترکی سے جو شرائط صلح طے کیں وہ انتہا درجے کی ذلت آمیز تھیں۔ اس معاہدہ کو سلسلے میں آئندہ طریق عمل سوچنے کے لئے یکم اور۲؍جون ۱۹۲۰ء کو الہ آباد میں خلافت کمیٹی کے تحت کانفرنس منعقد کی گئی۔ جمعیت العلمائے ہند کے مشہور لیڈر جناب مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محل کی دعوت پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ایک مضمون بعنوان ’’معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ‘‘ ایک دن میں رقم فرمایا اور اسے راتوں رات چھپوا کر بھیجوایا جس میں علاوہ اور تجاویز کے، ایک یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی اور بہبود کے لئے بلاتاخیر ایک عالمگیر لجنۂ اسلامیہ قائم ہونی چاہئے۔‘‘
بڑی زبردست یہ اس وقت تحریک کی گئی تھی۔ اپنے وقت پر سارے کام ہوتے ہیں۔
۱۹۲۱ئ… ترکی اور حجاز کے حقوق کی حفاظت، ۲۳؍جون ۱۹۲۱ء کو جماعت احمدیہ کا ایک وفد وائسرائے ہند کو ملا اور ان کی توجہ اس امر کی طرف دلائی کہ ترکی کی حکومت کے ساتھ ہمیں ہمدردی ہے۔ اگر پچاس سال کے بعد برطانوی حکومت کی مدد سے لورین فرانس کو واپس مل سکتے ہیں، ایک اور ہے، مجھ سے پڑھا نہیں گیا… تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ سمرنا اور سائپرس ترکوں کو واپس نہ دلائے جائیں۔ یہیں انہوں نے توجہ خاص اس بات کی طرف دلائی گئی کہ وزیر نو آبادیات نے حجاز کی بابت جو تجاویز پیش کی ہیں، وہ حجاز کی آزادی کے منافی ہیں اور ان سے کہا گیا کہ ترکوں سے علیحدگی کے بعد حجاز کی آزادی میں کوئی خلل نہیں آنا چاہئے۔ وہ پورا ایک آزاد ملک ہونا چاہئے۔
1234’’تحریک شدھی اور مجاہدین احمدیت کی خدمات‘‘ کے… عنوان جو کسی اور نے لکھی ہیں… اگر اجازت ہو تو میں یہاں ٹانک لوں؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مرزاصاحب! یہ تو…
مرزاناصر احمد: نہیں، یہ تو کیا، ہم تو عاجز بندے ہیں، خادم ہیں۔ یہ ایک لمبا عرصہ گزرا ہے اس کو دوستوں کے ذہن میں اس کی تفصیل کم ازکم نہیں ہوگی۔ بڑا اندوہناک واقعہ ہوا۔ یو۔پی کے اضلاع آگرہ متھرا، وغیرہ، وغیرہ۔ شاہجہان پور، فرخ آباد، بدایوں اور تلوہ میں ایسے ملکانہ راجپوت آباد تھے جو اپنے آپ کو مسلمان، خیال کرتے تھے۔ لیکن ان کا رہنا سہنا، کھانا پینا، بول چال، رسم ورواج سب ہندوانہ تھے، حتیٰ کہ بعض کے نام بھی ہندوانہ تھے اور ناواقفی کی وجہ سے وہ اپنی غیراسلامی حالت کو اسلامی حالت سمجھ کر مطمئن تھے اور لمبے عرصے تک ان کی طرف کسی نے توجہ نہیں کی۔ آریوں نے میدان خالی پاکر انہیں ہندو قوم میں ضم کرنے کے لئے بڑے زور شور سے شدھی کی تحریک شروع کر دی اور تمام اضلاع میں انہوں نے اپنے پرچارک بھجوائے اور اسلام کے خلاف نہایت زہریلا پیراپیگنڈا شروع کیا۔ جس سے سارے ملک میں شور پڑ گیا۔ اس موقع پر ۷؍مارچ ۱۹۳۰ء کو امام جماعت احمدیہ نے مسلمانوں کو ارتداد کے فتنے سے بچانے کے لئے جہاد کبیر کا علم بلند کیا اور ایک سو پچاس احمدی رضا کار فوری طور پر ایک نظام کے ماتحت مختلف علاقوں میں بھجوادئیے اور اس کام میں ایک لمبا تسلسل پیدا کیا۔ چنانچہ ان مجاہدین کی مساعی رنگ لائیں اور دوسرے دوست بھی پہنچے اور یہ فتنہ جو تھا روک دیا۔ بڑا سیلاب آیا تھا۔ مسلم اخبارات نے اس سلسلہ میں جو لکھا… مثلاً ’’زمیندار‘‘ ہے مولانا ظفر علی خان صاحب کا… ۱۸؍اپریل …۱۹۳۰ء کو لکھا: ’’احمدی بھائیوں نے جس خلوص، جس ایثار، جوش اور ہمدردی سے اس کام میں حصہ لیا وہ اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس پر فخر کرے۔‘‘
1235اخبار ’’ہمدم‘‘ لکھنؤ، ۶؍اپریل ۱۹۳۰ء نے لکھا: ’’قادیانی جماعت کی مساعی حسنہ اس معاملے میں بے حد قابل تحسین ہیں اور دوسری اسلامی جماعتوں کو انہی کے نقش قدم پر چلنا چاہئے۔‘‘
یہ اخباروں کے حوالے بہت سارے، یہ میں ورق الٹا رہا ہوں، اپنا وعدہ پورا کر رہا ہوں۔ اخبار ’’وکیل‘‘ امرتسر۔ ’’نجات‘‘ بجنور، سارے ہندوستان کے اخبار تھے جنہوں نے … ’’نور‘‘ علی گڑھ اور پھر ہندو اخبارات نے کہا، اعتراف کیا۔
اب آگے ہم ’’ملک شام کی تحریک آزادی اور جماعت احمدیہ کا اس میں کردار۔‘‘
جنگ عظیم کے بعد شام پر فرانس نے قبضہ کیا، جیسا کہ سب جانتے ہیں تو دروس کا علاقہ ہے۔ مسلمانوں نے تحریک آزادی کا علم بلند کیا۔ شام کی فرانسیسی حکومت نے دمشق پر گولہ باری کی۔ اس پر حضرت امام جماعت احمدیہ نے ۱۳؍نومبر ۱۹۲۵ء کو خطبہ جمعہ میں تحریک آزادی کی تائید میں فرمایا: ’’میں اس اظہار سے نہیں رک سکتا کہ دمشق میں ان لوگوں پر، جو پہلے ہی بے کس اور بے بس تھے، یہ بھاری ظلم کیاگیا ہے۔ ان لوگوں کی بے کسی اور بے بسی کا یہ حال ہے کہ باوجود اپنے ملک کے آپ مالک ہونے کے دوسروں کے محتاج بلکہ دست نگر ہیں۔ میرے نزدیک شامیوں کا حق ہے کہ وہ آزادی حاصل کریں۔ ملک ان کا ہے، حکمران بھی وہی ہونے چاہئیں۔ ان پر کسی اور کی حکومت نہیں ہونی چاہئے۔ یہ ظلم اس لحاظ سے اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ پچھلی جنگ میں اہل شام نے اتحادیوں کی مدد کی اور اس غرض سے مدد کی کہ انہیں اپنے ملک میں حکومت کرنے کی آزادی دی جائے گی۔ پھر کتنا ظلم ہے کہ اب ان کو غلام بنایا جاتا ہے۔‘‘
1236چنانچہ یہ میں… حوالہ بھی لمبا ہے… چھوڑتا ہوں۔ تو آگے حوالوں سے ظاہر ہے کہ اپنی طرف سے پورا زور باقیوں کے ساتھ مل کے لگایا کہ ان کو جو حق ہے ان کو ملے۔
اب ہم آتے ہیں ۱۹۲۷ء ’’رنگیلا رسول‘‘ اور ’’ورتمان‘‘ اسلام کے افق میں نمودار ہوئے۔ آگ کے شعلے تھے۔ بڑا اس کا ردعمل تھا۔ ہونا چاہئے تھا۔ ’’ورتمان‘‘ آریہ راج پال کی ناپاک کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ اور امرتسر کے رسالہ ’’ورتمان‘‘ میں سید المعصومین آنحضرتa کے خلاف جو دل آزار مضمون شائع ہوا اس کے اوپر ہے ایک حوالہ میں ’’مشرق‘‘ ۲۲؍ستمبر ۱۹۲۷ء کا اس کے متعلق میں پڑھ دیتا ہوں۔ کام کیا، بڑی سخت جنگ یہ لڑی گئی اور یہ رنگیلا رسول کے متعلق:
’’جناب امام صاحب (جماعت احمدیہ) کے احسانات تمام مسلمانوں پر ہیں۔ آپ ہی کی تحریک سے ’’ورتمان‘‘ پر مقدمہ چلایا گیا۔ آپ ہی کی جماعت نے ’’رنگیلا رسول‘‘ کے معاملے کو آگے بڑھایا، سرفروشی کی اور جیل خانے سے خوف نہیں کھایا۔ آپ ہی کے پمفلٹ نے جناب گورنر صاحب بہادر پنجاب کو عدل وانصاف کی طرف مائل کیا۔ آپ کا پمفلٹ ضبط کر لیا۔ مگر اس کے اثرات کو زائل نہیں ہونے دیا اور لکھ دیا کہ اس پوسٹر کی ضبطی محض اس وجہ سے ہے کہ اشتعال نہ بڑھے (انگریزی حکومت نے) اور اس کا تدارک نہایت عادلانہ فیصلے سے کر دیا اور اس وقت ہندوستان میں جتنے فرقے ہیں، سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں یا ہندوؤں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہورہے ہیں۔ صرف ایک جماعت (احمدی جماعت) ہے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح کسی فرد یا جمعیت سے مرعوب نہیں ہے اور خاص اسلامی کام سرانجام دے رہی ہے۔‘‘
یہ مشرق ۲۲؍ستمبر ۱۹۲۷ئ۔ 1237اور بس میں یہ ایک ہی پڑھوں گا۔ یہ رئیس الاحرار مولانا محمد علی صاحب جوہر، جو پرانے احرار ہیں، ان کا بھی حوالہ ہے۔ یہ بہت سے ورق الٹنے میں اتنی دیر لگی۔ بڑی جلد ختم ہورہا ہے۔ بس اب تھوڑا سا رہ گیا ہے…
جناب یحییٰ بختیار: اگر لمبا بہت زیادہ ہے تو کل پھر کر دیتے۔
مرزاناصر احمد: نہیں، ابھی کل چلے گا؟
جناب یحییٰ بختیار: کل تو کچھ رہ گیا ہے۔
مرزاناصر احمد: اچھا! تو… نہیں، اگر ویسے آپ کی مرضی۔ لیکن میں، میرا خیال ہے، پانچ سات منٹ میں ختم کر دیتا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: بس ٹھیک ہے جی۔
مرزاناصر احمد: ۱۹۲۸ء میں سیرت النبیﷺ کے جلسوں کی تحریک ہوئی اور یہ تھا کہ میں اس کا جو اصل مغز تھا وہ یہ تھا کہ نبی اکرمﷺ کی سیرت پر جلسے اور ہندوؤں اور عیسائیوں اور ان کو بلاؤ کہ وہ بھی تقریر کریں۔ آنحضرتﷺ کی سیرت پر اور جو عملاً ہوا وہ یہ ہے کہ ان کے پاس تو اپنا نہ مواد تھا اور نہ انہوں نے اس کو سوچا تھا تو وہ مسلمانوں سے مواد لے کر اور بڑے اچھے رنگ میں وہاں آکر تقریر کر دیتے تھے اور اس طرح پر نبی اکرمﷺ کی شان اور جلالیت، وہ جو ان کی وجہ سے ان کے ساتھی عیسائی یا ہندو وغیرہ آتے تھے، ان کے سامنے آپ کی سیرت کا ایک چمکتا ہوا بیان آجاتا تھا۔ اس واسطے اس کے کہنے کے بعد میں سارا اس طرح کر دیتا ہوں۔ نہرو رپورٹ ایک شائع ہوئی۔ تو یہ بڑی عیار قوم ہے اور بڑی ہوشیاری سے چکر دے کر انہوں نے ایک ایسی رپورٹ کی تھی جو…
جناب یحییٰ بختیار: سب کو علم ہے جی اس کا۔
1238مرزاناصر احمد: ہاں… اس کے اوپر ایک تبصرہ کیا ہے، جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک بڑا تبصرا ہوا ہے اور اس کا دو سطری خلاصہ یہ تھا، اس تبصرے کا، کہ یہ مشورہ دیا کہ ایک آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد ہو اور اس میں یہ یہ تجویزیں ہوں۔ نہ صرف اسلامی حقوق کی حفاظت کر لی گئی ہو بلکہ دوسرے تمام امور کے متعلق بھی ایک مکمل قانون یہ پیش کرے۔ یہ دو آئٹمز رہ گئی ہیں، وہ پھر کل کر لیں گے؟
جناب یحییٰ بختیار: اور کیا رہ گیا ہے؟
مرزاناصر احمد: ایک تو کشمیر۔ وہ تو بڑا اہم ہے۔ ہاں، ایک تو… ہاں، تین چار رہ گئے ہیں۔ کچھ تو سائمن کمیشن رپورٹ پر۔ یہ میں اس طرح داخل کروادیتا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھئے ناں، مرزاصاحب! یہ تو جنرل باتیں ہیں۔
مرزاناصر احمد: قضیہ فلسطین اور جماعت احمدیہ کی مساعی… یہ بڑا اہم ہے۔ کیونکہ اعتراض ہو جاتے ہیں ناں کہ پہلے فلسطین تھا، اسرائیل بن گیا اور اکثر کو پتہ ہی نہیں کہ کس تاریخ کو بن گیا۔
جناب یحییٰ بختیار: پھر کل Afternoon (بعد دوپہر) کو ہوگا۔ کل صبح تو کہتے ہیں کہ نہیں ہورہا جی۔ 6 O'clock tomorrow? (کل چھ بجے؟)
محترمہ چیئرمین: اور آپ کو کوئی Question (سوال) تو نہیں پوچھنا ہے؟
Mr. Yahya Bakhtiar: نہیں Unless... Not now, because he has not concluded.
(جناب یحییٰ بختیار: ابھی نہیں، کیونکہ ابھی انہوں نے ختم نہیں کیا)
Madam Chairman: So, we meet again tomorrow at 5:30 pm.
(محترمہ چیئرمین: تو ہم کل ساڑھے پانچ بجے دوبارہ اجلاس کریں گے)
Mr. Yahya Bakhtiar: 5:30 pm tomorrow?
(جناب یحییٰ بختیار: کل ساڑھے پانچ بجے؟)
Madam Chairman: 5:30 pm tomorrow.
(محترمہ چیئرمین: ساڑھے پانچ بجے)
Mr. Yahya Bakhtiar: Because there is Senate Session, those journalists come and security arrangements....
1239مرزاناصر احمد: تو؟
Madam Chairman: 5:30 pm tomorrow.
(محترمہ چیئرمین: کل ساڑھے پانچ بجے)
مرزاناصر احمد: میرا حق نہیں ہے، مگر کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کے خیال میں کیا اندازہ ہے، کل ختم ہو جائے گا؟
جناب یحییٰ بختیار: یعنی یہ تو آپ پر Depend (انحصار) کر رہا ہے۔
مرزاناصر احمد: میں تو پانچ دس منٹ سے زیادہ نہیں لوں گا جی۔
جناب یحییٰ بختیار: تو ایک دو آئٹمز رہ گئے ہیں۔ میرے خیال کچھ زیادہ ٹائم نہیں، کوشش یہی ہے…
مرزاناصر احمد: … کہ کل شام کو ہو جائے ختم…
جناب یحییٰ بختیار: … کیونکہ سوال تو ابھی اتنے زیادہ رہ گئے ہیں۔ میں ممبر صاحبان سے Request (گزارش) کرتا ہوں کہ وہ Give up کر دیں تاکہ وہ…
مرزاناصر احمد: ہاں!
محترمہ چیئرمین: اچھا جی!
The Delegation is allowed to leave.
(وفد کو جانے کی اجازت ہے)
(The Delegation left the Chamber)
(وفد ہال سے باہر چلاگیا)
محترمہ چیئرمین: وہ جو فائل کرنے تھے، وہ لے لئے سب آپ نے؟
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی! اچھا ہے تاکہ وہ ختم ہو جائیں۔
----------
[The Special Committee adjourned to meet at half past five of the clock, in the afternoon, on Friday, the 23rd August, 1974.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس بروز جمعہ ۲۳؍اگست ۱۹۷۴ء بعد دوپہر ساڑھے پانچ بجے تک ملتوی کیا جاتا ہے)
----------