• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی کی کاروائی (پندرواں دن)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
نتائج
۱… مسلمانوں میں اس پر اجماع ہے کہ پیغمبر اسلام خدا کے آخری نبی تھے اور ان کے بعد کسی اور نبی کو نہیں آنا تھا۔
۲… مسلمانوں میں اس پر اجماع ہے کہ جسے ہمارے نبی کے آخری نبی ہونے پر ایمان نہ ہو وہ مسلمان نہیں ہے۔
۳… مسلمانوں میں اس پر اجماع ہے کہ قادیانی غیرمسلم ہیں۔
۴… مرزاغلام احمد نے خود اپنے اعلانات کے مطابق یہ دعویٰ کیا کہ ان پر ایسی وحی آتی ہے جو وحی نبوت کے برابر ہے۔
۵… خود مرزاغلام احمد نے اپنی پہلی کتابوں میں معیار رکھے ہیں۔ وہ خود ان کے دعویٰ نبوت کی تکذیب کرتے ہیں۔
۶… انہوں نے اپنے مکمل پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا۔ ظل اور بروز کا سارا قصہ محض ڈھونگ ہے۔
۷… نبی کریمؐ کے بعد کسی پر وحی نبوت نہیں آسکتی اور جو ایسا دعویٰ کرتا ہے۔ اسلام کے دائرہ سے خارج ہے۔
2293مندرجہ بالا استدلال اور نتائج کی بناء پر میں سمجھتا ہوں کہ ابتدائی سماعت کرنے والی عدالت کا فیصلہ صحیح ہے اور میں سارے فیصلہ کی توثیق کرتا ہوں۔ مسماۃ امۃ الکریم کی اپیل میں کوئی وزن نہیں اور میں یہ اپیل خارج کرتا ہوں۔
جہاں تک لیفٹیننٹ نذیر الدین کی اپیل کا تعلق ہے اس کے متعلق مسٹر ظفر محمود ایڈووکیٹ نے مجھے لیفٹیننٹ نذیر الدین کی اپیل کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
مسماۃ امۃ الکریم کے جہیز کا سامان ثابت ہو چکا ہے کہ اس کے سابق خاوند کے قبضہ میں ہے۔ جس کی مناسب قیمت لگائی جاچکی ہے۔ اس کی بھی اپیل میں کچھ وزن نہیں۔ میں اسے بھی خارج کرتا ہوں۔
چونکہ فریقین اپنے اپیل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ لہٰذا میں مناسب سمجھتا ہوں کہ خرچہ کسی پر نہ ڈالا جائے۔ راولپنڈی کے کلکٹر کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ کورٹ فیس وصول کر لیں۔
دستخط: محمد اکبر، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج راولپنڈی
۳؍جون ۱۹۵۵ء
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2294مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان
یہ جماعت پاکستان بننے کے بعد حضرت امیرشریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کی سرپرستی میں سیاسی مناقشات سے الگ ہوکر دینی تبلیغ میں عموماً اور ردقادیانیت کے سلسلہ میں خصوصاً سرگرم عمل رہی ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ کی وفات کے بعد حضرت خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمد صاحبؒ کی سرپرستی میں کام جاری رکھے ہوئے تھی۔ حضرت قاضی صاحب مرحوم کی وفات کے بعد اب حضرت مولانا محمد علی صاحب جالندھریؒ کی سرپرستی میں یہ جماعت کام کر رہی ہے اور بڑی مسرت کی بات ہے کہ استاذ العلماء حضرت مولانا خیر محمد صاحب جالندھریؒ مہتمم مدرسہ عربی خیرالمدارس ملتان، اور حضرت مولانا سید محمد یوسف صاحب بنوریؒ مہتمم مدرسہ عربیہ اسلامیہ نیوٹاؤن کراچی نے مجلس ہذا کی رہنمائی بطور مشیر مجلس مشاورت قبول فرما کر دینی احساس کی بہت بڑی ذمہ داری کو اٹھایا ہے۔ ان مندرجہ بالا حضرات کی سرپرستی میں اس وقت مجلس تحفظ ختم نبوت کا کام باحسن وجوہ انجام پارہا ہے۔ جس کے ماتحت تقریباً پینتیس علماء اسلام فریضۂ تبلیغ اسلام میں مصروف ہیں اور گزشتہ جون ۱۹۶۷ء سے حضرت مناظر اسلام مولانا لال حسین صاحب اختر فریضۂ تبلیغ اسلام کے لئے لندن (ہلڈرسفیلڈ) میں مقیم ہیں۔ جس کے شاندار نتائج آپ حضرات کے سامنے ہیں۔ اس کے بعد جزائر فجی میں جو برطانیہ کی نوآبادیات میں سے ہے۔ ان میں بھی مولانا موصوف وسط جولائی تک تشریف لے جانے والے ہیں۔ کیونکہ قادیانی وہاں بھی اپنی ریشہ دوانیاں پھیلا رہے ہیں۔ جن کے سدباب کے لئے مولانا لال حسین صاحب اختر کے لئے ہمارے مرکز سے مسلمانان فجی نے استدعا کی ہے جس کو مرکز نے تبلیغ اسلام کے پیش نظر قبول کر لیا ہے۔ اہل فجی مولانا موصوف کے ویزا کے انتظام میں مصروف ہیں۔ سب حضرات سے درخواست ہے کہ حضرت مولانا موصوف کی کامیابی اور صحت کے لئے دست بدعا رہیں اور خداوند قدوس ہماری ان مساعی حسنہ کو شرف قبول سے نوازے۔ آمین ثم آمین!
2295مزید اس توسیع اشاعت کے سلسلہ میں جماعت کے قائم مقام ناظم مولانا عبدالرحیم اشعر نے ۲۰؍صفر سے ۱۴؍ربیع الاوّل ۱۳۸۸ھ تک مشرقی پاکستان پچیس روز کا دورہ کیا۔ جہاں گزشتہ سال سے مجلس تحفظ ختم نبوت قائم ہوچکی ہے اور اس کا الحاق بھی مرکزی مجلس ملتا ن سے ہوچکا ہے۔ چنانچہ قائمقام ناظم نے ضلع کمیلا میں برہمن باری کشور گنج کا دورہ کیا۔ شمالی بنگال میں دیناج پور، پنجاگڑھ اور اس کے ملحقہ گاؤں کا دورہ کیا۔ پنجا گڑھ میں ایک قادیانی شمس الدین نے توبہ کی اور قادیانی مظالم کی داستان خونچکاں سنائی۔ موصوف کے لئے دعا کریں کہ خدا اسے اسلام پر ثابت قدم رکھے۔ یہ احمد نگر کا باشندہ تھا۔
مندرجہ بالا علاقے قادیانی ریشہ دوانیوں کے مراکز بن چکے تھے۔ بعد ازاں ڈھاکہ، صوبائی دارالحکومت کے اہم مراکز میں تقریریں ہوئیں۔ خصوصاً چوک والی مسجد، لال باغ مدرسہ قرآنیہ اور بیت الکرم عظیم پور کالونی، نواب گنج بخشی بازار، فرید آباد ڈھاکہ اور اسلامی اکیڈمی میں خصوصی خطاب کا دانشور اور وکلاء حضرات کے لئے انتظام کیاگیا۔ مولانا موصوف کے نہایت کامیابی کے ساتھ دورہ پورا کر کے واپس لاہور تشریف لے آنے پر لاہور میں حضرات امیر مرکزیہ مولانا محمد علی صاحب جالندھری اور مولانا محمد حیات صاحب فاتح قادیان اور مولانا تاج محمود صاحب مدیر لولاک لائل پور کی سرکردگی میں چٹان پریس کی ضبطی کے معاملہ میں مذہبی رٹ جو دائر تھی، مولانا موصوف اس کی پیروی میں مصروف رہے۔ کافی مقدمات کی مذہبی بحث جس میں قادیانی مذہب کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔ داخل عدالت کی گئی ہے جس کی سماعت جناب جسٹس محمد گل اور جناب جسٹس کرم الٰہی چوہان ہائیکورٹ کے جج صاحبان کر رہے تھے۔ خدا تعالیٰ ان حضرات کو اہل اسلام کے جذبات کے مطابق فیصلہ کی توفیق عطاء فرماوے۔
ناظم دفتر: مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان پاکستان
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2296ضمیمہ نمبر:۳
’’قل جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زھوقا‘‘

پاکستانی عدلیہ کا محققانہ فیصلہ

مرزائی مرتد وکافر ہیں
از
جناب شیخ محمد رفیق گریجہ جج سول اور فیملی کورٹ
جیمس آباد سندھ

ناشر
مکتبہ مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان، پاکستان
2297سلسلہ اشاعت نمبر (۲۳)
بار اوّل



؎ ناشر: مرکزی مکتبہ مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان
؎ کتابت: خادم الفقراء منیر احمد روزنامہ مشرق لاہور
؎ طباعت: وفاق پریس لاہور
؎ صفحات: ۴۸ صفحات
؎ تعداد: ۱۰۰۰۰
؎ قیمت: نیوز ۔/۳۷ سفید ۔/۵۰ پیسے
؎ تاریخ اشاعت: شعبان ۱۳۹۰ھ، مطابق اکتوبر ۱۹۷۰ء

ملنے کا پتہ:

مرکزی مکتبہ مجلس تحفظ ختم نبوت
تغلق روڈ ملتان شہر۔ فون نمبر:۳۳۴۱

2298پیش لفظ
’’ الحمد ﷲ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ من لا نبی بعدہ وعلیٰ اصحابہ الذین اوفوا عہدہ‘
سلسلۂ نبوت جس کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور انتہاء سرکار دوعالم ﷺ کی ذات گرامی پر ہوگئی۔ دین اسلام کی بنیاد وذریعۂ نجات تصدیق واقرار توحید الٰہی ورسالت محمدی اور عقیدہ ختم نبوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ نے بلاقید زمان ومکان ہر دور میں کسی مدعی نبوت کو تسلیم نہیں کیا اور اس کے وجود کو برداشت نہیں کیا۔ امیر المؤمنین خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ نے باتفاق تمام اصحاب کرام واہل بیت عظام مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف جہاد کیا۔ جس میں بارہ سو اصحاب رسول ﷺ نے جام شہادت نوش کیا اور مسیلمہ اپنے اٹھائیس ہزار پیروکاروں کے ساتھ ہلاک وبرباد ہوا۔ خلافت راشدہ سے لے کر چودھویں صدی تک تمام ممالک اسلامیہ میں جس شخص نے دعویٰ نبوت کیا۔ اگر بصورت قائمی ہوش وحواس کیا، مقتول ہوا اور اگر بوجہ خلل دماغی کیا محبوس ہوا۔
انیسویں صدی کا نصف آخر مسلمانوں کے زوال وانحطاط کا اندوہ ناک دور تھا۔ جس میں مسلمان باہمی اختلاف وافتراق کا شکار ہوگئے۔ عیسائی جو کبھی مسلمانوں کی قوت وطاقت کا مقابلہ نہ کر سکتے تھے۔ ان کے آپس میں اختلافات وتنازعات کی بدولت ہندوستان پر قابض ہوگئے۔ کفر کے تسلط پر ہندوستان دارالحرب ہوگیا۔ اسلامی وشرعی تعزیر وحدود یک قلم منسوخ کر دی گئیں۔ انا الحق کہو اور سولی نہ پاؤ والی حکومت قائم ہوگئی۔
ان حالات میں انگریزو ں نے اپنے خود کاشتہ پودے مرزاغلام احمد قادیانی کو کھڑا کیا۔ جس نے اپنی خانہ ساز نبوت کا اعلان واشتہار دینا شروع کر دیا۔ اس دعویٰ نبوت پر ہندوستان کے جملہ مکاتب فکر مثلاً سنی، شیعہ، اہل حدیث، بریلوی، دیوبندی کے علماء وفضلاء نے متفقہ طور پر مرزاصاحب کے ارتداد وکفر کا فتویٰ دے دیا۔ نہ صرف ہندوستان کے علماء نے بلکہ افغانستان، ایران، 2299مصر وحجاز، شام وعراق کے علمائے کرام نے بھی مرزاغلام احمد قادیانی کے کفر وارتداد پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔
۱۸۹۱ء میں مرزاصاحب نے امیر عبدالرحمان والی افغانستان کو اپنی خود ساختہ نبوت کی تصدیق وتائید کے لئے خط ارسال کیا۔ جس کے جواب میں امیر موصوف نے لکھا کہ ایں جابیا۔ یعنی یہاں آکر بات کرو۔ مرزاصاحب میں اتنا حوصلہ وجرأت کہاں؟ کہ افغانستان جاتے اور اسلامی حدود وتعزیرات کا سامنا کرتے۔
۱۹۰۲ء میں عبداللطیف افغانی نے امیر حبیب اﷲ صاحب والی افغانستان سے حج وزیارت کی اجازت حاصل کی۔ امیر موصوف نے نہ صرف فریضہ حج کی ادائیگی کی اجازت دی بلکہ اپنی طرف سے زادراہ کے لئے رقم بھی دی۔ عبداللطیف نے سفر حجاز براستہ ہندوستان اختیار کیا۔ یہاں پہنچ کر یہ سادہ لوح شخص مرزاغلام احمد قادیانی کے دام تزویر میں پھنس گیا اور متاع ایمان کھو بیٹھا۔ بجائے اس کے کہ یہ شخص فریضہ حج ادا کرتا اور زیارت حرمین شریفین سے مشرف ہوتا۔ افغانستان واپس چلا گیا۔ اس بات کا علم جب امیر موصوف کو ہوا تو انہوں نے اس معاملہ کو عدالت عالیہ افغانستان کے سامنے پیش کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ عدالت عالیہ نے عبداللطیف کے بیان وعقیدہ کی بناء پر اس کے مرتد ہو جانے کا فیصلہ کیا اور چنانچہ عدالت کے اس فیصلہ کے مطابق عبداللطیف کو سنگسار کر دیا گیا۔ اس اسلامی فیصلے کا اثر ونتیجہ ہے کہ آج تک مملکت افغانستان میں ایک شخص بھی مرزائی نہیں ہوا۔
۱۹۳۴ء میں حکومت افغانستان نے ملا عبدالحکیم قادیانی اور انور علی قادیانی کو مرتد ہونے اور انگریزوں کی جاسوسی کرنے پر پھانسی کی سزا دی۔ ان اسباب ووجوہات کی بناء پر شاید سرظفر اﷲ نے اپنی وزارت خارجہ کے عہد میں پاکستان وافغانستان کو لڑانے کی ناپاک کوشش کی۔ ظفر اﷲ کے فاسد خیالات اور مذموم حرکات کی وجہ سے ۱۹۶۷ء میں جب یہ ساؤتھ افریقہ گئے تو وہاں کے مسلمانوں نے ان کا سیاہ جھنڈیوں سے استقبال کیا اور ظفر اﷲ ’’گو بیک‘‘ کے نعرے لگائے۔
2300۱۹؍نومبر ۱۹۲۷ء ماریشس (جزیرہ بحیرہ ہند) کے چیف جسٹس نے مرزائیوں کے عقائد باطلہ کی بناء پر ان کے مرتد ہو جانے کا فیصلہ صادر فرمایا۔
۲۰؍جنوری ۱۹۳۵ء کو مصطفی کمال نے ترکیہ کے علماء کے فتویٰ کی تصدیق کی اور مرزائیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔
حال ہی میں حجاز، مصر، شام وعراق کی مقتدر حکومتوں نے مرزاقادیانی کو مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ہے اور مقامی قادیانیوں کی املاک کو ضبط کر لیا ہے۔ ۱۹۳۲ء میں ایک مسلمان عورت مسماۃ عائشہ نے اپنے خاوند مسمی عبدالرزاق مرزائی کے خلاف احمد پور شرقیہ کے سول جج کی عدالت میں تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر کر دیا۔ مقدمہ کی اہمیت کے پیش نظر والی ریاست بہاول پور عالی جناب سرمحمد صادق نے مسٹر محمد اکبر صاحب ڈسٹرکٹ جج بہاول نگر کو بطور اسپیشل جج خاص بہاول پور میں مقدمہ کی سماعت کا حکم صادر فرمایا۔ چنانچہ جج صاحب موصوف نے ۷؍فروری ۱۹۳۵ء کو طویل سماعت کے بعد اپنا تاریخی فیصلہ سنا دیا۔ جس کی گونج سارے ہندوستان میں سنی گئی۔ فاضل جج نے مرزائیوں کو کافر قرار دے کرمسماۃ عائشہ کے نکاح کے فسخ ہو جانے کا حکم دیا۔
۳؍جون ۱۹۵۵ء کو راولپنڈی کے سیشن جج جناب شیخ محمد اکبر نے ایک مسلمان عورت اور مرزائی مرد کے متنازعہ مقدمہ میں مرزائیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔
زیر نظر کتابچہ عالی جناب شیخ محمد رفیق صاحب گوریجہ سول جج بااختیارات فیملی کورٹ جیمس آباد ضلع تھرپارکر سندھ کا فاضلانہ فیصلہ ہے جو موصوف نے مقدمہ تنسیخ نکاح مسماۃ امت الہادی مسلمہ بنام حکیم نذیر احمد برق مرزائی میں صادر فرمایا ہے۔ فاضل جج نے فریقین کے مذہبی عقائد وخیالات کے تفاوت کو قرآن وسنت اور مرزائیوں کی تصنیفات کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ یہ فیصلہ انہوں نے مسلسل مطالعہ اور بڑی محنت شاقہ کے بعد کیا ہے۔ اس فیصلہ میں موصوف نے مرزائیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہوئے اس نکاح کو غیرقانونی اور غیرمؤثر قرار دیا ہے۔ اس فاضلانہ فیصلہ کا خیرمقدم جس جوش وخروش سے مسلمانوں نے کیا ہے اور ہمارے 2301اخبارات جرائد ورسائل نے پہلے صفحات اور جلی عنوانات کے ساتھ کیا ہے اس کی نظیر پہلے نہیں ملتی۔
اس فیصلے سے جہاں مسلمانوںمیں بے پناہ مسرت ہوئی ہے۔ مرزائیوں کے گھروںمیں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ سنا جاتا ہے کہ اس محققانہ فیصلہ کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کرنے کے سلسلے میں ظفر اﷲ، ناصر احمد، بھٹو اور قصوری باہم مشورے کر رہے ہیں۔ مرکزیہ مجلس تحفظ ختم نبوت بڑی بے تابی سے اس اپیل کی منتظر ہے اور اپنے اس یقین کا اظہار کرنا ضروری خیال کرتی ہے کہ ؎
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
مرزائی قرآن وسنت اور علم ودانش کی روشنی میں اپنا مؤقف نہ آج تک صحیح ثابت کر سکے ہیں اور نہ قیامت تک ثابت کر سکیں گے۔
مجلس تحفظ ختم نبوت جناب محمد عثمان صاحب ایڈووکیٹ جیمس آباد کی شکرگزار ہے کہ انہوں نے مسلمانوںکی طرف سے نہایت فاضلانہ بحث کی اور قرآن وسنت کے ناقابل تردید براہین کی روشنی میں مرزائیوں کے خارج از اسلام ثابت کرنے میں فاضل عدالت کو امداد دی۔ ’’فجزاہ اﷲ احسن الجزائ‘‘ (شعبہ نشرواشاعت مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان، ملتان)
تنسیخ نکاح کا یہ مقدمہ کراچی کی ایک خاتون امۃ الہادی کی طرف سے ایک شخص حکیم نذیر احمد برق (جو ساٹھ سالہ بوڑھا ہے) کے خلاف سول جج جناب شیخ محمد رفیق صاحب گوریجہ کی عدالت میں دائر کیا تھا۔ (جن کو فیملی کورٹ کے بھی اختیارات حاصل ہیں) جج صاحب کا فیصلہ انگریزی ٹائپ کے ۳۴صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں احمدیوں کے مذہبی عقائد پر تفصیلی بحث کی گئی ہے اور اس سلسلے میں فرقہ احمدیہ کے بانی مرزاغلام احمد کی تصانیف سے متعدد اقتباسات کے علاوہ قرآن وحدیث کے بے شمار حوالے دئیے گئے ہیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ سر امیر علی اور دیگر مسلمان اکابر کی آراء بھی درج کی گئی ہیں۔
2302مقدمہ کی بحث کے اہم نکات یہ ہیں:
۱… کیا عدالت اس مقدمہ کی سماعت کی مجاز ہے؟
۲… کیا فریقین کی سابقہ مقدمہ بازی کے تصفیہ کے بعد مدعیہ کو مقدمہ دائر کرنے کا حق ہے؟
۳… کیا مدعیہ شادی کے وقت بالغ تھی؟
۴… کیا یہ دھوکے کی شادی تھی؟
۵… کیا فریقین کی شادی غیرقانونی تھی؟
۶… کیا مدعیہ اپنا نکاح فسخ کرنے کا اعلان کر سکتی ہے؟
۷… کیا واقعی مدعا علیہ دو سال سے زائد عرصہ تک مدعیہ کو خرچ دینے میں ناکام رہا؟
۸… کیا مدعیہ کو خلع لینے کا حق ہے؟ اگر ہے تو کن شرائط پر؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
تنسیخ نکاح کے مقدمہ کے فیصلہ کے متن کا ترجمہ
(از حریت کراچی)
فیصلہ کا متن:
فیملی سوٹ نمبر۹/۱۹۶۹ء
مسماۃ امۃ الہادی دختر سردار خان مدعیہ
بنام
حکیم نذیر احمد برق مدعا علیہ
فیصلہ:
مدعیہ نے یہ مقدمہ مدعا علیہ کے ساتھ اپنے نکاح کی تنسیخ کے لئے مندرجہ ذیل امور کی بناء پر دائر کیا ہے۔
یہ کہ ۲۲؍مارچ ۱۹۶۹ء کو جب مدعیہ کی عمر بمشکل ساڑھے چودہ برس تھی اس کے والد نے محمڈن لاء کے تحت اس کی شادی مدعا علیہ کے ساتھ کر دی۔ مدعیہ کا والد ایک ضعیف شخص ہے اور 2303اپنا ذہنی توازن کھو چکا ہے اور اپنی روزی کمانے کے لائق نہیں ہے۔ اس لئے مدعیہ اور اس کے دوسرے بہن بھائیوں کی پرورش اس کے بڑے بھائی نے کی جو سرکاری ملازم ہے۔ مدعیہ کا والد مدعا علیہ کے روحانی اثر میں ہے۔ جس کی عمر ساٹھ سال ہے اور جو خود کو ایک ایسا مذہبی مصلح قرار دیتا ہے جس کے روابط اﷲتعالیٰ سے ہیں۔ مدعیہ کا والد عرصے سے مدعا علیہ کے ساتھ ہے اور اس پر ایمان رکھتا ہے اور مذہبی اختلافات کے باعث اس کے تعلقات کنبے کے دوسرے افراد کے ساتھ خوشگوار نہیں ہیں۔ مدعیہ اپنے بھائی کے ساتھ کنری میں رہائش پذیر تھی اور وہ اپنے باپ کو دیکھنے کے لئے گئی تھی۔ جب مؤخر الذکر نے اس کی شادی مدعا علیہ کے ساتھ کر دی۔ شادی کے فوراً بعد مدعیہ اپنی ماں کے پاس واپس آگئی اور اسے دھوکے کی اس شادی اور اس سے اپنی ناراضگی کے بارے میں مطلع کیا۔ مدعا علیہ اور مدعیہ کے درمیان میاں بیوی کے تعلقات ابھی تک قائم نہیں ہوئے تھے۔ مدعا علیہ ساٹھ سال کی عمر کا ایک بوڑھا شخص ہے اور مدعیہ کی برادری کا آدمی نہیں ہے۔ ان کے درمیان مذہبی اختلافات کے علاوہ مدعا علیہ اور مدعیہ کے بھائی میں شادی کی بناء پر طویل عرصہ تک فوجداری مقدمہ بازی ہوتی رہی ہے اور یہ کہ مدعیہ اس شادی کے نتیجہ میں مدعا علیہ کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی۔ مدعا علیہ نے دو سال سے زائد عرصہ تک مدعیہ کو خرچ وغیرہ بھی نہیں دیا ہے۔ یہ کہ مدعیہ اب سن بلوغ کو پہنچ چکی ہے۔ وہ اس عدالت کے دائرہ اختیار میں ہے اور اب اس نے اس مقدمے کے ذریعے اپنا حق بلوغت استعمال کیا ہے یہ کہ بصورت دیگر بھی فریقین کے درمیان یہ شادی غیرقانونی اور ناجائز ہے۔ کیونکہ مدعیہ سنی مسلمان ہے اور مدعا علیہ احمدی (قادیانی) ہے۔
مدعا علیہ نے اس مقدمے کی سماعت کی مخالفت متعدد وجوہ کی بناء پر کی جو اس کے تیرہ صفحات پر مشتمل تحریری بیان میں شامل ہیں۔ میں ضروری نہیں سمجھتا کہ یہاں اس تحریری بیان کو دوبارہ پیش کروں۔کیونکہ اس سے فیصلہ غیرضروری طور پر طویل ہو جائے گا۔ تاہم اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ مدعا علیہ نے مدعیہ کے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ اس نے عمر کے بارے میں بھی مدعیہ کے بیان اور مدعیہ کی رہائش کے سوال پر عدالت کے دائرہ اختیارات کو چیلنج کیا ہے اور حق زنا شوئی دلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ مدعا علیہ نے مدعیہ کے والد سے اپنے تعلقات کی تفصیلات بھی 2304بیان کی ہیں اور اپنے مذہبی عقائد کا تذکرہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ فریقین کے درمیان یہ شادی قانونی ہے۔ فیصلہ میں مناسب موقع پر مدعا علیہ کے مؤقف سے بحث کی جائے گی۔
فریقین کے بیانات کی روشنی میں مندرجہ ذیل امور تصفیہ طلب قرار پاتے ہیں:
۱… آیا عدالت کو اس مقدمے کی سماعت کا اختیار نہیں ہے؟
۲… آیا فریقین کے درمیان سابقہ مقدمہ بازی کا تصفیہ ہو جانے کے باعث اب مدعیہ کو یہ مقدمہ دائر کرنے کا حق پہنچتا ہے؟
۳… آیا مدعیہ شادی کے وقت نابالغ تھی؟
۴… آیا مدعیہ کے والد نے مدعا علیہ کے ساتھ اس کی شادی دھوکہ سے کی تھی؟
۵… آیا فریقین کے درمیان یہ شادی غیرقانونی تھی؟
۶… آیا مدعیہ کو حق حاصل ہے کہ وہ مدعا علیہ کے ساتھ اپنا نکاح فسخ کرنے کا اعلان کرے؟
۷… آیا مدعا علیہ دوسال سے زائد عرصے تک مدعیہ کو خرچ وغیرہ دینے میں ناکام رہا ہے؟
۸… آیا مدعیہ کو خلع لینے کا حق حاصل ہے اور اگر ہے تو کن شرائط پر؟
میں نے فریقین کے وکلاء کے دلائل سنے ہیں اور مدعا علیہ کا مؤقف بھی جو اس نے خود پیش کیا سنا ہے۔ مدعیہ کے فاضل وکیل مسٹر محمد عثمان نے مذہب اور قانون کے بارے میں کئی کتابوں کے حوالے دئیے۔ جن کا تذکرہ میں فیصلے میں کروں گا۔ دلائل کی سماعت اور مقدمے کے شواہد پر غور کرنے کے بعد میں نے مندرجہ نتائج اخذ کئے ہیں۔
مسئلہ نمبر:۱
مدعیہ نے اپنی درخواست میں اور عدالت کے روبرو اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ سامارو میں رہائش پذیر ہے۔ مدعا علیہ نے اس کی نہ تو اپنے تحریری بیان میں تردید کی ہے اور نہ عدالت کے روبرو اسے چیلنج کیا ہے۔ اپنے تحریری بیان کے پیراگراف نمبر۱۲ میں مدعا علیہ نے اعتراف کیا ہے 2305کہ مدعیہ سامارو میں اپنے بھائی کے پاس رہائش پذیر رہی ہے۔ اس لئے مدعیہ کی عمومی رہائش گاہ وہ جگہ تصور کی جائے گی جہاں وہ واقعی رہ رہی ہے نہ کہ وہ جگہ جہاں اس کا باپ رہتا ہے۔ مغربی پاکستان فیملی کورٹ رولز مجریہ ۱۹۶۵ء کے ضابطہ نمبر۶ کے تحت جس جگہ مدعی رہائش پذیر ہو۔ اس کی عدالت کو تنسیخ نکاح کے مقدمے کی سماعت کا حق حاصل ہے۔ سامارو یقینا اس عدالت کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے اور یہ عدالت زیرنظر مقدمے کی سماعت اور اس کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔ چنانچہ زیربحث مسئلے کا تصفیہ مدعیہ کے حق میں کیاجاتا ہے۔
مسئلہ نمبر:۲
اس مسئلہ کے تصفیہ کی ذمہ داری مدعا علیہ پر ہے۔ جس نے اپنے مؤقف کی حمایت میں کوئی شہادت پیش نہیں کی۔ وہ یہ ثابت کرنے کے لئے کسی عدالت کا کوئی فیصلہ پیش نہیں کر سکا ہے کہ اب اس مقدمہ کو دوبارہ زیربحث نہیں لایا جاسکتا۔ اس ضمن میں مدعا علیہ کا موقف بے جان ہے اور اس میں کوئی وزن نہیں۔ اس لئے اس مسئلے کا فیصلہ مدعا علیہ کے خلاف کیا جاتا ہے۔
مسئلہ نمبر:۵
یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے اور اگر اس کا فیصلہ مدعیہ کے حق میں ہو جائے تو پھر اس مقدمے کے فیصلے کے لئے دوسرے امور پر غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ فریقین کے فاضل وکلاء نے اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث کی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ مدعا علیہ حکیم نذیراحمد نے اپنے وکیل مسٹر لطیف کی اعانت کے بغیر ہی اس مسئلہ کے قانونی پہلو پر پورے مذہبی جوش وخروش کے ساتھ اپنی خود وکالت کی۔
مدعا علیہ کے فاضل وکیل مسٹر لطیف نے مغربی پاکستان فیملی کورٹ ایکٹ مجریہ ۱۹۶۴ء کی دفعہ ۲۳ پر انحصار کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا کہ اس عدالت کو شادی کے قانون جواز کی سماعت کا اختیار نہیں۔ کیونکہ یہ شادی مسلم فیملی لاز آرڈیننس کے تحت انجام پائی تھی۔
دفعہ ۲۳ میں کہاگیا ہے۔
2306’’کوئی فیملی کورٹ کی شادی کے جواز پر غور نہیں کرے گی جو مسلم فیملی لاز آرڈیننس مجریہ ۱۹۶۱ء کے مطابق رجسٹر کی گئی ہو۔ اس سلسلے میں متذکرہ عدالت کے لئے کوئی شہادت بھی قابل قبول نہیں ہوگی۔‘‘
متذکرہ دفعہ ۲۳ کا احتیاط کے ساتھ مطالعہ کرنے پر اس کی زبان ہی سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شادی کے جواز پر غور کرنے کے سلسلہ میں پابندی صرف اس صورت میں ہے جب کوئی شادی مسلم فیملی لاز آرڈیننس کے تحت ہوئی ہو۔ اس لئے دفعہ ۲۳ کے مندرجات کا سہارا لینے سے پہلے مدعا علیہ کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ فریقین کی شادی مسلم فیملی لاز آرڈیننس مجریہ ۱۹۶۱ء کے تقاضوں کے مطابق ہوئی تھی۔ مسلم لاز آرڈیننس کی دفعہ نمبر۱ کی ذیلی دفعہ نمبر۲ میں واضح طور پر کہاگیا ہے کہ اس کا اطلاق پاکستان کے تمام مسلمان شہریوں پر ہوتا ہے۔ متذکرہ آرڈیننس کی دفعہ۵ کے تحت صرف وہ شادیاں رجسٹر کی جاسکتی ہیں جو مسلم لاز کے تحت انجام پائی ہوئی ہوں اور آرڈیننس کی دفعہ نمبر۵ کی ذیلی دفعہ نمبر۱ میں کہاگیا ہے۔
’’ہر وہ شادی جو مسلم لاز کے تحت انجام پائی ہو۔ اس آرڈیننس کے مندرجات کے مطابق رجسٹر کی جائے گی۔‘‘
مسلم فیملی لاء کے تحت کسی مخالف فرقے کے شخص کے ساتھ شادی کرنے کے سلسلے میں ایک مسلمان کے غیر محدود اختیار پر پابندیاں عائد ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے اہم پابندی فریقین کا مذہب یا عقائد ہیں۔ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ آزادانہ شادی کر سکتے ہیں اور تھوڑا بہت فقہی مسلک کا اختلاف کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ فقہ حنفی میں ایک مرد کسی عورت یا کتابیہ سے شادی کر سکتا ہے۔ لیکن ایک مسلمان عورت مسلمان مرد کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کر سکتی۔ ایک مسلمان عورت کسی کتابی سے بھی شادی نہیں کر سکتی اور کسی بھی غیرمسلم سے جن میں عیسائی، یہودی یا بت پرست شامل ہیں اس کی شادی ناجائز ہوگی۔ مدعیہ کے فاضل وکیل نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مدعیہ اور مدعا علیہ کے درمیان شادی غیرمؤثر ہے۔ 2307کیونکہ موخر الذکر قادیانی (احمدی) غیرمسلم ہے۔ اس لئے اب یہ سوال تصفیہ طلب ہے کہ آیا فریقین کے درمیان شادی مسلم لاز کے تحت ہوئی ہے اور چونکہ یقینی طور یہ شادی مسلم لاء کے تحت جائز نہیں ہے۔ اس لئے مقدمے کے اس پہلو کا تفصیلی جائزہ لینا اور بھی ضروری ہوگیا ہے۔ اس ضمن میں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے یہ پتہ چلانا ضروری ہے کہ دونوں فریق مسلمان ہیں یا نہیں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں یہ عدالت فریقین کے بارے میں چھان بین کر سکتی ہے۔ فیملی کورٹس ایسے ہی معاملات کا تعین کرنے کے لئے خاص طور پر تشکیل دی گئی ہیں۔ اس لئے میری رائے یہ ہے کہ فریقین کے درمیان شادی کے جواز کی چھان بین کی جاسکتی ہے۔
مدعیہ کے بیان کے مطابق مدعا علیہ کے ساتھ اس کی شادی غیرمؤثر ہے۔ اس لئے اگر قانون کی نظر میں بھی نکاح غیرمؤثر ہے اور ایسا نکاح جو غیرقانونی طور پر مسلم فیملی لاز آرڈیننس کے تحت رجسٹر کیاگیا۔ کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتا اور یہ فیملی کورٹ کی دفعہ۲۳ کے تحت مانع نہیں ہوسکتا۔ میں قانون کی اس تعبیر سے متفق ہوں اور یہ قرار دینے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا کہ دفعہ ۲۳ کے تحت جو ممانعت کی گئی ہے اس کا اطلاق صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ جائز مسلم شادی کو مسلم فیملی لاز آرڈیننس کے تحت درج کیاگیا ہو اور اس مقصد کے تحت عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ آیا فریقین کے درمیان جو نکاح ہوا ہے وہ وجود بھی رکھتا ہے یا نہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مغربی پاکستان فیملی کورٹ میں ترمیمی آرڈیننس مجریہ ۱۹۶۹ء کے ذریعے ترمیم کر دی گئی ہے۔ جس کے تحت کلاز نمبر۷ کے شیڈول میں اضافہ کیاگیا ہے اور شادیوں کے جواز کے مقدمات کی سماعت کے لئے خصوصی اختیارات دئیے گئے ہیں۔ اس اضافے کے پیش نظر میری رائے یہ ہے کہ مغربی پاکستان فیملی کورٹ آرڈیننس کی دفعہ نمبر۲۳ اس حد تک بالواسطہ طور پر منسوخ کر دی گئی ہے۔ اب اس امر کا جائزہ لینے سے پہلے کہ آیا مدعا علیہ ایک غیرمسلم ہے۔ میں مغربی پاکستان کے خلاف آغا شورش کاشمیری کی رٹ درخواست نمبر۹۳۷ 2308(۱۹۶۸ئ) کے ضمن میں مغربی پاکستان ہائیکورٹ کے ججوں کے ان مشاہدات کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ جن میں قرار دیا گیا ہے کہ عدالت یہ تعین کر سکتی ہے کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں۔ اگر اس سلسلے کا تعلق کسی طور جائیداد یا کسی منصب کے حق سے ہو۔ یہ مشاہدات زیر بحث مقدمہ میں میری تائید کرتے ہیں کہ عدالت یہ چھان بین کرنے کی مجاز ہے کہ مدعا علیہ قادیانی (احمدی) ہونے کی وجہ سے مسلمان ہے یا نہیں۔ عدالت عالیہ کے فاضل ججوں نے رٹ درخواست نمبر۹۳۷ (۱۹۶۸ئ) میں جو مشاہدات پیش کئے تھے اور جن کا ذکر اوپر کیاگیا ہے وہ درج ذیل ہیں۔
’’۲۴۔ جہاں تک تجارت اور پیشے کی آزادی اور تقریر کی آزادی سے متعلق بنیادی حقوق ۸اور۹ کا تعلق ہے وہ ہنگامی حالات کے اعلان کی وجہ سے معطل ہوگئے ہیں۔ مذہب پر عمل اور اس کے اعلان کی آزادی ہے۔ لیکن اس پر عمل کا مسئلہ قانون امن عامہ اور اخلاقیات کے تابع ہے۔ اس لئے یہ قطعی نہیں ہے۔ قانون کے تابع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کے لئے یہی آزادی تسلیم کی گئی ہے جو قانون امن عامہ اور اخلاقیات کے تقاضوں کے تابع ہے۔ درخواست گزار کے فاضل وکیل کے تمام دلائل کا لب لباب یہ ہے کہ احمدی اسلام کا فرقہ نہیں ہے اور یہ بات کہنے کی ضمانت درخواست گزار کو آئین کی رو سے حاصل ہے۔ لیکن فاضل وکیل یہ حقیقت نظر انداز کر گئے ہیں کہ پاکستان کے شہریوں کی حیثیت سے احمدیوں کو بھی یہ آئینی ضمانت اور آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے اسلام کے دائرے میں ہونے کا اعلان کریں۔ درخواست گزار دوسروں سے وہ حق کیوں کر چھین سکتا ہے۔ جو وہ خود اپنے لئے طلب کرتا ہے۔ یہ بات ہماری فہم سے بالاتر ہے۔ وہ یقینا انہیں دھمکا نہیں سکتا۔ اس وقت تصفیہ طلب بات یہ ہے کہ درخواست گزار اور ان کے دوسرے ہم خیال قانونی طور پر احمدیوں کو یہ ماننے سے کیونکر روک سکتے ہیں کہ اسلام کے دوسرے فرقوں کے نظریاتی اختلافات کے باوجود اسلام کے اتنے ہی اچھے پیرو ہیں۔ جتنا کہ کوئی اور شخص جو خود کو مسلمان کہتا ہے اس سوال کا جواب درخواست گزار کے 2309وکیل نے بڑی صفائی سے نفی میں دیا کہ آیا ایسا کوئی مقدمہ یا اعلان جائز ہوگا۔ جس کے ذریعہ یہ طے کیاجائے کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں یا جس کے ذریعے سے احمدیوں کو خود کو مسلمان کہنے سے روک دیا جائے۔ یہ بات قابل اطمینان ہے اور یہ مجرد سوال اس وقت تک نہیں اٹھایا جانا چاہئے جب تک اس کا کوئی تعلق کسی جائیداد یا منصب کے حق سے نہ ہو۔ ایسی صورت میں ایک دیوانی مقدمہ جائز ہوگا۔ مؤخر الذکر کی معروف شکلوں کا تعلق سجادہ نشین یا خانقاہ کے متولی کے عہدوں اور ایسے دوسرے اداروں سے ہے جن میں بعض اوقات مذہبی عقائد ان عہدوں پر فائز ہونے کی بنیادی شرط ہوتے ہیں۔ ہمارے مقاصد کے تحت سب سے موزوں مثال آئین کا آرٹیکل نمبر۱۰ ہے۔ جس کے مطابق دوسری خصوصیات کے علاوہ صدارتی انتخابات کے امیدوار کے لئے مسلمان ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ صدارتی انتخاب کے ایکٹ مجریہ ۱۹۶۴ء کی دفعہ۸ کے تحت ریٹرنگ افسر کو یہ اختیار ہے کہ وہ اس بات کا اطمینان کرنے کے لئے سرسری تحقیقات کرے کہ کوئی صدارتی امیدوار آئین کے تحت صدر منتخب ہونے کا اہل ہے۔ اس میں یہ تحقیقات بھی شامل ہے کہ متذکرہ امیدوار مسلمان ہے۔ اگر کسی امیدوار کے کاغذات نامزدگی اس لئے مسترد کر دئیے جائیں کہ وہ مسلمان نہیں تو پھر الیکشن کمیشن کے روبرو اپیل کی جاسکتی ہے اور اس قسم کی اپیل پر کمیشن جو بھی فیصلہ دے گا وہ قطعی ہوگا۔ آئین کے آرٹیکل نمبر۱۷۱ میں مزید کہاگیا ہے کہ انتخاب کے سلسلے میں کسی تنازعہ کا تصفیہ صرف طے شدہ طریق کار کے مطابق یا اس مقصد کے لئے قائم شدہ ٹربیونل کے ذریعے ہوگا۔ کسی اور طریق سے نہیں۔ آرٹیکل کے کلاز نمبر۲ میں کہاگیا ہے کہ: ’’جب کسی شخص کے صدر منتخب ہونے کا اعلان کر دیا جائے تو انتخاب کے جواز کو کسی بھی طرح کسی بھی عدالت یا اتھارٹی کے روبرو زیر بحث نہیں لایا جاسکے گا۔‘‘
اس طرح یہ بات ظاہر ہے کہ صدارتی انتخاب کے لئے بھی اس بات کا قطعی تعین کرنے کی غرض سے خصوصی اختیارات وضع کئے گئے ہیں کہ امیدوار مسلمان ہیں یا نہیں اور دیوانی عدالت کا دائرۂ اختیار محدود کر دیا گیا ہے۔
2310اب ہم ہر اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ زیربحث مقدمہ میں فریقین کے درمیان ہونے والی شادی مسلم شادی نہیں ہے۔ کیونکہ مدعیہ کے بیان کے مطابق مدعا علیہ قادیانی (احمدی) عقائد کا پیرو ہونے کے سبب غیرمسلم ہے۔ اس سلسلہ میں صرف ایک نقطہ غور طلب ہے اور وہ یہ ہے مدعا علیہ مسلمان ہے یا نہیں۔ جہاں تک مدعیہ کا تعلق ہے وہ حنفی (سنی) مسلم ہے جب کہ مدعا علیہ نے خود اقرار کیا ہے کہ وہ قادیانی (احمدی ) ہے۔
مدعا علیہ کے عقیدے اور اس کے مذہب کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنے کے لئے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بیان کے ضروری حصے اور اس کے خطوط اور بعض دوسری تحریریں پیش کر دی جائیں، اپنے بیان ایکس ۲۹ میں مدعا علیہ کہتا ہے: ’’میں احمدی فرقہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں ۸؍نومبر ۱۹۶۵ء سے خلیفہ ہوں اور اسی وقت سے سردار محمد خان میرا پیروکار ہے۔ میں مرزاغلام احمد قادیانی کا تیسرا خلیفہ ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ سردست احمدی جماعت کے خلیفہ مرزاناصر احمد ایم۔اے ہیں۔ جو مرزاغلام احمد کے دوسرے خلیفہ کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں۔ مرزاغلام احمد کے دوسرے خلیفہ بشیرالدین احمد تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ اپنی درخواست کے پیراگراف نمبر۳ میں میں نے بیان دیا تھا کہ مدعیہ کا باپ اسلام کے سنی فرقے سے تعلق رکھتا ہے۔ میں مرزاغلام احمد قادیانی کا سچا پیروکار ہوں اور ان کی تعلیمات پر مکمل ایمان رکھتا ہوں۔ میں نے مرزاغلام احمد قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔‘‘
’’یہ حقیقت ہے کہ میں نے ایک خط میں لکھا ہے کہ قرآن پاک کے مطالعہ سے مجھ پر یہ انکشاف ہوا ہے کہ ۱۳۹۹ھ میں رمضان کے مہینے میں دو شنبے کی کسی شب کو مجھے امتی نبی اور رسول بنایا جائے گا۔ میں نے ایک ایکس ۳۴ اور خط میں لکھا ہے کہ عرش پر اور آسمان پر میرا حقیقی نام محمد احمد ہے۔ یہ میرا عقیدہ ہے کہ مرزاغلام احمد میری روحانی ماں اور حضرت محمد ﷺ میرے روحانی باپ ہیں اور میں ان کا مکمل روحانی بیٹا ہوں۔
2311مجھے مرزاغلام احمد کی تحریروں پر ایمان ہے… میں اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ مرزاغلام احمد نے اپنے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ مرزاغلام احمد نے خود کو امتی نبی اور رسول قرار دیا تھا… یہ حقیقت ہے کہ ۵؍مارچ ۱۹۰۸ء کے ’’بدر‘‘ کے شمارے میں مرزاغلام احمد کا ایک دعویٰ شائع ہوا تھا۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ نبی اور رسول ہیں۔ اس میں انہوں نے یہ دعویٰ امتی نبی یا رسول کی حیثیت سے نہیں کیا تھا۔ میں نے مرزابشیرالدین کی کتاب ’’حقیقت النبوۃ‘‘ پڑھی ہے۔ جس میں مرزاغلام احمد کو مجازی نہیں بلکہ حقیقی نبی قرار دیا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جو شخص نبی کے منصب کا منکر ہوتا ہے۔ وہ کافر قرار پاتا ہے۔ میں نے مرزابشیرالدین کی کتاب آئینہ صداقت پڑھی ہے جس میں کہاگیا ہے کہ جو شخص حضرت مرزاغلام احمد کی نبوت پر یقین نہیں رکھتا۔ وہ قطع نظر اس کے کہ اس نے ان کا نام سنا ہے یا نہیں۔ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ مرزافضل احمد ولد مرزاغلام احمد نے مرزاغلام احمد کی بیعت نہیں کی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ مرزاغلام احمد نے اپنے بیٹے مرزافضل احمد کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی۔ اپنے عقیدے کے مطابق ہم ان لوگوں کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے جو مرزاغلام احمد کی نبوت پر یقین نہیں رکھتے۔ ہمارے عقیدے کے مطابق مرزاغلام احمد کی پیروکار کسی عورت کی شادی کسی ایسے شخص سے نہیں ہوسکتی جو ان کے پیروکار نہیں۔‘‘
اگزبٹ ۳۶ میں مدعا علیہ کہتا ہے: ’’علیم وحکیم خداتعالیٰ نے اپنے کل وعدوں وغیرہ اور ازلی وابدی ارادوں وغیرہ کے مطابق مجھ عاجز ۱۹۶۷۔۱۲۔۳۱ کو بروز اتوار اپنے الہامات کے ذریعے یہ علم بخشا کہ ہم نے اپنے ازلی وابدی ارادوں وغیرہ کے مطابق ۲۷؍رمضان کی شب شنبہ ۲۹،۳۰؍دسمبر ۱۹۶۷ء کی درمیانی رات میں اپنے عرش بریں پر اور کل آسمانوں پر ایک اعلان کر کے یہ حقیقت ظاہر کر دی ہے کہ برق عرش کو (یعنی مدعا علیہ) آج کی رات سے محمدمصطفیٰ ﷺ اور احمد قادیانی کی نبوت ورسالت وغیرہ ظلی وبروزی راہ سے عطا کر کے ان کو روحانی طور پر احمد رسول اﷲ اور محمد رسول اﷲ ہونے کا کل شرف دے دیا ہے۔ بعدہ یہ علم ملاکہ 2313ہم نے حضرت محمد رسول اﷲ، احمد رسول اﷲ کا شمس الانبیاء ہونا کل دنیا پر ظاہر وباہر کرنے کے لئے مجھے قمر الانبیاء یعنی کل رسولوں کا چاند ہونے کا مقام ومرتبہ عطاء کر دیا ہے۔‘‘
اگزبٹ ۳۸ میں مدعا علیہ کہتا ہے: ’’میں عاجز آپ لوگوں کے نزدیک تو سب انسانوں سے ہر طرح بدترین ہوں اور آپ لوگ مجھ کو ہر طرح سے تباہ وبرباد کرنا، عین نیکی کا کام اور بہت بڑا ثواب وغیرہ جانتے ہیں۔ مگر خدااور رسول کے نزدیک چونکہ خدا اور رسول کا بہت ہی شاندار غیرمعمولی خلیفہ اور امام الزمان اور پندرھویں صدی ہجری کا مجدد اور کل روحانی آسمانوں وغیرہ کا شہنشاہ اور حضرت رسول وغیرہ کا کامل اور جامع بروز مظہر ومثیل وغیرہ ہوں۔‘‘
اگزبٹ ۳۴ میں مدعا علیہ کہتا ہے: ’’مرزاغلام احمد قادیانی میرے نزدیک بروزی وظلی طور پر وہ کچھ تھے۔ جو حضرت رسول عربی تھے۔ میں عاجز بروزی اور ظلی طور پر وہی کچھ ہوں جو کہ حضرت مرزاصاحب تھے۔ آنحضرت میرے لئے روحانی طور پر باپ ہیں اور حضرت مرزا صاحب روحانی طور پر ماں ہیں اور میں ان دونوں سے پیدا ہونے والا کامل اور جامع روحانی بیٹا ہوں اور خداتعالیٰ کے عرش اور آسمانوں پر میرا اصل نام محمد احمد ہے۔‘‘
مدعا علیہ نے اعتراف کیا ہے کہ وہ مرزاغلام احمد کا پیروکار ہے۔ اس لئے یہ معلوم کرنا بے حد ضروری ہے کہ مرزاغلام احمد کی پیروی کرنے اور ان کی تعلیمات پر ایمان رکھنے کے باوجود مدعا علیہ کو مسلمان تصور کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ اس مقصد کے لئے احمدیوں کی تاریخ کی چھان بین کرنا غیرضروری نہ ہوگا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2312احمدیت کی تاریخ
اس فرقے کو سمجھنے کے لئے اس دور کا جائزہ لینا پڑے گا۔ جس میں یہ فرقہ معرض وجود میں آیا تھا۔ مرزاغلام احمد اس تحریک کے بانی تھے۔ ان کے والد مرزاغلام مرتضیٰ سکھ دربار میں تھے۔ مرزاغلام احمد ۱۳؍فروری ۱۸۳۵ء کو ضلع گورداسپور۱؎ کے ایک گاؤں (قادیان) میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم گھر پر ہی ہوئی اور وہ صرف عربی، فارسی اور اردو پڑھ سکتے تھے۔ ۱۸۶۴ء میں وہ کلرک کی حیثیت سے ڈسٹرکٹ کورٹ سیالکوٹ میں ملازم ہوئے۔ جہاں وہ چار سال کام کرتے رہے۔ بعد ازاں انہوں نے ملازمت چھوڑ دی اور اپنا وقت تصنیف وتالیف اور مذہبیات کے مطالعے میں صرف کرنے لگے، مارچ ۱۸۸۲ء میں مرزاغلام احمد نے دعویٰ کیا کہ خدا کی طرف سے انہیں الہام ہوا ہے۔ ۱۹۰۱ء میں انہوں نے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کر دیا۔
یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ اس سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے برصغیر غیرملکیوں کی محکومی میں آگیا تھا۔ مسلمانوں نے اس خطہ زمین پر آٹھ سو سال سے زائد مدت تک حکمرانی کی تھی اور معاشرے پر ان کے اثرات، کلچر پر ان کی چھاپ اور نظم ونسق میں ان کی اصلاحات ابھی تک تازہ تھیں۔ اب وہ وقت آگیا تھا کہ انحطاط کے اندرونی عمل کے علاوہ جو ان کے اقتدار کی جڑیں کھوکھلی کر رہا تھا بعض ایسی طاقتیں بھی ان کے درپے ہوگئی تھیں۔ جن پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں تھا۔ جو عالمی سطح پر کام کر رہی تھیں۔ مغرب میں عیسائیت اسلام کے خلاف سرگرم عمل تھیں۔ مشرق وسطیٰ میں عرب معاشرہ جو کسی زمانہ مین اپنی خوش بختی سے اسلام کا گہوارہ بنا۔ مکہ میں پیدا ہوا، مدینہ میں پروان چڑھا۔ دمشق میں روبہ زوال ہوا اور بغداد میں اس کی قبر کھد گئی۔ یہاں نظرئیے اور عمل کا ایک ایسا ملغوبہ تیار ہواجس کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ مسلمانوں کا نظریاتی انتشار شروع ہوچکا تھا اور اس سے برصغیر ہندوستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ غیرملکی جو یہاں تجارت کے لئے تھے، یہیں رہ پڑے۔ انہوں نے حصول اقتدار کے لئے سازشیں اور ریشہ دوانیاں شروع کر دیں اور بالآخر 2314اپنی حکومت قائم کر لی۔ مسلمان اس ملک کی دوسری قوموں پر اب بھی فوقیت رکھتے تھے اور وہ اس ملک پر دوبارہ حکمرانی کرنے کے خواہش مند تھے۔ اس صورتحال نے غیرملکیوں کے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور انہوں نے سوچا کہ جب تک مسلمانوں کو بالکل قلاش نہ کر دیا جائے ان غیرملکیوں کے اقتدار کو دوام نہ مل سکے گا۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ مدعا علیہ قادیانی کا یہ بیان قادیانی کذب کا شاہکار ہے کہ مرزا ۱۸۳۵ء میں پیدا ہوا۔ قادیانی گروہ اپنے چیف گرو مرزاقادیانی کی ’’اسی سال عمر پاؤں گا‘‘ کی پیش گوئی کو سچا ثابت کرنے کے لئے جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ ۱۸۳۵ء میں پیدا ہوا۔ ورنہ خود مرزاقادیانی نے کتاب البریہ میں صاف طور سے لکھا ہے کہ میں ۱۸۳۹ئ،۱۸۴۰ء میں پیدا ہوا تھا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اپنی عالمگیر سلطنت اور صنعتی اعتبار سے انتہائی ترقی یافتہ معیشت کے تمام وسائل استعمال کرنے شروع کر دئیے اور دغا فریب کاکوئی حربہ باقی نہ رہنے دیا۔ ہندو آبادی نے بھی اپنے مفادات غیرملکیوں سے وابستہ کر لئے اور ان ہی مسلمانوں میں کچھ میر جعفر اور میر صادق میسر آگئے۔ مسلمانوں نے غیرملکی تسلط کے خلاف سرفروشانہ جدوجہد کی لیکن وہ اس سیلاب کے آگے بند نہ باندھ سکے۔ انیسویں صدی کے وسط میں سارا برصغیر برطانیہ کے زیرنگین آچکا تھا۔ غیرملکی حکومت کے جلو میں عیسائی مشزی بھی برصغیر میں پہنچے اور اس کے بعد مسلمانوں کے لئے ابتلاء کا ایک طویل اور صبر آزما دور شروع ہوگیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
انگریزوں کے آلہ کار
عیار انگریز اس بات سے آگاہ تھے کہ برصغیر کے مسلمان مذہب کے بارے میں بے حد حساس ہیں اور یہ صرف اسلام ہی تھا جس نے انہیں متحد کر کے ایک عظیم طاقت بنادیا تھا۔ اس لئے انگریزوں نے سوچا کہ اگر کسی طرح مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کر کے ان کا شیرازہ بکھیر دیا جائے تو انہیں غلام بنانا زیادہ آسان ہو جائے گا۔ انگریزوں کو مرزا غلام احمد میں وہ تمام خصوصیات مل گئیں جو مسلمانوں میں انتشار وافتراق پیدا کرنے کے لئے ضروری تھیں۔ مرزاغلام احمد نے انگریزوں کی حمایت میں مسلمانوں کے درمیان پھوٹ اور بے اعتمادی کی فضا پیدا کرنی شروع کر دی۔ یہ بات ثبوت کی محتاج نہیں کہ مرزاغلام احمد مسلمانوں میں انتشار وافتراق پیدا کرنے کے لئے انگریزوں کے آلہ کار تھے۔ مسٹر جسٹس منیر احمد مسٹر جسٹس کیانی نے بھی ۱۹۵۳ء میں پنجاب کے فسادات کے متعلق اپنی رپورٹ میں جو عام طور پر منیر رپورٹ کہلاتی ہے۔ اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
2315اپنی کتاب (تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۱) میں مرزاغلام احمد کہتے ہیں: ’’میں ابتدائی عمر سے اس وقت تک جو قریباً ساٹھ برس کی عمر تک پہنچا ہوں اپنی زبان اور قلم سے اس اہم کام میں مشغول ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی محبت اور خیرخواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں اور ان کے بعض کم فہموں کے دلوں سے، غلط خیالی جہاد وغیرہ دور کروں۔‘‘
(شہادت القرآن ص۳، خزائن ج۶ ص۳۸۰، اشتہار گورنمنٹ کی توجہ کے لائق) میں وہ کہتے ہیں: ’’سو میرا مذہب جس کو میں باربار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خداتعالیٰ کی اطاعت کریں۔ دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو۔‘‘
ایک اور مقام پر وہ کہتے ہیں: ’’میں ایسی کتابیں فارسی، عربی اور اردو اور انگریزی میں شائع کر رہا ہوں۔ جن میں باربار یہ لکھا گیا ہے کہ مسلمانوں پر یہ فرض ہے جس کے ترک سے وہ خدا تعالیٰ کے گنہگار ہوں گے کہ اس گورنمنٹ کے سچے خیرخواہ اور دلی جانثار ہو جائیں… کیونکہ یہ گورنمنٹ ہمارے مال اور خون اور عزت کی محافظ ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۴۰)
ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں:’’میں یہ بات زور دے کر کہتا ہوں کہ مسلمانوں میں صرف میرا فرقہ ایسا تھا جو برطانوی حکومت کا انتہائی وفادار اور اطاعت شعار رہا اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہئے جس سے برطانوی حکومت کو اپنا کام چلانے میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا ہو۔‘‘
۱۹؍اکتوبر ۱۹۱۵ء کے الفضل میں انہوں نے لکھا ہے: ’’برطانوی حکومت احمدیوں کے لئے ایک نعمت اور ڈھال ہے اور صرف اسی کے سائے میں وہ پھل پھول سکتے ہیں… ہمارے مفادات اس حکومت کے تحت بالکل محفوظ ہیں… جہاں جہاں برطانوی حکومت کے قدم پہنچتے ہیں ہمارے لئے اپنے عقائد کی تبلیغ کا موقع نکل آتا ہے۔‘‘
2316(تبلیغ رسالت ج۶، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۷۰) میں وہ کہتے ہیں: ’’میں اپنے اس کام کو نہ مکہ میں اچھی طرح چلا سکتا ہوں نہ مدینہ میں، نہ روم میں، نہ شام میں نہ ایران میں نہ کابل میں۔ مگر اس گورنمنٹ میں جس کے اقبال کے لئے دعا کرتا ہوں۔‘‘
اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ مرزاغلام احمد نے محض اپنے آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں میں انتشار وافتراق پھیلانے کا کھلا لائسنس حاصل کر لیا تھا۔ اپنی تحریروں میں انہوں نے خود اس بات کی شکایت کی ہے کہ انہیں برطانوی سامراج کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔
ان حالات سے بحث کہ جن کے تحت یہ (احمدی) تحریک پروان چڑھی۔ معلوم کرنا ضروری ہے کہ مسلمان ہونے کی ضروری شرائط کیا ہیں۔ امیر علی اپنی کتاب محمڈن لاء میں لکھتے ہیں: ’’کوئی شخص جو اسلام لانے کا اعلان کرتا یا دوسرے لفظوں میں خدا کی وحدت اور محمد ﷺ کے پیغمبر ہونے کا اقرار کرتا ہے وہ مسلمان ہے اور مسلم لاء کے تابع ہے۔‘‘
ہر وہ شخص جو خدا کی وحدت اور رسول عربی ﷺ کی پیغمبری پر ایمان رکھتا ہے دائرہ اسلام میں آجاتا ہے۔
سر عبدالرحیم اپنی کتاب ’’محمڈن جورسپرؤڈنس‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اسلامی عقیدہ خدائے واحد کی حاکمیت اور محمد ﷺ کے نبی کی حیثیت سے مشن کی صداقت پر مشتمل ہے۔ انہی آراء کا اظہار متعدد دوسری کتابوں میں کیاگیا ہے۔ قرآن حکیم میں مسلمان ہونے کی شرائط سورۃ النساء میں درج کی گئی ہیں۔
اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں: اے ایمان والو! تم اعتقاد رکھو اﷲ پر اس کے رسول پر جو اس نے اپنے رسولؐ پر نازل فرمائی اور ان کتابوں کے ساتھ جو کہ پہلے نازل ہوچکی ہیں اور جو شخص اﷲتعالیٰ کا انکار کرے اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے رسول کا اور روز قیامت کا تو وہ شخص گمراہی میں بڑی دور جا پڑا۔
(النسائ:۱۳۶)
2317قرآن مجید کی متذکرہ بالا آیت میں واضح طور پر سابق پیغمبروں، آسمانی صحیفوں اور رسول پاک اور ان کی کتاب کا تذکرہ کیاگیا ہے۔ لیکن اس میں کہیں بھی مستقبل کے پیغمبروں اور ان کی کتب کا حوالہ موجود نہیں۔ اس سے اس کے سوا کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیاجاسکتا کہ آنحضرت ﷺ آخری نبی ہیں اور ان پر جوکتاب نازل ہوئی وہ آخری کتاب ہے۔ یہی بات سورہ احزاب میں زیادہ زور دے کر کہی گئی ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں: ’’محمد ﷺ تم میں سے کسی کے باپ نہیں۔ لیکن وہ اﷲ کے پیغمبر اور خاتم النّبیین ہیں اور اﷲ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔‘‘ (۳۳،۴۰)
خود رسول پاک ﷺ نے بھی کئی حدیثوں میں صورتحال کی وضاحت فرمائی ہے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں:
الف… جب بنی اسرائیل میں کسی نبی کا انتقال ہوا تو اس کی جگہ دوسرا نبی آگیا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (بخاری)
ب… رسالت ونبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ میرے بعد کوئی رسول ﷺ یا نبی نہیں آئے گا۔
(ترمذی)
ج… میں آخری نبی ﷺ ہوں اور تم آخری امت ہو۔ (ابن ماجہ)
قرآن پاک اور رسول اکرم ﷺ کے مندرجہ بالا ارشادات کے بعد یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ مدعا علیہ نے خود کو (نعوذ باﷲ) پیغمبروں کی صف میں کھڑا کر دیا ہے اور اس کے ممدوح مرزاغلام احمد نے بھی اپنے پیغمبر نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ میں مدعا علیہ کے عقائد کا پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں جو اس کے بیان اور خطوط میں درج ہیں۔ احمدیوں اور مسلمان کے واضح اختلافات پر روشنی ڈالنے کے لئے مرزاغلام احمد کے نام نہاد انکشافات میں سے بعض کا حوالہ دینا ضروری ہے۔
(تحفہ گولڑویہ ص۹۶، خزائن ج۱۷ ص۲۵۴) میں وہ کہتے ہیں: 2318’’مبشراً برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد‘‘ میں، میں آنحضرت ﷺ کا شریک ہوں۔
ایک اور جگہ انہوں نے کہا ہے: ’’میں مسیح موعود ہوں۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۳۹، خزائن ج۳ ص۱۲۲)
(معیار الاخیار ص۱۱، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۸) پر وہ کہتے ہیں: ’’میں مہدی ہوں اور کئی پیغمبروں سے برتر ہوں۔‘‘
سیالکوٹ کی تقریر میں (ص۳۳، خزائن ج۲۰ ص۲۲۸) پر وہ دعویٰ کرتے ہیں: ’’میں مسلمانوں کے لئے مسیح اور مہدی ہوں اور ہندوؤں کے لئے کرشن۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶) پر وہ لکھتے ہیں: ’’نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا ہوں۔‘‘
اسی کتاب میں (ص۹۹، خزائن ج۲۲ ص۱۰۲) پر وہ کہتے ہیں: ’’خدا نے مجھ سے کہا ہے کہ لولاک لما خلقت الافلاک (اگر تم پیدا نہ ہوتے تو میں آسمان اور زمین تخلیق نہ کرتا)‘‘
وہ پھر (حقیقت الوحی ص۸۲، خزائن ج۲۲ ص۸۵) پر کہتے ہیں: ’’خدا نے مجھ سے کہا ہے کہ وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین (خدا نے تمہیں زمین پر رحمت بناکر بھیجا ہے)‘‘
اسی کتاب کے (ص۱۰۷، خزائن ج۲۲ ص۱۱۰) پر وہ مزید کہتے ہیں: ’’خدا نے مجھ سے کہا انک لمن المرسلین(یقینا تم رسول ہو)‘‘
2319اسی طرح (تذکرہ ص۳۵۲ طبع۳) پر وہ مزید کہتے ہیں: ’’مجھے الہام ہوا ہے جس میں کہاگیا ہے یاایہا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعاً (اے لوگو! دیکھو میں تم سب کے لئے رسول ہوں)‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۷۹، خزائن ج۲۲ ص۱۸۵) پر انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا ہے: ’’کفر کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اسلام پر ہی یقین نہ رکھے اور رسول پاک حضرت محمدؐ کو خداکا پیغمبر تصور نہ کرے۔ کفر کی ایک دوسری شکل یہ ہے کہ کوئی شخص مسیح موعود پر ایمان نہ لائے اور اس کی صداقت کا قطعی ثبوت مل جانے کے باوجود اسے جعل ساز قرار دے۔ حالانکہ خدا اور اس کا رسول اس کی حقانیت کی گواہی دے چکے ہیں اور جس کے متعلق سابق پیغمبروں کے مقدس صحیفوں میں بھی تذکرہ موجود ہے۔ چنانچہ جو خدا اور اس کے پیغمبر کا فرمان مسترد کرتا ہے وہ کافر ہے۔ غور کیا جائے تو دونوں قسم کے کفر ایک ہی زمرے میں آتے ہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۶۳، خزائن ج۲۲ ص۱۶۷) پر وہ کہتے ہیں: ’’جو شخص مجھ پر ایمان نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں۔‘‘
مرزاغلام احمد مزید کہتے ہیں: ’’میرے ذریعے خدا نے اپنا چہرہ لوگوں کو دکھایا ہے۔ چنانچہ اے لوگوں جو رہنمائی کے طالب ہو اپنے تئیں میرے دروازے پر پہنچاؤ۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۲۸، خزائن ج۲۲ ص۱۳۱ ملخص)
مرزا نے (اشتہار معیار الاخیار، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۵) پر لکھا: ’’جو شخص پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا ورسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے۔‘‘
’’خدا نے مجھ سے کلام کیا ہے اس دور میں خدا کے خلاف حسد پچھلے سارے زمانوں سے زیادہ پھیل گیا ہے۔ کیونکہ متذکرہ رسول کی اہمیت اب بہت کم ہوگئی ہے۔ 2320اس لئے خدا نے مسیح موعود کے طور پر مجھے بھیجا ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۶۳، خزائن ج۲۲ ص۱۶۷) پر وہ کہتے ہیں: ’’جو شخص مجھ پر ایمان نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں۔‘‘
انہوں نے (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۹۷) میں اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا ہے: ’’ہمارے سید وآقا کی پیش گوئی پوری ہے کہ آنے والا مسیح امتی بھی ہوگا اور نبی بھی ہوگا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۹۷) پر لکھا ہے کہ: ’’میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر اس سے انکار کر سکتا ہوں۔ میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دنیا سے گذر جاؤں۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین ص۴۳، خزائن ج۲۰ ص۴۵) پر لکھا ہے کہ: ’’خدا نے مجھ پر انکشاف کیا ہے کہ اے احمد ہم نے تمہیں نبی بنایا ہے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۶۸، خزائن ج۲۲ ص۵۰۳) پر لکھا ہے کہ: ’’میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھوں میں میری زندگی ہے کہ اس نے خود مجھے بھیجا ہے اور اس نے خود مجھے نبی بنایا ہے۔‘‘
(تذکرہ ص۶۰۷، طبع سوم) پر لکھا ہے کہ: ’’خدا نے مجھ پر انکشاف کیاہے کہ ہر وہ شخص جس تک میرا پیغام پہنچے اور وہ مجھے قبول نہ کرے تو وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘
’’اب یہ خدا کی مرضی ہے کہ مسلمانوں میں سے جو مجھ سے دور رہیں انہیں تباہ کر دیا جائے گا۔ خواہ وہ بادشاہ ہوں یا رعایا۔ میں یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہہ رہاہوں۔ بلکہ یہ وہ انکشاف ہے جو خدا نے مجھ سے کیا ہے۔‘‘
(فتاویٰ احمدیہ ج۱ ص۱۸) میں مرزاغلام احمد کہتے ہیں: ’’ان لوگوں کے پیچھے نماز مت پڑھو جو مجھ پر ایمان نہیں رکھتے۔‘‘
اس کی دوسری جلد کے ص۷ پر وہ لکھتے ہیں: ’’اپنی بیٹیاں ان لوگوں کے نکاح میں نہ دو جو مجھ پر ایمان نہیں رکھتے۔‘‘
2321(انوار خلافت ص۹۳) پر وہ لکھتے ہیں: ’’غیراحمدی تو حضرت مسیح موعود کے منکر ہوئے۔ اس لئے ان کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۷، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱) میں وہ کہتے ہیں: ’’تین نانیاں اور تین دادیاں آپ کی (مسیح علیہ السلام) زنا کار اور کسبی تھیں۔‘‘
(تذکرہ شہادتیں ص۶۴،۶۵، خزائن ج۲۰ ص۶۶،۶۷) پر مرزاغلام احمد کہتے ہیں: ’’وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خود اس مذہب اور سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا… اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا، ایک ہی پیشوا، میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں۔ سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۵۶، خزائن ج۱۷ ص۱۸۲) میں مرزاغلام احمد کہتے ہیں: ’’وقت آنے والا ہے۔ بلکہ آپہنچا ہے۔ جب یہ تحریک عالمگیر بن جائے گی اور اسلام اور احمدیت ایک دوسرے کے مترادف بن جائیں گے۔ یہ خدا کی طرف سے انکشاف ہے۔ جس کے لئے کوئی بھی چیز ناممکن نہیں۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۱۶، خزائن ج۱۷ ص۶۱) پر ہے: ’’صحیح بخاری، صحیح مسلم، بائبل، دانیال اور دوسرے پیغمبروں کی کتابوںمیں جہاں میرا ذکر کیا گیا ہے وہاں لفظ ’’پیغمبر‘‘ کا اطلاق مجھ پر ہوتا ہے۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۲۳۳) پر وہ کہتے ہیں: ’’آج تم میں ایک ہے کہ اس حسینؓ سے بڑھ کر ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات ص۵۶۴، خزائن ج۵ ص ایضاً) میں وہ کہتے ہیں: ’’میں نے اپنے تئیں خدا کے طور پر دیکھا ہے اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں وہی ہوں اور میں نے آسمان کو تخلیق کیا ہے۔‘‘
(کلمتہ الفصل ص۱۱۰) میں ایک مقام پر وہ کہتے ہیں: 2322’’جو شخص موسیٰ علیہ السلام کو تو مانتا ہو۔ مگر عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتا یا عیسیٰ علیہ السلام کو مانتا ہو مگر محمد ﷺ کو نہیں مانتا اور یا جو محمد ﷺ کو مانتا ہے پر مسیح موعود کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔‘‘
مدعا علیہ اور مرزاغلام احمد دونوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ایک بالکل مختلف تصور پیش کیا ہے جو مسلمانوں کے مسلمہ عقائد کے یکسر منافی ہے اورقرآن پاک کی تعلیمات سے متصادم ہے۔ مرزاغلام احمد کہتے ہیں کہ یسوع مسیح کو صلیب پر چڑھایا گیا تھا۔ ان کی موت واقع نہیں ہوئی۔ وہ صلیب سے زندہ آئے اور کشمیر چلے گئے۔ جہاں ان کی طبعی موت واقع ہوگئی۔ مرزاغلام احمد کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوسرے مشن کی تکمیل یوں نہیں ہوگی کہ وہ شخصی طور پر دنیا میں آئیں گے۔ بلکہ ان کی روح ایک دوسرے شخص کے جسم میں حلول کر جائے گی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ دوسرا روپ مرزاغلام احمد خود ہیں۔ لیکن قرآن مجید میں اس بارے میں بالکل مختلف بات کہی گئی ہے۔
سورۂ الزخرف میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’اور جب مریم علیہا السلام کے بیٹے کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو لوگ ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا یہ ہمارے خداؤں سے بہتر ہے؟ وہ اعتراض کسی دلیل یا بحث کے لئے نہیں کرتے۔ بلکہ صرف شرارت سے ایسا کرتے ہیں۔ بلکہ وہ جھگڑالو ہیں۔ اس کی حیثیت ایک بندے سے زیادہ کچھ نہیں جس پر ہم نے اپنی رحمت نازل کی اور کھڑا کیا۔ بنی اسرائیل کے واسطے (نمونہ) اگر ہم چاہیں تو نکالیں۔ تم سے فرشتے جو زمین پر تمہاری جگہ بستے اور وہ نشان ہے اس گھڑی (قیامت) کا۔ سو اس میں شک نہ کرو اور میرا کہا مانو۔ یہ ایک سیدھی راہ ہے۔‘‘ (۴۳، ۵۷تا۶۱)
آل عمران میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’اے عیسیٰ علیہ السلام میں تیری عمر کو پورا کروں گا اور اٹھالوں گا اپنی طرف اور پاک کروں گا کافروں سے اور رکھوں گا اور تیرے تابعوں کو اوپر منکروں سے قیامت کے دن 2323تک پھر میری طرف تم کو پھر آنا ہے۔ پھر فیصلہ کروں گا تم میں اس بات میں تم جھگڑتے تھے۔‘‘
(۳،۵۵)
النساء میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’اور اس کے کہنے پر کہ ہم نے مارا مسیح عیسیٰ علیہ السلام مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا اﷲ کا، اور نہ اس کو مارا ہے اور سولی پر چڑھایا۔ لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے، اور جو لوگ اس میں کئی باتیں نکالتے وہ اس جگہ شبہ میں پڑے ہیں۔ کچھ نہیں ان کو اس کی خبر، مگر اٹکل پر چلتے ہیں اور اس کو مارا نہیں یقین سے۔ بلکہ اس کو اٹھالیا اﷲ نے اپنی طرف، اور ہے اﷲ زبردست حکمت والا۔‘‘ (۴،۱۵۷،۱۵۸)
متذکرہ بالا سے یہ بات واضح ہے کہ احمدیوں اور مسلمانوں میں محض فلسفیانہ اختلافات ہی نہیں۔ اے۔آئی۔آر ۱۹۲۳ء مدراس ۱۷۱ بھی میرے سامنے فریقین کے فاضل وکلاء نے پیش کی ہے۔ جس میں احمدیوں اور غیراحمدیوں کے اختلافات سے بحث کی گئی ہے۔ لیگل اتھارٹی کے پورے احترام کے ساتھ میں یہ کہنے کی جرأت کرتا ہوں کہ احمدیوں اور غیراحمدیوں میں نہ صرف یہ کہ بنیادی، نظریاتی اختلافات موجود ہیں۔ بلکہ ان میں عقیدے اور اعلان نبوت کے بارے میں بھی اختلافات موجود ہیں۔ نیز اﷲتعالیٰ کی طرف سے وحی کا نزول، قرآن پاک کی آیات کو مسخ کرنامیری رائے میں کسی شخص کو بھی مرتد قرار دینے کے لئے کافی ہیں۔
مدعا علیہ اور غلام احمد کے عقائد کا جائزہ لینے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر دوسروں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے اور اس مقصد کے لئے ایک طرف دشنام طرازی کا سہارا لیا ہے تو دوسری طرف بڑی فنکاری سے ناخواندہ اور کم علم لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسلام کی نظر میں یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ ہزلارڈ شپ مسٹر جسٹس دلال نے کالی چرن شرما بنام شہنشاہ کے مقدمہ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے: ’’اس مقدمہ میں میں معاملات کو ایک ہائیکورٹ کے ایک فاضل جج کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے ایک قصبے کے ایک عام شہری کی حیثیت سے بھی 2324دیکھتا ہوں۔ میں خود کو ایک مسلمان کی جگہ رکھتا ہوں جو اپنے پیغمبر کی عزت وآبرو کا احترام کرتا ہے اور پھر میں سوچتا ہوں کہ میرے جذبات اس ہندو کے بارے میں کیا ہوں گے جو اس پیغمبر کا مذاق اڑاتا ہے اور وہ یہ کام اس لئے نہیں کرتا کہ وہ سنکی ہوگیا ہے بلکہ وہ ایک ایسے پروپیگنڈے سے متأثر ہے جو ان لوگوں نے شروع کیا ہے جو مسلمان نہیں۔ ایسی صورت میں میں ایک عام آدمی کی حیثیت سے اسی نفرت کا مظاہرہ کروںگا جو مصنف کے طبقے سے مخصوص ہے۔ (اے۔آئی۔آر ۱۹۲۷ئ، اے۔ایل۔ایل ۶۵۴)‘‘
جیسا کہ میں نے پہلے وضاحت کی ہے۔ مدعا علیہ نے خود کو نعوذ باﷲ پیغمبران کرام کی صف میں کھڑا کر دیا ہے اور اس کے ممدوح مرزاغلام احمد بھی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ پیغمبر، نبی اور رسول ہیں۔ مزید برآں مرزاغلام احمد نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دادیوں اور نانیوں کے خلاف غیر شائستہ زبان استعمال کی ہے اور اسی پر بس نہیں بلکہ آنحضرت ﷺ اور ان کے صحابہؓ کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہے ہیں۔ اس سلسلے میں مرزاغلام احمد کے متذکرہ بالا نام نہاد انکشافات کے حوالے کے علاوہ ’’ملفوظات احمدیہ‘‘ میں ان کی تحریروں کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ رسول پاک کی اس سے زیادہ اور کوئی توہین نہیں ہوسکتی کہ مرزاغلام احمد جیسا شخص یا مدعا علیہ یا کوئی اور خود کو پیغمبران کرام کی صف میں کھڑا کرنے کی جسارت کرے، کوئی مسلمان کسی شخص کی طرف سے ایسا دعویٰ برداشت نہیں کر سکتا اور نہ قرآن وحدیث سے اس طرح کے دعویٰ کی تائید لائی جاسکتی ہے۔
مرزاغلام احمد نے دانستہ طور پر قرآن پاک کی آیات خود سے منسوب کی ہیں اور انہیں خود ساختہ معنی پہنائے تاکہ وہ دوسروں کو گمراہ کر سکیں اور یہ بے خبر اور جاہل لوگوں کو گمراہ کرنے کی ایسی سنگین غلط بیانی ہے جو جان بوجھ کر روارکھی گئی اور جو اسلام کی نظر میں گناہ کبیرہ ہے۔
احمدیوں نے ۱۷؍جولائی ۱۹۲۲ء کے الفضل میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ: 2325’’کوئی شخص بھی کسی منصب جلیلہ تک پہنچ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ نعوذ باﷲ محمد رسول اﷲ سے بھی آگے نکل سکتا ہے۔‘‘ ۱۲؍جون ۱۹۴۵ء کے الفضل میں احمدیوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے جس نے میرے ہاتھ پر بیعت کر لی اس کا مرتبہ وہی ہوگیا جو صحابہ رسول کا تھا۔‘‘
(ملفوظات احمدیہ ج۱ ص۴۰۰) میں ایک جگہ یہ کہاگیا ہے کہ: ’’تمہارے درمیان ایک زندہ علی موجود ہے اور تم اسے چھوڑ کر مردہ علی کو تلاش کررہے ہو۔‘‘ اس کے علاوہ مرزاغلام احمد نے اپنے پیروؤں کو یہ حکم دیا ہے کہ اپنی بیٹیوں کو غیراحمدیوں کے نکاح میں نہ دیں کیونکہ یہ لوگ کافر ہیں۔
شیخ الاسلام حضرت تقی الدین نے کہا ہے کہ: ’’جو خدا سے ڈرتا ہے وہ کلمہ پر ایمان رکھنے والے کسی شخص کو کافر قرار نہیں دے سکتا۔ ایسا شخص ہمیشہ کے لئے مردود ہوگیا اور اسے کسی مسلمان عورت سے شادی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔‘‘ (الطبقات الکبریٰ)
پیغمبران کرام کے بارے میں غیرشائستہ زبان کا استعمال ہی کسی کے ارتداد کے رجحان کی غمازی کرنے کے لئے کافی ہے۔ (۱۰۶ پی۔آر ۱۸۹۱ئ) مسلم لاء کی تشکیل کے ابتدائی دور میں ارتداد بہت بڑا گناہ تھا۔ جس کی سزاموت ہوتی تھی۔
(طحطاوی جلد دوم ص۸۴) پر ہے: ’’اگر میاں بیوی میں سے ایک بھی ارتداد کا مرتکب ہو تو ان کی شادی جو اسلامی شادی تھی، فوری طور پر فسخ ہو جائے گی اور انہیں لازمی طور پر ایک دوسرے سے الگ ہونا پڑے گا۔ مگر مرزاغلام احمد جیسا کہ میں قبل ازیں بتاچکا ہوں۔ اسلام کی تعلیمات کے علی الرغم اپنے پیروؤں کو یہ حکم دیتے ہیں کہ اپنی بیٹیاں غیراحمدیوں کے نکاح میں نہ دیں کیونکہ وہ کافر ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2326علامہ اقبال کا مشورہ
اس سے یہ بات ظاہر ہے کہ احمدی مسلمانوں سے الگ مذہب کے پیروکار ہیں اور علامہ اقبال نے اس وقت کی حکومت ہند کو بالکل درست مشورہ دیا تھا کہ اس (طبقے) (احمدیوں) کو مسلمانوں سے یکسر مختلف تصور کیا جائے اور اگر انہیں علیحدہ حیثیت دی گئی تو مسلمان ان کے ساتھ اسی رواداری سے پیش آئیں گے۔ جس کا مظاہرہ وہ دوسرے مذاہب کے پیروؤں سے کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ احمدیوں کو احمدی کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ مدینہ کے منشور میں جسے اسلامی پالیسی کا میگنا کارٹا قرار دیا جاسکتا ہے رسول پاک ﷺ نے غیرمسلموں کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کریں اور اس سلسلے میں کبھی کوئی جبر روا نہیں رکھا گیا۔ لیکن ایک الگ طبقے کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا حق احمدیوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ مسلمانوں کے پرسنل لاء میں مداخلت کریں اور انہیں مجبور کریں کہ وہ احمدیوں کو بھی صرف اس لئے اسلام کا ایک فرقہ تسلیم کر لیں کہ انہوں نے اپنے اوپر احمدی مسلم کا لیبل لگا رکھا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
امتی نبی کا تصور
مرزاغلام احمد یا مدعا علیہ کی نام نہاد نبوت پر ایمان حضرت محمد ﷺ کی نبوت کی کھلی تنقیص ہے۔ جس کی وضاحت خداوند تعالیٰ نے قرآن پاک میں اور رسول پاک ﷺ نے احادیث میں کر دی ہے۔ مدعا علیہ اور مرزاغلام احمد نے امتی نبی یا رسول یا ظلی اور بروزی نبی کا جو تصور پیش کیا ہے وہ قرآن اور حدیث سے نہیں ملتا اور نہ مدعا علیہ اور مرزاغلام احمد کے تصور کی تائید کسی اور ذریعہ سے ہوتی ہے۔ امتی نبی کا تصور غیراسلامی ہے اور یہ مرزاغلام احمد اور مدعا علیہ کی من گھڑت تصنیف ہے۔ قرآن یا حدیث میں کہیں بھی ایسی کوئی بات نہیں ملتی۔ جس میں سے یہ بات ظاہر ہو کہ اسلام امتی نبی پر یقین رکھتا ہے۔ رسول پاک ﷺ نے یہ باب ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے اور 2327حدیث رسول کی موجودگی میں اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ حضرت محمد ﷺ کے بعد کسی طرح کا کوئی نبی نہیں آئے گا۔
اسلام کا یہ عقیدہ ضرور ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک بار پھر دنیا میں تشریف لائیں گے۔ لیکن وہ حضرت محمد ﷺ کے امتی کی حیثیت سے ظاہر ہوں گے۔ یسوع مسیح کوئی نئی امت تخلیق نہیں کریں گے۔ بلکہ وہ محمد ﷺ کی شریعت کی پیروی کریں گے۔ میرے سامنے آنحضرت ﷺ کی حدیث کا حوالہ دیاگیا ہے۔ جس میں رسول پاک ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تووہ عمرؓ بن خطاب ہوتے۔ رسول پاک ﷺ کی یہ حدیث اور دوسری احادیث واضح طور پر یہ بات ظاہر کرتی ہیں کہ حضرت محمد ﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس لئے مدعا علیہ اور مرزاغلام احمد نے امتی نبی یا ظلی اور بروزی نبی کا جو تصور پیش کیا ہے وہ سراسر غیراسلامی اور قرآن وحدیث کی تعلیمات کے منافی ہے۔ نیز مسلمانوں کے اجماع سے بھی متصادم ہے۔ مرزاغلام احمد نے بروزی نبی ہونے کا جو دعویٰ کیا ہے علامہ اقبال نے اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے اور اسے مجوسیوں کا عقیدہ قرار دیا ہے۔ علامہ کی تحریر سے ہمیں بروزی نبی کے تصور کی حقیقت سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اس لئے میں اس بحث کے متعلقہ حصے فیصلے میں شامل کرنا پسند کروں گا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
احمدیت کے بارے میں علامہ اقبال کا نظریہ
’’ختم نبوت کے تصور کی تہذیبی قدروقیمت کی توضیح میں نے کسی اور جگہ کر دی ہے۔ اس کی معنی بالکل سلیس ہیں۔ محمد ﷺ کے بعد جنہوں نے اپنے پیروؤں کو ایسا قانون عطاء کر کے جو ضمیر انسانی کی گہرائیوں سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ آزادی کا راستہ دکھایا ہے۔ کسی اور انسانی ہستی کے آگے روحانی حیثیت سے سرنیاز خم نہ کیا جائے۔ دینیاتی نقطۂ نظر سے اس نظریہ کو یوں بیان کر سکتے ہیں کہ وہ اجتماعی اور سیاسی تنظیم جسے اسلام کہتے ہیں مکمل اور ابدی ہے۔ محمد ﷺ کے بعد کسی ایسے الہام کا امکان ہی نہیں ہے۔ جس سے انکار کفر کو مستلزم ہو جو شخص ایسے الہام کا دعویٰ کرتا ہے وہ اسلام سے غداری کرتا ہے۔ قادیانیوں کا اعتقاد ہے کہ تحریک احمدیت کا بانی ایسے الہام کا حامل تھا۔ لہٰذا 2328وہ تمام عالم اسلام کو کافر قرار دیتے ہیں۔ خود بانی احمدیت کا استدلال جو قرون وسطیٰ کے متکلمین کے لئے زیبا ہوسکتا ہے یہ ہے کہ اگر کوئی دوسرا نبی پیدا نہ ہو سکے تو پیغمبر اسلام کی روحانیت نامکمل رہ جائے گی۔ وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں کہ پیغمبر اسلام کی روحانیت میں پیغمبر خیز قوت تھی خود اپنی نبوت پیش کرتا ہے۔ لیکن آپ اس سے پھر دریافت کریں کہ محمد ﷺ کی روحانیت ایک سے زیادہ نبی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ یہ خیال اس بات کے برابر ہے کہ محمد ﷺ آخری نبی نہیں، میں آخری نبی ہوں۔ اس امر کے سمجھنے کی بجائے کہ ختم نبوت کا اسلامی تصور نوع انسانی تاریخ میں بالعموم اور ایشیاء کی تاریخ میں بالخصوص کیا تہذیبی قدر رکھتا ہے۔ بانی احمدیت کا خیال ہے کہ ختم نبوت کا تصور ان معنوں میں کہ محمد ﷺ کا کوئی پیرو نبوت کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا۔ خود محمد ﷺ کی نبوت کو نامکمل پیش کرتا ہے۔ جب میں بانی احمدیت کی نفسیات کا مطالعہ ان کے دعویٔ نبوت کی روشنی میں کرتا ہوں تومعلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے دعویٔ نبوت میں پیغمبر اسلام کی تخلیقی قوت کو صرف ایک نبی یعنی تحریک احمدیت کے بانی پیدائش تک محدود کر کے پیغمبر اسلام کے آخری نبی ہونے سے انکار کر دیتا ہے۔ اس طرح یہ نیا پیغمبر چپکے سے اپنے روحانی مورث کی ختم نبوت پر متصرف ہو جاتا ہے۔‘‘
’’اس کا دعویٰ ہے کہ میں پیغمبر اسلام کا بروز ہوں۔‘‘ اس سے وہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ پیغمبر اسلام کا بروز ہونے کی حیثیت سے اس کا خاتم النّبیین ہونا، دراصل محمد ﷺ کا خاتم النّبیین ہونا ہے۔ پس یہ نقطہ پیغمبر اسلام کی ختم نبوت کو مسترد نہیں کرتا۔ اپنی ختم نبوت کو پیغمبر اسلام کی ختم نبوت کے مماثل قرار دے کر بانی احمدیت نے ختم نبوت کے روحانی مفہوم کو نظر انداز کر دیا ہے۔
بہرحال یہ ایک بدیہی بات ہے کہ بروز کا لفظ مکمل مشابہت کے مفہوم میں بھی اس کی مدد نہیں کرتا۔ کیونکہ بروز ہمیشہ اس شے سے الگ ہوتا ہے جس کا یہ بروز ہوتا ہے۔ صرف اوتار کے معنوں میں بروز اور اس کی شے میں عینیت پائی جاتی ہے۔ پس اگر ہم بروز سے ’’روحانی صفات کی مشابہت‘‘ مراد لیں تو یہ دلیل بے اثر رہتی ہے۔ اگر اس کے برعکس اس لفظ کے عبرانی مفہوم 2329میں اصل شے کا اوتار مراد لیں تو یہ دلیل بظاہر قابل قبول ہوتی ہے۔ لیکن اس خیال کا موجد مجوسی بھیس میں نظر آتا ہے۔‘‘ (حرف اقبال مؤلفہ لطیف احمد شیروانی ص۴تا۱۳، ۱۳۷تا۱۴۰)
متذکرہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہے کہ اسلام میں امتی نبی یا ظلی اور بروزی نبی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ مرزاغلام احمد نے اپنے پیروؤں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی بیٹیاں غیراحمدیوں کے نکاح میں نہ دیں اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھیں۔ اس طرح مرزاغلام احمد نے شریعت محمدی ﷺ سے انحراف کر کے اپنے ماننے والوں کے لئے ایک نئی شریعت وضع کی ہے۔ مسیح موعود کے بارے میں بھی ان کا تصور اسلامی نہیں ہے۔ مسیح کے صحیح اسلامی تصور کے مطابق وہ آسمان سے نازل ہوں گے۔ حدیث رسول ﷺ کے مطابق مسیح جب دوبارہ ظہور فرمائیں گے تو وہ دوسرا جنم نہیں لیں گے۔ اس طرح اس بارے میں مرزاغلام احمد کا دعویٰ بھی باطل قرار پاتا ہے۔
جہاد کے بارے میں بھی ان کا نظریہ مسلمانوں کے عقیدے سے بالکل مختلف ہے۔ مرزاغلام احمد کے مطابق اب جہاد کا حکم منسوخ ہوچکا ہے اور یہ کہ مہدی علیہ الرضوان اور مسیح علیہ السلام کی حیثیت سے انہیں تسلیم کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ جہاد کی نفی ہوگئی۔ ان کا یہ نظریہ قرآن پاک کی ۲۲ویں سورۃ، آیت ۳۹،۴۰ اور دوسری سورۃ کی آیت ۱۹۲،۱۹۴ ساٹھویں سورۃ کی آیت۸، چوتھی سورۃ کی آیت ۷۴،۷۵ نویں سورۃ کی آیت ۵ اور سورۃ ۲۵ کی آیت ۵۲ کے برعکس اور منافی ہے۔ مندرجہ بالا امور کے پیش نظر میں یہ قرار دینے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا کہ مدعا علیہ اور ان کے ممدوح مرزا غلام احمد نبوت کے جھوٹے مدعی ہیں۔ اﷲتعالیٰ کی طرف سے الہامات وصول کرنے کے متعلق ان کے دعوے بھی باطل اور مسلمانوں کے اس متفقہ عقیدے کے منافی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اﷲتعالیٰ کی طرف سے نزول وحی کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔
مسلمانوں میں اس بارے میں بھی اجماع ہے کہ حضرت محمد ﷺ آخری نبی ہیں اور ان کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا اور اگر کوئی اس کے برعکس یقین رکھتا ہے تو وہ صریحاً کافر اور مرتد ہے۔
2330مرزاغلام احمد نے قرآن پاک کی آیات مقدسہ کو بھی توڑ مروڑ کر اور غلط رنگ میں پیش کیا ہے اور اس طرح انہوں نے ناواقف اور جاہل لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے جہاد کو منسوخ قرار دیا ہے اور شریعت محمدی میں تحریف کی ہے۔ اس لئے مدعا علیہ کو جس نے خود اپنی نبوت کا اعلان کیا ہے۔ نیز مرزاغلام احمد اور ان کی نبوت پر اپنے ایمان کا اعلان کیا ہے۔ بلا کسی تردد کے غیرمسلم اور مرتد قرار دیا جاسکتا ہے۔
فریقین کے عقائد کے بارے میں گفتگو کے بعد میں شادی کے تصور کے بارے میں کچھ کہنا چاہوں گا جو زیر بحث مسئلے میں دوسرا اہم نکتہ ہے اس کے بعد میں مدعا علیہ کے عقائد کے بارے میں اپنے نتائج کی روشنی میں شادی کے جواز میں بحث کروں گا۔ اسلام کوئی مسلک نہیں بلکہ حال میں زندگی بسر کرنے کا نام ہے اور اسلام میں نکاح ایک اخلاقی رشتہ ہے۔ امیر علی نے شادی کی جو تعریف کی ہے اس کے مطابق یہ ایک ایسا ادارہ ہے جومعاشرے کے تحفظ کے لئے وضع کیاگیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ بنی نوع انسان گمراہی اور بے عصمتی سے محفوظ رہے۔ شادی زندگی بھر کا عہد ہوتا ہے۔ جس کی سب سے اہم خصوصیات جنسی اختلاط کی قانونی یا جائز اجازت نہیں بلکہ اشتراک کار ہے۔ جس میں دو انسان دکھ سکھ خوشی اور غم میں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو تسکین اور حوصلہ فراہم کرتے ہیں۔ یہ اتحاد تغیر حالات کے ذریعہ فریقین کے لئے باعث رحمت ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنسی اختلاط کا تصور بھی اس اشتراک یا اتحاد میں دخیل ہے جو فریقین کے جسمانی قرب کی اہمیت واضح کرتا ہے لیکن اس سلسلے میں باہمی موانست، یگانگت اور رفاقت بھی کچھ کم اہم نہیں ہوتے۔
شیکسپئر نے ہملٹ میں کہا ہے کہ میاں بیوی ایک جان دو قالب ہوتے ہیں۔ اسی طرح ارسطو نے ایک جگہ کہا ہے کہ بیوی کو زدوکوب کرنا اس بات کی نفی ہے کہ وہ تمہاری بیوی ہے۔ ان تمام باتوں کا ایک ہی مطلب ہے اور یہ کہ میاں بیوی کا رشتہ نیکی میں اشتراک کا رشتہ ہے۔ قرآن پاک میں شادی کا ذکر مؤدت رحمت اور سکون کی اصطلاحات کے ساتھ کیا گیا ہے۔ بائبل میں 2331ایک جگہ آیا ہے کہ وہ میری ہی ہڈی کا ایک حصہ اور میرے ہی گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ غرضیکہ ہر جگہ یگانگت پر ہی زور دیاگیا ہے۔ جو لیس سیر زمین لارڈ بروٹس کے ساتھ پورشیا کا مکالمہ ایک بیوی اور داشتہ کے فرق کو بڑی خوبصورتی سے واضح کرتا ہے اور پھر انگلستان کے ایک ولی عہد کا یہ جملہ بھی تاریخی اہمیت رکھتا ہے کہ جب اسے ایک رومن کیتھولک شہزادی سے شادی کے لئے کہا گیا… تو اس نے کہا کہ دو مذہب ایک بستر میں اکٹھے نہیں ہوسکتے۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے: ’’اپنے تخم کے لئے (کردار کے اعتبار سے) موزوں عورت کا انتخاب کرو اور اپنے برابر والوں سے شادی کرو اور اپنی بیٹیاں ان کے نکاح میں دو۔‘‘ (ابن ماجہ ص۴۶) اس کا مطلب یہ ہے کہ شادی میں اکفا بہت اہم کردار اداکرتا ہے۔ نظریات کا اختلاف یا عقائد کی وسیع خلیج یا فریقین کے قول وفعل کی عدم یکسانیت ان کے مستقبل کو تاریک کر سکتی ہے۔ میاں بیوی کے درمیان موانست کا رشتہ ٹوٹ جانے کے بعد ان کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنا شادی کے بنیادی تصور کی نفی ہے اور یہ بندھن کیف ومسرت کا پیغامبر بننے کی بجائے جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے اور جب فریقین ایک دوسرے سے مسلسل جھگڑتے رہیں اور ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگیں تو پھر سب کچھ جھوٹ اور فریب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ صورتحال نہ صرف یہ کہ انفرادی طور پر ناقابل برداشت ہے بلکہ سماجی اعتبار سے تباہ کن ہے۔ جنس کے اسرار اسی وقت پوری طرح تسکین پاتے ہیں جب جسمانی رشتے کے ساتھ فریقین میں روحانی اہم آہنگی بھی موجود ہو۔ اگر مذہب کافر یقین کی زندگیوں پر واقعی کوئی اثر ہوتا ہے تو پھر اس بارے میں کوئی اختلاف ان کی زندگی پر پیدائش، نسل زبان یا دنیاوی مرتبے غرضیکہ کسی اورچیز سے زیادہ اثر انداز ہوگا۔
سورۃ البقرہ میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’اور نکاح مت کرو کافر عورتوں کے ساتھ جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو جائیں اور مسلمان عورت (چاہے) لونڈی کیوں نہ ہو وہ بدرجہا بہتر ہے کافر عورت سے، گو وہ تم کو اچھی ہی 2332لگے اور عورتوں کو کافر مردوں کے نکاح میں مت دو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو جائیں اور مسلمان مرد غلام بہتر ہے کافر مرد سے۔ گووہ تم کو اچھا ہی لگے۔‘‘ (البقرہ:۲۲)
مندرجہ بالا بحث سے یہ بات ظاہر ہوگئی ہے کہ زیرنظر مقدمے میں فریقین کے درمیان شادی اسلام میں قطعی پسندیدہ نہیں اور قرآن پاک اور حدیث کی تعلیمات کے یکسر منافی ہے۔ کیونکہ فریقین نہ صرف مختلف نظریات کے حامل ہیں۔ بلکہ انکے عقائد بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اور یہ بات اس رشتے کے لئے سمّ قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے واضح کر چکا ہوں۔ اسلام میں کسی مسلمان کے لئے جنس مخالف کے ساتھ شادی کے سلسلے میں متعدد پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور کسی بھی صورت میں کوئی مسلمان عورت کسی غیرمسلم مرد سے جائز شادی نہیں کر سکتی۔ جن میں عیسائی، یہودی یا بت پرست شامل ہیں اور ایک مسلمان عورت اور غیرمسلم مرد کا نکاح اسلام کی نظر میں غیرمؤثر ہے۔ اندریں حالات میں قرار دیتا ہوں کہ اس مقدمے کے فریقین کے درمیان شادی اسلامی شادی نہیں بلکہ یہ سترہ سال کی ایک مسلمان لڑکی کی ساٹھ سال کے ایک غیرمسلم (مرتد) کے ساتھ شادی ہے۔
لہٰذا یہ شادی غیرقانونی اور غیرمؤثر ہے۔
مندرجہ بالا امورکے پیش نظر مسئلہ نمبر۳،۴،۶،۷ اور ۸ ساقط ہو جاتے ہیں۔ ان پر غور کی ضرورت نہیں۔
مندرجہ بالا بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ مدعیہ جو ایک مسلمان عورت ہے، کی شادی مدعا علیہ کے ساتھ، جس نے شادی کے وقت خود اپنا قادیانی ہونا تسلیم کیا ہے اور اس طرح جو غیرمسلم قرار پایا ہے غیرمؤثر ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ مدعیہ اسلامی تعلیمات کے مطابق مدعا علیہ کی بیوی نہیں۔
تنسیخ نکاح کے بارے میں مدعیہ کی درخوست کا فیصلہ اس کے حق میں کیا جاتا ہے اور مدعا علیہ کو ممانعت کی جاتی ہے کہ وہ مدعیہ کو اپنی بیوی قرار نہ دے۔ مدعیہ اس مقدمے کے اخراجات بھی وصول کرنے کی حقدار ہے۔
2333فیصلے کے اختتام سے پہلے میں مدعیہ کے فاضل وکیل کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے متعدد کتابوں کے ذریعہ میری بے حد مدد کی۔ ان میں سے چند کتابیں مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱)حقیقت الوحی، (۲)ازالہ اوہام، (۳)ملفوظات احمدیہ، (۴)معیار الاخیار، (۵)آئینہ کمالات، (۶)تذکرہ شہادتیں، (۷)مسئلہ ختم نبوت از مولانا محمد اسحق، (۸)مسئلہ نبوت از مولانا مودودی، (۹)قادیانی مسئلہ از مولانا مودودی، (۱۰)ختم نبوت از مولانا ثناء اﷲ، (۱۱)خاتم النّبیین از حکیم عبداللطیف، (۱۲)صحیفہ تقدیر از مولانا شبیراحمد عثمانی، (۱۳)مرزائیت عدالت کے کٹہرے میں مؤلفہ جانباز مرزا، (۱۴)فسخ نکاح مرزائیاں، (۱۵)فیصلہ صادر کردہ مسٹر محمد اکبر ڈسٹرکٹ جج بہاول نگر، (۱۶)فیصلہ صادر کردہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کیمبل پور، (۱۷)ترجمہ قرآن مجید از مسٹر پکتھال، (۱۸)مرزاغلام احمد کی تصانیف کے تراجم از عبداﷲ الہ دین۔
یہ فیصلہ ۱۳؍جولائی (۱۹۷۰ئ) کو شیخ محمد رفیق گوریجہ کے جانشین جناب قیصر احمد حمیدی نے جوان کی جگہ جیمس آباد کے سول اور فیملی کورٹ جج مقرر ہوئے ہیں۔ کھلی عدالت میں پڑھ کر سنایا۔
تعجب ہے کہ ایک ریزہ چین خواں نصاریٰ کا
گدائی کرتے کرتے مہدی موعود ہو جائے
ظفر علی خاں
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مطالبہ
ہم محترم صدر مملکت عالی جناب آغا محمد یحییٰ خان صاحب سے درخواست کرتے ہیں کہ آنجناب مسئلہ ختم نبوت کی اہمیت وعظمت کو محسوس فرماویں اور ایک آرڈیننس کے ذریعہ مرزائیوں کو ایک غیرمسلم اقلیت قرار دیں۔ یہ پاکستان کی نامور اور منصف عدلیہ کا فیصلہ ہے اور عالم اسلام کے ہر مکتب فکر کے علماء کا فتویٰ اور امت مسلمہ کا دیرینہ متفقہ مطالبہ ہے اور شہدائے ختم نبوت کے مقدس خون کی پکار ہے۔ مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان، ملتان
 
Top