ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
اب اگر جسٹس منیریا مرزاناصرا حمد، علماء کرام کا مذاق اڑائیں یا اسلام کی تعریف پر متفق نہ ہونے کو قابل اعتراض قرار دیں۔ تو ان کا یہ اعتراض علماء کرام پر نہیں، خود سرور عالم ﷺ پر العیاذ باﷲ! ہو جاتا ہے۔
جسٹس منیر صاحب نے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہوکر دنیوی مراد کو پہنچ گیا۔ قیامت کا تعلق اﷲ تعالیٰ اورتوبہ سے ہے۔ باقی مرزا ناصر احمد صاحب سے توبہ کی زیادہ امید نہیںہے۔ اﷲ تعالیٰ اس کو مسلمان ہونے کی توفیق دیں تاکہ ان ہزاروں مرزائیوں کے مسلمان ہونے کا ثواب بھی اس کو مل جائے ورنہ پھر اﷲتعالیٰ نے جنت اور دوزخ دونوں تیار کر رکھے ہیں جو جہاں کا مستحق ہو گا وہاں پہنچ جائے گا۔
اظہار حقیقت: کیا جو باتیں مندرجہ بالا دس نمبروں میں بیان کی گئی ہیں، یہ اسلام کی یا مسلمان کی تعریف ہے اور کیا ان میں باہم کوئی تضاد یا کمی بیشی ہے یا نہیں۔ اگر یہ تعریفیں ایک طرح کی نہیں تو جسٹس منیر کا اعتراض سرور عالم ﷺ تک جا پہنچتا ہے اور بے چارہ مرزا ناصر احمد تو کسی شمار وقطار میں ہی نہیں۔
اب دیکھیں کہ حدیث نمبر۱… جبرائیل علیہ السلام کی روایت میں ایمان واسلام جداجدا بیان کئے گئے۔ نمبر۲… نجد والے سادہ شخص کے سامنے آپ نے اسلام کی تعریف میں حج کا بیان ہی نہیں کیا اور حدیث جبرائیل علیہ السلام کے مطابق ایمان کے ارکان کا ذکر ہی نہیں ہے۔ جن کو مانے بغیر کوئی مسلمان مسلمان نہیں ہوسکتا۔ نمبر۳… روایت میں تو ہماری طرح نماز پڑھنے، قبلہ رو ہونے اور ہمارے ہاتھ کا ذبیحہ کھانے کا ذکر ہے۔ باقی ان باتوں کا جو پہلی کی دو حدیثوں میں بیان ہوئیں کوئی ذکر ہی نہیں۔ حدیث نمبر۵… میں حکم ہے کہ سلام کہنے والے کو ہم غیرمسلم نہ کہیں۔ گویا سلام کرنا ہی اسلام اور ایمان کے لئے کافی ہے۔ نمبر۶… روایت میں آپ نے بار بار حضرت اسامہؓ سے فرمایا کہ ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ 2371کہنے کے بعد تم نے اس کو قتل کر دیا۔ کیا تم نے اس کا دل چیر کے دیکھا تھا؟ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ صرف ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ کہنے سے مسلمان ہوگیا تھا۔ ابھی تک اس نے اور کوئی عمل نہیں کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ مسلمان ہونے کے لئے یہی کلمہ کافی ہے۔ روایت نمبر۷… میں صرف ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ کہنے ہی کو سبب دخول جنت فرمایا گیا ہے۔
----------
[At this stage Dr. Mrs Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali).]
(اس موقع پر ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے کرسی صدارت چھوڑ دی جسے جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) نے سنبھال لیا)
مولانا عبدالحکیم: بمطابق روایت نمبر۹ اور نمبر۱۰ میں حضرت صدیقؓ نے مدعیان نبوت سے لڑائی کی اور منکرین زکوٰۃ سے بھی۔ جس کا معنی یہ ہے کہ ان دو جرموں کی وجہ سے وہ مسلمان نہ رہے تھے۔
مسیلمہ کذاب اور دوسرے مدعیان نبوت کی بات تو صاف ہے لیکن جب حضرت صدیقؓ نے منکرین زکوٰۃ سے جہاد کا اظہار فرمایا۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ وہ ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ کہتے ہیں۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔ ’’امرت ان قاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اﷲ‘‘ (کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں، جب تک وہ ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ نہ کہہ لیں) مطلب یہ ہے کہ ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ کہنے سے انہوں نے اپنے اموال اور جانیں بچا لیں۔ حضرت صدیقؓ نے حضرت عمرؓ سے نہ مناظرہ کیا، نہ دلیل بازی، بلکہ فرمایا جو ایک تسمہ بھی زکوٰۃ کا حضور ﷺ کو دیتا تھا اور مجھے نہ دے۔ میں اس سے لڑوں گا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ جو بھی زکوٰۃ وصلوٰۃ میں فرق کرے گا میں اس سے لڑوں گا۔ (اﷲ اکبر) کیا باطن تھا۔ کیا صفائے قلب تھی؟ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے ابوبکرؓ کا دل حق کے لئے کھول دیا ہے۔ پھر بالاتفاق جہاد شروع ہوا۔
پہلے آپ قرآن پاک کی آیات سنیں:
۱… ’’
ومن اظلم ممن افتری علی اﷲ کذبا او کذب بآیاتہ انہ لا یفلح الظالمون
(الانعام:۲۱)‘‘
{اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو اﷲتعالیٰ پر افتراء کرے یا اﷲ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلائے۔ بے شک نہیں فلاح پاتے ظالم۔}
۲… ’’
ولو تریٰ اذوقفوا علی النار فقالوا یالتینا نرد ولانکذب بایات ربنا ونکون من المؤمنین
(انعام:۲۷)‘‘
{اور اگر تم دیکھو جب وہ لوگ دوزخ پر کھڑے کر دئیے جائیں گے اور کہیں گے کاش ہم واپس لوٹا دئیے جائیں اور ہم اپنے رب کی آیتوں کو نہ جھٹلائیں اور یہ کہ ہم ایمان والوں میں سے ہو جائیں۔}
۳… ’’
ولقد کذب اصحاب الحجر المرسلین
(حجر:۸۰)‘‘
{جھٹلایا بن کے رہنے والوں نے پیغمبروں کو۔}
۴… ’’
کذب اصحاب الایکۃ المرسلین
(شعرائ:۱۷۶)‘‘
۵… ’’
واخی ہارون ہوا فصح منی لساناً فارسلہ معی ردأً یصدقنی انی اخاف ان یکذبون
(قصص:۳۴)‘‘
{اور میرا بھائی ہارون مجھ سے زیادہ فصیح ہے۔ اس کو میرے ساتھ رسول بنادیں۔ (مددگار) جو میری تصدیق کریں۔ مجھے خطرہ ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلادیں گے۔}
۶… ’’
والذی جاء بالصدق وصدق بہ اولئک ہم المتقون
(زمر:۳۳)‘‘
{اور جو سچ لایا اور سچ کی تصدیق کی، وہ سب لوگ متقی ہیں۔}
۷… ’’
وکنا نکذب بیوم الدین
(مدثر:۴۶)‘‘
{ور ہم قیامت کو جھٹلاتے تھے۔}
2373۸… ’’
فلا صدق ولا صلّٰی ولکن کذّب وتولّٰی
(القیامۃ:۳۱)‘‘
{تو اس نے نہ تصدیق کی، نہ ہی نماز پڑھی۔ بلکہ جھٹلایا اور منہ پھیرا۔}
۹… ’’
فاما من اعطی واتقٰی وصدق بالحسنٰی فسنیسرہ للیسریٰ
(لیل:۵تا۷)‘‘
{تو جس نے مال دیا اور تقویٰ اختیار کیا اور صحیح باتوں کی تصدیق کی، تو اس کو ہم یسریٰ کی توفیق دیں گے۔}
۱۰… ’’
ارایت ان کذب وتولّٰی
(علق:۱۳)‘‘
{کیا آپ نے دیکھا، اگر وہ جھٹلائے اور منہ پھیر دے۔}
۱۱… ’’ا
رایت الذی یکذب بالدین
(الماعون:۱)‘‘
{کیا آپ کو وہ شخص معلوم ہے جو قیامت کو جھٹلاتا ہے۔}
۱۲… ان آیات کے سوا سارے قرآن پاک میں ’’
آمنوا وعملوا الصلحت
‘‘ بار بار آیا ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ ایمان لائے اور نیک کام کئے۔ نیک کام تو حدیث جبرائیل علیہ السلام سے معلوم کئے جاچکے ہیں کہ اچھے کام ہیں۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور اسی طرح آمنوا سے بھی اسی حدیث کے تحت ایمان کی تفصیل ہوگئی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ قرآن پاک میں جابجا تصدیق کو ایمان کہاگیا ہے اور تکذیب کو کفر۔ اگر کوئی شخص یہ پوری طرح سمجھ لے کہ اسلام سچا دین ہے اور اس کو یقین ہو۔ مگر اس کو حسد، تعصب، ہٹ دھرمی یا کسی جھوٹے وقار کی خاطر دل سے قبول کرنے کو تیار نہ ہو۔ وہ مسلمان نہیں، جیسے ’’شاہ روم ہر قل‘‘ نے اسلام کے اصول کو سچا قرار دیا۔ مگر اہل دربار کے شور سے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ قرآن پاک میں اہل کتاب کے بارہ میں ہے۔ ’’
ویعرفونہ کما یعرفون ابنائہم
(بقرہ:۱۴۶)‘‘ {اور اس پیغمبر کو اس طرح پہچانتے ہیں۔ جیسے اپنے لڑکوں کو پہچانتے ہیں۔}
2374مطلب یہ ہے کہ ان کو اسلام کی صداقت میں شبہ نہیں۔ مگر پھر بھی وہ اس کو قبول نہیں کرتے۔ اس لئے کافر ہیں۔
اس تمام تقریر سے میرا مطلب یہ ہے کہ قرآن وحدیث بالکل صاف ہیں۔ جن کے دلوں پر اﷲتعالیٰ نے مہر نہیں لگادی۔ وہ سمجھ سکتے ہیں۔ اب آپ خود غور فرمائیں کہ حضرت اسامہ بن زیدؓ کی روایت میں کلمہ پڑھ لینے کے بعد اس آدمی کے قتل پر کتنا رنج ظاہر فرمایا۔ حالانکہ اس وقت اس کے پلے میں سوائے کلمہ طیبہ کے اور کوئی عمل نہیں تھا تو اس کامعنی یہ تھا کہ اس نے دین اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس کے خلاف تکذیب کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ اس لئے رحمتہ للعالمین نے رنج ظاہر فرمایا۔
تو اصل ایمان خداتعالیٰ اور اس کے رسول کو تمام باتوں میں سچا جاننا اور دل سے سچا قبول کر لینا، اور کفر اس کے مقابلے میں خداتعالیٰ یا رسول کی کسی ایک بات کو بھی جھٹلا دینا ہے۔
اب آپ کو نہ علماء کی تعریفوں میں اختلاف نظر آئے گا، نہ سرور عالم ﷺ کے ارشادات میں، نہ قرآن پاک کے مفہوم میں اس وقت سارے صحابہؓ جانتے تھے کہ حضور ﷺ کو مان لینا ہی اسلام ہے اور حضور ﷺ کو نہ ماننے کا نام کفر ہے اور یہ بات اتنی ظاہر تھی کہ ہر چھوٹا بڑا جانتا تھا۔ گویا ہر شخص اس حقیقت کو جانتا تھا کہ دین کو دل سے قبول کر لینا مسلمانی ہے اور نہ کرنا بے ایمانی اور کفر۔
بات یہ ہے کہ جو کچھ دس روایات میں بیان کیاگیا ہے، یہ سب نشانیاں ہیں۔ چونکہ دل سے ماننا یا نہ ماننا یہ دل کی باتیں ہیں۔ اس لئے قضاء وشریعت میں اس کی جگہ نشانیوں پر حکم لگایا جائے گا۔ اس لئے اگر آپ کسی شخص میں ایمان کی علامت دیکھیں تو اس کو مسلمان کہیں گے اور 2375اگر کفر کی نشانی دیکھیں تو اس کو غیرمسلم تصور کریں گے۔
۱… ایک شخص نے اگر کہا السلام علیکم! آپ سمجھیں گے کہ ہمارے دین کو سچا جاننے اور ماننے والا ہے۔ آپ کو حق نہیں کہ اس کو کہیں تو مومن نہیں یا کافر ہے۔ مگر یہی شخص تھوڑی دیر کے بعد باتوں باتوں میں قیامت کا انکار کر دے تو اب اس میں کفر کی نشانی پائی گئی۔ اس لئے اب اس کو کافر کہیں گے۔
۲… اسی طرح ایک شخص قبلہ رخ ہوکر نماز پڑھ رہا ہے۔ یہ تصدیق دین کی نشانی ہے۔ اب اس کو مسلمان ہی سمجھیں گے۔ اگر وہی شخص تھوڑی دیر کے بعد کہے کہ زنا حلال ہے تو پھر ہم اس کو کفر اور جھٹلانے کی نشانی ظاہر ہونے کی وجہ سے کافر کہیں گے۔
۳… اگر ایک گاؤں سے صبح کی آذان کی آواز آئی، کون بے وقوف ہوگا جو ان کو مسلمان نہ سمجھے گا۔ کیونکہ ان میں تصدیق کی نشانی پائی گئی ہے۔ لیکن اگر وہ تھوڑی دیر کے بعد کہیں کہ حضور ﷺ کے بعد کسی کو نبوت مل سکتی ہے۔ اب یہ تکذیب اور جھٹلانے کی نشانی ظاہر ہوگئی۔ اب ان کو کافر کہیں گے۔
۴… اہل عرب اﷲتعالیٰ کو خالق سمٰوات وارض مانتے تھے۔ مگر وہ اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے ’’ربٹیڑے‘‘ بھی مانتے تھے۔ یعنی چھوٹے چھوٹے خدا، اس لئے اس وقت ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ اس بات کی نشانی تھی کہ اس نے دین اسلام قبول کر لیا ہے۔ لیکن اگر ایسا شخص اس کے بعد سود، زنا کو حلال کہے اور نماز کو فرض نہ سمجھے تو اب اس کو کافر کہیں گے۔ کیونکہ اب اس میں تکذیب کی نشانی ثابت ہوگئی۔
۵… فرض کریں ایک شخص حدیث جبرائیل علیہ السلام کے مطابق سب باتوں کو دل سے ماننے کا اقرار کرتا ہے۔ مگر پھر وہ قرآن پاک کو (العیاذ باﷲ) گندے نالے میں سب کے سامنے پھینک دیتا ہے تو اب یہ انکار اور تکذیب کی نشانی ظاہر ہوگئی۔ اب اس کو باقی باتیں کفر سے نہیں بچا سکتیں۔
2376۶… مسیلمہ کذاب اور دوسرے مدعیان نبوت کی تکذیب میں تو کسی نے گفتگو ہی نہیں کی اور جہاد وقتال کے سوا ان کا کوئی علاج ہی نہیں سمجھا۔
۷… منکرین زکوٰۃ بظاہر ایک رکن اسلام پر عمل نہ کرنا چاہتے تھے تو حضرت عمرؓ کو ان سے جنگ کرنے میں تأمل ہوا۔ مگر حضرت صدیقؓ کا ارشاد ان کا ہادی ثابت ہوا کہ جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا میں اس سے لڑوں گا۔ مطلب یہ تھا کہ یہ صرف عملی کوتاہی نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس اسلامی حق کو معاف کرا کر اس کی فرضیت ہی کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور یہ اسلامی احکام کی تکذیب ہے۔ سبحان اﷲ العظیم! کیا اﷲ والے تھے کہ بغیر بحث کے چند جملوں میں حضرت عمرؓ کو شرح صدر ہوگیا۔
صحابہؓ کا زمانہ پاک زمانہ تھا۔ وہ حضرات بحث وتمحیص، حجت بازی اور لمبے چوڑے دلائل کے بغیر ہی منشاء نبوت کو سمجھ جاتے تھے۔ اسی لئے جب آنحضرت ﷺ ان کو کوئی مشورہ دینا چاہتے تو پہلے بڑے ادب سے دریافت فرمالیتے۔ یا رسول اﷲ یہ حکم ہے یا مشورہ ہے۔ وہ جانتے تھے کہ رسول کا حکم نہ ماننے سے کفر کا خطرہ ہے۔ کیونکہ بالمشافہ حکم نہ ماننے کا معنی یہ ہو سکتا ہے کہ وہ گویا کم از کم اس خاص بات میں آنحضرت ﷺ کو سچا نہیں مانتا اور یہ قطعی کفر ہے۔ اس لئے صحابہ کرامؓ نے جب کبھی مشورہ دینا چاہا، پہلے دریافت فرمالیا۔ ورنہ حضور کا ایک حکم بھی نہ ماننا وہ دین کے خلاف سمجھتے تھے۔
’’پس ایمان یہ ہے کہ خدا اور رسول کی تمام باتوں کو سچا سمجھے اور دل سے ان کو قبول کرے۔‘‘ اور ’’کفر یہ ہے کہ کسی ایک بات میں بھی رب العزت جل وعلایا اس کے پاک رسول کو جھٹلایا جائے۔ تو یہ قطعی کفر ہے۔‘‘ مگر یہ تصدیق وتکذیب دل کی صفات ہیں۔ اس لئے اسلام میں علامتوں اور نشانیوں پر حکم کا دارومدار رکھا گیا اور دنیا کی ہر عدالت ظاہر ہی کو دیکھتی ہے۔
2377صحابہ کرامؓ اور خیر القرون کے مسلمان ان حقائق کو ایمانی بصیرت، اپنی صحیح قرآن دانی اور صحبت نبوی کی برکت سے پوری طرح سمجھتے تھے اور یہ ان کے ہاں قابل بحث چیز ہی نہ تھی۔ وہ حضور ﷺ کے ماننے کو ایمان اور نہ ماننے کو کفر سمجھتے تھے اور یہی ہماری تحقیق کا خلاصہ ہے۔ اب آپ تمام احادیث، آیات وروایات کو اس پر منطبق کر سکتے ہیں۔ سارا قرآن پڑھنے والے اور برسوں آپ ﷺ کی صحبت میں رہنے والے صحابہؓ اس مسئلہ کو قابل بحث نہیں سمجھتے تھے کہ اسلام اور کفر کیا ہے؟ مسلمان اور کافر کون ہے؟ ان کے سامنے ایک ہی بات تھی جس نے آپ ﷺ کو مان لیا وہ مسلمان ہوگیا اور جس نے حضور کریم ﷺ کو نہ مانا وہ کافر ہے۔
مرزاناصر احمد نے تین حدیثیں مسلمان کی تعریف میں پیش کیں۔ مگر مرزاقادیانی نے ’’
بلٰی من اسلم وجہہ ﷲ وھو محسن فلہ اجرہ عندہ ربہ ولا خوف علیہم ولاہم یحزنون
(بقرہ:۱۱۲)‘‘ سے اس کی تردید کر دی۔
یعنی وہ مسلمان ہے جو خداتعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دے۔ آگے دو صفحوں میں اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ گویا یہ تین حدیثوں کے سوا چوتھی تعریف ہے۔ اس کو اپنی طرف سے اضافہ کر کے مسلمان کی تعریف بناڈالا ہے۔ دراصل آگے چار صفحات میں اس نے جو مضمون لکھا ہے وہ اس لئے ہے کہ پڑھنے والے سمجھیں کہ مرزاقادیانی ایسے ہی بلند مسلمان ہیں۔ اسی طرح محضر نامے میں مرزاناصر احمد نے ذات باری کا عرفان اور دوسرا عنوان قرآن عظیم کی اعلیٰ وارفع شان کے تحت جو کچھ لکھا ہے وہ بھی اور شان خاتم الانبیائ ﷺ کے عنوان سے جتنے مضامین لکھے ہیں وہ مرزاغلام احمد کی کتابوں سے نقل کئے ہیں اور ان سب سے مقصد عوام پر اور ناواقف مسلمانوں پر اپنی بزرگی، تقدس اور معارف کا رعب ڈالنا ہے۔ حالانکہ یہ سب باتیں ہر وہ شخص کہہ اور لکھ سکتا ہے جس نے صوفیائے کرام کی کتابیں دیکھی ہیں۔ ان باتوں سے مرزاقادیانی نے اپنی نبوت، ظلی نبوت، بروزی نبوت، غیرتشریعی نبوت، تابع نبوت، لغوی نبوت، عین محمد اور فنا فی الرسول ہونا، ظاہر کر کے لوگوں کو دھوکہ دیا ہے۔
کفر اور اسلام کی بحث سے آپ پر کافر کی تعریف واضح ہوگئی۔ اس تعریف کے لحاظ سے جس کی تردید نہیں کی جاسکتی۔مرزاغلام احمد قادیانی قطعی کافر اور اسلام سے خارج ہے اور اسی لئے اس کے پیرو چاہے وہ قادیانی ہوں یا لاہوری۔ یعنی چاہے اس کو نبی مانیں یا مجدد یا مسلمان وہ بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی میں تکذیب کی بہت سی نشانیاں اکٹھی پائی جاتی ہیں:
۱… سب سے بڑی نشانی اس کا دعویٔ نبوت ہے جس کو خود بھی مرزاقادیانی نے کفر قرار دیا ہے اور اس دعویٰ کی اس کے جانشین مرزاناصر احمد صاحب بھی تصدیق کرتے ہیں اور مرزاجی کو نبی مانتے ہیں اور اس کو امتی نبی کہہ کر اس کے دعویٔ نبوت کو ایک طرح چھپاتے ہیں۔ حالانکہ قادیانی مرزائی مرزاغلام احمد قادیانی کو ایسا حقیقی نبی تسلیم کرتے ہیں جس پر دیگر پیغمبروں کی طرح قطعی وحی آتی ہے۔ جو اسی طرح قطعی اور غلطیوں سے پاک ہے۔ جس طرح کہ قرآن اور اگر دعویٔ نبوت تکذیب کی نشانی نہیں ہوسکتی تو اس سے بڑھ کر کون سی چیز ہوسکتی ہے؟ ختم نبوت کا مسئلہ ایسا ہے جو قرآن پاک اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور اس کے معنی پر تمام امت کا اجماع ہے۔ جیسے کہ اپنی جگہ اس کا ذکر آئے گا۔
۲… مرزاغلام احمد قادیانی نے اﷲتعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبروں کی توہین کی ہے جو تکذیب دین اور تکذیب رسل کی کھلی نشانی ہے۔ اس کا ذکر بھی اپنی جگہ آپ پڑھ سکتے ہیں۔
۳… مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے آپ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے افضل بتایا اور ان کی کھلی توہین کی ہے۔
۴… مرزاقادیانی نے وحی نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور اپنی وحی کو قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں کی طرح قرار دیا۔
2379۵… ان تمام آیات کے معانی مرزاغلام احمد قادیانی نے تبدیل کر دئیے ہیں۔ جن سے ختم نبوت، نزول عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام، حیات مسیح علیہ السلام اور دیگر قطعی اور متواتر مسائل ثابت ہوتے ہیں جس کا مطلب زندقہ ہے کہ قرآن پاک کے الفاظ تو وہی رہیں لیکن ان کے معانی بالکل بدل دئیے جائیں۔ یہ تحریف قرآنی اور تیرہ سو سال کے اولیائ، صلحائ، علماء اور مجتہدین ومجددین امت کے متفقہ معانی ومطالب کے خلاف قطعی کفر ہے۔
۶… مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے نہ ماننے والے کروڑوں مسلمانوں کو کافر کہا اور ایسا ہی کافر کہا جیسے خدا اور رسول کا انکار ہے۔ یہ بھی پرانے دین اسلام کی کھلی تکذیب اور قطعی کفر ہے۔
پس ثابت ہوگیا کہ مرزاغلام احمد قادیانی اور اس کے تمام پیرو چاہے لاہوری ہوں یا قادیانی قطعی کافر اور اسلام سے خارج ہیں۔
مرزائی فرقہ سمجھ چکا ہے کہ اب اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مرزاقادیانی نے اپنے نہ ماننے والوں کو قطعی کافر کہا ہے اور مرزابشیرالدین محمود احمد صاحب نے اس تکفیر کو اور بھی پکا کر کے اعلان کر دیا ہے کہ عام مسلمانوں (غیراحمدیوں) کا جنازہ نہ پڑھا جائے نہ ان کو رشتہ دیا جائے اور عام اہل اسلام کی اقتداء میں نماز کو تو خود مرزاقادیانی نے ہی بحکم خدا حرام قرار دے دیا تھا۔
اب انہوں نے مسلمانوں میں ملنے اور اسلام کے نام سے مسلمانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے جس کا چسکہ ان کو انگریز پھر ظفر اﷲ خان لگا چکا ہے۔ یہ بات گھڑی ہے کہ کفر کی دو قسمیں ہیں۔ ایک کفر تو ایسا ہے جس سے آدمی ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہے اس کے ساتھ تو اسلامی تعلقات نہیں رکھے جاسکتے۔ مگر دوسرا کفر اس درجے کا ہے کہ وہ مسلمانوں میں ملے گھلے 2380رہنے سے نہیں روکتا۔ مگر قیامت میں یہ ماخوذ ہوگا جو بات صرف خدا ہی جانتا ہے۔ ایسے لوگ جب تک اپنے کو مسلمان کہیں گے ان کو مسلمان ہی سمجھا جائے گا۔