جھوٹ (۲۰۱)
”امام محمد اسمٰعیل صاحب جو اپنی صحیح بخاری میں آنے والے مسیح کی نسبت صرف اس قدر حدیث بیان کرکے چُپ کر گئے کہ امامکم منکم اس سے صاف ثابت ہو تا ہے کہ دراصل حضرت اسمٰعیل بخاری صاحب کا یہی مذہب تھا کہ وہ ہرگز اس بات کے قائل نہ تھے کہ سچ مچ مسیح ابن مریم آسمان سے اُتر آئےؔ گا“(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 153)
نور: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر بانی مرزائیت کا ایک ناپاک اتہام و قابل شرم افتراء ہے بالخصوص یہ کہنا کہ ”امامکم منکم سے صاف ثابت ہوتا ہے“ بتلا رہا ہے کہ ”قادیانی پیغمبر“ علم و عقل سے بالکل برہنہ تھے۔ حتی کہ ان کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا صحیح نام لکھنے کی بھی تمیز نہ تھی کہ کہیں ”امام محمد اسمعیل صاحب“ اور کہیں ”حضرت اسمعیل بخاری صاحب“ تحریر کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کا نام محمد تھا نہ محمد اسمٰعیل اور نہ اسمٰعیل۔
جھوٹ (۲۰۲)
” ان میں سے مسیح کو اُترتے نہیں دیکھے گا۔ حالانکہ تیرھویں صدی کے اکثر علماء چودہویں صدی میں اُس کا ظہور معین کرگئے ہیں اور بعض تو چودھویں صدی والوں کو بطور وصیّت یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ اگر اُن کا زمانہ پاؤ تو ہمارا السلام علیکم اُنہیں کہو“(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ179)
نور: تیرہویں صدی کے جن اکثر علماء نے چودہویں صدی کو حضرت مسیح کے ظہور کا زمانہ معین فرمایا ہے ان کی اکثریت کو ثابت کرتے ہوئے ان کے اسماء گرامی سے روشناس کرائیے؟۔ بعد ازاں جن کتابوں میں ان کا یہ مضمون مندرج ہے ان کو بتائیے؟۔ نہیں تو:
”ایسا کھلا کھلا جھوٹ بنانا ایک بڑے بدذات اور لعنتی کاکا م ہے“(روحانی خزائن جلد ۲۳- چشمہ مَعرفت: صفحہ 408)
جھوٹ (۲۰۳)
”اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں صاف فرما دیا ہے کہ یہ دو ۲قسم(قہری نشانوں اور تلوار کا عذاب) کے عذاب ایک وقت میں جمع نہیں ہو سکتے“(روحانی خزائن جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 400)
نور: قرآن شریف کی جس آیت میں صاف و صراحت سے بغیر تاویل و توجیہ کے یہ مضمون ذکر کیا گیا ہو اس کو بیان کر کے بتاؤ کہ اس کو صرف مرزا جی ہی نے سمجھا ہے؟ یا اکابر سلف میں سے کسی نے استنباط کیا ہے؟۔ ورنہ:
”خدا کی لعنت اُن لوگوں پر جو جھوٹ بولتے ہیں“(روحانی خزائن جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 109)
جھوٹ (۲۰۴)
” میرے آنے کے دو مقصد ہیں۔ (۱)مُسلمانوں کے لیے یہ کہ اصل تقویٰ اور طہارت پر قائم ہو جائیں۔ وہ سچے مُسلمان ہوں جو مُسلمان کے مفہوم میں اللہ تعالی نے چاہا ہے۔ اور(۲) عیسائیوں کے لیے کسر صلیب ہو اور ان کا مصنوعی خدا نظر نہ آوے دنیا ان کو بھول جاوے۔ خدائے واحد کی عبادت ہو“(مجموعہ اشتہارات جلد 4 صفحہ 472 پانچ جلدوں والا ایڈیشن)
جھوٹ (۲۰۵)
”میرا کام جس کے لیے میں اس میدان میں کھڑا ہوا ہوں یہی ہے کہ عیسیٰ پرستی کے ستون کو توڑ دوں اور بجائے تثلیث کے توحید پھیلاؤں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی جلالت اور عظمت اور شان دنیا پر ظاہر کر دوں پس اگر مجھ سے کروڑ نشان بھی ظاہر ہوں اور یہ علت غائی ظہور میں نہ آوے پس میں جھوٹا ہوں.......اور اگر کچھ نہ ہوا اور میں مر گیا تو پھر گواہ رہیں کہ میں جھوٹا ہوں“(بدر جلد 2 نمبر 29مورخہ 19؍ جولائی 1906ء)
نور: مرزا صاحب جن دو عظیم الشان مقاصد کو اپنے آغوش نبوت میں لے کر رونق افروز بزم قادیان ہوئے تھے افسوس و حسرت کے ساتھ اس مراد واقعی کا اظہار کیا جاتا ہے کہ آپ اس مقصد عظیم میں بری طرح ناکام و نامراد ہوئے۔ اور بہت بے آبرو ہو کر اس کوچہ سے نکلے ہیں اور تمام مسلمانان عالم کو اپنے ”دروغ گو و جھوٹے“ ہونے پر شاہد عادل بنا کر چلتے بنے۔
کیوں کے مرزا جی کا پہلا مقصد تو یہی تھا کہ مسلمانوں کو تقویٰ و طہارت سے آراستہ کر کے ان کو صحیح و سچے معنوں میں مسلمان بنائیں مگر اس مقصد کی درد ناکامی اس سے ظاہر ہے کہ مسلمان دہریت و الحاد کے تباہ کن سیلاب میں بہے چلے جا رہے ہیں اور ان کی اخلاقی و عملی حالت اس درجہ تنزل پذیر ہے کہ معلوم ہوتا ہے اسلام سے ان کو کچھ تعلق نہیں۔
علاوہ ازیں خود مرزا صاحب نے مسلمان بنانے کے بجائے یہ گمراہ کن راستہ اختیار کیا کہ اپنی مٹھی بھر جماعت کے سوا دنیا کے ان تمام مسلمانوں و مؤمنوں کو جو ان کی دیسی نبوت و سو دیشی مسیحیت کے آستانہ پر جبیں سائی کرنے سے منکر ہیں یا متردد، کافر و مرتد بے ایمان بنا کر اسلام کے واحد اجارہ دار بن بیٹھے۔
دیکھیں: (روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 167) اور (روحانی خزائن جلد ۱۱- انجام آتھم: صفحہ 26)۔
خیال تھا کہ وہ لوگ جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سایۂ رحمت سے نکل کر مرزائیت کی آغوش میں خوش فعلیاں کر رہے ہیں اور بہشتی مقبرہ کے حرص میں ”قادیانی دیوتا“ کی پرستش، یقینی طور پر تقویٰ و طہارت کی چلتی پھرتی تصویریں، دیانت و امانت کے عملی پیکر ہوں گے۔ مگر خواب تھا جو کچھ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔ اس لیے خود ”بانی سلسلہ“ آنسو بہا بہا کر ان کی اخلاقی حالت و پرہیز گاری کا مرثیہ خوان ہے۔
”ہماری جماعت کے اکثر لوگوں نے اب تک کوئی خاص اہلیت اور تہذیب اور پاک دلی اور پرہیز گاری اور للہی محبت باہم پیدا نہیں کی سو میں(مرزا قادیانی) دیکھتا ہوں......کہ بعض حضرات جماعت میں داخل ہو کر اور اس عاجز سے بیعت کرکے اور عہد توبہ نصوح کرکے پھر بھی ویسے کج دل ہیں کہ اپنی جماعت کے غریبوں کو بھیڑیوں کی طرح دیکھتے ہیں وہ مارے تکبر کے سیدھے منہ سے السلام علیک نہیں کرسکتے چہ جائیکہ خوش خلقی اور ہمدردی سے پیش آویں اور انہیں سفلہ اور خود غرض اس قدر دیکھتا ہوں کہ وہ ادنیٰ ادنیٰ خود غرضی کی بناء پر لڑتے اور ایک دوسرے سے دست بد امن ہوتے ہیں اور ناکارہ باتوں کی وجہ سے ایک دوسرے پر حملہ ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات گالیوں تک نوبت پہنچتی ہے اور دلوں میں کینے پیدا کر لیتے ہیں اور کھانے پینے کی قسموں پر نفسانی بحثیں ہوتی ہیں.....یہ حالات ہیں جو اس مجمع میں مشاہدہ کرتا ہوں تب دل کباب ہوتا اور جلتا ہے اور بے اختیار دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اگر میں درندوں میں رہوں تو ان بنی آدم سے اچھا ہے“(روحانی خزائن جلد ۶- شَھادَۃُ القُرآن: صفحہ 395تا396)
ناظرین کرام! مرزا صاحب اپنے عظمت مآب مقصد میں جس ”شاندار پسپائی“ سے پسپا و نامراد ہوئے ہیں اس کا جمالی خاکہ آپ کے سامنے ہے۔ اس کے بعد دوسرے ”عظیم مقصد“ کی المناک ناکامیوں و جگر خراش نامرادیوں کو ملاحظہ فرمائیے کہ کہنے و فریب دینے کے لیے تو ”قادیانی پیغمبر“ عیسیٰ پرستی کے ستون کو توڑنے اور صلیب کو ریزہ ریزہ کرنے آئے تھے مگر برعکس اسی ”عیسائیت“ کے سب سے بڑے تاجدار بادشاہ برطانیہ(جو بقول مرزا صاحب کے دجال اعظم و یاجوج ماجوج بھی ہے) کی حمایت و نصرت میں اسی صلیب شکن کے مقدس ہاتھوں سے اس قدر اشتہارات و کتابیں لکھی گئیں جو ”پچاس الماریوں کی بے پانہ وسعت و فراخی“ کو بھی تنگ کر رہی ہیں۔
علاوہ ازیں اس وقت اکناف عالم میں عیسائیت پرستی جیسی کچھ روز افزوں ترقی کر رہی ہے وہ تعلیم یافتہ طبقہ پر بالکل عیاں ہے تاہم اس” داستان لطف“ کو مرزائیت ہی کے ایک نامور غلام جس کو اپنے آقائے نامدار کی طرح ”کسر صلیب“ میں مبالغہ آمیز دعوی کے ساتھ بہت کچھ مہارت و کمال حاصل ہے اس کی زبان سے سنئے تاکہ ”قادیانی پیغمبر“ کی ”شاندار نامرادی“ پر دہان دوز شہادت بن جائے۔ لاہوری مرزائیوں کا ترجمان ”پیغام صلح“ لکھتا ہے کہ:
(۱)”آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے ہندوستان میں عیسائیوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ آج پچاس لاکھ کے قریب ہے“(پیغام صلح مورخہ 6؍مارچ 1928ء صفحہ؍5)
(۲)” 1927ء میں عیسائیوں نے 19لاکھ 8 ہزار نسخے ہندوستان کی مختلف زبانوں میں بائیبل کے شائع کئے ہیں“ (پیغام صلح مورخہ 13؍مارچ 1928ء)
(3)”1931ء کی مردم شماری بتا رہی ہے کہ ہندوستان کے مختلف صوبوں و ریاستوں میں عیسیٰ پرست عیسائیوں کی تعداد 2674888 ہے اور دس سال میں 32؍فیصدی کے حساب سے ان میں اضافہ ہوا اور روز بروز عیسائیت ترقی کرتی جا رہی ہے“
صلیب پرستی کی روز افزوں ترقی کا یہ حال صرف اس ہندوستان میں ہے جہاں کہ ایک ”گاؤں“ میں ”دہقانی پیغمبر“، ”قادیانی مسیح“ با دعائے کسر صلیب نزول اجلال فرما کر قبل از وقت اس واسطے تشریف لے گئے تاکہ دنیا ان کے دروغ گو، نامراد، مفتری ہونے میں شک و شبہ نہ کر سکے۔ اسی سے مغربی ممالک کے متعلق اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں عیسائیت کا کس قدر بے پناہ غلبہ وسعت پذیر ہو گا۔ تاہم اس کو بھی اسی عیسیٰ پرستی کے ستون توڑنے والے ”قادیانی مسیح“ کے وفادار غلام ”پیغام صلح“ کی زبان سے سنئے۔
”مسٹر ایف ڈیو اکر ایک انگریز مسیحی مشنری نے مسلم ورلڈ میں اپنی ذاتی تجربات کی بناء پر یہ اعلان کیا ہے کہ سیر الیون، مینڈیلنیڈ، گولڈ کوسٹ اور اشانٹی، نائیجیریا اور فرانسیسی نو آبادیوں اور ڈرہوی، ٹوگو اور آئیوری کوسٹ میں مجھ پر یہ پورے طور پر آشکارا ہو چکا ہے اسلام کی رفتار ترقی قطعاً رک چلی جا رہی ہے اور آج افریقی لوگوں کو نبی اسلام کا پیرو بنانے میں جس قدر کامیابی مسلمانوں کو حاصل ہوئی ہے اس سے بہت زیادہ تعداد کو ہم مسیحیت کا حلقہ بگوش بنانے میں کامیاب ہیں“(پیغام صلح صفحہ؍3کالم1 مورخہ 24؍مئی 1929ء)
عیسائیت کی یہ روز افزوں ترقی اور بے پناہ غلبہ اس ”قادیانی مسیح و دیسی نبی“ کے بعد ہو رہا ہے جو دعائے عیسیٰ پرستی کے ستون کو توڑنے اور عیسائیت کو فنا کرنے کے لیے آئے تھے مگر آہ! افسوس ”مرزائی مسیح“ آیا اور بہ حسرت و یاس نامراد و ذلیل ہو کر قبل از وقت دنیا سے رخصت ہو گیا اس لیے ہم تمام مسلمان ان کے
کاذب و مفتری ہونے کی شہادت دیتے ہیں اور ان کی ”تربت“ پر لعنتی بدبودار پھول چڑھانے کی عزت حاصل کرتے ہیں کیوں کہ:
”کیونکہ ہر یک چیز اپنی علّت غائی سے شناخت کی جاتی ہے“(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 398)
بالآخر وہ انسان جس کا دماغ علم و عقل کی روشنی سے منور ہے وہ یقینی طور پر اس امر کا اظہار کرے گا کہ مرزا صاحب قادیانی بڑے شان و شوکت و آب و تاب کے ساتھ ان دو عظیم الشان مقاصد میں ناکام و نامراد ہو کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ اور ان کی زندگی کا ہر ہر گوشہ دروغ گوئیوں، اختلاف بیانیوں، مبالغہ آمیزیوں، افتراء پردازیوں، اتہام سازیوں، خیانت کاریوں، سرقہ بازیوں، گستاخیوں، شیخیوں، بلند خیالیوں اور گالیوں میں اس طرح سے الجھا ہوا ہے کہ ”امت مرزائیہ“ کا ناخن تدبیر بھی سلجھانے سے عاجز ہے؎
مصیبت میں پڑا ہے سینے والا چاک داماں کا
جو یہ ٹانکا تو وہ ادھیڑا جو یہ ادھڑا تو وہ ٹانکا
اور مرزائیت کے ”بانی سلسلہ“ کی زندگی ان بے شمار سازیوں و بازیوں کا ایک معجون مرکب ہے جس میں سے ایک جز دروغگوئی و اتہام بازی کو مشتے نمونہ از خروارے اس رسالہ میں دو سو پانچ کی تعداد میں جمع کیا گیا ہے تاکہ مرزا صاحب کی خانہ ساز نبوت و خود ساختہ مسیحیت اور دیگر طویل و عریض ہنگامہ خیز دعاوی کی پر تزویر حقیقت پاش پاش ہو کر غبار روزگار بن جائے اور مرزائیت کے ”اولوالعزم قادیانی پیغمبر“ کی ذلت و رسوائی اور تباہی و بربادی میں کوئی دقیقہ باقی نہ رہ جائے۔
درحقیقت قدرت الہٰیہ کا یہ کرشمہ لطف ہے کہ اس نے مرزا صاحب قادیانی جیسے مدعی نبوت کی دوکان کو ویران و تباہ کرنے کے لیے دروغ گوئیوں و افتراء پردازیوں کا اتنا ذخیرہ جمع کر دیا ہے کہ مرزائیت کے ”مستحکم قلعہ“ کو بیخ و بن مسمار و منہدم کرنے کے لیے کسی اور آلہ حرب و ضرب کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔
چوں کہ دروغگوئی کا خصوصی شعار و امتیازی نشان ”حافظہ نباشد“ بھی ہے۔ اسی معیار پر مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ :
”حافظہ اچھا نہیں یاد نہیں رہا“(روحانی خزائن جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 439)
لہٰذا اس اعتراف کے بعد ہم کو دخل در معقولات کی کیا ضرورت ہے؎
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
تاہم مندرجہ ذیل حوالجات کو بھی محفوظ رکھئے تاکہ داشتہ کار آمد ہو سکے۔
(۱)”نبی کے کلام میں جھوٹ جائز نہیں“(روحانی خزائن جلد ۱۵- مسیح ہندوستان میں: صفحہ 21)
(۲)”انبیاء کا حافظہ نہایت اعلیٰ ہوتا ہے“(ریویو آف ریلیجنز ماہ جنوری 1929ء صفحہ؍ 8)
(۳)”ملہم کا دماغ نہایت اعلیٰ ہوتا ہے“(ریویو آف ریلیجنز ماہ جنوری 1930ء صفحہ؍26)
(۴)”ملہم کے دماغی قوی کا نہایت مضبوط اور اعلیٰ ہونا بھی ضروری ہے“(ریویو آف ریلیجنز ماہ ستمبر 1929ء صفحہ؍4)
(۵) کاذب کا خدا دشمن ہے وہ اس کو جہنم میں لے جائے گا“(البشری جلد 2 صفحہ؍120)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ