مرزاقادیانی کی بیماریاں(مرض الموت ’’ہیضہ‘‘)
’’والدہ صاحب نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا۔ مگر اس کے بعد تھوڑی دیر تک ہم لوگ آپ کے پاؤں دباتے رہے اور آپ آرام سے لیٹ کر سو گئے اور میں بھی سو گئی۔ لیکن کچھ دیر کے بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور غالباً ایک یا دو دفعہ رفع حاجت کے لئے آپ پاخانہ تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپ نے زیادہ ضعف محسوس کیا تو اپنے ہاتھ سے مجھے جگایا۔ میں اٹھی تو آپ کو اتنا ضعف تھا کہ آپ میری چارپائی پر ہی لیٹ گئے اور میں آپ کے پاؤں دبانے کے لئے بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا تم اب سو جاؤ۔ میں نے کہا نہیں میں دباتی ہوں۔ اتنے میں آپ کو ایک اور دست آیا۔ مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ نہ جاسکتے تھے۔ اس لئے میں نے چارپائی کے پاس ہی انتظام کر دیا اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے اور پھر اٹھ کر لیٹ گئے اور میں پاؤں دباتی رہی۔ مگر ضعف بہت ہوگیا تھا۔ اس کے بعد ایک اور دست آیا اور پھر آپ کو ایک قے آئی۔ جب آپ قے سے فارغ ہوکر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ آپ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چارپائی پر گر گئے اور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگرکوں ہوگئی۔ اس پر میں نے گھبرا کر کہا ’’اﷲ یہ کیا ہونے لگا ہے‘‘ تو آپ نے فرمایا کہ یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا۔ خاکسار نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ کیا آپ سمجھ گئیں تھیں کہ حضرت صاحب کا کیا منشاء ہے۔‘‘ والدہ صاحب نے فرمایا ’’ہاں‘‘
(سیرۃ المہدی ج اوّل ص۱۱،۱۲، روایت نمبر۱۲، از بشیر احمد قادیانی)
آپ نے ملاحظہ کیا کہ مہلک بیماریاں کس طرح عذاب الٰہی بن کر نبی افرنگ کے بدن پر برس رہی ہیں۔ کہیں کھانسی کا حملہ ہے۔ کہیں پیشاب کی یلغار ہے۔ کہیں ذیابیطس کا شب خون ہے۔ کہیں خارش کی اٹھکیلیاں ہیں۔ کہیں درد گردہ کی پٹخیاں ہیں۔ کہیں جونکیں ہم آغوش ہیں۔ کہیں سل ودق گلے کا ہار بنی بیٹھی ہیں۔ کہیں خونی قے کی طوفانی آمد ہے۔ کہیں مراق وہسٹریا کے تیروں کی بوچھاڑ ہے۔ کہیں دانت درد کی دھماچوکڑی ہے۔ کہیں عارضۂ دل کی جھپٹ ہے۔ کہیں ہیضہ کے کلہاڑے سرپر برس رہے ہیں۔ کہیں دورہ ختم کرنے کے لئے انگریزی نبوت کی ٹانگیں باندھی جارہی ہیں۔ کہیں بناسپتی نبی کے جسم پر کیچڑ ملاجارہا ہے۔ اور کہیں کالی بلا دیکھ کر بے ہوشی کے دورے پڑ رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمام بیماریاں جھوٹے نبی کو مل کر یوں گھسیٹ رہی ہیں جیسے مری ہوئی چھپکلی کو بہت سے چونٹیاں گھسیٹ کر لے جارہی ہوں یا مرے ہوئے کتے کو بہت سی گدھیں کھارہی ہوں۔
مندرجہ بالا سطور میں ہم نے صرف وہ بیماریاں رقم کی ہیں جو قادیانی کتابوں میں موجود ہیں۔ لیکن ہمارا دعویٰ ہے کہ مرزا قادیانی کو اس کے علاوہ سینکڑوں بیماریاں لاحق تھیں۔ جن کی اس وقت تشخیص نہ ہوسکی۔ اگر مرزا قادیانی آج کے تشخیصی دور میں ہوتا اور اس کا مکمل میڈیکل چیک اپ ہوتا تو اس کے جسم سے سینکڑوں بیماریاں دریافت ہوتیں۔ جن میں سے ’’ایڈز‘‘ سرفہرست ہوتی۔ یہ شخص پوری دنیا کے ڈاکٹروں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا۔ دنیا جہان کے ڈاکٹر اسے دیکھنے کے لئے آتے۔ ڈاکٹروں میں لڑائی چھڑ جاتی۔ ماہرین دل کہتے کہ یہ ہمارا مریض ہے۔ ماہرین جلد کہتے کہ یہ ہمارا مریض ہے۔ ماہرین ناک گلا کہتے کہ یہ ہمارا مریض ہے۔ ماہرین معدہ وجگر کہتے کہ یہ ہمارا مریض ہے۔ ماہرین ذیابیطس کہتے کہ یہ ہمارا مریض ہے۔ ماہرین نفسیات کہتے کہ یہ ہمارا مریض ہے۔ مرزا قایانی کا ٹوٹا ہوا بازو دیکھ کر آرتھوپیڈک سرجن کہتے کہ یہ ہمارا مریض ہے۔ اور مرزا قادیانی کے حمل کا قصہ پڑھ کر ماہرین زچہ وبچہ کہتے یہ ہماری مریضہ ہے۔
غرضیکہ ڈاکٹروں میں ایک بحث وتکرار چھڑ جاتی اور چھینا جھپٹی شروع ہوجاتی۔ میڈیکل کے طلباء کہتے کہ اسے ہمارے حوالے کرو۔ ہم نے اس پر ریسرچ کرنی ہے۔ کوئی محقق کہتا کہ اسے میرے حوالے کرو میں نے اس پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنا ہے۔ عجائب گھر والے کہتے کہ اسے ہمیں دے دو۔ ہم اس پر ٹکٹ لگائیں گے اور کروڑوں روپے کماکر قومی آمدنی میں اضافہ کریں گے۔ جس سے کمرتوڑ مہنگائی کا توڑ ہوگا۔ دنیا بھر کے صحافی اسے دیکھنے کے لئے آتے اور ساری دنیا کی اخباروں میں اس کے انٹرویو چھپتے اور فوٹو شائع ہوتے۔ ’’گنزبک آف ورلڈ ریکارڈ‘‘ میں اس کا نام آتا۔ معاملہ عدالتوں تک جاپہنچتا۔ حکومت برطانیہ عدالت میں دعویٰ کرتی کہ مرزا قادیانی ہماری تخلیق ہے۔ اسے نبی ہم نے بنایا تھا اور نبی بننے کے جرم کی پاداش میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس پر لعنتوں اور بیماریوں کی بوچھاڑ ہوئی۔ کیونکہ اسے نبی ہم نے بنایا تھا اور ہماری ہی وجہ سے اس کو اتنی بیماریاں لگیں۔ لہٰذا ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم اس کا علاج معالجہ کرائیں۔ عدالت انگریز کے موقف کو درست تسلیم کرتے ہوئے مرزا قادیانی کو انگریز کے حوالے کردیتی اور بیماریوں کا عالمی چیمپئن مرزا قادیانی اپنی تمام لعنتوں، نحوستوں اور بیماریوں کے ساتھ برطانیہ روانہ ہوجاتا اور ہم کہتے: ’’جتھے دی کھوتی اتھے جا کھلوتی‘‘