ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
جناب یحییٰ بختیار: ہاں وہ بھی ٹھیک ہے۔ نہیں، مگر آپ بتادیں ناںجی، کتاب میں سورۃ فاتحہ کی سات۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: سورۃ فاتحہ کی یہ تفصیل جو مجھ سے لی ہوئی ہے، میں نے یہ کہا تھا کہ میرے اندازے کے مطابق ۷۰فیصد ایسا ہے جو پہلی کتب میں نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: میں صرف یہ عرض کر رہا تھا کہ چھوٹی سورت ہے، سات آیات ہیں 1397اس میں۔ کسی ایک پر آپ یہ بتادیجئے۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: یہ ساری اس کی تفسیر ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: کسی ایک کو آپ Mark (نشان) کردیجئے۔ تاکہ میری Attention (توجہ) کے لئے آپ کہہ دیجئے کہ اس Page (صفحہ) پر اس سورۃ سے۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ آپ پڑھ لیجئے تاکہ آسانی ہو۔
مرزا ناصر احمد: یہاں لکھ دیتا ہوں پہلے، یعنی ’’علاوہ اور مضامین کے صفحہ۸۲ بھی دیکھ لیں۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ہاں، ٹھیک ہے۔
مرزا ناصر احمد: وہ آجائے گا یہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: یعنی اس صفحے پر۔
مرزا ناصر احمد: اس کے شروع میں لکھ دیا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ہاں۔
مرزا ناصر احمد: ایک اور حوالہ یہاں کل ’’چشمہ معرفت‘‘ کا ۲۱۸، یہ زبانوں کے متعلق ہے، اِلہام کس زبان میں ہوتا ہے۔
(مرزا قادیانی کو الہام کتنا زبانوں میں ہوتا تھا؟)
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ایک زبان میں بھول گیا تھا، سنسکرت میں بھی۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، یہ اصل عبارت جو ہے ناں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں شاید بھول گیا تھا، ایک جگہ مجھے بتایا گیا ہے کہ سنسکرت میں بھی مرزا صاحب کو اِلہام آتے رہے ہیں، یا غلط بات ہوگئی؟
مرزا ناصر احمد: نہیں، سنسکرت میں مجھے یاد نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں مجھے کہا تھا میں نے اس واسطے Put کیا آپ کو میں نے کہا 1398اگر۔۔۔۔۔۔ میں نے نہیں پڑھا، مجھے تو بتایا گیا ہے۔
مرزا ناصر احمد: اصل میں یہ دیکھنا ہے کہ کیا مضمون ہے جو زیر بحث ہے۔ مضمون ہے ہندو، وید اور ان کے اوتار، یہ بحث وہاں ہو رہی ہے، اور بحث یہ ہے:
’’اس بات کو تو کوئی عقل مند نہیں مانے گا کہ کیونکہ یہ قانونِ قدرت کے برخلاف ہے اور جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دوتین سو برس گزرنے تک ایک زبان میں کچھ تغیر پیدا ہوجاتا ہے اور ایسا ہی جب ایک جگہ سے مثلاً سو (۱۰۰) کوس کے فاصلے پر آگے نکل جائیں (لاہور سے ملتان پہنچ جائیں مثلاً) تو صریح زبان کا تغیّر محسوس ہوتا ہے۔ تو اس سے صاف ثابت ہے کہ اِختلاف اللہ ایک قدیمی امر ہے۔‘‘ (بحث یہ ہو رہی ہے) [اِختلاف اللہ ایک قدیمی امر ہے] جس پر موجودہ حالت گواہی دے رہی ہے۔ پس ماننا پڑتا ہے کہ جس نے انسان کو بنایا اسی نے ان کی زبانوں کو بھی بنایا اور وقتاً فوقتاً وہی ان میں تغیرات ڈالتا ہے اور یہ بالکل غیرمعقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی اور ہو (یہ ہندوؤں کو مخاطب کر رہے ہیں) اور اِلہام اس کو کسی اور زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا کیونکہ اس میں تکلیف مالایطاق ہے (جو اِنسان یعنی اتنا بوجھ اُٹھا نہیں سکتا جتنا اس پر ڈال دیا گیا ہے) اور ایسے اِلہام سے فائدہ کیا ہوا جو اِنسانی سمجھ سے بالاتر ہو (یعنی کوئی انسان بھی نہیں سمجھ سکتا) پس جبکہ بموجب اُصول آریہ سماج (یہ ان کے اُوپر ہے جرح) [پس جبکہ بموجب اُصول آریہ سماج] کے وید کے رشیوں کی زبان ویدک سنسکرت نہیں تھی اور نہ وہ اس کے بولنے اور سمجھنے پر قادر تھے۔‘‘ (یہ ساری شریعت جو تھی وہ ایسی زبان میں نازل ہوگئی جو ویدک کے رشی نہ بول سکتے تھے اور نہ سمجھ سکتے تھے اور شریعت نازل ہوگئی اس زبان میں) اور پھر خدا کا ایسی بیگانہ زبان میں ان کو اِلہام کرنا گویا دیدہ ودانستہ ان کو اپنی تعلیم سے محروم رکھنا تھا اور اگر 1399کہو (ہندوؤں کو مخاطب ہے) [اور اگر کہو] کہ خدا ان کو ان کی زبان میں سمجھادیتا تھا کہ ان عبارتوں کے یہ معنی ہیں تو اس صورت میں پرمیشر کا یہ عہدہ بحال نہیں رہے گا کہ انسانی زبان میں اس کو بولنا حرام ہے۔ (یہ ان کا ہے مسئلہ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے یہ حرام ہے کہ وہ انسان کی زبان میں بات کرے۔ اس واسطے وہ کہتے ہیں ایسی زبان میں اُس نے اپنا اِلہام نازل کیا جس کو اِنسان سمجھ ہی نہ سکتا۔ یہ مسئلہ زیربحث ہے۔ اگر یہ بولنا ہے) تو مجھے تعجب ہے کہ ان نہایت کچی اور خام باتوں کے پیش کرنے سے آریاؤں کو فائدہ کیا ہے۔‘‘ یہ ہے عبارت۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! یہ قرآن شریف میں کیا ہے اس مسئلے پر کہ اللہ تعالیٰ جو نبی بھیجتا ہے وہ کسی قوم کو، تو کس زبان میں ان کو وحی دیتا ہے؟ کوئی ہے ایسی اتھارٹی؟
مرزا ناصر احمد: ہاں، میں آتا ہوں، لیکن اس کے ساتھ وہ Connect نہیں ہوتا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں میں ایسے ہی جنرل پوچھ رہا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: اللہ تعالیٰ کی شریعت اس زبان میں ۔۔۔۔۔۔ اصل میں یہ مسئلہ…ذرا پیچھے ہٹنا پڑے گا… یہودیوں کے لئے مسئلہ نہیں تھا اس واسطے کہ بنی اِسرائیل کی طرف جو اِلہام یا شریعت نازل ہوئی، وہ ایک محدود قوم اور علاقے کے لئے تھی۔ وہی ان کی زبان تھی، وہی سارا کچھ۔ اصل یہ سوال اُٹھا قرآن کریم کے نزول کے وقت جس نے رحمۃللعالمین کا Designation (لقب) اس مقام کا اس رُتبے کا ذِکر کے کے آنحضرتﷺ کو دُنیا کے واسطے پیش کیا۔ اب دنیا میں تو ایک زبان بولی نہیں جاتی، دُنیا میں بولی جاتی ہیں، یعنی جو ہمیں پتا ہے وہ بھی سینکڑوں میں ہیں اور کئی ایسی ہیں جو مدوّن نہیں ہوتیں اور قرآن کریم نے دعویٰ یہ کردیا کہ ہر اِنسان کو قرآن عظیم مخاطب کرتا ہے۔ اس وقت یہ بحث ہوئی کہ اگر ہر اِنسان کو اللہ تعالیٰ قرآن عظیم کے ذریعے مخاطب کرتا ہے تو پھر یہ صرف عربی میں کیوں نازل ہوا؟ یہ بحث 1400شروع ہوگئی۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ عربی میں قرآن کریم اس لئے نازل ہوا کہ نبی اکرمa اس شریعت کی روشنی میں ایک قوم کو تیار کردیں جو اس کے مفہوم اور مطالب اور اسرار کو سمجھنے والی ہو، اور پھر وہ عرب سے نکلے اور دُنیا کے ملکوں میں جاتے اور ان کی زبانیں سیکھے اور جو مطالب اور معانی ہیں وہ پختگی سے ان کے ذہنوں میں ہوں گے، وہ ان کی زبانوں میں پھر ان کو جاکے آگے بتائیں گے۔ تو عقلاً ہم اس سے اِستدلال کرتے ہیں، عقلاً کوئی شریعت یا شریعت کا کوئی حصہ اس زبان میں، نہیں، شریعت کا کوئی حصہ اس زبان میں وحی نہیں ہوسکتا جس کو وہ لوگ نہ سمجھ سکیں جنہوں نے تربیت حاصل کرکے… اب میں قرآن کے زمانے کے متعلق بات کر رہا ہوں… جنہوں نے تربیت حاصل کرکے اور ان مطالب کو سمجھ کر دُنیا میں پھیلانا تھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو اُمتی نبی یا اولیاء آئے ہیں ان کی طرف کوئی وحی نازل ہی نہیں ہوسکتی سوائے اس زبان کے جس کو وہ جانتا ہو، یعنی جو غیرشریعت سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک تو ہے ناں شریعت، وہ تو صرف محمدﷺ کے ساتھ ہے…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، ان کو تو اپنی زبان میں ہوگی جو۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہونی چاہئے، تاکہ اس کا جو مقصد ہے پورا ہو، اور جو غیرشرعی نبی ہے اور جس کا دائرۂ عمل صرف اپنی قوم تک محدود ہے، جیسا کہ انبیاء بنی اِسرائیل کا تھا، اگر اس کی طرف دُوسری زبانوں میں بھی اِلہام ہوجائے… آگے میں جو یہ کہہ رہا ہوں، ہمارا مذہب ہے…اس کے خلاف ہمیں کوئی سند نہیں ہے، اس کے خلاف اور اس کے حق میں، علاوہ سندوں وغیرہ کو تلاش کرنے کے، خود عقل گواہی دیتی ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مرزا صاحب گھر میں اُردو بولتے تھے یا فارسی یا پنجابی؟ کیونکہ ایک زمانہ تھا کہ بہت گھروں میں فارسی بولی جاتی تھی، بہت گھروں میں پنجابی، بہت میں اُردو۔ تو آپ کو علم ہوگا کہ گھر میں۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: میں اسی گھر کا پروردہ ہوں۔
1401جناب یحییٰ بختیار: ہاں، اس واسطے آپ کو میں پوچھ رہا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: ہمارے گھر میں عام طور پر، عام طور پر اُردو اور پنجابی بولی جاتی تھی۔ لیکن ہم سے جو بزرگ تھے، مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں گھروں میں فارسی بھی کبھی کبھی۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، میں یہ کہتا ہوں کہ۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، تو اس وقت فارسی کا بھی اِستعمال ہوتا تھا۔
جناب یحییٰ بختیار: جتنے بھی مسلمان خاندان تھے پڑھے لکھے۔
مرزا ناصر احمد: اور ہمارے گھروں میں انگریزی کا بھی رواج ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب کے زمانے میں تو نہیں تھا؟
مرزا ناصر احمد: نہیں، مرزا صاحب کے زمانے میں نہیں تھا، لیکن ان کے بچوں کے زمانے میں آگیا۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، وہ تو خیر آپ کو معلوم ہے۔
مرزا ناصر احمد: اور مرزا صاحب کے زمانے میں، مرزا صاحب کے زمانے میں اسلام کی تبلیغ ان علاقوں میں شروع ہوچکی تھی جو انگریزی بولنے والے تھے، اور خود ہندوستان میں ان پادریوں کے ساتھ تبلیغ اسلام کا ایک سلسلہ جاری ہوگیا تھا جو انگریزی بولنے والے تھے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ جو انگریزی میں میں نے پڑھے جو۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔ اور اسی وجہ سے بانیٔ سلسلہ کے زمانے میں ایک ہی ماہانہ In English ..... "Review of Religions" (ریویو آف ریلیجنز) وہ جاری ہوا۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ مجھے پتا ہے۔ نہیں ، وہ جو وحی ان پر نازل ہوئی تھی، انگریزی میں کچھ ہے، میں نے پڑھ کر سنائی ہے۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: وہ آپ نے پڑھی، وہ مختلف وقتوں کی ہیں، ایک جگہ آئی ہوئی ہیں…
1402جناب یحییٰ بختیار: ہاں، اکٹھی وحی۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ایک ایک جگہ، اکٹھی وحی نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ مجھے معلوم ہے۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: کبھی یہ ہوا:
"I love you"۔۔۔۔۔ (مجھے تم سے پیار ہے)۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ایک دو اور بھی ہیں۔
مرزا ناصر احمد: کبھی یہ ہوا کہ:
"He will give you a large party of Islam."
(وہ تمہیں اسلام کی ایک بڑی جماعت دے گا)
تو یہ مختلف وقتوں کی ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، تو اس پر وہ ایک جگہ میں نے یہ پڑھا مرزا صاحب! کہ مرزا صاحب نے کسی ہندو بچے کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ اس وحی کا انگریزی میں، اس کا مطلب کیا ہے؟ وہ ٹھیک سمجھا بھی نہیں سکا کیونکہ اس زمانے میں کم لوگ انگریزی جانتے تھے۔ تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، ہندو بچے کو بلایا تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کو یہ بتانا ہو کہ اسلام کی یہ برکت ہے کہ آج کل بھی لوگوں کو وحی ہوتی ہے۔ ’’دیکھو! مجھے یہ وحی ہوئی‘‘ یہ جانتے ہوئے کہ ’’وہ انگریزی اتنی نہیں جانتا کہ مجھے سمجھاسکے گا۔‘‘ پھر بھی اس کو بتانا یہ تھا کہ اسلام بڑا بابرکت مذہب ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، وہ دُرست آپ فرما رہے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔ خود یہ نہیں سمجھتے تھے کہ وحی کا کیا مطلب ہے، یہ جو ہے ناں، یہ چیز ظاہر ہوتی اس سے، اور اللہ تعالیٰ اپنے ایک نبی کو ایک ایسی وحی بھیجتا ہے جو وہ سمجھے نہ۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں خود نہیں سمجھتے تھے، لیکن ماحول میں اسے سمجھنے والے موجود تھے۱؎۔
1403Mr. Yahya Bakhtiar: That is admitted.
(جناب یحییٰ بختیار: یہ اقرار کر رہے ہیں) وہ تو میں سمجھ گیا۔
مرزا ناصر احمد: وہاں تو دونوں چیزیں ہیں۔ وہ جہاں ہندو کو مخاطب کیا گیا ہے، وہاں یہ ہے کہ نہ ان کے رشی سمجھتے تھے، نہ کوئی اور اِنسان سمجھتا تھا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ اللہ تعالیٰ نے وحی نہیں بھیجی، یہ جھوٹ بول رہا ہے، اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا ہے اس کو وحی بھیجتا جو وحی کو سمجھ تو سکے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہاں یہ کہ اللہ میاں کیوں انگریزی میں ان سے بات کرے جب وہ انگریزی نہ سمجھیں؟ میں یہ صرف کہہ رہا ہوں۔ تو آپ نے کہہ دیا، وہ ٹھیک ہے۔
مرزا ناصر احمد: ہم تو بڑے عاجز اِنسان ہیں، اللہ تعالیٰ کو ہم جاکر مصلحت تو نہیں سمجھاسکتے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، وہ مصلحت میں نہیں کہتا کہ میں جانتا ہوں۔
باقی وہ جو آپ کچھ تھوڑے سے آپ جواب دیں گے مرزا صاحب! آج میرے خیال میں وہ ہوجائیں گے۔ ایک وہ محمدی بیگم، اور باقی تھی ناں Detail (تفصیل) کی۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: یہ تو وہ لکھ کے، یہ جو آپ نے وہ دئیے ناں، آپ دیں گے یہ تو میں Submit (پیش) کردُوں گا۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاںجی۔ کچھ ہم نے نوٹ کیا ہے، میں ابھی ان سے ٹائپ کرواتا ہوں، آپ چلے بھی جائیں تو آپ کو پیچھے بھیج دُوں گا۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، Submit (پیش) کردیں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں اور پھر کچھ ایک دو چیزیں اور ہیں۔ تو وہ شام کو وہ ہوجائیں گی، کیونکہ انصاری صاحب نے کچھ سوال پوچھنے ہیں تحریف کے متعلق۔
مرزا ناصر احمد: جی؟
جناب یحییٰ بختیار: تحریف کے متعلق اور دوچار سوال اور انصاری صاحب پوچھیں گے۔
1404مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: تو شام کو ویسے بھی تو آپ نے بتانا ہے محمدی بیگم کا۔ We hope to conclude it as soon as possible today. (جہاں تک ممکن ہوا، ہم اُمید کرتے ہیں کہ آج ختم کرلیں گے)
مرزا ناصر احمد: ابھی نہیں ختم ہو رہا؟
جناب یحییٰ بختیار: وہ ۔۔۔۔۔۔ نہیں جی، وہ سوالات جو ہیں، میں نے آپ کو لکھ کے دینے ہیں محمدی بیگم کے بارے میں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، وہ تو شاید آج شام تک نہ ہو تو وہ کل۔ جب اس کو Submit (پیش) کرنا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ہاں، اس کو Submit (پیش) ہی کردیں جی۔
مرزا ناصر احمد: وہ تو میں بھجوادُوں گا کل۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، وہ کچھ حرج نہیں۔ باقی آپ نے کچھ اور ابھی آپ نے جواب نہیں دینا؟
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں اور جو ہیں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، وہ پورے کردیں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں۔ یہ ایک کوئی حوالہ آیا تھا تین جنوری ۱۹۴۰ء ’’الفضل‘‘، تو اس میں ہم نے تلاش کیا ہے، اس میں کوئی حوالہ نہیں ملا۔
ایک ’’فتاویٰ احمدیہ‘‘ کا تھا، اس میں یہ ہم نے صفحہ نکال لیا ہے۔ یہ غالباً ان میں ہے جو آپ نے صفحے لکھوادئیے تھے اور مضمون نہیں بتایا تھا۔ کیا مضمون تھا اس میں؟
جناب یحییٰ بختیار: صفحہ دیا ہوا ہے؟
مرزا ناصر احمد: نہیں، صفحہ تو میں نکال لیا ناں، تو اصل مضمون۔۔۔۔۔۔
1405جناب یحییٰ بختیار: ابھی دیکھتا ہوں۔ آپ۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، وہ اگر مل جائے، کیونکہ آخر میں آپ نے وہ صفحے لکھوائے تھے۔
جناب یحییٰ بختیار: میں اسی لئے پڑھنا چاہتا تھا، پورے صفحے سے تو پتا نہیں چل سکتا، میں اسی لئے پڑھنا چاہتا تھا، مگر کچھ ٹائم کم تھا۔ یہ کونسا ہے جی ’’فتاویٰ۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: یہ ’’مجموعہ فتاویٰ احمدیہ‘‘ جلد اوّل، صفحہ:۱۴۹۔
جناب یحییٰ بختیار: صفحہ کون سا تھا جی یہ؟ جلد اوّل، صفحہ:۱۴۹۔
مرزا ناصر احمد: ہاں جی۔ ’’مجموعہ فتاویٰ احمدیہ‘‘ صفحہ:۱۴۸-۱۴۹۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاںجی، ۱۴۹ صفحہ۔ یہاں جو میں نے لکھا ہوا ہے:
’’مسیحِ موعود کے نہ ماننے والے کافر ہیں یا نہیں۔ ایک شخص نے سوال کیا: آپ کو نہ ماننے والے کافر ہیں یا نہیں؟ حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا کہ: مولویوں سے جاکر پوچھو۔ ان کے نزدیک جو مسیح اور مہدی آنے والا ہے، اس کو جو نہ مانے اس کا کیا حال ہے؟ پس میں وہی مسیح اور مہدی 1406ہوں جو آنے والا تھا۔‘‘
مرزا ناصر احمد: جی، آپ نے ’’کافر‘‘ نہیں کہا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں یہی کہہ رہا ہوں کہ یہ حوالہ ہے؟
مرزا ناصر احمد: ہاں، یہ حوالہ ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں۔ تو اس کو آپ، میں نے کہا تھا کہ آپ Explain (واضح) کریں۔
مرزا ناصر احمد: اس میں تو Explain (واضح) کرنے والی کوئی چیز نہیں۔ اس میں یہ ہے کہ: ’’ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ کو نہ ماننے والے کافر ہیں یا نہیں؟ حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا: مولویوں سے جاکر پوچھو۔ ان کے نزدیک جو مسیح اور مہدی آنے والا ہے، اس کو جو نہ مانے گا اس کا کیا حال ہے؟ پس میں وہی مسیح اور مہدی ہوں جو آنے والا تھا۔‘‘
توجواب تو اس میں علماء نے دینا تھا ناں، آپ نے تو کچھ نہیں دیا۔
جناب یحییٰ بختیار: علماء کا تو متفقہ یہ ہے ناںجی کہ جو مسیح آئے گا، جو نہیں مانے گا وہ کافر۔
مرزا ناصر احمد: کس کا فتویٰ ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: علماء جو ہمارے ہاں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جو مسیح آئے گا اور ان کو جو نہ مانے۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: اور ہم مسیح مانتے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، آپ مانتے ہیں۔ اس لئے ہم آپ کو نہیں مانتے اس واسطے ہم کافر ہوگئے؟
مرزا ناصر احمد: مولویوں کے کہنے کے مطابق۔
جناب یحییٰ بختیار: بالکل۔
مرزا ناصر احمد: مولویوں کے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔ لیکن اس معنی میں کفر جو ملتِ اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، وہ مولویوں کی Logic (منطق) آپ بھی Refute (انکار) نہیں کرتے، اس سے تو آپ کو بھی اِتفاق ہے کہ جو مسیح موعود آئے گا۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، وہ تو ہوگیا۔ میرا مطلب یہ ہے کہ وہاں کفر کے معنی اور ہیں بالکل۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ معنی تو ہم بڑی تفصیل سے جان چکے ہیں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں۔ بس پھر ٹھیک ہے۔ وہ ہوگیا۔
’’براہین احمدیہ‘‘ کے حصہ پنجم کے۔۔۔۔۔۔
1407جناب یحییٰ بختیار: اور کچھ مجھے تو نہیں آپ کو، کچھ پڑھ کے سنانا ہے آپ کو؟ Passage (پیرا) اگر ہو تو پہلے اس کو۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: جی؟
جناب یحییٰ بختیار: اگر کوئی اور Passage (پیرا) میں نے Page (صفحہ) دیا ہو تو وہ میں آپ کو پڑھ کر سنادوں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، یہ وہی میں بتارہا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، اگر میں نے Page (صفحہ) دیا ہو اور آپ کو Passage (پیرا) نہ ملا ہو تو میں پڑھ کے سنادوں۔
مرزا ناصر احمد: تو یہ ہے ایک ’’نصرۃالحق۔‘‘ ’’براہین احمدیہ‘‘ حصہ پنجم، اس کے صفحہ۵۹/۶۹ پر۔۔۔۔۔۔۔ ہاں، ہاں، اس کے صفحہ۵۴ پر آپ نے ایک عبارت پڑھی تھی۔ یہ وہ حصہ ہے جس میں یہ آتا تھا کہ: ’’یہ پیچ میں نے کیا، یہ چالاکی کرکے۔‘‘ ’’قرآن اور رسول‘‘ اور اس کا تھا۔ اس پر کہیں Page (صفحہ) پر ذِکر نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ پھر وہ Miss (نظرانداز) ہوگیا ہوگا۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، پھر وہ، وہی میرا مطلب ہے کہ ہم نے تو یہ تلاش کیا، نہیں ملا۔ اس واسطے یہ بھی ہوگیا اور؟
جناب یحییٰ بختیار: اور تو کوئی نہیں۔
مرزا ناصر احمد: اس وقت جو ہم نے نوٹ کئے وہ آگئے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاںجی کسی اور جگہ تو آپ کو نہیں ملا؟
مرزا ناصر احمد: ہاں، بالکل نہیں ملا۱؎۔
(وقفہ)
جناب یحییٰ بختیار: اور تو نہیں جی کوئی آپ کے پاس؟
1408مرزا ناصر احمد: ہاں نہیں، اور کوئی نہیں۔ (وقفہ)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ ’’علماء پیچ میں پھنس گئے۔‘‘ یہ حوالہ براہین یا نصرۃالحق کا نہیں بلکہ اربعین کا ہے، حوالہ پہلے نقل کرچکا ہوں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جناب یحییٰ بختیار: ایک اور تھا جی، میرا خیال ہے میں نے نہیں سنایا شاید آپ کو۔۔۔۔۔۔ بیچ میں کچھ Pages Blank (خالی صفحے) تھے:
’’ہمارے نبی اکرمﷺ کے معجزات کی تعداد صرف تین ہزار لکھی ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۴۰، خزائن ج۱۷ ص۱۵۳)
’’۔۔۔۔۔۔اور اپنے معجزات کی تعداد۔۔۔۔۔۔‘‘
’’براہین احمدیہ‘‘ حصہ پنجم، Page بھی وہی۵۶، خزائن ج۲۱ ص۷۲ ہے:
’’۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ دس لاکھ بتائی ہے۔‘‘
مرزا ناصر احمد: اچھا، خیر! میں اس کا جواب دے دیتا ہوں، یہ جو ہمارا اِعتقاد ہے، میں وہ بتادیتا ہوں۔ ہمارا اِعتقاد یہ ہے کہ نبی اکرم حضرت محمدﷺ ایک زندہ نبی ہیں۔ زندہ نبی ایک جسمانی لحاظ سے نہیں ہیں، جسمانی زندگی تو آپ کی ایک محدود ہے، وہ ہمیں پتا ہے کتنے برس زندہ رہے۔ لیکن آپﷺ کی رُوحانی زندگی جو ہے، جو قیامت تک ممتد ہے، اس کی وجہ سے ہم نبی اکرمﷺ کو ایک زندہ نبی مانتے ہیں اور زِندہ نبی کا جو تصوّر ہمارے دِماغ میں ہے اس میں سے ایک یہ ہے کہ آپ کی رُوحانی زندگی کے نتیجے میں اُمتِ محمدیہ میں قیامت تک ایسے افراد پیدا ہوتے رہیں گے جو آپ کی رُوحانیت کے طفیل خداتعالیٰ کے نشانات اسلام کی حقانیت کے ثبوت کے لئے بنی نوعِ انسان کے سامنے پیش کرتے رہیں گے اور چونکہ عام آدمی جو ہے، اس کے نزدیک دو زِندگیاں بن جاتی ہیں ناں، ہمارے حلقے کے نزدیک، اِحساس رکھنے والے، وہ تو پہلے دن سے ایک ہی زندگی چلی ہے رُوحانی۔ اس واسطے جہاں ایک یہ کہا، اس کا مطلب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کی رُوحانی زندگی کا جو تعلق اپنی جسمانی زندگی 1409کے ساتھ تھا، اس زمانے میں تین ہزار معجزے دُنیا نے دیکھے، اور قیامت تک کروڑوں دیکھے، وہ سب نبی اکرمﷺ کے معجزے اور نشانات ہیں، لیکن یہ معجزے حضرت علی کے زمانے میں، حضرت عثمان (دونوں پر اللہ کی رضا ہو) ان کے زمانے میں دیکھے۔ حضرت عمرؓ نے ایک موقع پر آواز دِی، کتنے فاصلے پر تھی، پچاس، سو، ساٹھ، قریباً سو میل کے فاصلے پر تھی فوج، اور وہ نظارہ سامنے آیا، اور دیکھا کہ کمانڈر اس فوج کا جو ہے وہ غلطی کر رہا ہے اور آپ نے اس کو ہدایت دی وہیں سے گھبراکے، اور اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ اس کمانڈر کے کان میں وہ آواز پہنچی سو میل دُور اور ایسی غلطی سے وہ فوج بچ گئی جس کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اس کا۔ اب یہ معجزہ حضرت عمرؓ کا نہیں ہے ہمارے نزیک، نبی کریمﷺ کا تھا۔ اس طرح اُمتِ محمدیہ میں، حضرت مسیحِ موعود نے لکھا ہے، کہ کروڑوں اولیاء اللہ پیدا ہوئے اور نبی کریمﷺ کے معجزے اور نشانات دُنیا کو دِکھاتے رہے، لیکن عرفِ عام میں ہم کہتے ہیں کہ سیّد عبدالقادر جیلانی صاحب کے معجزات، ہم یہ کہتے ہیں کہ اِمام باقر کے معجزات، وغیرہ، وغیرہ۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے ۔۔۔۔۔۔ ایک چھوٹا سا ’’تتمہ حقیقۃالوحی‘‘ کا حوالہ ہے، وہ میں پڑھ دیتا ہوں:
’’اسلام تو آسمانی نشانوں کا سمندر ہے۔ کسی نبی سے اس قدر معجزات ظاہر نہیں ہوئے جس قدر ہمارے نبیﷺ سے۔ کیونکہ پہلے نبیوں کے معجزات (وہی میرا جو پہلا مضمون تھا، اس کے متعلق ہے)۔ (کیونکہ پہلے نبیوں کے معجزات) ان کے مرنے کے ساتھ ہی مرگئے لیکن ہمارے نبیﷺ کے معجزات اب تک ظہور میں آرہے ہیں اور قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گے۔ جو کچھ میری تائید میں ظاہر ہوتا ہے دراصل وہ سب آنحضرتﷺ کے معجزات ہیں۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: اور تو نہیں جی کوئی حوالہ؟
1410مرزا ناصر احمد: ہوسکتا ہے کوئی غلطی ہو، لیکن جنہوں نے نوٹ کیا ہے وہ کہتے ہیں نہیں۔
(خلافت عثمانیہ کے سقوط پر قادیانی جماعت نے کہا ہمارا ترکوں سے کوئی تعلق نہیں؟)
جناب یحییٰ بختیار: میں بھی بھول جاتا ہوںجی، بہت زیادہ ہوگئے۔
اب دوتین مختصر سے سوال ہیں۔ ایک یہ کہ خلافتِ عثمانیہ کے سقوط پر آپ کی جماعت نے پنجاب کے انگریز لیفٹیننٹ گورنر کو کہا تھا کہ مذہباً ہمارا ترکوں سے کوئی تعلق نہیں؟
مرزا ناصر احمد: ہمارا ان فرقوں سے کوئی تعلق ہی نہیں؟
جناب یحییٰ بختیار: ترکوں سے ہمارا تعلق کوئی نہیں ہے؟
مرزا ناصر احمد: ترکوں سے، مسلمانوں سے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔ کوئی تعلق نہیں؟
جناب یحییٰ بختیار: ہاںجی۔
مرزا ناصر احمد: یاد تو نہیں ہے مجھے۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ ایڈریس ہے، لیفٹیننٹ گورنر کو دِیا ہوا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، اس میں یہ تھا کہ: ’’کیونکہ ہمارا اپنا خلیفہ ہے اس واسطے ہم ان کو خلیفہ نہیں مانتے۔‘‘
مرزا ناصر احمد: ہاں، اس لحاظ سے کہ ہماری اپنی خلافت ہے، اور خلافتِ ترکیہ سے ہمارا یہ خلافت اور یہ اِتباع کا تعلق نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: تو اس ضمن میں کہ ان کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے؟
مرزا ناصر احمد: اس معنی میں۔
جناب یحییٰ بختیار: ممکن ہے یہی ہو۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، ہاں ہے ہی یہ۔
جناب یحییٰ بختیار: چونکہ ایڈریس نہیں ہے میرے پاس اس وقت۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، لیکن عملاً تو یہ ہوا ناں کہ حجاز والے ان کے خلاف لڑے، حرمین شریف والے لڑے۔ وہ میں نے بتایا تھا کہ وہ اور قسم کی لڑائیاں تھیں، وہ دِینی جہاد نہیں تھے جس 1411کے اُوپر یہ فتوے لگائے جاتے ہیں۔
(بغداد پر انگریز کے قبضے کی خوشی میں قادیان میں چراغاں)
جناب یحییٰ بختیار: اور ایک اور سوال ہے کہ: ’’کیا یہ دُرست ہے کہ جس وقت بغداد پر انگریز کا قبضہ ہوا، عراق مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلا، اس وقت قادیان کی جماعت نے چراغاں کیا تھا؟‘‘
مرزا ناصر احمد: یہ میں جواب دے چکا ہوں کہ اس وقت۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! دیکھیں، سارے مسلمان اگر ایک وقت کریں کوئی چیز، جیسے کہ آپ نے کہا، آپ کے جواب سے یہ Impression (تأثر) پڑتا تھا کہ اس موقع پر سب مسلمانوں نے چراغاں کیا۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: اس کی تاریخ کیا ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: تاریخ یہاں نہیں لکھی، یہ ایک Historical Fact (تاریخی حقیقت) ہے، جب بغداد پر انگریزوں کا قبضہ ہوا۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: Historical Fact (تاریخی حقیقت) یہ ہے کہ وہ جنگ کا خاتمہ ہوگیا تھا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، ایک جنگ کا خاتمہ تھا، وہ تو Poppy Day سب دُنیا میں ہوتا رہا، ۱۸؍نومبر۱۹۱۹ء میں، ۱۱؍نومبر کے بعد، وہ چراغاں سب ملک میں ہوگیا تھا۔
مرزا ناصر احمد: نومبر انیس سو۔۔۔۔۔۔؟
جناب یحییٰ بختیار: نومبر ۱۹۱۷ء یا ۱۹۱۸ئ۔
مرزا ناصر احمد: نومبر ۱۸ئ، یا ۱۷ء یا ۱۸ئ، ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ۱۱؍نومبر۱۹۱۸ء تھا وہ تو۔
مرزا ناصر احمد: اسی واسطے میں نے پوچھا تھا کہ اس کی تاریخ اگر پتا ہو۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ علیحدہ ڈیٹ پر اس دوران میں ہوئی ہے، Not on the same date (اسی تاریخ کو نہیں)، اگر اس میں ہو تو پھر میں وہ سوال ہی واپس لیتا ہوں۔ اگر اس ڈیٹ پر۔۔۔۔۔۔
1412مرزا ناصر احمد: یہ پھر اگر آیا ہے تو میں معذرت چاہتا ہوں، یہ چیک نہیں کیا۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، یہ آپ چیک کرلیں۔ میں نے پہلے پوچھا بھی نہیں تھا کل آپ نے جو اس کا ذِکر کیا ناں، چراغاں کا، تو مجھے بتایا گیا۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: یہ Submit (پیش) میں کردوں گا۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔ وہ چراغاں۔ تو سب مسلمان۔۔۔۔۔۔ لڑائی تو سب ملک میں تھی ختم ہوگئی۔
مرزا ناصر احمد: یہ لڑائی پر In writing (تحریر میں) دو تین صفحے Submit (پیش) کردوں؟
جناب یحییٰ بختیار: جتنا مختصر ہو۔ جتنے بھی Annexure (منسلکہ دستاویز) آرہے ہیں وہ پرنٹ ہو رہے ہیں۔ پھر وہ اسمبلی کے ممبران کو دے رہے ہیں۔ اس لئے جتنا مختصر ہوگا وہ پڑھیں گے اور اُس کو دیکھیں گے۔
مرزا ناصر احمد: صرف ہمیں اندھیرے میں رکھ رہے ہیں۔ ہمیں تو بھی ایک کاپی ملنی چاہئے۱؎۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، آپ تو یہاں بیٹھے ہیں، آپ کے سامنے سب کچھ ہوا۔
مرزا ناصر احمد: یہ نہیں بیٹھے یہاں؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ کمیٹی کا آرڈر ہے، میں تو…
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ ماشاء اللہ! خود کو قومی اسمبلی کے ممبران جیسے استحقاق کا حق دار سمجھنے لگ گئے۔۔۔! چھیچھڑے کے خواب والی بات ہوئی ناں؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مرزا ناصر احمد: آں؟ نہیں، میں تو ویسے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ سیکریٹ ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ پبلک۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، کمیٹی کی خدمت میں درخواست کر رہا ہوں، بڑی عاجزانہ، بڑے مؤدّب ہوکر۱؎۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ تو کمیٹی Consider (غور) ضرور کرے گی۔ بات یہ تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ یہ چیز جو ہے۔۔۔۔۔۔
1413مرزا ناصر احمد: ہاں ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ ان حالات میں باہر نہ جائے۔
مرزا ناصر احمد: خیر، یہ تو بحث ہی نہیں۔ میں دے دُوں گا، بڑا مختصر، جتنا ہوسکے۔
جناب یحییٰ بختیار: کیونکہ اگر وہ Celebration (خوشی کا موقع) ہے کہ عراق کے مسلمانوں کی حکومت چلی گئی۔
مرزا ناصر احمد: چیک کریں گے کہ سن کونسا ہے، ایک چیز یہ چیک کرنے والی ہے۔ دُوسری یہ چیک کرنے والی ہے کہ مسلمانانِ ہند کا اس وقت رَدِّعمل کیا تھا، ممکن ہے انہوں نے غصّے کا اِظہار کیا ہو اور ہم نے چراغاں کی ہو۔ تو یہ Clash آجاتا ہے ناں۔
جناب یحییٰ بختیار: میں یہ بتانا چاہتا ہوں، جہاں جنگ ختم ہوئی تو ہندو، مسلمان، پارسی، جو بھی برطانیہ کی رعایا یہاں تھی، سب نے چراغاں کیا تو قادیان میں بھی ہوگیا ہوگا؟
مرزا ناصر احمد: یہ پوائنٹ میں نے نوٹ کرلیا ہے ذہن میں۔ اس کے مطابق مختصراً…
جناب یحییٰ بختیار: اس کے علاوہ اسی موقع پر عراق کا کسی مسلمان نے چراغاں نہیں کیا، آپ نے کیا، یہ کہتے ہیں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، عراق کا۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: تو یہ میں کہتا ہوں کہ آپ Verify (تصدیق) کریں۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، آپ کہتے ہیں کہ ایسا ہوا، یا آپ یہ فرماتے ہیں کہ میں Verify (تصدیق) کروں؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیںجی، میں یہ کہتا ہوں کہ یہ Allegation (اِلزام) ہے، آپ Verify (تصدیق) کریں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ دے جا سخیاراہ خدا۔ تیرا اﷲ ہی بوٹا لاوے گا۔ اسی کو کہتے ہیں شاید؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، Verify (تصدیق) کریں۔
جناب یحییٰ بختیار: صرف آپ نے کیا اور باقیوں نے نہیں کیا؟
1414مرزا ناصر احمد: باقیوں نے نہیں کیا؟ ہاں ٹھیک ہے، یہ بھی Verify (تصدیق) کرنے والی بات ہے ضرور۔
جناب یحییٰ بختیار: بیگم صاحبہ کہتی ہیں کہ پونے دو ہوگئے ہیں۔ تو پھر ایڈجرن کریں شام کے لئے۔
مرزا ناصر احمد: شام کو Meet (اجلاس) کرنا ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: شام کو جی، پہلے میں نے کہا، مولانا صاحب پوچھیں گے۔۔۔۔۔۔
Mr. Chairman: Yes, we are meeting in the evening. (جناب چیئرمین: جی ہاں! ہم شام کو اِجلاس کریں گے)
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ تحریفِ قرآن کے بارے میں دو تین سوال پوچھ رہے ہیں آپ سے شام کو۔۔۔۔۔۔
Mr. Chairman: The Delegation is premitted to leave for the present.
(جناب چیئرمین: اس وقت وفد کو جانے کی اجازت ہے)
مرزا ناصر احمد: اچھا۔
Mr. Yahya Bakhtiar: ...... This is not my subject.
(جناب یحییٰ بختیار: یہ میرا موضوع نہیں ہے)
اور اس کے علاوہ دوچار سوال اور بھی ہیں، وہ کہتے تھے، میں نے کہا، پھر بھی پوچھ لیں گے۔
Thank you, Sir. (جنابِ والا آپ کا شکریہ)
Mr. Chairman: The honourable members may keep sitting. (جناب چیئرمین: معزز اراکین تشریف رکھیں)
مرزا ناصر احمد: جناب چیئرمین، سر! اگر مجھے اجازت ہو تو بعض سوالوں کے جواب میرے پاس اس ڈیلی گیشن کے کوئی اور صاحب بھی دے سکیں۔
Mr. Yahya Bakhtiar: Anybody you like, Sir. I do not have any objection.
(جناب یحییٰ بختیار: جنابِ والا! جو شخص آپ چاہیں، کوئی اِعتراض نہیں)
----------
1415(The Delegation left the Chamber)
(وفد ہال سے باہر چلا گیا)
----------
Mr. Chairman: Yes, I think, by this evening, we will be able to dicuss so many things with others.
----------
The reporters can go alse. They are also free.
----------
The honourable members may keep sitting.
(جی ہاں، آج شام ہم نے بہت سی باتوں پر غور کرنا ہے۔ رپورٹرز بھی جاسکتے ہیں۔ انہیں اجازت ہے۔ معزز اراکین تشریف رکھیں)
----------
The Special Committee is adjourned to meet at 6: 00, and by that time, the honourable members may come prepared for any question which may be left over.
(خصوصی کمیٹی کا اِجلاس چھ بجے تک ملتوی ہوا)
----------
Thank you very muck. (آپ کا بہت بہت شکریہ)
----------
[The Special Committee adjourned for lunch break to re-assemble at 6: 00 p.m]
(خصوصی کمیٹی کا اِجلاس دوپہر کے کھانے کے وقفے کے لئے ملتوی ہوا۔ چھ بجے شام دوبارہ ہوگا)
----------
[The Special Committee re-assembled after lunch break, Mr. Chairman (Sahibzadaz Farooq Ali), in the chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اِجلاس دوپہر کے کھانے کے وقفے کے بعد دوبارہ ہوا۔ چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) نے صدارت کی)
----------
جناب چیئرمین: ان کو بلالیں۔ ہاں، باہر بٹھادیں۔ Attorney-General may also be called. بلالیں ان کو، اٹارنی جنرل صاحب باہر بیٹھے ہیں۔ آج ہوجائے گا، اِن شاء اللہ۔ اُمید ہے جی، اب کافی دن ہوگئے ہیں۔ Today is the eleventh day. آج ختم کرلیں گے تو پھر کل نہیں ہوگا۔ کل اسی واسطے رکھا تھا کہ اگر آج کوئی چیز ختم نہیں ہوگی تو پھر کل، Tomorrow۔
Sahibzada Ahmad Raza Khan Qasuri: Mr. Chairman, before you call the witness, I would like to address the chair.
(صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: جناب چیئرمین! پیشتر اس کے کہ آپ گواہ کو بلالیں، میں کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں)
جناب چیئرمین: ان کو ذرا روک دیں جی۔ ان کو ابھی روک دیں ذراجی۔
1416ہاں، Yes۔
----------
ATTACK ON M.N.A
Sahibzada Ahmad Raza Khan Qasuri: Mr. Chairman, I have to disclose with great pain that this afternoon, at half past three, when I was retruning from the Hostel, on may way back home to a place wherer I am staying at chaman and when my car came near the National Assembly of Pakistan, a jeep was coming from the direction of the State Bank building. The jeep overtook me and it then started going ahead of me, as if they knew which side I live. First, the jeep was coming faster because I normally drive my car faster. I started driving slow, the the jeep also became slow. Then, when you cross those diplomatic houses, there is a crossing of Ata-Turk Road with Fazal-i-Haq Road, and there is a very depth like this and there is a very blind corner and there are bushes all around. The jeep turned towards left and there was a rapid sten-gun fire on me and I have escaped with the grace of God Almighty and it is the God's blessing that I am speaking to you in one piece. It is just God's blessing, it is a blessing of the people of Qasur who pray for me, it is the blessings of my bazurg (بزرگ), it is the blessings of my friends that I am intact. And this was a murderous attack and this is very serious. I don't impute motive to anybody because that will be going beyond my scope, but I am just giving this information to you. Sir, and it should be on record.
The case has alredy been filed with the Police Station, Islamabad. Islamabad Plice is investigating. But, Sir, the matter is very serious and it needs your consideration. Sir, if you will not protect us, because you are the symbol of democracy, you are the symbol of rule of law in this country, if you will not defend us, Sir who will defend us? And if we have to defend ourselves in this country, if everybody starts holding guns, then, Sir, this country will not find anything, there will be no society and there will be no law. There will be absolutely chaos, there will be bloodsehd. And Sir, we have already and we don't want blood-bath in this country.
(صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری: جناب چیئرمین! بڑے دُکھ کے ساتھ بتانا چاہتا ہوں کہ آج بعد دوپہر ساڑھے تین بجے جب میں ہوسٹل سے واپس چمن جہاں میں قیام پذیر ہوں، جارہا تھا، اس وقت ایک جیپ اسٹیٹ بینک بلڈنگ کی طرف سے نیشنل اسمبلی کے قریب آئی، جیپ نے مجھے پیچھے چھوڑا اور پھر میرے آگے آگے چلنے لگی۔ اس طرح جیسا کہ جیپ والوں کو میری رہائش گاہ کا علم ہو۔ شروع میں جیپ کی رفتار تیز تھی، کیونکہ عام طور پر میں گاڑی تیز چلاتا ہوں۔ میں نے کار کی رفتار سست کردی تو جیپ کی رفتار بھی سست ہوگئی۔ سفیروں کے مکانوں سے گزر کر اتاترک اور فضل حق پر ایک گہری اور اندھادھند موڑ ہے، جن کے اِردگرد جھاڑیاں ہیں، جیپ بائیں طرف مڑی اور جیپ سے مجھ پر اسٹین گن کا لگاتار فائر کیا گیا، لیکن میں محض اللہ کے کرم سے محفوظ رہا، اور یہ اس کی رحمت ہے کہ میں صحیح سالم حالت میں آپ سے خطاب کر رہا ہوں، یہ اللہ کا کرم اور قصور کے لوگوں کی دُعائیں، میرے بزرگوں کی دُعائیں، اور دوستوں کی دُعائیں ہیں کہ میں زندہ ہوں۔ یہ ایک قاتلانہ حملہ تھا جو کہ بہت ہی سنگین بات ہے۔ جنابِ والا! ریکارڈ کے لئے یہ اطلاع بہم پہنچا رہا ہوں۔ میں اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں مقدمہ پہلے درج کراچکا ہوں، جو تفتیش کر رہی ہے۔ لیکن جنابِ والا! یہ معاملہ سنگین نوعیت کا ہے اور آپ کی توجہ کا متقاضی ہے۔ جنابِ والا! اگر آپ ہمارا تحفظ نہیں کریں گے، کیونکہ آپ جمہوریت کی علامت ہیں، آپ اس ملک میں قانون کی حکمرانی کی علامت ہیں، جنابِ والا! اگر آپ ہمیں تحفظ نہیں دیں گے تو اور کون دے گا؟ اور اگر اس ملک میں ہم نے اپنا تحفط خود ہم نے اپنا تحفظ خود ہی کرنا ہے تو پھر جنابِ والا! ہر شخص کے ہاتھ میں بندوق ہوگی اور ملک میں کچھ بھی نہیں رہے گا، نہ کوئی معاشرہ ہوگا اور نہ ہی قانون۔ بس افراتفری اور خون خرابہ ہوگا۔ جنابِ والا! پہلے ہی کافی کشت وخون ہوچکا ہے، ہم جانتے ہیں خون خرابہ کیا ہوتا ہے؟ اور ہم ملک میں کشت وخون نہیں چاہتے)
1417Sir, if this type of incident takes place and if we feel that we are not protected by the rule of law; by the Administraion, then we will have to protect ourselves. And when everybody started protecting himself, Sir, you know, it will result in total chaos, it will result in disintegration of the country. And, Sir, for God's sake, let us save this country. This country is lying in shambles. We are already finished totally. Let us emerge together as a respectable country. Let us emerge together as a country which should have respect in the comity of nations. And, Sir, great responsiblity lies on your shoulders, because you are the symbol of democracy in this country.
I have brought this matter before you and before my august colleagues. I have not put any motive. I have not given any directions that so and so body was involved in this attack, but I am leaving everything open, everything open, because I am a very fair man, I am a very judicious person. I am leaving everything open, but, Sir, nevertheless, particularly the protection of each member of this House is your responsibility. And if we are not protectd in Islamabad, in the metropolis, in the capital of Islamic Republic of Pakistan, a member of Parliment is not protected, Sir, then, Sir, you can well imagine the fate of a commoner in some far-flung area of Tobe Tek Singh, who is not all that important, who is not in Islamabad, Sir.
So, Sir, I am bringing all these matters with all the humility at my command. I am really, Sir, pained. I am not pained because this attack is on me. If today this attack is on me, tomorrow this attack can be on anybody else. So, I am worried from that angle, Sir. Sir, I am a peaceful citizen. I might not take gun in my hand, but the possibility is that if this attack is on some person who is mor aggressive, he might hold a gun in his hand and, Sir, if the gun battle will have to start in this country, then let us wind up this House, let us wind up these institutions. Then what is the need for having these institutionss, these traditions? These traditions and institutions are for the protection of an individual, for the protection of rule of law, Sir. And, Sir, this is a great responsibility on your shoulders. Sir, and I know, Sir, you must be worried about it.
(جنابِ والا! اگر ایسے واقعات ہوتے رہے اور یہ اِحساس ہو کہ قانون ہماری حفاظت نہیں کرسکتا تو پھر ہمیں اپنی حفاظت خود کرنا پڑے گی اور جنابِ والا! جب ہر کوئی اپنی حفاظت خود کرنے لگے تو پھر آپ جان لیں کہ سوائے افراتفری کے کچھ نہ ہوگا، اور اس کا نتیجہ ملک کا خاتمہ ہوگا۔ خدا کے لئے ہم اس ملک کو بچالیں، ہم پہلے ہی ختم ہوچکے ہیں، آئیے ہم ایک معزز ملک کی طرح ہوں، ایک ایسے ملک کی طرح جس کی قوموں کی برادری میں عزت ہو۔ جنابِ والا! چونکہ آپ جمہوریت کی علامت ہیں، اس لئے آپ کے کاندھوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یہ معاملہ میں آپ کے اور اپنے معزز ساتھیوں کے رُوبرو پیش کر رہا ہوں، میں نے کوئی اِلزام تراشی نہیں کی۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ فلاںفلاں اس معاملے میں ملوث ہیں۔ لیکن میں ہر بات کھلی رکھ رہا ہوں۔ کیونکہ میں ایک راست باز اِنسان ہوں، انصاف پسند آدمی ہوں، میں ہر چیز کھلی چھوڑ رہا ہوں۔ لیکن جنابِ والا! اس ایوان کے ہر رکن کا تحفظ آپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بھی محفوظ نہ ہوں، تو پھر آپ ٹوبہ ٹیک سنگھ جیسے دُوردراز علاقے کے رہنے والے عام پاکستانی کی حالت کا اندازہ لگاسکتے ہیں، جس کی نہ تو اتنی اہمیت ہے اور نہ وہ اسلام آباد میں ہے۔ میں نہایت عاجزی کے ساتھ یہ تمام حالات پیش کر رہا ہوں۔ جنابِ والا! مجھے اس بات کا بہت دُکھ ہے۔ اس لئے نہیں کہ مجھ پر حملہ ہوا ہے، یہ حملہ کل کسی اور پر بھی ہوسکتا ہے، بس اسی وجہ سے ہی میں پریشان ہوں۔ جنابِ والا! میں ایک امن پسند شہری ہوں، ممکن ہے میں بندوق ہاتھ میں نہ لوں، مگر یہ حملہ کسی اور پر ہو، تو ہوسکتا ہے کہ وہ بندوق اُٹھالے، اور ملک میدانِ کارزار بن جائے۔ تو پھر نہ اس ایوان کی ضرورت ہے، اور نہ اس اِدارے کی، اس اِدارے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ اِدارے ذاتی تحفظ اور قانون کی حکمرانی کے لئے ہیں۔ جنابِ والا! آپ پر بہت بڑی ذمہ داری ہے، میں جانتا ہوں کہ آپ اس وجہ سے بہت پریشان ہیں)
1418You know, I can feel, Sir, that you are feeling upset because this thing can happen to anybody.
Sir, I need your protection, I need the protection of this House, otherwise, Sir, if the House will not protect us, then, Sir, we know how to protect ourselves and that will be going too far.
With these words, I thank you very much.
(آپ جانتے ہیں جنابِ والا! نہ صرف آپ بلکہ ہم سب پریشان ہیں، کیونکہ ایسا معاملہ کسی کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے۔ جنابِ والا! مجھے آپ کا تحفظ چاہئے، مجھے اس ایوان کا تحفظ چاہئے، اگر یہ ایوان ہمیں تحفظ نہیں دے گا تو پھر جنابِ والا! ہم اپنا تحفظ کرنا جانتے ہیں، اور یہ بہت ہی آخری راستہ ہوگا، ان الفاظ کے ساتھ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں)
Mr. Chairman: Thank you very much, Mr. Ahmad Raza Qasuri.
(جناب چیئرمین: احمد رضا قصوری صاحب! آپ کا بہت بہت شکریہ)
Sardar Moula Bakhsh Soomro: May I say a few words? (سردار مولابخش سومرو: کیا میں کچھ کہہ سکتا ہوں؟)
Mr. Chairman: Just a minute you have to tell us what protection the House can give you. And definitely every member is entiled to any protection. Since you have gone to the police, you have registered the case the matter is sub judice, because they will investigate the matter. As for the protection which the House can afford, it is out only available to you, it is available to all the members inside the House, and whatever means or to whatever extent our juridiction extends. Whatever Mr. Qasuri has said, it is on the record. The rest is for him to tell us. And definitely whatever is within our powers or whatever we can do .........
Yes, now they may be called.
The case is registered. Now it is for the Police to investigate.
(جناب چیئرمیں: صرف ایک منٹ۔ آپ ہمیں بتائیں کہ یہ ایوان آپ کو کیا تحفظ مہیا کرسکتا ہے؟ اور یقینا ہر رُکن تحفظ حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے۔ آپ پولیس کے پاس جاچکے ہیں مقدمہ درج کرادیا ہے، معاملہ زیر تفتیش ہے، جہاں تک اس ایوان کی طرف سے تحفظ دینے کا تعلق ہے، اس ایوان کے دائرۂ اِختیار کے اندر یہ تحفظ ایوان کی حدود میں تمام اراکین کو حاصل ہے۔ قصوری صاحب نے جو کچھ کہا ہے، وہ ریکارڈ پر آچکا ہے۔ اس کے علاوہ وہ جو بھی کہنا چاہیں، ہمارے اِختیار میں جو بھی ہوگا، ہم کریں گے۔ ہاں اب انہیں بلالیں، مقدمہ درج ہوچکا ہے، پولیس تفتیش کرے گی)
----------
(The Delegation entered the Chamber)
(وفد ہال میں داخل ہوا)
----------
Mr. Chairman: Yes, Mr. Attorney-General.
(جناب چیئرمین: جی اٹارنی جنرل صاحب!)
----------
1419CROSS-EXEAMINATION OF THE QADIANI
GROUP DELEGATION
(قادیانی وفد پر جرح)
(منیر انکوائری رپورٹ کا حوالہ سقوط بغداد پر قادیان میں چراغاں)
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! میں نے وہ جو عراق کے بارے میں کہا تھا، آپ نے کہا کہ جنگ کے خاتمے پر ہوا تھا، وہ منیر انکوائری رپورٹ سے بھی حوالہ ہے۔
مرزا ناصر احمد: جی؟
جناب یحییٰ بختیار: آپ نے فرمایا تھا کہ آپ پہلے بتائیں کہ باقی مسلمانوں نے Celebration (جشن) نہ کی ہو یا وہ ناراض ہوئے ہوں۔ تو یہاں ایسے ہی لکھا ہے: "The Celeberation......"۔
مرزا ناصر احمد: تاریخ اصل میں چاہئے تاکہ چیک کیا جاسکے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، نہیں، وہ منیر صاحب لکھتے ہیں:
"The celebrations at Qadian of the victory when Baghdad fell to the British in 1918 during the First World War in which Turkey was defeated, caused bitter resentment among Musalmans and Ahmadiyyat began to be considered as a hand-made of the British."
(پہلی جنگِ عظیم میں جب ۱۹۱۸ء میں ترکی کو شکست ہوئی، اور بغداد کا سقوط ہوا، اس سلسلے میں انگریزوں کی فتح کا جو جشن قادیان میں ہوا، اس پر مسلمانوں نے بہت ناپسندیدگی کا اِظہار کیا، اور (مسلمانوں نے) احمدیوں کو انگریزوں کی باندی (لونڈی) گردانا۔‘‘
(رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص:۲۰۹، اردو-انگلش۱۹۶)
مرزا ناصر احمد: یہ صفحہ کونسا ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: ۱۹۶۔
مرزا ناصر احمد: انہوں نے کوئی تاریخ دی ہے؟
Mr. Yahya Bakhtiar: During the war, Sir, in 1918. (جناب یحییٰ بختیار: جنابِ والا! جنگ کے دوران ۱۹۱۸ئ)
۱۱؍نومبر کو میرے خیال میں وَار ختم ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاںجی۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس سے کچھ پہلے کی بات ہوگی۔ During the war in 1918.۔ (جنگ کے دوران ۱۹۱۸ئ)
1420مرزا ناصر احمد: In 1918 ۔ تو گیارہ والا ۔۔۔۔۔۔۔ تو ہم نے گیارہ والا اخبار تو ڈھونڈ ڈھانڈ کر نکال لیا تھا۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاںجی، وہ تو سب نے کیا تھا، جنرل گورنمنٹ کی طرف سے۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔ اعلان ہوا تھا۔
جناب یحییٰ بختیار: یہ وہ تو سب نے کیا تھا۔ یہ علیحدہ Incident ہے جس نے مسلمانوں کو۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں تو پھر یہ چیک کرنا پڑے گا۔ یہاں نہیں ہے اخبار ہمارے میں۔
جناب یحییٰ بختیار: ایک اور جو عرض کر رہا تھا صبح آپ کو۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: یہ 198 تھا ناں Page (صفحہ) منیر کی رپورٹ کا؟
جناب یحییٰ بختیار: 196۔
مرزا ناصر احمد: ہاںجی، ٹھیک ہے جی، ٹھیک ہے جی۔
جناب یحییٰ بختیار: 196۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: دُوسرے میں عرض کر رہا تھا، آپ نے جو کہا تھا وہ امریکن تھا ڈوئی۔
مرزا ناصر احمد: ڈوئی؟