• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( نبوت اور معجزہ)
’’ولقد ارسلنا من قبلک رسلاً الیٰ قومہم فجاؤ ہم بالبینات (الروم:۴۷)‘‘ یعنی ہم نے آپ سے پہلے رسول اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے۔ جو ان کے پاس اپنی صداقت کے روشن دلائل لے کر آئے۔ ’’فان مدعی النبوۃ لا بدلہ من حجۃ (بیضاوی ج۲ ص۱۰۵)‘‘
’’تمامی انیباء ورسل وصلوٰت اﷲ علیہم معجزات است وہیچ پیغمبرے بے معجزہ نیست (مدارج ج۱ ص۱۹۹)‘‘
اس لئے دنیا میں کبھی کوئی نبی بغیر معجزہ کے نہیں آیا اور ہمیشہ ان کا معجزہ کوئی خارق عادت ایسی شئے ہوتی رہی۔ جس کے کرنے میں انسانی طاقت کو مطلقاً دخل نہیں ہوا۔ بلکہ خدا کی طرف سے بطور نشان صداقت لوگوں کے مقابلہ میں ان کے ہاتھوں سے ظاہر کرادیاگیا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دنیا کے پیش آنے والے واقعات اور حوادث کو کسی نبی نے اپنی سچائی کے لئے پیش کیا ہو۔ یہ ایک جداگانہ بات ہے کہ قوموں کو ان کی نافرمانی کی سزا میں طاعون وغیرہ کی خبر دی گئی ہو جو انہی کے لئے اپنے وقت میں نکلی ہو۔ کیونکہ ایسی خبریں پیش گوئیاں کہلاتی ہیں۔ جن کا پورا ہونا ضروری تھا۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دنیا کے کسی حصہ میں زلزلہ آیا ہو۔ وباء پھیلی ہوئی ہو۔ قحط پڑا ہو اور کسی نبی نے اس کو اپنی قوم کے مقابلہ میں اپنی صداقت کا نشان بتایا ہو۔ مگر نرالے نبی کے معجزے بھی نرالے ہی ہیں۔ کہیں زلزلہ آئے۔ کسی جگہ طاعون وغیرہ وبائی امراض کا زور ہو۔ وباء دنیا کے کسی خطہ میں باہمی تنگی ہو۔ پس وہ مرزاقادیانی کی صداقت کا نشان بن گیا۔ زلزلہ کا نگڑے پہاڑوں میں آئے جہان ہندوئوں کی اکثریت ہے جن بے چاروں کو مرزاقادیانی کے دعاوی کی بھی خبر نہیں ہے اور مسلمان جو مرزاکی تکذیب کرنے والے تھے۔ ان کا بال بھی بیکا نہ ہو۔ کرے ڈاڑھی والا اور پکڑا جائے مونچھوںوالا۔ مگر اس سے سچائی مرزاقادیانی کی ظاہر ہو جائے۔ کیونکہ آپ نے زلزلہ کے آنے کی خبر دی تھی۔ باوجود یہ کہ اس قسم کی پیش گوئیوں کے نشان صداقت ہونے سے خود ہی انکاری بھی ہے ملاحظہ ہو: ’’یہ سب خبریں ایسی ہیں کہ جن کے ساتھ اقتدار اور قدرت الوہیت شامل ہے۔ یہ نہیں کہ نجومیوں کی طرح صرف ایسی چیزیں ہوں کہ زلزلہ آویں گے۔ قحط پڑیں گے۔ قوم قوم پر چڑھائی کرے گی۔ وبا پھیلے گی۔ مری پڑے گی۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۲۴۵، خزائن ج۱ ص۲۷۱)
کوہاٹ میں ۱۹۳۲ء میں ایک زبردست زلزلہ آیا تھا۔ جس میں صدہا انسانوں کی ہلاکت اور مکانات کی تباہی واقع ہوئی۔ اگر مرزاقادیانی اس وقت زندہ ہوتے تو بڑے بڑے پوسٹروں اور اشتہاروں کے ذریعہ اپنی صداقت کے نشان ظاہر ہونے کا اعلان کرتے۔ دوسری پیشگوئیاں وہ تھیں۔ جو حالات حاضرہ کے مطالعہ سے قیاس اور تخمینہ اور انسانی اٹکلوں کے طور پر ذہن نے ان کی طرف رسائی کی تھی۔ مثلاً اخبارات میں حجاز ریلوے کا چرچا اور تیاری کی خبریں دیکھ کر جھٹ سے یہ پیش گوئی کردی کہ مسیح کے زمانہ میں جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ لیترکن القلاص! اونٹوں کی سواری جاتی رہے گی۔ میرے زمانہ میں بھی مکہ ومدینہ کے درمیان ریلوے لائن تیار ہوگئی ہے اور اب اونٹوں پر آمدورفت بند ہو جائے گی۔ چنانچہ ’’تحفہ گولڑویہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ: ’’اونٹوں کے چھوڑے جانے اور نئی سواری کا استعمال اگرچہ بلاد اسلامیہ میں قریباً سو برس سے عمل میں آرہا ہے۔ لیکن یہ پیشگوئی اب خاص طور پرمکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی ریل تیار ہونے سے پوری ہو جائے گی… اور تعجب نہیں کہ تین سال کے اندر اندر یہ ٹکڑا مکہ اور مدینہ کی راہ کا تیار ہوجائے… اور یہ پیش گوئی ایک چمک لئے بجلی کی طرح دنیا کو اپنا نظارہ دکھائے گی اور تمام دنیا اس کو بچشم خود دیکھے گی اور سچ تو یہ ہے کہ مکہ اور مدینہ کی ریل تیار ہوجانا گویا تمام اسلامی دنیا میں ریل کا پھرجانا ہے۔ ‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۶۵، خزائن ج۱۷ ص۱۹۵،۱۹۶)
شائد اگر مرزاقادیانی اپنی پیش گوئی کی ٹانگ نہ اڑاتے تو حجاز ریلوے مکمل ہوجاتی اور سفر حجاز کی تکلیفیں جاتی رہتیں۔ مگر ان کا درمیان میں دخل دینا تھا کہ ریل ایسی جاتی رہی کہ مدینہ اور دمشق کی لائن بھی اکھڑ گئی اور ریلوے سلسلہ بالکل بند ہوگیا۔ جنگ عظیم میں نتیجہ کے متعلق مختلف خیالات تھے۔ لیکن برطانیہ کے حق میں لوگوں کا قیاس صحیح نکلا۔ کیا وہ قیاس لگانے والے سب کے سب ملہم تھے؟۔
تیسری قسم پیش گوئیوں کی وہ تمام الہامات اور خوابیں ہیں۔ جن کی نسبت مرزاقادیانی کا یہ خیال ہے کہ سچی خوابیں، اور صحیح الہام، کنجریوں، بدکاروں اور کافروں تک کو ہو جایا کرتے ہیں۔ سچے اور جھوٹے لوگوں میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ قلت اور کثرت کا ہے۔ یعنی جھوٹوں کی خوابیں شاذونادر سچی ہوتی ہیںاور سچوں کی اکثر سچی اور بعض جھوٹی ہوجایا کرتی ہیں۔ چنانچہ ’تحفہ گولڑویہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ: ’’میں اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ سچی خوابیں اکثر لوگوں کو آجاتی ہیں اور کشف بھی ہو جاتے ہیں۔ مگر بعض اوقات بعض فاسق اور فاجر اور تارک صلوٰۃ بلکہ بدکار اور حرام کار بلکہ کافر اور اﷲ اور اس کے رسول سے سخت بغض رکھنے والے اور سخت توہین کرنے والے اور سچ مچ اخوان الشیاطین شاذونادر طور پر سچی خوابیں دیکھ لیتے ہیں۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۴۷،۴۸، خزائن ج۱۷ ص۱۶۷،۱۶۸)
’’اس راقم کو اس بات کا تجربہ ہے کہ اکثر پلید طبع اور سخت گندے اور ناپاک اور بے شرم اورخدا سے نہ ڈرنے والے اور حرام کھانے والے فاسق بھی سچی خوابیں دیکھ لیتے ہیں۔ ‘‘
(حاشیہ تحفہ گولڑویہ ص۴۸، خزائن ج۱۷ ص۱۶۸)
’’متوجہ ہوکر سننا چاہئے کہ خواص کے علوم اور کشوف اور عوام کے خوابوں اور کشفی نظاروں میں فرق یہ ہے کہ خواص کا دل تو مظہر تجلیات الٰہیہ ہو جاتا ہے اور جیسا کہ آفتاب روشنی سے بھرا ہوا ہے۔ وہ علوم اور اسرار غیبیہ سے بھر جاتے ہیں۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۴۸، خزائن ج۱۷ ص۱۶۸)
’’تمام مدار کثرت علوم غیب اور استجابت دعا اور باہمی محبت ووفاء اور قبولیت اور محبوبیت پر ہے۔ ورنہ کثرت وقلت کا فرق درمیان سے اٹھا کر ایک کرم شب تاب کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ بھی سورج کی برابر ہے۔ کیونکہ روشنی اس میں بھی ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۴۸، خزائن ج۱۷ ص۱۶۸)
مرزاقادیانی نے قلت اور کثرت کا فرق اس لئے رکھا ہے تاکہ ان کی جھوٹی پیش گوئیوں پر پردہ پڑ جائے۔ ورنہ نبی کی ہر ایک پیش گوئی سچی اور ہرخواب وحی الٰہی کا حکم رکھتا ہے۔
۴… ایک قسم پیش گوئی کی ایسی ہے کہ جو مخالفین کے مقابلہ میں بطور نشان صداقت بیان کی گئی اور اس کا تعلق کسی خاص دشمن یا مخالف کے ساتھ ہے۔ اس قسم کی پیش گوئیاں انبیائo میں پائی جاتی تھیں۔جو اپنے اپنے وقت پر پوری ہوتی رہیں۔ لیکن مرزاقادیانی کے ایسے تمام الہامات اور پیش گوئیاں غلط اور جھوٹ نکلی ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( دعویٰ خدائی)
’’ومن یقل منہم انی الہ من دونہ فذالک نجزیہ جہنم۰ کذٰلک نجزی الظلمین (الانبیائ:۲۹)‘‘ جو شخص ان میں سے یہ کہے کہ میں خدا ہوں تو ہم ایسے آدمی کو جہنم کی سزادیں گے اور ظالمین کو ہم ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ انی الہ اپنے آپ کو عین خدا کہنے والا ظالم اور جہنمی ہے۔ اسی لئے کسی نبی نے آج تک بعینہ خدایا اس کی مثل ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ چنانچہ عیسیٰ علیہ السلام بھی قیامت کے روز ’’ء انت قلت للناس اتخذونی وامیی الہین (المائدہ:۱۱۶)‘‘ کے جواب میں یہی فرمائیں گے۔ ’’قال سبحانک ما یکون لی ان اقول مالیس لی بحق (المائدہ:۱۱۶)‘‘ اے اﷲ تو شرک کی آمیزش سے پاک ہے۔ میں ایسی بات کب کہہ سکتا ہوں ۔ جو مجھے کہنی زیبا نہیں ہے۔ جبکہ مرزا قادیانی نے کہا کہ: ’’میں نے ایک کشف میں دیکھا کہ میںخود خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں۔‘‘
(کتاب البریہ ص۸۵، خزائن ج۱۳ ص۱۰۳)
’’ظہورک ظہوری‘‘تیرا ظہور میرا ظہور ہے۔‘‘
(البشریٰ ج۲ ص۱۲۶، تذکرہ ص۷۰۴، طبع سوم)
’’رأیتنی فی المنام عین اﷲ وتیقنت اننی ہو!’’میں نے خواب میں دیکھا کہ میں بعینہ اﷲ ہوں۔ میںنے یقین کر لیا کہ میں وہی ہوں۔‘‘
(آئینہ کمالات ص۵۶۴، خزائن ج۵ ص۵۶۴)
س… یہ ایک خواب کی حالت ہے۔ جو شرعاً حجت نہیں ہے۔
ج… مرزاقادیانی نبوت کے دعویدار ہیں اور نبی کی خواب بھی وحی ہے۔ (دیکھو ترمذی) اور یہی وجہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام خواب ہی کی وجہ سے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے ذبح کرنے پر تیار ہوگئے تھے۔ جس پر اﷲتعالیٰ نے ’’یا ابراہیم قد صدقت الرویاء (الصفت: ۱۰۳،۱۰۴)‘‘ ارشاد فرمایا کہ اسی طرح رسول اﷲ علیہ السلام کی خواب متعلقہ داخلۂ مکہ کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ: ’’لقد صدق اﷲ رسولہ الرویاء بالحق (فتح:۲۷)‘‘ پھر مرزاقادیانی تو’’عین اﷲ‘‘ ہونے پر اپنا یقین ظاہر کر رہے ہیں۔ جس کے بعد شک ظاہر کرنے والا مرزاکا کافر سمجھا جائے گا۔ نیز یہ عینیت کا دعویٰ خواب ہی تک محدود نہیں رہا۔ بلکہ کشف سے بھی ثابت ہے۔ چونکہ مرزاقادیانی اپنے ’’عین اﷲ‘‘ ہونے پر یقین لے آئے تھے۔ اس لئے ان کو خدائی صفات کے ساتھ متصف ہونے کے بھی الہامات ہوئے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ: ’’واعطیت صفۃ الافناء والاحیائ‘‘ مجھ کو فانی کرنے اور زندہ کرنے کی صفت دی گئی۔
(خطبہ الہامیہ ص۵۵، ۵۶، خزائن ج۱۶ ص۵۵،۵۶)
۲… ’’انما امرک اذا اردت شیئا ان تقول لہ کن فیکون‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۹۴، حقیقت الوحی ص۱۰۵، خزائن ج۲۲ ص۱۰۸، براہین احمدیہ حصہ۵ ص۹۵، خزائن ج۲۱ ص۱۲۴)میں اس کا مصداق مرزا نے اپنے آپ کو بتایا ہے کہ: ’’اے مرزاحقیقت میں تیرا ہی حکم ہے۔ جب تو کسی شئے کا ارادہ کرتا ہے تو ’’کن‘‘ ہو جا کہہ دیتا ہے۔ پس وہ ہو جاتی ہے۔‘‘ اس قسم کے کشف والہامات کا اولیاء اﷲ پر قیاس کرتے ہوئے سکر اور بے ہوشی کی حالت میں محمول کرنا صحیح نہیں۔ کبھی کسی نبی نے بے خودی اور سکر میں منصور کی طرح اناالحق انہیں کہا۔ صاحب یواقیت لکھتے ہیں کہ: ’’لانہ لایکون صاحب التقدم والا مامۃ الاصاحباً غیر سکر ان (یواقیت ج۲ ص۷۳)‘‘ مذہب کے پیشوا اور رہبر امت پر کبھی بے ہوشی اور سکر کی حالت طاری نہیں ہوتی۔
مرزاقادیانی ولایت سے بڑھ کر مہدیت، امامت اور نبوت کے دعوے دار ہیں۔ اس لئے ان پر بے ہوشی کبھی وارد نہیں ہوسکتی۔
مطالبہ: کیا کسی نے ہوشیاری یا بے ہوشی میں ایسے کلمات زبان سے نکالے ہیں؟۔ اگر ہے تو پیش کر کے انعام حاصل کرو۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( مردمیت اور نبوت)
’’وما ارسلنا من قبلک الا رجالاً نوحی الیہم من اہل القریٰ (یوسف:۱۰۹)‘‘ ہم نے آپ سے پہلے تمام رسول مردوں میں سے بھیجے کہ جن پر وحی کی جاتی تھی۔ یعنی گائوں کارہنے والا کبھی رسول یا نبی بناکر نہیں بھیجا گیا۔ ’’جلالین‘‘ میں اہل القریٰ کی تفیسر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’الامصار لا نہم اعلم واعلم بخلاف اہل البوادی لجفائہم وجہلہم (تفسیر جلالین ص۱۹۹)‘‘ اسی طرح قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے کہ ’’حتیٰ یبعث فی امہا رسولاً یتلوا علیہم آیاتنا (القصص:۵۹)‘‘ علامہ ابو السعود اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: ’’ای فی أصلہا وقصبتہا التی ہی اعمالہا وتوا بعہا لکون اہلہا افطن وانبل (ابوالسعود ج۷ ص۲۰)‘‘ مرزاقادیانی ضلع گورداسپور کے ایک گائوں قادیان کے رہنے والے ہیں۔ جو تحصیل نہ ہونے کی وجہ سے قصبہ کہلانے کے لائق بھی نہیں ہے۔ اس زمانہ میں بمشکل دو ہزار کی آبادی ہوگی۔ اس کے علاوہ مرزاقادیانی کو بھی اس کے گائوں ہونے کا اقرار ہے: ’’اوّل لڑکی اور بعد میں اسی حمل سے میرا پیدا ہونا تمام گائوں کے بزرگ سال لوگوں کو معلوم ہے۔ ‘‘
(تریاق القلوب ص۱۶۰، خزائن ج۱۵ ص۴۸۵)
س… ’’وجاء بکم من البدو (یوسف :۱۰۰)‘‘
اﷲ تم کو جنگل سے لایا معلوم ہوا کہ یعقوب علیہ السلام بادیہ اور جنگل میں رہتے تھے۔

ج… حضرت یعقوب علیہ السلام کنعان کے رہنے والے تھے۔ اسی لئے ان کو پیر کنعان بھی کہتے ہیں۔ کنعان مصر جتنا بڑا شہر تو نہیں تھا۔ لیکن ایک اچھے قصبہ کی حیثیت میں ضرور تھا اور وہ اتنا بڑا ضرور تھا کہ وہاں کے باشندے بصورت قافلہ دوسرے شہروں میں تجارت کی غرض سے جاتے تھے۔ قرآن میں ہے کہ ’’واسئل القریۃ التی کنا فیہا والعیر التی اقبلنا فیہا (یوسف:۸۲)‘‘ قافلہ کے لوگ یعقوب علیہ السلام کے پڑوسی تھے۔ ’’وکانوا قوما من کنعان من جیران یعقوب علیہ السلام (ابوالسعود ج۴ ص۳۰۱)‘‘ آیت میں ’’بدو‘‘ کو اس لئے ذکر کیا ہے کہ یعقوب علیہ السلام مال مویشی کی وجہ سے کنعانی شہر کو چھوڑ کر جنگل یا گائوں میں سکونت پذیر ہوگئے تھے۔’’قال ابن عباسb کان یعقوب قد تحول الی بدوو سکنہا ومنہا قدم علی یوسف ولد بہا مسجد تحت جبلہا (تفسیر کبیر ج۹ ص۲۱۵)‘‘
اس کے علاوہ خود مرزاقادیانی نے کنعان کا شہر ہونا تسلیم کیا ہے اور ’’اسی طرح حضرت موسیٰ کلیم اﷲ علیہ السلام کو جو کنعان کی بشارتیں دی گئی تھیں۔ بلکہ صاف صاف حضرت موصوف کو وعدہ دیاگیا تھا کہ تو اپنی قوم کو کنعان میں لے جائے گا اور کنعان کی سرسبز زمین کا انہیں مالک کردوں گا۔‘‘
(ازالہ ص۴۱۶،۴۱۷، خزائن ج۳ ص۳۱۷)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( تدریجی دعویٰ نبوت)
’’قل یا ایہا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعاً (اعراف:۱۵۸)‘‘ تمام انبیاء علیم السلام نے نبوت یا رسالت کا ایک ہی دعویٰ کیا ہے۔ مجددیت وغیرہ سے ترقی کر کے اوپر نہیں چڑھے۔ مگر مرزاقادیانی کے دعاوی کی بڑی لمبی فہرست ہے اور مجددیت سے زینہ بزینہ اوپر چڑھے ہیں۔ (دعاوی کی تفصیل پہلے پوسٹ میں گذر چکی ہے)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( علامات نفاق اور مرزا قادیانی)
’’عن عبداﷲ بن عمرورضی اللہ عنہ قال قال رسول اﷲ علیہ السلام اربع من کن فیہ کان منافقاً خالصاً ومن کانت فیہ خصلۃ منہن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعہا اذا اؤتمن خان واذا حدث کذب واذا عاہد غدر واذ اخاصم فجر (متفق علیہ، مشکوٰۃ باب الکبائر وعلامات النفاق ص۱۷)‘‘ مرزاقادیانی میںیہ چاروں باتیں موجود ہیں۔ خیانت جھوٹ وعدہ خلافی کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ خصومت اور جھگڑے کے وقت گالی گلوچ پر اترآنا اب ملاحظہ فرمالیں:
۱… ’’یہ جو ہم نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے زمانہ کے بہت سے لوگوں کی نسبت اچھے تھے۔ یہ ہمارا کہنا محض نیک ظنی کے طور پر ہے… (ورنہ) مسیح کی راست بازی اپنے زمانہ میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ یحییٰ نبی کو اس پر ایک فضیلت ہے۔ کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور کبھی نہیں سناگیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر ملا تھا یا ہاتھوں اور اپنے سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھوأ تھا یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی۔ اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ کا نام ’’حصور‘‘ رکھا۔ مگر مسیح کا نام یہ نہ رکھا۔ کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے۔‘‘
(دافع البلاء ص۳،۴، خزائن ج۱۸ ص۲۱۹،۲۲۰)
۲… ’’یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے۔‘‘
(کشتی نوح ص۶۶ حاشیہ خزائن ج۱۹ص۷۱)
۳… ’’آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیا ں اور نانیاں آپ کی زنا کار اور کسبی عورتیں تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔ مگر شاید یہ بھی خدائی کے لئے ایک شرط ہوگی۔ آپ کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۷، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱ حاشیہ)
ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق مرزاقادیانی کی بدزبانی کے وہ حوالے نقل کئے ہیں۔ جن میں عیسیٰ علیہ السلام ، مسیح اور قرآن میں ان کو ’’حصور‘‘ نہ کہنا مصرحاً موجود ہے۔ تاکہ مرزائی جماعت یہ نہ کہہ سکے کہ مرزاقادیانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی نہیں کی۔ بلکہ اس یسوع کی توہین کی ہے۔ جس کو عیسائی خدا یا خدا کا بیٹا کہتے ہیں۔ اگرچہ ایسا کہنا بھی قرآنی تعلیم کے خلاف ہے۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ: ’’ولاتسبوا الذین یدعون من دون اﷲ فیسبواﷲ عدوا بغیر علم (انعام:۱۰۸)‘‘ ’’جن کو غیر مسلم اپنا بڑا کہتے اور ان کوپکارتے ہیں۔ تم ان کو برا نہ کہو ورنہ وہ ضد اور جہالت سے خداکو برا کہیں گے۔‘‘ اور ایسا ہی حدیث میں ہے۔
حرام زادہ ہونے کا ایک نیا طریقہ ملاحظہ ہو۔
۴… ’’ویقبلنی ویصدق دعوتی الاذریۃ البغایا!ان میری کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور ان کے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور مجھے قبول کرتا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے۔ مگر بدکار رنڈیوں (زناکاروں) کی اولاد۔ ‘‘
(آئینہ کمالات ص۵۴۷،۵۴۸، خزائن ج۵ ص۵۴۷،۵۴۸)
مولوی سعداﷲ لدھیانوی جو مرزا قادیانی کے مخالف تھے ان کو لکھتے ہیں کہ:
۵… ’’اذیتنی خبثا فلست بصادق۰ ان لم تمت بالخزی یابن بغائ‘‘ تو نے مجھے تکلیف دی ہے۔ اے زانیہ کے بیٹے اگر ذلت سے نہ مرا تو میں جھوٹا ہوں۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۵، خزائن ج۲۲ ص۴۴۶)
۶… ’’ان العدی صا رواخنازیر الفلا۰ ونساء ہم من دونہن الاکلب‘‘ ’’میرے مخالف جنگل کے سور ہیں اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ کر ہیں۔ یا ان کی عورتوں کے پیچھے کتے لگے ہوئے ہیں۔‘‘
(نجم الہدیٰ ص۱۰، خزائن ج۱۴ ص۵۳)
۷… ’’اے بدذات فرقہ مولویان۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۱، خزائن ج۱۱ ص۲۱)
۸… ’’اے بدذات، خبیث، دشمن اﷲ رسول کے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۰، خزائن ج۱۱ ص۳۳۴)
۹… ’’ہمارے دعوے پر آسمان نے گواہی دی۔ مگر اس زمانہ کے ظالم مولوی اس سے بھی منکر ہیں۔خاص کر رئیس الدجالین عبدالحق غزنوی اور اس کا تمام گروہ علیہم نعال لعن اﷲ الف الف مرہ‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۴۶، خزائن ج۱۱ ص۳۳۰)
۱۰… ’’مخالف مولویوں کا منہ کالا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۸، خزائن ج۱۱ ص۳۴۲)
اس قسم کی سینکڑوں گالیاں ہیں۔ یہاں نمونتاً بیان کی گئیں ہیں۔ اس قسم کی بدزبانی اور دریدہ دہنی، خلاف تہذیب الفاظ استعمال کرنے کے متعلق ہمارا کچھ کہنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اس کے لئے مرزاقادیانی کا فیصلہ ناظرین کی آگاہی کے لئے سامنے رکھا جاتا ہے کہ: ’’لعنت بازی صدیقوںکا کام نہیں۔ مومن لعّان نہیں ہوتا۔‘‘
(ازالہ ص۶۶۰، خزائن ج۳ ص۴۵۶)
’’تحریری شہادت دینا ہے کہ ایسے بدزبان لوگوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ خدا کی عزت اس کے پیاروں کے لئے آخر کوئی کام دیکھاتی ہے۔ بس اپنی زبان کی چھری سے کوئی اور بدتر چھری نہیں۔‘‘
(خاتمہ چشمہ معرفت ص۱۵، خزائن ج۲۳ ص۳۸۶،۳۸۷)
اور بقول خلیفہ قادیان مرزا محمود قادیانی: ’’بالکل صحیح بات ہے کہ جب انسان دلائل سے شکست کھااور ہار جاتا ہے تو گالیاں دینی شروع کردیتا ہے اور جس قدر کوئی زیادہ گالیاں دیتا ہے۔ اسی قدر اپنی شکست کو ثابت کرتا ہے۔‘‘
(انوار خلافت ص۱۵)
نیز مرزاقادیانی معلم اخلاقیات کا خصائل حمیدہ کے ساتھ متصف ہونا ضروری کہتے ہیں۔ مگر خود عمل نہیں کرتے۔
’’اخلاقی معلم کا فرض ہے کہ پہلے آپ اخلاق کریمہ دکھلاوے۔‘‘
(چشمہ مسیحی ص۱۵، خزائن ج۲۰ ص۳۴۶)
قال یہ ہے اور حال وہ مصرع:

بہ بیں تفاوت رہ از کجاست تابہ کجا
مشکلے دارم زدانشمند مجلس باز پرس
توبہ فرمایاں چراخود توبہ کمترے میکنند

 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( وراثت اور نبوت)
’’عن ابی بکررضی اللہ عنہ قال قال رسول اﷲ علیہ السلام لانورث ماترکنا صدقۃ (بخاری ج۲ ص۵۷۶ باب حدیث بنی النضیر)‘‘ انبیائؑ نہ کسی کے مال ومتاع کے وارث ہوتے اور نہ کوئی آپ کے مال کا وارث ہوتا ہے۔ بلکہ ان کا ترکہ اﷲ کی راہ میں خرچ کردیا جاتا ہے۔ مگر مرزاقادیانی وارث بھی ہوتے ہیں اور اپنے مال میں وراثت کے حقوق بھی قائم کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو: ’’میںمشتہر ایسے مجیب کو بلاعذرے وحیلتے اپنی جائداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض ودخل دے دوں گا۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۲۵،۲۶، خزائن ج۱ ص۲۸)
براہین کے اشتہار دینے کے وقت یہ جائداد وہی تھی۔ جو ان کو اپنے والد غلام مرتضیٰ رئیس قادیان کے ترکہ میں پہنچی تھی۔ کیونکہ اس وقت تک فتوحات کا دروازہ نہیں کھلا تھا۔ وہ خطوط جو ’’محمدی بیگم‘‘ کے نکاح کے سلسلہ میں مرزاقادیانی نے مسماۃ کے والدین کو تحریض اور تخویف کے لکھے ہیں۔ اس میں اجرائے وراثت کاذکر اس طرح کیاگیا ہے۔
’’والدہ عزت بی بی کو معلوم ہو کہ مجھ کو خبر پہنچی ہے کہ چند روز تک مرزااحمد بیگ کی لڑکی کا نکاح ہونے والا ہے اور میں خدا کی قسم کھا چکا ہوں کہ اس نکاح سے سارے رشتے ناطے توڑدوں گا۔ کوئی تعلق نہ رہے گا۔ (صلہ رحمی کے خلاف ہے) اس لئے نصیحت کی راہ سے لکھتا ہوں کہ اپنے بھائی مرزااحمد بیگ کو سمجھا کر یہ ارادہ موقوف کراؤ اور جس طرح تم سمجھا سکتی ہو سمجھاؤ اور اگر ایسا نہیں ہوگا تو آج میں نے مولوی نورالدین اورفضل احمد کو خط لکھ دیا ہے کہ اگر تم اس ارادہ سے باز نہ آؤ تو فضل احمد عزت بی بی کے لئے طلاق نامہ ہم کو بھیج دے اور اگر فضل طلاق نامہ لکھنے میں عذر کرے تو اس کو عاق کیا جائے اور اپنی جائداد کا اس کو وارث نہ سمجھا جائے اور ایک پیسہ وراثت کا اس کو نہ ملے اور اگر فضل احمد نے نہ مانا تو میں فی الفور اس کو عاق کردوں گا اور پھر وہ میری وراثت سے ایک ذرہ نہیں پاسکتا ……مجھے قسم ہے اﷲتعالیٰ کی کہ میں ایسا ہی کردوں گا اورخداتعالیٰ میرے ساتھ ہے۔ جس دن نکاح ہوگا اس دن عزت بی بی کا نکاح باقی نہ رہے گا۔ ‘‘
(راقم مرزاغلام احمد از لدھیانہ اقبال گنج ۴؍مئی ۱۸۹۱ئ، کلمہ فضل رحمانی ص۱۲۸)
س… کرمانی لکھتے ہیں کہ ’’نحن معشر الانبیائ‘‘ کی حدیث غیر معتبر ہے؟۔
۲… عدم توریث رسول اﷲ علیہ السلام کا خاصہ ہے۔ چنانچہ بخاری میں اس حدیث کو ذکر کرتے ہوئے۔ حضرت عمرb کا قول ’’یرید رسول اﷲ علیہ السلام نفسہ ‘‘ نقل کیاگیا ہے۔ جس سے آپ علیہ السلام کی خصوصیت کا پتہ چلتا ہے اس لئے قسطلانی نے اس قول کی شرح کرتے ہوئے یہ لکھا ہے۔ ’’عن الحسن رفعہ مرسلارحم اﷲ اخی زکریا وماکان علیہ من یرث مالہ فیکون ذالک مماخصہ اﷲ بہ ویؤید مقول عمر یرید نفسہ ای یرید اختصاصہ بذالک‘‘
۳… ’’ورث سلیمان داود‘‘ میں وراثت مال کی مراد ہے۔ کیونکہ نبوت میں وراثت جاری نہیں ہواکرتی۔ ایسا ہی ’’تفسیر ابن جریر اور تفسیر نیشاپوری‘‘ میں درج ہے۔
ج… کرمانی کے نزدیک تمام حدیثیں غیر معتبر نہیں ہے۔ محض لفظ نحن غیر معتبر ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن حجر تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’وأما اشتہر فی کتب اہل الاصول وغیرہم بلفظ نحن معاشر الانبیاء لانورث فقد أنکرہ جماعۃ من الأئمۃ وہو کذلک بالنسبۃ لخصوص لفظ نحن لکن اخرجہ النسائی من طریق ابن عیینہ عن ابے الزناد بلفظ انا معاشر الانبیاء لا نورث‘‘
(فتح الباری ج۱۲ ص۶)
اور دار قطنی نے علل میں بروایت ام ہانیt عن فاطمہt ابوبکرb سے اس طرح روایت کی ہے کہ: ’’الانبیاء لا یورثون (قسطلانی ج۹ ص۳۴۱)‘‘
اور نسائی میں ’’انا معشر الانبیاء لا نورث‘‘ آیا ہے۔ ’’وفی حدیث الزبیر عند النسائے انا معشر الانبیاء لا نورث (قسطلانی ج۵ ص۱۵۴)‘‘ ان دونوں صیغوں کے ساتھ اس حدیث کو تسلیم کرنے سے کسی نے انکار نہیں کیا۔ پھر اسی مضمون کی یہ صحیح حدیث بھی موجود ہے۔
’’ان العلماء ورثۃ الانبیائ، ان الانبیاء لم یورثوادینا را ولادر ہما انما ورثوا العلم فمن اخذہ اخذبحظ وافر (ابن ماجہ ص۲۰ باب فضل العلمائ)‘‘
۲… ’’یرید رسول نفسہ‘‘ کا یہ مطلب ہے کہ اس حکایت کرنے سے محض انبیاء سابقینؑ کے حالات کو بیان کرنا مقصود نہیں تھا۔ بلکہ اس واقعہ کو ذکر کر کے یہ ظاہر کرنا تھا کہ جملہ انبیائؑ کی طرح میرے ترکہ میں بھی وراثت جاری نہ کی جائے۔ چنانچہ قسطلانی اس خصوصیت کی نفی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’یرید رسول اﷲ نفسہ وکذاغیرہ من الانبیاء بدلیل قولہ فی الروایۃ الاخری انا معاشر الانبیاء فلیس خاصابہ علیہ السلام ‘‘
(مطبوعہ نو الکشور ج۵ ص۱۵۷)
’’کذانفیا بقولہ فی الحدیث الآخر انا معاشر الانبیاء لانورث فلیس ذالک من الخصائص‘‘
(نو الکشور ج۹ ص۳۴۲)
جس طرح بخاری کی حدیث ’’لعن اﷲ الیہود والنصاریٰ اتخذوا قبور انبیاء ہم مساجدا یحذر ماصنعوا ‘‘
(بخاری ج۱ ص۲ ۶، مشکوٰۃ ص۶۹، باب المساجد)
اور دوسری روایت ’’عن عائشۃt قالت قال رسول اﷲ علیہ السلام لعن اﷲ الیہود اتخدوا قبور انبیائہم مساجد قالتt فلولاذالک لابرز قبرہ انہ خشی ان یتخذ وامسجداً (مسلم ج۱ص۲۰۱ باب النھی عن بناء المسجد علی القبور)‘‘میں ’’یحذر ماصنعوا اور انہ خشی ان یتخذ مسجد‘‘ سے آنحضرت علیہ السلام کی خصوصیت ظاہرنہیں ہوتی۔ اسی طرح ’’یرید رسول اﷲ‘‘ سے حضور علیہ السلام کی خصوصیت سمجھنا درست نہیں ہے۔
ب… عدم توریث بلحاظ امت کے آپ علیہ السلام کا خاصہ ہے اور باعتبار نبیوں کے خاصہ نہیں ہے۔ یعنی آپ علیہ السلام آیت میراث کے عموم میں داخل نہیں ہیں۔ یہ حکم امت ہی کے واسطے ہے۔ آپ علیہ السلام کے واسطے نہیں ہے نہ یہ کہ دیگر انبیائؑ کے مال میں وراثت جاری ہوتی تھی۔ مگر رسول اﷲ علیہ السلام میں نہیں ہوتی: ’’فلا معارض من القرآن لقول نبینا علیہ السلام لانورث صدقۃ فیکون ذالک من خصائصہ التی اکرم بہا بل قول عمررضی اللہ عنہ یرید نفسہ یوئید اختصاصہ بذالک (فتح الباری ج۱۲ص۶)‘‘ یہی مطلب علامہ قسطلانی رحمۃُ اللہ علیہ کا بھی ہے۔
ج… حضرت عمررضی اللہ عنہ کے قول کو آنحضرت ﷺ کے متعلق خصوصیت پر اتارنا ضعیف اور مرجوح قول ہے۔ جیسا کہ قسطلانی کے صیغہ تمریض (قیل) سے ظاہر ہورہا ہے ملاحظہ ہو۔
’’وقیل ان عمررضی اللہ عنہ یرید نفسہ اشاربہ الیٰ ان النون فی قولہ لانورث المتکلم خاصۃ لا للجمیع وحکی ابن عبدالبر للعلماء فی ذالک قولین اوان الاکثر علی ان الانبیاء لا یورثون (قسطلانی ج۹ ص۳۴۳)‘‘
پھر بھی راجح اور قوی رائے یہی رہی کہ انبیائؑ میں وراثت جاری نہیں ہوتی۔
۳… (الف)وراثت سے علم نبوت کی وراثت مراد ہے۔ مالی وراثت مراد نہیں ہے۔’’والحکمۃ۱؎ فی ان لا یورثو لئلا یظن انہم جمعوا المال لوارثہم واما قولہ تعالیٰ وورث سلیمان داؤد فحملوہ علی العلم والحکمۃ وکذاقول زکریا فہب لی من لدنک ولیا یرثنی (قسطلانی ج۹ ص۳۴۳، ومثلہ فی فتح الباری ج۱۲ ص۹)‘‘
’’واما قول زکریا یرثنی ویرث من اٰل یعقوب وقولہ وورث سلیمان داؤد فالمراد میراث العلم والنبوۃ والحکمۃ (قسطلانی ج۵ص۱۵۷)‘‘ مفسر نیشا پوری کی وراثۃ فی النبوۃ کی نفی کرنے سے یہ غرض ہے کہ نبوۃ موہبۃ عظمیٰ ہے۔ جو نبی کی اولاد ہونے کی وجہ سے نہیں ملا کرتی۔ خداتعالیٰ جس کو چاہتا ہے۔ اس خدمت کے لئے منتخب کرلیتا ہے۔ سلیمان علیہ السلام کو بھی اگر نبوت ملی ہے تو انتخابی حیثیت سے ملی ہے۔ توریثی لحاظ سے نہیں ملی اور جن مفسرین نے سلیمان علیہ السلام کو حضرت دائود کا ’’وارث فی النبوۃ‘‘ کہا ہے۔

۱؎ انبیاء میں وراثت اس لئے جاری نہیں کی گئی تاکہ کوئی شخص یہ بدگمانی نہ کرے کہ انہوں نے اپنے وارثوں کے لئے مال جمع کیا ہے۔

ان کی یہ مراد ہے کہ اﷲتعالیٰ نے محض اپنے کرم اور فضل سے دائود علیہ السلام کے بعد ان کے بیٹے سلیمان علیہ السلام کو نبی منتخب کر لیا۔ یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے ایک نبی کی اولاد ہونے کی وجہ سے نبوت حاصل کر لی۔ فلا معارضۃ بینہما دیکھو زکریا علیہ السلام نے لڑکے کے پیدا ہونے کی دعا کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ: ’’فہب لی من لدنک ولیاً۰ یرثنی ویرث من آل یعقوب (مریم:۵،۶)‘‘ آل یعقوب کے وارث ہونے کے معنے اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتے کہ ان کو بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ایک نبی بنادے۔ اس لئے اس سے علم نبوت ہی کی وراثت مراد ہوگی۔
(ب)کبھی وراثت کا لفظ کسی کے بعد آنے والے پربھی بولا جاتاہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ: ’’واورثکم ارضہم ودیارہم واموالہم وارضالم تطئوھا (احزاب:۲۷)‘‘
’’(اے مسلمانو) تم کو یہودیوں کی املاک وجائداد اور ان کے گھروں کا ہم نے وارث بنادیا اس میں وراثت سے عرفی اور اصطلاحی وراثت مراد نہیں ہے۔ بلکہ ان کی املاک کو مسلمانوں کے قبضہ میں دے دینے کا نام وراثت رکھا ہے۔‘‘
۲… ’’ویجعلہم الوارثین (القصص:۵)‘‘ میں بنی اسرائیل کو قوم فرعون کے وارث بنا نے کا ذکر ہے۔ جو اصطلاحی حیثیت سے قطعاً ناممکن ہے۔
۳… حدیث ’’ان العلماء ورثۃ الانبیاء (ترمذی ج۲ ص۹۸، باب فضل الفقھ علی العبادۃ)‘‘ میں علماء کو انبیائؑ کا وارث بنانا معنے عرفی کے لحاظ نہیں ہے۔ اسی طرح سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کے وارث کہنے کا یہی مطلب ہے کہ ان کو علم وحکمت داؤد علیہ السلام کے بعد عطافرمائی گئی۔ جس سے نبوت کی دولت گھر کی گھر میںرہی اور باہر نہ گئی اور وہ صحیح معنوں میں اپنے والد بزرگوار کے جانشین ہوئے۔
۳… وراثت ذاتی املاک میں ہوا کرتی ہے۔ حکومت میں وراثت جاری نہیں ہوتی وہ ایک قومی امانت ہے۔ جس میں امیر کو قوم اور مالک کی مرضی کے بغیر کسی قسم کے تصرف کرنے کا حق نہیں ہوتا۔ ’’عن ابی ذررضی اللہ عنہ قال: قلت یا رسول اﷲ( علیہ السلام ) الایستعملنی قال وضرب بیدہ علی منکبیّ ثم قال یا اباذرانک ضعیف وانہا امانۃ (مشکوٰۃ کتاب الامارۃ ص۳۲۰)‘‘(’’اے ابوذررضی اللہ عنہ! حکومت ایک امانت ہے اور تو اس امانت کو نہیں اٹھا سکتا۔‘‘) لہٰذا سلیمان علیہ السلام کے وارث ہونے کے یہ معنے ہیں کہ وہ اپنے والد ماجد کے بعد حکومت کے تخت پر متمکن اور جلوہ افروز ہوئے۔ یہ کہ وہ شرعی طور پر وارث ہوئے تھے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( نبی کی تدفین)
’’قال ابوبکررضی اللہ عنہ سمعت من رسول اﷲ علیہ السلام شیئا مانسیتہ قال ماقبض اﷲنبیا الافی الموضع الذی یحب ان یدفن فیہ فدفنوہ فی موضع فراشہ (ترمذی ج۱ ص۱۹۸، ابواب الجنائز)‘‘ {حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے خود رسول اﷲ علیہ السلام سے ایک بات سنی تھی۔ جسے میں بھولا نہیں ہوں! آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا تھا کہ اﷲتعالیٰ ہر نبی کی روح اس جگہ قبض کرتا ہے۔ جہاں وہ دفن ہونا پسند کرتا ہے لہٰذا آنحضرت علیہ السلام کو اس جگہ دفن کرنا چاہئے۔ جہاں آپ کا بستر مبارک ہے۔}مگر مرزاقادیانی کا مرض ایلاؤس یا ہیضہ میں بمقام لاہور انتقال ہوااور قادیان میں تالاب کے قریب اس کو دفن کیاگیا۔
تھوڑی دیر کے لئے اس امر پر بھی توجہ فرمائیں۔ تدفین سے پہلے مرحلہ مرنے کا آتا ہے اور مرزاغلام احمد قادیانی بھی اس مرحلہ سے گزرا۔ چنانچہ مرزاغلام احمد قادیانی مرنے سے پہلے کس حالت سے دوچار ہوئے وہ حالت قادیانیوں کے لئے قابل تقلید ہے۔ ہماری قادیانیوں سے ایک درخواست ہے کہ ہر محب اپنے محبوب کی اداؤں کو پسند کرتا اور اپناتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ محبوب کے نقش قدم پر چلے تو قادیانیوں کو چاہئے کہ وہ اپنے لئے دعا کریں۔ جس حالت میں مرزاغلام احمد قادیانی کو موت آئی وہ بھی اپنے لئے باری تعالیٰ سے ایسی ہی موت مانگیں تاکہ مرتے وقت کی مرزاغلام احمد قادیانی کی حالت پر عمل کر سکیں اور اپنی محبت کا کامل ثبوت دے سکیں۔ حالت کیا تھی اس کے لئے ملاحظہ فرمائیں۔
(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۹تا۱۳، روایت نمبر۱۲)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( انبیائؑ کا بکریاں چرانا)
’’عن ابی ہریرۃرضی اللہ عنہ عن النبی علیہ السلام مابعث اﷲ نبیا الا رعی الغنم فقال اصحابہ وانت؟ فقال نعم! کنت ارعیٰ علی قراریط لاہل مکۃ (بخاری ج۱ ص۳۰۱ باب الاجارہ، مشکوٰۃ باب الاجارہ ص۲۵۸)‘‘
’’ہر نبی نے اجرت پر چرواہا بن کر بکریاں چرائیں رسول اﷲ علیہ السلام بھی چند پیسوں پر اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔‘‘ مرزاقادیانی اس ضابطہ سے خارج ہیں۔ مرزا قادیانی نے چرواہے کی طرح مزدوری پر بکریاں کبھی نہیں چرائیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( خاندان نبوت)
’’سالتک ہل کان من آبائہ من ملک؟ فذکرت ان لا فقلت لو کان من ابائہ من ملک قلت رجل یطلب ملک ابیہ (بخاری ج۱ ص۴، باب کیف کان بدؤ الوحی الی رسول اﷲ علیہ السلام )‘‘
’’ہر قل نے رسول اﷲ علیہ السلام کے نامہ مبارک پہنچنے پر حضور علیہ السلام کے حالات کی تحقیق اور تفتیش کرتے ہوئے ابوسفیانb سے چند باتیں دریافت کی تھیں۔ جن میں سے ایک یہ تھی کہ کیا کوئی آپ کے بزرگوں میں بادشاہ بھی تھا؟ ابوسفیانb نے کہا نہیں۔ ہرقل نے اس سوال کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی بادشاہ ہوتا تو میں کہتا کہ یہ شخص اپنی کھوئی ہوئی ریاست کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔‘‘
مرزاقادیانی کے والد کی حیثیت سکھوں کے عہد سے پہلے بہت اچھی تھی۔ سکھوں کی لوٹ مار کی وجہ سے کمزور ہوگئی تھی۔ پھر بھی پنجاب فتح ہونے کے موقع پر سرکار انگلشیہ کی کافی امداد فرمائی۔ جیسا کہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’ہمارے والد صاحب مرحوم نے بھی باوصف کم استطاعت کے اپنے اخلاص اور جوش خیرخواہی سے پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر کے اور پچاس مضبوط اور لائق سپاہی بہم پہنچا کر سرکار میں بطور امداد کے نذر کئے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ۳ ص الف، خزائن ج۱ ص۱۳۸،۱۳۹)
اسی برباد شدہ ریاست کو حاصل کرنے کے لئے مرزاقادیانی نے یہ جال پھیلا یا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( اوصاف نبوت)
ایک مدعی نبوت کے لئے ان خصوصیات کے ساتھ متصف ہونا ضروری ہے۔ جس کا پایا جانا ہر ایک نبی میں بروایات صحیحہ ثابت ہے۔ مثلاً
۱… ’’از عائشۃ آمدہ است وگفت مرا آنحضرت علیہ السلام را کہ تومی آئی متوضاً ونمی بیراز تو چیزے از پلیدی فرمود کہ آیا ندانستہ توای عائشہ مین فرومی بروآنچہ بیروں می آیداز انبیاء پس دیدہ نمی شودازاں رمزے‘‘
(مدارج ج۱ ص۵۲)
۲… ’’مروی ست از ابن عباسb کہ گفت محتلم نشد ہیچ پیغمبر ہر گز واحتلام از شیطانت رواہ الطبرانے‘‘
(مدارج ج۱ ص۵۲)
۳… ’’انفاست بران کہ انبیاء صلوٰۃ اﷲ وسلامہ علیہم براخلاق حمیدہ صفات حسنہ مجبول ومفطور اند‘‘
(مدارج ج۱ ص۲۹)
مرزاقادیانی کی اخلاقیات کا نمونہ پہلے مذکور ہوچکا ہے۔
۴… ’’روایتے آمد ماتناوب بنی قط ہیچ پیغمبرے خمیازہ نہ کرد‘‘
(مدارج ج۱ ص۱۳۶)
۵… ’’مگس برہان مبارک وی نمی نشست وسپش درجاوے نمی افتاد واحتلام کرد آنحضرت علیہ السلام ہر گز ہمچنیں اندے دیگر رواہ الطبرانی‘‘
(مدارج ج۱ ص۳۶)
۶… ’’زمین نمیوخور وجسد شریف اور ا علیہ السلام وہمچنیں نمرد اجساد انبیائؑ را‘‘
(مدارج ج۱ ص۱۵۸)
’’نیز آمدہ است کہ خداتعالیٰ حرام گردانیدہ است اجساد انبیاء را برارض‘‘
(مدارج ج۱ ص۱۵۹)
۷… ’’ارث یافتہ نشدازوی علیہ السلام لابہمت بقاء ترکہ وی وملک وے بعضی میگویند صدقہ میگر ددوچنانچہ درحدیث آمدہ است ماترکناہ صدقہ… وہمچنیں حکم تمامہ ایں است کہ ایشانرا ارث نباشدو مراد درقول حق تعالیٰ وورث سلیمان داؤد وقولہ سبحانہ رب ہب لی من لدنک ولیایرثنی ارث علم نبوتست‘‘
(مدارج ج۱ ص۱۵۸)
۸… ’’پیغمبر خدا علیہ السلام زندہ است درقبر خود وہمچنیں انبیائؑ‘‘
(مدارج ج۱ ص۱۵۸)
کیا ان نشانات میں سے کوئی نشانی مرزاقادیانی میں پائی جاتی ہے۔ ہر گز نہیںہے تو بارثبوت بذمہ مدعی۔
۱… ’’سیدہ عائشہt بیان کرتی ہیں کہ حضور علیہ السلام استنجا کر کے بیت الخلاء سے تشریف لاتے تو میں جاکر دیکھتی تو اس جگہ ازقسم براز کچھ نہ دیکھتی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا عائشہ تم نہیں جانتیں انبیاء کرامo سے جو کچھ ان کے بطن سے نکلتا ہے زمین نگل جاتی ہے۔ چنانچہ اسے دیکھا نہیں جاتا۔‘‘ (اسے طبرانی نے نقل کیا) (مدارج نبوت ص۲۹)
۲… ’’حضرت ابن عباسb سے مروی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ کوئی نبی کبھی محتلم نہ ہوا۔ کیونکہ احتلام شیطان کے اثر سے ہوتا ہے۔‘‘ (اس کو طبرانی نے نقل کیا) (مدارج نبوت ص۲۱)
۳… ’’شفائے قاضی عیاض مالکی رحمۃُ اللہ علیہ میں مذکور ہے کہ تمام انبیاء کرامo کے اخلاق کریمہ اور عمدہ اوصاف سب کے سب فطری، جبلی اور پیدائشی ہیں۔‘‘ (مدارج ج۱ ص۲۹)
۴… ’’ایک روایت میں آیا ہے کہ جس قوم وقبیلہ نے بھی کسی پیغمبر سے جنگ کی تو اس قوم وقبیلہ پر سب سے پہلے پیغمبر ہی حملہ کرتا ہے۔‘‘
۵… ’’آپ علیہ السلام کے چہرۂ انور پر اور آپ علیہ السلام کی مبارکہ جگہ پر کبھی مکھی نہیں بیٹھی اور نہ ہی آپ علیہ السلام اور دیگر انبیائo کو کبھی احتلام ہوا۔ (اس کو طبرانی نے نقل کیا ہے)‘‘
۶… ’’زمین آپ علیہ السلام کے جسد مبارک کو نہیں کھاتی اور اسی طرح دوسرے انبیاء کرامo کے اجسام کو بھی۔ نیز حدیث میں آیا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء کرامo کے اجسام کو کھائے۔‘‘
۷… آپ علیہ السلام سے کسی نے وراثت حاصل نہیں کی اور نہ آپ علیہ السلام کا ترکہ تقسیم ہوا اور نہ آپ کی ملک تھی۔ البتہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ جو کچھ آپ علیہ السلام نے چھوڑا وہ صدقہ ہوگیا۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: ’’ماترکناہ صدقۃ‘‘ (جو کچھ ہم انبیائo ترکہ چھوڑتے ہیں۔ وہ صدقہ ہے) اور یہی حکم تمام انبیائo کا ہے کہ ان کا کوئی وارث نہیں ہوا۔ باقی رہا اﷲتعالیٰ کا فرمان ’’وورث سلیمان داود‘‘ اور ’’رب ہب لی من لدنک ولیا‘‘ تو اس میں وراثت سے مراد وراثت علم نبوت ہے۔
۸… ’’پیغمبر خدا علیہ السلام اپنی قبر میں زندہ ہیں اور اسی طرح دوسرے انبیائo بھی اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔‘‘
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top