• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

آخری فیصلہ اشتہار

اسامہ

رکن ختم نبوت فورم
مرزا قادیانی کا مولانا ثناء اللہ امرتسری ﴿رحمۃ اللہ علیہ﴾ کے بارے میں دعائیہ اشتہار

تحریر
محمد اسامہ حفیظ

مولانا ثناء اللہ امرتسری ﴿رحمۃ اللہ علیہ﴾ کا مرزا غلام قادیانی کے ساتھ ہمیشہ مقابلہ رہا۔ مرزا قادیانی جب دلائل کی دنیا میں ناکام ہوا تو زچ ہو کر مولانا امرتسری کے خلاف اپریل 1907 میں دعائیہ اشتہار "مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ" نام سے شائع کر دی۔
مکمل اشتہار ﴿مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 578 تا 580﴾ پر دیکھا جا سکتا ہے۔
اس اشتہار میں مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ

﴿1﴾ اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ ﴿مولانا امرتسری﴾ اپنے ہر پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی ہی میں ہلاک ہو جاؤں گا۔ ﴿مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 578﴾

﴿2﴾ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے جیسے طاعون ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئیں تو میں خدا کی طرف سے نہیں۔ ﴿مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 578 ،579﴾

﴿3﴾ اور میں (مرزا قادیانی) خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک بصیر و قدیر جو علیم و خبیر ہے جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افتراء ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افتراء کرنا میرا کام ہے تو اے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے۔ آمین ﴿مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 578﴾

﴿4﴾ اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اللہ میں سچا فیصلہ فرما اور جو تیری نگاہ میں درحقیقت کذاب مفسد ہے اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھا لے۔ ﴿مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 579﴾

مرزا صاحب کو یہ "الہام" بھی ہو گیا کہ ان کی دعا قبول ہو گئی ہے

حوالہ نمبر 1

اجيب دعوة الداع ﴿اخبار البدر 25 اپریل 1907 صفحہ 7﴾

حوالہ نمبر 2

ثناء اللہ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے یہ دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرح سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے ﴿اخبار البدر 25 اپریل 1907 صفحہ 7 ، ملفوظات جلد 5 صفحہ 206﴾

حوالہ نمبر 3

مجھے بارہا خدا تعالیٰ مخاطب کر کے فرما چکا ہے کہ جب تو دعا کرے تو میں تیری سنوں۔ ﴿روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 515﴾

حوالہ نمبر 4

میں تیری ساری دعائیں قبول کروں گا مگر شرکاء کے متعلق نہیں
﴿روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 210﴾

ہوا کچھ یوں کہ

طاعون ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں مولانا ثناء اللہ امرتسری پر مرزا قادیانی کی زندگی میں وارد نہ ہوئی اور مرزا قادیانی جھوٹا تھا اس لیے مولانا ثناء اللہ امرتسری کی زندگی میں ہی ہیضہ سے ہلاک ہو گیا (مرزا قادیانی 26 مئی 1908 میں لاہور میں فوت ہو گیا اور مولانا کا انتقال 1948 میں ہوا)

لکھا تھا کاذب مرے گا پیشتر
قول کا پکا تھا پہلے مر گیا

مرزا قادیانی کے ہیضہ سے مرنے کا حوالے

حوالہ نمبر 1

والدہ صاحب نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا مگر اس کے بعد تھوڑی دیر تک ہم لوگ آپ کے پاؤں دباتے رہے اور آپ آرام سے لیٹ کر سو گئے اور میں بھی سو گئی لیکن کچھ دیر بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور غالباً ایک یا دو دفعہ رفع حاجت کے لئے آپ پاخانہ تشریف لے گئے اس کے بعد آپ نے زیادہ ضعف محسوس کیا تو آپ نے ہاتھ سے مجھے جگایا میں اٹھی تو آپ کو اتنا ضعف تھا کہ آپ میری چارپائی پر ہی لیٹ گیا اور میں آپ کے پاؤں دبانے کے لیے بیٹھ گئی تھوڑی دیر بعد حضرت صاحب نے فرمایا تم اب سو جاؤ میں نے کہا نہیں میں دباتی ہوں اتنی میں آپ کو ایک اور دست آیا مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخالہ نہ جاسکتے تھے اس لئے میں نے چارپائی کے پاس ہی انتظام کردیا اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے﴿پرانے ایڈیشن میں لکھا تھا "آپ پاخانہ نہ جاسکتے تھے اس لیے چارپائی کے پاس ہی بیٹھ کر آپ فارغ ہوئے" یعنی قادیانی نے اپنی کتاب میں تحریف کر دی ہے پرانے ایڈیشن کا حوالہ موجود ہے طلب کیا جا سکتا ہے﴾ اور پھر اٹھ کر لیٹ گئے اور میں پاؤں دباتی رہی مگر اب ضعف بہت ہوگیا تھا اس کے بعد ایک اور دست آیا پھر آپ کو ایک قے آئی جب آپ قے سے فارغ ہوکر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ آپ لیٹتے لیتے پشت کے بل چارپائی پر گر گئے اور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگرگوں ہوگئی ﴿ سیرت المہدی حصہ اول روایت نمبر 12﴾
دست اور قے ایک ساتھ ہو تو اسے ہیضہ کہتے ہیں۔حوالے سے واضح ہوا کہ مرزا قادیانی ہیضہ سے مرا تھا۔

حوالہ نمبر 2

مرزا قادیانی مرنے سے پہلے کہتا ہے
"میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے" ﴿حیات ناصر صفحہ 14﴾

قادیانی عذر

قادیانی کہتے ہیں یہ اشتہار آخری فیصلہ محض دعا نہیں ہے۔ یہ مباہلہ یا دعا مباہلہ ہے۔

جواب نمبر 1

مرزا قادیانی صاحب خود کسی کو چیلنج مباہلہ دے ہی نہیں سکتے تھے۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ
ہم موت کے مباہلہ کا اپنی طرف سے چیلنج نہیں کر سکتے چونکہ حکومت کا معاہدہ ایسے چیلنج سے ہمیں مانع ہے ﴿روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 122﴾
اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ مرزا صاحب مولانا امرتسری کو چیلنج مباہلہ دیتے۔معلوم ہوا کہ یہ دعا مباہلہ نہیں محض دعا تھی۔

جواب نمبر 2

مرزا قادیانی نے مباہلہ کی تعریف کی ہے کہ
مباہلہ کے معنی لغت عرب اور شرعی اصطلاح کی روہ سے یہ ہے کہ دو فریق مخالف ایک دوسرے کے لیے عذاب اور خدا کی لعنت چاہیں ۔ ﴿روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 377﴾

لیکن جب ہم اشتہار آخری فیصلہ کو دیکھتے ہیں تو اس میں تمام فقرات بصیغہ منفرد استعمال ہوئے ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اشتہار نہ تو دعا مباہلہ ہے نہ مباہلہ یہ محض دعا ہے۔

جواب نمبر 3

مرزا صاحب نے لکھا ہے

ایک فرد واحد سے مباہلہ کرنا خدا کے آسمانی فیصلہ پر ہنسی کرنا ہے
﴿مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 554﴾
مرزا صاحب خد ایک بندے سے مباہلہ کرنے کو آسمانی فیصلہ کی ہنسی کرنا بتا رہے ہیں تو وہ خد ایک فرد یعنی مولانا امرتسری سے مباہلہ کیسے کر سکتے ہیں معلوم ہوا یہ محض دعا تھی مباہلہ نہیں تھا۔

جواب نمبر 4

اشتہارات میں لکھا ہے
یہ کسی الہام یا وحی کی بنا پر پیشین گوئی نہیں بلکہ محض دعا کے طور پر میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے ﴿مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 579﴾
اور لکھا ہے
میں خدا سے دعا کرتا ہوں، میں دعا کرتا ہوں، تیری جناب میں دعا کرتا ہوں وغیرہ
ان الفاظ سے بھی معلوم ہوا یہ کوئی مباہلہ یا دعا مباہلہ نہیں تھی محض دعا تھی۔

نوٹ:- دعا عام ہے مباہلہ خاص دعا کو کہتے ہیں قادیانی عام لفظ کو خاص معنی میں محدود نہیں کر سکتے
"عام لفظ کو خاص معنی میں محدود کرنا صریح شرارت ہے" ﴿روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 444﴾

جواب نمبر 5

مباہلہ میں توبہ کی شرط نہیں ہوتی مرزا صاحب نے اس اشتہار میں مولانا امرتسری کے لیے توبہ کی شرط رکھی
ثناء اللہ کے واسطے ہم نے توبہ کی شرط لگا دی ﴿اخبار البدر 9 مئی 1907 صفحہ 5﴾
بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے کھلے طور پر میرے روبرو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں سے اور بدزبانیوں سے توبہ کرے ﴿مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 579﴾
اگر مباہلہ میں توبہ کی شرط مان بھی لی جائے تو دونوں فریقین کے لیے ہونے چاہیے نہ کہ ایک کے لیے۔ معلوم ہوا کہ یہ محض دعا ہے مباہلہ نہیں۔

جواب نمبر 6

اشتہارات میں لکھا ہے

بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دین اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں۔اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔
﴿مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 580﴾
ان الفاظ سے بھی معلوم ہوتا ہے یہ محض دعا تھی مباہلہ نہیں کیونکہ مباہلہ میں دونوں فریقین کا راضی ہونا شرط ہوتی ہے لیکن اس اشتہار میں مولانا امرتسری کو کہا کہ جو چاہیں لکھ دیں (آپ کے کچھ بھی کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا) اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔

جواب نمبر 7

مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ

سلسلہ مباہلات جس کے بہت سے نمونے دنیا نے دیکھ لیے ہیں میں کافی مقدار دیکھنے کے بعد رسم مباہلہ کو اپنی طرف سےختم کر چکا ہوں۔
﴿روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 71﴾ 16 جولائی 1906 کی تحریر
مرزا صاحب تو رسم مبالغہ کو اپنی طرف سے ختم کرچکے تھے تو پھر وہ مولانا ثناءاللہ کے ساتھ مباہلہ کیسے کر سکتے تھے۔
حوالے سے واضح ہوا کہ یہ اشتہار آخری فیصلہ مباہلا یا دعا مباہلہ نہیں محض دعا ہے۔

جواب نمبر 8

مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ

مباہلہ سے پہلے کسی قدر مناظرہ ضروری ہے تا حجت پوری ہو جائے ۔
﴿مکتوبات جلد 2 صفحہ 165﴾
اس اشتہار آخری فیصلہ سے پہلے مرزا صاحب کا مولانا ثناءاللہ امرتسری کے ساتھ کوئی مناظرہ نہیں ہوا جس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ یہ اشتہار آخری فیصلہ مباہلہ نہیں۔

جواب نمبر 9

مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ

مسنون طریقہ مباہلا کا یہی ہے کہ دونوں طرف سے جماعتیں حاضر ہوں ﴿اشتہارات جلد 1 صفحہ 215﴾
اشتہار آخری فیصلہ میں مولانا کو جماعت لانے کی کوئی دعوت نہیں نا یہ کہا کہ میں جماعت لاؤں گا واضح ہوا کہ یہ مباہلہ نہیں تھا۔

جواب نمبر 10

قادیانی جماعت بھی اسے مباہلا نہیں کہتی تھی

حوالہ نمبر 1

اخبار البدر 22 اگست 1907 میں لکھا ہے
حضرت اقدس مسیح موعود ( مرزا قادیانی ) نے مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ کے عنوان کا ایک اشتہار دے دیا جس میں محض دعا کے طور پر خدا سے فیصلہ چاہا گیا ہے نہ کہ مباہلہ کیا گیا ہے ﴿ اخبار البدر 22 اگست 1907 صفحہ 8 ﴾

حوالہ نمبر 2

حضرت اقدس نے محض دعا طور پر فیصلہ چاہتا تھا لیکن اس خط میں صاف لکھا ہوا ہے کہ یہ دعا کسی الہامی یا وحی کی بنا پر پیش گوئی نہیں ہے اس دعا کے وحی اور الہام نہ ہونے کا ابوالوفا صاحب کو بھی اقرار ہے آگے رہی صرف دعا بغیر وحی اور الہام کے سو حضرت اقدس کا یہ دعا کرنا آپ کی صداقت کی بڑی پکی دلیل ہے اگر آپ کو اپنے منجانب اللہ ہونے کا قطعی طور پر یقین کامل نہ ہوتا تو ایسے الفاظ سے دعا کیوں کرتے جو اس خط میں مذکور ہیں اور ایسی دعائیں تو حضرت سیّد المرسلین خاتم النبیین کی بھی قبول نہیں ہوئی کما قال اللہ تعالیٰ لیس لک من الامر شیء
﴿ریویو آف ریلیجنز جون جولائی 1908 صفحہ 238﴾

حوالہ نمبر 3

اب ناظرین خود سوچ سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں کہ پہلے تو مباہلہ سے مولوی ثناء اللہ نے انکار کیا اور پھر جب دعا کا طریق فیصلے کے لیے اختیار کیا اس طرح حق ثابت ہوجائے اور جھوٹے اور سچے میں امتیاز ہو جائے تو اس نے اس کا بھی انکار کر دیا ۔
﴿انوار العلوم جلد 1 صفحہ 125﴾

ایک قادیانی مغالطہ

کچھ قادیانی یہ کہتے ہیں کہ انجام آتھم میں جو مرزا قادیانی نے علماء اسلام کو مباہلہ کا چیلنج دیا تھا آخری فیصلہ اشتہار اس کی آخری کڑی ہے۔

جواب یہ ہے کہ انجام آتھم اور اس کے بعد والی چھیڑ چھاڑ سے اس اشتہار آخری فیصلہ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔وہ سلسلہ ختم ہو گیا تھا
آپ کا رجسٹری شدہ کارڈ مرسلہ 3 جون 1907 حضرت مسیح موعود کی خدمت میں پہنچا جس میں آپ نے 4 اپریل 1907 کے اخبار بدر کا حوالہ دے کر کتاب حقیقۃ الوحی کا ایک نسخہ مانگا ہے۔ اس کے جواب میں آپ کا مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ کی طرف حقیقۃ الوحی بھیجنے کا ارادہ اس وقت ظاہر کیا گیا تھا جبکہ آپ کو مباہلہ کے واسطے لکھا گیا تھا تاکہ مباہلہ سے پہلے آپ کتاب پڑھ لیتے مگر چونکہ آپ نے اپنے واسطے تعین عذاب کی خواہش ظاہر کی اور بغیر اس کے مباہلہ سے انکار کر کے اپنے لیے فرار کی راہ نکالی اس واسطے مشیت ایزدی نے آپ کو دوسری راہ سے پکڑا اور حضرت حجتہ اللہ کے قلب میں آپ کے واسطے ایک دعا کی تحریک کر کے فیصلہ کا ایک اور طریق اختیار کیا اس واسطے مباہلہ کے ساتھ جو اور شروط تھی وہ سب کے سب بوجہ ناقرار پانے مباہلہ کے منسوخ ہوئے لہٰذا آپ کی طرف کتاب بھیجنے کی ضرورت نہ رہی۔
﴿اخبار البدر 13 جون 1907 صفحہ 2 ﴾

مولانا ثناء اللہ امرتسری بھی اس حوالہ کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں
اس میں بھی صاف مذکور ہے کہ سلسلہ مباہلہ ختم ہو کر مرزا قادیانی نے خدا کے القا سے یہ دعا کی تھی۔اس کو مباہلہ سے جوڑنا مرزا قادیانی کی اس تصریح کے خلاف ہے۔
﴿فیصلہ مرزا صفحہ 14 احتساب قادیانیت جلد 9 صفحہ 240﴾
یہ اشتہار آخری فیصلہ ایک الگ مضمون تھا جس کا اس مباہلہ والے چیلنج سے کچھ تعلق نہیں۔

قادیانی عتراض

قادیانی کہتے ہیں مولانا ثناء اللہ امرتسری نے اس اشتہار آخری فیصلہ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ مباہلہ ہے وغیرہ

جواب

مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب خد ارشاد فرمایا ہے
وہ فرماتے ہیں
پس میرا اس دعا کو مباہلہ لکھنا ایک تو مقابلتہ الزامی تھا دوم مفاعلہ کے معنی ثانی یعنی جانب واحد کی دعا ہے جس کی مثال خود مرزا قادیانی کی کتب میں بکثرت ملتی ہے۔
﴿فیصلہ مرزا صفحہ 12 احتساب قادیانیت جلد 9 صفحہ 238 ﴾
اس کتاب ﴿فیصلہ مرزا احتساب قادیانیت جلد 9 صفحہ 227 تا 246 ﴾ میں مولانا امرتسری نے دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ یہ اشتہار محض دعا تھا مباہلہ نہ تھا۔

قادیانی عتراض

قادیانی کہتا ہے کہ مولانا ثناء اللہ صاحب نے اس دعا کو منظور نہیں کیا بلکہ اپنے اخبار اہل حدیث میں صاف لکھ دیا کہ مجھے یہ صورت منظور نہیں نہ کوئی دانا اسے قبول کر سکتا ہے

جواب

اس اعتراض کا جواب بھی مولانا ثناءاللہ امرتسری خود ارشاد فرماتے ہیں
مولانا اس کا جواب دینے کے لیے ایک قادیانی مولوی عبداللہ تیماپوری کی عبارت نقل کرتے ہیں
جواب دیا جاتا ہے ثناءاللہ نے اس دعا کو منظور نہیں کیا مظلوم کی دعا قبول ہونے کے لیے ظالم کی رضامندی شرط ہوا کرتی ہے (ہرگز نہیں )
اور آگے لکھتے ہیں
میں کہتا ہوں میں نے کسی نیت سے انکار کیا لیکن میرے انکار کا نتیجہ یہ کیوں ہوا کے عزرائیل بجائے میرے مرزاقادیانی کے پاس چلا جائے بحالیکہ مرزا قادیانی نے اس اشتہار میں صاف لکھا ہے
مولوی ثناء اللہ جو چاہیں لکھیں اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے
﴿فیصلہ مرزا صفحہ 14 احتساب قادیانیت جلد 9 صفحہ 240﴾

ہمارا بھی جواب مولانا ثناء اللہ امرتسری ﴿رحمۃ اللہ علیہ﴾ والا جواب ہے۔
مولانا کے انکار یا اقرار سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیوں کہ مرزا صاحب نے پہلے ہی لکھ دیا اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے جو چاہیں لکھ دیں۔
 
Top