• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( عمر کی بابت)
’’عن عائشۃt قالت قال رسول اﷲ علیہ السلام ان جبرائیل کان یعارضنی القرآن فی کل عام مرۃ وانہ عارضنی بالقرآن العام مرتین وانہ اخبر انہ لم یکن نبی الا عاش نصف عمر الذی قبلہ وانہ خیرنی ان عیسیٰ ابن مریمؑ عاش عشرین ومائۃ سنۃ ولاارانی الا ذاہبا علیٰ راس الستین (طبرانی ج۲۲ ص۴۱۸ حدیث ۱۰۳۱)‘‘
اس حدیث کو مرزائی حیات مسیح کے ثبوت میں پیش کیا کرتے ہیں۔ اس لئے مرزاقادیانی کی عمر بصورت نبی ہونے کے ۳۱ برس چھ ماہ ہونی چاہئے تھی۔ مگر چونکہ ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ ان کی عمر ۶۵ برس ہوئی ہے۔ اس واسطے وہ اپنے دعوے نبوت میں جھوٹے تھے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( خلاصہ معیار نبوت)
بنمائے بصاحب نظرے گوہر خودرا
عیسیٰ نتواں گشت تصدیق خرے چند
۱… ’’ام یقولون بہ جنۃ بل جاء ہم بالحق واکثرہم للحق کارہون (مؤمنون:۷۰)‘‘ لہٰذا حق یعنی نبوت اور جنون میں تضاد ہے جو کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔ اسی لئے آنحضرت علیہ السلام سے اس کی نفی کی گئی۔ ’’ماانت بنعمۃ ربک بمجنون (القلم:۲)‘‘
۲… ’’مابصاحبکم من جنۃ (سبائ:۴۶)‘‘ نبی کی عقل کامل ہونی چاہئے۔
جنون غضب الٰہی ہے۔ (حاشیہ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۳۱، خزائن ج۱۷ ص۶۷)
۳… ’’ملہم کے دماغی قوی کا نہایت مضبوط اور اعلیٰ ہونا ضروری ہے۔‘‘ (ریویو ستمبر۱۹۲۹ئ)
۴… ’’ملہم کا دماغ نہایت اعلیٰ ہوتا ہے۔‘‘ (ریویو جنوری؍۱۹۳۰ئ)
بحث پہلے گذر چکی ہے کہ مرزاقادیانی باقرار خود مراقی تھے۔ مرزاقادیانی نے کہا کہ: ’’مجھے مراق کی بیماری ہے۔‘‘ (ریویوج۲۴ نمبر۴ص۱۸۱، اپریل ۱۹۲۵ئ)
۲… ’’مجھ کو دو بیماریاں ہیں۔ ایک اوپر کے دھڑ کی اور ایک نیچے کے دھڑ کی۔ یعنی مراق اور کثرت بول۔‘‘
(بدر ج۲ نمبر۲۳ ص۴ مورخہ۷جون۱۹۰۶ئ، ملفوظات ج۸ص۴۴۵، تشحیذ الاذہان ج۱ نمبر۲ص۵)
’’مرزا غلام احمد قادیانی کو ہسٹیریا کا دورہ بھی پڑتا تھا۔‘‘
(سیرۃ المہدی ج۲ ص۵۵ روایت نمبر۳۶۹)
’’مالیخولیا جنون کا ایک شعبہ ہے اور مراق مالیخولیا کی ایک شاخ ہے۔ ‘‘
(بیاض نور الدین ص۲۱۱)
نتیجہ ظاہر ہے کہ: ’’ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کو ہسڑیا مالیخولیا یا مرگی کا مرض تھا تو اس کے دعوے کی تردید کے لئے پھر کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی۔ ‘‘ (ریویو ج۲۵نمبر۸ ص۲۸۶،۲۸۷ اگست ۱۹۲۶ئ)
۲… ’’لوکان من عند غیر اﷲ لوجد وافیہ اختلافا کثیرا! ’’اس شخص کی حالت ایک مخبوط الحواس انسان کی حالت ہے۔ جو ایک کھلا کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۸۴، خزائن ج۲۲ ص۱۹۱)
’’ایک دل سے دو متناقض باتیں نہیں نکل سکتیں۔ کیونکہ ایسے طریق سے یا انسان پاگل کہلاتا ہے یا منافق‘‘ (ست بچن ص۳۱، خزائن ج۱۰ ص۱۴۳)
۱… ’’میں مسیح موعود ہوں۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۹۶، خزائن ج۱۷ ص۲۵۳)
’’میں مسیح موعود نہیں۔‘‘ (ازالہ ص۱۹۲، خزائن ج۳ ص۱۴۳)
۲… ’’ابن مریم نبی نہ ہوگا۔‘‘ (ازالہ ص۲۹۲، خزائن ج۳ ص۲۴۹)
’’کیا مریم کا بیٹا امتی ہوسکتا ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۹، خزائن ج۲۲ ص۳۱)
۳… ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ۱۲۰برس کی عمر ہوئی تھی۔‘‘
(راز حقیقت ص۲، خزائن ج۱۴ ص۱۵۴ حاشیہ)
’’آخر سری نگر میںجاکر ۱۲۵ برس کی عمرمیں وفات پائی۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۷ ص۶۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۴۹)
۴… ’’قرآن شریف میںفرمایاگیا ہے کہ وہ کتابیں محرف مبدل ہیں۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۲۵۵، خزائن ج۲۳ ص۲۶۶)
’’یہ کہنا کہ وہ کتابیں محرف، مبدل ہیں۔ ان کابیان قابل اعتبار نہیں۔ ایسی بات وہی کہے گا جو خود قرآن سے بے خبر ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۷۵، خزائن ۲۳ ص۸۳)
’’باوجود یکہ رسول اﷲ علیہ السلام نے بھی توریت وانجیل کے محرف ہونے کی خبر دی ہے۔‘‘
(مشکوٰۃ ص۲۵)
۳… ’’انما یفتری الکذب الذین لا یومنون باٰیات اﷲ (النحل :۱۰۵)‘‘
’’لعنۃ اﷲ علی الکاذبین (آل عمران :۶۱)‘‘
۱… ’’نبی کے کلام سے جھوٹ جائز نہیں۔‘‘ (مسیح ہندوستان میں ص۶۱، خزائن ج۱۵ ص۲۱)
۲… ’’جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۰، خزائن ج۱۷ ص۵۶ حاشیہ)
۳… ’’جھوٹ بولنے سے بدتر دنیا میں اور کوئی برا کام نہیں۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۲۶، خزائن ج۲۲ ص۴۵۹)
۱… ’’حدیث میں ہے کہ جب کسی شہر میں وبانازل ہوتو اس شہر کو بلاتوقف چھوڑ دیں۔‘‘
(ریویو قادیان ج۶ ش۹ ماہ ستمبر ۱۹۰۷ء ص۳۶۵)
۲… ’’حضور علیہ السلام نے فرمایاقیامت سو برس تک آجائے گی۔‘‘
(ازالہ ص۲۵۳، خزائن ج۳ ص۲۲۷)
۳… ’’حدیث میں ہے کہ:یخرج فی آخر الزمان دجال (بالدال) یختلون الدنیا بالدین! یعنی آخری زمانہ میں ایک گروہ دجال کا نکلے گا۔ ‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۸۷، خزائن ج۱۷ ص۲۳۵)
باوجود یہ کہ حدیث میں رجال (بالراء ہے) مگر دھوکا دہی کی غرض سے بالدال نقل کیا ہے۔
۴… ’’ہذا خلیفۃ اﷲ المہدی بخاری کی حدیث ہے۔‘‘
(شہادت القرآن ص۴۱، خزائن ج۶ ص۳۳۷)
۵… ’’مجدد صاحب سرہندی لکھتے ہیں کہ امت کے بعض افراد مکالمہ ومخاطبہ الٰہیہ سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے اور اس کو نبی کہتے ہیں۔ ‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶)
باوجود یہ کہ (مکتوبات ج۲ ص۹۹) میں یوں ہے کہ: ’’اذا کثر ہذا القسم من الکلام من واحد منہم سمی محدثاً‘‘ (ازالہ ص۹۱۵، خزائن ج۳ ص۶۰۰)
’’براہین احمدیہ‘‘ کے معاملہ میں جس گندم نمائی اور جو فروشی کا مظاہرہ کیا وہ کسی سے مخفی نہیں۔ چونکہ جھوٹ کی فہرست لمبی ہے۔ اس لئے دوسرے مقام پر دیکھیں:
۴… ’’وما اسئلکم علیہ من اجر ان اجری الا علی رب العالمین وما من نبی دعا قومہ الی اﷲتعالیٰ الا قال لا اسئلکم علیہ اجراً (یواقیت ج۲ ص۲۵)‘‘ مگر مرزاقادیانی نے تبلیغی چاٹ لگا کر بہت سا روپیہ جمع کیا۔ جیسا کہ لکھتے ہیں کہ: ’’یہ مالی امداد اب تک پچاس ہزار روپیہ سے زیادہ آچکی ہے۔ بلکہ میں یقین کرتا ہوں کہ ایک لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے۔‘‘ (براہین ج۵ ص۵۷، خزائن ج۲۱ ص۷۴)
’’اس قدر بھی امید نہ تھی کہ دس روپیہ ماہوار آئیںگے… اب تک ۳لاکھ کے قریب روپیہ آچکا ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۱۲، خزائن ج۲۲ ص۲۲۱)

جو کچھ میری مراد تھی سب کچھ دکھا دیا
میں اک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا
دنیا کی نعمتوں سے کوئی بھی نہیں رہی
جو اس نے مجھ کو اپنی عنایت سے نہ دیا

(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۰، خزائن ج۲۱ص۱۹)
مطالبہ: کسی نبی سے مذہب کی آڑ میں دنیا کمانا اور تبلیغی چندہ کو اپنی ضرورتوں میں خرچ کرنا ثابت کرو؟۔
۵… ’’ان اﷲ لا یحب الخائنین (انفال:۵۸)‘‘ ’’وہ لوگ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ دنیا میں لاتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ وہ بدستور اپنی نبوت کے ساتھ دنیا میں آئیں گے اور برابر ۴۵سال تک جبرائیل علیہ السلام وحی نبوت لے کر آتا رہے گا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۵۲، خزائن ج۱۷ ص۱۷۴)
نقل حدیث میں خیانت کی۔ اصل مذہب یہ ہے کہ: ’’ان عیسیٰ علیہ السلام وان کان بعدہ واولی العزم وخواص الرسل فقدزال حکمہ من ہذا المقام بحکم الزمان علیہ الذی ہو لغیرہ فیرسل ولیاذا نبوۃ مطلقۃ ویلہم بشرع محمد علیہ السلام ویفہمہ علی وجہہ کالاولیاء المحمدیین (یواقیت ج۲ ص۸۹)‘‘
اور ایسا ہی مدارج النبوۃ میں ہے۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام اگرچہ نبی ہوں گے۔ مگر ان پر وحی نبوت نازل نہ ہوگی۔ اسی لئے ان کے ساتھ نبیوں جیسا معاملہ نہ ہوگا۔ بلکہ وہ اس امت کے اولیاء اﷲ کی طرح ہوںگے۔
۲… ابن عباسb امام مالک رحمۃُ اللہ علیہ اور ابن حزم رحمۃُ اللہ علیہ وغیرہ کی طرف وفات مسیح کے عقیدہ کی نسبت کرنا باوجود یہ کہ وہ آخری زمانہ میں مرنے یا مر کر دوبارہ زندہ آسمان پر مرفوع ہونے کے قائل ہیں۔
۳… نبی تشریعی کے یہ معنے کرنے کہ اس کو رسول اﷲ علیہ السلام کی اتباع کرنے سے نبوت مل جائے اور اس کو ابن العربی رحمۃُ اللہ علیہ اور ملا علی القاری رحمۃُ اللہ علیہ وغیرہم کی طرف منسوب کرنا باوجود یہ کہ ان کے نزدیک نبی غیر تشریعی وہ ہے کہ اس پر وحی نبوت نازل نہ ہو اور وہ ہر حکم میں شریعت محمدیہ علیہ السلام کے فیصلہ کا پابند ہو کیونکہ ولایت کے ایک مقام کانام نبوت غیر تشریعی رکھا ہے۔ مرزانے اس کے معنے بدل کر حقیقی نبوت کے اجزاء کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کردیا۔ نیز مذہبی تبلیغ کا دھوکا دے کر بہت سا روپیہ جمع کیا اور اس کو اپنی ضروریات اور ’’گورنمنٹ برطانیہ کی حمایت میں خرچ کیا۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۸۳، خزائن ج۱۱ ص۲۸۳)
مطالبہ: تبلیغی روپیہ کو گورنمنٹ کی اغراض کی اشاعت میں کس شرعی حکم کی وجہ سے خرچ کیا ہے۔ کیا کوئی ایسے چندہ کی مدد کی جا سکتی ہے؟۔
۶… ’’ولا تطع من اغفلنا قلبہ واتبع ھواہ ولا تطع الکافرین (کھف:۲۸)‘‘ مرزاقادیانی جس حکومت برطانیہ کو دجال کا گروہ کہتے ہیں۔ اس کی غلامی پر فخر کرتے اور: ’’سلطنت ممدوح کو خداتعالیٰ کی ایک نعمت سمجھیں اور مثل اور نعماء الٰہی کے اس کا شکر بھی ادا کریں۔‘‘ (براہین ص ب، خزائن ج۱ ص۱۴۰)
۷… ’’وکلاً جعلنا صالحین وجعلناہم ائمۃ یہدون بامرنا واوحینا الیہم فعل الخیرات واقام الصلوٰۃ وایتأ الزکوٰۃ (الانبیائ:۷۳)‘‘ مرزاقادیانی کی سوانح حیات میں کذب بیانی وعدہ خلافی تلبیس اور دھوکا دہی چندہ کا ناجائز تصرف، حرص وطمع دنیوی، نصاریٰ کی حمایت وغیرہ۔ عیوب کھلے طور پر نظر آرہے ہیں۔
۸… ’’وقفینا علی آثارہم بعیسیٰ ابن مریم مصدقا لما بین یدیہ‘‘ (مائدہ:۴۶) ’’الانبیاء اخوۃ من علات وامہاتھم شتی ودینھم واحد (مسند احمد ج۲ص۳۱۹)‘‘ یعنی اصول دین تمام نبیوں کے درمیان مشترک ہیں۔ مگر عبادت کے طریقے بدلے ہوئے ہیں۔‘‘
چنانچہ تمام انبیائo دجال کے شخص واحد ہونے کی شہادت دیتے آئے۔ مگر مرزا کو اس کی شخصیت سے انکار ہے اور دجال ایک گروہ کا نام رکھا ہے۔ نیز مرزاقادیانی نے ملائکہo اور معجزہ کی حقیقت شرعیہ سے انکار کیا ہے اور فرشتوں کا نزول جسمانی بھی نہیں مانا۔ ان کی تفسیر کرنے میں اپنی رائے کو دخل دیا اور نزول وحی وغیرہ کی حقیقت میں رسول اﷲ علیہ السلام کی تحقیق کی مخالفت کی ہے۔
۹… ’’الذین یبلغون رسالات اﷲ ویخشونہ ولا یخشون احداً الا اﷲ (احزاب:۳۹)‘‘ مگر مرزاقادیانی حکومت سے ڈر کر بعض الہامات کے ظاہر نہ کرنے کا عدالت میں عہد کر آتے ہیں۔
۱۰… ’’الذین اتخذوا دینہم لعباً ولہواً وغرتہم الحیوۃ الدنیا (انعام:۷۰)‘‘ مرزاقادیانی دنیا داروں کی طرح دنیوی شہرت اور مال دولت کے جمع ہونے پر فخر کرتے ہوئے اس کو اپنی بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔
جو کچھ میری مراد تھی سب کچھ دکھادیا
میں ایک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا

(براہین ص۱۰ حصہ۵، خزائن ج۲۱ ص۱۹)
اس زمانہ میں ذرا سوچو کیا چیز تھا
جس زمانہ میں براہین کا دیا تھا اشتہار

(براہین حصہ۵ ص۱۱۲، خزائن ج۲۱ ص۱۴۲)
پھر ذرا سوچو کہ اب چرچا میرا کیسا ہوا
کس طرح سرعت سے شہرت ہوگئی ہر سو یار

(براہین حصہ۵ ص۱۱۲، خزائن ج۲۱ ص۱۴۲)
ادھر آنحضرت علیہ السلام کا یہ ارشاد ہے کہ: ’’الانبیاء اشد بلائً الامثل فالامثل (کنز العمال ج۳ ص۳۲۷ حدیث ۶۷۸۳)‘‘
۱۱… ’’الشعراء یتبعہم الغاون (الشعراء :۲۲۴)‘‘
’’وما علمناہ الشعروما ینبغی لہ (یٰسین:۶۹)‘‘ مگر مرزاقادیانی کی شعر سازی کا مرزائیوں میں بڑا چرچا ہے۔
مطالبہ: کوئی نبی شاعر پیش کرو؟
۱۲… ’’یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو۔ جس کو وہ سمجھ بھی نہ سکتاہو۔‘‘
(چشمہ معرفت ج۲ ص۲۰۹، خزائن ج۲۳ ص۲۱۸)
مگر مرزاقادیانی خود اس کے قائل ہیں۔ ’’بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں۔ جس سے مجھے کچھ واقفیت نہیں۔ جیسے انگریزی، سنسکرت یاعبرانی وغیرہ۔‘‘
(نزول مسیح ص۵۷، خزائن ج۱۸ ص۴۳۵)
۱۳… ’’ولقد ارسلنا من قبلک رسلاً الیٰ قومہم فجاؤہم بالبینات (الروم :۴۷)‘‘
’’فان مدعی النبوۃ لا بدلہ من نبوۃ (بیضاوی ج۲ ص۱۰۵)‘‘
’’تمامی انبیاء ورسل راصلوات اﷲ علیہم معجزات است وہیچ پیغمبرے بے معجزہ نیست‘‘ (مدارج ج۱ ص۱۹۹)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( معجزہ کی حقیقت)
’’وہی امر یظہر بخلاف العادۃ علیٰ ید مدعی النبوۃ عند تحدی المنکرین علیٰ وجہ یعجز المنکرین عن الاتیان بمثلہ‘‘ جو عادت کے خلاف مدعی ٔ نبوت کے ہاتھ پر منکرین کے مقابلہ میں ظاہر ہو اور منکرین اس کی مثال دینے سے عاجز ہوں۔‘‘
(شرح العقائد)
’’نجومیوں کی سی خبریں زلزلے آئیں گے۔ مری پڑے گی، قحط ہوگا، جنگ ہوگی۔ معجزہ نہیں۔‘‘ (براہین ص۲۴۵، خزائن ج۱ ص۲۷۱ حاشیہ)
مرزاقادیانی کی پیشین گوئیاں نجومیوںجیسی ہیں۔ یا حالات حاضرہ کو دیکھ کر تجربہ کاروں کی طرح پیش گوئیاں کی تھیں۔ جن میں سے اکثر غلط اور بے بنیاد نکلیں اورجہاں کہیں بطور تحدیٔ منکرین کے مقابلہ میں اپنی صداقت کی نشانی پیش کرنی چاہی وہیں منہ کی کھائی۔
۱۴… ’’ومن یقل منہم انی الٰہ من دونہ فذالک نجزیہ جہنم کذالک نجزی الظالمین (الانبیائ:۲۹)‘‘ کبھی کسی نبی نے ہوشیاری یا سکر کی حالت میں الوہیت کا دعویٰ نہیں کیا۔ مگر مرزاکہتا ہے کہ: ’’کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کیا وہی ہوں۔‘‘
(کتاب البریہ ص۷۵، خزائن ج۱۳ ص۱۰۳)
’’رائیتنی فی المنام عین اﷲ وتیقنت اننی ہو‘‘
(آئینہ کمالات ص۵۶۴، خزائن ج۵ ص۵۶۴)
۱۵… ’’ما ارسلنا من قبلک الا رجالاً نوحی الیہم من اہل القریٰ (یوسف :۱۰۹)‘‘
’’الامصار لانہم اعلم واحلم بخالف اہل البوادی لجفائہم وجہلہم (جلالین:۱۹۹ ومثلہ فی ابی سعود ج۴ص۳۱۰)‘‘
قادیان گائوں ہے: ’’اوّل لڑکی اور بعد میں اس حمل سے میرا پیدا ہونا تمام گائوں کے بزرگ سال لوگوں کومعلوم ہے۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۶۰، خزائن ج۱۵ ص۴۸۵)
۱۶… ’’عن عبداﷲ ابن عمروb قال قال رسول اﷲ علیہ السلام اربع من کن فیہ کان منا فقاً خالصا ومن کانت فیہ خصلۃ منہن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعہا اذا اؤتمن خان واذا حدث کذب واذا عاہد غدرواذا خاصم فجر (بخاری ج۱ ص۱۰باب علامۃ المنافق)‘‘ مرزاقادیانی میں یہ سب خصلتیں موجود تھیں۔
۱۷… ’’انا معشر الانبیاء لا نورث (مسند احمد ج۲ ص۴۶۳)‘‘
۲… ’’الانبیاء لا یورثون (دارقطنی)‘‘
۳… ’’ان العلماء ورثۃ الانبیاء ان الانبیاء لم یورثوا دیناراً ولادر ہما انما ورثوا العلم فمن اخذہ اخذبحظ وافر (ابن ماجہ ص۲۰ باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم)‘‘
۴… ’’نحن معشر الانبیاء لا نرث ولا نورث (قسطلانی)‘‘
۱۸… ’’مابعث اﷲ نبیاً الارعی الغنم فقال اصحابہ وانت؟ فقال نعم! کنت ارعاھا علی قراریط لاہل مکۃ (بخاری ج۱ ص۳۰۱، باب رعی لغنم علیٰ قراریط)‘‘
مرزاقادیانی نے کبھی مزدوری پر بکریاں نہیں چرائیں۔
۱۹… ’’فی الحدیث ما قبض اﷲ نبیا الافی الموضع الذی یحب ان یدفن فیہ (مشکوٰۃ ص۵۴۷، ترمذی ج۱ ص۱۹۸، ابواب الجنائز)‘‘
مرزاقادیانی لاہور مرا اور قادیان میں دفن ہوا۔
۲۰… ’’سألتک ہل کان من آبائہ من ملک؟ فذکرت ان لا فقلت فلوکان من آبائہ من ملک قلت رجل یطلب ملک ابیہ (بخاری باب کیف کان بدؤ الوحی الیٰ رسول علیہ السلام ص۴ ج۱)‘‘
مرزاقادیانی کے آباؤ اجداد بڑے رئیس تھے۔ مگر سکھوں کے عہد میں کسی قدر کمزور ہوگئے تھے۔ دیکھو براہین احمدیہ وغیرہ۔ یہاں تک کہ ۱۵ روپیہ کی مرزاقادیانی کو کلرکی کرنی پڑی۔
۲۱… ’’لم یکن نبی الاعاش نصف الذی قبلہ (طبرانی ج۲۲ ص۴۱۸ حدیث ۳۰۳۰)‘‘
اس حدیث کو مرزائی وفات مسیح کے ثبوت میں پیش کیا کرتے ہیں۔ اس لئے مرزاقادیانی کی عمر آنحضرت علیہ السلام سے آدھی ہونی چاہئے تھی۔ مگر آپ اور دو سال بعد یعنی ۶۵برس کے ہو کر مرے ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ ( صداقت کی نشانی … مرزاقادیانی کی زبانی)
خیال زاغ کا بلبل سے ہمسری کا ہے
غلام زادہ کو دعویٰ پیمبری کا ہے
۱… مسیح موعود کے وقت میں اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے گا۔
’’ھو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علیٰ الدین کلہ!یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبۂ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیاگیا ہے۔ وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیںگے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق واقطار میں پھیل جائے گا۔‘‘ (حاشیۃ الحاشیہ براہین ص۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۵۳)
’’ہوالذی ارسل رسولہ…… یعنی خدا وہ خدا ہے۔ جس نے اپنے رسول کو ایک کامل ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا، تاکہ اس کو ہر ایک قسم کے دین پر غالب کر دے۔ یعنی ایک عالمگیر غلبہ اس کو عطاء کرے، اور چونکہ وہ عالمگیر غلبہ آنحضرت علیہ السلام کے زمانہ میں ظہور میں نہیں آیا اور ممکن نہیں کہ خدا کی پیش گوئی میں کچھ تخلف ہو۔ اس لئے اس آیت کی نسبت ان سب متقدمین کا اتفاق ہے کہ جو ہم سے پہلے گذر چکے ہیں کہ یہ عالمگیر غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ظہور میں آئے گا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۸۳، خزائن ج۲۳ ص۹۱)
مگر مرزاقادیانی کے زمانہ میں ایسا نہیں ہوا۔ اس لئے مسیحیت کا دعویٰ محض افتراء ہے۔
۲… مسیح موعود کے زمانہ میں مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل جاری ہوگی۔
’’اور پیش گوئی آیت کریمہ واذالعشا رعطلت پوری ہوئی اور پیش گوئی حدیث لیترکن القلاص ولا یسعی علیہما نے اپنی پوری چمک دکھلائی۔ یہاں تک کہ عرب وعجم کے ایڈیٹران اخبار، اور جرائد والے اپنے پرچوں میں بول اٹھے، کہ مدینہ اور مکہ کے درمیان جو ریل طیار ہو رہی ہے۔ یہی اس پیشگوئی کا ظہور ہے۔ جو قرآن اور حدیث میں ان لفظوں سے کی گئی تھی۔ جو مسیح موعود کے وقت کا یہ نشان ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۲، خزائن ج۱۹ ص۱۰۸)
۳… مسیح موعود حج کرے گا۔ ’’آنحضرت علیہ السلام نے آنے والے مسیح کو ایک امتی ٹھہرایا اور خانہ کعبہ کا طواف کرتے اس کو دیکھا۔‘‘ (ازالہ ص۴۰۹، خزائن ج۳ ص۳۱۲)
۴… ’’دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر اسلام قبول کر کے ان کے ساتھ بیت اﷲ کا طواف کرے گا۔‘‘
’’فی الحقیقت مارا وقتے حج راست وزیبا آید کہ دجال از کفر ودجل دست باز داشتہ ایماناً واخلاصاً وگرد کعبہ بگردد چنانچہ از قرار حدیث مسلم عیاں می شود کہ جناب نبوت انتساب(صلوٰۃ اﷲ علیہ وسلامہ) روید نددجال ومسیح موعود فی آن واحد طواف کعبہ میکند‘‘
(ایام الصلح(اردو) ص۱۶۹، خزائن ج۱۴ ص۴۱۶،۴۱۷)
۵… ’’مسیح موعود بعد ظہور نکاح کریںگے اور اس سے اولاد پیدا ہوگی۔ اس پیش گوئی کی تصدیق کے لئے جناب رسول اﷲ علیہ السلام نے بھی پہلے ایک پیش گوئی فرمائی ہے کہ ’’یتزوج ویولدلہ‘‘ یعنی وہ مسیح موعود بیوی کرے گا اور نیز وہ صاحب اولاد ہوگا۔ اب ظاہر ہے کہ تزوّج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں۔ کیونکہ عام طور پر ہر ایک شادی کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے۔ اس میں کچھ خوبی نہیں۔ بلکہ تزوّج سے مراد وہ خاص تزوّج ہے۔ جو بطور نشان ہوگا۔ ‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷)
مرزاقادیانی کا نکاح بطور نشان ’’محمدی بیگم‘‘ سے ہونے والا تھا۔ مگر افسوس قسمت نے یاوری اور عمر نے وفانہ کی اور دل کی حسرت دل ہی میں رہ گئی ؎
اگر وہ جیتا رہتا یہی انتظار ہوتا
۶… ’’مسیح موعود دعوے کے بعد چالیس سال زندہ رہے گا۔ حدیث سے صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود اپنے دعوے کے بعد چالیس برس دنیا میں رہے گا۔ ‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۲۷، خزائن ج۱۷ ص۳۱۱)
مگر مرزاقادیانی ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں پیدا ہوئے: ’’میری پیدائش سکھوں کے آخری وقت میںہوئی ہے۔ ‘‘ (کتاب البریہ ص۱۵۹، خزائن ج۱۳ ص۱۷۷)
مرزاغلام احمد قادیانی کی پیدائش ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں ہوئی ہے۔ (نور الدین ص۱۷۰)
’’۱۸۳۹ء مطابق ۱۲۵۵ھ دنیا کی تواریخ میں بہت بڑا مبارک سال تھا۔ جس میں خداتعالیٰ نے مرزاغلام مرتضی کے گھر قادیان میں موعود مہدی پیدا فرمایا۔ جس کے لئے اتنی تیاریاں زمین وآسمان پر ہورہی تھیں۔ ‘‘
(مسیح موعود کے مختصر حالات از عمر دین قادیانی ملحقہ براہین حصہ اوّل ص۶۰ طبع اوّل)
مرزاقادیانی نے دعویٰ مجددیت یا مسیحیت براہین احمدیہ حصہ۴ ص۲۷۱ پر کیا۔ جس کے طباعت کی تاریخ یا غفور سے ۱۲۹۷ھ نکلتی ہے۔ گویا عمر کے بیالیسویں سال اور صدی سے تین سال پہلے دعویٰ کیاگیا یاپوری صدی پر دعویٰ کیا۔ جیسا کہ ازالہ اوہام کی اس عبارت اور مجدد کی حدیث ’’علے راس کل مائۃٍ‘‘ سے ظاہر ہے۔
’’یہی وہ مسیح ہے کہ جو تیرہویں صدی کے پورے ہونے پر ظاہر ہونے والا تھا۔ پہلے سے یہی تاریخ ہم نے نام میںمقرر کررکھی تھی اور وہ یہ نام ہے غلام احمد قادیانی۔‘‘
(ازالہ ص۱۸۶، خزائن ج۳ ص۱۸۹، ۱۹۰)
مگر اس صورت میں بعثت کی مدت مقرر چالیس سال سے پانچ سال زیادہ ہو جائیں گے۔
یا دعوی ۱۲۹۰ھ میں ہوا جیسا کہ تحفہ گولڑویہ میں مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’دانی ایل نبی بتلاتا ہے کہ اس نبی آخر الزمان کے ظہور سے (جو محمد مصطفی علیہ السلام ہے) جب بارہ سو نوے برس گذریں گے تو وہ مسیح موعود ظاہر ہوگا۔‘‘ (حاشیہ تحفہ گولڑویہ ص۲۰۶، خزائن ج۱۷ ص۲۹۲)
اس صورت میں مرزا قادیانی کی عمر دعوے کے وقت ۳۵برس کی ہوگی۔ جو زمانۂ بعثت سے پانچ سال کم ہے۔ حدیث مجددیت کے بھی مخالف ہے۔
بالاتفاق ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء مطابق ربیع الثانی۱۳۲۶ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔ اس حساب سے دعوے کے بعد ۲۹ یا ۲۶ یا ۳۶ برس آپ زندہ رہے اور ۴۰برس جو مسیح موعود کے رہنے کی مدت تھی۔ اس سے پہلے ہی چل بسے اور مسیح کی نشانی آپ پر صادق نہ آئی۔
۷… ’’اگر قرآن نے میرا نام ابن مریم نہیں رکھا تو میں جھوٹا ہوں۔‘‘
(تحفۃ الندوہ ص۵،خزائن ج۱۹ ص۹۸)
ابھی ’’ازالہ اوہام‘‘ کے حوالے سے گذرا ہے کہ آپ نے اپنا نام ’’غلام احمد قادیانی‘‘ بتایا ہے۔ جس میںبحساب جمل ۱۳۰۰ عدد ہونے کی وجہ سے ۱۳۰۰ھ پر مبعوث ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کیا قرآن میں غلام احمد قادیانی بن مریم لکھا ہوا ہے؟۔ اگر نہیں ہے تو مرزاقادیانی اپنے بیان کے موافق یقینا جھوٹا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
تردید صداقت مرزاقادیانی ( لو تقول تحریف نمبر: ۱ کاجواب )
لو تقول
تحریف نمبر: ۱… ’’لوتقول علینا بعض الا قاویل لا خذنا منہ بالیمین ثم لقطعنا منہ الوتین (الحاقہ:۴۴،۴۶)‘‘ اور اگر وہ (محمد علیہ السلام ) ہم پر بعض افتراء باندھتے تو ہم ان کو داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس کی شہ رگ کاٹ ڈالتے۔
مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ: ’’اگر اس مدت تک اس مسیح کا ہلاکت سے امن میں رہنا اس کے صادق ہونے پر دلیل نہیں تو اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باﷲ آنحضرت علیہ السلام کا ۲۳برس تک موت سے بچنا آپ کے سچا ہونے پر بھی دلیل نہیں… یہ قرآنی استدلال بدیہی الظہور جب ہی ٹھہر سکتا ہے۔ جبکہ یہ قاعدہ کلی مانا جائے کہ خدا مفتری کو… کبھی مہلت نہیں دیتا… آج تک علماء امت سے کسی نے یہ اعتقاد ظاہر نہیں کیا کہ کوئی مفتری علیٰ اﷲ تیئس برس تک زندہ رہ سکتا ہے… میرے دعوے کی مدت تیئس برس ہو چکی ہے۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ موسومہ اشتہار پانچ سو روپیہ ص۴، خزائن ج۱۷ ص۴۲،۴۳)
اسی کتاب کے (ص۲) پر لکھا ہے کہ: ’’شرح عقائد نسفی میں بھی عقیدے کے رنگ میں اس دلیل کو لکھا ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۲، خزائن ج۱۷ ص۳۹)
اور توریت میں بھی یہی درج ہے کہ جھوٹا نبی قتل کیا جاتا ہے۔

جواب نمبر:۱… یہ آیت رسول اﷲ علیہ السلام کی شان میں اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے نازل ہوئی، کہ اگر وہ اﷲ سبحانہ کی طرف بعض باتوں کی جھوٹی نسبت کر دیتے تو ان کو فوراً ہلاک کر دیا جاتا، اور ایک زمانہ دراز تک کبھی مہلت نہ دی جاتی، اور سورۂ بنی اسرائیل میں اسی فیصلہ کو وضاحت کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے۔ کہ: ’’وان کادوالیفتنونک عن الذی اوحینا الیک لتفتری علینا غیرہ واذ الا تخذوک خلیلا۰ ولولا ان ثبتناک لقد کدت ترکن الیہم شیئاً قلیلاً۰ اذاً لاذقنک ضعف الحیوۃ وضعف المماۃ ثم لا تجد علینا نصیراً (بنی اسرائیل:۷۳،۷۴،۷۵)‘‘ یعنی قریب تھا کہ کفار تجھے وحی الٰہی سے ہٹا کر افتراء پردازی پر مائل کر دیں۔ اس صورت میں وہ تجھے اپنا دوست بنا لیتے۔ اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو آپ کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ہو جاتے ۔ مگر اس وقت ہم آپ کو دنیا اور آخرت میں دوگنا عذاب دیتے۔ جس پر تجھے کوئی مدد گار نہ ملتا۔‘‘
معلوم ہوا یہ ایک خاص واقعہ ہے۔ اس میں کوئی لفظ کلیت یا عموم پر دلالت کرنے والا موجود نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے اس کو عام ضابطہ یا قاعدہ کلیہ قرار دیا جائے۔ شرح عقائد نسفی میں علامہ تفتازانی رحمۃُ اللہ علیہ کا بھی یہی مطلب ہے۔ کیونکہ وہ جامع کمالات فاضلہ اور اخلاق عظمیہ سے رسول اﷲ علیہ السلام کی نبوت پر استدلال کر رہے ہیں۔ ہر مدعی ٔ نبوت کی نبوت کو اس سے ثابت نہیں کرتے۔ جیساکہ اس عبارت سے ظاہر ہے۔ ’’قد یستدل ارباب البصائر علیٰ نبوۃ بوجہین احد ہما بالتواتر من احوالہ قبل النبوۃ وحال الدعوۃ وبعد تما مہا واخلاقہ العظمۃ واحکامہ الحکمیۃ واقدامہ حیث تحجم الابطال ووثوقہ بعصمۃ اﷲ تعالیٰ فی جمیع الاحوال وثباتہ علیٰ حالہ لدی الاہو بحیث لم تجد اعداؤہ مع شدۃ عداوتہم وحرصہم علے الطعن فیہ مطعنا ولا الی القدح فیہ سبیلا فان العقل یجزم بامتناع اجتماع ہذا الامور فی غیر الانبیاء وان یجمع اﷲتعالیٰ ہذہ الکمالات فی حق من یعلم انہ یفتری علیہ ثم یمہلہ ثلثا وعشرین سنۃ (شرح عقائد نسفی مجتبائی ص۱۳۶،۱۳۷، مبحث النبوات)‘‘
اس میں جملہ ضمیریں رسول اﷲ علیہ السلام کی طرف راجع کی گئیں ہیں اور انبیائo میںسے وہی جامع کمالات اور اخلاق عظیمہ کے ساتھ متصف ہیں۔ جیسا کہ: ’’بعثت لاتمم حسن الاخلاق (الحدیث مؤطا ص۷۰۵ باب فی حسن الخلق)‘‘ وآیت ’’انک لعلیٰ خلق عظیم (القلم:۴)‘‘ سے ظاہر ہے۔ اس لئے شرح عقائد کی عبارت کو معیار نبوت میں کلیتاً پیش کرنا ہر گز صحیح نہیں اور اگر آیت کی دلالت بالفرض کلیت پر تسلیم کر لی جائے تو رسول اﷲ علیہ السلام کے حالات کو سامنے رکھ کر کلیت اخذ کرنی پڑے گی۔ جیسا کہ خود مرزاقادیانی نے ۲۳سالہ مہلت اور نبی کاذب کی قید آنحضرت علیہ السلام کے حالات ہی سے اربعین وغیرہ میں لگائی ہے۔ ورنہ آیت میںوحی نبوت اور۲۳سال مدت کی کوئی قید مذکور نہیں ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’خداتعالیٰ کی تمام پاک کتابیں اس بات پر متفق ہیں کہ جھوٹا نبی ہلاک کیا جاتا ہے۔ اب اس کے مقابل میں یہ پیش کرنا کہ ’’اکبر بادشاہ‘‘ نے نبوت کا دعویٰ کیا یا ’’روشن دین جالندھری‘‘ نے دعویٰ کیا۔ اور وہ ہلاک نہیں ہوئے۔ یہ ایک دوسری حماقت ہے۔ جو ظاہر کی جاتی ہے … پہلے ان لوگوں کی خاص تحریر سے ان کا دعویٰ ثابت کرنا چاہئے… کہ میں خدا کا رسول ہوں… کیونکہ ہماری تمام بحث وحی نبوت میں ہے۔‘‘ (ضمیمہ اربعین نمبر۴ ص۱۱، خزائن ج۱۷ ص۴۷۷)
۲… ’’ہر گز ممکن نہیں کہ کوئی شخص جھوٹا ہو کر اور خدا پر افتراء کر کے…تیئس برس تک مہلت پا سکے۔ ضرور ہلاک ہوگا۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۵، خزائن ج۱۷ ص۴۳۴)
۳… ’’یہی قانون خدا تعالیٰ کی قدیم سنت میں داخل ہے کہ وہ نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے کو مہلت نہیں دیتا۔‘‘ (تحفہ قیصریہ ص۶، خزائن ج۱۲ ص۲۵۸)
جس طرح نبوت اور تیئس سالہ مدت کی قید رسول اﷲ علیہ السلام کے حالات سے لگائی گئی ہے۔ اسی طرح سچے اور صادق ہونے کی قید کا اضافہ کرنا بھی ضروری ہوگا، اور اس وقت آیت کا مفادیہ ہوگا کہ جو سچا نبی کسی غیر نازل شدہ حکم کی جھوٹی نسبت اﷲ سبحانہ کی طرف کرے گا وہ ہلاک کیا جائے گا، اور آیت میں بعض الاقاویل کی قید کا فائدہ بھی اسی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ جب کہ نبی سے سچا نبی مراد لیا جائے ورنہ جھوٹے مدعی نبوت کی ہر وہ بات جس کو وحی الٰہی کہتا ہے۔ جھوٹی ہے اور یہی مطلب توریت کی آیت کا ہے۔
معاملات دنیوی میں بھی اس بہروپیہ سے جو حاکم کے بہروپ میں کوئی حکم نافذ کرے مواخذہ نہیں ہوتا۔ مگر ایک سرکاری عہدہ دار حکومت سے حکم واحکام حاصل کرنے کے بغیر اگر کوئی حکم نافذ کرے گا تو حکومت اس سے باز پرس کرے گی۔شرح عقائد میں ۲۳سال مہلت اگر معیاربن سکتی ہے تو فی الجملہ اسی طرح بن سکتی ہے کہ اس کے ساتھ دیانت اور اتقاء راست گفتاری، استقامۃ توکل علیٰ اﷲ وغیرہ کو مدعی نبوت میں ثابت کیا جائے۔ جیسا کہ شرح عقائد میں کہا گیا ہے اور یہ شرط مرزاقادیانی میں کلیتاً مفقود ہے۔ شرح عقائد کی ایک بات کو ماننا اور جو اپنے خلاف ہو۔ اس کا نام نہ لینا کہاں کا انصاف ہے اور جو مدعیان کاذب ہیں۔ ان کی سزا دنیا میں کوئی نہیں بیان کی گئی۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ: ’’ومن اظلم ممن افتریٰ علیٰ اﷲ کذباً اوقال اوحی الیّ ولم یوح الیہ شئی ومن قال سانزل مثل ماانزل اﷲ ولوتری اذا لظالمون فی غمرات الموت والملائکۃ باسطوایدیہم اخرجوا انفسکم الیوم تجزون عذاب الہون بماکنتم تقولون علی اﷲ غیر الحق (انعام :۹۳)‘‘
اس میں مقررہ وقت پر موت آنے کے علاوہ نبوت کے جھوٹے دعویدار کی کوئی سزا دنیوی بیان نہیں کی۔ بلکہ سورۂ اعراف میں ہے کہ ایسے مفتری کی عمر مقررہ مدت تک پوری کر دی جائے گی۔ ’’فمن اظلم ممن افتریٰ علیٰ اﷲ کذباً اوکذب بایتہ اولئک ینا لہم نصیبہم من الکتاب (اعراف:۳۷)‘‘ جلالین میں’’من الکتاب‘‘ کی یہ تفسیر کی ہے کہ: ’’مما کتب لہم فی اللوح المحفوظ من الرزق والاجل وغیر ذالک (جلالین ص۱۳۲)‘‘
جواب نمبر:۲… لہٰذا یہ کہنا کہ نبوت کے جھوٹے مدعی کو ہلاک کرنا خدا کی سنت ہے۔ بالکل غلط اور سرتاپا جھوٹ ہے اور اگر مان لیں کہ جھوٹے مدعی نبوت کو ۲۳برس تک مہلت نہیں ملتی تو پھر بھی مرزاقادیانی کاذب کے کاذب ہی رہتے ہیں۔ کیونکہ مرزاقادیانی نے نبوت کا دعویٰ ۱۹۰۲ء میں کیا تھا۔ جیسا کہ مرزامحمود جانشین مرزا نے (القول الفصل ص۲۴) پر لکھا ہے کہ: ’’تریاق القلوب کی اشاعت تک جو اگست۱۸۹۹ء سے شروع ہوئی اور۲۵؍اکتوبر۱۹۰۲ء میں ختم ہوئی۔ آپ (مرزاقادیانی) کا یہی عقیدہ تھا کہ… آپ کو جو نبی کہا جاتا ہے یہ ایک قسم کی جزوی نبوت ہے۔ ۱۹۰۲ء کے بعد میں آپ کو خدا کی طرف سے معلوم ہوا کہ آپ نبی ہیں اور ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل قریبا ساڑھے دس بجے مرزاقادیانی مرض ہیضہ سے لاہور میں ہلاک ہوئے۔ اس دعویٰ نبوت کی کل مدت چھ برس ہوئی۔ مگر اربعین نمبر۴ ص۶ کی رو سے سچے نبی کی مدت تئیس برس ہونی چاہئے! جو مرزاقادیانی میں نہیں پائی جاتی۔ اس لئے آپ جھوٹے کے جھوٹے ہی رہے۔ جب کہ یہ آیت مرزاقادیانی کے خیال میں نبوت کا معیار ہے تو لاہوری پارٹی کا اس آیت سے مرزاقادیانی کی صداقت پر استدلال کرنا ان کے دعویٔ نبوت کو تسلیم کرنا ہے۔ جس کو وہ اپنے خیال میں افتراء سمجھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ’’محمد علی‘‘ امیر جماعت لاہور لکھتا ہے کہ:’’جو شخص اس امت میں سے دعویٔ نبوت کرے۔ کذاب ہے۔‘‘ (النبوۃ الاسلام ص۸۹،باب سوم ختم نبوت)
بلکہ جس کا دعویٔ نبوت نہ ہو اس کی صداقت پر اس آیت کو پیش کرنے والا بقول مرزاقادیانی بے ایمان ہے۔ ’’ بے ایمانوں کی طرح قرآن شریف پر حملہ کرنا ہے اور آیت لوتقول کو ہنسی ٹھٹھے میں اڑانا۔‘‘ (ضمیمہ اربعین ص۱۲، خزائن ج۱۷ ص۴۷۷)

س… اور یہ کہنا کہ مفتری کے لئے قتل ہونا ضروری ہے اور مرزاقادیانی قتل نہیں ہوا۔ اس لئے وہی سچا تھا۔ کئی وجہ سے غلط ہے۔
۱… قرآن شریف میں قتل کی کوئی قید نہیں۔
۲… خود مرزاقادیانی نے مفتری کی سزا موت بتائی ہے۔ قتل نہیں کہا۔‘‘
’’اگر وہ ہم پر افتراء کرتا تو اس کی سزا موت تھی۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۳، خزائن ج۱۷ ص۳۸)
’’اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باﷲ آنحضرت علیہ السلام کا تیئس برس تک موت سے بچنا آپ کے سچا ہونے پر بھی دلیل نہیں۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۴، خزائن ج۱۷ ص۴۲)
۳… مرزاقادیانی نے (ضمیمہ اربعین میں استثناء باب۱۸ آیت ۸تا۲۰) سے استدلال کیا ہے کہ جھوٹا نبی میت (یعنی مر جائے گا) اور اس بات کے ثبوت میں کہ میت کے معنے عبرانی زبان میں مرنے کے ہیں۔ مرزاقادیانی نے یہ عبارت لکھی ہے کہ: ’’جب میں صبح کو اٹھی کہ بچے کو دودھ دوں تو وہیں میت دیکھو وہ مرا پڑا تھا۔‘‘ (ضمیمہ اربعین ص۹، خزائن ج۱۷ ص۴۷۵)
آگے لکھتے ہیں کہ: ’’میت جس کا ترجمہ پادریوں نے قتل کیا ہے بالکل غلط ہے۔ عبرانی لفظ میت کے معنے ہیں۔ مر گیا یا مرا ہوا ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ مدعی کاذب کا قتل ہونا ضروری نہیں بلکہ مرزاقادیانی کے خیال میں تئیس برس سے پہلے مر جانا بھی اس کے کذب کی دلیل ہے۔ اس لئے مرزاقادیانی بموجب اپنے فیصلہ کے کاذب ٹھہرا۔‘‘
۴… ’’قتل ہونا کاذب ہونے کی نشانی نہیں ہے۔ قرآن شریف میں یہودیوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا گیاہے۔ ’’قتلہم الانبیاء بغیر حق (النسائ:۱۵۵)‘‘ اگر جھوٹے مدعی کو قتل کیا جاتاتو ان کی کبھی مذمت نہ کی جاتی اور نہ ایسے قتل کو قتل ناحق کہنا صحیح ہوتا۔ چنانچہ خود مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’اے بنی اسرائیل کیا تمہاری یہ عادت ہوگئی کہ ہر ایک رسول جو تمہارے پاس آیا تو تم نے بعض کی ان میںسے تکذیب کی اور بعض کو قتل کر ڈالا۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۳۴، خزائن ج۵ ص۳۴)
جواب نمبر:۳… ایسی نشانی جس کا ظہور آغاز نبوت سے ۲۳برس بعد ہو صدق وکذب کا معیار نہیں بن سکتی۔ ورنہ تیئس سال تک نبوت کا ثبوت ہی موقوف رہے گا اور ایک نبی اس سے پہلے کبھی نبی نہیں بن سکے گا اور نہ اس عرصہ میں مرنے والے کافر یا مسلمان کہلانے کے مستحق ہوں گے۔ اس سے مرزاقادیانی کی یہ شرط بالکل غلط ہے کہ: ’’وہاں اس بات کا واقعی طور پر ثبوت ضروری ہے کہ اس شخص نے …تیئس برس کی مدت حاصل کرلی۔‘‘
(اربعین نمبر۳ ص۲۲، خزائن ج۱۷ ص۴۰۹)
جواب نمبر:۴… اور اگر یہ سزا مطلق الہام کے جھوٹے مدعی کے لئے ہے اور دعوے نبوت اس میں کوئی شرط نہیں تو چاہئے تھا کہ دنیا میں جھوٹے مدعیان الہام کو ۲۳سال کی مہلت کبھی نہ ملتی۔ باوجود یہ کہ دنیا کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ پہلے مدعیان الہام کو مرزاقادیانی سے زیادہ کامیابی نصیب ہوئی اور ان کو مہلت کا زمانہ مرزاقادیانی کے زمانۂ مہلت سے زیادہ ملا۔ چنانچہ :
۱… حسن بن صباح نے ۴۸۳ھ میں الہام کا دعویٰ کیا ۵۱۸ھ میں دعوے کے ۲۵سال بعد مرا اور ایک کثیر جماعت متبعین کی چھوڑی۔
۲… مسیلمۂ کذاب نے رسول اﷲ علیہ السلام کی زندگی میں نبوت کا دعویٰ کیا اور تھوڑے عرصہ میں بہت سے لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے۔
جب حضرت ابوبکرصدیقb نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اس کو قتل کرنے کے لئے خالد بن ولیدb کی سرکردگی میں مسلمانوں کا لشکر بھیجا۔ تو مسیلمۂ کذاب ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک لاکھ کی جمعیّت لے کر میدان میں نکلا اور شکست کھا کر مارا گیا۔
۳… عبدالمومن افریقی نے ۲۷۷ھ میں مہدیت کا دعویٰ کیا اور ۲۳برس بعد ۳۰۰ھ میں مرا۔
۴… عبداﷲ بن تومرت مہدی بن کر ۲۵برس تک تبلیغ کرتا رہا اور جب کافی جمعیت اکٹھی کر لی تو سلطنت حاصل کر کے ۲۰سال حکومت کی اور مرگیا۔
۵… سید محمد جونپوری نے سکندر لودھی کے زمانہ ۹۰۱ھ میں مکہ معظمہ پہنچ کر بیت اﷲ میں مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور ۹۰۱ھ تک اپنے وطن میں واپس آکر مذہب کی تبلیغ کرنی شروع کی۔ جس سے راجپوتانہ گجرات کا ٹھیا واڑ سندھ میں بہت سے لوگوں نے اس کی بیعت اختیار کرلی۔ اس قسم کی اور بہت سی مثالیں تاریخی کتابوں میں موجود ہیں اور مطلق مفتری علی اﷲ کی بھی یہ سزا نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یہود ونصارٰی جو آئے دن توریت وانجیل میں تحریفیں کر کے محرف حصہ کواﷲ کی آیتیں کہتے رہے ہیں۔ آج تک ہلاک نہیں ہوئے اور نہ قرآن عزیز میں ان کی کوئی دنیاوی سزا بیان فرمائی گئی ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ: ’’ویقولون ہومن عند اﷲ وما ہو من عنداﷲ ویقولون علی اﷲ الکذب وہم یعلمون‘‘ (آل عمران:۷۸) عام کافروں کی نسبت ارشاد ہے۔ ’’یفترون علی اﷲ الکذب (مائدہ:۱۰۳) مگر پھر بھی ان کو کوئی دنیاوی سزا نہیں ملتی بلکہ ایسے لوگوں کو مہلت دی جاتی ہے۔ سچ ہے کذابوں، دجالوں کی رسی دراز ہے مولانا فرماتے ہیں کہ:

تو مشو مغرور برحلم خدا
دیرگیرد سخت گیرد مرترا
جواب نمبر:۵
… پھر مرزاقادیانی نے ۲۳برس کی مدت ابتداء ’’تجویز نہیں کی بلکہ جتنا زمانہ ان کے دعوے کو گذرتا گیا اتنی ہی مدت بڑھاتے رہے۔ پہلے یہ خیال تھا کہ مفتری علیٰ اﷲ کو فوراً اور دست بدست سزا دی جاتی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ: ’’قرآن شریف کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا مفتری اس دنیا میں دست بدست سزا پا لیتا ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۴۹، خزائن ج۱۱ ص۴۹)
’’وہ پاک ذات جس کے غضب کی آگ وہ صاعقہ ہے کہ ہمیشہ جھوٹے ملہموں کو بہت جلد کھاتی رہی ہے… بے شک مفتری خدا کی لعنت کے نیچے ہے… اور جلد مارا جاتا ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۵۰، خزائن ج۱۱ ص۵۰)
’’تورات اور قرآن شریف دونوں گواہی دے رہے ہیں کہ خدا پر افتراء کرنے والا جلد تباہ ہوتا ہے۔‘‘ (انجام آتھم ص۶۳، خزائن ج۱۱ ص۶۳)
پھر (نشان آسمانی مطبوعہ جون ۱۸۹۲ئ) میں لکھتے ہیں کہ: ’’دیکھو خداتعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے کہ جو میرے پر افتراء کرے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اور میں جلد مفتری کو پکڑتاہوں اور اس کو مہلت نہیں دیتا۔ (قرآن میں ایسا کہیں نہیں آیا) لیکن اس عاجز کے دعوے مجدد اور مثیل مسیح ہونے پر اب بفضلہ تعالیٰ گیارہواں برس جاتا ہے کیا یہ نشان نہیں۔‘‘
(نشان آسمانی ص۳۷، خزائن ج۴ ص۳۹۷)
پھر اس کے آٹھ ماہ بعد (آئینہ کمالات مطبوعہ فروری ۱۸۹۳ئ) میں لکھا ہے کہ: ’’یقینا سمجھو کہ اگر یہ کام انسان کا ہوتا تو… اپنی اس عمر تک ہر گز نہ پہنچتا جو بارہ برس کی مدت اور بلوغ کی عمر ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات ص۵۴، خزائن ج۵ ص۵۴)
پھر انوار الاسلام مطبوعہ ۵؍دسمبر۱۸۹۴ء میں ایک سال نو ماہ بعد تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’یا کبھی خدا نے کسی جھوٹے کو ایسی لمبی مہلت دی ہے؟ کہ وہ بارہ برس سے برابر الہام اور مکالمہ الٰہیہ کا دعویٰ کر کے دن رات خداتعالیٰ پر افتراء کرتا ہو اور خداتعالیٰ اس کو نہ پکڑے۔ بھلا اگر کوئی نظیر ہے تو بیان کریں۔‘‘ (اس کی نظیریں گذر چکیں ہیں) (انوار الاسلام ص۵۰، خزائن ج۹ ص۵۱)
اس کے ۵ ماہ بعد ضیاء الحق مطبوعہ بارہ مئی ۱۸۹۵ء کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ: ’’خداتعالیٰ نے آج سے سولہ برس پہلے الہام مندرجہ براہین احمدیہ میں اس عاجز کا نام عیسیٰ رکھا… اور خدا نے بھی اس قدر لمبی مہلت دے دی۔ جس کی دنیا میں نظیر نہیں۔‘‘ (ضیاء الحق ص۶۰، خزائن ج۹ ص۳۰۸)
نوٹ! براہین احمدیہ ۱۸۸۰ئ، ۱۸۸۲ء کی تالیف ہے۔
(دیکھو نزول المسیح ص۱۱۹، خزائن ج۱۸ ص۴۹۷ حاشیہ)
اور ۱۳۰۸ھ مطابق ۱۸۹۱ء میں مرزاقادیانی نے (فتح الاسلام ص۱۷، خزائن ج۳ ص۱۱) اور (ازالہ اوہام ص۲۶۱، خزائن ج۳ ص۲۳۱) میں مسیحیت کا دعویٰ کیا۔
پھر قریباً ڈیڑھ سال بعد ’’انجام آتھم‘‘ مطبوعہ ۱۸۹۷ء میں رقم طراز ہیں کہ: ’’میرے دعویٰ الہام پر قریباً بیس برس گذر گئے۔‘‘ (انجام آتھم ص۴۹، خزائن ج۱۱ ص۴۹)
’’کیا یہی خداتعالیٰ کی عادت ہے کہ ایسے کذاب اور بے باک اور مفتری کو جلد نہ پکڑے۔ یہاں تک کہ بیس برس سے زیادہ عرصہ گذر جائے۔‘‘ (انجام آتھم ص۵۰، خزائن ج۱۱ ص۵۰)
اور (سراج منیر ص۲، خزائن ج۱۲ ص۴ مطبوعہ ۱۸۹۷ئ) میں پچیس سال لکھے ہیں: ’’کیا کسی کو یاد ہے کہ کاذب اور مفتری کو افترائوں کے دن سے پچیس برس تک کی مہلت دی گئی ہو، جیسا کہ اس بندہ کو۔‘‘ ایک ہی سال میں بیس اور اسی میں پچیس کے جھوٹ کو مرزائی صاحبان سچ کر کے دکھادیںگے؟۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ ۱۹۰۰ء میں الہام کی مدت ۲۴ سال بتا رہے ہیں۔ ’’کیا کسی ایسے مفتری کا نام بطور نظیر پیش کر سکتے ہو۔ جس کو افتراء اور دعویٰ وحی اﷲ کے بعد میری طرح ایک زمانۂ دراز تک مہلت دی گئی ہو… یعنی قریباً ۲۴برس گذر گئے۔‘‘
(اشتہار مطبوعہ۱۹۰۰ء معیار الاخیار مندرجہ تبلیغ رسالت حصہ۹ ص۲۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۶۸)
پھر اربعین مطبوعہ ۱۹۰۰ء میں قریبا تیس برس لکھتے ہیں کہ: ’’قریب تیس برس سے یہ دعویٰ مکالمات الٰہیہ شائع کیاگیا ہے۔‘‘ (اربعین نمبر۳ ص۷، خزائن ج۱۷ ص۳۹۲)
اور ۱۹۰۲ء میں تیئس ہی برس رہ جاتے ہیں۔ ’’مفتری کو خدا جلد پکڑتا ہے اور نہایت ذلت سے ہلاک کرتا ہے۔ مگر تم دیکھتے ہو کہ میرا دعویٰ منجانب اﷲ ہونے کے تیئس برس سے بھی زیادہ ہے۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین ص۶۳، خزائن ج۲۰ ص۲۴، ونحوہ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۳، خزائن ج۱۷ ص۴۰ مطبوعہ ۱۹۰۲ئ)
مہلت کی مدت میںاختلاف بیانی اختیار کرنے کی یہ وجہ ہے کہ اگر پہلے ہی تیئس سال مہلت کی شرط لگادیتے تو لوگوں کی طرف سے قتل ہو جانے کا خطرہ زیادہ لاحق ہوجاتا۔ اس لئے اس کا نام تک نہ لیا اورجو وقت گورنمنٹ برطانیہ کی مہربانی سے ان کے زیر سایہ گذرتا رہا۔ اسی کو معیار صداقت بناتے رہے۔ اب تو بقول اکبر الہ آبادی یہ حال ہے۔

گورنمنٹ کی خیر یارو مناؤ
گلے میں جو اتریں وہ تانیں اڑاؤ
کہاں ایسی آزادیاں تھیں میسر
’’انا الحق‘‘ کہو اور پھانسی نہ پائو

س… امام رازی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’ہذا ذکرہ علی سبیل التمثیل بما یفعلہ الملوک بمن یتکذب علیہم فانہم لا یمہلونہ بل یضربون رقبۃ فی الحال (تفسیر کبیر ج۳۰ص۱۱۸)‘‘
پھر لکھتے ہیں کہ: ’’ہذا ہو الواجب فی حکمۃ اﷲ تعالیٰ لئلا یشتبہ الصادق بالکاذب (تفسیر کبیر ج۳۰ص۱۱۹)‘‘
تفسیر روح البیان میں ہے کہ:’’وفی الایۃ تنبیہ علیٰ ان النبی علیہ السلام لوقال من عند لنفسہ شیئا اوزادو نقص حرفا واحد علی ما اوحی الیہ لعاقبہ اﷲ وہواکرم الناس علیہ فماظنک بغیرہ (تفسیر کبیر ج۴ص۴۶۳)‘‘
معلوم ہوا کہ مفسرین کے خیال میں اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ مفتری علیٰ اﷲ کو زیادہ مہلت نہیں ملتی۔ لہٰذا مرزاقادیانی کا دعویٰ کے بعد تئیس سال زندہ رہنا ان کی صداقت کی دلیل ہے؟۔

ج… امام رازی رحمۃُ اللہ علیہ کی پہلی عبارت کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح بادشاہ ان لوگوں کو جو جعلی فرامین کو اصل کی طرح بنا کر لوگوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں پکڑ لیتا ہے۔ اسی طرح خداتعالیٰ اس شخص کو جو کذب کو سچ کی طرح بنا کر خدا کی طرف منسوب کرتا ہے۔ پکڑ لیتا ہے اور اس کے جھوٹ اور فریب کو عام لوگوں پر ظاہر کرادیتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جس کا کذب واضح نہ ہو اس کو بھی پکڑ لیا جائے اور کسی مفتری علی اﷲ کو جھوٹ نہیں بولنے دیتے۔ جس طرح حکومت اس شخص کو جو نوٹ کی شکل کی رسید تیار کرے سزا نہیںدیتی۔ لیکن جعلی نوٹ بنانے والوں کو فوراً گرفتار کر لیتی ہے۔ اسی طرح جس مفتری علیٰ اﷲ کا جھوٹ سچ کے مشابہ ہوا اس کو پکڑ لیا جاتا ہے۔ چنانچہ امام رازی رحمۃُ اللہ علیہ کی وہ دوسری تحریر جس کو مرزائی صاحبان پورا نقل نہیں کرتے۔ ہمارے بیان کی زبردست مؤید ہے ملاحظہ ہو۔ ’’واعلم ان حاصل ہذا الوجوہ انہ لونسب الینا قولا لم نقلہ لمعناہ عن ذلک امابواسطۃ اقامۃ الحجۃ فاماکنا نقیض لہ من یعارضہ فیہ وحینئذٍ یظہر للناس کذبہ فیہ فیکون ذالک بطالالدعواہ وہد مالکلامہ وامابان نسلب عندہ القدرۃ علیٰ التکلم بذالک القول وہذا ہو الواجب فی حکمۃ اﷲ لئلا یشتبہ الصادق بالکاذب (تفسیر کبیر ج۳۰ ص۱۱۹)‘‘
ان تمام وجوہ مذکورہ کا یہ حاصل ہے کہ اگر ہماری طرف سے کسی جھوٹے قول کی نفی کی جائے تو ہم اس کو اور دلائل سے جھوٹا ثابت کر دیتے ہیں، اور ایسا آدمی اس کے مقابلہ میں کھڑا کردیتے ہیں جو اس سے معارضہ کرتا ہے۔ جس سے اس کا جھوٹ لوگوں پر ظاہر ہو جاتا ہے، اور اس کے دعوے کے باطل ہونے میںاہل فہم کو شبہ نہیں رہتا، اور یاکبھی اس کی زبان کو خدا کی طرف جھوٹی نسبت کرنے سے روک لیتا ہے، اور ایسا کرنا خداتعالیٰ پر ضروری ہے تاکہ جھوٹ سچ کے ساتھ مشتبہ نہ ہوجائے۔ معلوم ہوا کہ امام رازی رحمۃُ اللہ علیہ کے نزدیک مفتری علی اﷲ کو پکڑنے کے یہ معنی ہیں کہ اس کا کذب لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی آدمی اس کے مقابلہ میں کھڑا کردیاجائے گا، اور اس کے ہاتھ سے کوئی ایسی نشانی ظاہر نہیں کی جائے گی۔جس کو اس نے اپنی سچائی کے لئے بطور پیش گوئی ذکر کیا ہوگا۔ یا اس سے اس معاملہ میں کذب بیانی کی قدرت ہی لے لی جائے گی۔ دنیا جانتی ہے کہ جس روز سے مرزاقادیانی نے مجددیت اور مسیحیت کے جال پھیلانے کی کوشش کی تھی اسی دن سے علمائے کرام نے اس کے کذب کو ظاہر کرنا شروع کر دیا تھا اور بحمد اﷲ آج اس کے جھوٹ اور فریب کا پردہ ایسا چاک ہوا ہے کہ دنیائے اسلام کا بچہ بچہ اس کے جھوٹے اور مکار ہونے کا قائل ہے۔ مرزائیوں کے تسلیم کرلینے سے اس کا سچا ہونا لازم نہیں آتا۔ اگرایک چور اور ڈاکو کو چند لٹیرے نیک طینت انسان بتائیں تو ان کی گواہی سے وہ نیک نہیں بن جاتا۔ بلکہ حکومت اور سمجھدار لوگوں کی نظر میں وہ بدکار ہی رہتا ہے۔ اسی طرح کافروں کے کہنے سے بتوں کی الوہیت ثابت نہیں ہوتی۔ پھر اﷲتعالیٰ نے ان پیش گوئیوں کو جن کو مرزاقادیانی نے بطور تحدی اپنے صدق وکذب کا معیار بنا کر پیش کیا تھا۔ مرزاقادیانی کا جھوٹا ہونا ظاہر کردیا۔ اگر چہ بڑی تضرع سے ان کے پورے ہونے کی التجائیں کیں۔ مگر ایک نہ سنی، اور مرزاقادیانی کو سربازار رسوا کر کے چھوڑا۔ سبحانہ ما اعظم شانہ! اﷲ سبحانہ تعالیٰ نے وحی نبوت کے دعویٰ کرنے سے اس کی زبان کو روک کر رکھا۔ مرزاقادیانی نے کبھی وحی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ جو خداتعالیٰ کا کلام ہے۔ بلکہ مدتوں الہام ولایت ہی کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کو غلط نظر سے وحی الٰہی کی مثل سمجھتا رہا۔ لیکن جب ۱۹۰۲ء میں مسند نبوت پر اپنے ناپاک قدم رکھنے کی کوشش کی تو غیرت الٰہی نے عذابی مرض سے ہلاک کردیا۔ جیسا کہ مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ: ’’پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے۔ جیسے طاعون وہیضہ وغیرہ۔‘‘
(اشتہار متعلقہ مولوی ثناء اﷲ، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸)
اور ’’روح البیان‘‘ کی عبارت سے توصاف ظاہر ہے کہ ایک سچا نبی اگر وحی ربانی میں کمی زیادتی کرے تو اس کو سزا دی جاتی ہے۔ ہر مفتری کی یہ سزا نہیں ہے ۔ کیا مرزائی جماعت عبداﷲ تیماپوری کو نبی ماننے کے لئے تیار ہے؟۔ جس کے دعویٔ نبوت کو آج ۱۹۳۳ء میں ۲۷سال گذر چکے ہیں۔
جواب نمبر:۶… اس آیت کا سیاق، سباق دیکھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد کسی قاعدہ کلیہ کے طور پر نہیں ہے۔ بلکہ یہ قضیہ شخصیہ ہے اور صرف حضور اکرم علیہ السلام کے متعلق یہ بات کہی جارہی ہے اور یہ بھی اس بناء پر کہ ’’بائبل‘‘ میں موجود تھا کہ اگر آنے والا پیغمبر اپنی طرف سے کوئی جھوٹا الہام یا نبوت کا دعویٰ کرے تو وہ جلد مارا جائے گا۔
چنانچہ عبارت درج ذیل ملاحظہ ہو۔
میں ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تجھ سا… ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا، اور جو کچھ میں اس کو حکم دوں گا۔ (مراد محمد عربی علیہ السلام ہیں) وہ سب ان سے (یعنی اپنی امتوں سے) کہے گا اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کر کہے گا، نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا۔ لیکن جو نبی گستاخ بن کر کوئی ایسی بات میرے نام سے کہے گا جس کے کہنے کا میں نے اس کو حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کچھ کہے گا تو وہ نبی قتل کیا جائے گا۔ (انجیل مقدس عہدنامہ قدیم ص۱۸۴، کتاب استثناء باب۱۸، آیت۱۸تا۲۱)
جواب نمبر:۷… مرزاقادیانی کبھی کہتا کہ میں نبی ہوں۔ پھر انکار کر دیتا۔ مرزاقادیانی نے اپنی زندگی کا آخری خط مورخہ۲۳؍مئی ۱۹۰۸ء کو لکھا جو ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو ’’اخبار عام‘‘ میں چھپا۔ جس میں لکھا: ’’اس نے میرا نام نبی رکھا ہے۔ سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر انکار کر سکتا ہوں۔ میں اس پر قائم ہوں۔ اس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں۔‘‘ یہ خط مورخہ ۲۳؍مئی ۱۹۰۸ء کو لکھاگیا اور ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو چھپا اور اسی روز ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل کو مرزاقادیانی وبائی ہیضہ سے عبرتناک موت کا شکار ہوا، اور اپنے قول کے مطابق کہ خدا جھوٹے کو مہلت نہیں دیتا۔ جھوٹا ثابت ہوا۔ اسی دن ہی ’’لقطعنا منہ الوتین‘‘ پر عمل ہوگیا۔ اﷲتعالیٰ نے ہیضہ سے مرزاقادیانی کی زندگی کی شہ رگ کاٹ دی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
تردید صداقت مرزاقادیانی ( لو تقول تحریف نمبر: ۱ کاجواب )
لو تقول
تحریف نمبر: ۱… ’’لوتقول علینا بعض الا قاویل لا خذنا منہ بالیمین ثم لقطعنا منہ الوتین (الحاقہ:۴۴،۴۶)‘‘ اور اگر وہ (محمد علیہ السلام ) ہم پر بعض افتراء باندھتے تو ہم ان کو داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس کی شہ رگ کاٹ ڈالتے۔
مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ: ’’اگر اس مدت تک اس مسیح کا ہلاکت سے امن میں رہنا اس کے صادق ہونے پر دلیل نہیں تو اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باﷲ آنحضرت علیہ السلام کا ۲۳برس تک موت سے بچنا آپ کے سچا ہونے پر بھی دلیل نہیں… یہ قرآنی استدلال بدیہی الظہور جب ہی ٹھہر سکتا ہے۔ جبکہ یہ قاعدہ کلی مانا جائے کہ خدا مفتری کو… کبھی مہلت نہیں دیتا… آج تک علماء امت سے کسی نے یہ اعتقاد ظاہر نہیں کیا کہ کوئی مفتری علیٰ اﷲ تیئس برس تک زندہ رہ سکتا ہے… میرے دعوے کی مدت تیئس برس ہو چکی ہے۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ موسومہ اشتہار پانچ سو روپیہ ص۴، خزائن ج۱۷ ص۴۲،۴۳)
اسی کتاب کے (ص۲) پر لکھا ہے کہ: ’’شرح عقائد نسفی میں بھی عقیدے کے رنگ میں اس دلیل کو لکھا ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۲، خزائن ج۱۷ ص۳۹)
اور توریت میں بھی یہی درج ہے کہ جھوٹا نبی قتل کیا جاتا ہے۔

جواب نمبر:۱… یہ آیت رسول اﷲ علیہ السلام کی شان میں اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے نازل ہوئی، کہ اگر وہ اﷲ سبحانہ کی طرف بعض باتوں کی جھوٹی نسبت کر دیتے تو ان کو فوراً ہلاک کر دیا جاتا، اور ایک زمانہ دراز تک کبھی مہلت نہ دی جاتی، اور سورۂ بنی اسرائیل میں اسی فیصلہ کو وضاحت کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے۔ کہ: ’’وان کادوالیفتنونک عن الذی اوحینا الیک لتفتری علینا غیرہ واذ الا تخذوک خلیلا۰ ولولا ان ثبتناک لقد کدت ترکن الیہم شیئاً قلیلاً۰ اذاً لاذقنک ضعف الحیوۃ وضعف المماۃ ثم لا تجد علینا نصیراً (بنی اسرائیل:۷۳،۷۴،۷۵)‘‘ یعنی قریب تھا کہ کفار تجھے وحی الٰہی سے ہٹا کر افتراء پردازی پر مائل کر دیں۔ اس صورت میں وہ تجھے اپنا دوست بنا لیتے۔ اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو آپ کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ہو جاتے ۔ مگر اس وقت ہم آپ کو دنیا اور آخرت میں دوگنا عذاب دیتے۔ جس پر تجھے کوئی مدد گار نہ ملتا۔‘‘
معلوم ہوا یہ ایک خاص واقعہ ہے۔ اس میں کوئی لفظ کلیت یا عموم پر دلالت کرنے والا موجود نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے اس کو عام ضابطہ یا قاعدہ کلیہ قرار دیا جائے۔ شرح عقائد نسفی میں علامہ تفتازانی رحمۃُ اللہ علیہ کا بھی یہی مطلب ہے۔ کیونکہ وہ جامع کمالات فاضلہ اور اخلاق عظمیہ سے رسول اﷲ علیہ السلام کی نبوت پر استدلال کر رہے ہیں۔ ہر مدعی ٔ نبوت کی نبوت کو اس سے ثابت نہیں کرتے۔ جیساکہ اس عبارت سے ظاہر ہے۔ ’’قد یستدل ارباب البصائر علیٰ نبوۃ بوجہین احد ہما بالتواتر من احوالہ قبل النبوۃ وحال الدعوۃ وبعد تما مہا واخلاقہ العظمۃ واحکامہ الحکمیۃ واقدامہ حیث تحجم الابطال ووثوقہ بعصمۃ اﷲ تعالیٰ فی جمیع الاحوال وثباتہ علیٰ حالہ لدی الاہو بحیث لم تجد اعداؤہ مع شدۃ عداوتہم وحرصہم علے الطعن فیہ مطعنا ولا الی القدح فیہ سبیلا فان العقل یجزم بامتناع اجتماع ہذا الامور فی غیر الانبیاء وان یجمع اﷲتعالیٰ ہذہ الکمالات فی حق من یعلم انہ یفتری علیہ ثم یمہلہ ثلثا وعشرین سنۃ (شرح عقائد نسفی مجتبائی ص۱۳۶،۱۳۷، مبحث النبوات)‘‘
اس میں جملہ ضمیریں رسول اﷲ علیہ السلام کی طرف راجع کی گئیں ہیں اور انبیائo میںسے وہی جامع کمالات اور اخلاق عظیمہ کے ساتھ متصف ہیں۔ جیسا کہ: ’’بعثت لاتمم حسن الاخلاق (الحدیث مؤطا ص۷۰۵ باب فی حسن الخلق)‘‘ وآیت ’’انک لعلیٰ خلق عظیم (القلم:۴)‘‘ سے ظاہر ہے۔ اس لئے شرح عقائد کی عبارت کو معیار نبوت میں کلیتاً پیش کرنا ہر گز صحیح نہیں اور اگر آیت کی دلالت بالفرض کلیت پر تسلیم کر لی جائے تو رسول اﷲ علیہ السلام کے حالات کو سامنے رکھ کر کلیت اخذ کرنی پڑے گی۔ جیسا کہ خود مرزاقادیانی نے ۲۳سالہ مہلت اور نبی کاذب کی قید آنحضرت علیہ السلام کے حالات ہی سے اربعین وغیرہ میں لگائی ہے۔ ورنہ آیت میںوحی نبوت اور۲۳سال مدت کی کوئی قید مذکور نہیں ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’خداتعالیٰ کی تمام پاک کتابیں اس بات پر متفق ہیں کہ جھوٹا نبی ہلاک کیا جاتا ہے۔ اب اس کے مقابل میں یہ پیش کرنا کہ ’’اکبر بادشاہ‘‘ نے نبوت کا دعویٰ کیا یا ’’روشن دین جالندھری‘‘ نے دعویٰ کیا۔ اور وہ ہلاک نہیں ہوئے۔ یہ ایک دوسری حماقت ہے۔ جو ظاہر کی جاتی ہے … پہلے ان لوگوں کی خاص تحریر سے ان کا دعویٰ ثابت کرنا چاہئے… کہ میں خدا کا رسول ہوں… کیونکہ ہماری تمام بحث وحی نبوت میں ہے۔‘‘ (ضمیمہ اربعین نمبر۴ ص۱۱، خزائن ج۱۷ ص۴۷۷)
۲… ’’ہر گز ممکن نہیں کہ کوئی شخص جھوٹا ہو کر اور خدا پر افتراء کر کے…تیئس برس تک مہلت پا سکے۔ ضرور ہلاک ہوگا۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۵، خزائن ج۱۷ ص۴۳۴)
۳… ’’یہی قانون خدا تعالیٰ کی قدیم سنت میں داخل ہے کہ وہ نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے کو مہلت نہیں دیتا۔‘‘ (تحفہ قیصریہ ص۶، خزائن ج۱۲ ص۲۵۸)
جس طرح نبوت اور تیئس سالہ مدت کی قید رسول اﷲ علیہ السلام کے حالات سے لگائی گئی ہے۔ اسی طرح سچے اور صادق ہونے کی قید کا اضافہ کرنا بھی ضروری ہوگا، اور اس وقت آیت کا مفادیہ ہوگا کہ جو سچا نبی کسی غیر نازل شدہ حکم کی جھوٹی نسبت اﷲ سبحانہ کی طرف کرے گا وہ ہلاک کیا جائے گا، اور آیت میں بعض الاقاویل کی قید کا فائدہ بھی اسی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ جب کہ نبی سے سچا نبی مراد لیا جائے ورنہ جھوٹے مدعی نبوت کی ہر وہ بات جس کو وحی الٰہی کہتا ہے۔ جھوٹی ہے اور یہی مطلب توریت کی آیت کا ہے۔
معاملات دنیوی میں بھی اس بہروپیہ سے جو حاکم کے بہروپ میں کوئی حکم نافذ کرے مواخذہ نہیں ہوتا۔ مگر ایک سرکاری عہدہ دار حکومت سے حکم واحکام حاصل کرنے کے بغیر اگر کوئی حکم نافذ کرے گا تو حکومت اس سے باز پرس کرے گی۔شرح عقائد میں ۲۳سال مہلت اگر معیاربن سکتی ہے تو فی الجملہ اسی طرح بن سکتی ہے کہ اس کے ساتھ دیانت اور اتقاء راست گفتاری، استقامۃ توکل علیٰ اﷲ وغیرہ کو مدعی نبوت میں ثابت کیا جائے۔ جیسا کہ شرح عقائد میں کہا گیا ہے اور یہ شرط مرزاقادیانی میں کلیتاً مفقود ہے۔ شرح عقائد کی ایک بات کو ماننا اور جو اپنے خلاف ہو۔ اس کا نام نہ لینا کہاں کا انصاف ہے اور جو مدعیان کاذب ہیں۔ ان کی سزا دنیا میں کوئی نہیں بیان کی گئی۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ: ’’ومن اظلم ممن افتریٰ علیٰ اﷲ کذباً اوقال اوحی الیّ ولم یوح الیہ شئی ومن قال سانزل مثل ماانزل اﷲ ولوتری اذا لظالمون فی غمرات الموت والملائکۃ باسطوایدیہم اخرجوا انفسکم الیوم تجزون عذاب الہون بماکنتم تقولون علی اﷲ غیر الحق (انعام :۹۳)‘‘
اس میں مقررہ وقت پر موت آنے کے علاوہ نبوت کے جھوٹے دعویدار کی کوئی سزا دنیوی بیان نہیں کی۔ بلکہ سورۂ اعراف میں ہے کہ ایسے مفتری کی عمر مقررہ مدت تک پوری کر دی جائے گی۔ ’’فمن اظلم ممن افتریٰ علیٰ اﷲ کذباً اوکذب بایتہ اولئک ینا لہم نصیبہم من الکتاب (اعراف:۳۷)‘‘ جلالین میں’’من الکتاب‘‘ کی یہ تفسیر کی ہے کہ: ’’مما کتب لہم فی اللوح المحفوظ من الرزق والاجل وغیر ذالک (جلالین ص۱۳۲)‘‘
جواب نمبر:۲… لہٰذا یہ کہنا کہ نبوت کے جھوٹے مدعی کو ہلاک کرنا خدا کی سنت ہے۔ بالکل غلط اور سرتاپا جھوٹ ہے اور اگر مان لیں کہ جھوٹے مدعی نبوت کو ۲۳برس تک مہلت نہیں ملتی تو پھر بھی مرزاقادیانی کاذب کے کاذب ہی رہتے ہیں۔ کیونکہ مرزاقادیانی نے نبوت کا دعویٰ ۱۹۰۲ء میں کیا تھا۔ جیسا کہ مرزامحمود جانشین مرزا نے (القول الفصل ص۲۴) پر لکھا ہے کہ: ’’تریاق القلوب کی اشاعت تک جو اگست۱۸۹۹ء سے شروع ہوئی اور۲۵؍اکتوبر۱۹۰۲ء میں ختم ہوئی۔ آپ (مرزاقادیانی) کا یہی عقیدہ تھا کہ… آپ کو جو نبی کہا جاتا ہے یہ ایک قسم کی جزوی نبوت ہے۔ ۱۹۰۲ء کے بعد میں آپ کو خدا کی طرف سے معلوم ہوا کہ آپ نبی ہیں اور ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل قریبا ساڑھے دس بجے مرزاقادیانی مرض ہیضہ سے لاہور میں ہلاک ہوئے۔ اس دعویٰ نبوت کی کل مدت چھ برس ہوئی۔ مگر اربعین نمبر۴ ص۶ کی رو سے سچے نبی کی مدت تئیس برس ہونی چاہئے! جو مرزاقادیانی میں نہیں پائی جاتی۔ اس لئے آپ جھوٹے کے جھوٹے ہی رہے۔ جب کہ یہ آیت مرزاقادیانی کے خیال میں نبوت کا معیار ہے تو لاہوری پارٹی کا اس آیت سے مرزاقادیانی کی صداقت پر استدلال کرنا ان کے دعویٔ نبوت کو تسلیم کرنا ہے۔ جس کو وہ اپنے خیال میں افتراء سمجھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ’’محمد علی‘‘ امیر جماعت لاہور لکھتا ہے کہ:’’جو شخص اس امت میں سے دعویٔ نبوت کرے۔ کذاب ہے۔‘‘ (النبوۃ الاسلام ص۸۹،باب سوم ختم نبوت)
بلکہ جس کا دعویٔ نبوت نہ ہو اس کی صداقت پر اس آیت کو پیش کرنے والا بقول مرزاقادیانی بے ایمان ہے۔ ’’ بے ایمانوں کی طرح قرآن شریف پر حملہ کرنا ہے اور آیت لوتقول کو ہنسی ٹھٹھے میں اڑانا۔‘‘ (ضمیمہ اربعین ص۱۲، خزائن ج۱۷ ص۴۷۷)

س… اور یہ کہنا کہ مفتری کے لئے قتل ہونا ضروری ہے اور مرزاقادیانی قتل نہیں ہوا۔ اس لئے وہی سچا تھا۔ کئی وجہ سے غلط ہے۔
۱… قرآن شریف میں قتل کی کوئی قید نہیں۔
۲… خود مرزاقادیانی نے مفتری کی سزا موت بتائی ہے۔ قتل نہیں کہا۔‘‘
’’اگر وہ ہم پر افتراء کرتا تو اس کی سزا موت تھی۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۳، خزائن ج۱۷ ص۳۸)
’’اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باﷲ آنحضرت علیہ السلام کا تیئس برس تک موت سے بچنا آپ کے سچا ہونے پر بھی دلیل نہیں۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۴، خزائن ج۱۷ ص۴۲)
۳… مرزاقادیانی نے (ضمیمہ اربعین میں استثناء باب۱۸ آیت ۸تا۲۰) سے استدلال کیا ہے کہ جھوٹا نبی میت (یعنی مر جائے گا) اور اس بات کے ثبوت میں کہ میت کے معنے عبرانی زبان میں مرنے کے ہیں۔ مرزاقادیانی نے یہ عبارت لکھی ہے کہ: ’’جب میں صبح کو اٹھی کہ بچے کو دودھ دوں تو وہیں میت دیکھو وہ مرا پڑا تھا۔‘‘ (ضمیمہ اربعین ص۹، خزائن ج۱۷ ص۴۷۵)
آگے لکھتے ہیں کہ: ’’میت جس کا ترجمہ پادریوں نے قتل کیا ہے بالکل غلط ہے۔ عبرانی لفظ میت کے معنے ہیں۔ مر گیا یا مرا ہوا ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ مدعی کاذب کا قتل ہونا ضروری نہیں بلکہ مرزاقادیانی کے خیال میں تئیس برس سے پہلے مر جانا بھی اس کے کذب کی دلیل ہے۔ اس لئے مرزاقادیانی بموجب اپنے فیصلہ کے کاذب ٹھہرا۔‘‘
۴… ’’قتل ہونا کاذب ہونے کی نشانی نہیں ہے۔ قرآن شریف میں یہودیوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا گیاہے۔ ’’قتلہم الانبیاء بغیر حق (النسائ:۱۵۵)‘‘ اگر جھوٹے مدعی کو قتل کیا جاتاتو ان کی کبھی مذمت نہ کی جاتی اور نہ ایسے قتل کو قتل ناحق کہنا صحیح ہوتا۔ چنانچہ خود مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’اے بنی اسرائیل کیا تمہاری یہ عادت ہوگئی کہ ہر ایک رسول جو تمہارے پاس آیا تو تم نے بعض کی ان میںسے تکذیب کی اور بعض کو قتل کر ڈالا۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۳۴، خزائن ج۵ ص۳۴)
جواب نمبر:۳… ایسی نشانی جس کا ظہور آغاز نبوت سے ۲۳برس بعد ہو صدق وکذب کا معیار نہیں بن سکتی۔ ورنہ تیئس سال تک نبوت کا ثبوت ہی موقوف رہے گا اور ایک نبی اس سے پہلے کبھی نبی نہیں بن سکے گا اور نہ اس عرصہ میں مرنے والے کافر یا مسلمان کہلانے کے مستحق ہوں گے۔ اس سے مرزاقادیانی کی یہ شرط بالکل غلط ہے کہ: ’’وہاں اس بات کا واقعی طور پر ثبوت ضروری ہے کہ اس شخص نے …تیئس برس کی مدت حاصل کرلی۔‘‘
(اربعین نمبر۳ ص۲۲، خزائن ج۱۷ ص۴۰۹)
جواب نمبر:۴… اور اگر یہ سزا مطلق الہام کے جھوٹے مدعی کے لئے ہے اور دعوے نبوت اس میں کوئی شرط نہیں تو چاہئے تھا کہ دنیا میں جھوٹے مدعیان الہام کو ۲۳سال کی مہلت کبھی نہ ملتی۔ باوجود یہ کہ دنیا کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ پہلے مدعیان الہام کو مرزاقادیانی سے زیادہ کامیابی نصیب ہوئی اور ان کو مہلت کا زمانہ مرزاقادیانی کے زمانۂ مہلت سے زیادہ ملا۔ چنانچہ :
۱… حسن بن صباح نے ۴۸۳ھ میں الہام کا دعویٰ کیا ۵۱۸ھ میں دعوے کے ۲۵سال بعد مرا اور ایک کثیر جماعت متبعین کی چھوڑی۔
۲… مسیلمۂ کذاب نے رسول اﷲ علیہ السلام کی زندگی میں نبوت کا دعویٰ کیا اور تھوڑے عرصہ میں بہت سے لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے۔
جب حضرت ابوبکرصدیقb نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اس کو قتل کرنے کے لئے خالد بن ولیدb کی سرکردگی میں مسلمانوں کا لشکر بھیجا۔ تو مسیلمۂ کذاب ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک لاکھ کی جمعیّت لے کر میدان میں نکلا اور شکست کھا کر مارا گیا۔
۳… عبدالمومن افریقی نے ۲۷۷ھ میں مہدیت کا دعویٰ کیا اور ۲۳برس بعد ۳۰۰ھ میں مرا۔
۴… عبداﷲ بن تومرت مہدی بن کر ۲۵برس تک تبلیغ کرتا رہا اور جب کافی جمعیت اکٹھی کر لی تو سلطنت حاصل کر کے ۲۰سال حکومت کی اور مرگیا۔
۵… سید محمد جونپوری نے سکندر لودھی کے زمانہ ۹۰۱ھ میں مکہ معظمہ پہنچ کر بیت اﷲ میں مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور ۹۰۱ھ تک اپنے وطن میں واپس آکر مذہب کی تبلیغ کرنی شروع کی۔ جس سے راجپوتانہ گجرات کا ٹھیا واڑ سندھ میں بہت سے لوگوں نے اس کی بیعت اختیار کرلی۔ اس قسم کی اور بہت سی مثالیں تاریخی کتابوں میں موجود ہیں اور مطلق مفتری علی اﷲ کی بھی یہ سزا نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یہود ونصارٰی جو آئے دن توریت وانجیل میں تحریفیں کر کے محرف حصہ کواﷲ کی آیتیں کہتے رہے ہیں۔ آج تک ہلاک نہیں ہوئے اور نہ قرآن عزیز میں ان کی کوئی دنیاوی سزا بیان فرمائی گئی ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ: ’’ویقولون ہومن عند اﷲ وما ہو من عنداﷲ ویقولون علی اﷲ الکذب وہم یعلمون‘‘ (آل عمران:۷۸) عام کافروں کی نسبت ارشاد ہے۔ ’’یفترون علی اﷲ الکذب (مائدہ:۱۰۳) مگر پھر بھی ان کو کوئی دنیاوی سزا نہیں ملتی بلکہ ایسے لوگوں کو مہلت دی جاتی ہے۔ سچ ہے کذابوں، دجالوں کی رسی دراز ہے مولانا فرماتے ہیں کہ:

تو مشو مغرور برحلم خدا
دیرگیرد سخت گیرد مرترا
جواب نمبر:۵
… پھر مرزاقادیانی نے ۲۳برس کی مدت ابتداء ’’تجویز نہیں کی بلکہ جتنا زمانہ ان کے دعوے کو گذرتا گیا اتنی ہی مدت بڑھاتے رہے۔ پہلے یہ خیال تھا کہ مفتری علیٰ اﷲ کو فوراً اور دست بدست سزا دی جاتی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ: ’’قرآن شریف کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا مفتری اس دنیا میں دست بدست سزا پا لیتا ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۴۹، خزائن ج۱۱ ص۴۹)
’’وہ پاک ذات جس کے غضب کی آگ وہ صاعقہ ہے کہ ہمیشہ جھوٹے ملہموں کو بہت جلد کھاتی رہی ہے… بے شک مفتری خدا کی لعنت کے نیچے ہے… اور جلد مارا جاتا ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۵۰، خزائن ج۱۱ ص۵۰)
’’تورات اور قرآن شریف دونوں گواہی دے رہے ہیں کہ خدا پر افتراء کرنے والا جلد تباہ ہوتا ہے۔‘‘ (انجام آتھم ص۶۳، خزائن ج۱۱ ص۶۳)
پھر (نشان آسمانی مطبوعہ جون ۱۸۹۲ئ) میں لکھتے ہیں کہ: ’’دیکھو خداتعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے کہ جو میرے پر افتراء کرے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اور میں جلد مفتری کو پکڑتاہوں اور اس کو مہلت نہیں دیتا۔ (قرآن میں ایسا کہیں نہیں آیا) لیکن اس عاجز کے دعوے مجدد اور مثیل مسیح ہونے پر اب بفضلہ تعالیٰ گیارہواں برس جاتا ہے کیا یہ نشان نہیں۔‘‘
(نشان آسمانی ص۳۷، خزائن ج۴ ص۳۹۷)
پھر اس کے آٹھ ماہ بعد (آئینہ کمالات مطبوعہ فروری ۱۸۹۳ئ) میں لکھا ہے کہ: ’’یقینا سمجھو کہ اگر یہ کام انسان کا ہوتا تو… اپنی اس عمر تک ہر گز نہ پہنچتا جو بارہ برس کی مدت اور بلوغ کی عمر ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات ص۵۴، خزائن ج۵ ص۵۴)
پھر انوار الاسلام مطبوعہ ۵؍دسمبر۱۸۹۴ء میں ایک سال نو ماہ بعد تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’یا کبھی خدا نے کسی جھوٹے کو ایسی لمبی مہلت دی ہے؟ کہ وہ بارہ برس سے برابر الہام اور مکالمہ الٰہیہ کا دعویٰ کر کے دن رات خداتعالیٰ پر افتراء کرتا ہو اور خداتعالیٰ اس کو نہ پکڑے۔ بھلا اگر کوئی نظیر ہے تو بیان کریں۔‘‘ (اس کی نظیریں گذر چکیں ہیں) (انوار الاسلام ص۵۰، خزائن ج۹ ص۵۱)
اس کے ۵ ماہ بعد ضیاء الحق مطبوعہ بارہ مئی ۱۸۹۵ء کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ: ’’خداتعالیٰ نے آج سے سولہ برس پہلے الہام مندرجہ براہین احمدیہ میں اس عاجز کا نام عیسیٰ رکھا… اور خدا نے بھی اس قدر لمبی مہلت دے دی۔ جس کی دنیا میں نظیر نہیں۔‘‘ (ضیاء الحق ص۶۰، خزائن ج۹ ص۳۰۸)
نوٹ! براہین احمدیہ ۱۸۸۰ئ، ۱۸۸۲ء کی تالیف ہے۔
(دیکھو نزول المسیح ص۱۱۹، خزائن ج۱۸ ص۴۹۷ حاشیہ)
اور ۱۳۰۸ھ مطابق ۱۸۹۱ء میں مرزاقادیانی نے (فتح الاسلام ص۱۷، خزائن ج۳ ص۱۱) اور (ازالہ اوہام ص۲۶۱، خزائن ج۳ ص۲۳۱) میں مسیحیت کا دعویٰ کیا۔
پھر قریباً ڈیڑھ سال بعد ’’انجام آتھم‘‘ مطبوعہ ۱۸۹۷ء میں رقم طراز ہیں کہ: ’’میرے دعویٰ الہام پر قریباً بیس برس گذر گئے۔‘‘ (انجام آتھم ص۴۹، خزائن ج۱۱ ص۴۹)
’’کیا یہی خداتعالیٰ کی عادت ہے کہ ایسے کذاب اور بے باک اور مفتری کو جلد نہ پکڑے۔ یہاں تک کہ بیس برس سے زیادہ عرصہ گذر جائے۔‘‘ (انجام آتھم ص۵۰، خزائن ج۱۱ ص۵۰)
اور (سراج منیر ص۲، خزائن ج۱۲ ص۴ مطبوعہ ۱۸۹۷ئ) میں پچیس سال لکھے ہیں: ’’کیا کسی کو یاد ہے کہ کاذب اور مفتری کو افترائوں کے دن سے پچیس برس تک کی مہلت دی گئی ہو، جیسا کہ اس بندہ کو۔‘‘ ایک ہی سال میں بیس اور اسی میں پچیس کے جھوٹ کو مرزائی صاحبان سچ کر کے دکھادیںگے؟۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ ۱۹۰۰ء میں الہام کی مدت ۲۴ سال بتا رہے ہیں۔ ’’کیا کسی ایسے مفتری کا نام بطور نظیر پیش کر سکتے ہو۔ جس کو افتراء اور دعویٰ وحی اﷲ کے بعد میری طرح ایک زمانۂ دراز تک مہلت دی گئی ہو… یعنی قریباً ۲۴برس گذر گئے۔‘‘
(اشتہار مطبوعہ۱۹۰۰ء معیار الاخیار مندرجہ تبلیغ رسالت حصہ۹ ص۲۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۶۸)
پھر اربعین مطبوعہ ۱۹۰۰ء میں قریبا تیس برس لکھتے ہیں کہ: ’’قریب تیس برس سے یہ دعویٰ مکالمات الٰہیہ شائع کیاگیا ہے۔‘‘ (اربعین نمبر۳ ص۷، خزائن ج۱۷ ص۳۹۲)
اور ۱۹۰۲ء میں تیئس ہی برس رہ جاتے ہیں۔ ’’مفتری کو خدا جلد پکڑتا ہے اور نہایت ذلت سے ہلاک کرتا ہے۔ مگر تم دیکھتے ہو کہ میرا دعویٰ منجانب اﷲ ہونے کے تیئس برس سے بھی زیادہ ہے۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین ص۶۳، خزائن ج۲۰ ص۲۴، ونحوہ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۳، خزائن ج۱۷ ص۴۰ مطبوعہ ۱۹۰۲ئ)
مہلت کی مدت میںاختلاف بیانی اختیار کرنے کی یہ وجہ ہے کہ اگر پہلے ہی تیئس سال مہلت کی شرط لگادیتے تو لوگوں کی طرف سے قتل ہو جانے کا خطرہ زیادہ لاحق ہوجاتا۔ اس لئے اس کا نام تک نہ لیا اورجو وقت گورنمنٹ برطانیہ کی مہربانی سے ان کے زیر سایہ گذرتا رہا۔ اسی کو معیار صداقت بناتے رہے۔ اب تو بقول اکبر الہ آبادی یہ حال ہے۔

گورنمنٹ کی خیر یارو مناؤ
گلے میں جو اتریں وہ تانیں اڑاؤ
کہاں ایسی آزادیاں تھیں میسر
’’انا الحق‘‘ کہو اور پھانسی نہ پائو

س… امام رازی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’ہذا ذکرہ علی سبیل التمثیل بما یفعلہ الملوک بمن یتکذب علیہم فانہم لا یمہلونہ بل یضربون رقبۃ فی الحال (تفسیر کبیر ج۳۰ص۱۱۸)‘‘
پھر لکھتے ہیں کہ: ’’ہذا ہو الواجب فی حکمۃ اﷲ تعالیٰ لئلا یشتبہ الصادق بالکاذب (تفسیر کبیر ج۳۰ص۱۱۹)‘‘
تفسیر روح البیان میں ہے کہ:’’وفی الایۃ تنبیہ علیٰ ان النبی علیہ السلام لوقال من عند لنفسہ شیئا اوزادو نقص حرفا واحد علی ما اوحی الیہ لعاقبہ اﷲ وہواکرم الناس علیہ فماظنک بغیرہ (تفسیر کبیر ج۴ص۴۶۳)‘‘
معلوم ہوا کہ مفسرین کے خیال میں اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ مفتری علیٰ اﷲ کو زیادہ مہلت نہیں ملتی۔ لہٰذا مرزاقادیانی کا دعویٰ کے بعد تئیس سال زندہ رہنا ان کی صداقت کی دلیل ہے؟۔

ج… امام رازی رحمۃُ اللہ علیہ کی پہلی عبارت کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح بادشاہ ان لوگوں کو جو جعلی فرامین کو اصل کی طرح بنا کر لوگوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں پکڑ لیتا ہے۔ اسی طرح خداتعالیٰ اس شخص کو جو کذب کو سچ کی طرح بنا کر خدا کی طرف منسوب کرتا ہے۔ پکڑ لیتا ہے اور اس کے جھوٹ اور فریب کو عام لوگوں پر ظاہر کرادیتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جس کا کذب واضح نہ ہو اس کو بھی پکڑ لیا جائے اور کسی مفتری علی اﷲ کو جھوٹ نہیں بولنے دیتے۔ جس طرح حکومت اس شخص کو جو نوٹ کی شکل کی رسید تیار کرے سزا نہیںدیتی۔ لیکن جعلی نوٹ بنانے والوں کو فوراً گرفتار کر لیتی ہے۔ اسی طرح جس مفتری علیٰ اﷲ کا جھوٹ سچ کے مشابہ ہوا اس کو پکڑ لیا جاتا ہے۔ چنانچہ امام رازی رحمۃُ اللہ علیہ کی وہ دوسری تحریر جس کو مرزائی صاحبان پورا نقل نہیں کرتے۔ ہمارے بیان کی زبردست مؤید ہے ملاحظہ ہو۔ ’’واعلم ان حاصل ہذا الوجوہ انہ لونسب الینا قولا لم نقلہ لمعناہ عن ذلک امابواسطۃ اقامۃ الحجۃ فاماکنا نقیض لہ من یعارضہ فیہ وحینئذٍ یظہر للناس کذبہ فیہ فیکون ذالک بطالالدعواہ وہد مالکلامہ وامابان نسلب عندہ القدرۃ علیٰ التکلم بذالک القول وہذا ہو الواجب فی حکمۃ اﷲ لئلا یشتبہ الصادق بالکاذب (تفسیر کبیر ج۳۰ ص۱۱۹)‘‘
ان تمام وجوہ مذکورہ کا یہ حاصل ہے کہ اگر ہماری طرف سے کسی جھوٹے قول کی نفی کی جائے تو ہم اس کو اور دلائل سے جھوٹا ثابت کر دیتے ہیں، اور ایسا آدمی اس کے مقابلہ میں کھڑا کردیتے ہیں جو اس سے معارضہ کرتا ہے۔ جس سے اس کا جھوٹ لوگوں پر ظاہر ہو جاتا ہے، اور اس کے دعوے کے باطل ہونے میںاہل فہم کو شبہ نہیں رہتا، اور یاکبھی اس کی زبان کو خدا کی طرف جھوٹی نسبت کرنے سے روک لیتا ہے، اور ایسا کرنا خداتعالیٰ پر ضروری ہے تاکہ جھوٹ سچ کے ساتھ مشتبہ نہ ہوجائے۔ معلوم ہوا کہ امام رازی رحمۃُ اللہ علیہ کے نزدیک مفتری علی اﷲ کو پکڑنے کے یہ معنی ہیں کہ اس کا کذب لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی آدمی اس کے مقابلہ میں کھڑا کردیاجائے گا، اور اس کے ہاتھ سے کوئی ایسی نشانی ظاہر نہیں کی جائے گی۔جس کو اس نے اپنی سچائی کے لئے بطور پیش گوئی ذکر کیا ہوگا۔ یا اس سے اس معاملہ میں کذب بیانی کی قدرت ہی لے لی جائے گی۔ دنیا جانتی ہے کہ جس روز سے مرزاقادیانی نے مجددیت اور مسیحیت کے جال پھیلانے کی کوشش کی تھی اسی دن سے علمائے کرام نے اس کے کذب کو ظاہر کرنا شروع کر دیا تھا اور بحمد اﷲ آج اس کے جھوٹ اور فریب کا پردہ ایسا چاک ہوا ہے کہ دنیائے اسلام کا بچہ بچہ اس کے جھوٹے اور مکار ہونے کا قائل ہے۔ مرزائیوں کے تسلیم کرلینے سے اس کا سچا ہونا لازم نہیں آتا۔ اگرایک چور اور ڈاکو کو چند لٹیرے نیک طینت انسان بتائیں تو ان کی گواہی سے وہ نیک نہیں بن جاتا۔ بلکہ حکومت اور سمجھدار لوگوں کی نظر میں وہ بدکار ہی رہتا ہے۔ اسی طرح کافروں کے کہنے سے بتوں کی الوہیت ثابت نہیں ہوتی۔ پھر اﷲتعالیٰ نے ان پیش گوئیوں کو جن کو مرزاقادیانی نے بطور تحدی اپنے صدق وکذب کا معیار بنا کر پیش کیا تھا۔ مرزاقادیانی کا جھوٹا ہونا ظاہر کردیا۔ اگر چہ بڑی تضرع سے ان کے پورے ہونے کی التجائیں کیں۔ مگر ایک نہ سنی، اور مرزاقادیانی کو سربازار رسوا کر کے چھوڑا۔ سبحانہ ما اعظم شانہ! اﷲ سبحانہ تعالیٰ نے وحی نبوت کے دعویٰ کرنے سے اس کی زبان کو روک کر رکھا۔ مرزاقادیانی نے کبھی وحی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ جو خداتعالیٰ کا کلام ہے۔ بلکہ مدتوں الہام ولایت ہی کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کو غلط نظر سے وحی الٰہی کی مثل سمجھتا رہا۔ لیکن جب ۱۹۰۲ء میں مسند نبوت پر اپنے ناپاک قدم رکھنے کی کوشش کی تو غیرت الٰہی نے عذابی مرض سے ہلاک کردیا۔ جیسا کہ مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ: ’’پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے۔ جیسے طاعون وہیضہ وغیرہ۔‘‘
(اشتہار متعلقہ مولوی ثناء اﷲ، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸)
اور ’’روح البیان‘‘ کی عبارت سے توصاف ظاہر ہے کہ ایک سچا نبی اگر وحی ربانی میں کمی زیادتی کرے تو اس کو سزا دی جاتی ہے۔ ہر مفتری کی یہ سزا نہیں ہے ۔ کیا مرزائی جماعت عبداﷲ تیماپوری کو نبی ماننے کے لئے تیار ہے؟۔ جس کے دعویٔ نبوت کو آج ۱۹۳۳ء میں ۲۷سال گذر چکے ہیں۔
جواب نمبر:۶… اس آیت کا سیاق، سباق دیکھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد کسی قاعدہ کلیہ کے طور پر نہیں ہے۔ بلکہ یہ قضیہ شخصیہ ہے اور صرف حضور اکرم علیہ السلام کے متعلق یہ بات کہی جارہی ہے اور یہ بھی اس بناء پر کہ ’’بائبل‘‘ میں موجود تھا کہ اگر آنے والا پیغمبر اپنی طرف سے کوئی جھوٹا الہام یا نبوت کا دعویٰ کرے تو وہ جلد مارا جائے گا۔
چنانچہ عبارت درج ذیل ملاحظہ ہو۔
میں ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تجھ سا… ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا، اور جو کچھ میں اس کو حکم دوں گا۔ (مراد محمد عربی علیہ السلام ہیں) وہ سب ان سے (یعنی اپنی امتوں سے) کہے گا اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کر کہے گا، نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا۔ لیکن جو نبی گستاخ بن کر کوئی ایسی بات میرے نام سے کہے گا جس کے کہنے کا میں نے اس کو حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کچھ کہے گا تو وہ نبی قتل کیا جائے گا۔ (انجیل مقدس عہدنامہ قدیم ص۱۸۴، کتاب استثناء باب۱۸، آیت۱۸تا۲۱)
جواب نمبر:۷… مرزاقادیانی کبھی کہتا کہ میں نبی ہوں۔ پھر انکار کر دیتا۔ مرزاقادیانی نے اپنی زندگی کا آخری خط مورخہ۲۳؍مئی ۱۹۰۸ء کو لکھا جو ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو ’’اخبار عام‘‘ میں چھپا۔ جس میں لکھا: ’’اس نے میرا نام نبی رکھا ہے۔ سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر انکار کر سکتا ہوں۔ میں اس پر قائم ہوں۔ اس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں۔‘‘ یہ خط مورخہ ۲۳؍مئی ۱۹۰۸ء کو لکھاگیا اور ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو چھپا اور اسی روز ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل کو مرزاقادیانی وبائی ہیضہ سے عبرتناک موت کا شکار ہوا، اور اپنے قول کے مطابق کہ خدا جھوٹے کو مہلت نہیں دیتا۔ جھوٹا ثابت ہوا۔ اسی دن ہی ’’لقطعنا منہ الوتین‘‘ پر عمل ہوگیا۔ اﷲتعالیٰ نے ہیضہ سے مرزاقادیانی کی زندگی کی شہ رگ کاٹ دی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
تردید صداقت مرزاقادیانی ( تحریف نمبر: ۲مرزاقادیانی کی تمنائے موت کا جواب)
تحریف نمبر: ۲… ’’یا یہا الذین ھادوا ان زعمتم انکم اولیاء ﷲ من دون الناس فتمنوا الموت (الجمعہ:۶)‘‘ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس شخص کے اعمال خراب ہوں وہ موت کی تمنا کبھی نہیں کرتا۔ مگر مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ:
گر تومی بینی مراپرفسق وشر
گر تو دید استی کہ ہستم بدگہر
پارہ پارہ کن من بدکار را
شادکن ایں زمرۂ اغیار را
(حقیقت المہدی ص۸، خزائن ج۱۴ص۴۳۴)
تحقیق… اس آیت میں یہودیوں کے متعلق یہ کہاگیا ہے کہ وہ کبھی موت کی تمنا یا آرزو نہ کریں گے۔ جیسا کہ : ’’ولتجدنہم احرص الناس علیٰ حیٰوۃٍ (بقرۃ:۹۶)‘‘ سے ظاہر ہے کہ ہر کافر سے موت کی تمنا کرنے کی نفی بیان نہیں کی گئی۔
اور اگر موت کی تمنا کرنی سچائی کی نشانی ہے تو مکہ کے کافر پہلے سچے ہونے چاہئیں۔ جنہوں نے رسول خدا علیہ السلام کے مقابلہ میں یہ کہاتھا کہ: ’’واذقالوا اللہم ان کان ہذا ہوا لحق من عندک فامطرعلینا حجارۃ من السماء (انفال:۳۰)‘‘
۲… ’’فما کان جواب قومہ الا ان قالوا ائتنا بعذاب اﷲ ان کنت من الصادقین (عنکبوت:۲۹)‘‘
اور پھر مرزاقادیانی نے مولوی ثناء اﷲ صاحب رحمۃُ اللہ علیہ کے مقابلہ میں مفتری اور کذاب سے پہلے مرجانے کی دعا کی تھی جو پوری ہوگئی۔ مرزائی مانیں نہ مانیں مگر ہم تو مرزاقادیانی کو اس میں مستجاب الدعاء سمجھتے ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
تردید صداقت مرزاقادیانی ( تحریف نمبر: ۳ فقد بثت فیکم)
فقد بثت فیکم
تحریف نمبر: ۳… ’’فقد لبثت فیکم عمراً من قبلہ افلا تعقلون (یونس :۱۶)‘‘
جواب نمبر:۱… مرزاقادیانی کے دعویٔ مسیحیت ومجددیت وغیرہ کے بعد بجائے دیانت داری، تقویٰ وطہارت کے، کذب بیانی، وعدہ خلافی، خیانت، تحریف قرآنی، انکار معجزات، انکار از نزول ملائکہ، ترک حج، دنیا پرستی، سب وشتم وغیرہ عیوب اس میں نظر آتے ہیں۔ عیاں راچہ بیان!
دعویٰ سے قبل
۱… مرزاقادیانی کے بچپن کے حالات میں گذر چکا ہے کہ وہ گھر سے چوری کرتا تھا۔
۲… جوانی میں دادا کی پنشن وصول کر کے کھا گیا۔
۳… لوگوں سے ’’براہین احمدیہ‘‘ کی پچاس جلدوں کے پیسے لے کر پانچ جلدیں لکھیں۔ پینتالیس جلدوں کے پیسے کھا گیا۔ حرام کھایا۔
۴… حکیم نورالدین کے ساتھ مل کر فراڈ کرتا تھا۔ نورالدین کی مرزاقادیانی کے دعویٰ سے قبل کی شناسائی تھی۔
مرزاقادیانی کے (مکتوبات ج۵ حصہ دوم ص۳۵، مکتوب نمبر۲۵) پر نظر ڈالیں تو ایک نئی بات کا انکشاف ہوگا۔ فریب، دھوکہ، حب مال کا شاخسانہ ہے۔ میرے خیال میں آج تک شاید کسی بڑے سے بڑے فریبی وفراڈی دنیا دار نے یہ چال نہ چلی ہوگی جو ’’مرزا غلام احمد قادیانی‘‘ اور حکیم نورالدین نے چلی۔ عقل حیران رہ گئی۔ ششد ررہ گیا کہ یا اﷲ! اس طرح کا مکروفریب تو کسی کمینے دنیا دار کو بھی شیطان نے نہ سکھلایا ہوگا۔ بلکہ میرے خیال میں شیطان کو خود یہ تدبیر نہ سوجھی ہوگی جو مرزا غلام احمد قادیانی اور حکیم نورالدین قادیانی کو سوجھی۔ ایسی چال چلی کہ فراڈ کا نیا ریکارڈ قائم کردیا۔
قارئین کرام! انگریز کے زمانہ میں اور اس وقت بھی محفوظ ذرائع سے رقم ایک جگہ سے دوسری جگہ بھجوانے کے دو طریقے ہیں۔ بینک سے رقم بھجوانا یا ڈاک خانہ سے منی آرڈر وغیرہ کے ذریعہ سے۔ بینک سے رقم بھجوائیں تو ڈرافٹ وغیرہ! اس پر سرچارج اور سروس چارجز ادا کرنے کے علاوہ ڈرافٹ رجسٹرڈ ڈاک سے بھجوانا ہوگا۔ رقم زیادہ ہوتو اس پر خاصہ خرچ آتا ہے۔ منی آرڈر یا تارمنی پر بھی خرچ آتا ہے۔ اب مرزا قادیانی کے پاس حکیم نورالدین اس زمانہ میں کشمیر سے پنجاب قادیان رقم بھجوانا چاہتا ہے۔ رقم بھی خاصی ہے۔ یعنی اس زمانہ میں پانچ سو روپیہ بھارتی جموں وکشمیر سے بھارتی پنجاب قادیان بھجوانی ہے جس زمانہ میں مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر ایم اے کی (سیرت المہدی ج اوّل ص۱۸۲) کے مطابق :’’ایک آنہ کا سیر گوشت ملتا تھا۔‘‘ حساب لگائیں کہ:
۱… ایک روپیہ کے سولہ آنے۔ ایک آنہ کا ایک کلو گوشت۔ تو پانچ سو روپے کا گوشت آٹھ ہزار کلو۔ اس زمانہ میں ملتا تھا۔ آج کل گوشت کی قیمت عموماً چار سو روپے کلو ہے۔ آٹھ ہزار کلو گوشت آج خریدنا چاہیں تو آٹھ ہزار کو چار سو سے ضرب دیں۔ یہ بتیس لاکھ روپیہ بنتا ہے۔
۲… یا یوں حساب لگائیں کہ اس زمانہ کا ایک گلو گوشت ایک آنہ میں جو آج کل چار سو روپے کے برابر ہے۔ سولہ آنہ کو چار سو سے ضرب دیں تو چونسٹھ سو روپیہ بنتا ہے۔ گویا اس زمانہ کا ایک روپیہ آج کل کے چونسٹھ سو روپیہ کے برابر ہے۔ اس زمانہ کے پانچ صد روپیہ کی رقم آج کل کے حساب سے لگانی ہو تو چونسٹھ صد کو پانچ صد سے ضرب دیں۔ تو نتیجہ وہی بتیس لاکھ روپیہ ہوتا ہے۔
چلیں حساب ہوگیا۔ بتیس لاکھ آج بینک سے یا ڈاکخانہ سے بھجوانے ہوں تو جتنا خرچہ آئے گا اتنا خرچہ ’’نورالدین قادیانی‘‘ کو پانچ صد روپیہ پر اس زمانہ میں خرچ کرنا پڑتا۔ آج کل مہنگائی کے چکر کو قادیانی نہ روئیں۔ حکیم نورالدین کے چکر کو دیکھیں کہ اس زمانہ میں پانچ صد روپیہ بھجوانے پر دس بارہ روپے بھی اس دور میں خرچ ہوتے تو روپے کے حساب کو سامنے رکھیں تو اس زمانہ کے دس بارہ روپے بھی آج کل کے حساب سے خاصی رقم تھی۔ ’’مرزا قادیانی اور حکیم نورالدین قادیانی‘‘ اس خاصی رقم سے بچنے کے لئے کیا چال چلتے ہیں؟۔
سوچا کہ اگر پانچ صد روپیہ کا نوٹ لفافہ میں ڈال کر بھیج دیں۔ ظاہر ہے کہ اس دور میں بھی آج کل کی طرح لفافہ میں نوٹ ڈال کر بھیجنا خلاف قانون تھا۔ اور یہ اندیشہ بھی تھا کہ کہیں لفافہ سنسر ہوگیا یا کسی نے کھول کر پانچ صد روپیہ کا نوٹ نکال لیا تو ’’مرزا قادیانی اور حکیم نورالدین‘‘ دنیا داربنئے کی طرح جو دس بارہ روپے خرچ نہیں کرتے وہ پانچ صد روپے ضائع ہونے یا نکال لینے پر ویسے ہی آنجہانی ہوجاتے۔
حکیم نورالدین نے ’’باہمی مشورہ‘‘ سے (اس باہمی مشورہ کے لفظ کو یاد رکھیں۔اس کی خبر بعد میں لیں گے۔ پہلے مرزا قادیانی اور حکیم نورالدین کی خبر قادیانی لے لیں!) نورالدین نے پانچ صد روپے کے نوٹ کے دو ٹکڑے کئے۔ ایک ٹکڑا بیکار ہے۔ اسے بھیجنا قانون کی خلاف ورزی نہیں۔ اس لئے کہ ردی کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ کوئی کھولے بھی تو ردی کاغذ کا ٹکڑا اس کے کس کام کا؟۔ پہنچ گیا آدھا ٹکڑا نوٹ کا، قادیان۔ اب مرزا قادیانی نے اسے محفوظ کرکے ’’حکیم نورالدین‘‘ کو خط سے اطلاع دی کہ پانچ صد روپیہ کے نوٹ کا ایک قطعہ مل گیا ہے۔ اب دوسرا بھیج دیں۔ لیکن احتیاط کریں۔ بارشیں ہیں۔ بارش میں بھیگ کر ضائع نہ ہوجائے۔ اس لئے کہ آج کل کی طرح ڈاکئے اس زمانہ میں بھی عام ڈاک کی زیادہ احتیاط نہ کرتے تھے۔ اب کے دوسرا ٹکڑا بھیج دیں۔ لیکن رجسٹرڈ ڈاک سے۔ قادیان پہنچ گیا دوسرا ٹکڑا۔ اب پانچ صد روپیہ کا نوٹ جوڑ کر مرزا قادیانی قادیان میں اور حکیم نورالدین کشمیر میں اس کامیاب ’’انوکھے فراڈ‘‘ پر جشن منائیں اور صدارت کرے اس جشن کی ابلیس، اور مبارک باد دے۔ باپ، بیٹے، مرزا قادیانی اور حکیم نورالدین کو کہ آپ نے وہ کر دکھایا جو آج تک میرے کسی چیلے کو کیا خود مجھے بھی نہ سوجھی تھی۔قارئین کرام! انتظار کی زحمت کو معاف فرمائیں اور پڑھیں مرزا قادیانی کے مکتوب کو:
مخدومی ومکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ‘
’’آج نصف قطعہ نوٹ پانچ سوروپیہ پہنچ گیا۔ چونکہ موسم برسات کا ہے۔ اگر براہ مہربانی دوسرا ٹکڑہ رجسٹری شدہ خط میں ارسال فرمائیں تو انشاء اﷲ روپیہ کسی قدر احتیاط سے پہنچ جاوے۔‘‘ خاکسار غلام احمد از قادیان۱۱جولائی۱۸۸۷ء
(مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ دوم ص۳۵مطبوعہ راست گفتار پریس امرتسر)
اب قادیانیوں سے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول علیہ السلام کے نام پر۔ نہیں تو شرف انسانیت کے نام پر (ان سے) اپیل ہے کہ وہ ہماری تمہیدات اور مرزا قادیانی کے خط کے مندرجات کو بار بار ٹھنڈے دل سے پڑھیں کہ ایسے فراڈ ئے مذہبی رہنما تھے؟۔ یا فراڈ کے چمپئن اور شیطان کے کان کترنے والے ٹھگ اور مکار؟۔
ہماری تلخ نوائی کو قادیانی معاف کریں۔ ہم جب مرزا قادیانی کے ان بیہودہ افعال اور کفریہ اقوال کو دیکھتے ہیں اور پھر آپ لوگوں کی سادگی، تو یہ امر ہمیں تلخ نوائی پر مجبور کردیتے ہیں۔ ’’باہمی مشورہ‘‘ کا لفظ اس لئے لکھا کہ مرزا قادیانی نے لفافہ کھولتے ہی پانچ صد روپیہ کے ایک ٹکڑا کو دیکھتے ہی کوئی تعجب نہیں کیا۔ بلکہ جھٹ سے اس کے ملنے کی اطلاع یابی کے لئے خط لکھ دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام دونوں نے ’’باہمی مشورہ‘‘ سے کیا۔ فرمائیے آپ کی کیا رائے ہے؟۔
ایک اور امر رہ جاتا ہے کہ کیا وہ دوسرا ٹکڑا پانچ صد روپیہ کا نورالدین نے ’’کشمیر‘‘ سے ’’قادیان‘‘ مرزا قادیانی کوبھیجا اس کا جواب اسی کتاب کے اسی صفحہ پر موجود ہے کہ مرزا قادیانی نے دوسرے مکتوب (نمبر۲۶)میں لکھا ہے کہ: ’’آج نصف قطعہ (دوسرا) نوٹ پانچ سو روپیہ بذریعہ رجسٹری شدہ پہنچ گیا۔‘‘ اس دوسرے ٹکڑا نوٹ پانچ صد ملنے کی اطلاع یابی کے خط پر ۲۶؍جولائی۱۸۸۷ء ہے۔ گویا پندرہ دنوں میں دونوں کامیاب فراڈ کرکے فارغ ہوگئے۔ اس فراڈ کو اب ’’مرزا قادیانی اور نورالدین‘‘ نے کاروبار بنالیا۔ چنانچہ نورالدین نے دوصد چالیس روپے اس کے بعد مرزا قادیانی کو بھجوائے۔ لیکن نوٹوں کے آدھے آدھے حصے تھے۔ جب وہ مل گئے تو پھر اسی دو صد چالیس کے نوٹوں کے دوسرے باقیماندہ ٹکڑے بھجوادئیے۔ چنانچہ ۳۱؍اکتوبر ۱۸۸۷ء کے ’’مکتوب بنام نورالدین‘‘ میں مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’بقیہ نصف نوٹ دوصد چالیس روپیہ بھی پہنچ گئے۔‘‘ (مکتوبات ج۵ نمبر۲ص۴۵)
قارئین کرام! اس سے کہیں زیادہ درد ناک پہلو یہ ہے کہ اس کارستانی ’’کارشیطانی‘‘ پر مرزا قادیانی، حکیم نورالدین کو لکھتا ہے کہ:’’ اور میں نہایت ممنون ہوں کہ آںمکرم بروش صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے دل سے اور پورے جوش سے نصرت اسلام میں مشغول ہیں۔‘‘
(مکتوبات ج۵ نمبر۲ص۴۵)
لیجئے! اب حکیم نورالدین صحابی بن گیا اور مرزا غلام احمد قادیانی نبی بن گیا۔ (معاذاﷲ) کیا قادیانیوں میں کوئی اﷲ کا بندہ ایسا ہے جو اس انوکھے فراڈ کے کیس پر توجہ کرکے فراڈ نرا فراڈ یعنی قادیانیت سے تائب ہوجائے؟۔
مرزاقادیانی کے بیس برس مرید خاص رہے۔ ڈاکٹر عبدالحکیم خان، انہوں نے کہا کہ مرزامسرف وکذاب ہے۔ الٰہی بخش، میر عباس سب کا یہی حال تھا۔ اس زمانہ کے وہ لوگ جو مرزاقادیانی کے حالات جانتے تھے۔ جیسا کہ گذرچکا انہوں نے مرزاقادیانی کو رشوت وحرام مال کھانے والا کہا۔ مرزاقادیانی شراب منگواتا تھا۔ جیسا کہ ’’خطوط امام بنام غلام‘‘ سے ظاہر ہے۔ مرزاقادیانی غیرمحرم عورتوں سے اختلاط رکھتا تھا۔
صدق نبوت کی ایک دلیل
ایسی زاہدانہ زندگی جس میں اوّل سے آخر تک کوئی تفاوت نہ ہو۔ غربت اور امارت کے زمانہ میں یکساں طرز عمل، اور دولت دنیا سے بے تعلقی بے اثری خود مرزاقادیانی کے نزدیک نبوت محمدی کی صداقت کی ایک دلیل ہے۔ وہ لکھتا ہے اور پھر جب مدت مدید کے بعد غلبۂ اسلام کا ہوا تو ان دولت واقبال کے دنوں میں کوئی خزانہ اکٹھا نہ کیا۔ کوئی عمارت نہ بنائی، کوئی یادگار تیار نہ ہوئی۔ کوئی سامان شاہانہ عیش وعشرت تجویز نہ کیاگیا۔ کوئی اور ذاتی نفع نہ اٹھایا۔ بلکہ جو کچھ آیا وہ سب یتیموں اور مسکینوں اور بیوہ عورتوں اور مقروضوں کی خبرگیری میں خرچ ہوتا رہا اور کبھی ایک وقت بھی سیر ہوکر کھانا نہ کھایا۔
دین کا داعی یا سیاسی قائد؟
اب ہم اس معیار کو سامنے رکھ کر جو خود مرزاقادیانی نے ہم کو دیا ہے اور جو مزاج نبوت کے عین مطابق ہے۔ ہم خود مرزاقادیانی کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ہم کو اس مطالعہ میں نظر آتا ہے کہ جب ان کی تحریک پھیل گئی، اور وہ ایک بڑے فرقہ کے روحانی پیشوا اور اس کی عقیدتوں اور فیاضانہ اولوالعزمیوں کا مرکز بن گئے، تو ان کی ابتدائی اور اس آخری زندگی میں بڑا فرق نمایاں ہوا۔ ہمیں اس موقع پر ان کے حالات دین کے داعیوں اور مبلغوں اور درس گاہ نبوت کے فیض یافتہ نفوس قدسیہ سے الگ سیاسی قائدین اور غیردینی تحریکوں کے بانیوں سے ملتے جلتے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ چیز ان کے مخلص ومقرب ساتھیوں کے لئے بھی اضطراب کا باعث ہوئی اور دل کی بات زبانوں پر آنے لگی۔
مرزاقادیانی کی خانگی زندگی
مرزاقادیانی کی خانگی زندگی جس ترفہ اور جیسے تجمل اور تنعم کی تھی۔ وہ راسخ الاعتقاد متبعین کے لئے بھی ایک شبہ اور اعتراض کا موجب بن گئی تھی۔ ’’خواجہ کمال الدین صاحب‘‘ نے ایک روز اپنے مخصوص دوستوں کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا کہ ان کے گھر کی جوبیبیاں مرزاقادیانی کے گھر کی رہائش اور معیار زندگی دیکھ چکی ہیں۔ وہ کس طرح سے ایثار وقناعت اور سلسلہ کی اشاعت وترقی کے لئے اپنی ضرورتوں سے پس انداز کر کے روپیہ بھیجنے کے لئے تیار نہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ مولوی محمد علی (امیر جماعت احمدیہ لاہور) اور قادیانی جماعت کے مشہور عالم مولوی سرور شاہ قادیانی سے کہا: ’’میرا ایک سوال ہے جس کا جواب مجھے نہیں آتا۔ میں اسے پیش کرتا ہوں۔ آپ اس کا جواب دیں۔ پہلے ہم اپنی عورتوں کو یہ کہہ کر کہ انبیائo وصحابہe والی زندگی اختیار کرنی چاہئے کہ وہ کم وخشک کھاتے اور خشن پہنتے تھے اور باقی بچا کر اﷲ کی راہ میں دیا کرتے تھے۔ اسی طرح ہم کو بھی کرنا چاہئے۔ غرض ایسے وعظ کر کے کچھ روپیہ بچاتے تھے اور پھر وہ قادیان بھیجتے تھے۔ لیکن جب ہماری بیبیاں خود قادیان گئیں وہاں پر رہ کر اچھی طرح وہاں کا حال معلوم کیا، تو واپس آکر ہمارے سر پر چڑھ گئیں، کہ تم تو بڑے جھوٹے ہو۔ ہم نے تو قادیان میں جاکر خود انبیاء وصحابہ کی زندگی کو دیکھ لیا ہے۔ جس قدر آرام کی زندگی اور تعیش وہاں پر عورتوں کو حاصل ہے، اس کا عشر عشیر بھی باہر نہیں۔ حالانکہ ہمارا روپیہ کمایا ہوا ہوتا ہے، اور ان کے پاس جو روپیہ جاتا ہے، وہ قومی اغراض کے لئے قومی روپیہ ہوتا ہے۔ لہٰذا تم جھوٹے ہو جو جھوٹ بول کر اس عرصۂ دراز تک ہم کو دھوکا دیتے رہے، اور آئندہ ہرگز ہم تمہارے دھوکے میں نہ آویں گی۔ پس وہ اب ہم کو روپیہ نہیں دیتیں کہ ہم قادیان بھیجیں۔‘‘
خواجہ صاحب نے یہ بھی فرمایا: ’’ایک جواب تم لوگوں کو یاد کرتے ہو۔ پھر تمہارا وہ جواب میرے آگے نہیں چل سکتا۔ کیونکہ میں خود واقف ہوں۔‘‘ (کشف الاختلاف ص۱۳)
اور پھر بعض زیورات اور بعض کپڑوں کی خرید کا مفصل ذکر کیا۔
مالی اعتراضات
معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کے زمانہ میں ان کی نگرانی میں لنگر کا جو انتظام تھا۔ اس سے بہت سے مخلصین مطمئن نہیں تھے۔ ان کے نزدیک اس میں بہت سی بے عنوانیاں ہوتی تھیں۔ اس بحث نے بہت طول کھینچا۔ معترضین میں خواجہ کمال الدین پیش پیش تھے اور مولوی محمد علی بھی ان کے مؤید تھے۔ خواجہ کمال الدین نے ایک موقع پر مولوی محمد علی سے کہا: ’’یہ کیسے غضب کی بات ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ قوم کا روپیہ کس محنت سے جمع ہوتا ہے اور جن اغراض قومی کے لئے روپیہ دیتے ہیں۔ وہ روپیہ ان اغراض میں صرف نہیں ہوتا۔ بلکہ بجائے اس کے شخصی خواہشات میں صرف ہوتا ہے اور پھر وہ روپیہ بھی اس قدر کثیر ہے کہ اس وقت جس قدر قومی کام آپ نے شروع کئے ہوئے ہیں اور روپیہ کی کمی کی وجہ سے پورے نہیں ہوسکے اور ناقص حالت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اگر یہ لنگر کا روپیہ اچھی طرح سے سنبھالا جائے تو اکیلے اسی سے وہ سارے کام پورے ہوسکتے ہیں۔‘‘ (کشف الاختلاف ص۱۵)
یہ اعتراضات مرزاقادیانی کے کان تک بھی پہنچے اور انہوں نے اس پر بڑی ناگواری وناراضگی کا اظہار کیا۔ مولوی سرور شاہ لکھتا ہے: ’’مجھے پختہ ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے بہت اظہار رنج فرمایا ہے کہ باوجود میرے بتانے کے کہ خدا کا منشاء یہی ہے کہ میرے وقت میں لنگر کا انتظام میرے ہی ہاتھ میں رہے اور اگر اس کے خلاف ہوا تو لنگر بند ہو جائے گا۔ مگر یہ خواجہ وغیرہ ایسے ہیں کہ باربار مجھے کہتے ہیں کہ لنگر کا انتظام ہمارے سپرد کر دو اور مجھ پر بدظنی کرتے ہیں۔‘‘ (کشف الاختلاف ص۱۵)
خود مرزاقادیانی نے اپنے انتقال سے کچھ پہلے اس مالی الزام کا تذکرہ اور اس پر اپنے رنج وملال کا اظہار کیا۔ مرزابشیرالدین، مولوی حکیم نورالدین کے نام ایک خط میں لکھتا ہے: ’’حضرت صاحب نے اپنی وفات سے پہلے جس دن وفات ہوئی اس دن بیماری سے کچھ ہی پہلے کہا کہ خواجہ (کمال الدین) اور مولوی محمد علی وغیرہ مجھ پر بدظنی کرتے ہیں کہ میں قوم کا روپیہ کھا جاتا ہوں۔ ان کو ایسا نہ کرنا چاہئے تھا۔ ورنہ انجام اچھا نہ ہوگا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ آج خواجہ صاحب، مولوی محمد علی کا ایک خط لے کر آئے اور کہا کہ مولوی محمد علی نے لکھا ہے کہ لنگر کا خرچ تو تھوڑا سا ہوتا ہے۔ باقی ہزاروں روپیہ جو آتا ہے وہ کہاں جاتا ہے اور گھر میں آکر آپ نے بہت غصہ ظاہر کیا۔ کہا: کہ لوگ ہم کو حرام خور سمجھتے ہیں۔ ان کو اس روپیہ سے کیا تعلق۔ اگر آج میں الگ ہو جاؤں تو سب آمدن بند ہو جائے۔‘‘
پھر خواجہ صاحب نے ایک ڈیپوٹیشن کے موقع پر جو عمارت مدرسہ کا چندہ لینے گیا تھا۔ مولوی محمد علی سے کہا کہ حضرت (مرزاقادیانی) صاحب آپ تو خوب عیش وآرام سے زندگی بسر کرتے ہیں اور ہمیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اپنے خرچ گھٹا کر بھی چندہ دو، جس کا جواب مولوی محمد علی نے یہ دیا کہ ہاں اس کا انکار تو نہیں ہوسکتا۔ لیکن بشریت ہے۔ کیا ضرور کہ ہم نبی کی بشریت کی پیروی کریں۔ (حقیقت الاختلاف ص۵۰)
آمدنی کے نئے نئے ذرائع
مرزاقادیانی ہی کی زندگی میں قادیان کے ’’بہشتی مقبرہ‘‘ میں جگہ پانے کے لئے جو شرائط وضع کی گئیں اور ایک قبر کی جگہ کے لئے جو گراں قدر قیمت اور نذرانہ رکھاگیا اور اس کا جس ترغیب وتشویق کے ساتھ اعلان کیاگیا۔ اس نے قرون وسطیٰ کے ’’ارباب کلیسا‘‘ کے ’’پروانہ غفران‘‘ کے بیع وشراء اور جنت کی قبالہ فروشی کی یاد تازہ کر دی، اور مرکز قادیان کے لئے آمدنی کا ایک وسیع ومستقل سلسلہ شروع ہوگیا، اور وہ رفتہ رفتہ سلسلۂ قادیانیت کا ایک عظیم محکمہ بن گیا۔ قادیان کے ترجمان ’’الفضل‘‘ نے اپنی ایک اشاعت میں صحیح لکھا ہے کہ: ’’مقبرۂ بہشتی اس سلسلہ کا ایک ایسا مرکزی نقطہ ہے اور ایسا عظیم الشان انسٹیٹیوشن یعنی محکمہ ہے جس کی اہمیت ہر دوسرے محکمہ سے بڑھ کر ہے۔‘‘ (الفضل قادیان ج۲۴ نمبر۲۵، مورخہ ۱۵؍ستمبر ۱۹۳۶ئ)
قادیان اور ربوہ کی دینی ریاست
اس سارے آغاز کا انجام یہ ہوا کہ ’’تحریک قادیانیت‘‘ کا مرکز قادیان اور تقسیم ہند کے بعد سے اس کا جانشین ’’ربوہ‘‘ ایک اہم دینی ریاست بن گیا۔ جس میں قادیان کے خاندان نبوت اور اس کے صدر نشین ’’مرزابشیرالدین محمود‘‘ کو امارت وریاست کے وہ سب لوازم ایک مذہبی آمر اور مطلق العنان فرمانروا کے سب اختیارات اور خوش باشی وعیش کوشی کے وہ سب مواقع مہیا ہیں۔ جو اس زمانہ میں کسی بڑے سے بڑے انسان کو مہیا ہو سکتے ہیں۔ اس دینی وروحانی مرکز کی اندرونی زندگی اور اس کے امیر کی اخلاقی حالت ’’حسن بن صباح‘‘ باطنی کے ’’قلعۂ الموت‘‘ کی یاد تازہ کرتی ہے۔ جو پانچویں صدی ہجری میں مذہبی استبداد اور عیش وعشرت کا ایک پراسرار مرکز تھا۔
دور حاضر کا مذہبی آمر اور انگریز
پھر اگر قادیانیوں کو مرزاقادیانی کی زندگی پیش کرنے کا شوق ہے تو مرزاقادیانی نے جو خود اپنا مقصد زندگی بیان کیا ہے۔ وہ ذیل میں ملاحظہ کیا جائے۔ مرزاقادیانی نے باربار اپنی وفاداری، اور اخلاص، اور اپنی خاندانی خدمات، اور انگریزی حکومت کی تائید وحمایت میں اپنی سرگرمی اور انہماک کا ذکر کیا ہے، اور ایک ایسے زمانے میں جب مسلمانوں میں دینی حمیت کو بیدار کرنے کی سخت ضرورت تھی۔ باربار جہاد کے حرام وممنوع ہونے کا اعلان کیا۔ یہاں پر نہایت اختصار کے ساتھ صرف چند عبارتیں اور اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں۔ ایک جگہ مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید وحمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں کہ اگر وہ اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہو جائیں اور ’’مہدی خونی‘‘ اور ’’مسیح خونی‘‘ کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵)
اپنی کتاب (شہادت القرآن ص۸۴، خزائن ج۶ ص۳۸۰) کے آخر میں لکھتا ہے: ’’میرا مذہب جس کو میں باربار ظاہر کرتا ہوں۔ یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خداتعالیٰ کی اطاعت کرے۔ دوسرے اس سلطنت کی کہ جس نے امن قائم کیا ہو۔ جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے۔‘‘
(اشتہار گورنمنٹ کی توجہ کے لائق ص۳، کتاب شہادۃ القرآن کے آخر میں)
ایک درخواست میں جو لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کو ۲۴؍فروری ۱۸۹۸ء کو پیش کی گئی تھی، لکھتا ہے: ’’دوسرا امر قابل گذارش یہ ہے کہ میں ابتدائی عمر سے اس وقت تک جو قریباً ساٹھ برس کی عمر کو پہنچا ہوں، اپنی زبان اور قلم سے اس اہم کام میں مشغول ہوں کہ تا مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی محبت اور خیرخواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں اور ان کے بعض کم فہموں کے دلوں سے غلط خیال جہاد وغیرہ کے دور کروں۔ جو دلی صفائی اور مخلصانہ تعلقات سے روکتے ہیں… اور میں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں پر میری تحریروں کا بہت ہی اثر ہوا اور لاکھوں انسانوں میں تبدیلی پیدا ہوگئی۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۱)
ایک دوسری جگہ لکھتا ہے: ’’میں نے بیسیوں کتابیں عربی، فارسی اور اردو میں اس غرض سے تالیف کی ہیں کہ اس گورنمنٹ محسنہ سے ہرگز جہاد درست نہیں۔ بلکہ سچے دل سے اطاعت کرنا ہر ایک مسلمان کا فرض ہے۔ چنانچہ میں نے یہ کتابیں بصرف زر کثیر چھاپ کر بلاد اسلام میں پہنچائیں اور میں جانتا ہوں کہ ان کتابوں کا بہت سا اثر اس ملک پر بھی پڑا ہے اور جو لوگ میرے ساتھ مریدی کا تعلق رکھتے ہیں وہ ایک ایسی جماعت تیار ہوتی جاتی ہے کہ جن کے دل اس گورنمنٹ کی سچی خیرخواہی سے لبالب ہیں۔ ان کی اخلاقی حالت اعلیٰ درجہ پر ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ وہ تمام اس ملک کے لئے بڑی برکت ہیں اور گورنمنٹ کے لئے دلی جان نثار۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۶ ص۶۵، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۶۶،۳۶۷)
ایک دوسری جگہ لکھتا ہے: ’’مجھ سے سرکار انگریزی کے حق میں جو خدمت ہوئی۔ وہ یہ تھی کہ میں نے پچاس ہزار کے قریب کتابیں، اور رسائل، اور اشتہارات چھپوا کر اس ملک اور نیز دوسرے بلاد اسلام میں اس مضمون کے شائع کئے کہ گورنمنٹ انگریزی ہم مسلمانوں کی محسن ہے۔ لہٰذا ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اس گورنمنٹ کی سچے دل سے اطاعت کرے اور دل سے اس دولت کا شکرگزار اور دعاگو رہے اور یہ کتابیں میں نے مختلف زبانوں یعنی اردو، فارسی، عربی میں تالیف کر کے اسلام کے تمام ملکوں میں پھیلا دیں۔ یہاں تک کہ اسلام کے دو مقدس شہروں مکے اور مدینے میں بھی بخوبی شائع کردیں اور روم کے پایۂ تخت قسطنطنیہ اور بلاد شام اور مصر اور کابل اور افغانستان کے متفرق شہروں میں جہاں تک ممکن تھا اشاعت کر دی گئی۔ جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ لاکھوں انسانوں نے جہاد کے وہ غلیظ خیالات چھوڑ دئیے جو نافہم ملاؤں کی تعلیم سے ان کے دلوں میں تھے۔ یہ ایک ایسی خدمت مجھ سے ظہور میں آئی ہے کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ ’’برٹش انڈیا‘‘ کے تمام مسلمانوں میں اس کی نظیر کوئی مسلمان دکھلا نہیں سکا۔‘‘
(ستارہ قیصریہ ص۳،۴، خزائن ج۱۵ ص۱۱۴)
مزید اس آیت سے متعلق جوابات ملاحظہ فرمائیں۔ جس سے ’’مرزاغلام احمد قادیانی‘‘ کا کذب ودجل آپ پر روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا۔
جواب نمبر:۲… ’’ہرقل شاہ روم‘‘ نے عرب وفد سے حضور علیہ السلام کے بارے میں جو سوال کئے۔ ان میں سے بعض آپ علیہ السلام کی بعثت سے بعد کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً کیا آپ علیہ السلام کے متبعین میں سے کوئی آپ کے دین سے ناراض ہوکر آپ سے علیحدہ ہوا ہے؟ اور کیا آپ کے متبعین بڑھتے جارہے ہیں یا کم بھی ہوتے جاتے ہیں؟
صحابہe نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد ہرقل کی اس سوچ پر کسی قسم کی نکیر نہیں کی۔
جواب نمبر:۳… اس دلیل میں قادیانی مبلغ نے مرزاقادیانی کو حضور علیہ السلام پر قیاس کرنے کی گستاخی کی ہے۔ اس کے جواب میں ہم مرزاقادیانی کی یہ عبارت پیش کرنا کافی سمجھتے ہیں: ’’ماسواء اس کے جو شخص ایک نبی متبوع کا متبع ہے اور اس کے فرمودہ پر اور کتاب اﷲ پر ایمان لاتا ہے۔ اس کی آزمائش انبیاء کی آزمائش کی طرح کرنا ایک قسم کی ناسمجھی ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۳۳۹، خزائن ج۵ ص۳۳۹)
لہٰذا مرزاقادیانی کو ہم حضور علیہ السلام پر قیاس نہیں کر سکتے۔
جواب نمبر:۴… مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’فلا تقیسونی علی احد ولا احد ابی پس مجھے کسی دوسرے کے ساتھ مت قیاس کرو اور نہ کسی دوسرے کو میرے ساتھ۔‘‘
(خطبہ الہامیہ ص۲۰، خزائن ج۱۶ ص۵۲)
اس لئے مرزائیوں کو آنحضرت علیہ السلام پر مرزاقادیانی کو قیاس کرنے کی جسارت نہیں کرنی چاہئے۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو مرزاقادیانی کی نافرمانی کے مرتکب ہوں گے۔
جواب نمبر:۵… بعثت سے قبل اور بعثت کے بعد نبی کی دونوں قسم کی زندگی پاک اور بے داغ ہوتی ہے۔ پہلی زندگی کو بے داغ ثابت کرنا اس لئے ہوتا ہے کہ اس سے اگلی زندگی کو بے داغ بتایا جائے اور دعویٰ نبوت کو صحیح مانا جائے۔
بعثت کے بعد کی زندگی کو موضوع بحث بنانے سے فرار اختیار کرنا نہایت ہی کمزور بات ہے، اور یہ اس پر دال ہے کہ اس کی زندگی میں واقعی کچھ کالا ضرور ہے۔
جواب نمبر:۶… مرزاقادیانی نے اپنی پہلی زندگی میں انگریز کی عدالت میں مقدمہ لڑ کر کچھ مالی وراثت حاصل کی۔ حالانکہ نبی کسی کا وارث نہیں ہوتا۔ ’’نحن معشر الانبیاء لا نرث ولا نورث‘‘ ہم جماعت انبیائo نہ کسی کے وارث ہوتے ہیں نہ ہمارا کوئی وارث ہوتا ہے۔
جواب نمبر:۷… یہ حقیقت ہے کہ نبی کی نبوت سے پہلے کی زندگی بھی پاک ہوتی ہے اور دعویٰ نبوت کے بعد کی زندگی بھی بے داغ اور صاف ہوتی ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ جس کی پہلی زندگی پاک وصاف اور بے داغ اور بے عیب ہو وہ نبی بھی ہو جائے۔ جس طرح نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ شاعر نہ ہو وہ کسی سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھے۔ جھوٹ نہ بولتا ہو، لیکن یہ ضروری نہیں کہ جو کوئی شاعر نہ ہو، کسی سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا ہو وہ نبی بھی ہو جائے۔ کیونکہ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو آج ہزاروں ایسے ملیں گے جو اپنی پہلی زندگی کے پاک وصاف ہونے کے مدعی ہیں۔ کیا ان سب کو نبی مانا جائے گا؟
جواب نمبر:۸… مرزاقادیانی خود تسلیم کرتا ہے کہ انبیائo کے علاوہ کوئی معصوم نہیں اور نہ ہی میں معصوم ہوں اور یہ مسلم قاعدہ ہے۔ ’’المرء یؤخذ باقرارہ‘‘ کہ آدمی اپنے اقرار سے پکڑا جاتا ہے۔‘‘
’’لیکن افسوس کہ بٹالوی صاحب نے یہ نہ سمجھا کہ نہ مجھے نہ کسی انسان کو بعد انبیائo کے معصوم ہونے کا دعویٰ ہے۔‘‘ (کرامات الصادقین ص۵، خزائن ج۷ ص۴۷)
’’سیرت المہدی‘‘ میں سات صد روپیہ پنشن کی رقم کے کے اڑائے۔ حوالہ گذر چکا ہے۔
کیا یہ اپنے معصوم نہ ہونے کا کھلا اقرار نہیں؟ بچے تھے کہ کوئی دھوکہ دے سکتا ہے یا پھسلا سکتا ہے؟ اور پھر ادھر ادھر پھرانے کا کیا مطلب ہے؟ یہ بات تو قطعی ہے کہ کسی دینی کام یا مسجد ومدرسہ میں نہیں گئے ہوںگے اور نہ یہ رقم کسی اچھی جگہ خرچ کی ہوگی۔ ’’ادھر ادھر‘‘ سے اگر بازار حسن مراد نہیں تو اور کون سی جگہ ہوگی جو مرزاقادیانی کو پسند آئی ہوگی۔ اگر یہ کوئی شرمناک وارداتیں نہ تھیں تو مرزاقادیانی کو شرم کیوں آئی جو وہ سیالکوٹ بھاگ گئے؟
اب مرزائیوں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ اتنی خطیر رقم کا حساب دیں کہ کہاں کہاں خرچ ہوئی؟ بصورت دیگر مرزاقادیانی کی عصمت باقی نہیں رہتی اور یہ دعویٰ کہ مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت سے قبل کی زندگی بالکل بے داغ تھی۔ بالکل باطل ہو جاتا ہے۔
جواب نمبر:۹… محمد عربی علیہ السلام نے سب سے پہلے اپنے قریب کے آدمیوں کوبلا کر ان کے سامنے اپنی صفائی کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے یک زبان ہوکر اعلان کیا: ’’جربناک مرارا فما وجدنا فیک الاصدقا‘‘ کہ ہم نے باربار آپ کو آزمایا اور ہر بار ہم نے آپ علیہ السلام میں سچائی ہی پائی۔
اس کے برعکس مرزاقادیانی نے اپنی صفائی مولوی محمد حسین بٹالوی (آئینہ کمالات اسلام ص۳۱۱، خزائن ج۵ ص۳۱۱) سے پیش کروائی ہے جو کہ کچھ عرصہ ہی اس کے ساتھ رہے تھے۔ پھر وہ مرزاقادیانی کے شہر اور گاؤں کے رہنے والے بھی نہ تھے اور اس میں بھی شک نہیں ہوسکتا کہ مرزاقادیانی کی حقیقت واضح ہونے پر انہوں نے اپنی سابقہ تحریر سے رجوع کر لیا۔ (دیکھئے آئینہ کمالات اسلام حوالہ مذکورہ) اسی طرح حضور علیہ السلام کی صفائی آپ کے قبیلہ کے سردار حضرت ابوسفیانb نے ہر قل بادشاہ کے سامنے اسلام لانے سے قبل پیش کی تھی اور اسی طرح حضرت خدیجہt جو آپ علیہ السلام کی رفیقۂ حیات ہیں۔ انہوں نے آپ کی پہلی زندگی کی صفائی پیش کی۔ جب حضرت جبرائیل امین علیہ السلام آپ علیہ السلام کی طرف پہلی دفعہ تشریف لائے تھے اور اسی طرح آپ علیہ السلام کی آخری اور پوری زندگی کی صفائی حضرت عائشہ صدیقہt پیش کر رہی ہیں۔ ’’کان خلقہ القراٰن‘‘ آپ علیہ السلام کا اخلاق قرآن ہے۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
تردید صداقت مرزاقادیانی ( تحریف نمبر: ۳ فقد بثت فیکم)
فقد بثت فیکم
تحریف نمبر: ۳… ’’فقد لبثت فیکم عمراً من قبلہ افلا تعقلون (یونس :۱۶)‘‘
جواب نمبر:۱… مرزاقادیانی کے دعویٔ مسیحیت ومجددیت وغیرہ کے بعد بجائے دیانت داری، تقویٰ وطہارت کے، کذب بیانی، وعدہ خلافی، خیانت، تحریف قرآنی، انکار معجزات، انکار از نزول ملائکہ، ترک حج، دنیا پرستی، سب وشتم وغیرہ عیوب اس میں نظر آتے ہیں۔ عیاں راچہ بیان!
دعویٰ سے قبل
۱… مرزاقادیانی کے بچپن کے حالات میں گذر چکا ہے کہ وہ گھر سے چوری کرتا تھا۔
۲… جوانی میں دادا کی پنشن وصول کر کے کھا گیا۔
۳… لوگوں سے ’’براہین احمدیہ‘‘ کی پچاس جلدوں کے پیسے لے کر پانچ جلدیں لکھیں۔ پینتالیس جلدوں کے پیسے کھا گیا۔ حرام کھایا۔
۴… حکیم نورالدین کے ساتھ مل کر فراڈ کرتا تھا۔ نورالدین کی مرزاقادیانی کے دعویٰ سے قبل کی شناسائی تھی۔
مرزاقادیانی کے (مکتوبات ج۵ حصہ دوم ص۳۵، مکتوب نمبر۲۵) پر نظر ڈالیں تو ایک نئی بات کا انکشاف ہوگا۔ فریب، دھوکہ، حب مال کا شاخسانہ ہے۔ میرے خیال میں آج تک شاید کسی بڑے سے بڑے فریبی وفراڈی دنیا دار نے یہ چال نہ چلی ہوگی جو ’’مرزا غلام احمد قادیانی‘‘ اور حکیم نورالدین نے چلی۔ عقل حیران رہ گئی۔ ششد ررہ گیا کہ یا اﷲ! اس طرح کا مکروفریب تو کسی کمینے دنیا دار کو بھی شیطان نے نہ سکھلایا ہوگا۔ بلکہ میرے خیال میں شیطان کو خود یہ تدبیر نہ سوجھی ہوگی جو مرزا غلام احمد قادیانی اور حکیم نورالدین قادیانی کو سوجھی۔ ایسی چال چلی کہ فراڈ کا نیا ریکارڈ قائم کردیا۔
قارئین کرام! انگریز کے زمانہ میں اور اس وقت بھی محفوظ ذرائع سے رقم ایک جگہ سے دوسری جگہ بھجوانے کے دو طریقے ہیں۔ بینک سے رقم بھجوانا یا ڈاک خانہ سے منی آرڈر وغیرہ کے ذریعہ سے۔ بینک سے رقم بھجوائیں تو ڈرافٹ وغیرہ! اس پر سرچارج اور سروس چارجز ادا کرنے کے علاوہ ڈرافٹ رجسٹرڈ ڈاک سے بھجوانا ہوگا۔ رقم زیادہ ہوتو اس پر خاصہ خرچ آتا ہے۔ منی آرڈر یا تارمنی پر بھی خرچ آتا ہے۔ اب مرزا قادیانی کے پاس حکیم نورالدین اس زمانہ میں کشمیر سے پنجاب قادیان رقم بھجوانا چاہتا ہے۔ رقم بھی خاصی ہے۔ یعنی اس زمانہ میں پانچ سو روپیہ بھارتی جموں وکشمیر سے بھارتی پنجاب قادیان بھجوانی ہے جس زمانہ میں مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر ایم اے کی (سیرت المہدی ج اوّل ص۱۸۲) کے مطابق :’’ایک آنہ کا سیر گوشت ملتا تھا۔‘‘ حساب لگائیں کہ:
۱… ایک روپیہ کے سولہ آنے۔ ایک آنہ کا ایک کلو گوشت۔ تو پانچ سو روپے کا گوشت آٹھ ہزار کلو۔ اس زمانہ میں ملتا تھا۔ آج کل گوشت کی قیمت عموماً چار سو روپے کلو ہے۔ آٹھ ہزار کلو گوشت آج خریدنا چاہیں تو آٹھ ہزار کو چار سو سے ضرب دیں۔ یہ بتیس لاکھ روپیہ بنتا ہے۔
۲… یا یوں حساب لگائیں کہ اس زمانہ کا ایک گلو گوشت ایک آنہ میں جو آج کل چار سو روپے کے برابر ہے۔ سولہ آنہ کو چار سو سے ضرب دیں تو چونسٹھ سو روپیہ بنتا ہے۔ گویا اس زمانہ کا ایک روپیہ آج کل کے چونسٹھ سو روپیہ کے برابر ہے۔ اس زمانہ کے پانچ صد روپیہ کی رقم آج کل کے حساب سے لگانی ہو تو چونسٹھ صد کو پانچ صد سے ضرب دیں۔ تو نتیجہ وہی بتیس لاکھ روپیہ ہوتا ہے۔
چلیں حساب ہوگیا۔ بتیس لاکھ آج بینک سے یا ڈاکخانہ سے بھجوانے ہوں تو جتنا خرچہ آئے گا اتنا خرچہ ’’نورالدین قادیانی‘‘ کو پانچ صد روپیہ پر اس زمانہ میں خرچ کرنا پڑتا۔ آج کل مہنگائی کے چکر کو قادیانی نہ روئیں۔ حکیم نورالدین کے چکر کو دیکھیں کہ اس زمانہ میں پانچ صد روپیہ بھجوانے پر دس بارہ روپے بھی اس دور میں خرچ ہوتے تو روپے کے حساب کو سامنے رکھیں تو اس زمانہ کے دس بارہ روپے بھی آج کل کے حساب سے خاصی رقم تھی۔ ’’مرزا قادیانی اور حکیم نورالدین قادیانی‘‘ اس خاصی رقم سے بچنے کے لئے کیا چال چلتے ہیں؟۔
سوچا کہ اگر پانچ صد روپیہ کا نوٹ لفافہ میں ڈال کر بھیج دیں۔ ظاہر ہے کہ اس دور میں بھی آج کل کی طرح لفافہ میں نوٹ ڈال کر بھیجنا خلاف قانون تھا۔ اور یہ اندیشہ بھی تھا کہ کہیں لفافہ سنسر ہوگیا یا کسی نے کھول کر پانچ صد روپیہ کا نوٹ نکال لیا تو ’’مرزا قادیانی اور حکیم نورالدین‘‘ دنیا داربنئے کی طرح جو دس بارہ روپے خرچ نہیں کرتے وہ پانچ صد روپے ضائع ہونے یا نکال لینے پر ویسے ہی آنجہانی ہوجاتے۔
حکیم نورالدین نے ’’باہمی مشورہ‘‘ سے (اس باہمی مشورہ کے لفظ کو یاد رکھیں۔اس کی خبر بعد میں لیں گے۔ پہلے مرزا قادیانی اور حکیم نورالدین کی خبر قادیانی لے لیں!) نورالدین نے پانچ صد روپے کے نوٹ کے دو ٹکڑے کئے۔ ایک ٹکڑا بیکار ہے۔ اسے بھیجنا قانون کی خلاف ورزی نہیں۔ اس لئے کہ ردی کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ کوئی کھولے بھی تو ردی کاغذ کا ٹکڑا اس کے کس کام کا؟۔ پہنچ گیا آدھا ٹکڑا نوٹ کا، قادیان۔ اب مرزا قادیانی نے اسے محفوظ کرکے ’’حکیم نورالدین‘‘ کو خط سے اطلاع دی کہ پانچ صد روپیہ کے نوٹ کا ایک قطعہ مل گیا ہے۔ اب دوسرا بھیج دیں۔ لیکن احتیاط کریں۔ بارشیں ہیں۔ بارش میں بھیگ کر ضائع نہ ہوجائے۔ اس لئے کہ آج کل کی طرح ڈاکئے اس زمانہ میں بھی عام ڈاک کی زیادہ احتیاط نہ کرتے تھے۔ اب کے دوسرا ٹکڑا بھیج دیں۔ لیکن رجسٹرڈ ڈاک سے۔ قادیان پہنچ گیا دوسرا ٹکڑا۔ اب پانچ صد روپیہ کا نوٹ جوڑ کر مرزا قادیانی قادیان میں اور حکیم نورالدین کشمیر میں اس کامیاب ’’انوکھے فراڈ‘‘ پر جشن منائیں اور صدارت کرے اس جشن کی ابلیس، اور مبارک باد دے۔ باپ، بیٹے، مرزا قادیانی اور حکیم نورالدین کو کہ آپ نے وہ کر دکھایا جو آج تک میرے کسی چیلے کو کیا خود مجھے بھی نہ سوجھی تھی۔قارئین کرام! انتظار کی زحمت کو معاف فرمائیں اور پڑھیں مرزا قادیانی کے مکتوب کو:
مخدومی ومکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ‘
’’آج نصف قطعہ نوٹ پانچ سوروپیہ پہنچ گیا۔ چونکہ موسم برسات کا ہے۔ اگر براہ مہربانی دوسرا ٹکڑہ رجسٹری شدہ خط میں ارسال فرمائیں تو انشاء اﷲ روپیہ کسی قدر احتیاط سے پہنچ جاوے۔‘‘ خاکسار غلام احمد از قادیان۱۱جولائی۱۸۸۷ء
(مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ دوم ص۳۵مطبوعہ راست گفتار پریس امرتسر)
اب قادیانیوں سے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول علیہ السلام کے نام پر۔ نہیں تو شرف انسانیت کے نام پر (ان سے) اپیل ہے کہ وہ ہماری تمہیدات اور مرزا قادیانی کے خط کے مندرجات کو بار بار ٹھنڈے دل سے پڑھیں کہ ایسے فراڈ ئے مذہبی رہنما تھے؟۔ یا فراڈ کے چمپئن اور شیطان کے کان کترنے والے ٹھگ اور مکار؟۔
ہماری تلخ نوائی کو قادیانی معاف کریں۔ ہم جب مرزا قادیانی کے ان بیہودہ افعال اور کفریہ اقوال کو دیکھتے ہیں اور پھر آپ لوگوں کی سادگی، تو یہ امر ہمیں تلخ نوائی پر مجبور کردیتے ہیں۔ ’’باہمی مشورہ‘‘ کا لفظ اس لئے لکھا کہ مرزا قادیانی نے لفافہ کھولتے ہی پانچ صد روپیہ کے ایک ٹکڑا کو دیکھتے ہی کوئی تعجب نہیں کیا۔ بلکہ جھٹ سے اس کے ملنے کی اطلاع یابی کے لئے خط لکھ دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام دونوں نے ’’باہمی مشورہ‘‘ سے کیا۔ فرمائیے آپ کی کیا رائے ہے؟۔
ایک اور امر رہ جاتا ہے کہ کیا وہ دوسرا ٹکڑا پانچ صد روپیہ کا نورالدین نے ’’کشمیر‘‘ سے ’’قادیان‘‘ مرزا قادیانی کوبھیجا اس کا جواب اسی کتاب کے اسی صفحہ پر موجود ہے کہ مرزا قادیانی نے دوسرے مکتوب (نمبر۲۶)میں لکھا ہے کہ: ’’آج نصف قطعہ (دوسرا) نوٹ پانچ سو روپیہ بذریعہ رجسٹری شدہ پہنچ گیا۔‘‘ اس دوسرے ٹکڑا نوٹ پانچ صد ملنے کی اطلاع یابی کے خط پر ۲۶؍جولائی۱۸۸۷ء ہے۔ گویا پندرہ دنوں میں دونوں کامیاب فراڈ کرکے فارغ ہوگئے۔ اس فراڈ کو اب ’’مرزا قادیانی اور نورالدین‘‘ نے کاروبار بنالیا۔ چنانچہ نورالدین نے دوصد چالیس روپے اس کے بعد مرزا قادیانی کو بھجوائے۔ لیکن نوٹوں کے آدھے آدھے حصے تھے۔ جب وہ مل گئے تو پھر اسی دو صد چالیس کے نوٹوں کے دوسرے باقیماندہ ٹکڑے بھجوادئیے۔ چنانچہ ۳۱؍اکتوبر ۱۸۸۷ء کے ’’مکتوب بنام نورالدین‘‘ میں مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’بقیہ نصف نوٹ دوصد چالیس روپیہ بھی پہنچ گئے۔‘‘ (مکتوبات ج۵ نمبر۲ص۴۵)
قارئین کرام! اس سے کہیں زیادہ درد ناک پہلو یہ ہے کہ اس کارستانی ’’کارشیطانی‘‘ پر مرزا قادیانی، حکیم نورالدین کو لکھتا ہے کہ:’’ اور میں نہایت ممنون ہوں کہ آںمکرم بروش صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے دل سے اور پورے جوش سے نصرت اسلام میں مشغول ہیں۔‘‘
(مکتوبات ج۵ نمبر۲ص۴۵)
لیجئے! اب حکیم نورالدین صحابی بن گیا اور مرزا غلام احمد قادیانی نبی بن گیا۔ (معاذاﷲ) کیا قادیانیوں میں کوئی اﷲ کا بندہ ایسا ہے جو اس انوکھے فراڈ کے کیس پر توجہ کرکے فراڈ نرا فراڈ یعنی قادیانیت سے تائب ہوجائے؟۔
مرزاقادیانی کے بیس برس مرید خاص رہے۔ ڈاکٹر عبدالحکیم خان، انہوں نے کہا کہ مرزامسرف وکذاب ہے۔ الٰہی بخش، میر عباس سب کا یہی حال تھا۔ اس زمانہ کے وہ لوگ جو مرزاقادیانی کے حالات جانتے تھے۔ جیسا کہ گذرچکا انہوں نے مرزاقادیانی کو رشوت وحرام مال کھانے والا کہا۔ مرزاقادیانی شراب منگواتا تھا۔ جیسا کہ ’’خطوط امام بنام غلام‘‘ سے ظاہر ہے۔ مرزاقادیانی غیرمحرم عورتوں سے اختلاط رکھتا تھا۔
صدق نبوت کی ایک دلیل
ایسی زاہدانہ زندگی جس میں اوّل سے آخر تک کوئی تفاوت نہ ہو۔ غربت اور امارت کے زمانہ میں یکساں طرز عمل، اور دولت دنیا سے بے تعلقی بے اثری خود مرزاقادیانی کے نزدیک نبوت محمدی کی صداقت کی ایک دلیل ہے۔ وہ لکھتا ہے اور پھر جب مدت مدید کے بعد غلبۂ اسلام کا ہوا تو ان دولت واقبال کے دنوں میں کوئی خزانہ اکٹھا نہ کیا۔ کوئی عمارت نہ بنائی، کوئی یادگار تیار نہ ہوئی۔ کوئی سامان شاہانہ عیش وعشرت تجویز نہ کیاگیا۔ کوئی اور ذاتی نفع نہ اٹھایا۔ بلکہ جو کچھ آیا وہ سب یتیموں اور مسکینوں اور بیوہ عورتوں اور مقروضوں کی خبرگیری میں خرچ ہوتا رہا اور کبھی ایک وقت بھی سیر ہوکر کھانا نہ کھایا۔
دین کا داعی یا سیاسی قائد؟
اب ہم اس معیار کو سامنے رکھ کر جو خود مرزاقادیانی نے ہم کو دیا ہے اور جو مزاج نبوت کے عین مطابق ہے۔ ہم خود مرزاقادیانی کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ہم کو اس مطالعہ میں نظر آتا ہے کہ جب ان کی تحریک پھیل گئی، اور وہ ایک بڑے فرقہ کے روحانی پیشوا اور اس کی عقیدتوں اور فیاضانہ اولوالعزمیوں کا مرکز بن گئے، تو ان کی ابتدائی اور اس آخری زندگی میں بڑا فرق نمایاں ہوا۔ ہمیں اس موقع پر ان کے حالات دین کے داعیوں اور مبلغوں اور درس گاہ نبوت کے فیض یافتہ نفوس قدسیہ سے الگ سیاسی قائدین اور غیردینی تحریکوں کے بانیوں سے ملتے جلتے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ چیز ان کے مخلص ومقرب ساتھیوں کے لئے بھی اضطراب کا باعث ہوئی اور دل کی بات زبانوں پر آنے لگی۔
مرزاقادیانی کی خانگی زندگی
مرزاقادیانی کی خانگی زندگی جس ترفہ اور جیسے تجمل اور تنعم کی تھی۔ وہ راسخ الاعتقاد متبعین کے لئے بھی ایک شبہ اور اعتراض کا موجب بن گئی تھی۔ ’’خواجہ کمال الدین صاحب‘‘ نے ایک روز اپنے مخصوص دوستوں کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا کہ ان کے گھر کی جوبیبیاں مرزاقادیانی کے گھر کی رہائش اور معیار زندگی دیکھ چکی ہیں۔ وہ کس طرح سے ایثار وقناعت اور سلسلہ کی اشاعت وترقی کے لئے اپنی ضرورتوں سے پس انداز کر کے روپیہ بھیجنے کے لئے تیار نہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ مولوی محمد علی (امیر جماعت احمدیہ لاہور) اور قادیانی جماعت کے مشہور عالم مولوی سرور شاہ قادیانی سے کہا: ’’میرا ایک سوال ہے جس کا جواب مجھے نہیں آتا۔ میں اسے پیش کرتا ہوں۔ آپ اس کا جواب دیں۔ پہلے ہم اپنی عورتوں کو یہ کہہ کر کہ انبیائo وصحابہe والی زندگی اختیار کرنی چاہئے کہ وہ کم وخشک کھاتے اور خشن پہنتے تھے اور باقی بچا کر اﷲ کی راہ میں دیا کرتے تھے۔ اسی طرح ہم کو بھی کرنا چاہئے۔ غرض ایسے وعظ کر کے کچھ روپیہ بچاتے تھے اور پھر وہ قادیان بھیجتے تھے۔ لیکن جب ہماری بیبیاں خود قادیان گئیں وہاں پر رہ کر اچھی طرح وہاں کا حال معلوم کیا، تو واپس آکر ہمارے سر پر چڑھ گئیں، کہ تم تو بڑے جھوٹے ہو۔ ہم نے تو قادیان میں جاکر خود انبیاء وصحابہ کی زندگی کو دیکھ لیا ہے۔ جس قدر آرام کی زندگی اور تعیش وہاں پر عورتوں کو حاصل ہے، اس کا عشر عشیر بھی باہر نہیں۔ حالانکہ ہمارا روپیہ کمایا ہوا ہوتا ہے، اور ان کے پاس جو روپیہ جاتا ہے، وہ قومی اغراض کے لئے قومی روپیہ ہوتا ہے۔ لہٰذا تم جھوٹے ہو جو جھوٹ بول کر اس عرصۂ دراز تک ہم کو دھوکا دیتے رہے، اور آئندہ ہرگز ہم تمہارے دھوکے میں نہ آویں گی۔ پس وہ اب ہم کو روپیہ نہیں دیتیں کہ ہم قادیان بھیجیں۔‘‘
خواجہ صاحب نے یہ بھی فرمایا: ’’ایک جواب تم لوگوں کو یاد کرتے ہو۔ پھر تمہارا وہ جواب میرے آگے نہیں چل سکتا۔ کیونکہ میں خود واقف ہوں۔‘‘ (کشف الاختلاف ص۱۳)
اور پھر بعض زیورات اور بعض کپڑوں کی خرید کا مفصل ذکر کیا۔
مالی اعتراضات
معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کے زمانہ میں ان کی نگرانی میں لنگر کا جو انتظام تھا۔ اس سے بہت سے مخلصین مطمئن نہیں تھے۔ ان کے نزدیک اس میں بہت سی بے عنوانیاں ہوتی تھیں۔ اس بحث نے بہت طول کھینچا۔ معترضین میں خواجہ کمال الدین پیش پیش تھے اور مولوی محمد علی بھی ان کے مؤید تھے۔ خواجہ کمال الدین نے ایک موقع پر مولوی محمد علی سے کہا: ’’یہ کیسے غضب کی بات ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ قوم کا روپیہ کس محنت سے جمع ہوتا ہے اور جن اغراض قومی کے لئے روپیہ دیتے ہیں۔ وہ روپیہ ان اغراض میں صرف نہیں ہوتا۔ بلکہ بجائے اس کے شخصی خواہشات میں صرف ہوتا ہے اور پھر وہ روپیہ بھی اس قدر کثیر ہے کہ اس وقت جس قدر قومی کام آپ نے شروع کئے ہوئے ہیں اور روپیہ کی کمی کی وجہ سے پورے نہیں ہوسکے اور ناقص حالت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اگر یہ لنگر کا روپیہ اچھی طرح سے سنبھالا جائے تو اکیلے اسی سے وہ سارے کام پورے ہوسکتے ہیں۔‘‘ (کشف الاختلاف ص۱۵)
یہ اعتراضات مرزاقادیانی کے کان تک بھی پہنچے اور انہوں نے اس پر بڑی ناگواری وناراضگی کا اظہار کیا۔ مولوی سرور شاہ لکھتا ہے: ’’مجھے پختہ ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے بہت اظہار رنج فرمایا ہے کہ باوجود میرے بتانے کے کہ خدا کا منشاء یہی ہے کہ میرے وقت میں لنگر کا انتظام میرے ہی ہاتھ میں رہے اور اگر اس کے خلاف ہوا تو لنگر بند ہو جائے گا۔ مگر یہ خواجہ وغیرہ ایسے ہیں کہ باربار مجھے کہتے ہیں کہ لنگر کا انتظام ہمارے سپرد کر دو اور مجھ پر بدظنی کرتے ہیں۔‘‘ (کشف الاختلاف ص۱۵)
خود مرزاقادیانی نے اپنے انتقال سے کچھ پہلے اس مالی الزام کا تذکرہ اور اس پر اپنے رنج وملال کا اظہار کیا۔ مرزابشیرالدین، مولوی حکیم نورالدین کے نام ایک خط میں لکھتا ہے: ’’حضرت صاحب نے اپنی وفات سے پہلے جس دن وفات ہوئی اس دن بیماری سے کچھ ہی پہلے کہا کہ خواجہ (کمال الدین) اور مولوی محمد علی وغیرہ مجھ پر بدظنی کرتے ہیں کہ میں قوم کا روپیہ کھا جاتا ہوں۔ ان کو ایسا نہ کرنا چاہئے تھا۔ ورنہ انجام اچھا نہ ہوگا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ آج خواجہ صاحب، مولوی محمد علی کا ایک خط لے کر آئے اور کہا کہ مولوی محمد علی نے لکھا ہے کہ لنگر کا خرچ تو تھوڑا سا ہوتا ہے۔ باقی ہزاروں روپیہ جو آتا ہے وہ کہاں جاتا ہے اور گھر میں آکر آپ نے بہت غصہ ظاہر کیا۔ کہا: کہ لوگ ہم کو حرام خور سمجھتے ہیں۔ ان کو اس روپیہ سے کیا تعلق۔ اگر آج میں الگ ہو جاؤں تو سب آمدن بند ہو جائے۔‘‘
پھر خواجہ صاحب نے ایک ڈیپوٹیشن کے موقع پر جو عمارت مدرسہ کا چندہ لینے گیا تھا۔ مولوی محمد علی سے کہا کہ حضرت (مرزاقادیانی) صاحب آپ تو خوب عیش وآرام سے زندگی بسر کرتے ہیں اور ہمیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اپنے خرچ گھٹا کر بھی چندہ دو، جس کا جواب مولوی محمد علی نے یہ دیا کہ ہاں اس کا انکار تو نہیں ہوسکتا۔ لیکن بشریت ہے۔ کیا ضرور کہ ہم نبی کی بشریت کی پیروی کریں۔ (حقیقت الاختلاف ص۵۰)
آمدنی کے نئے نئے ذرائع
مرزاقادیانی ہی کی زندگی میں قادیان کے ’’بہشتی مقبرہ‘‘ میں جگہ پانے کے لئے جو شرائط وضع کی گئیں اور ایک قبر کی جگہ کے لئے جو گراں قدر قیمت اور نذرانہ رکھاگیا اور اس کا جس ترغیب وتشویق کے ساتھ اعلان کیاگیا۔ اس نے قرون وسطیٰ کے ’’ارباب کلیسا‘‘ کے ’’پروانہ غفران‘‘ کے بیع وشراء اور جنت کی قبالہ فروشی کی یاد تازہ کر دی، اور مرکز قادیان کے لئے آمدنی کا ایک وسیع ومستقل سلسلہ شروع ہوگیا، اور وہ رفتہ رفتہ سلسلۂ قادیانیت کا ایک عظیم محکمہ بن گیا۔ قادیان کے ترجمان ’’الفضل‘‘ نے اپنی ایک اشاعت میں صحیح لکھا ہے کہ: ’’مقبرۂ بہشتی اس سلسلہ کا ایک ایسا مرکزی نقطہ ہے اور ایسا عظیم الشان انسٹیٹیوشن یعنی محکمہ ہے جس کی اہمیت ہر دوسرے محکمہ سے بڑھ کر ہے۔‘‘ (الفضل قادیان ج۲۴ نمبر۲۵، مورخہ ۱۵؍ستمبر ۱۹۳۶ئ)
قادیان اور ربوہ کی دینی ریاست
اس سارے آغاز کا انجام یہ ہوا کہ ’’تحریک قادیانیت‘‘ کا مرکز قادیان اور تقسیم ہند کے بعد سے اس کا جانشین ’’ربوہ‘‘ ایک اہم دینی ریاست بن گیا۔ جس میں قادیان کے خاندان نبوت اور اس کے صدر نشین ’’مرزابشیرالدین محمود‘‘ کو امارت وریاست کے وہ سب لوازم ایک مذہبی آمر اور مطلق العنان فرمانروا کے سب اختیارات اور خوش باشی وعیش کوشی کے وہ سب مواقع مہیا ہیں۔ جو اس زمانہ میں کسی بڑے سے بڑے انسان کو مہیا ہو سکتے ہیں۔ اس دینی وروحانی مرکز کی اندرونی زندگی اور اس کے امیر کی اخلاقی حالت ’’حسن بن صباح‘‘ باطنی کے ’’قلعۂ الموت‘‘ کی یاد تازہ کرتی ہے۔ جو پانچویں صدی ہجری میں مذہبی استبداد اور عیش وعشرت کا ایک پراسرار مرکز تھا۔
دور حاضر کا مذہبی آمر اور انگریز
پھر اگر قادیانیوں کو مرزاقادیانی کی زندگی پیش کرنے کا شوق ہے تو مرزاقادیانی نے جو خود اپنا مقصد زندگی بیان کیا ہے۔ وہ ذیل میں ملاحظہ کیا جائے۔ مرزاقادیانی نے باربار اپنی وفاداری، اور اخلاص، اور اپنی خاندانی خدمات، اور انگریزی حکومت کی تائید وحمایت میں اپنی سرگرمی اور انہماک کا ذکر کیا ہے، اور ایک ایسے زمانے میں جب مسلمانوں میں دینی حمیت کو بیدار کرنے کی سخت ضرورت تھی۔ باربار جہاد کے حرام وممنوع ہونے کا اعلان کیا۔ یہاں پر نہایت اختصار کے ساتھ صرف چند عبارتیں اور اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں۔ ایک جگہ مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید وحمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں کہ اگر وہ اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہو جائیں اور ’’مہدی خونی‘‘ اور ’’مسیح خونی‘‘ کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵)
اپنی کتاب (شہادت القرآن ص۸۴، خزائن ج۶ ص۳۸۰) کے آخر میں لکھتا ہے: ’’میرا مذہب جس کو میں باربار ظاہر کرتا ہوں۔ یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خداتعالیٰ کی اطاعت کرے۔ دوسرے اس سلطنت کی کہ جس نے امن قائم کیا ہو۔ جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے۔‘‘
(اشتہار گورنمنٹ کی توجہ کے لائق ص۳، کتاب شہادۃ القرآن کے آخر میں)
ایک درخواست میں جو لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کو ۲۴؍فروری ۱۸۹۸ء کو پیش کی گئی تھی، لکھتا ہے: ’’دوسرا امر قابل گذارش یہ ہے کہ میں ابتدائی عمر سے اس وقت تک جو قریباً ساٹھ برس کی عمر کو پہنچا ہوں، اپنی زبان اور قلم سے اس اہم کام میں مشغول ہوں کہ تا مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی محبت اور خیرخواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں اور ان کے بعض کم فہموں کے دلوں سے غلط خیال جہاد وغیرہ کے دور کروں۔ جو دلی صفائی اور مخلصانہ تعلقات سے روکتے ہیں… اور میں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں پر میری تحریروں کا بہت ہی اثر ہوا اور لاکھوں انسانوں میں تبدیلی پیدا ہوگئی۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۱)
ایک دوسری جگہ لکھتا ہے: ’’میں نے بیسیوں کتابیں عربی، فارسی اور اردو میں اس غرض سے تالیف کی ہیں کہ اس گورنمنٹ محسنہ سے ہرگز جہاد درست نہیں۔ بلکہ سچے دل سے اطاعت کرنا ہر ایک مسلمان کا فرض ہے۔ چنانچہ میں نے یہ کتابیں بصرف زر کثیر چھاپ کر بلاد اسلام میں پہنچائیں اور میں جانتا ہوں کہ ان کتابوں کا بہت سا اثر اس ملک پر بھی پڑا ہے اور جو لوگ میرے ساتھ مریدی کا تعلق رکھتے ہیں وہ ایک ایسی جماعت تیار ہوتی جاتی ہے کہ جن کے دل اس گورنمنٹ کی سچی خیرخواہی سے لبالب ہیں۔ ان کی اخلاقی حالت اعلیٰ درجہ پر ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ وہ تمام اس ملک کے لئے بڑی برکت ہیں اور گورنمنٹ کے لئے دلی جان نثار۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۶ ص۶۵، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۶۶،۳۶۷)
ایک دوسری جگہ لکھتا ہے: ’’مجھ سے سرکار انگریزی کے حق میں جو خدمت ہوئی۔ وہ یہ تھی کہ میں نے پچاس ہزار کے قریب کتابیں، اور رسائل، اور اشتہارات چھپوا کر اس ملک اور نیز دوسرے بلاد اسلام میں اس مضمون کے شائع کئے کہ گورنمنٹ انگریزی ہم مسلمانوں کی محسن ہے۔ لہٰذا ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اس گورنمنٹ کی سچے دل سے اطاعت کرے اور دل سے اس دولت کا شکرگزار اور دعاگو رہے اور یہ کتابیں میں نے مختلف زبانوں یعنی اردو، فارسی، عربی میں تالیف کر کے اسلام کے تمام ملکوں میں پھیلا دیں۔ یہاں تک کہ اسلام کے دو مقدس شہروں مکے اور مدینے میں بھی بخوبی شائع کردیں اور روم کے پایۂ تخت قسطنطنیہ اور بلاد شام اور مصر اور کابل اور افغانستان کے متفرق شہروں میں جہاں تک ممکن تھا اشاعت کر دی گئی۔ جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ لاکھوں انسانوں نے جہاد کے وہ غلیظ خیالات چھوڑ دئیے جو نافہم ملاؤں کی تعلیم سے ان کے دلوں میں تھے۔ یہ ایک ایسی خدمت مجھ سے ظہور میں آئی ہے کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ ’’برٹش انڈیا‘‘ کے تمام مسلمانوں میں اس کی نظیر کوئی مسلمان دکھلا نہیں سکا۔‘‘
(ستارہ قیصریہ ص۳،۴، خزائن ج۱۵ ص۱۱۴)
مزید اس آیت سے متعلق جوابات ملاحظہ فرمائیں۔ جس سے ’’مرزاغلام احمد قادیانی‘‘ کا کذب ودجل آپ پر روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا۔
جواب نمبر:۲… ’’ہرقل شاہ روم‘‘ نے عرب وفد سے حضور علیہ السلام کے بارے میں جو سوال کئے۔ ان میں سے بعض آپ علیہ السلام کی بعثت سے بعد کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً کیا آپ علیہ السلام کے متبعین میں سے کوئی آپ کے دین سے ناراض ہوکر آپ سے علیحدہ ہوا ہے؟ اور کیا آپ کے متبعین بڑھتے جارہے ہیں یا کم بھی ہوتے جاتے ہیں؟
صحابہe نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد ہرقل کی اس سوچ پر کسی قسم کی نکیر نہیں کی۔
جواب نمبر:۳… اس دلیل میں قادیانی مبلغ نے مرزاقادیانی کو حضور علیہ السلام پر قیاس کرنے کی گستاخی کی ہے۔ اس کے جواب میں ہم مرزاقادیانی کی یہ عبارت پیش کرنا کافی سمجھتے ہیں: ’’ماسواء اس کے جو شخص ایک نبی متبوع کا متبع ہے اور اس کے فرمودہ پر اور کتاب اﷲ پر ایمان لاتا ہے۔ اس کی آزمائش انبیاء کی آزمائش کی طرح کرنا ایک قسم کی ناسمجھی ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۳۳۹، خزائن ج۵ ص۳۳۹)
لہٰذا مرزاقادیانی کو ہم حضور علیہ السلام پر قیاس نہیں کر سکتے۔
جواب نمبر:۴… مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’فلا تقیسونی علی احد ولا احد ابی پس مجھے کسی دوسرے کے ساتھ مت قیاس کرو اور نہ کسی دوسرے کو میرے ساتھ۔‘‘
(خطبہ الہامیہ ص۲۰، خزائن ج۱۶ ص۵۲)
اس لئے مرزائیوں کو آنحضرت علیہ السلام پر مرزاقادیانی کو قیاس کرنے کی جسارت نہیں کرنی چاہئے۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو مرزاقادیانی کی نافرمانی کے مرتکب ہوں گے۔
جواب نمبر:۵… بعثت سے قبل اور بعثت کے بعد نبی کی دونوں قسم کی زندگی پاک اور بے داغ ہوتی ہے۔ پہلی زندگی کو بے داغ ثابت کرنا اس لئے ہوتا ہے کہ اس سے اگلی زندگی کو بے داغ بتایا جائے اور دعویٰ نبوت کو صحیح مانا جائے۔
بعثت کے بعد کی زندگی کو موضوع بحث بنانے سے فرار اختیار کرنا نہایت ہی کمزور بات ہے، اور یہ اس پر دال ہے کہ اس کی زندگی میں واقعی کچھ کالا ضرور ہے۔
جواب نمبر:۶… مرزاقادیانی نے اپنی پہلی زندگی میں انگریز کی عدالت میں مقدمہ لڑ کر کچھ مالی وراثت حاصل کی۔ حالانکہ نبی کسی کا وارث نہیں ہوتا۔ ’’نحن معشر الانبیاء لا نرث ولا نورث‘‘ ہم جماعت انبیائo نہ کسی کے وارث ہوتے ہیں نہ ہمارا کوئی وارث ہوتا ہے۔
جواب نمبر:۷… یہ حقیقت ہے کہ نبی کی نبوت سے پہلے کی زندگی بھی پاک ہوتی ہے اور دعویٰ نبوت کے بعد کی زندگی بھی بے داغ اور صاف ہوتی ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ جس کی پہلی زندگی پاک وصاف اور بے داغ اور بے عیب ہو وہ نبی بھی ہو جائے۔ جس طرح نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ شاعر نہ ہو وہ کسی سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھے۔ جھوٹ نہ بولتا ہو، لیکن یہ ضروری نہیں کہ جو کوئی شاعر نہ ہو، کسی سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا ہو وہ نبی بھی ہو جائے۔ کیونکہ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو آج ہزاروں ایسے ملیں گے جو اپنی پہلی زندگی کے پاک وصاف ہونے کے مدعی ہیں۔ کیا ان سب کو نبی مانا جائے گا؟
جواب نمبر:۸… مرزاقادیانی خود تسلیم کرتا ہے کہ انبیائo کے علاوہ کوئی معصوم نہیں اور نہ ہی میں معصوم ہوں اور یہ مسلم قاعدہ ہے۔ ’’المرء یؤخذ باقرارہ‘‘ کہ آدمی اپنے اقرار سے پکڑا جاتا ہے۔‘‘
’’لیکن افسوس کہ بٹالوی صاحب نے یہ نہ سمجھا کہ نہ مجھے نہ کسی انسان کو بعد انبیائo کے معصوم ہونے کا دعویٰ ہے۔‘‘ (کرامات الصادقین ص۵، خزائن ج۷ ص۴۷)
’’سیرت المہدی‘‘ میں سات صد روپیہ پنشن کی رقم کے کے اڑائے۔ حوالہ گذر چکا ہے۔
کیا یہ اپنے معصوم نہ ہونے کا کھلا اقرار نہیں؟ بچے تھے کہ کوئی دھوکہ دے سکتا ہے یا پھسلا سکتا ہے؟ اور پھر ادھر ادھر پھرانے کا کیا مطلب ہے؟ یہ بات تو قطعی ہے کہ کسی دینی کام یا مسجد ومدرسہ میں نہیں گئے ہوںگے اور نہ یہ رقم کسی اچھی جگہ خرچ کی ہوگی۔ ’’ادھر ادھر‘‘ سے اگر بازار حسن مراد نہیں تو اور کون سی جگہ ہوگی جو مرزاقادیانی کو پسند آئی ہوگی۔ اگر یہ کوئی شرمناک وارداتیں نہ تھیں تو مرزاقادیانی کو شرم کیوں آئی جو وہ سیالکوٹ بھاگ گئے؟
اب مرزائیوں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ اتنی خطیر رقم کا حساب دیں کہ کہاں کہاں خرچ ہوئی؟ بصورت دیگر مرزاقادیانی کی عصمت باقی نہیں رہتی اور یہ دعویٰ کہ مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت سے قبل کی زندگی بالکل بے داغ تھی۔ بالکل باطل ہو جاتا ہے۔
جواب نمبر:۹… محمد عربی علیہ السلام نے سب سے پہلے اپنے قریب کے آدمیوں کوبلا کر ان کے سامنے اپنی صفائی کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے یک زبان ہوکر اعلان کیا: ’’جربناک مرارا فما وجدنا فیک الاصدقا‘‘ کہ ہم نے باربار آپ کو آزمایا اور ہر بار ہم نے آپ علیہ السلام میں سچائی ہی پائی۔
اس کے برعکس مرزاقادیانی نے اپنی صفائی مولوی محمد حسین بٹالوی (آئینہ کمالات اسلام ص۳۱۱، خزائن ج۵ ص۳۱۱) سے پیش کروائی ہے جو کہ کچھ عرصہ ہی اس کے ساتھ رہے تھے۔ پھر وہ مرزاقادیانی کے شہر اور گاؤں کے رہنے والے بھی نہ تھے اور اس میں بھی شک نہیں ہوسکتا کہ مرزاقادیانی کی حقیقت واضح ہونے پر انہوں نے اپنی سابقہ تحریر سے رجوع کر لیا۔ (دیکھئے آئینہ کمالات اسلام حوالہ مذکورہ) اسی طرح حضور علیہ السلام کی صفائی آپ کے قبیلہ کے سردار حضرت ابوسفیانb نے ہر قل بادشاہ کے سامنے اسلام لانے سے قبل پیش کی تھی اور اسی طرح حضرت خدیجہt جو آپ علیہ السلام کی رفیقۂ حیات ہیں۔ انہوں نے آپ کی پہلی زندگی کی صفائی پیش کی۔ جب حضرت جبرائیل امین علیہ السلام آپ علیہ السلام کی طرف پہلی دفعہ تشریف لائے تھے اور اسی طرح آپ علیہ السلام کی آخری اور پوری زندگی کی صفائی حضرت عائشہ صدیقہt پیش کر رہی ہیں۔ ’’کان خلقہ القراٰن‘‘ آپ علیہ السلام کا اخلاق قرآن ہے۔‘‘
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top