آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دعویٰ نبوت کرنے والا اور اسکے ماننے والے تمام واجب القتل ہیں
۔" حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَدْ جَاءَ ابْنُ النَّوَّاحَةِ وَابْنُ أُثَالٍ رَسُولَيْنِ لِمُسْيلِمَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَشْهَدَانِ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟» فَقَالَا: " نَشْهَدُ أَنَّ مُسَيْلِمَةَ رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ لَوْ كُنْتُ قَاتِلًا رَسُولًا لَقَتَلْتُكُمَا» ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَمَضَتِ السُّنَّةُ بِأَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَأَمَّا ابْنُ أُثَالٍ فَقَدْ كَفَانَا اللَّهُ وَأَمَّا ابْنُ النَّوَّاحَةِ فَلَمْ يَزَلْ فِي نَفْسِي حَتَّى أَمْكَنَ اللَّهُ تَعَالَى مِنْهُ " ( ابو داؤد الالطيالسي ، روایت 248 )
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: وہ فرماتے ہیں کہ مسلیمہ کذاب کے دو سفیر عبداللہ بن نواحہ اور اسامہ بن اثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا کہ تم اس کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں ؟ انہوں نے کہا کہ ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ مسلیمہ اللہ تعالیٰ کا رسول ہے ۔( معاذ اللہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا اگر میں کسی قاصد کو قتل کرتا تو تمیں قتل کر دیتا ، حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ سنت یوں جاری ہے کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا رہا ۔ ابن اثال کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس کی کفایت کردی ( اسامہ بن اثال بعد میں مسلمان ہوگئے تھے ، البدایۃ والنہایۃ ، جلد 2 صفحہ 52 ) اور ابن نواحہ کا معاملہ میرے دل میں کھٹکتا رہا یہاں تک کے اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کی قدرت دی اور میں نے اسے قتل کروایا ۔
اس صحیح روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبی تسلیم کرنے والا واجب القتل ہے ۔
رکاوٹ صرف یہ پیش آئی کہ اس وقت اسامہ بن اثال اور عبداللہ بن نواحہ سفیر تھے ، اور سنت کے مطابق سفراء کو قتل نہیں تھا کیا جاتا تاکہ پیغام رسانی میں کسی قسم کی کوئی کمی یا کوتاہی باقی نہ رہ جائے ، ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ میں ان کو قتل کر دیتا اور اس کی وجہ بھی سامنے ہے کہ انہوں نے مسلیمہ کو رسول اللہ کہا تھا ، صرف اس کو رسول اللہ کہنے کی وجہ سے ان کو قتل کرنے کا کہا ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جب حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کوفہ کے گورنر تھے تو ابن نواحہ ان کے قابو آگیا اور وہ اپنے اس باطل عقیدے سے باز نہ آیا اور توبہ کرنے پر آمادہ نہ ہوا ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضرت قزظہ بن کعب کو حکم دیا کہ وہ ابن نواحہ کی گردن اڑا دے اور انہوں نے ایسا ہی کیا ( بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے خود اس کی گردن اڑائی ) ۔