ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
مرزاصاحب نے قرآن کریم میں اس قدر لفظی اور معنوی تحریفات کی ہیں کہ ان کا شمار مشکل ہے۔ یہاں تک کہ اس شخص نے یہ جسارت بھی کی ہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات جو صراحۃً آنحضرتﷺ کی شان میں نازل ہوئی تھیں۔ ان کو اپنے حق میں قرار دیا اور جو القاب اور امتیازات قرآن کریم نے سرکار دوعالمﷺ کے لئے بیان فرمائے تھے تقریباً سب کے سب اس نے اپنے لئے مخصوص کر لئے اور یہ کہا کہ مجھے بذریعہ وحی ان القاب سے نوازا گیا ہے۔ مثلاً مندرجہ ذیل آیات قرآنی۔
۱…
’’وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمن‘‘ (اربعین نمبر۳ ص۲۳، خزائن ج۱۷ ص۴۱۰)
۲…
’’وما ینطق عن الہویٰ ان ہو الا وحی یوحیٰ‘‘ (اربعین نمبر۲ ص۳۶، خزائن ج۱۷ ص۴۲۶)
۳…
’’داعیاً الیٰ اﷲ باذنہ وسراجاً منیرا‘‘ (حقیقت الوحی ص۷۵، خزائن ج۲۲ ص۷۸)
۴…
’’قل ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ‘‘ (حقیقت الوحی ص۷۹، خزائن ج۲۲ ص۸۲)
۵…
’’ان الذین یبایعونک انما یبایعون اﷲ ید اﷲ فوق ایدیہم‘‘ (حقیقت الوحی ص۸۰، خزائن ج۲۲ ص۸۳)
۶… ’
’انا فتحنالک فتحاً مبیناً لیغفرلک اﷲ ماتقدم من ذنبک وما تأخر‘‘ (حقیقت الوحی ص۹۴، خزائن ج۲۲ ص۹۷)
۷…
’’یٰس والقرآن الحکیم انک لمن المرسلین‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۰۷، خزائن ج۲۲ ص۱۱۰)
۸…
’’انا ارسلنا الیکم رسولاً شاہداً علیکم‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۰۱، خزائن ج۲۲ ص۱۰۵)
۹… ’’
سورۂ انا اعطینک الکوثر
‘‘ کے بارے میں ہر شخص جانتا ہے کہ یہ سورت بطور خاص آنحضرتﷺ کا امتیاز بتانے کے لئے نازل ہوئی تھی اور اس میں اﷲتعالیٰ نے فرمایا تھا کہ:
’’ہم نے آپﷺ کو کوثر عطاء کی ہے۔‘‘
لیکن مرزاصاحب نے اس سورت کو اپنے حق میں قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ انا شانئک ہو الابتر (بے شک آپ کا دشمن مقطوع النسل ہے) میں شانی ٔ یعنی بدگو اور دشمن سے مراد ان کا ایک ’’شقی، خبیث، بدطینت، فاسد القلب، ہندو زادہ، بدفطرت‘‘ مخالف یعنی نو مسلم سعد اﷲ ہے۔ (انجام آتھم ص۵۸، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
----------
1947[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi.)]
(اس موقعہ پر جناب چیئرمین صاحب نے صدارت چھوڑ دی۔ جسے ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے سنبھال لیا)
مولوی مفتی محمود:
۱۰… آنحضرتﷺ کے خصوصی اعزاز یعنی معراج کو بھی مرزا نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھا کہ یہ میرے بارے میں کہاگیا ہے کہ:
’’
سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ
‘‘
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے گئی۔ (حقیقت الوحی ص۷۸، خزائن ج۲۲ ص۸۱)
۱۱… اسی معراج کے ایک واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ:
’’
ثم دنا فتدلّٰی فکان قاب قوسین او ادنیٰ
‘‘ (حقیقت الوحی ص۷۶، خزائن ج۲۲ ص۷۹)
’’پھر قریب ہوا تو بہت قریب ہوگیا، دو کمانوں یا اس سے بھی قریب تر۔‘‘
مرزاغلام احمد نے یہ آیت بھی اپنی طرف منسوب کی ہے۔
۱۲… قرآن کریم نے بیان کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو آنحضرتﷺ کی تشریف آوری کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا تھا۔
’’
ومبشراً برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد
‘‘ اور میں ایک رسول کی خوشخبری دینے کے لئے آیا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد(ﷺ) ہوگا۔
مرزاغلام احمد نے انتہائی جسارت اور ڈھٹائی سے دعویٰ کیا کہ اس آیت میں میرے آنے کی پیش گوئی کی گئی ہے اوراحمد سے مراد میں ہوں۔ (ازالہ اوہام ص۶۷۳، خزائن ج۳ ص۴۶۳)
چنانچہ مرزائی صاحبان اسی پر ایمان رکھتے ہیں کہ اس آیت میں احمد سے مراد آنحضرتﷺ کے بجائے (معاذ اﷲ ثم معاذ اﷲ) مرزاغلام احمد ہے۔ قادیانیوں کے خلیفۂ دوم مرزا 1948بشیرالدین محمود نے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے ۲۷؍دسمبر ۱۹۱۵ء کو ایک مستقل تقریر کی جو انوار خلافت میں ان کی نظر ثانی کے بعد چھپی ہے۔ اس کے آغاز میں وہ کہتے ہیں:
’’پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آیا حضرت مسیح موعود کا نام احمد تھا۔ یا آنحضرتﷺ کا، اور کیا سورۂ صف کی آیت جس میں ایک رسول کی جس کا نام احمد ہوگا۔ بشارت دی گئی ہے۔ آنحضرتﷺ کے متعلق ہے۔ یا حضرت مسیح موعود کے متعلق؟ میرا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے متعلق ہے اور احمد آپ ہی ہیں۔ لیکن اس کے خلاف کہا جاتا ہے کہ احمد نام رسول کریمﷺ کا ہے اور آپ کے سوا کسی اور شخص کو احمد کہنا آپﷺ کی ہتک ہے۔ لیکن میں جہاں تک غور کرتا ہوں میرا یقین بڑھتا جاتا ہے اور میں ایمان رکھتا ہوں کہ احمد کا جو لفظ قرآن کریم میں آیا ہے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام (یعنی مرزاغلام احمد) کے متعلق ہی ہے۔‘‘ (انوار خلافت ص۱۸، مطبوعہ امرتسر ۱۹۱۶ئ)
یہ شرمناک، اشتعال انگیز، جگر سوز اور ناپاک جسارت اس حد تک بڑھی کہ ایک قادیانی مبلغ سید زین العابدین ولی اﷲ شاہ نے ’’اسمہ احمد‘‘ کے عنوان سے ۱۹۳۴ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں ایک مفصل تقریر کی جو الگ شائع ہوچکی ہے، اس میں اس نے صرف یہی دعویٰ نہیں کیا کہ مذکورہ آیت میں احمد سے مراد آنحضرتﷺ کے بجائے مرزاغلام احمد ہے۔ بلکہ یہ بھی ثا بت کرنے کی کوشش کی کہ سورۃ صف میں صحابہ کرامؓ کو فتح ونصرت کی جتنی بشارتیں دی گئی ہیں وہ صحابہ کرامؓ کے لئے نہیں قادیانی جماعت کے لئے تھیں۔ چنانچہ اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے وہ کہتا ہے: ’’پس یہ اُخریٰ۱؎ کتنی بے بہا نعمت ہے جس کی صحابہؓ تمنی کرتے رہے مگر وہ اسے حاصل نہ کر سکے اور آپ کو مل رہی ہے۔‘‘ (اسمہ احمد ص۷۴، مطبوعہ قادیان ۱۹۳۴ئ)
غور فرمائیے کہ سرکار دوعالمﷺ اور آپﷺ کے اصحاب کرامؓ کی یہ توہین اور قرآن کریم کی آیات کے ساتھ یہ گھناؤنا مذاق مسلمانوں جیسا نام رکھنے کے بغیر ممکن تھا؟
پھر یہ جسارت یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ بلکہ مرزاغلام احمد نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس پر نازل ہونے والی نام نہاد وحی (جس میں انتہائی درجے کی کفریات اور بازاری باتیں بھی موجود ہیں) ٹھیک قرآن کے برابر ہے، چنانچہ اپنے ایک فارسی قصیدے میں وہ کہتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ آیت قرآنی
واخری تحبونہا نصر من اﷲ وفتح قریب۰ (الصف:۱۳)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ آنچہ من بشنوم ز وحی خدا
بخدا پاک دانمش ز خطا
ہمچو قرآن منزہ اش دانم
از خطاہا، ہمیں ست ایمانم (نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
’’یعنی خدا کی جو وحی میں سنتا ہوں خدا کی قسم میں اسے ہر غلطی سے پاک سمجھتا ہوں۔ قرآن کی طرح اسے تمام غلطیوں سے پاک یقین کرتا ہوں، یہی میرا ایمان ہے۔‘‘
مرزاغلام احمد نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ قرآن کی طرح میری وحی بھی حد اعجاز کو پہنچی ہوئی ہے اور اس کی تائید میں انہوں نے ایک پورا قصیدہ اعجازیہ تصنیف کیا ہے جو ان کی کتاب ’’اعجاز احمدی‘‘ میں شائع ہوگیا ہے۔
اس کے علاوہ پوری امت مسلمہ انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانے اور ان کی تعظیم وتقدیس کو جزو ایمان سمجھتی ہے۔ سرکار دوعالم محمد مصطفیﷺ بغیر کسی ادنیٰ شبہ کے تمام انبیاء سے افضل تھے۔ لیکن کبھی آپﷺ نے کسی دوسرے نبی کے بارے میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں فرمایا جو ان کے شایان شان نہ ہو۔ لیکن مرزاغلام احمد قادیانی انسانی پستیوں کے تحت الثریٰ میں کھڑے ہوکر بھی انبیاء علیہم السلام کی شان میں جو گستاخیاں کرتے رہے۔ اس کا نمونہ ملاحظہ فرمائیے!
1950۱… ’’یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے، اس کا سبب تو یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے۔ شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے۔‘‘ (کشتی نوح حاشیہ ص۶۶، خزائن ج۱۹ ص۷۱)
۲… ’’مجھے کئی سال سے ذیابیطس کی بیماری ہے۔ پندرہ بیس مرتبہ روز پیشاب آتا ہے اور بعض وقت سو سو دفعہ ایک ایک دن میں پیشاب آتا ہے… ایک دفعہ مجھے ایک دوست نے یہ صلاح دی کہ ذیابیطس کے لئے افیون مفید ہوتی ہے۔ پس علاج کی غرض سے مضائقہ نہیں… میں نے جواب دیا کہ اگر میں ذیابیطس کے لئے افیون کھانے کی عادت کر لوں تو میں ڈرتا ہوں کہ لوگ ٹھٹھا کر کے یہ نہ کہیں کہ پہلا مسیح تو شرابی تھا اور دوسرا افیونی۔‘‘ (نسیم دعوت ص۶۹، خزائن ج۱۹ ص۴۳۴،۴۳۵)
۳… مرزاغلام احمد ایک نظم میں کہتے ہیں ؎ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے (دافع البلاء ص۲۰، خزائن ج۱۸ ص۲۴۰)
اور اس کے بعد لکھتے ہیں: ’’یہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ واقعی ہیں اور اگر تجربہ کی رو سے خدا کی تائید مسیح ابن مریم سے بڑھ کر میرے ساتھ نہ ہو تو میں جھوٹا ہوں۔‘‘ (دافع البلاء ص۲۰،۲۱، خزائن ج۱۸ ص۲۴۰،۲۴۱)
۴… ازالہ اوہام میں مرزاصاحب نے اپنی ایک فارسی نظم لکھی ہے، اس میں وہ کہتے ہیں: اینک منم کہ حسب بشارات آمدم
عیسیٰ کجاست تا بہ نہد پا بمنبرم (ازالہ اوہام طبع اوّل ص۱۵۸، خزائن ج۳ ص۱۸۰)
1951یعنی! ’’یہ میں ہوں جو بشارتوں کے مطابق آیا ہوں۔ عیسیٰ کی کیا مجال کہ وہ میرے منبر پر پاؤں رکھ سکے۔‘‘
۵… ’’خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمد رکھا۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۲۳۳)
۶… ’’مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہرگز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہورہے ہیں وہ ہرگز دکھلا نہ سکتا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۴۸، خزائن ج۲۲ ص۱۵۲)
۷… ’’مسیح کی راست بازی اپنے زمانہ میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ یحییٰ نبی کو اس پر ایک فضیلت ہے۔ کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور کبھی نہیں سنا گیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر ملا تھا یا ہاتھوں یا اپنے سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھوأ تھا، یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی۱؎۔ اسی وجہ سے خدا 1952نے قرآن میں یحییٰ کا نام حصور (باعفت) رکھا۔ مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا، کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے۔‘‘ (مقدمہ دافع البلاء ص۴، خزائن ج۱۸ ص۲۲۰ حاشیہ)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ ناانصافی ہوگی، اگر یہاں خود مرزاقادیانی کی ’’راست باز‘‘ سیرت کے دو ایک واقعات ذکر نہ کئے جائیں۔ مرزاصاحب کے مرید خاص مفتی محمد صادق مرزاصاحب کے ’’غض بصر‘‘ یعنی نگاہیں نیچی رکھنے کے بیان میں لکھتے ہیں: ’’حضرت مسیح موعود کے اندرون خانہ ایک نیم دیوانی سی عورت بطور خادمہ کے رہا کرتی تھی، ایک دفعہ اس نے کیا…(بقیہ حاشیہ اگلی پوسٹ میں)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۸… نیز تمام انبیاء علیہم السلام پر اپنی فضیلت ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہزارہا میری ایسی کھلی کھلی پیش گوئیاں ہیں جو نہایت صفائی سے پوری ہوگئیں۔ جن کے لاکھوں انسان گواہ ہیں، ان کی نظیر اگر گذشتہ نبیوں میں تلاش کی جائے تو بجز آنحضرتﷺ کے کسی اور جگہ ان کی مثل نہیں ملے گی۔‘‘ (کشتی نوح ص۶، خزائن ج۱۹ ص۶)
پھر تمام انبیاء علیہم السلام پر اپنی فضیلت ظاہر کر کے بھی انہیں تسلی نہیں ہوئی۔ بلکہ مرزاغلام احمد کی گستاخیوں نے سرکار دوعالم، رحمتہ للعالمین، حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے دامن عظمت پر بھی دست درازی کی کوشش کی ہے، لکھا ہے کہ: ’’خوب توجہ کر کے سن لو کہ اب اسم محمدؐ کی تجلی ظاہر کرنے کا وقت نہیں یعنی اب جلالی رنگ کی کوئی خدمت باقی نہیں، کیونکہ مناسب حد تک وہ جلال ظاہر ہوچکا۔ سورج کی 1953کرنوں کی اب برداشت نہیں، اب چاند کی ٹھنڈی روشنی کی ضرورت ہے اور وہ احمد کے رنگ میں ہوکر میں ہوں۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۱۴، خزائن ج۱۷ ص۴۴۵، ۴۴۶)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (بقیہ حاشیہ گزشتہ صفحہ) حرکت کی کہ جس کمرے میں حضرت بیٹھ کر لکھنے پڑھنے کا کام کرتے تھے، وہاں ایک کونے میں کھرّا تھا جس میں پانی کے گھڑے رکھے تھے۔ وہاں اپنے کپڑے اتار کر ننگی بیٹھ کر نہانے لگ گئی۔ حضرت صاحب اپنے کام تحریر میں مصروف رہے اور کچھ خیال نہ کیا کہ وہ کیا کرتی ہے۔‘‘ (ذکر حبیب مؤلفہ مفتی محمد صادق ص۳۸ قادیان ۱۹۳۶ئ)نیز ایک نوجوان عورت عائشہ نامی مرزاصاحب کے پاؤں دبایا کرتی تھی۔ اس کے شوہر غلام محمد لکھتے ہیں: ’’حضور کو مرحومہ کی خدمت پاؤں دبانے کی بہت پسند تھی۔‘‘(الفضل مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۲۸ء ص۸)اس کے علاوہ جو اجنبی عورتیں مرزاصاحب کے گھر میں رہتی تھیں اور ان کی مختلف خدمات پر مامور تھیں۔ ان کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہوسیرت المہدی از مرزابشیراحمد ایم۔اے۔(ص۲۱ ج۳ ص۲۱۳ ج۳ ص۲۷۳ ج۳، ص۸۸ ج۳، ص۱۲۶ ج۳، ص۳۵ ج۳، ص۳ ج۳، ص۲۵۹ ج۱)جب کہ عوام کے لئے فتویٰ یہ تھا کہ ’’بوڑھی عورت سے بھی مصافحہ کرنا جائز نہیں۔‘‘ (سیرت المہدی ص۷۶، ج۲ مطبوعہ ۱۹۲۷ئ) اور مفتی محمد صادق صاحب لکھتے ہیں: ’’ایک شب دس بجے کے قریب میں تھیٹر میں چلا گیا جو مکان کے قریب ہی تھا۔ حضرت صاحب نے فرمایا ایک دفعہ ہم بھی گئے تھے تاکہ معلوم ہو کہ وہاں کیا ہوتا ہے۔‘‘(ذکر حبیب ص۱۸)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور خطبہ الہامیہ کی وہ عبارت پیچھے گزر چکی ہے جس میں اس نے اپنے کو سرکار دو عالمﷺ کا بروز ثانی قرار دے کر کہا ہے کہ یہ نیا ظہور پہلے سے اشد اقویٰ اور اکمل ہے۔ (دیکھئے خطبہ الہامیہ ص۱۸۱، خزائن ج۱۶ ص۲۷۲)
نیز اپنے قصیدۂ اعجازیہ میں (جسے قرآن کی طرح معجز قرار دیا ہے) یہ شعر بھی کہا ہے کہ: لہ خسف القمر المنیر وان لی
غسا القمر ان المشرقان اتنکر
اس یعنی آنحضرتﷺ کے لئے چاند کے خسوف کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لئے چاند اور سورج دونوں کا۔ اب کیا تو انکار کرے گا۔ (اعجاز احمدی ص۷۱، خزائن ج۱۹ ص۱۸۳)
سچ ہے کہ: ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں۔
جو شخص اس دیدہ دلیری کے ساتھ انبیاء علیہم السلام کی توہین کر سکتا ہو، وہ صحابہ کرامؓ کو تو کیا خاطر میں لاسکتا ہے؟ چنانچہ مندرجہ ذیل عبارتیں بلا تبصرہ پیش خدمت ہیں۔
۱… ’’جو شخص میری جماعت میں داخل ہوا، درحقیقت سردار خیرالمرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا۔‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۱۷۱، خزائن ج۱۶ ص۲۵۸)
۲… ’’میں وہی مہدی ہوں جس کی نسبت ابن سیرین سے سوال کیاگیا کہ کیا وہ حضرت ابوبکرؓ کے درجہ پر ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکرؓ کیا وہ تو بعض انبیاء سے بہتر ہے۔‘‘ (اشتہار معیار الاخیار ص۱۱، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۸)
1954۳… ’’پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو، اب نئی خلافت لو، ایک زندہ علی تم میں موجود ہے۔ اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی کو تلاش کرتے ہو۔‘‘ (ملفوظات احمدیہ ج۱ ص۱۳۱)
۴… ’’بعض نادان صحابی جن کو درایت سے کچھ حصہ نہ تھا وہ ابھی اس عقیدے سے بے خبر تھے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ ج۵ ص۱۲۰، خزائن ج۲۱ ص۲۸۵)
یہاں ’’نادان صحابی‘‘ کا لفظ حضرت عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کے لئے استعمال کیا ہے۔ (خطبہ الہامیہ ص۱۴۹، خزائن ج۱۶ ص۲۲۹، حقیقت الوحی ص۳۳،۳۴، خزائن ج۲۲ ص۳۵،۳۶)
۱… گستاخی اور جسارت کی انتہاء ہے کہ لکھتے ہیں: ’’حضرت فاطمہؓ نے کشفی حالت میں اپنی ران پر میرا سر رکھا اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ حاشیہ ص۹، خزائن ج۱۸ ص۲۱۳)
۲… ’’میں خدا کا کشتہ ہوں، لیکن تمہارا حسین دشمنوں کا کشتہ ہے۔ پس فرق کھلاکھلا اور ظاہر ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۸۱، خزائن ج۱۹ ص۱۹۳)
۴… ’’تم نے خدا کے جلال اور مجد کو بھلا دیا، اور تمہارا وِرد صرف حسین ہے کیا تو انکار کرتا ہے؟ پس یہ اسلام پر ایک مصیبت ہے۔ کستوری کی خوشبو کے پاس گوہ کا ڈھیر ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۸۲، خزائن ج۱۹ ص۱۹۴)
۵… کربلائیست سیر ہر آنم
صد حسین است درگریبانم (نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
آنحضرتﷺ کے اہل بیت کی توہین کے بعد اپنی اولاد کو ’’پنج تن‘‘ کے لقب سے مقدس قرار دیتے ہوئے کہا:
1955۶… مری اولاد سب تیری عطا ہے
ہر اک تیری بشارت سے ہوا ہے
یہ پانچوں جو کہ نسل سیدہ ہیں
یہی ہیں پنج تن جن پر بنا ہے (درثمین اردو ص۴۴)
مرزابشیرالدین محمود لکھتے ہیں:
’’اس زمانے میں خداتعالیٰ نے قادیان کو تمام دنیا کی بستیوں کی ام قرار دیا ہے۔ اس لئے اب وہی بستی پورے طور پر روحانی زندگی پائے گی۔ جو اس کی چھاتیوں سے دودھ پیئے گی۔‘‘ (حقیقت الرؤیا ص۴۵ ایڈیشن اوّل ۱۹۱۸ئ)
آگے کہتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود نے اس کے متعلق بڑا زور دیا ہے اور فرمایا ہے کہ جو بار بار یہاں نہیں آتے، مجھے ان کے ایمان کا خطرہ ہے، پس جو قادیان سے تعلق نہیں رکھے گا وہ کاٹا جائے گا۔ تم ڈرو کہ تم میں سے نہ کوئی کاٹا جائے، پھر یہ تازہ دودھ کب تک رہے گا، آخر ماؤں کا دودھ سوکھ جایا کرتا ہے۔ کیامکہ اور مدینہ کی چھاتیوں سے یہ دودھ سوکھ گیا کہ نہیں۔‘‘ (حقیقت الرؤیا ص۴۶، مطبوعہ قادیان ۱۳۳۶ھ)
’’آج جلسہ کا پہلا دن ہے اور ہمارا جلسہ بھی حج کی طرح ہے… حج کا مقام ایسے لوگوں کے قبضہ میں ہے، جو احمدیوں کو قتل کر دینا بھی جائز سمجھتے ہیں۔ اس لئے خداتعالیٰ نے قادیان کو اس کام کے لئے مقرر کیا ہے۔‘‘ (برکات خلافت ص۵، طبع قادیان ۱۹۱۴ئ)
1956۳… اور مرزاغلام احمد قادیانی کہتے ہیں ؎ زمین قادیان اب محترم ہے
ہجوم خلق سے ارض حرم ہے (درثمین اردو ص۵۰)
اسلام اور مسلمانوں کی مکرم ترین شخصیات انبیاء علیہم السلام، صحابہ کرامؓ اور اہل بیت عظامؓ کی شان میں ایسی کھلم کھلا گستاخیوں کے بعد مرزاغلام احمد جیسے شخص کو نبی، رسول اﷲ کا بروز، خاتم انبیاء اور محمد مصطفیﷺ، جیسے خطابات دئیے گئے۔ اس کے مریدوں کو صحابہ کرام کہا گیا اور ان کے ساتھ رضی اﷲ عنہم لکھا گیا۔ مرزاغلام احمد کی بیوی کو ام المؤمنین قرار دیا گیا۔ مرزا کے جانشینوں کو خلفاء اور صدیقین کے لقب عطا ہوئے۔ قادیان ارض حرم اور ’’ام القریٰ‘‘ کہلایا اور اپنے سالانہ جلسے کو ’’حج‘‘ کہا گیا۔ اس کے باوجود یہ اصرار ہے کہ مسلمان ہیں تو بس یہی، اور اسلام ہے تو صرف قادیانیوں کے مذہب میں ؎
معزز ارکان اسمبلی کی معلومات اور دلچسپی کے لئے مرزاصاحب کے چند خاص الہامات اور ان کی زندگی کے چند اہم گوشے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ یہ اندازہ کر سکیں کہ مرزائی صاحبان جس شخص کو نبی اور رسول کہتے ہیں، وہ کیا تھا؟ اور عقیدۂ ختم نبوت سے قطع نظر، اس مزاج اور اس انداز کے انسان میں کہیں دور دور نبوت کے مقدس منصب کی کوئی بو نظر آتی ہے! پہلے الہامات کو لیجئے جو بلاتبصرہ حاضر ہیں۔
’’زیادہ تر تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ۔‘‘ (نزول المسیح ص۵۷، خزائن ج۱۸ ص۴۳۵)
1957حالانکہ قرآن حکیم میں اﷲتعالیٰ نے فرمایا ہے۔
وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ لیبین لہم
(ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا۔ مگر اپنی قوم ہی کی زبان میں تاکہ انہیں کھول کر بتادے)
اس طرح خود مرزاصاحب نے بھی (چشمہ معرفت ص۲۰۹، خزائن ج۲۳ ص۲۱۸) میں تحریر کیا ہے:
’’بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام کسی اور زبان میں جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ اس میں تکلیف مالایطاق ہے اور ایسے الہام سے فائدہ کیا ہوا جو انسانی سمجھ سے بالا تر ہو۔‘‘
اب مرزاصاحب کے ایسے الہامات اور مکاشفات ملاحظہ فرمائیے۔
قرآن حکیم اور اپنے فیصلے کے خلاف مرزاصاحب کو ان زبانوں میں بھی الہامات ہوئے ہیں جن کو وہ خود بھی نہیں سمجھ سکتے۔ ہم بطور نمونہ مرزاصاحب کے چند الہامات درج ذیل کرتے ہیں۔
۱…
ایلی ایلی لما سبقتنی ایلی اوس
’’اے میرے خدا، اے میرے خدا، مجھے کیوں چھوڑ دیا۔‘‘ آخری فقرہ اسی الہام کا یعنی
ایلی آوس بباعث سرعت ورود
مشتبہ رہا اور نہ اس کے کچھ معنی کھلے۔‘‘ (البشریٰ ج۱ ص۳۶، تذکرہ ص۹۱ طبع سوم)
۲… ’’اس (خداتعالیٰ) نے اس الہام میں میرا نام مریم رکھا۔ پھر جیسا کہ براہین احمدیہ سے ظاہر ہے۔ دو برس تک صفت مریمیت میں میں نے پرورش پائی اور پردہ میں نشو ونما پاتا رہا۔ پھر جب اس پر دو برس گزر گئے… مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا۔ اور آخر کئی مہینے کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں، مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا۔ بس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔‘‘ (کشتی نوح ص۴۶، ۴۷، خزائن ج۱۹ ص۵۰)
’’مریم کو (اس عاجز) دردزہ تنہ کھجور کی طرف لے آئی۔‘‘ (کشتی نوح ص۴۷، خزائن ج۱۹ ص۵۱)
۳… ’’
یریدون ان یروا طمثک
… یعنی بابو الٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے یا کسی پلیدی اور ناپاکی پر اطلاع پائے۔ مگر خداتعالیٰ تجھے اپنے انعامات دکھلائے گا جو متواتر ہوں گے اور تجھ میں حیض نہیں بلکہ بچہ ہوگیا ہے ایسا بچہ جو بمنزلہ اطفال اﷲ ہے۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۴۳، خزائن ج۲۲ ص۵۸۱)
۴… ’’ربنا عاج ہمارا رب عاجی ہے۔ عاج کے معنی ابھی تک نہیں کھلے۔‘‘ (براہین احمدیہ ہر چہار جلد اوّل ص۵۵۶، خزائن ج۱ ص۶۶۲،۶۶۳ حاشیہ)
1958۵… ’’ایک دفعہ ۵؍مارچ ۱۹۰۵ء کے مہینے میں بوقت آمدنی لنگر خانہ کے مصارف میں بہت دقت ہوئی۔ کیونکہ کثرت سے مہمانوں کی آمد تھی اور اس کے مقابل پر روپیہ کی آمدنی کم اس لئے دعا کی گئی ۵؍مارچ ۱۹۰۵ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص جو فرشتہ معلوم ہوتا تھا میرے سامنے آیا اور اس نے بہت سا روپیہ میرے دامن میں ڈال دیا۔ میں نے اس کا نام پوچھا اس نے کہا نام کچھ نہیں، میں نے کہا آخر کچھ تو نام ہوگا اس نے کہا میرا نام ہے ٹیچی ٹیچی۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۳۲، خزائن ج۲۲ ص۳۴۵،۳۴۶)
(متعدد اراکین نے ’’ٹیچی ٹیچی‘‘ کا مطلب پوچھا)
مولوی مفتی محمود: ’’ٹیچی‘‘ شاید ’’ٹیچنگ‘‘ سے ہے، یعنی پڑھانے والا۔
ڈاکٹر ایس محمود عباس بخاری: مولانا صاحب! ’’ٹیچی کا مطلب ہے ’’ٹچ ٹائم تے آن والا‘‘ (یعنی عین وقت پر آنے والا) اس کی تفسیر انہوں نے کی ہے۔ ٹچ ٹائم پر آنے والا۔‘‘
مولوی مفتی محمود: مرزاجی کے فرشتہ نے یا پہلے جھوٹ بولا یا پھر، جس نبی کا فرشتہ جھوٹ بولتا ہے وہ نبی کیسے سچا ہوسکتا ہے؟
۶… ’’۲۴؍فروری ۱۹۰۵ء حالت کشفی میں جب کہ حضرت کی طبیعت ناساز تھی، ایک شیشی دکھائی گئی جس پر لکھا ہوا تھا۔ خاکسار پیپرمنٹ۔‘‘ (مکاشفات مرزا ص۳۸، تذکرہ ص۵۲۷ طبع سوم)
۷… مرزاصاحب کے ایک خاص مرید قاضی یار محمد صاحب بی۔او۔ ایل پلیڈر اپنے مرتبہ ٹریکٹ نمبر۳۴ موسوم اسلامی قربانی ص۱۲ میں تحریر کرتے ہیں۔
’’جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے ایک موقعہ پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی ہے کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اﷲتعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا۔ سمجھنے والے کے لئے اشارہ کافی ہے۔‘‘
۸… ’’پھر بعد اس کے خدا نے فرمایا۔ شعنا، نعسا دونوں فقرے شاید عبرانی ہیں اور ان کے معنی ابھی تک اس عاجز پر نہیں کھلے۔ پھر بعد اس کے دو فقرے انگریزی میں جن کے الفاظ کی 1959صحت بباعث سرعت الہام ابھی تک معلوم نہیں اور وہ یہ ہیں۔ آئی۔لو۔یو، آئی شیل گو یو، لارج پارٹی آوف اسلام۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۵۵۴، خزائن ج۱ ص۶۶۴ حاشیہ)
۹… ’’ایک دفعہ کی حالت یاد آئی ہے کہ انگریزی میں اوّل یہ الہام ہوا آئی۔لو۔یو۔ آئی ایم ود یو۔ آئی شیل ہیلپ یو، آئی کین وہٹ آئی ول ڈو۔ پھر بعد اس کے بہت زور سے جس سے بدن کانپ گیا یہ الہام ہوا۔ وی کین وٹ وی ول ڈو اور اس وقت ایک ایسا لہجہ اور تلفظ معلوم ہوا کہ گویا کہ ایک انگریز ہے جو سر پر کھڑا بول رہا ہے اور باوجود پر دہشت ہونے کے پھر اس میں ایک لذت تھی جس سے روح کو معنی معلوم کرنے سے پہلے ہی ایک تسلی اور تشفی ملتی تھی اور یہ انگریزی زبان کا الہام اکثر ہوتا رہتا ہے۔‘‘ (تذکرہ ص۶۳،۶۴ طبع سوم)
۱۰… ’’کشفی طور پر ایک مرتبہ ایک شخص دکھایا گیا اور مجھے مخاطب کر کے بولا۔ ہے رودر گوپال تیری استت گیتا میں لکھی ہے۔‘‘ (تذکرہ مجموعہ الہامات مرزا ص۳۸۰ طبع سوم)
۱۱… ’’مجھے منجملہ اور الہاموں کے اپنی نسبت ایک یہ بھی الہام ہوا۔ ’’ہے کرشن رودر گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی ہے۔‘‘ (تذکرہ ص۳۸۰ طبع سوم)
۱۲… ’’جب کہ آریہ قوم کے لوگ کرشن کے ظہور کا ان دنوں میں انتظار کرتے ہیں وہ کرشن میں ہی ہوں اور یہ دعویٰ صرف میری طرف سے نہیں بلکہ خداتعالیٰ نے باربار میرے پر ظاہر کیا ہے۔ جو کرشن آخری زمانے میں ظاہر ہونے والا تھا وہ تو ہی ہے آریوں کا بادشاہ۔‘‘ (تذکرہ ص۳۸۱، طبع سوم)
۱۳… مرزاصاحب کا ایک نام خداتعالیٰ نے بقول مرزابشیرالدین حسب ذیل رکھا، دیکھو الفضل مورخہ ۵؍اپریل ۱۹۴۷ئ۔ امین الملک جے سنگھ بہادر، (تذکرہ ص۶۷۲ طبع سوم)
مرزاغلام احمد صاحب قادیانی تحریر کرتے ہیں کہ: ’’بدخیال لوگوں کو واضح رہے کہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لئے ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں ہوسکتا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۸، خزائن ج۵ ص ایضاً)
اب ہم یہاں مرزاغلام احمدصاحب کی صرف دو پیش گوئیاں بطور نمونہ آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ جنہیں پورا کرنے کے لئے جناب مرزاصاحب نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ حیلے حوالے کئے ٹوٹکے استعمال کئے اور یہاں تک کہ رشوت تک دینے کی بھی پیش کش کی۔ مگر وہ پوری نہ ہوسکیں۔
(اگلی پوسٹ میں پہلی پیشن گوئی پڑھیں)
مرزاصاحب کی چچازاد بہن کی ایک لڑکی تھی جس کا نام محمدی بیگم تھا۔ والد اس لڑکی کا اپنے کسی ضروری کام کے لئے مرزاصاحب کے پاس آیا۔ پہلے تو مرزاصاحب نے شخص مذکورہ کو حیلوں بہانوں سے ٹالنے کی کوشش کی۔ مگر جب وہ کسی طرح بھی نہ ٹلا اور اس کا اصرار بڑھا تو مرزا صاحب نے الہام الٰہی کا نام لے کر ایک عدد پیش گوئی کر دی کہ:
’’خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ کو الہام ہوا ہے کہ تمہارا یہ کام اس شرط پر ہوسکتا ہے کہ اپنی بڑی لڑکی کا نکاح مجھ سے کر دو۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۶ ملخص، خزائن ج۵ ص ایضاً)
وہ شخص غیرت کا پتلا تھا۔ یہ بات سن کرواپس چلا گیا۔ مرزاصاحب نے بعدازاں ہر چند کوشش کی، نرمی، سختی، دھمکیاں، لالچ، غرض ہر طریقہ کو استعمال کیا، مگر وہ شخص کسی طرح بھی رام نہ ہوسکا۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ مرزاصاحب نے چیلنج کر دیا کہ: 1961’’میں اس پیش گوئی کو اپنے صدق وکذب کے لئے معیار قرار دیتا ہوں اور یہ خدا سے خبر پانے کے بعد کہہ رہا ہوں۔‘‘ (انجام آتھم ص۲۲۳، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
اور فرمایا کہ:
’’ہر روک دور کرنے کے بعد اس لڑکی کو خداتعالیٰ اس عاجز کے نکاح میں لاوے گا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۵۸)
آخرکار مرزاصاحب کی ہزار کوششوں کے باوجود محمدی بیگم کا نکاح ان سے نہ ہوسکا اور سلطان محمد نامی ایک صاحب سے اس کی شادی ہوگئی۔ اس موقع پر مرزاصاحب نے پھر پیش گوئی کی کہ:
’’نفس پیش گوئی یعنی اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۳)
آگے اپنا الہام ان الفاظ میں بیان کیا: ’’میں اس عورت کو اس کے نکاح کے بعد واپس لاؤں گا اور تجھے دوں گا اور میری تقدیر کبھی نہیں بدلے گی۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۳)
اور ایک موقع پر یہ دعا کی کہ:
’’اور احمد بیگ کی دختر کلاں کا آخر اس عاجز کے نکاح میں آنا، یہ پیش گوئیاں تیری طرف سے ہیں تو ان کو ایسے طور سے ظاہر فرما جو خلق اﷲ پر حجت ہو… اور اگر اے خداوند! یہ پیش گوئیاں تیری طرف سے نہیں ہیں تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۱۶)
لیکن محمدی بیگم بدستور اپنے شوہر کے گھر میں رہی اور مرزاصاحب کے نکاح میں نہ آنا تھا۔ نہ آئی اور ’’مرزا صاحب ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو ہیضہ کے مرض میں مبتلا ہوکر انتقال کر گئے۔‘‘ (حیات ناصر ص۱۴)
1962اس کے بعد کیا ہوا؟ مرزاصاحب کے منجھلے صاحبزادے مرزابشیراحمد ایم۔اے رقمطراز ہیں:
’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم! بیان کیا مجھ سے میاں عبداﷲ سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت (مرزا) صاحب جالندھر جاکر قریباً ایک ماہ ٹھہرے تھے اور ان دنوں میں محمدی بیگم کے ایک حقیقی ماموں نے محمدی بیگم کا حضرت صاحب سے رشتہ کرا دینے کی کوشش کی تھی۔ مگر کامیاب نہیں ہوا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب محمدی بیگم کا والد مرزااحمد بیگ ہوشیارپوری زندہ تھا اور ابھی محمدی بیگم کا مرزاسلطان محمد سے رشتہ نہیں ہوا تھا۔ محمدی بیگم کا یہ ماموں جالندھر اور ہوشیار پور کے درمیان یکے (تانگے) میں آیا جایا کرتا تھا اور وہ حضرت صاحب (مرزاقادیانی) سے کچھ انعام کا بھی خواہاں تھا اور چونکہ محمدی بیگم کے نکاح کا عقدہ زیادہ تر اسی شخص کے ہاتھ میں تھا۔ اس لئے حضرت صاحب نے اس سے کچھ انعام کا وعدہ بھی کر لیا تھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے یہ شخص اس معاملہ میں بدنیت تھا اور حضرت صاحب سے فقط کچھ روپیہ اڑانا چاہتا تھا۔ کیونکہ بعد میں یہی شخص اور اس کے دوسرے ساتھی اس لڑکی کے دوسری جگہ بیاہے جانے کا موجب ہوئے۔‘‘ (سیرت المہدی ج۱ ص۱۹۲،۱۹۳، روایت نمبر۱۷۹)
حالانکہ جناب مرزاصاحب خود تحریر کرتے ہیں کہ: ’’ہم ایسے مرشد کو اور ساتھ ہی ایسے مرید کو کتوں سے بدتر اور نہایت ناپاک زندگی والا خیال کرتے ہیں کہ جو اپنے گھر سے پیش گوئیاں بنا کر پھر اپنے ہاتھ سے، اپنے مکر سے، اپنے فریب سے ان کے پورا ہونے کی کوشش کرے اور کراوے۔‘‘ (سراج منیر ص۲۳، خزائن ج۱۲ ص۲۷)
اور محمدی بیگم اپنے خاوند مرزاسلطان محمد کے گھر تقریباً چالیس سال بخیر وخوبی آباد رہی اور 1963اب لاہور میں اپنے جواں سال ہونہار مسلمان بیٹوں کے ہاں ۱۹؍نومبر ۱۹۶۶ء کو انتقال فرما گئیں۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون! (ہفتہ وار الاعتصام لاہور اشاعت ۲۵؍نومبر ۱۹۶۶ئ)