ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
مرزاناصر احمد: تاریخی حالات سامنے جب ہم لاتے ہیں۔ اس زمانہ کے جب یہ الفاظ دو چار کئے گئے تو جو تاریخ کا ہے انتخاب۔ جو اہم باتیں ہیں،وہ سامنے لائی جاتی ہیں۔ میں نے اس لئے دو تین باتیں،جو میرے نزدیک اہم تھیں۔ ان کا انتخاب کیا۔ اس زمانہ میں ہماری تاریخ کے اس زمانہ میں علماء جو تھے ان میں باہمی سخت کلامی کا ایک طوفان تھا۱؎۔اور یہ باہمی سخت
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ چونکہ علماء میں سخت کلامی کا طوفان تھا۔ چنانچہ قادیانی نبی، مسیح موعود، نے بھی اس گنگا میں نہانے کے لئے کپڑے اتار دیئے۔ کیا عمدہ دلیل دی جارہی ہے؟ قادیانی حضرات اپنے رہنماؤں کی اداؤں پر توجہ فرمائیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کلامی جو ہے یہ میرے نزدیک ویسے تو کوئی سو سال، دو سو سال پہلے سے شروع ہے لیکن اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی اوراس میں سے میں نے دو ایک مثالیں لی ہیں۔ صرف اس اپنے نکتہ کوثابت کرنے کے لئے باہمی سخت کلامی سے کام لیاجارہاتھا۔
ایک حوالہ ہے ’’ردالر افضہ‘‘ یہ ۱۹۰۲ء میں چھپا ہے اوراس میں: ’’باالجملہ ان رافضیوں تبرائیوں کے باب میں حکم یقینی قطعی اجماعی یہ ہے وہ علی العموم کفار مرتدین ہیں۔ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ مردار ہے۔ ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خالص 730زنا ہے۔ معاذ اﷲ مرد رافضی اور عورت مسلمان ہو تو یہ سخت قہر الٰہی ہے۔ اگر مرد سنی اور عورت ان خبیثوں میں کی ہو جب بھی ہرگز نکاح نہ ہوگا۔ محض زنا ہوگا۔ اولاد ولدالزناہوگی۔باپ کا ترکہ نہ پائے گی اگرچہ اولاد بھی سنی ہی ہو کہ شرعاً ولدالزنا کا باپ کوئی نہیں۔ عورت نہ ترکہ کی مستحق ہوگی نہ مہر کی، کہ زانیہ کے لئے مہر نہیں۔ رافضی اپنے کسی قریبی حتیٰ کہ باپ بیٹے، ماں، بیٹی کا بھی ترکہ نہیں پا سکتا۔ سنی تو سنی،کسی مسلمان بلکہ کسی کافر کے بھی یہاں تک کہ خود اپنے ہم مذہب رافضی کے ترکہ میں اس کا اصلاً کچھ حق نہیں۔ ان کے مرد، عورت، عالم، جاہل کسی سے میل جول اسلام میں ایک کبیرہ اور اشد حرام گناہ ہے جو کہ ان کے ملعون عقیدوں پرآگاہ ہوکر بھی انہیں مسلمان جانیں یا ان کے کافر ہونے میں شک کریں۔ بہ اجماع تمام ائمہ دین کل کافر بے دین ہیں اوراس کے لئے بھی یہی سب احکام ہیں جو ان کے لئے مذکورہوئے۔ مسلمانوں پرفرض ہے کہ اس کے فتویٰ کو بہ گوش ہوش سنیں اوراس پر عمل کرکے سچے پکے سنی بنیں۔‘‘
دوسرا حوالہ…یہ تین ہی حوالے ہیں…یہ حوالہ ہے’’ردالرافضہ۔‘‘ اور یہ کتاب چھپی ہے ۱۹۰۲ء میں۔ اس کو چھپے ہوئے کوئی اکہتر سال ہوگئے اور کتب خانہ حاجی مشتاق احمد اینڈ سنز اندرون بوہڑ گیٹ ملتان…
جناب یحییٰ بختیار: مضمون کس کا ہے جی یہ؟
مرزاناصر احمد: یہ وہاں کے علماء کا، یہ علماء کا فتویٰ شائع کیاہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، ان میں نام ہیں کوئی؟ ایک دو پڑھ لیجئے، علماء کے جو نام ہیں۔
مرزاناصر احمد: یہ بریلوی علماء کا ہے۔ یہ کتاب ہے ناں۔ اس میں سے یہ حوالہ لیا ہے۔ یہ بریلوی علماء نے شیعوں کے اوپر یہ فتویٰ دیاہے۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ احمدیوں کے خلاف نہیں ہے یہ؟
مرزاناصر احمد: نہیں،نہیں،نہیں،شیعوں کے…
(مرزا کی بدزبانی اور فرقوں کے باہمی فتوؤں کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں)
جناب یحییٰ بختیار: مرزاصاحب!دیکھیں،میراسوال،آپ معاف کیجئے۔ ایک بالکل Simple (سادہ) ہے کہ مرزا صاحب نے …میں نے تین بزرگوں کے نام لئے…ان کے متعلق یہ الفاظ کہے اورآپ فتوؤں کا ذکر کررہے ہیں کہ سنیوں نے شیعوں کے خلاف کیا دیئے۔ شیعوں نے سنیوں731 کے خلاف کیاکیا۔ اس میں ان کا کیاجواز ہے کہ جو مرزاصاحب نے ان کے متعلق کہا ’’خبیث،بدکار عورت کا لڑکا‘‘ ان کے متعلق آپ کچھ فرمائیں۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں توآپ یہ کہہ چکے ہیں کافی، یہ کافی فتوے ایک دوسرے خلاف دیتے رہے ہیں اور کئی عرصے سے دیتے رہے ہیں۔ محضر نامے میں آپ کے آچکاہے۔
مرزاناصر احمد: آپ کا مطلب یہ ہے…
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی، تاکہ مختصرہو۔ میں نہیں آپ کو روکتا، نہ روک سکتاہوں، نہ مجھے اختیار ہے۔ صرف یہ ہے کہ یہ Proceedings اتنی لمبی ہوگئی ہے۔ آپ یہ بھی Strain اسمبلی پر بھی Strain اور اس لئے میں مؤدبانہ عرض کروں گا کہ اگرآپ اس کو اس چیز کے لئے Confine کریں۔اس کا بیک گراؤنڈ ہمیں مل گیا ہے۔آپ نے پوری تفصیل سے بتایا ہے کہ کیا فتوے ہوئے اور کس نے کس کے خلاف دیئے اور کس قسم کے فتوے ہوئے اور بڑی سخت کلامی ہوئی ہے اس میں۔ آپ نے بڑی تفصیل سے بتایا ہے اور یہ میں کہتا ہوں کہ ان تین بزرگوں کے خلاف جو الفاظ مرزاصاحب نے استعمال کئے۔ یہ تو میں نہیں کہتا کہ اس زمانے میں سخت کلامی فیشن تھی،اس لئے یہ زبان…
مرزاناصر احمد: میں،میں یہی کہہ رہا ہوں۔ لیکن اس سے آگے میں یہ کہوں گا کہ اس فیشن میں بانی سلسلہ ملوث نہیں ہوئے۔ اگر ساری میر ی باتیں سن لیں؟
(ڈائریکٹ اس پوائنٹ پر آئیں کہ مرزا نے سخت کلامی کیوں کی؟)
جناب یحییٰ بختیار: نہیں،ہاں تو یہ میں عرض کررہاتھا۔ میں یہ عرض کررہاتھا کہ اگر آپ ڈائریکٹ اس پوائنٹ پرآ جائیں کہ ان کے متعلق کیوں انہوں نے کہا؟ اگر انہوں نے مرزا صاحب کے متعلق باتیں کہی ہیں تب تو آپ پہلے وہ پڑھ کے سنادیجئے۔ پھر یہ کہیں کہ مرزا صاحب نے ان حالات میں یہ بات کہی یا نہیں کہی، یا یہ ان کا مطلب تھا جو…
مرزاناصر احمد: جی،اگر میں یہ سمجھوں کہ اس پس منظر کو سامنے لائے ہوئے میں اس مختصر سوال کا مختصر جواب نہیں دے سکتا تو پھر میرے لئے کیا ہدایت ہے آپ کی۱؎؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی، پھر آپ جیسے مرضی ہے کریں۔ میں نے عرض کیاتھا، Request (درخواست)کی تھی۔(درخواست)
مرزاناصر احمد: میںنے سینکڑوں فتاویٰ میں سے اسی لئے صرف دو تین لئے ہیں…
732جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے،ٹھیک ہے۔
مرزاناصر احمد: …اورصرف یہ بتانامقصود ہے کہ اس زمانہ میں ایک فرقہ دوسرے فرقے کے خلاف بڑی سخت گوئی سے کام لے رہاتھا۔ میرامطلب یہ ہے کہ جس زمانہ کے متعلق سوال کیاگیا ہے اس زمانے کا پس منظر جب تک سامنے نہ ہو جواب کی میرے نزدیک سمجھ آ سکتی۔ اس کی خاطر میں نے صرف تین لئے ہیں، ورنہ تو کتابیں بھری ہوئی ہیں ان سے۔
اب یہ خلاصہ فتویٰ علمائے دین شریفین، جو دوسراحوالہ ہے،مندرجہ فتویٰ حرمین بردف ندوۃ العلمائ…(اپنے وفد کے ایک رکن سے) یہ کیا لکھاہے؟ (اٹارنی جنرل سے) ندوۃ النّبیین۔ ناشر مولوی امین عبدالرحیم احمد سلیمانی سیٹھ۔ مطبوعہ گلزار حسنی، واقع بمبئی۔ ۱۳۱۷ھ بمطابق ۱۹۰۰ئ۔ یہ حرمین شریف کا فتویٰ ہے،نمبر۲۔ میں نے تین سے زیادہ نہیں لئے اسی لئے: ’’وہ علی العموم کفار مرتدین ہیں۔ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ… یہ تو میں پڑھ چکاہوں…یہ ہے: ’’بد مذہب جتنے ہیں سب گمراہ ہیں،فتنہ پرداز ہیں،ظالم ہیں…‘‘
(کیا دوسروں کی بدزبانی مرزاقادیانی کی بدزبانی کو جواز فراہم کرتی ہے؟)
مولاناغلام غوث ہزاروی: جناب صدرصاحب!ایک بات کہتاہوں میں کہ یہ گواہ کو جناب ارشاد فرمائیں کہ نبی کی گالیاں…مسیح موعود کی گالیوں کے مقابلے میں امتیوں کی اور دوسروں کی گالیاں کیوں پیش کرتے ہیں؟
Mr. Chairman: ''This is a question. This can come only through the Attorney-General. Yes, the witness
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ جب تک لوگوں کی گالیاں نہ سنالوں،مرزاصاحب کے گالیاں دینے کے فلسفہ پر کچھ کہنا ممکن نہیں۔کیاعمدہ استدلال ہے؟ تف بر تواے چرخ گردوں تف۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
can reply, should continue what he was replying.''
(مسٹر چیئرمین: یہ ایک سوال ہے جو کہ اٹارنی جنرل صاحب کے توسط سے پوچھا جا سکتاہے۔ گواہ جواب دے سکتاہے۔ وہ (گواہ) اپنا بیان جاری رکھے)
مرزاناصر احمد: بد مذہب جتنے ہیں، سب گمراہ ہیں۔ فتنہ پرداز ہیں،ظالم ہیں، ہالک ہیں۔ ان کی اہانت واجب، ان کی توقیر حرام، ان سے بغض رکھنے، انہیں اپنے سے دور رکھنے کا حکم ہے۔ وہ مفسد ہیں۔ انہوں نے دین کو پارہ پارہ کردیا۔ ان سے میل جول حرام ہے۔ ان سے دوری واجب ہے۔ اہل سنت کے سوا سب کلمہ گو اہل قبلہ گمراہ، فاسق، بدعتی، ناری ہیں۔ صحابہ کرام سے آج تک تمام امت مرحومہ کا اس پر اجماع ہے۔ مسلمانوں پر ان کاضرر کافروں733 سے زائد ہے۔ ان کی بات لاعلاج مرض ہے۔ ان کی ٹکر سے پہاڑ ٹل جاتے ہیں۔ وہ گمراہ گر ہیں۔ شیطان نے جھوٹی ملمع کاری کی دلیلیں انہیں سکھا دی ہیں۔ ان کے پاس بیٹھنا جائز نہیں۔ احادیث کا ارشاد ہے ان سے دور بھاگو۔ انہیں اپنے سے دور کرو۔ کہیںوہ تمہیں بہکا نہ دیں۔ کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈالیں۔ وہ بیمار پڑیں تو عیادت کو نہ جاؤ مریں تو جنازے پر نہ جاؤ ملیں تو سلام نہ کرو۔ ان کے پاس نہ بیٹھو۔ ساتھ کھانا نہ کھاؤ۔ پانی نہ پیو۔ شادی بیاہ نہ کرو۔ ان کے جنازہ کی نماز نہ پڑھو۔ ان کے ساتھ نماز نہ پڑھو۔ نبیؐ ان سے بیزار ہیں۔ وہ نبیؐ سے بے تعلق ہیں۔ وہ سب جہنمی ہیں۔ انہوں نے اسلام کی رسی اپنی گردنوں سے نکال دی ہے۔ ان سے بچو۔ جو ان سے بغض رکھ کر ان سے منہ پھیرے اس کا دل چین اوراطمینان سے بھر جائے۔ جو ان کی اہانت کرے اﷲ تعالیٰ اس کے سو درجے جنت میں بلند فرمائے۔ نیچری،زندیق ہیں۔ دشمنان دین ہیں۔ وہ سب خبیث کافر مرتد ہیں۔ ان کی کلمہ گوئی اورنماز سے قبلہ محض بے سود اور ان کی تاویلیں سراسرمردود۔ جو ان کے کفر میں شک کرے خود کافر۔ رافضی دین سے خارج ہیں۔ نرے ملحد۔ اسلام اور ملت سے باہر ہیں…‘‘
یہ آگے صفحہ۷۴ میں چھوڑ دیتاہوں۔ وہ اس کا اندازہ ہوگیا کہ کس نہج پر ہے۔
تیسرا فتویٰ ہے بریلویوں کے خلاف۔ یہ تو شیعوں کے خلاف تھانا۔ میں نے بتایا نا صرف تین نمونے لئے ہیں: ’’ہم محمدیوں کے نزدیک…‘‘ یہ بریلویوں کے خلاف فتویٰ ہے:
’’ہم محمدیوں کے نزدیک تمام حنفی مذہب کے علماء اور درویش مثلاً خواجہ معین الدین اجمیری، خواجہ قطب الدین دہلوی، بابا فرید شکر گنج پاک پتن، نظام الدین بدایوانی،مخدوم علی ہجویری صاحب ’’کشف المحجوب‘‘خواجہ سلیمان تونسہ والا، غلام علی شاہ نقشبندی، بہاء الدین نقشبندی، ابوالحسن خراسانی اور تمہارے پیران پیر عبدالقادر جیلانی،حنبلی اور جو حنفی و حنبلی ومالکی مذہب والے درویش تمام جہان کے اور ’’شرح وقائع‘‘ والا اور امام اعظم ابوحنیفہ اور اس کے شاگرد اور اس کے تقلید کرنے والے، خواہ درویش ہوں،خواہ عالم ہوں734، سب جہنمی ہیں(جن کا نام لکھا ہواہے)اور مشرک ہیں اورمرتد ہیں اور چشتیہ اورقادریہ اورنقشبندیہ اورسہروردیہ وچہار پیرو چودہ خان …یہ کیاہے؟خانوادہ…؟
خانوادی، سب اسلام سے خارج ہیں اورواجب القتل ہیں۔ یہ لوگ کاہن ہیں اور احبار اوررھبان میں سے ہیں اور حضرت عمرؓ نے جب بیس تراویح نکالی ہیں…اور حضرت عمرؓ نے جو بیس تراویح نکالی ہیں…بڑی بدعت کا بلکہ جہنمی راستہ نکالا۔ بڑی خطاء انہوں نے کی۔ وہ معصوم نہ تھے۔ حالانکہ انبیاء بھی خطا سے خالی نہیں ہیں۔ مطلق معصوم نہ تھے۔ حضرت سے اجتہاد میں غلطی ہوئی اور روم اور شام کا بادشاہ بھی حنفی ہے۔پس کافر ہے بموجب حدیث کے، کیونکہ تقلید درست نہیں ہے۔ کعبہ شریف میں…کعبہ شریف میں…اس قدر بدعت اورشرک ہے جس کا حد و حساب نہیں۔ اگر ہمارا بس چلے تو تمام روضہ اصحاب و انبیاء کو منہدم کردیں۔ کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک قبر پختہ نہ رکھو۔ اﷲ تعالیٰ غریق رحمت کرے حضرت عبدالوہاب نجدی کو، ان کے فرزند حامی شریعت محمدکو، جس نے بہت شرک و بدعت و کفر مسلمانوں میں سے نکالا اور اس کو روم و شام کے بادشاہ جہنمی نے شہید کیا۔ لیکن بفضل خدا لاکھوں کروڑ موحد موجود ہیں اور آگے کفار میں غوث و قطب و ابدال وغیرہ موجود ہوتے تھے۔ بلکہ مجوسیوں اور نصرانیوں میں۔ اسی طرح تم نے غوث و قطب و ابدال اپنے بزرگوں مشرکوں کو چار خاندان میں چشتیہ، قادریہ، نقشبندیہ، سہروردیہ، حنفیہ، مالکیہ، حنبلیہ، شافیعہ کو بنادیا۔ تمہارے امام اعظم نے سات سو احادیث جان کر چھوڑ دیں اور نہ لکھیں۔ پس وہ کافر ہے اورعبدالقادر جیلانی نے جھوٹے وہم سے حال بنایا۔ چنانچہ ابن جوزی نے ان کی تکفیر کی۔ ہمارے نزدیک بھی تکفیران کی اور مولوی رومی وجامی وسعدی و امیر خسرو و نظامی و بہاء الحق ملتانی کی جو حنفی المذاہب تھے،درست ہے وجناب سردفتر محدثین اولین و آخرین،یگانہ جہاں، جناب حامی شریعت و قاطع بدعت، مولوی اسماعیل شہید محمدی و جناب مولوی سید نذیر حسین صاحب محمدی و مولوی جناب فاضل اجل محمدحسین محمدی و محدث وغیرہ تمہارے حنفی یعنی امام ابو حنیفہ، شافعی، حنبلی،مالکی،عبدالقادر جیلانی حنبلی و بہاء الدین حنفی نقشبندی وشہاب الدین شافعی و معین الدین حنفی، چشتی، اجمیری سے ایمان735 و اسلام، علم و عمل ، شرافت میں کروڑوں درجہ افضل ہیں۔ بلکہ تمام چشتیہ و قادریہ و سہروردیہ و نقشبندیہ و حنفی و شافعی و مالکی وحنبلی علماء وفقراء کو اسلام و ایمان حاصل نہیں۔ تمہارے ربانی مجدد الف ثانی ورشید الدین چشتی دہلوی اورجو نقیب اس حنفی مذہب، چشتیہ مشرب و قادریہ،سہروردیہ و نقشبندیہ کے ہیں، متقدم و متاخرین گزرے ہیں۔ لاجواب ہیں اور سلطان روم اورجہاں خانہ کعبہ مدینہ میں چار مصلیٰ ہیں۔ سب دوزخی اور بدعتی ہیں اورمرتد ہیں۔
مولوی اسماعیل شہید علم، عمل،ایمان واسلام میں کروڑوں درجہ ابوحنیفہ بایزید بسطامی، عبدالقادر جیلانی سے افضل ہیں۔ جناب مولوی سید نذیر حسین صاحب، حافظ الحدیث، محدث جہاں،شافعی، حنبلی،مالکی،سب درویشوں، عالموں سے ایمان و عمل میں کئی درجہ افضل ہیں۔ جس نے نما زجناب استادی مولوی سید نذیرحسین کی دیکھی ہوگی بے شک وہ کہے گا کہ رسول اﷲ و حضرت علی ایسے ہی پڑھتے تھے اورمولوی عبدالرحمن پانی پتی حنفی، مولوی احمد علی حنفی، مولوی یعقوب علی حنفی،مولوی قاسم، مولوی رشید احمد گنگوہی حنفی و شیخ عبدالحق، یہ سب بدعتی اور مشرک ہیں۔ اﷲ تعالیٰ مشرکوں پر نفرین کرتا ہے۔
محمد شاہ ملعون حنفی، منصور علی ملعون حنفی۔ لعن اﷲ علی الکافرین۔یہ نیچے ہے: ’’الراقم، سید شریف حسین۔‘‘یہ سارا جس کا…’’ھوالہادی‘‘۳تا۵۔’’کلام سلیم بہ دفع بہتان عظیم‘‘مطبع انصاری۔ یہ بھی ۱۳۰۰ھ یعنی ۷۳ سال پہلے کی بات ہے…یہاں جی،یعنی ۹۴ سال پہلے کی ہے۔
(مرزاقادیانی نے اپنے مخالفین کی تمام گالیوں کو جو اسے دی گئیں جمع کر دیا)
میں…صرف یہ تین نمونے میں نے اس لئے کہ میں نے جواب اس سے شروع کیا کہ جس زمانہ میں وہ تین فقرے کہے گئے تھے۔ اس کا پس منظر ایک یہ تھا۔ ’’کتاب الوحی‘‘ ان کا…اس زمانہ میں جو گالیاں بانی سلسلہ احمدیہ کودی گئیں۔ اس کا ایک مختصر سا ایک نمونہ آپ نے خود اپنی کتاب میں لکھ دیا۔ یہ (کتاب البریہ ص۱۱۸، خزائن ج۱۳ص۱۴۶ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)ہے۔ ۱۸۹۸ء ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جس زمانے کے اردگرد وہ فتاویٰ چکر لگا رہے ہیں جن کو میں نے ابھی پڑھا۔ نمونہ صرف تین کا۔ اس میں آپ نے خود،آپ کے خلاف جو کہاگیا وہ لکھ دیا۔ بے تکلف، بغیر کسی ڈر کے۔
736’’وہ فتویٰ جو ہماری تکفیر میں رسالہ ’’اشاعت السنہ نمبرپانچ‘‘ جلد۱۳میں شائع ہوا۔ اس کے راقم اور افتاء کے مجیب یہی شیخ الکل ہیں۔ راقم فتویٰ یعنی میاںصاحب اس فتویٰ میں ذیل کے الفاظ میری نسبت استعمال کرتے ہیں: ’’اہل سنت سے خارج ، اس کاعملی طریق ملحدین باطنیہ وغیر اہل ضال کا طریق ہے۔ اس کے دعوے واشاعت اکاذیب اور اس ملحدانہ طریق سے اس کو تیس دجالوں میں سے، جن کی خبر حدیث میں وارد ہے،ایک دجال کہہ سکتے ہیں۔ اس کے پیرو ہم مشرب وذریات دجال۔ خدا پر افتراء باندھنے والا۔ اس کی تاویلات الحاد وتحریف کذب و تدلیس سے کام لینے والا۔ دجال، بے علم، نافہم، اہل بدعت وضلالت۔‘‘
پھر شیخ محمدحسین بٹالوی ’’اشاعت السنہ‘‘یکم لغایت ششم ،جلد شانزدہم،۱۸۹۳ء میں مرزاقادیانی نے (کتاب البریہ ص۱۱۹، خزائن ج۱۳ ص۱۴۷) پر لکھا: ’’اسلام کا چھپا دشمن، مسیلمہ ثانی دجال زمانی، نجومی، رملی،جوتشی، اٹکل باز، جفری… (یہ جفری ہے؟) بھنگل، پھکڑ، اڑڑپوپو، اس کا موت کو نشان ٹھہرانا حماقت و سفاہیت شیطان ہے۔ مکار،جھوٹا، فریبی، ملعون، گستاخ،شوخ، مثیل الدجال، اعور دجال، غدار، پرفتنہ و مکار، کاذب، کذاب، ذلیل وخوار، مردود، بے ایمان، روسیاہ، مثیل مسیلمہ واسود، رہبر ملاحدہ، عبدالدراہم، والدنانیر، تمغات لعنت کا مستحق، مورد ہزار لعنت، خداو فرشتگان و مسلمانان، کذاب، ظلام مفتری علی اﷲ، جس کاالہام احتلام ہے۔ پکا کاذب،ملعون، کافر، فریبی، حیلہ ساز، اکذب، بے ایمان، بے حیا،دھوکہ باز،حیلہ باز، بھنگی، بازاری شہدوں کا سرگروہ، دہریہ، جہاں کے احمقوں سے زیادہ احمق، جس کا خدامعلم الملکوت شیطان،محرف، یہودی، عیسائیوں کا بھائی، خسارت مآب، ڈاکو، خونریز، بے شرم، بے ایمان، مکار، طرار، جس کامرشد شیطان علیہ لعنتہ، بازاری شہدوں، چوہڑوں، بہائم اوروحشیوں کی سیرت اختیار کرنے والا، مکر، چال، فریب کی چال والا،جس کی جماعت بدمعاش،بدکردار، جھوٹ بولنے والی، زانی،شرابی،مال مردم خور، دغاباز، مسلمانوں کو دام میں لاکر ان کا مال لوٹ کرکھانے والا۔ ایسے سوال وجواب میں یہ کہنا حرام زادگی کی نشانی ہے۔ اس کے پیروخران بے تمیز۔
737یہ غزنویوں کی طرف سے فتویٰ جو شائع ہوا: ’’وہ ان امورکا مدعی، رسول خداکامخالف ہے۔ ان لوگوں میں سے جن کے حق میں رسول اﷲa نے فرمایا ہے کہ آخر زمان میں دجال کذاب پیدا ہوںگے ان سے اپنے آپ کو بچاؤ، تم کو گمراہ نہ کریں اوربہکانہ دیں۔ اس قادیانی کے چوزے ہنود و نصاریٰ کے منحنث ہیں۔‘‘
احمد بن عبداﷲ غزنوی،بہ صفحہ ۲۰۱: ’’قادیانی کے حق میں میراوہ قول ہے جو ابن تیمیہ کاقول ہے۔ جیسے تمام لوگوں سے بہتر انبیاء علیہ السلام ہیں۔ ویسے تمام لوگوں سے بدتر وہ لوگ ہیں جو نبی نہ ہوں اورنبیوں سے مشابہ بن کر نبی ہونے کا دعویٰ کریں۔ یہ بدترین خلائق ہیں۔ تمام لوگوں سے ذلیل تر، آگ میں جھونکا جائے گا۔‘‘
احمد بن عبداﷲ غزنوی صفحہ۲۰۲: ’’غلام احمدقادیانی کج راہ و پلید فاسد ہے اور راہ کھوتی گمراہ ہے اورلوگوں کو گمراہ کرنے والا،چھپا مرتد، بلکہ وہ اپنے اس شیطان سے زیادہ گمراہ… بلکہ وہ اپنے اس شیطان سے زیادہ گمراہ…جو اس کے ساتھ کھیل رہاہے۔ یہ شخص ایسا اعتقاد پر مر جائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے اور نہ یہ اسلامی قبرستان میں دفن ہو۔‘‘
۱۳۱۴ھ میں عبدالحق غزنوی نے یہ لکھا: ’’دجال، ملحد،کاذب،روسیاہ، بدکار، شیطان، لعنتی،بے ایمان، ذلیل، خوار، خستہ، خراب، کافر، شقی سرمدی ہے۔ لعنت کا طوق اس کے گلے کاہار ہے۔ لعن و طعن کا جوت اس کے سر پر پڑا۔ بے جا تاویل کرنے والا۔ مارے شرمندگی کے زہر کھا کر مرجاوے گا۔ بکواس کرتاہے۔ رسوا ذلیل شرمندہ ہوا۔ اﷲ کی لعنت ہو۔ جھوٹے اشتہارات شائع کرنے والا۔ اس کی سب باتیں بکواس ہیں۔‘‘
پھر ۲۳؍جولائی ۱۸۹۲ء میں یہ فتویٰ صادر ہوئے بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق: ’’مرزا صاحب دھوکہ باز اورگمراہ کرنے والا۔ مرزاصاحب تارک جمعہ و جماعت، وعدہ خلاف،سیرت محمدی سے کوسوں دور۔ مرزاعیار، جھوٹا دعوے دار۔مرزاصاحب چالاک اور بچہ باز۔ مرزا صاحب فضول خرچ،مسرف، حیلہ ساز۔‘‘
738اس کے بعد ۱۳۱۳ھ کا فتویٰ ہے، صفحہ ایک سے آٹھ تک۔ یہ ہیں ’’کتاب البریہ ص۱۲۲، خزائن ج۱۳ص۱۵۰ )پرمرزاقادیانی لکھتے ہیں۔ اصل وہی حوالہ ہے: ’’قادیانی، رافضی…بے پیر، دجال، یزید،اس کے مرید یزیدی،خانہ خراب، فتنہ گر، ظالم،تباہ کار،روسیاہ، بے شرم، احمق، کاذب،خارجی، بھانڈ، یاوہ گو،غبی، بدمعاش، لالچی، جھوٹا،کافر۔ مفتری، ملحد، دجالی حمار، اخنث، بکواسی، بدتہذیب، مشرکانہ خیال کاآدمی۔ اس کا گاؤں منحوس ہے۔ اس کی دجالیاں اورمکاریاں اور رمالیاں اظہر من الشمس ہیں۔ اس کی کتابیں ایمان اور دین کا ازالہ کرنے والی ہیں۔‘‘
پھر محمد رضا شیرازی کے حوالہ سے مرزاغلام احمد قادیانی نے (کتاب البریہ ص۱۲۲، خزائن ج۱۳، ص۱۵۰)پرلکھا: ’’مرزاکاذب ہے۔ مفتری، یاوہ گو،تباہ کار، مکار،بغی، غوی، غبی، گمراہ، نادان، فضول، ڈھکوسلی، بے ہودہ سرائے، کاذب،جھوٹا، دروغ گو، بے شرم،ننگ خلائق، کاذب، بانی ملت مبتدعہ، تلبیس کرنے والا، داعی ملت بدعیہ، سرکش طبع، راندہ درگاہ ازلی، گم کردہ صراط مستقیم، سوئے فہم، بادہ پیمائی کرنے والا، چاہ ژاژخایاں چاہ ضلالت میں ڈوباہوا، او ر گمراہی کے تزویر میں پھنساہوا، عجب وتکبر میں گرفتار، مزغرفات موہومہ باطلہ کا کہنے والا۔ اس کی جماعت ضلالت وگمراہی میں ہے۔ اس کی مراسلت سراسر فضول ولچر ہے۔ اس کے دلائل سب وشتم وفحش سے بھرے ہوئے ہیں۔ مرزا مقہورشکستہ بال ہے۔ اس کی باتیں ہفوات و ہزلیات ہیں۔ وہ گمراہ غبی ہے۔ اس کی تحریرات میں خرافات ہیں۔ اس کے ذہن کے شرتحات گندیدہ ہیں۔ اس کا مدعا زور و طغان ہے۔ شتم و فحش و بہتان لانے والا۔ افتراء کذب کے دلائل پیش کرنے والا۔ شناعت و فضیحت کے سوا اس کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ یہ کاذب دار لبوار میں جائے گا۔ ظلمت، کفر، طغیان، ان کی وجہ سے دنیا میں ہے۔‘‘
یہ پس منظر تھا جس میں اب ہم نے دیکھا ہے ان تین فقروں کو جن کی طرف مجھے توجہ دلائی گئی۔ پہلے ہم لیتے ہیں…میں لے رہاہوں سعد اﷲلدھیانوی۔ آپ نے اس کے متعلق شعر لکھا:
اذیتنی خبثا فلست بصادق
ان لم تمت بالخنری یاابن بغاء
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۵،خزائن ج۲۲ص۴۴۶)
739اور ’’انجام آتھم‘‘ میں اس کے متعلق ۱۹۰۷ء میں الحکم میں ایک نوٹ ہے جس میں ابن بغاء کاترجمہ بھی دیاگیاہے اور وہ ہے ’’اے سرکش انسان۔‘‘ ’’یہ سرکش‘‘جو ’’ابن بغائ‘‘ کے معنی ہیں، ان کے متعلق میں آگے بھی کچھ کہوں گالغت وغیرہ سے۔ اخبار ’’اہل حدیث‘‘۲۶؍ جولائی ۱۹۱۲ء …وہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کا…یہ مولوی ثناء اﷲ صاحب بڑے مشہور مناظر ہیں۔ انہوں نے اپنے اخبار ’’اہلحدیث‘‘۲۶؍جولائی ۱۹۱۲ء میں لکھا:’’بغیی کے معنی…‘‘
’’اہلحدیث ‘‘میں انہوں نے لکھا’’بغیی‘‘ کے معنی اس کے نیچے کہ اس کے معنی کیاہیں: ’’حاکم وقت، بادشاہ وقت، سردار قبیلہ وغیرہ کی نافرمانی اورسرکشی۔‘‘
’’اہلحدیث‘‘ میں یہی معنی ’’سرکشی‘‘ کے آئے۔ ’’بغا‘‘ کے۔
آپ نے سعد اﷲکے متعلق’’تتمہ حقیقت الوحی‘‘ میں لکھا، بانی احمدیہ نے: ’’میں نے اس(سعد اﷲ لدھیانوی…اسی کاذکر ہے یہاں)کی بدزبانی پر بہت صبر کیا اور اپنے تئیں روکاکیا۔ لیکن جب وہ حد سے گزر گیا اوراس کے اندرونی گند کا پل ٹوٹ گیا تب میں نے نیک نیتی سے اس کے حق میں وہ الفاظ استعمال کئے جو محل پر چسپاں تھے۔ اگرچہ وہ الفاظ جیسا کہ مذکورہ بالا الفاظ میں مندرج ہیں۔ بظاہر کسی قدر سخت ہیں، مگر دشنام دہی کے قسم میں سے نہیں۔ مگر واقعات کے مطابق ہیں اور عین ضرورت کے وقت لکھے گئے ہیں اور ہر ایک نبی حلیم تھا۔(یہ آگے پہلے انبیاء کی مثال دی ہے)مگر ان سب کو واقعات کے متعلق…(سارے انبیاء اور آنحضرتa ہمارے لئے اسوئہ حسنہ ہیں یہ اسوئہ حسنہ کی طرف اشارہ ہے۔)ان سب کو واقعات کے متعلق اپنے الفاظ اپنے دشمنوں کی نسبت استعمال کرنے پڑتے ہیں۱؎۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص ۲۰،۲۱، خزائن ج۲۲ ص۴۵۲)
یہ جو واقعہ ہے سعد اﷲ صاحب کا یہ علامہ اقبال صاحب کے کان میں بھی پڑا اور انہوں نے ایک نظم لکھی۔ اچھی خاصی لمبی ہے۔یہ چار پانچ شعر میں نے اس میں سے لئے ہیں چار شعر اور یہ نظم چھپی ہے مطبع الحق، دہلی میں ستمبر۱۹۱۲ء میں۔ اس وقت علامہ اقبال ایف۔اے میں پڑھ رہے تھے۔ ایف اے کی کلاس میںتھے۔ کانونٹ مشن سکول سیالکوٹ میں۔ انہوں نے یہ مولوی سعد740ی کو مخاطب کرکے اسی واقعہ پر یہ لکھا۲؎:
’’واہ سعدی دیکھ لی گندہ دہانی آپ کی
خوب ہوگی مہتروں میں قدردانی آپ کی
بحث سعدی آپ کی بیت الخلاء سے کم نہیں
ہے پسند خاک رویاں شعر خوانی آپ کی
گوہر بے راہ جھڑے ہیں آپ کے منہ سے سبھی
جان سے تنگ آگئی ہے بہترانی آپ کی
قوم عیسائی کے بھائی بن گئے پگڑی بدل
واہ کیا اسلام پر ہے مہربانی آپ کی‘‘
یہ علامہ اقبال کے شعر ۱۹۱۲ء میں یہ سعد اﷲ لدھیانوی کے حق میں کہے گئے ہیں۔
دوسری مثال آپ نے دی تھی گولڑہ شریف والوں کی۔ وہ پس منظر میں نے بتادیا ہے۔ وہ ہمارے اس وقت ذہن میں ہے۔ یہ گولڑہ والوں نے…گولڑہ شریف والوں نے ایک اور… بہر حال، ان کی طر ف منسوب ایک نظم لکھی۔ ایک سیف چشتیائی میں ایک نظم لکھی…
جناب یحییٰ بختیار: وہ توایک حوالہ ہے سیف چشتیائی کا،انہوں نے ایک نظم لکھی۔
مرزاناصر احمد: انہوں نے ایک نظم لکھی جو سیف چشتیائی میں چھپتی ہے۔ خود شاعر ہی ہے۔ وہی ایک ہی بات ہے۔ سیف چشتیائی۔ ان کی ایک کتاب ہے۔ ایک نظم انہوں نے اپنی اس کتاب، سیف چشتیائی میں نے،اپنی کتاب میں شائع کرائی ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ مرزاقادیانی ملعون کا اپنے گالیوں کے دفاع میں یہ کہنا کہ انبیاء علیہم السلام بھی درشت گوئی کے مرتکب ہوئے تھے۔ ملعون قادیانی نے اپنے دفاع میں دیگر انبیاء علیہم السلام کو گالیاں دینے والا ثابت کیا۔ (معاذ اﷲ) ہے کوئی قادیانی شریف انسان جو مرزاقادیانی کے اس کفر پر تف کہہ کر شرافت کاثبوت دے۔
۲؎ قادیانی… خداتعالیٰ، آنحضرتﷺ، قرآن وسنت پر افتراء کرتے ہوئے نہیں شرماتے۔ اگر علامہ اقبالؒ کے خلاف جھوٹ منسوب کر دیا ہو تو کیا بعید ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
’’الااے میرزا تاکیف توحال این وآں بینی
دمے چشم دلت وا کن کہ نور عین جاں بینی
بہ تکذیب امامت تو ندااز آسمان آمد‘‘
741شعر کی وجہ سے تو وہ نیچے زیر نہیں ہے۔
’’بزودی پیش حق شاداں گروہ دشمنان بینی‘‘
اب یہ اگلا شعر ہے۔ سننے والا۔ پہلے وہ میں نے اس لئے پڑھ دیا تھا کہ ’’الا اے مرزا‘‘ قید لگ جائے کہ حضرت مرزاصاحب کو انہوں نے مخاطب کیاہے:
’’زمین نفرت کنداز توفلک گریدبراحوالت‘‘
زمین تجھ سے نفرت کرتی ہے اورغصہ میںفلک کی، آسمان کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں۔
’’ملک لعنت کناں نزد خدا برآسماں بینی‘‘
اﷲ تعالیٰ کے نزدیک فرشتے جو ہیں وہ تجھ پرلعنت کررہے ہیں، ملعون کیاجاتاہے۔ تو اس کے مقابلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ لکھا:
اتانی کتاب من کذوب یزوّر کتاب خبیث کالعقارب یا بر فقلت…
انہوں نے کہا:’’آسمان پرفرشتے تجھ پرلعنت کرتے ہیں۔‘‘جواب میں اتنا کہا:’’ تم پر آسمانی لعنت ہو۔‘‘بس
انہوں نے …ان کے ایک شاگرد تھے مولوی عبدالاحد خان پوری، وہ گولڑہ شریف والوں کے، جنہوں نے یہ نظم لکھی۔ ان کے ایک شاگرد تھے مولوی عبدالاحد خان پوری اور انہوں نے ایک کتاب لکھی۔ یہ ان سے پھر گئے اور بے نقطہ گالیاں اپنے پہلے پیشوا اور ہادی کودیں۔ میں ان میں سے کوئی نہیں پڑھوںگا اقتباس۔ میں صرف یہ حوالہ دیناچاہتاہوں بہت سارے اقتباس لکھ دیئے تھے۔ لیکن میں ان کو پسند نہیں کرتا۔ وہ جانیں اوران کے شاگرد جانیں۔
اورتیسرا حوالہ۔یہ حوالہ ہے۔ ہاں،یہ ہاں، جناب رشید احمد صاحب گنگوہی کے متعلق بھی چند الفاظ تھے جن کاآپ نے ذکرکیاتھا۔ وہ نمبر۳ ہیں۔ ان کے متعلق اس زمانے میں جو دوسروں نے فتوے دیئے وہ میں ابھی پہلے پڑھ چکاہوں اور میں بتارہاتھا کہ اس زمانے میں پس منظر یہ تھا۔ انہوں نے بانی سلسلہ پر ایک فتویٰ دیا جو ’’اشاعت السنہ‘‘جلد ۱۳ص۱۵۶ پر شائع ہواہے۔
742’’اشاعت السنہ‘‘جو مولوی محمدحسین بٹالوی کاپرچہ تھا…اس میں ان کا ایک فتویٰ شائع ہوا۔ جس شخص کے اعتقادات ایسے ہوں‘‘ جو سوال میں ہے کسی نے سوال پوچھا’’وہ اہل ہوا اور گمراہ ہے۔‘‘ابن مریم سے اس کاکوئی تعلق نہیں۔ وہ تو مسیح دجال کامثیل ونذیر ہے۔ ان کو… ان کے متعلق’’انجام آتھم‘‘میں جو آپ نے وہ آخری فقرہ پڑھاتھا:’’واخرھم شیطان الاعمیٰ‘‘
… ……ملعونین۔
انہوں نے کہایہ دجال ہیں۔ انہوں نے کہا اﷲ تعالیٰ کی لعنت… ایک میں یہاں واضح کر دوں کہ ’’ملعون‘‘اپنی طرف سے نہیں،’’ملعون‘‘کے اصل معنی یہ ہیں کہ اﷲ تعالیٰ لعنت کرے۔ یہ بدعا ہے اور جب اﷲ تعالیٰ کے سپرد کوئی کام کر دیا جائے تو اﷲ تعالیٰ تو ظالم نہیں ہے۔ وہ تو اگر غلط دعا ہے تو رد کر کے اس کے منہ پرمارتا ہے جو دعا کرنے والا ہے۔ تو ان کی بدعا کی ان کے لئے کہ اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ اگر دعا یہ غلط ہے تو وہ منہ پر ماردی جائے گی۱؎۔ لیکن ان کا جو ہے۔ جناب رشید احمد گنگوہی،ان کے متعلق اس وقت کے لوگ جو سمجھتے تھے۔ وہ دیوبندی مذہب ہیں۔ ان کے خلاف جو فتوے ہیں۔ ایک میں پڑھ دیتاہوں…
جناب یحییٰ بختیار: مرزاصاحب کے اورنہیں پڑھ رہے آپ؟
مرزاناصر احمد: ہاں، نہیں،پڑھوں؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیں،نہیں،مرزاصاحب کے اور کوئی نہیں ہیں ان کے متعلق؟
مرزاناصر احمد: ہاں، آپ نے تین ہی کی طرف توجہ دلائی ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، میں نے یہی پوچھنا ہے جی کہ فتوے آپ پڑھ چکے ہیں۔ میرے خیال میں۔
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں۔ اچھا۔ پھر ایک…تو ٹھیک ہے۔
ایک چیز میں واضح کردوں۔ وہ نام آگیا تھا۔’’ذریۃ البغایہ‘‘ ۔’’ذریہ البغایہ‘‘ جو ہے۔ اس کے معنی عربی کے لینے میں ہم نے۔ عربی کالفظ ہے ’’ذریۃ البغایا۔‘‘’’ آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں ۱۸۹۴ء میں743، آئینہ کمالات اسلام جو ۱۸۹۴ء میں شائع ہوئی۔ اس میں یہ لفظ ’’ذریۃ البغایا‘‘ استعمال ہوا۔ اس کے ساتھ کوئی ترجمہ نہیں: ’’الا ذریۃ البغایا الذین ختم اﷲ علیٰ قلوبہم فہم لا یقبلون‘‘ اس میں صرف یہ ہے کہ ’’ذریۃ البغایا‘‘ وہ ہیں جن کے دل اﷲ تعالیٰ نے ختم کر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ مرزاقادیانی کا دفاع کرنا جھوٹ کو سچ، سیاہ کو سفید، اندھیرے کو روشنی، کفر کو اسلام ثابت کرنے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ دیکھئے! یہاں مرزاناصر کو اپنے دادا مرزاقادیانی کے متعلق یہ کہنا پڑا: ’’اگر دعا یہ غلط ہے تو وہ منہ پرماردی جائے گی۔‘‘ پیر مہر علی شاہؒ تو ہرگز لعنت کے مستحق نہیں۔ یقینا مرزا کی لعنت، مرزا کے گلے کا ہار ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دئیے، ان کے اوپر مہر لگادی۔ ’’بغی‘‘ کے معنی ’’ذریۃ البغایا‘‘ جو ہے… ’’بغی‘‘ کے معنی ہر لغت میں ’’نافرمانی‘‘ اور ’’سرکشی‘‘ لکھے ہیں۔ اخبار ’’اہلحدیث‘‘ میں درج ہے کہ ’’دبغی‘‘ کے معنی ’’حاکم وقت…‘‘ وہ پہلے میں عرض کر چکا ہوں۔ وہ یہاں آگیا ہے… اور ’’سرکش انسان‘‘ کے ہیں۔
’’الغرول کافی موسومہ بہ کافی کلیمی‘‘ حصہ دوم، ’’کتاب الروضہ‘‘ مطبوعہ نول کشور پریس، لکھنو، میں امام محمد باقرؓ فرماتے ہیں۔ یہ امام باقر کا ہے قول وہاں: ’’ثم قال یا ابا حمزۃ ان الناس کلہم اولاد اللبغایہ ما خلا حیتنا‘‘ تو یہاں بھی ’’سرکش‘‘ کے معنی لئے گئے ہیں: ’’کیونکہ ہمارے سوا سارے سرکش ہیں۔‘‘
اخبار ’’مجاہد‘‘……
جناب یحییٰ بختیار: یہ کس کا اخبار ہے؟
مرزاناصر احمد: یہ مجلس احرار کا ایک اخبار تھا، مجلس احرار کا۔ اس کا نام ہے اخبار ’’مجاہد‘‘ ۱۴؍مارچ ۱۹۳۶ء میں اس کے اندر یہ ہے فقرہ: ’’ولد البغایہ، ابن الحرام اور ولد لحرام، ابن الحلال اور بنت الحلال وغیرہ‘‘
سب عرب کا اور ساری دنیا کا محاورہ ہے۔ جو شخص نیکی کو ترک کر کے بدکاری کی طرف جاتا ہے، اس کو، باوجودیکہ اس کا حسب ونسب درست ہو، (یعنی حرامی نہیں اس کے معنی) باوجود اس کے کہ اس کا حسب ونسب درست ہو، صرف اعمال کی وجہ سے ابن الحرام، ولد الحرام کہتے ہیں۔ اس کے خلاف جو نیکو کار ہوتے ہیں ان کو ابن الحلال کہتے ہیں۔ اندریں حالات امام کا اپنے مخالفین کو ’’اولاد بغایا‘‘ کہنا بجا اور درست ہے۔ پس جو ترجمہ ’’ذر744یۃ البغایا‘‘ کا ’’کنجریوں کی اولاد‘‘ کہ کیاگیاہے۔ ازروئے لعنت، از روئے استعمال اور از روئے تشریح بانی جماعت احمدیہ غلط اورمحض اشتعال دلانے کے لئے ہے۔‘‘
علاوہ ازیں امام جعفر صادق رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: ’’من احبن کان نطفۃ العبدو من البغتن کان نطفۃ الشیطان‘‘یہ وہی محاورہ ہے کہ ’’سرکشی کرتاہے۔‘‘ہاں، حق کو قبول نہیں کررہا۔ یہ ’’الغرول کافی‘‘ میں ہے۔ ’’کتاب النکاح‘‘مطبوعہ نول کشور۔یعنی جو شخص ہم سے محبت رکھتاہے وہ بندے کا نطفہ ہے۔ مگر وہ جو مجھ سے بغض رکھتاہے۔ وہ نطفہ شیطان ہے۔
یہ الفاظ مختلف فرقہ ہے مسلمانوں کے بارے میں استعمال کئے گئے ہیں اور کسی جگہ بھی اس کے معنی ’’ولدالحرام‘‘ کے نہیں لئے گئے ہیں۔ یعنی ناجائز اولاد کے نہیں لئے گئے ہیں۔ بلکہ سرکش اورنیکی کو چھوڑنے والے کے لئے گئے ہیں۔ تو جو معنی لغت نہیں کرتی جو معنی ہمارے آئمہ نہیں کرتے۔ جو معنی ہمارالٹریچر نہیں کرتا۔ وہ معنی خودبخود کرکے اعتراض کردینا میرے نزدیک یہ درست نہیں۔
Mr. Chairman: Break for Maghrib.
(مسٹر چیئرمین: مغرب کے لئے وقفہ)
مرزاناصر احمد: میں، وہ جو حوالے ہیں نا دوسرے…
Mr. Chairman: The Delegation is permitted to leave…(to Attorney-General)…
Mr. Yahya Bakhtiar: Conclude this.
جناب چیئرمین: اچھا۔ یہ کتنی دیر اورلگے گی؟مغرب Prayer (نماز) کا ٹائم ہوگیا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ،یہ Conclude ہوگیاناجی؟
مرزاناصر احمد: یہ تو…ہاں،میں بس کرتاہوں۔ میں نے بتایا کہ اورحوالے ہیں۔ میں ان کوچھوڑتاہوں۔ واضح، میرے خیال میں واضح ہوگئی ہے بات۔
جناب یحییٰ بختیار: اچھا،ٹھیک ہے۔ اس کے بعد پھر میں…
745Mr. Chairman: The Delegation to report back at 8: 00 p.m. (جناب چیئرمین: اب آٹھ بجے شام دوبارہ)
Mr. Chairman: The honourable members may keep sitting. آٹھ بجے جی،آٹھ بجے پورے۔
مرزاناصر احمد: اچھی بات جی۔
(The Delegation left the Chamber.)
Mr. Chairman: The Assembly is adjourned for Maghrib prayers to meet at 8: 00 p.m.
(The special committe adjorned for Maghrib prayers to meet at 8: 00 p.m.)
[The special Committe re-assembled after Maghrib Prayers, Mr. Chairman(Sahibzada Farooq Ali)in the Chair.]
Mr. Chairman: Should we call them?
Mr. Yahya Bakhtiar: Yes.
Mr. Chairman: They may be called.
(The Delegation entered the Chamber.)
Mr. Chairman: Mr. Attorney General.
جناب یحییٰ بختیار: مرزاصاحب!آپ نے جو علامہ اقبال کی نظم پڑھی…
مرزاناصر احمد: جی۔
(مرزاناصر کا علامہ اقبال کے متعلق جھوٹ پکڑا گیا)
جناب یحییٰ بختیار: …وہ میں کہاں دیکھ سکتاہوں۔ کون سااخبار ہے؟
مرزاناصر احمد: جی۔نہیں، وہ…اس کا تو حوالہ ہے میرے پاس۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ حوالہ دکھادیجئے پھر،اخبار کا یا کس کا؟ چھپی تھی؟
مرزاناصر احمد: نہیں، وہ میں نے حوالہ پڑھا تھا۔پھر پڑھ دیتاہوں۔
746جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مجھے یعنی…
مرزاناصر احمد: ہاں جی، بس ٹھیک ہے۔ میں دے دیتاہوں وہ آپ کو۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں۔ یہ مرزاصاحب؟ جو آپ نے یہاں نوٹ کیا ہے۔ اس پر یہ لکھا ہواہے کہ ’’شیخ محمد اقبال،ایف۔ اے کلا،سکاچ مشن اسکول، سیالکوٹ۔‘‘ یہ تو نام ہے نظم لکھنے والے کا۔ ’’آئینہ حق نما‘‘مصنف شیخ یعقوب علی عرفان۱؎، صفحہ ۱۰۷،۱۰۸، مطبع الحق، دہلی۔ مطبوعہ ستمبر۱۹۱۲ئ، یہ نظم ۱۹۱۲ء میں لکھی گئی تھی یا پہلی دفعہ ۱۹۱۲ء میں شائع ہوئی؟کچھ آپ کو علم ہے اس کا؟
مرزاناصر احمد: اس سے متعلق تومیں نے کوئی تحقیق نہیں کی۔
جناب یحییٰ بختیار: کیونکہ بات یہ ہو جاتی ہے ناں جی کہ اگر یہ شخص جس نے نظم لکھی ہے اور جیسے آپ نے کہا ہے، علامہ اقبال کی نظم سعد اﷲ لدھیانوی کے متعلق، اورآپ نے فرمایا کہ ۱۹۱۲ء کی نظم ہے اور وہ ایف۔ اے کلاس میں پڑھتے تھے۔ تو اس وقت ان کی عمر۳۵سال بن جاتی ہے جو ہمارے کیلنڈر اور علامہ کی جو Date of birth ہے، اس کے مطابق جو Latest
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ یعقوب عرفانی! خود قادیانی تھا۔ ایک قادیانی کی بات لے کر دشنام دہی پر مبنی نظم کو مرزاناصر نے علامہ اقبال کی طرف منسوب کر دیا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
view ہے وہ یہ ہے کہ ۱۸۷۷ء میں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔پہلا View یہ تھا کہ ۱۸۷۳ء میں۔ تو ایک لحاظ سے ۳۵ سال عمر بن جاتی ہے، ایک لحاظ سے۔میں اس واسطے کہہ رہاہوں ۳۸ سال عمر بن جاتی ہے۔
مرزاناصر احمد: نہیں، یہ جو ہے ،اسی واسطے غالباً لکھاگیاہے کہ ۱۹۱۲ء میں شائع ہوئی اور یہ نوٹ لکھنے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ ۱۹۱۲ء میں تو ان کی عمر زیادہ تھی۔ تو اسی واسطے کتاب لکھنے والے نے یہ نوٹ لکھ دیا کہ یہ نظم اس وقت لکھی گئی جس وقت اپنے ایف۔اے میں پڑھ رہے تھے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں،تو یہ آپ نے کہا کہ یہ ۱۹۱۲ء میں جب وہ ایف۔ اے میں پڑھتے تھے۔ تو اسی واسطے مجھے mpression i ہوا کہ شاید کوئی اورشخص ہے۔
مرزاناصر احمد: نہیں،۱۹۱۲ء میں وہ ایف اے میں نہیں پڑھتے تھے۔کتاب چھپی،جس میں یہ نظم چھپی ہے۔ وہ کتاب چھپی ہے ۱۹۱۲ء میں۔ اور کتاب میں یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ نظم علامہ اقبال نے لکھی جس وقت وہ ایف۔اے میں پڑھ رہے تھے۔
جناب یحییٰ بختیار: یعنی ۱۹۱۲ء میں ان کو علامہ کے نام سے خطاب کیاتھاانہوں نے؟
747مرزاناصر احمد: نہیں،جو یہاں لکھاہواہے…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ تو اوپر تو آپ نے لکھا ہواہے ناں، یہ پتہ نہیں چلتا۔
مرزاناصر احمد: نہیں،نہیں،وہ تومیرالکھاہواہے۔
جناب یحییٰ بختیار: اس میں تو لکھاہواہے ’’شیخ محمداقبال۔‘‘
مرزاناصر احمد: ہاں’’شیخ محمداقبال‘‘یہی لکھا ہواہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی، تو’’شیخ محمداقبال‘‘ ایک اتنا Common نام ہے۔ میں اسی واسطے سوچ رہاتھا…
مرزاناصر احمد: میں یہ کہتاہوں کہ ہزارہا آدمی’’شیخ محمد اقبال‘‘کا نام رکھتے ہیں۔ لیکن جس وقت شیخ محمداقبال، جو ایف۔اے میں پڑھ رہے تھے اوراس تعلیمی ادارے میں علم حاصل کر رہے تھے۔ انہوں نے سعداﷲ کے متعلق…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں،اگرآپ Definite ہیں کہ یہ علامہ اقبال ہیں تو میں یہ نہیں پوچھتاسوال۔
مرزاناصر احمد: نہیں،میں Definite ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں میں یہی پوچھ رہاتھا۔ کیونکہ وہ ایف۔اے آپ نے کہا ۱۹۱۲ء کا توصحیح ہوا۔
مرزاناصر احمد: ہاں جی،میں نے ’’علامہ اقبال‘‘ بعد میں کہا۔
جناب یحییٰ بختیار: اب مرزاصاحب!میں کچھ عرض کروںگا۔ بیشتر اس کے کہ آپ ایک بات کا جواب دیں۔ آپ مہربانی کرکے میری عرض سن لیجئے۔ جو آپ نے ابھی…اس کے بعد پھر آپ جو فرمائیںگے۔
پہلا تو میں یہ عرض کرناہے کہ جوآپ نے فتاویٰ پڑھے۔ وہ ایک دوسرے کو مختلف طبقے، فرقے کہہ رہے ہیں کہ یہ کافر ہیں۔ وہ کافر ہیں۔ اب یہ ہمارے عقیدے کی بات ہے یا سمجھ کی بات ہے کہ اگر ہم کہیں کہ فلانا آدمی کافر ہے۔ وہ کافر جو ہم کہتے ہیں کہ ملت اسلامیہ سے باہر ہے، یا وہ کافر سمجھیں جیسے ہندو ہے۔ اگر ایک ہندو سے مسلمان شادی کرتا ہے، تو اس کی جو اولاد ہو گی۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ حرام کی اولاد ہے۔ یہ شادی نہیں یہ زنا ہے۔ اس قسم کے فتوے انہوں نے ایک748 دوسرے کو کافر بنا کے دیئے ہیں۔ یہ ایک ان کا Description ہے جو کہ Legal description ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر ایک ناجائز شادی ہو، جو شادی نہ ہو قانون کے مطابق، تو اولاد جو ہے وہ حرام ہوگی اوران کی وراثت میں کوئی حق نہیں ملے گا۔ یہ ایک دوسرے کو کافر کہہ کے اس قسم کے فتوے دے رہے ہیں۔ یہ میں سمجھتاہوں کہ گالیوں اورتوہین کی بات نہیں ہوتی۔ Describe کرتے ہیں کہ
What are going to be the consequences, as a result of this sort of marriage. (اس قسم کی شادی کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں)
اور یہ وہ اس لئے میں یہ سمجھوں گا کہ قطع نظر اس سے کہ بیک گراؤنڈ کیساہے۔ جو آپ بتا رہے ہیں کہ گالیاں دیا کرتے تھے۔ اس کی کوئی Relevancy نہیںہے۔
مرزاناصر احمد: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: باقی میں نے یہ عرض کرناتھا کہ غزنویوں کی طرف سے جو چیز ہوئی مرزاصاحب پر، اس کا بھی کوئی Relevence نہیں ہے کیونکہ کسی غزنوی کا میں نے آپ کو حوالہ نہیں پڑھ کے سنایا کہ انہوں کے متعلق مرزاصاحب نے کیوں یہ بات کہی یا کہی یا نہیں کہی۔ صرف تین شخصیتیں جو تھیں، ان کاتھا۔ آپ نے جواب ضرور دیا اور Explain آپ نے کیا ہے۔ میں ذرا پھر آپ کی توجہ ان حوالوں کی طرف دلاؤں گا۔
آپ نے حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑہ کے متعلق کہا کہ انہوں نے مرزا صاحب کے متعلق کوئی بات کہی اور انہوں نے ان کو ’’ملعون‘‘ کہا اور ملعون کا یہ مطلب ہوتاہے کہ اﷲ کے سپرد کرکے،اﷲہی اس پرلعنت بھیجے گا۔ پھرآپ نے رشیداحمدگنگوہی صاحب کے متعلق کہاکہ انہوں نے مرزاصاحب کی شان میں کچھ ایسے فقرے کہے کہ جس کے جواب میں…کہ انہوں نے ’’ابن مریم کا ان سے کوئی تعلق نہیں، دجال ہے۔‘‘یہ ہے۔ اس کے جواب میں مرزاصاحب نے کہاکہ ’’اندھا،شیطان، دیو، گمراہ۔‘‘ اب میں صرف آپ سے عرض…’’ملعون،سفیہ، ملعون، من المسفدین‘‘ وغیرہ لکھا ان کے متعلق…
مرزاناصر احمد: یہ جو آپ نے کل دو شعر پڑھے تھے…اچھاجی،اچھا… رشید گنگوہی کے بارے میں…
749جناب یحییٰ بختیار: رشید…
مرزاناصر احمد: ہاں،ہاں…اچھا،ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: تومیں نے کہا کہ اس کے متعلق یہ الفاظ ہیں تاکہ آپ کو پھر یاد آ جائیں۔ شایدآپ نے نوٹ نہ کئے ہوں۔
مرزاناصر احمد: نہیں،وہ ٹھیک ہے۔ ابھی یہاں مل جاتاہے۔ یہ میرے سامنے ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں،’’اندھا شیطان، دیو،گمراہ، سفیہ، ملعون، من المفسدین‘‘ تو یہ میں صرف اس واسطے آپ سے…ابھی تک تو میں اپنا سوال تو پورا نہیں کر سکا ہوں۔ میں صرف بیان کر رہاہوں کہ ’’اندھا شیطان، دیو۔‘‘یہ الفاظ ’’گمراہ‘‘ یہ جو ہیں۔ یہ سارے عربی کے معانی میں استعمال ہوتے ہیں یا اردو کے معنی ہیں؟ کیونکہ یہ سارے الفاظ جو میں دیکھ رہا ہوں،میرے سامنے اردو میں ہیں۔ بعض مرزاصاحب عربی میں باتیں کی ہیں جن کاترجمہ ہواہے۔
مرزاناصر احمد: ویسے یہ سارے جو ہیں وہ عربی میں ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں۔ تو اسی واسطے میںکہتاہوں… پھرآگے مولوی سعد اﷲ کا نام لے کر مرزاصاحب نے کہا ہے…جن کے متعلق آپ نے نظم سنائی جو کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ علامہ اقبال کی ہے… ان کے بارے میں مرزاصاحب نے نام لے کرکہا ہے ’’مکار عورت کا بیٹا۔‘‘…
مرزاناصر احمد: نہیں کہا۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ نہیں؟ میں اسی واسطے آپ سے وہ کررہاہوں۔
مرزاناصر احمد: ہاں، نہیں کہا۔میں…
جناب یحییٰ بختیار: یعنی یہ لفظ نہیں ہے وہاں؟
مرزاناصر احمد: نہیں،بالکل نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: کیالفظ استعمال کئے گئے ہیں؟
مرزاناصر احمد: ’’سرکش…‘‘
جناب یحییٰ بختیار: نہیں،…
750مرزاناصر احمد: ’’…ابن بغایا۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: یا ’’ابن بغیٰ‘‘’’ اگر تو اے نسل بدکاران…‘‘(انجام آتھم ص۲۸۲ ، خزائن ج۱ص۲۸۲)یہاںایسا ترجمہ آپ کی کتاب میں ہے۔
مرزاناصر احمد: ہاں، کتاب میں ہے۔ لیکن یہ بانی سلسلہ کا نہیں ہے ترجمہ۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ کی جماعت سے جو کتاب پبلش ہوئی ہے…
مرزاناصر احمد: معلوم ہوتاہے ترجمہ کرنے والے کو اس وقت عربی کے معانی نہیں آتے تھے۱؎۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں،یعنی آپ کی یا ’’انجام آتھم‘‘ کی جو کتاب پبلش ہوئی، آپ کی ہی طرف سے شائع ہوئی ہے…
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: …اور کئی سال سے چلتی آرہی ہے۔
مرزاناصر احمد: نہیں، میں تو تسلیم کرتاہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں،میں اسی واسطے کہہ رہاہوں کہ اگر یہ کتاب غلط ہے۔ آپ کی نہیں،تواس واسطے…
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ مرزاناصر کہہ رہا ہے کہ ایک صدی سے مرزا کی کتاب جو قادیانی جماعت شائع کر رہی ہے، اس کا ترجمہ غلط ہے۔ ایک جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے مرزاناصر کتنے جھوٹ بول رہا ہے؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مرزاناصر احمد: نہیں،نہیں،نہیں، میں تسلیم کرتاہوں کہ ہماری کتاب ہے اورترجمہ بھی ہماراہی ہے۔ لیکن وہ غلط ترجمہ ہے’’ابن بغیٰ‘‘کا۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’بغیی‘‘کا باقی جگہ بھی جو ترجمہ ہواہے۔مرزابشیر الدین محمود صاحب کا، یہ میں آپ کوبھیج رہاہوں۔ ’’تفسیر کبیر سورہ مریم آیت نمبر۲۹ ج۵ ص۱۹۲ ؍اپریل ۱۹۸۶ء جدیدایڈیشن‘‘ اس میں بھی یہ ’’بغیہ‘‘ کا کہ ’’اور ماں بھی بدکار نہیں تھی۔‘‘ پھر آگے یہ ہے صفحہ ۱۶۸۔ پھر ایک جگہ آتاہے :’’اور تیری ماں بھی بدکار نہ تھی۔‘‘ وہ ’’بغیی‘‘ ’’اورتیری ماں بھی بدکار نہیں تھی۔‘‘یہ بھی آپ دیکھ لیں۱؎۔
مرزاناصر احمد: نہیں،نہیں،وہ تودیکھ لیا۔ اصل میں عربی کے ہیں یہ الفاظ اور اس میں کوئی دقت نہیں۔ یہاں جو زیربحث ہے وہ ’’بغیہ‘‘نہیں ہے…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں،مطلب ہے…
مرزاناصر احمد: میری بات سنیں…’’ابن بغیٰ‘‘ ہے اور’’ابن بغیٰ‘‘ کے معنی جو ہیں وہ ’’سرکش‘‘ کے ہیں۔
751جناب یحییٰ بختیار: مرزاصاحب!میں نے ابھی تک سوال پورا نہیںکیا۔ میں عرض کر رہاہوںکہ ایک جگہ ’’ابن بغیٰ‘‘ کے بھی یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔’’بدکار عورت‘‘ کے ’’بدکار‘‘ اور پھر دوسری جگہ صرف’’بغیٰ‘‘ کے،یہ ’’بدکار‘‘۔ میں اس واسطے آپ کو توجہ دلارہاہوں۔
مرزاناصر احمد: ’’بغیٰ‘‘ کے معنی’’بدکار‘‘ عربی لفظ میں کوئی نہیں ہے۔ یہ آپ کسی سے یہاں پوچھ لیں۔ وہ آپ کو بتادے گاکہ ’’بغیٰ‘‘جو ہے وہ فعل ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ آپ دیکھ لیجئے۔کہیں تو’’میں کبھی بدکاری میں مبتلا نہیں ہوئی۔‘‘…
مرزاناصر احمد: وہاں ’’بغیٰ‘‘ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: خیر،یہ آپ دیکھ لیں۔ اس پرپھرآپ بعد میں…
مرزاناصر احمد: نہیں،وہاں یہ لفظ ہی نہیں۔وہاں لفظ ہی دوسرا ہے۔(اپنے وفد کے ایک رکن سے) قرآن کریم نکالو جی۔ یہ لو۔ نکالو۔ ادھرلائیں جی میرے پاس۔
جناب یحییٰ بختیار: مفتی صاحب!آپ سے توجہ ایک منٹ کے لئے دلائیں گے کیونکہ…
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ اسی طرح مرزامحمود نے سورہ مریم کی آیت ہذا کاتفسیر صغیر ص۳۸۳ پر ترجمہ ’’تیری ماں بدکار نہ تھی‘‘کیاہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مولوی مفتی محمود: قرآن کریم میں ہے: ’’ولاتکرھوا فتیاتکم علی البغائ‘‘(سورہ نور:۳۳) یہاں ’’بغیٰ‘‘کے معنی کیاہیں؟
مرزاناصر احمد: عربی لغت اپنے الفاظ کو متعدد معانی میں استعمال کرتی ہے۔ مثلاً ’’زکوٰۃ ‘‘کے تیرہ،چودہ معانی ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں،یہاں جو ہے وہ…
جناب چیئرمین: ہاں،اس کے معنی کیاہیں جومفتی صاحب نے سوال کیاہے؟
مرزاناصر احمد: مجھے بات ختم کر لینے دیں۔ ہاں ’’ابن بغیٰ‘‘ جب اس Context میں استعمال ہو تو اس کے معنی ’’حرام زادہ‘‘کے ہیں ہی نہیں۔ اس کے معنی ہیں’’ہدایت سے دور‘‘ اور ’’سرکش۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: اور اگر یہ لفظ…
مولوی مفتی محمود: میں نے توصرف قرآن کریم کی آیت کے بارے میں پوچھا ہے کہ قرآن کریم…
752Mr. Chairman: Ask the translation.
مولوی مفتی محمود: …کہ قرآن کریم میں جو ’’بغیٰ‘‘ کا لفظ ہے،اس سے کیا مراد ہے؟
مرزاناصر احمد: قرآن کریم نے’’ابن بغیٰ‘‘ کالفظ ہی نہیں استعمال کیا، محاورہ ’’ابن بغیٰ‘‘ کا…(مداخلت)
جناب چیئرمین: ایک منٹ ٹھہریں۔
جوآیت مفتی صاحب نے پڑھی ہے۔اس کا ٹرانسلیشن کردیں آپ۔(مفتی محمود صاحب سے)ایک دفع پھر پڑھیں۔……Let this
مولوی مفتی محمود: ’’ولاتکرھوا فتیاتکم علی البغاء (نور:۳۳)‘‘
یہ قرآن کی آیت کا ترجمہ لفظی بتادیں۔
جناب چیئرمین: اس کا لفظی ترجمہ کردیں جی۔
Let it go on the record.
جناب یحییٰ بختیار: اچھا۔
Mr. Chairman: No, Just a minute. Let this Ayat be translated by the witness.
مرزاناصر احمد: لغت عربی میں، لغت عربی میں جب یہ فتح یاب کے متعلق استعمال ہو تو اس کے معنی بدکاری ہے ہیں۔
جناب چیئرمین: تفسیر بعد میں کریں۔ پہلے اس آیت کا ٹرانسلیشن کردیں۔
This is the question.
مرزاناصر احمد: ’’اپنی جو لونڈیاں ہیں تمہارے گھروں میں، ان کو بدکاری پر مجبور نہ کرو اگر وہ خود اسے پسند نہ کریں۔‘‘لفظی ترجمہ یہ ہوگا۔
Mr. Chairman: Now the witness can add the explanition.
مرزاناصر احمد: یہ ٹھیک ہے، اس کالفظی ترجمہ یہی ہے۔ لیکن ’’ابن بغیٰ‘‘ کا عربی میں یہ معنی نہیںہے۔
753جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے جی۔ یہ توہے۔ اب اس کو یہاں ایک منٹ کے لئے چھوڑتاہوں۔ ایک چیز ہے جس کے بعد…
مرزاناصر احمد: اگرآپ پسند کریں تو صبح بہت ساری روایات کے حوالے دے دیں؟