ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
مرزا غلام احمد قادیانی نے 15 اپریل 1907 کو مولانا ثنا،اللہ امرتسری کے ساتھ آخری فیصلہ کے عنوان سے ایک اشتہار شائع کیا ۔
اس اشتہار میں مرزا قادیانی نے خدا سے دعا کرتے ہوئے کہا
"اے میرے مالک بصیر و قدیر جو علیم و خبیر ہے جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے اگر یہ دعویٰ مسیحِ موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افترا کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے۔ آمین!"
اس اشتہار کے شائع ہونے کے گیارہ ماہ بعد 26 مئی 1908 کو مرزا غلام احمد قادیانی ، مولانا ثنا،اللہ امرتسری کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے ۔
یہ مرزا غلام احمد قادیانی کے مفتری ہونے کی ایک نہایت ہی واضح دلیل تھی لیکن مرزا قادیانی کے مریدوں کا کہنا یہ ہے کہ یہ مرزا قادیانی کی یک طرفہ دعا نہیں تھی بلکہ دعائے مباہلہ تھی اور چونکہ مولانا ثنا،اللہ صاحب نے اس دعا کو منظور کرنے سے انکار کر دیا تھا اس لئے مباہلہ منعقد ہی نہیں ہوا تھا ۔
اس پر تفصیلی گفتگو ہم اسی فورم پر اس عنوان کے تحت کر چکے ہیں کیا آخری فیصلہ والا اشتہار دعائے مباہلہ تھا اسی اشتہار کا جائزہ سوالاًجواباً پیش کیا جا رہا ہے
پہلے سوال پیش خدمت ہیں اس کے بعد ہر سوال کا جواب پیش کیا جائے گا
1 : کیا آخری فیصلہ کے اشتہار میں لفظ مباہلہ موجود ہے.؟
2 : کیا مرزا صاحب نے اس اشتہار میں بتایا کہ وہ کس طور پر اللہ سے فیصلہ چاہ رہے ہیں؟
3 : کیا مرزا صاحب نے ثناءاللہ صاحب کی زیادتیوں سے زچ ہو کر بطور مظلوم خدا سے فیصلہ چاہا؟
4 : کیا اس اشتہار میں واحد متکلم کے طور پر دعائیں مانگیں ہیں یا جمع متکلم کے طور پر؟
5 : کیا اس میں مرزا صاحب نے ثناءاللہ صاحب کے لئے توبہ کی کوئی شرط رکھی ہے؟
6 : کیا اس میں مرزا صاحب نے ثناءاللہ صاحب کو مخاطب ہو کر کہا کہ میں نے یہ دعا کی ہے اب تم بھی یہی دعا کرو؟
7 : کیا مرزا صاحب نے اس میں ثناءاللہ صاحب کو کسی بات کا پابند کیا ہے؟
8 : کیا مرزا صاحب نے اس میں ثناءاللہ صاحب کی منظوری یا عدم منظوری کا کوئی اثر بیان کیا ہے؟
9 : کیا ثناءاللہ صاحب نے مرزا صاحب کے اس آخری فیصلہ کو قبول کیا یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟
10 : کیا مرزا صاحب نے ثناءاللہ صاحب کے اس کو قبول نہ کرنے کے اعلان کے بعد آخری فیصلہ کو منسوخ قرار دیا تھا یا نہیں؟
11 : جب مرزا صاحب کا بیٹا مبارک احمد فوت ہوا تو ثناءاللہ صاحب نے اسے آخری فیصلہ والی دعا کا اثر قرار دیا تو کیا مرزا صاحب نے ثناءاللہ صاحب کو یہ جواب دیا کہ جب تمہارے انکار کی وجہ سے یہ منسوخ ہو چکا تھا تو اب اس کے اثر کا دعوٰی کیسا؟
12 : کیا مرزا صاحب نے آخری فیصلہ سے پہلے بھی اس سے ملتی جلتی کوئی دعا کبھی شائع کی تھی؟
13 : کیا ثناءاللہ صاحب نے آخری فیصلہ کو مباہلہ کہا تھا؟
14 : اگر کہا تھا تو کیا اس کی وجہ بیان کی؟
15 : کیا مرزا صاحب اپنی طرف سے مباہلہ کر سکتے تھے؟
16 : مرزا صاحب نے اپنی مختلف تحریروں میں مباہلہ کی جو شرائط بیان کی ہیں کیا ان میں سے کوئی شرط آخری فیصلہ میں بیان کی؟
17 : ثنا،اللہ صاحب نے 26 اپریل 1907 کو مرزا صاحب کے اشتہار کا جو جواب دیا تھا کیا اسے قادیانی اخبارات میں شائع کرنے کی گزارش کی تھی ؟؟؟؟ کیا ثنا،اللہ صاحب کی اس گزارش پر عمل ہوا ؟؟؟
18 : قادیانی حضرات کے مطابق کیا مرزا صاحب کے اپنے اخبارات نہیں تھے جو ثنا،اللہ صاحب سے بھی گزارش کی گئی کہ اپنے اخبار میں بھی اس آخری فیصلہ کو چھاپ دیں ۔۔۔۔ لہذااس گزارش کا مطلب یہی ہے کہ یہ مرزا صاحب کی یکطرفہ دعا نہیں تھی ۔
1: کیا آخری فیصلہ کے اشتہار میں لفظ مباہلہ موجود ہے.؟
جواب ۔ اس اشتہار میں کہیں بھی مباہلہ کا لفظ موجود نہیں
2: کیا مرزا صاحب نے اس اشتہار میں بتایا کہ وہ کس طور پر اللہ سے فیصلہ چاہ رہے ہیں؟
جواب ۔ جی بالکل مرزا صاحب نے بالکل واضح طور پر بتایا کہ وہ محض دعا کے طور پر خدا سے یہ فیصلہ چاہ رہے ہیں ۔ مرزا صاحب کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں یہ کسی الہام یا وحی کی بنا پر پیشگوئی نہیں، محض دعا کے طور پر میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے اس کے علاوہ مرزا صاحب کے معتمد صحابی ، مرزا صاحب کے محرر ڈاک اور البدر اخبار کے ایڈیٹر نے مرزا صاحب کے نام مولانا ثنا،اللہ صاحب کے ایک خط کا جواب دیتے ہوئے کہا ’’ آپ کا کارڈ مرسلہ 3 جون 1907 حضرت مسیح موعود کی خدمت میں پہنچا جس میں آپ نے 4؍ اپریل 1907کے بدر کا حوالہ دے کر جس میں قسم کھانے والا مباہلہ بعد حقیقۃ الوحی موقوف رکھا گیا ہے حقیقۃ الوحی کا ایک نسخہ مانگا۔ اس کے جواب میں آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ کی طرف حقیقۃ الوحی بھیجنے کا ارادہ اس وقت ظاہر کیا گیا تھا جبکہ آپ کو مباہلہ کے واسطے لکھا گیا تھا۔ (اب) مشیت ایزدی نے آپ کو دوسری راہ سے پکڑا اور حضرت حجۃ اللہ کے قلب میں آپ کے واسطے ایک دعا کی تحریک کرکے فیصلہ کا ایک اور طریق اختیار کیا۔ اس واسطے مباہلہ ۔کے ساتھ جو شروط تھے وہ سب کے سب بوجہ نہ قرار پانے مباہلہ کے منسوخ ہوئے۔ لہٰذا آپ کی طرف کتاب بھیجنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔‘‘ اخبار البدر 13جون 1907
اس خط کی مرزا صاحب نے کوئی تردید نہیں کی ۔یہ خط اپنے مضمون میں بالکل واضح اور صریح ہے کہ آخری فیصلہ کا اشتہار ہرگز ہرگز مباہلہ کا اشتہار نہیں تھا ۔
اس میں یہ بھی صاف مذکور ہے سلسلہ مباہلہ ختم ہو کر مرزا قادیانی نے خدا کے القا، سے یہ دعا کی تھی ۔
اخبار بدر 22 اگست 1907 ص 8 کالم 1 میں ایک مضمون شائع ہوا جس میں یہ الفاظ درج تھے " حضرت اقدس مسیح موعود نے مولوی ثنا،اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ کے عنوان کا اشتہار دے دیا جس میں محض دعا کے طور پر خدا سے فیصلہ چاہا گیا ہے نہ کہ مباہلہ کیا گیا ہے "
لیکن مرزا قادیانی کی طرف سے اس کا بھی انکار نہیں کیا گیا ۔
مولوی احسن امروہی صاحب نے بھی یہی بات کہی کہ "حضرت اقدس نے محض دعا کے طور پر فیصلہ چاہا تھا ۔۔۔" (ریویو آف ریلیجن جلد7 نمبر 7،6 بابت جون و جولائی 1908 ص 238)
3: کیا مرزا صاحب نے ثناءاللہ صاحب کی زیادتیوں سے زچ ہو کر بطور مظلوم خدا سے فیصلہ چاہا؟ جواب ۔ جی اشتہار کے درج ذیل الفاظ اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ مرزا صاحب نے زچ ہو کر بطور مظلوم یہ دعا کی
بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب السلام علیٰ من اتبع الہدیٰ۔مدت سے آپ کے پرچہ اہل حدیث میں میری تکذیب اور تفسیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیشہ مجھے آپ اپنے اس پرچہ میں کذاب، دجال، مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری اور کذاب اور دجال ہے۔ اور اس شخص کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سراسر افترا ہے۔ میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا۔ مگر چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق کے پھیلانے کے لیے مامور ہوں اور آپ بہت سے افترا میرے پر کرکے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیں اور مجھے ان گالیوں ان تہمتوں اور ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی لفظ سخت نہیں ہوسکتا اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہوتا ہے تاخدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے۔ مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگر مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر۔ بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے کھلے طور پر میرے رو برو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بدزبانیوں سے توبہ کرے جن کو وہ فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے۔ میں ان کے ہاتھوں سے بہت ستایا گیا اور صبر کرتا رہا مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بدزبانی حد سے گزر گئی وہ نجھے ان چوروں اور ڈاکووں سے بھی بدتر جانتے ہیں جن کا وجود دنیا کے لئے سخت نقصان رساں ہوتا ہے انہوں نے اپنی تہمتوں اور بدزبانیوں میں آیت لا تقف لیس بہ علم پر بھی عمل نہیں کیا اور مجھے تمام دنیا سے بدتر سمجھ لیا اور دور دور تک ملکوں میں میں میری نسبت یہ پھیلا دیا کہ یہ شخص درحقیقت مفسد اور ٹھگ اور دکاندار اور کذاب اور مفتری اور نہایت درجہ کا بد آدمی ہے ۔ سو اگر ایسے کلمات حق کے طالبوں پر بد اثر نہ ڈالتے تو میں ان تہمتوں پر صبر کرتا رہا مگر میں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ انھیں تہمتوں کے ذریعہ سے میرے سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا ہے اور اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے جو تُو نے اے میرے آقاؐ اور میرے بھیجنے والے اپنے ہاتھ سے بنائی ہے۔
4 : کیا اس اشتہار میں واحد متکلم کے طور پر دعائیں مانگیں ہیں یا جمع متکلم کے طور پر؟
جواب ۔ یہ اس اشتہار میں مرزا صاحب نے واحد متکلم کے پر دعائیں مانگی ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں
میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک بصیر و قدیر جو علیم و خبیر ہے جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے اگر یہ دعویٰ مسیحِ موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افترا کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے۔ آمین!
مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگر مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر۔ مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون و ہیضہ وغیرہ امراضِ مہلکہ سے بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے کھلے طور پر میرے رو برو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بدزبانیوں سے توبہ کرے جن کو وہ فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے۔ آمین! یارب العالمین!
اس لیے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اللہ میں سچا فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں درحقیقت مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھا لے یا کسی اور نہایت سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر۔ اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر۔ آمین ثم آمین
5 : کیا اس میں مرزا صاحب نے ثناءاللہ صاحب کے لئے توبہ کی کوئی شرط رکھی ہے؟ جواب ۔ جی بالکل مرزا صاحب نے اس میں ثنا،اللہ صاحب کے لئے توبہ کی شرط رکھی ہے ملاحظہ فرمائیں
مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگر مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر۔ مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون و ہیضہ وغیرہ امراضِ مہلکہ سے بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے کھلے طور پر میرے رو برو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بدزبانیوں سے توبہ کرے جن کو وہ فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے۔ آمین! یارب العالمین!
اس کے علاوہ اخبار البدر 9 مئی 1907 کے اخبار میں بھی مرزا صاحب کا قول بیان کیا گیا ہے جس میں مرزا صاحب کہتے ہیں ثنا،اللہ کے واسطے بھی ہم نے توبہ کی شرط لگا دی ہے کیونکہ رحم کا مقتضا، ہوتا ہے کہ توبہ سے انسان بچ جاوے ۔
توبہ کی یہ شرط بھی اس بات کو واضح کرتی ہے کہ یہ اشتہار محض ایک دعا تھی اور ثنا،اللہ صاحب کے لئے اس دعا کی گرفت سے بچنے کی ایک ہی صورت تھی کہ وہ کھلے طور پر توبہ کرتے ۔
یاد رہے مباہلہ میں توبہ کی شرط نہیں ہوا کرتی
6 : کیا اس میں مرزا صاحب نے ثناءاللہ صاحب کو مخاطب ہو کر کہا کہ میں نے یہ دعا کی ہے اب تم بھی یہی دعا کرو؟ جواب ۔ ہرگز نہیں ایسی کوئی بات اس اشتہار میں موجود نہیں ہے ۔۔یہ بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ مرزا صاحب کی یہ دعا محض ایک دعا تھی وہ بھی یکطرفہ
7 : کیا مرزا صاحب نے اس میں ثناءاللہ صاحب کو کسی بات کا پابند کیا ہے؟ مرزا صاحب نے اس اشتہار میں ثنا،اللہ صاحب کو کسی بھی بات کا پابند نہیں کیا صرف ایک گزارش اور التماس کی ہے کہ بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس تمام مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں۔ اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔
اگر یہ دعائے مباہلہ ہوتی تو مرزا قادیانی ہرگز ہرگز یہ نہ لکھتے کہ اس کے نیچے جو چاہو لکھ دو بلکہ لکھتے کہ میں نے تو دعا کر دی ہے اب تم بھی اس طرح کی دعا کر دو
یعنی مرزا قادیانی نے اس اشتہار کے حوالے سے ثنا،اللہ صاحب پر کچھ بھی عائد نہیں کیا
نہ ان کا اقرار اس کی قبولیت کے لئے کوئی شرط تھی
اور نہ ہی ان کا انکار باعث رد اور یہ الفاظ کہ (اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں ۔اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے)
اس بات کو بالکل واضح کر دیتے ہیں کہ چاہے ثنا،اللہ صاحب اسے قبول کریں یا رد کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے ۔
8 : کیا مرزا صاحب نے اس میں ثناءاللہ صاحب کی منظوری یا عدم منظوری کا کوئی اثر بیان کیا ہے؟ جواب ۔ جی نہیں اس اشتہار مرزا صاحب نے ثنا،اللہ صاحب کی منظوری یا عدم منظوری کے حوالے سے کچھ بھی بیان نہیں کیا
9 : کیا ثناءاللہ صاحب نے مرزا صاحب کے اس آخری فیصلہ کو قبول کیا یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ جواب ۔ ثنا،اللہ صاحب نے مرزا صاحب کے آخری فیصلے والے اشتہار کو قبول نہیں کیا تھا ۔ کیوں نہیں کیا تھا کہ جواب کے لئے پہلے ہم اختصار سے اس اشتہار کے شائع ہونے سے بالکل قبل کے واقعات درج کرتے ہیں اور پھر ثنا،اللہ صاحب نے جو جواب دیا تھا وہ مکمل درج کر دیتے ہیں ۔
17 مارچ 1907 کو الحکم اخبار میں ایک مضمون شائع ہوا تھا جس کا مفہوم تھا کہ اگر ثنا،اللہ صاحب نے مرزا قادیانی کا کوئی بھی خارق عادت نشان نہیں دیکھا تو قسم کھائے ۔
اس کا جواب 29 مارچ 1907 کے اخبار اہل حدیث میں ثنا،اللہ صاحب میں دیا کہ وہ قسم کھانے کو تیار ہیں مگر یہ بتا دیا جائے کہ اس قسم کا نتیجہ کیا ہو گا ؟؟
ثنا،اللہ صاحب کی اس بات پر اخبار بدر نے 4 اپریل 1907 کو بحکم مرزا قادیانی کہا کہ مرزا قادیانی نے یہ چیلنج قبول کر لیا ہے کہ آپ قسم کھائیں اور مرزا قادیانی نے نے رحم کرتے ہوئے کہاہے کہ ثنااللہ صاحب چند روز انتظار کریں کیونکہ حقیقت الوحی چھپ کر تیار ہونے والی ہے
لہذا پہلے ثنا،اللہ صاحب اس کتاب کو اول و آخر تک پڑھیں لیں اس کتاب کے ساتھ ایک اشتہار ہو گا کہ ہم نے ثنا،اللہ کا چیلنج مباہلہ قبول کر لیا ہے اور ہم اول قسم کھاتے ہیں کہ اس کتاب میں درج تمام الہامات من جانب اللہ ہیں اور اگر یہ ہمارا افترا، ہے تو لعنت اللہ علی الکذبین
کتاب اور اشتہار چھپنے کے بعد ثنا،اللہ صاحب اسے پڑھ لیں اور ایک اشتہار قسم کے ساتھ شائع کر دیں کہ میں نے اول و آخر اس کتاب کو پڑھا ہے اور اس میں مندرج الہامات اللہ کی طرف سے نہیں اور ساتھ ہی لکھ دیں کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو لعنت اللہ علی الکذبین۔ اور ساتھ ہی اپنے لئے جو عذاب خدا سے مانگنا چاہیں مانگ لیں ۔۔۔۔
اس کا جواب ثنا،اللہ صاحب نے 19 اپریل 1907 کو دیا
لیکن مرزا قادیانی نے حقیقت الوحی کے چھپے بغیر ہی از خود 15 اپریل 1907 کو ثنا،اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ کا اشتہار شائع کر دیا ۔۔
حالانکہ پہلے حقیقت الوحی چھپنی تھی اس میں مرزا قادیانی نے قسم کھانی تھی اس کے بعد ثنا،اللہ صاحب نے پوری کتاب پڑھنے کے بعد قسم کھانی تھی۔ یہ تھی اس اشتہار سے قبل کی مختصر سی روئداد ۔ اب ظاہری بات کہ مرزا صاحب نے بالکل اچانک بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اور بغیر گزشتہ باہمی گفت و شنید کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اشتہار چھاپ دیا ۔ اب ثنا،اللہ صاحب کو اس حوالے سے کوئی علم ہی نہیں تھا لہذا فطری طور پر وہ اسے مرزا صاحب کی کوئی چال ہی سمجھے اور اس بنیاد پر کہ مرزا صاحب نے بغیر باہمی رضامندی کہ اوربغیر اطلاع کہ یہ اشتہار چھاپ دیا لہذا انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔
یہ تو ثنا،اللہ صاحب کو اپنے 3 جون 1907 کو مرزا صاحب کو لکھے ہوئے خط کے جواب سے پتہ چلا کہ مباہلہ کے حوالے سے ہونے والی تمام بات چیت منسوخ ہو چکی ہے اور اب مرزا صاحب نے فیصلے کے طریق کے لئے یہ دعا کا طریق اختیار کیا ہے ۔ اب ذیل میں ہم اس اشتہار کے حوالے سے اخبار اہل حدیث 26 اپریل 1907 کو جو جواب دیا وہ نقل کرتے ہیں تاکہ ثنا،اللہ صاحب کا پورا موقف سامنے آ جائے ۔
آپ اس دعوی میں قرآن شریف کے صریح خلاف کر رہے ہیں قرآن تو کہتا ہے کہ بدکاروں کو خدا کی طرف سے مہلت ملتی ہے سنو! من کان فی الضلالتہ فلیمدد لہ الرحمٰن مدا اور انما نملی لھم لیزدادوا اثما و یمدھم فی طغیانھم یعمھو ن وغیرہ آیات تمہارے اس دجل کی تکذیب کرتی ہیں اور سنو لمتعنا ھولا، و آبا،ھم حتی طال علیھم العمر جس کے صاف یہی معنی ہیں کہ خدا تعالی جھوٹے ،دغاباز ، مفسد اور نافرمان لوگوں کو لمبی عمریں دیا کرتا ہے تاکہ وہ اس مہلت میں اور بھی برے کام کر لیں پھر کیسے من گھڑت اصول بتاتے ہو کہ ایسے لوگوں کو بہت عمر نہیں ملتی ۔ کیوں نہ ہو ؟ دعوی تو مسیح ، کرشن ،اور محمد اور احمد اور خدائی کا ہے اور قرآن میں یہ لیاقت ۔ ذالک مبلغھم من العلم ( نوٹ : یہاں تک کی عبارت نائب ایڈیٹر کی ہے اس کے بعد کی تحریر مولانا ثنا،اللہ صاحب کی ہے ) اس ساری لمبی چوڑی تحریر کا جو شیطان کی آنت سے بھی زیادہ طویل ہے کا خلاصہ یہ ہے، کرشن جی دعا کرتے ہیں کہ جھوٹا سچے سے پہلے طاعون ہیضہ وغیرہ سے مر جائے اس میں آپ نے کئی طرح سے دجل و فریب سے کام لیا ہے ۔ اول ۔ یہ کہ اس دعا کی منظوری آپ نے مجھ سے نہیں لی اور بغیر میری منظوری کے اس کو شائع کر دیا ۔
دوم۔ یہ کہ اس اشتہار کو بطور الہام کے شائع نہیں کیا بلکہ یہ کہا ہے کہ یہ کسی الہام یا وحی کی بنا پر پیشگوئی نہیں ہے بلکہ محض دعا کے طور پر ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اگر تم مر گئے تو تمہارے دام افتادہ خس کم جہاں پاک کہہ کر یہ عذر کریں گے کہ حضرت صاحب کا یہ الہام نہیں تھا محض دعا تھی ۔ یہ بھی کہہ دیں گے دعائیں تو بہت سے نبیوں کی بھی قبول نہیں ہوئیں دیکھو حضرت نوحؑ کی دعا قبول نہیں ہوئی بلکہ وہ آپ کی ہی دعاؤں میں سے بہت سی مثالیں دے دیں گےکہ قبول نہیں ہوئیں ۔ آپ نے تین سال کے اندر فیصلہ ہو جانے کی دعا کی تھی جو قبول نہ ہوئی حالانکہ آپ نے لکھا تھا کہااگر قبول نہ ہوئی تو میں اپنے آپ کو کافر ، مردود ، دجال اور کذاب سمجھوں گا جس کی تفصیل گزشتہ نمبر میں ہو چکی ہے ۔
سوم ۔ یہ کہ میرا مقابلہ تو آپ سے ہے اگر میں مر گیا تو میرے مرنے سے اور لوگوں پر کیا حجت ہو سکتی ہے ؟جبکہ مولوی غلام دستگیر قصوری مرحوم ، مولوی اسمعیل گڑھی مرحوم اور ڈاکٹر ڈوئی امریکن اسی طرح سے مر گئے تو کیا لوگوں نے آپ کو سچا مان لیا ؟؟؟ (ان تینوں کے متعلق ہم آئندہ کسی پرچہ میں مفصل مضمون لکھیں گےجس میں آپ کا اور آپ کے دام افتادوں کا بخیہ ادھیڑیں گے ان شا،اللہ)ٹھیک اگر اسی طرح یہ واقعہ بھی ہو گیا تو کیا نتیجہ؟
چہارم ۔ آپ نے بڑی چالاکی یہ کی کہ دیکھا کہ ان دنوں طاعون کی شدت ہے،خصوصاً پنجاب میں سب صوبوں سے زیادہ ہے بالخصوص پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں، جو امرتسر سے بہت قریب ہے ، یہ کیفیت ہے کہ مردوں کو اٹھانا مشکل ہو رہا ہے ۔ ایسی صورت میں ہر ایک شخص طاعون سے خائف ہے اور کوئی آج اگر ہے تو کل کا اعتبار نہیں اور دیکھنے میں بھی ایسا ہی آیا ہے کہ وہ ہے تو یہ نہیں ،یہ ہے تو وہ نہیں۔ ایسے وقت میں طاعون ہیضہ وغیرہ موت کی دعا محض حسن بن صباح کی دعا کی طرح ہےجب اس نے دیکھا کہ جہاز ڈوبنے لگا ہے تو بلند آواز سے کہہ دیا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ جہاز نہیں ڈوبے گاجس سے اس کی غرض یہ تھی کہ اگر ڈوب گیا تو سب مر جائیں گے۔کون میرے کذب پر مجھے الزام دے گا اور اگر بچ رہا تو سب معتقد ہو جائیں گے ۔یوں ہی چال تمہاری ہے کہ اگر مخالف مر گیا تو تمہاری چاندی ہے اور اگر خود بدولت خس کم جہاں پاک ہو گئے تو کوئی قبر پر لات مارنے آئے گا ؟
پنجم ۔ تمہاری یہ دعا کسی صورت فیصلہ کن نہیں ہو سکتی کیونکہ مسلمان تو طاعونی موت کو بموجب حدیث شریف ایک قسم کی شہادت جانتے ہیں پھر وہ کیوں تمہاری دعا پر بھروسہ کر کے طاعون زدہ کو کاذب جانیں گے ۔
ششم ۔ آپ نے ایک چالاکی یہ کی کہ پہلے تو صرف طاعون یا ہیضہ سے موت کی دعاکی مگر اخیر میں آ کر یہ بھی کہہ دیا کہ یا کسی اور آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر اس تعمیم کرنے سے آپ کی غرض وہی ہے جو آتھم کے معاملے میں آپ نے ظاہر کی تھی کہ موت کی پیشگوئی جب جھوٹ نکلی تو بات بنا لی کہ چونکہ وہ امرتسر سے فیروزپور تک چلا گیا اور چھپ کر رہا ،پس یہی موت کے برابر ہے ۔
ہفتم ۔ آپ نے پہلے اپنے گزشتہ مضمون مندرجہ اہل حدیث 19 اپریل 1907 کے فقرہ نمبر 4 میں لکھا تھا کہ خدا کے رسول چونکہ رحیم کریم ہوتے اور ان کی ہر وقت یہی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شخص ہلاکت اور معصیت میں نہ پڑے مگر آپ کیوں میری ہلاکت کی دعا کرتے ہیں؟ مرزائیو! بتا سکتے ہو یہ تہافت اور تخالف کیوں ہے ؟ ایک ہی ہفتہ میں اتنا اختلاف کیوں ہوا ؟ سچ ہے لوجدوا فیہ اختلافا ً کثیرا مختصر یہ کہ میں تمہاری درخواست پر حلف اٹھانے کو تیار ہوں اگر تم اس حلف کے نتیجے سے مجھے اطلاع دواور یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ ہی کوئی دانا اس کو منظور کر سکتا ہے۔
مرزائیو ! تمہارا گرو اور تم کہا کرتے ہو کہ مرزا صاحب منہاج نبوت پر آئے ہیں ۔ کسی نبی نے بھی اس طرح اپنے مخالفوں کو اس طریق سے فیصلہ کرنے کی طرف بلایا ہے ؟ بتلاؤ تو انعام لو ورنہ منہاج نبوت کا نام لیتے ہوئے شرم کرو ۔ شیم شیم شیم میں اب امید کرتا ہوں کہ مرزا صاحب اپنے ماتحتوں کو حکم دیں گے کہ اپنے اخباروں میں میرا جواب بھی نقل کر دیں
مولانا ثنا،اللہ صاحب کے اس جواب سے بالکل واضح نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ اس آخری فیصلہ کے اشتہار کو مرزا صاحب کی ایک چال سمجھتے تھے لہذا انہوں نے اس چال کو ناکام بنانے کے لئے مرزا صاحب کا دیا ہوا آپشن کہ جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں ،کو استعمال کرتے ہوئے اس کو نامنظور کردیا تاکہ اگر قضائے الہی سے ثنا،اللہ صاحب مرزا صاحب کی زندگی میں ہی فوت جائیں تو مرزا صاحب اسے اپنی سچائی کی دلیل نہ بنا سکیں ۔
ثنا،اللہ صاحب کے اس جواب میں ایک جملہ یہ بھی ہے ( اگر تم مر گئے تو تمہارے دام افتادہ خس کم جہاں پاک کہہ کر یہ عذر کریں گے کہ حضرت صاحب کا یہ الہام نہیں تھا محض دعا تھی ۔ یہ بھی کہہ دیں گے دعائیں تو بہت سے نبیوں کی بھی قبول نہیں ہوئیں) ثنا،اللہ صاحب کا یہ اندازہ بالکل درست نکلا اور مرزا صاحب کے فرشتے مولوی احسن امروہی صاحب نے بعد از وفات مرزا صاحب 9 جون 1908 کے ریوو آف ریلجن میں بعینہ یہی موقف اختیار کیا ۔
10 : کیا مرزا صاحب نے ثناءاللہ صاحب کے اس کو قبول نہ کرنے کے اعلان کے بعد آخری فیصلہ کو منسوخ قرار دیا تھا یا نہیں؟
جواب ۔ جی نہیں مرزا صاحب نے اس کی منسوخ قرار نہیں دیا تھا ۔
11 : جب مرزا صاحب کا بیٹا مبارک احمد فوت ہوا تو ثناءاللہ صاحب نے اسے آخری فیصلہ والی دعا کا اثر قرار دیا تو کیا مرزا صاحب نے ثناءاللہ صاحب کو یہ جواب دیا کہ جب تمہارے انکار کی وجہ سے یہ منسوخ ہو چکا تھا تو اب اس کے اثر کا دعوٰی کیسا؟ جواب ۔ اس کا جواب بھی نفی میں ہے حالانکہ ثنا،اللہ صاحب کے انکار کرنے سے اگر آخری فیصلہ والی دعا منسوخ ہو چکی ہوتی تو مرزا صاحب کو یہی جواب دینا چاہئے تھا کہ جب تمہارے انکار کی وجہ سے یہ منسوخ ہو چکا تھا تو اب اس کے اثر کا دعوٰی کیسا؟
12 : کیا مرزا صاحب نے آخری فیصلہ سے پہلے بھی اس سے ملتی جلتی کوئی دعا کبھی شائع کی تھی؟ جواب ۔ جی بالکل اس طرح کی ملتی جلتی یکطرفہ دعا مرزا قادیانی ، مولانا محمدحسین بٹالوی اور ان کے رفقا، کے بارےمیں 21 نومبر 1898 کو بھی کر چکے ہیں ۔جو کہ مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ57 تا62 بعنوان "ہم فیصلہ خدا پر چھوڑتے ہیں"پر موجود ہے ۔اس کا سکین نیچے لگا دیا گیا ہے۔ اس کے متعلق مرزا قادیانی خود کہتے ہیں "21 نومبر 1898 کا ہمارا اشتہار جو مباہلہ کے رنگ میں شیخ محمدحسین اور اس کے دو ہم راز رفیقوں کے مقابل پر نکلا ہے وہ صرف ایک دعا ہے " (راز حقیقت صفحہ ب ، اشتہار 30 نومبر 1898)(روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 174 )
مزے کی بات یہ ہے کہ " احمدیہ پاکٹ بک" والے نے بھی تسلیم کیا ہے کہ "حضرت اقدس نے بعینہِ "آخری فیصلہ" والی دعا کے مطابق ایک اشتہار 21 نومبر 1898 کو مولوی محمد حسین بٹالوی وغیرہ کے متعلق شائع فرمایا تھا "
اور مرزا قادیانی نے خود بھی کہا ہے " اب یہ اشتہار 21 نومبر 1898 آخری فیصلہ ہےچاہئے کہ ہر ایک طالب صادق صبر سےانتظار کرے ( روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 166)
13 : کیا ثناءاللہ صاحب نے آخری فیصلہ کو مباہلہ کہا تھا؟ جواب ۔ جی بالکل ثنا،اللہ صاحب نے مباہلہ کہا تھا ۔
14 : اگر کہا تھا تو کیا اس کی وجہ بیان کی؟ جواب ۔ جی بالکل ثنا،اللہ صاحب نے اس کی وجہ بھی بیان کر دی تھی ۔ شروع میں انہوں نے اسے دعا ہی کہا ہے 26 اپریل 1907 کا اخبار اہل حدیث دیکھ لیں بعد میں انہوں نے اسے مباہلہ بھی کہا ہے لیکن اس کی وضاحت بھی کر دی تھی کہ میرا مرزا قادیانی کی اس دعا کو مباہلہ کہنا بطور الزام تھا ۔ چونکہ یہ بات فریقین میں مسلم ہے کہ ثنا،اللہ صاحب کے نزدیک مباہلہ کی تعریف یہ تھی کہ فریقین بالمقابل قسم کھائیں اور یہ کہ ثنااللہ، صاحب نے آخری فیصلے کو نامنظور کر دیا تھا
لیکن اس کے باجود ثنا،اللہ صاحب کا دعوی تھا کہ مرزا قادیانی پر اس مباہلہ کا اثر ہوا
تو یہ بات اس بات کا بین ثبوت ہے ثنا،اللہ صاحب کا اس کو مباہلہ کہنا محض الزامی تھا
کیونکہ مرزا قادیانی کے نزدیک مباہلہ یک طرفہ بھی ہو جاتا تھا
جیسا کہ مولانا غلام دستگیر کے بارے میں مرزا قادیانی نے کہا اس نے اپنے طور پر مجھ سے مباہلہ کیا " مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنے طور پر مجھ سے مباہلہ کیا اور اپنی کتاب میں دعا کی جو کاذب ہے خدا اس کو ہلاک کرے"(روحانی خزائن جلد 22 ص 239) "پہلے اس سے اسی قسم کا مباہلہ کتاب فتح ربانی کے صفحہ 27 میں مولانا غلام دستگیر قصوری بھی کر چکے ہیں (روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 123 )
ہر ایک منصف مولوی غلام دستگیر قصوری کی کتاب کو دیکھ کر سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح اُس نے اپنے طور پر میرے ساتھ مباہلہ کیا اور اپنی کتاب فیض رحمانی میں اس کو شائع کر دیا اور پھر اس مباہلہ سے صرف چند روز بعد فوت ہو گیا اور کس طرح چراغدین جموں والے نے اپنے طور سے مباہلہ کیا اور لکھا کہ ہم دونوں میں سے جھوٹے کو خدا ہلاک کرے۔ اور پھر اس سے صرف چند روز بعد طاعون سے مع اپنے دونوں لڑکوں کے ہلاک ہو گیا۔(روحانی خزائن جلد 22 ص 71 حاشیہ)
"نشان نمبر204۔ مولوی عبدالمجید ساکن دھلی نے اپنی کتاب بیان للناس میں میرا ذکر کر کے اور بالمقابل اپنے تئیں رکھ کر مباہلہ کے طور پر بدعا کی تھی تا کاذب صادق کی زندگی میں فنا ہو سو میری زندگی میں ناگہانی طور پر مر گیا " ( روحانی خزائن ج 22 ص 597 )
پہلے اِس سے اِسی قسم کا مبا ہلہ کتاب فتح رحمانی کے صفحہ ۲۷ میں مولوی غلام دستگیر قصوری بھی کر چکے ہیں اور اس کے بعد تھوڑے دنوں میں ہی میری زندگی میں ہی قبر میں داخل ہوگئے اور میری سچائی کو اپنے مرنے سے ثابت کر گئے مگر مولوی ثناء اللہ اگر چاہیں تو بذاتِ خود آزما لیں ان کو غلام دستگیر سے کیا کام کیونکہ وہ خود ہی اِس کے لئے مستعدی بھی ظاہر کرتے ہیں۔ یہ چیلنج جو درحقیقت ایک مباہلہ کا مضمون ہے اس کو لفظ بلفظ جو نمونہ مذکورہ کے مطابق ہو لکھنا ہو گاؔ جو اُوپر مَیں نے لکھ دیا ہے ایک لفظ کم یا زیادہ نہ کرنا ہوگا اور اگر کوئی خاص تبدیلی منظور ہو تو پرائیویٹ خطوط کے ذریعہ سے اس کا تصفیہ کرنا ہوگا اور پھر ایسے اشتہار مباہلہ پر کم سے کم پچاس معزز آدمیوں کے دستخط ثبت ہونے چاہئیں اور کم سے کم اس مضمون کا سات سو اشتہار ملک میں شائع ہونا چاہئے اور بیس اشتہار بذریعہ رجسٹری مجھے بھی بھیج دیں۔ مجھے کچھ ضرورت نہیں کہ مَیں اُنہیں مباہلہ کے لئے چیلنج کروں یا اُن کے بالمقابل مباہلہ کروں۔ اُن کا اپنا مباہلہ جس کے لئے اُنہوں نے مستعدی ظاہر کی ہے میری صداقت کے لئے کافی ہے " (روحانی خزائن جلد 19 ص 123 اور 124
15 : کیا مرزا صاحب اپنی طرف سے مباہلہ کر سکتے تھے؟ جواب ۔ مرزا صاحب کے درج ذیل بیانات کی رو سے مرزا صاحب اپنی طرف سے مباہلہ نہیں کر سکتے تھے " لیکن ہم موت کے مباہلہ میں اپنی طرف سے کوئی چیلنج نہیں کر سکتے کیونکہ حکومت کا معاہدہ ایسے چیلنج سے ہمیں مانع ہے " ( روحانی خزائن جلد 19 ص 122 ) 1902
" اور وہ سلسلہ مباہلات ہے جس کے بہت سے نمونے دنیا نے دیکھ لئے ہیں اور مَیں کافی مقدار دیکھنے کے بعد مباہلہ کی رسم کو اپنی طرف سے ختم کر چکا ہوں " (روحانی خزئن جلد 22 ص 71)
16 : مرزا صاحب نے اپنی مختلف تحریروں میں مباہلہ کی جو شرائط بیان کی ہیں کیا ان میں سے کوئی شرط آخری فیصلہ میں بیان کی؟ جی نہیں ایسی کوئی شرط بیان نہیں کی گئی ۔
17 : ثنا،اللہ صاحب نے 26 اپریل 1907 کو مرزا صاحب کے اشتہار کا جو جواب دیا تھا کیا اسے قادیانی اخبارات میں شائع کرنے کی گزارش کی تھی ؟؟؟؟ کیا ثنا،اللہ صاحب کی اس گزارش پر عمل ہوا ؟؟؟
جواب ۔ جی بالکل ثنا،اللہ صاحب نے ان الفاظ کے ساتھ گزارش کی تھی میں اب امید کرتا ہوں کہ مرزا صاحب اپنے ماتحتوں کو حکم دیں گے کہ اپنے اخباروں میں میرا جواب بھی نقل کر دیں
لیکن ثنا،اللہ صاحب کی اس درخواست پر عمل نہیں کیا گیا اور کسی قادیانی اخبار میں یہ جواب شائع نہیں کرایا گیا ۔
18 : قادیانی حضرات کے مطابق کیا مرزا صاحب کے اپنے اخبارات نہیں تھے جو ثنا،اللہ صاحب سے بھی گزارش کی گئی کہ اپنے اخبار میں بھی اس آخری فیصلہ کو چھاپ دیں ۔۔۔۔ لہذااس گزارش کا مطلب یہی ہے کہ یہ مرزا صاحب کی یکطرفہ دعا نہیں تھی ۔
جواب ۔ بے شک مرزا صاحب کے اپنے اخبارات موجود تھے لیکن ثنا،اللہ صاحب کو اپنے اخبار میں اس دعا کو شائع کرنے کی گزارش کا مقصود صرف یہ تھا کہ چونکہ مرزا صاحب کی یہ دعا متعین طور پر صرف اور صرف ثنا،اللہ صاحب کے حوالے سے تھی اس لئے ثنا،اللہ صاحب کے اخبار میں چھپنے کی وجہ سے اس کے بارے میں دیگر مسلمانوں کے علاوہ ثنا،اللہ صاحب کے تمام حلقہ احباب اور قائرین اخبار اہل حدیث بھی آگاہ ہو جائیں ۔۔ ثنا،اللہ صاحب نے بھی اپنے جواب کو قادیانی اخبارات میں جو شائع کرانے کی درخواست کی تھی اس کی بھی یہی وجہ تھی کہ مرزا صاحب کےمتبعین اس سے آگاہ ہو جائیں ۔