عبیداللہ لطیف
رکن ختم نبوت فورم
عنوان :
تحریر : عبیداللہ لطیف فیصل آباد
00923046265209
ubaidullahlatif@gmail۔com
محترم قارئین ! 25اکتوبر کو روزنامہ جنگ لندن میں مرزا غلام احمد کادیانی کے ایک پیروکار ڈاکٹر یحی کا ایک کالم بعنوان" آرٹیکل 260 اور احمدیوں کا عقیدہ نزول عیسی علیہ السلام " شائع ہوا جس میں موصوف نے اپنے روحانی پیشوا مرزا غلام احمد کادیانی کی سنت پر عمل کرتے ہوئے خوب دجل و فریب سے کام لے کر اصل حقائق کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اپنے کالم میں ڈاکٹر یحی صاحب لکھتے ہیں کہ
"1974کی جس اسمبلی نے آرٹیکل 260 کو منظور کیا اور جس اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں کئی روز بحث و تمحیص جاری رہی اس کی شائع شدہ کاروائی پڑھ لیجیے ختم نبوت کا موضوع اس میں پوری طرح زیر بحث نہیں لایا گیا 8 اگست 1974 کو ختم نبوت کے موضوع پر کچھ بحث کی گئی لیکن جب جماعت احمدیہ کے اس وقت کے خلیفہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے کمیٹی کے سامنے یہ موقف رکھا کہ "ہمارا عقیدہ ہے کہ امت محمدیہ تیرہ سو سال سے مسیح نبی اللہ کا انتظار کر رہی تھی اور جس کا تیرہ سو سال تک امت محمدیہ نے انتظار کیا وہ مسیح ہمارے عقیدے کے مطابق آچکے ہیں۔" تو دانستہ طور پر سپیشل کمیٹی کی باقی ماندہ کاروائی کے دوران ختم نبوت کے موضوع کو چھیڑا ہی نہیں گیا ۔"
محترم قارئین ! ڈاکٹر یحی صاحب نے اپنی مندرجہ بالا تحریر میں مکمل طور پر جھوٹ کا سہارا لیا ہے کیونکہ جب ہم اس کاروائی کو پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ قادیانی خلیفہ مرزا ناصر صاحب کے پیش کیے گئے موقف کے جواب میں اٹارنی جنرل جناب یحی بختیار صاحب نے مرزا غلام احمد قادیانی کے بڑے بیٹے قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود کی کتب سے دو تحریریں پیش کیں ایک انوارصداقت صفحہ 65 سے جس میں وہ لکھتا ہے کہ
"اگر میری گردن کے دونوں طرف تلوار بھی رکھ دی جائے اور مجھے کہا جائے کہ تم یہ کہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو میں ضرور کہوں گا کہ تو جھوٹا ہے کذاب ہے آپ کے بعد نبی آ سکتے ہیں اور ضرور آ سکتے ہیں ۔"
دوسری تحریر یحی بختیار صاحب نے انوار خلافت صفحہ 62 کی پیش کی جس میں مرزا بشیرالدین محمود لکھتا ہے کہ
"انہوں نے سمجھا خدا کے خزانے ختم ہو گئے ہیں ان کا یہ سمجھنا خدا تعالی کی قدرت کو ہی نہ سمجھنے کے باعث ہے ورنہ ایک نبی تو کیا ایک ہزار نبی ہوں گے ۔"
مرزا ناصر ان دونوں تحریروں کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے ۔ جب ہم اس ساری کاروائی کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس ساری کاروائی میں اجرائے نبوت کے حوالے سے ظلی و بروزی نبوت ،امتی نبی ،شرعی اور غیر شرعی نبوت پر تفصیل کے ساتھ گفتگو ہوئی ہے
قارئین کرام ! یہاں پر ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا امت مرزائیہ کو فقط عقیدہ ختم نبوت سے انحراف کی بنا پر ہی کافر قرار دیا گیا ہے یا پھر کچھ اور محرکات بھی تھے ۔ تو قارئین ! اگر صرف عقیدہ ختم نبوت کی بنیاد پر کافر قرار دیا ہوتا تو پھر قادیانی لاہوری گروپ اس قانون کی زد میں کیسے آ گیا جبکہ وہ اجرائے نبوت کے قائل ہی نہیں اور مرزا غلام احمد کادیانی کی نبوت کے منکر ہیں ۔
محترم قارئین ! اصل محرکات کچھ اور بھی ہیں کہ جنہیں امت مرزائیہ عمدًا چھپاتی ہے جن پر اس کارواِئی کے دوران مفصل بحث ہوئی ہے میں ان میں سے چند ایک کا یہاں تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ قادیانیوں کے اخبار الفضل کے26 فروری 1924 کے شمارے میں میثاق النبیین کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں قصیدہ لکھا گیا جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ نبی آخرالزماں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سمیت تمام انبیاء کرام سے یہ عہد لیا گیا ہے کہ اگر ان کی زندگی میں مرزا غلام احمد کادیانی بطور مسیح موعود آجائے تو ان سب کو بھی مرزا غلام احمد کادیانی پر ایمان لانا ہو گا ۔
یہ اتنا بڑا کفر ہے کہ جس کی مثال ملنا محال ہے حالانکہ وہ عہد نبی کریم علیہ السلام کے بارے میں تمام انبیاء کرام سے لیا گیا ہے اور اسی عہد کی پاسداری کا عملی مظاہرہ سیدنا عیسی علیہ السلام کے نزول سے ہو گا لیکن امت مرزائیہ نے ان قرآنی آیات اور میثاق النبیین کا مصداق مرزا غلام احمد کادیانی کو قرار دیا ہے آئیے اب اس قصیدے کے اشعار بھی ملاحظہ کریں۔
لیا تھا جو میثاق سب انبیاء سے
وہی عہد لیا حق نے مصطفےؐ سے
وہ نوح و خلیل و کلیم و مسیحا
سبھی سے یہ پیمان محکم لیا تھا
مبارک وہ امت کا موعود آیا
وہ میثاق ملت کا مقصود آیا
کریں اہل اسلام اب عہد پورا
بنے آج ہر ایک عبدًا شکورا
محترم قارئین ! قاضی ظہورالدین اکمل نامی شخص نہ صرف ایک شاعر تھا بلکہ مرزا غلام احمد کادیانی کا دست راست بھی جو مرزا غلام احمد کادیانی کی شان میں مدح سرائی بھی کرتا رہا اس نے ایک نظم لکھی جس کے چند اشعار یہ تھے
محمدؐ اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے بڑھ کر ہیں اپنی شان میں
محمدؐ دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے کادیاں میں
ان کفریہ اشعار پر مبنی یہ نظم مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی میں اس کے سامنے پڑھی گئی جس پر سرزنش کرنے کی بجائے مرزا قادیانی نے جزاک اللہ کہا جب اسمبلی میں مرزا ناصر کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا گیا تو اس نے سرے سے ہی یہ نظم مرزا غلام احمد قادیانی کے سامنے پڑھے جانے سے انکار کر دیا حالانکہ یہ نظم 25 اکتوبر 1906 کے قادیانی اخبار البدر میں بھی شائع ہوئی اور 22 اگست 1944 کے قادیانی اخبار الفضل میں قاضی اکمل کا بیان موجود ہے کہ یہ نظم مرزا غلام احمد قادیانی کے سامنے پڑھی گئی اور اس نے سن کر جزاک اللہ کہا ۔
محترم قارئین ! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سیدنا عیسی ابن مریم بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور قرآن کریم نے سیدہ مریم علیہاالسلام کی پاکدامنی کی گواہی دی ہے لیکن اس کے برعکس مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
"حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس تک نجاری کا کام کرتے رہے۔ "
(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 254)
اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی اپنی کتاب کشتی نوح میں لکھتا ہے کہ
"مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا بلکہ مسیح تو مسیح میں تو اس کے چاروں حقیقی بھائیوں کی بھی عزت کرتا ہوں کیونکہ پانچوں ایک ہی ماں کے بیٹے ہیں نہ صرف اس قدر بلکہ میں تو حضرت مسیح کی دونوں ہمشیروں کو بھی مقدسہ سمجھتا ہوں کیونکہ یہ سب بزرگ مریم بتول کے پیٹ سے ہیں اور مریم کی وہ شان ہے بوجہ حمل کے نکاح کر لیا گو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم توریت عین حمل میں کیونکر نکاح کیا گیا اور بتول ہونے کے عہد کوکیوں ناحق توڑا گیا اور تعدد ازواج کی کیوں بنیاد ڈالی گئی یعنی باوجود یوسف نجار کی پہلی بیوی ہونے کے پھر مریم کیوں راضی ہوئی کہ یوسف نجار کے نکاح میں آوے مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں اس صورت میں وہ لوگ قابل رحم تھے نہ کہ قابل اعتراض ۔"
( کشتی نوح مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 17،18)
محترم قارئین ! آپ ملاحظہ کیجیے کہ جس مریم علیہ السلام کی پاکدامنی کی گواہیاں اللہ تعالی قرآن کریم میں خود دے رہا ہے انہی پر مرزا غلام احمد قادیانی کتنے گھناونے الزام لگا رہا ہے وہ بھی تحریف شدہ بائیبل کے بل بوتے پر ۔
قارئین ! اب آتے ہیں ڈاکٹر یحی کی طرف سے پیش کردہ اس حدیث کی طرف جس میں عیسی بن مریم کو چار دفعہ نبی اللہ کہا گیا ہے اور اکثروبیشتر دیگر قادیانی حضرات بھی بیان کرتے ہیں ۔
جب مرزا غلام احمد قادیانی نے 1891 میں مثیل مسیح ہونے کا دعوی کیا تو اس وقت کے علماء نے اعتراض کیا کہ مسیح بن مریم تو نبی اللہ تھے تو کیا تم بھی نبی ہو جس کا جواب دیتے ہوئے مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا کہ
"اس جگہ اگر یہ اعتراض پیش کیا جائے کہ مسیح کا مثیل بھی نبی ہونا چاہیے کیونکہ مسیح نبی تھا تو اس کا اول جواب تو یہی ہے کہ آنے والے مسیح کے لیے ہمارے سیدومولا نے نبوت شرط نہیں ٹھہرائی بلکہ صاف طور پر یہی لکھا ہے کہ وہ ایک مسلمان ہو گا اور عام مسلمانوں کے موافق شریعت فرقانی کا پابند ہو گا۔ "
( توضیح مرام مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 59)
محترم قارئین ! اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حدیث میں عیسی بن مریم علیہم السلام کے لیے چار مرتبہ لفظ نبی اللہ آیا ہے تو مرزا غلام احمد قادیانی خلاف حدیث بات کیوں کی کہ آنیوالے مسیح کے لیے ہمارے سید و مولی نے نبوت شرط نہیں ٹھہرائی اور یہ بات بھی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کرکے میرے آقا کریم علیہ السلام کی وعید کے مطابق جہنم کا حقدار نہیں ٹھہرا ۔
دوسری بات اسی حدیث کے حوالے سے یہ کہ کوئی بھی قادیانی یہ مکمل حدیث پیش کرنے کی جرات نہیں کرتا کیونکہ اس میں مسیح ابن مریم کے ساتھ ساتھ دیگر علامات اور دجال کا بھی ذکر ہے اور حدیث میں چار مرتبہ عیسی بن مریم کو نبی اللہ کہا گیا ہے نہ کہ مرزا غلام احمد بن چراغ بی بی کو اور اسی حدیث میں دجال کے بارے میں نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ وہ گچھے دار بالوں والا ایک جواں شخص ہے اس کی ایک آنکھ بے نور ہے میں اسے عبدالعزی بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں ۔ اب سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ جب نبی کریم علیہ السلام نے عیسی بن مریم علیہم السلام کا نام لیا تو اس سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی نے ایک دوسرے شخص یعنی خود اپنے آپ کو قرار دے لیا لیکن جب دجال کی باری آئی تو اسے ایک گروہ سے تشبیہ دی کبھی پادریوں کے گروہ سے (روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 362،366) تو کبھی علمائے اسلام سے (روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 393) عیسی بن مریم سے گروہ مراد کیوں نہیں صرف ایک شخص مرزا غلام احمد قادیانی ہی کیوں ؟
ڈاکٹر یحی صاحب اپنے کالم میں مزید لکھتے ہیں کہ نبی کریم علیہ السلام کی وفات کے بعد صحابہ کرام کا سب سے پہلا اجماع سابقہ تمام انبیاء کی وفات پر ہوا ہے اور موصوف مرزا غلام احمد قادیانی کی تعلیمات کے عین مطابق قرآن کریم کی آیت وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ کو بطور دلیل پیش کیا ہے اور موصوف مزید لکھتے ہیں کہ حیات مسیح کے عقیدہ کی قرآن و حدیث سے کوئی تائید نہیں ہوتی ۔
محترم قارئین ! یہ ایک صریح جھوٹ ہے کہ صحابہ کرام کا سب سے پہلا اجماع سابقہ انبیاء کی وفات پر ہوا تھا بلکہ صحابہ کرام کا سب سے پہلا اجماع نبی کریم علیہ السلام کی وفات پر ہوا تھا جہاں تک تعلق آیت وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ کا تو اس آیت کا ترجمہ قطعًا یہ نہیں بنتا کہ نبی کریم علیہ السلام سے پہلے تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں بلکہ اس کا ترجمہ یہ بنتا ہے کہ نبی کریم علیہ السلام سے پہلے کئی رسول ہو چکے ہیں اگر خلت کا معنی وفات کیا جائے تو دوسری آیت کَذٰلِکَ اَرۡسَلۡنٰکَ فِیۡۤ اُمَّۃٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہَاۤ اُمَمٌ میں جو خلت کا لفظ آیا ہے وفات کر کے دکھائیں کیا اس سے پہلے تمام امتیں فوت ہو چکی ہیں اسی ضمن میں میں آپ کو آگاہ کرنا چاہوں گا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی جنگ مقدس مندرجہ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 89 پر قد خلت من قبلہ الرسل کا ترجمہ "اس سے پہلے بھی رسول ہی آتے رہے ہیں " کیا ہے اور روحانی خزائن جلد 6 کے صفحہ 340 پر الرسل کا ترجمہ کئی رسول کیا ہے اور قادیانیوں کے پہلے خلیفہ حکیم نور دین نے اپنی کتاب فصل الخطاب کے صفحہ 32 پر اس سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے ہیں کیا ہے اس لیے اس آیت سے وفات مسیح پر استدلال اور وفات مسیح پر صحابہ کا اجماع ثابت کرنا اعلی درجے کی حماقت ہی ہے اور کچھ نہیں ۔
محترم قارئین ! اب ہم مرزا غلام احمد قادیانی کی کتب سے ہی واضح کرتے ہیں کہ بعض صحابہ حیات مسیح کے قائل تھے جن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے اور بقول مرزا قادیانی نبی کریم علیہ السلام کی وفات کے بعد تک ان کا یہ عقیدہ رہا سوچنے کی بات ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی امت کے نزدیک حیات مسیح کا عقیدہ شرکیہ عقیدہ ہے تو کیا نبی کریم علیہ السلام اپنے صحابہ کا عقیدہ درست کروائے بغیر ہی جنت کی بشارتیں دیتے رہے آئیے اب وہ حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں جس میں مرزا قادیانی کا اعتراف ہے کہ بعض صحابہ حیات مسیح کے عقیدے پر تھے چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
"بعض صحابہ اس غلط عقیدہ میں بھی مبتلاء تھے کہ گویا حضرت عیسی علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے ۔"
( روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 35)
اسی طرح ایک مقام پر لکھتا ہے کہ
"عمر خطاب کہتے تھے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو اپنی تلوار سے اسے قتل کردوں گا بلکہ وہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں جیسے عیسی بن مریم اٹھائے گئے اور ابوبکر نے کہا کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے تو وہ ضرور فوت ہو گئے ہیں اور جو شخص محمدؐ کے خدا کی عبادت کرتا ہے تو وہ زندہ ہے نہیں مرے گا۔ "
( روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 581)
قارئین کرام ! مرزا غلام احمد قادیانی کی مندرجہ بالا تحریروں سے ہی واضح ہو گیا کہ اختلاف نبی کریم علیہ السلام کی وفات پر ہوا تھا اور اجماع بھی اسی پر نہ کہ عیسی علیہ السلام کی وفات پر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی حیات مسیح کا عقیدہ رکھتے تھے ۔
اب آتے مرزا غلام احمد قادیانی کے چیلنج کی طرف تو اس چیلنج کا تیا پانچہ تو خود اس کی اپنی تحریروں سے ہی ہو گیا ہے لیکن پھر بھی ایک حدیث پیش کیے دیتے ہیں جو کئی ایک بار علمائے اسلام نے اس کی زندگی میں بھی پیش کی تھی حدیث ملاحظہ ہو
‘‘یخرج اعور الدجال مسیح الضلالۃ قبل المشرق فی زمن اختلاف من الناس ورقۃ فیبلغ ماشاء اللہ ان یبلغ من الارض فی اربعین یوم اللہ اعلم ما مقدار ھا فیلقی المومنون شدۃ شدیدۃ ثم ینزل عیسیٰ بن مریم صلی اللہ علیہ وسلم من السماء فیؤم الناس فاذا رفع راسہ من رکعتہ قال : سمع اللہ لمن حمدہ قتل اللہ المسیح الدجال وظھرالمسلمون۔۔۔۔الی اخر’’
(مجمع الزوائد جلد۱۲ رقم ۱۲۵۴۳،مسند البزار رقم ۹۶۴۲)
ترجمہ:۔ دجال مشرق سے زمانہ اختلاف میں نکلے گا اوروہ زمین پر چالیس دن رہے گا ان(چالیس دن) کی مقدار اللہ ہی بہتر جانتا ہے اوروہ (دن) مسلمانوں پر بہت ہی شدت والے ہوں گے پھر آسمان سے عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا اور وہ لوگوں کو (نماز) پڑھائیں گے اور جب وہ رکوع سے سر اٹھائیں گے اور کہیں گے سمع اللہ لمن حمدہ ، اللہ نے دجال کو ہلاک کیا اور مسلمانوں کو ظاہر کیا۔"
محترم قارئین ! اپنے کالم میں ڈاکٹر یحی صاحب نے ایک اور دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہوئے لکھا کہ
" ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو ایک عظیم الشان پیشگوئی قرآن مجید میں بیان فرمائی ہے اس میں بھی آپؐ کے پیدائشی نام محمد کی بجائے آپ کے صفاتی نام احمد کو بیان کیا گیا ہے چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ اور ایک عظیم رسول کی خوشخبری دیتے ہوئے جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہو گا (سورہ الصف) یہی وجہ ہے کہ مومنین نے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبی مان لیا لیکن منکرین ابھی تک یہ اعتراض کرتے ہیں کہ پیشگوئی میں نام تو احمد تھا لیکن ان کے نزدیک بے وقوف مسلمانوں نے نبی مان لیا۔"
محترم قارئین ! نبی کریم علیہ السلام نے خود اپنا نام احمد بھی بتایا ہے چنانچہ نبی کریم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
(( اَنَامُحَمَّدٌ ،وَاَنَااَحْمَدُ ،وَاَنَاالْمَاحِیُ الَّذِیْ یَُمْحَی بِیَ الْکُفْرَ ،وَاَنَا الْحَاشِرُالَّذِی یُحْشَرُالنَّاسُ عَلَی عَقِبِی ، وَاَنَاالْعَاقِبُ وَالْعَاقِبُ الَّذِی لَیسَ بَعْدَہُ نَبَیٌّ))
ترجمہ:۔ میں محمد ہوں،میں احمد ہوں ،میں ماحی ہوں یعنی اﷲ تعالی میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا ،اور میں حاشر ہوں ،لوگوں کا حشر میرے قدموں میں ہوگا اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ۔
(صحیح مسلم کتاب الفضائل )
اب جب فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہو گیا کہ آپؐ کا ایک نام احمد بھی ہے تو یہ اعتراض ہی فضول ہے لیکن اس کے برعکس امت مرزائیہ اسمہ احمد کے مصداق مرزا غلام احمد قادیانی کو مانتی ہے نہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چنانچہ قادیانیوں کا مصلح موعود اور دوسرا خلیفہ بشیرالدین محمود جو کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا بڑا بیٹا بھی ہے لکھتا ہے کہ
"میرا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے متعلق ہے اور احمد آپ ہی ہیں لیکن اس کے خلاف کہا جاتا ہے کہ احمد نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور آپؐ کے سوا کسی اور کو احمد کہنا آپؐ کی ہتک ہے لیکن میں جہاں تک غور کرتا ہوں میرا یقین بڑھتا جاتا ہے اور میں ایمان رکھتا ہوں کہ احمد کا جو لفظ قرآن کریم میں آیا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہی ہے۔"
(انوار خلافت مندرجہ انوار العلوم جلد 3 صفحہ 83)
آگے چل کر مرزا بشیرالدین محمود مزید لکھتا ہے کہ
" پھر اس قدر دلائل کے ہوتے ہوئے کیونکر ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپؐ کا نام احمد تھا اگر احمد بھی آپ کا نام ہوتا تو مذکورہ بالا مقامات میں محمدؐ نام کے ساتھ آپ کا نام احمد بھی آتا اور کچھ نہیں تو ایک ہی جگہ احمد نام سے پکارا جاتا یا کلمہ شہادت میں بجائے اشھد ان محمد رسول اللہ کے احمد رسول اللہ پڑھنا بھی جائز ہوتا مگر ایسا نہیں ہے نہ یہ بات رسول کریم سے ثابت ہے اور نہ صحابہ سے اب ان واقعات کے ہوتے ہوئے ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ آپؐ کا نام احمد نہ تھا ۔
پس اس آیت میں جس رسول احمد نام والے کی خبر دی گئی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہو سکتے ہاں اگر وہ تمام نشانات جو احمد نام رسول کے ہیں آپؐ کے وقت میں پورے ہوں تب ہم کہ سکتے ہیں کہ اس آیت میں احمد نام سے مراد احمدیت کی صفت کا رسول ہے کیونکہ سب نشانات جب آپؐ میں پورے ہو گئے تو پھر کسی اور پر اس کو چسپاں کرنے کی کیا وجہ ہے لیکن یہ بات بھی نہیں جیسا کہ میں آگے چل کر ثابت کروں گا۔ "
(انوار خلافت مندرجہ انوارالعلوم جلد 3 صفحہ 87،88)
محترم قارئین ! قادیانیوں کے مصلح موعود اور دوسرے خلیفہ کی تحریروں سے ثابت کہ ان کے نزدیک اسمہ احمد کے مصداق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی ابن چراغ بی بی ہے ۔
اپنے کالم میں ڈاکٹر یحی صاحب نے حدیث میں موجود لفظ امامکم منکم سے ایک اور دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے حالانکہ حدیث کے الفاظ بالکل واضح ہیں
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب عیسیٰ ابن مریم تم میں اتریں گے ( تم نماز پڑھ رہے ہو گے ) اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا۔“
محترم قارئین ! اس حدیث مبارکہ سے یہ تو واضح ہوتا ہے کہ جب عیسی ابن مریم علیہم السلام نازل ہوں گے تو امت مسلمہ کا امام جو انہی میں سے ہوگا وہ پہلے سے موجود ہو گا محدثین کی آراء کے مطابق اس امام سے مراد امام مہدی ہیں ۔ ڈاکٹر یحی صاحب نے ایک ضعیف روایت لاالمہدی الا عیسی بھی اپنے کالم میں پیش کی ہے جس کے ضعف کا اقرار کرتے ہوئے مرزا غلام احمد قادیانی خود لکھتا ہے کہ
’’میرا یہ بھی مذہب ہے کہ اگر کوئی امر خداتعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ظاہر کیا جاتا ہے مثلاً کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت کے متعلق تو گو علمائے ظواہر اورمحدثین اس کو موضوع یا مجروح ٹھہراویں مگر میں اس کے مقابل اور معارض کی حدیث کو موضوع کہوں گا اگر خداتعالیٰ نے اس کی صحت مجھ پر ظاہر کردی ہے جیسے لَامَہْدِیْ اِلَّا عِیسٰی والی حدیث ہے محدثین اس پر کلام کرتے ہیں مگر مجھ پر خداتعالیٰ نے یہی ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور یہ میرا مذہب میرا ہی ایجادکردہ مذہب نہیں بلکہ خودیہ مسلّم مسئلہ ہے کہ اہلِ کشف یا اہلِ الہام لوگ محدثین کی تنقید حدیث کے محتاج اور پابند نہیں ہوتے۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد 2 صفحہ 45 طبع چہارم)
محترم قارٸین ! ڈاکٹر یحی صاحب اپنے آرٹیکل میں مزید لکھتے ہیں کہ
” اگر ہم ان احادیث کو ظاہر پر محمول کریں تو جہاں گمراہی ہمارا مقدر بنے گی وہاں ہم مضحکہ خیز عقاٸد بھی منسوب کرنے کا موجب بنے گے مثال کے طور پر اگر ہم احادیث کے الفاظ کو حقیقی طور پر لیں تو کیا حضرت عیسی علیہ السلام نزول آسمانی کے بعد واقعی ساری دنیا کی پتھر ٗ لکڑی اور دھاتوں کی بنی ہوٸی صلیبیں توڑیں گے اور جب صلیبوں کو توڑ کر فارغ ہوں گے تو پھر جنگلوں پھر دیہاتوں میں جا کر خنزیروں کو جا جا کر جسمانی طور پر ماریں گے ۔“
محترم قارٸین ! آپ ڈاکٹر یحی کا دجل و فریب ملاحظہ کریں کہ کس طرح حدیث نبویہ پر طنز کرتے ہوۓ وہ باتیں بھی حدیث کی طرف منسوب کر رہا ہے جن کا حدیث میں ذکر تک نہیں حدیث مبارکہ میں جو الفاظ ہیں وہ صرف یہ ہیں
یکسرالصلیب و یقتل الخنزیر
اب صلیب بھی واحد کا صیغہ ہے اور خنزیر بھی صلیب کو توڑنے اور خنزیر کو قتل کرنے میں کیا مضحکہ خیز بات ہے ؟ مضحکہ خیز بات تو یہ ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی نے دو زرد چادروں کی تاویل کرتے ہوۓ لکھی ہے چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
“ احادیث میں ہے کہ مسیح موعود دو زرد چادروں میں اترے گا ایک چادر بدن کے اوپرماحول کے حصے میں اور دوسری چادر بدن کے نیچے کے حصے میں ۔ سو میں نے کہا کہ یہ اسطرف اشارہ تھا کہ مسیح موعود دو بیماریوں کے ساتھ ظاہر ہو گا کیونکہ بوجہ تعبیر کے علم میں زرد کپڑے سے مراد بیماری ہے اور وہ دونوں بیماریاں مجھ میں ہیں یعنی ایک سر کی بیماری اور دوسری کثرت پیشاب اور دستوں کی بیماری ۔“
( تذکرة الشھادتین مندرجہ روحانی خزاٸن جلد 20 صفحہ46)
قارٸین ! اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ حدیث میں تو دو زرد چادروں کا ذکر ہوا ہے تین کا نہیں اور مرزا صاحب تین بیماریوں کا ذکر کر رہے ہیں ایک سر کی بیماری دوسری کثرت پیشاب اور تیسری دستوں کی بیماری پھر کثرت پیشاب کا بھی یہ حال کہ بعض دفعہ ایک ایک دن میں سو سو بار پیشاب کرنا یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ ڈاکٹر یحی صاحب کے مسیح موعود خود لکھ رہے ہیں کہ
”مجھے کٸی سال سےذیابیطس کی بیماری ہے پندرہ بیس مرتبہ روز پیشاب آتا ہے اور بعض وقت سو سو دفعہ ایک ایک دن میں پیشاب آتا ہے ۔“
( نسیم دعوت مندرجہ روحانی خزاٸن جلد19 صفحہ 434 )
اب آپ خود سوچیے کہ مضحکہ خیز بات کون سی ہے صلیب توڑنا اور خنزیر کو قتل کرنا یا پھر زرد چادروں کی تاویل کثرت پیشاب سے کرنا اور وہ بھی بعض دفعہ دن میں سو سو بار کرنا ۔ اگر حساب لگاٸیں تو چوبیس گھنٹوں میں 1440 منٹ ہوتے ہیں اور تقریبًا ہر ساڑھے چودہ منٹ بعد پیشاب کرنا اور ظاہری بات ہے پیشاب کرنے اور طہارت وغیرہ کرنے میں تقریبًا پانچ منٹ تو لگتے ہی ہوں گے اس طرح ایک سے دوسری بار پیشاب کرنے کا درمیانی وقفہ صرف ساڑھے نو منٹ بنتا ہے وہ بھی بغیر سوٸے اور بغیر کوٸی کام کیے یہ بھی تو مرزا صاحب کا عظیم الشان معجزہ ہے جو مضحکہ خیز تو نہیں ہو گا ڈاکٹر یحی صاحب کی نظر میں ۔
محترم قارئین ! اب آتا ہوں آرٹیکل 260 پر جو جس میں لکھا ہوا ہے کہ
جو شخص خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل ایمان نہیں لاتا یا حضرت محمد ﷺ کے بعد کسی بھی اندازمیں نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے یا کسی ایسے مدعی نبوت یا مذہبی مصلح پر ایمان لاتا ہے وہ ازروئے آئین و قانون مسلمان نہیں ۔
قارئین کرام ! ڈاکٹر یحی صاحب اپنے کالم میں آئین کی اسی شق کو بنیاد بنا کر نزول عیسی ابن مریم علیہم السلام کے قائل تمام مسلمانوں کو کافر قرار دلوانا چاہتے ہیں جیسے قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا ہے جو وہ بھی جانتے ہیں کہ ممکن نہیں لیکن اس کی آڑ میں سادہ لوح لوگوں کو آئین کے آرٹیکل 260 کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ حالانکہ اس شق میں واضح لکھا ہوا ہے کہ "نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے یا کسی ایسے مدعی نبوت یا مصلح پر ایمان لاتا ہے۔ " اگر اسی فقرے پر تھوڑی سی توجہ دی ہوتی تو بات بالکل واضح تھی کہ سیدنا عیسی بن مریم علیہم السلام اپنے نزول کے بعد کوئی دعوی نہیں کریں گے کیونکہ کسی بھی حدیث میں ان کے دعوے کا ذکر موجود نہیں دوسری بات یہ کہ ساری امت مسلمہ جانتی ہے کہ وہ نبی اللہ ہیں اور آقا کریم علیہ السلام نے ان کے نزول کے وقت کی تمام علامات بھی بتا دی ہیں جن سے لوگ انہیں پہچان لیں گے ۔ اب آخری بات قادیانیوں کے کلمے کے حوالے سے کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اکثر لوگ ان کے کلمہ پڑھنے کی وجہ سے دھوکے کا شکار ہو جاتے ہیں تو قارئین کرام ! مرزا غلام احمد قادیانی نے خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا دعوی کیا ہوا ہے چنانچہ مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ
’’مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد جو درحقیقت خاتم النبین تھے ، مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں، اور نہ ہی اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے۔ کیونکہ میں بار بار بتلا چکا ہوں ، میں بموجب آیت وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وہی خاتم الانبیاء ہوں۔ اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے۔ اور مجھے آنحضرت ﷺکا وجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور سے آنحضرت ﷺکے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد ﷺ ہوں ، پس اس طور سے خاتم النبین کی مہر نہیں ٹوٹی۔ کیونکہ محمد ﷺکی نبوت محمد ہی تک محدود رہی۔ یعنی بہرحال محمد ﷺ ہی نبی رہے اور نہ اور کوئی۔ یعنی جب کہ میں بروزی طور پر آنحضرت ﷺہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے، میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں۔ تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 8 مندرجہ قادیانی خزائن جلد 18صفحہ 212)
اسی طرح ایک اور جگہ پر مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
’’ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرۃ صدیقی کی کھلی ہے۔ یعنی فنا فی الرسول کی ۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے۔ اس لیے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے۔ اور نہ اپنے لیے بلکہ اسی کے جلال کے لیے۔ اس لیے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے ۔ اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی۔ گو بروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو ۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبین میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پا لیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا۔ کیونکہ وہ محمد ہے۔ گو ظلی طور پر ۔ پس باوجود اس شخص کے دعویٰ نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا ۔ پھر بھی سیدنا محمد خاتم النبین ہی رہا۔ کیونکہ یہ محمد(ثانی) (مرزا قادیانی) اسی محمد کی تصویر اوراسی کانام ہے۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 3 تا 5مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ207 تا209)
مرزا غلام احمد قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد اپنی کتاب کلمة الفصل میں ایک مقام پر لکھتا ہے کہ
’’اورچونکہ مشابہت تامہ کی وجہ سے مسیح موعود اور نبی کریم میں کوئی دوئی باقی نہیں کہ ان دونوں کے وجود بھی ایک وجود کا ہی حکم رکھتے ہیں جیسا کہ خود مسیح موعود نے فرمایا کہ صار وجودی وجودہ (دیکھو خطبہ الہامیہ صفحہ 171) اورحدیث میں بھی آیاہے کہ حضرت نبی کریم نے فرمایاکہ مسیح موعود میری قبرمیں دفن کیا جائے گا۔جس سے یہی مرادہے کہ وہ میں ہی ہوں یعنی مسیح موعود نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ وہی ہے جو بروزی رنگ میں دوبارہ دنیامیں آئے گا تاکہ اشاعت اسلام کا کام پورا کرے اور ھوالّذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ کے فرمان کے مطابق تمام ادیانِ باطلہ پر اتمام حجت کر کے اسلام کو دنیا کے کونوں تک پہنچاوے تو اس صورت میں کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیاں میں اللہ تعالیٰ نے پھر محمدؐ کو اتارا تاکہ اپنے وعدہ کو پورا کرے جواس نے آخرین منھم لم یلحقوابھم میں فرمایاتھا۔‘‘
(کلمۃالفصل صفحہ104‘105)
محترم قارئین ! بعض لوگ قادیانیوں کے کلمہ پڑھنے سے بھی دھوکا میں آجاتے ہیں کہ دیکھیں جی یہ بھی تو کلمہ پڑھتے ہیں۔ لہٰذا یہ بھی مسلمان ہی ہیں۔ حالانکہ قادیانی گروہ کلمہ میں جب ’’محمدرسول اﷲ ‘‘کے الفاظ ادا کرتا ہے توا ن کا مقصد نبی آخر الزمان علیہ السلام نہیں ہوتا بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی ہوتا ہے، جیسا کہ ہم مندرجہ بالا تحریروں میں مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ سے ثابت کر آئے ہیں۔
آئیے! مذید قادیانی کلمہ کی حقیقت جاننے کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد کی درج ذیل عبارت کو بھی ملاحظہ کریں:
’’ہم کو نئے کلمے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ صار وجودی وجودہ نیز من فرق بینی و بین المصطفی فما عرفنی وماریٰ او ریہ اس لیے ہے کہ حق تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبین کو دنیا میں مبعوث کرے گا جیسا کہ آیت آخرین منھم سے ظاہر ہے۔ پس مسیح موعود خود محمدرسول اﷲ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لیے ہم کوکسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر محمدرسول اﷲ کی جگہ کوئی اور آتاتو ضرور ت پیش آتی۔ ‘‘
(کلمۃ الفصل صفحہ158از مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی )
محترم قارئین ! یہ تھیں 1974 میں قادیانیوں کو کافر قرار دینے کی وجوہات تو بہت زیادہ ہیں لیکن اپنے کالم میں انتہاٸی اختصار کے ساتھ صرف چند ایک وجوہات ہی آپ کے سامنے پیش کی ہیں
تحریر : عبیداللہ لطیف فیصل آباد
00923046265209
ubaidullahlatif@gmail۔com
محترم قارئین ! 25اکتوبر کو روزنامہ جنگ لندن میں مرزا غلام احمد کادیانی کے ایک پیروکار ڈاکٹر یحی کا ایک کالم بعنوان" آرٹیکل 260 اور احمدیوں کا عقیدہ نزول عیسی علیہ السلام " شائع ہوا جس میں موصوف نے اپنے روحانی پیشوا مرزا غلام احمد کادیانی کی سنت پر عمل کرتے ہوئے خوب دجل و فریب سے کام لے کر اصل حقائق کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اپنے کالم میں ڈاکٹر یحی صاحب لکھتے ہیں کہ
"1974کی جس اسمبلی نے آرٹیکل 260 کو منظور کیا اور جس اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں کئی روز بحث و تمحیص جاری رہی اس کی شائع شدہ کاروائی پڑھ لیجیے ختم نبوت کا موضوع اس میں پوری طرح زیر بحث نہیں لایا گیا 8 اگست 1974 کو ختم نبوت کے موضوع پر کچھ بحث کی گئی لیکن جب جماعت احمدیہ کے اس وقت کے خلیفہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے کمیٹی کے سامنے یہ موقف رکھا کہ "ہمارا عقیدہ ہے کہ امت محمدیہ تیرہ سو سال سے مسیح نبی اللہ کا انتظار کر رہی تھی اور جس کا تیرہ سو سال تک امت محمدیہ نے انتظار کیا وہ مسیح ہمارے عقیدے کے مطابق آچکے ہیں۔" تو دانستہ طور پر سپیشل کمیٹی کی باقی ماندہ کاروائی کے دوران ختم نبوت کے موضوع کو چھیڑا ہی نہیں گیا ۔"
محترم قارئین ! ڈاکٹر یحی صاحب نے اپنی مندرجہ بالا تحریر میں مکمل طور پر جھوٹ کا سہارا لیا ہے کیونکہ جب ہم اس کاروائی کو پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ قادیانی خلیفہ مرزا ناصر صاحب کے پیش کیے گئے موقف کے جواب میں اٹارنی جنرل جناب یحی بختیار صاحب نے مرزا غلام احمد قادیانی کے بڑے بیٹے قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود کی کتب سے دو تحریریں پیش کیں ایک انوارصداقت صفحہ 65 سے جس میں وہ لکھتا ہے کہ
"اگر میری گردن کے دونوں طرف تلوار بھی رکھ دی جائے اور مجھے کہا جائے کہ تم یہ کہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو میں ضرور کہوں گا کہ تو جھوٹا ہے کذاب ہے آپ کے بعد نبی آ سکتے ہیں اور ضرور آ سکتے ہیں ۔"
دوسری تحریر یحی بختیار صاحب نے انوار خلافت صفحہ 62 کی پیش کی جس میں مرزا بشیرالدین محمود لکھتا ہے کہ
"انہوں نے سمجھا خدا کے خزانے ختم ہو گئے ہیں ان کا یہ سمجھنا خدا تعالی کی قدرت کو ہی نہ سمجھنے کے باعث ہے ورنہ ایک نبی تو کیا ایک ہزار نبی ہوں گے ۔"
مرزا ناصر ان دونوں تحریروں کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے ۔ جب ہم اس ساری کاروائی کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس ساری کاروائی میں اجرائے نبوت کے حوالے سے ظلی و بروزی نبوت ،امتی نبی ،شرعی اور غیر شرعی نبوت پر تفصیل کے ساتھ گفتگو ہوئی ہے
قارئین کرام ! یہاں پر ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا امت مرزائیہ کو فقط عقیدہ ختم نبوت سے انحراف کی بنا پر ہی کافر قرار دیا گیا ہے یا پھر کچھ اور محرکات بھی تھے ۔ تو قارئین ! اگر صرف عقیدہ ختم نبوت کی بنیاد پر کافر قرار دیا ہوتا تو پھر قادیانی لاہوری گروپ اس قانون کی زد میں کیسے آ گیا جبکہ وہ اجرائے نبوت کے قائل ہی نہیں اور مرزا غلام احمد کادیانی کی نبوت کے منکر ہیں ۔
محترم قارئین ! اصل محرکات کچھ اور بھی ہیں کہ جنہیں امت مرزائیہ عمدًا چھپاتی ہے جن پر اس کارواِئی کے دوران مفصل بحث ہوئی ہے میں ان میں سے چند ایک کا یہاں تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ قادیانیوں کے اخبار الفضل کے26 فروری 1924 کے شمارے میں میثاق النبیین کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں قصیدہ لکھا گیا جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ نبی آخرالزماں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سمیت تمام انبیاء کرام سے یہ عہد لیا گیا ہے کہ اگر ان کی زندگی میں مرزا غلام احمد کادیانی بطور مسیح موعود آجائے تو ان سب کو بھی مرزا غلام احمد کادیانی پر ایمان لانا ہو گا ۔
یہ اتنا بڑا کفر ہے کہ جس کی مثال ملنا محال ہے حالانکہ وہ عہد نبی کریم علیہ السلام کے بارے میں تمام انبیاء کرام سے لیا گیا ہے اور اسی عہد کی پاسداری کا عملی مظاہرہ سیدنا عیسی علیہ السلام کے نزول سے ہو گا لیکن امت مرزائیہ نے ان قرآنی آیات اور میثاق النبیین کا مصداق مرزا غلام احمد کادیانی کو قرار دیا ہے آئیے اب اس قصیدے کے اشعار بھی ملاحظہ کریں۔
لیا تھا جو میثاق سب انبیاء سے
وہی عہد لیا حق نے مصطفےؐ سے
وہ نوح و خلیل و کلیم و مسیحا
سبھی سے یہ پیمان محکم لیا تھا
مبارک وہ امت کا موعود آیا
وہ میثاق ملت کا مقصود آیا
کریں اہل اسلام اب عہد پورا
بنے آج ہر ایک عبدًا شکورا
محترم قارئین ! قاضی ظہورالدین اکمل نامی شخص نہ صرف ایک شاعر تھا بلکہ مرزا غلام احمد کادیانی کا دست راست بھی جو مرزا غلام احمد کادیانی کی شان میں مدح سرائی بھی کرتا رہا اس نے ایک نظم لکھی جس کے چند اشعار یہ تھے
محمدؐ اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے بڑھ کر ہیں اپنی شان میں
محمدؐ دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے کادیاں میں
ان کفریہ اشعار پر مبنی یہ نظم مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی میں اس کے سامنے پڑھی گئی جس پر سرزنش کرنے کی بجائے مرزا قادیانی نے جزاک اللہ کہا جب اسمبلی میں مرزا ناصر کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا گیا تو اس نے سرے سے ہی یہ نظم مرزا غلام احمد قادیانی کے سامنے پڑھے جانے سے انکار کر دیا حالانکہ یہ نظم 25 اکتوبر 1906 کے قادیانی اخبار البدر میں بھی شائع ہوئی اور 22 اگست 1944 کے قادیانی اخبار الفضل میں قاضی اکمل کا بیان موجود ہے کہ یہ نظم مرزا غلام احمد قادیانی کے سامنے پڑھی گئی اور اس نے سن کر جزاک اللہ کہا ۔
محترم قارئین ! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سیدنا عیسی ابن مریم بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور قرآن کریم نے سیدہ مریم علیہاالسلام کی پاکدامنی کی گواہی دی ہے لیکن اس کے برعکس مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
"حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس تک نجاری کا کام کرتے رہے۔ "
(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 254)
اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی اپنی کتاب کشتی نوح میں لکھتا ہے کہ
"مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا بلکہ مسیح تو مسیح میں تو اس کے چاروں حقیقی بھائیوں کی بھی عزت کرتا ہوں کیونکہ پانچوں ایک ہی ماں کے بیٹے ہیں نہ صرف اس قدر بلکہ میں تو حضرت مسیح کی دونوں ہمشیروں کو بھی مقدسہ سمجھتا ہوں کیونکہ یہ سب بزرگ مریم بتول کے پیٹ سے ہیں اور مریم کی وہ شان ہے بوجہ حمل کے نکاح کر لیا گو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم توریت عین حمل میں کیونکر نکاح کیا گیا اور بتول ہونے کے عہد کوکیوں ناحق توڑا گیا اور تعدد ازواج کی کیوں بنیاد ڈالی گئی یعنی باوجود یوسف نجار کی پہلی بیوی ہونے کے پھر مریم کیوں راضی ہوئی کہ یوسف نجار کے نکاح میں آوے مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں اس صورت میں وہ لوگ قابل رحم تھے نہ کہ قابل اعتراض ۔"
( کشتی نوح مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 17،18)
محترم قارئین ! آپ ملاحظہ کیجیے کہ جس مریم علیہ السلام کی پاکدامنی کی گواہیاں اللہ تعالی قرآن کریم میں خود دے رہا ہے انہی پر مرزا غلام احمد قادیانی کتنے گھناونے الزام لگا رہا ہے وہ بھی تحریف شدہ بائیبل کے بل بوتے پر ۔
قارئین ! اب آتے ہیں ڈاکٹر یحی کی طرف سے پیش کردہ اس حدیث کی طرف جس میں عیسی بن مریم کو چار دفعہ نبی اللہ کہا گیا ہے اور اکثروبیشتر دیگر قادیانی حضرات بھی بیان کرتے ہیں ۔
جب مرزا غلام احمد قادیانی نے 1891 میں مثیل مسیح ہونے کا دعوی کیا تو اس وقت کے علماء نے اعتراض کیا کہ مسیح بن مریم تو نبی اللہ تھے تو کیا تم بھی نبی ہو جس کا جواب دیتے ہوئے مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا کہ
"اس جگہ اگر یہ اعتراض پیش کیا جائے کہ مسیح کا مثیل بھی نبی ہونا چاہیے کیونکہ مسیح نبی تھا تو اس کا اول جواب تو یہی ہے کہ آنے والے مسیح کے لیے ہمارے سیدومولا نے نبوت شرط نہیں ٹھہرائی بلکہ صاف طور پر یہی لکھا ہے کہ وہ ایک مسلمان ہو گا اور عام مسلمانوں کے موافق شریعت فرقانی کا پابند ہو گا۔ "
( توضیح مرام مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 59)
محترم قارئین ! اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حدیث میں عیسی بن مریم علیہم السلام کے لیے چار مرتبہ لفظ نبی اللہ آیا ہے تو مرزا غلام احمد قادیانی خلاف حدیث بات کیوں کی کہ آنیوالے مسیح کے لیے ہمارے سید و مولی نے نبوت شرط نہیں ٹھہرائی اور یہ بات بھی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کرکے میرے آقا کریم علیہ السلام کی وعید کے مطابق جہنم کا حقدار نہیں ٹھہرا ۔
دوسری بات اسی حدیث کے حوالے سے یہ کہ کوئی بھی قادیانی یہ مکمل حدیث پیش کرنے کی جرات نہیں کرتا کیونکہ اس میں مسیح ابن مریم کے ساتھ ساتھ دیگر علامات اور دجال کا بھی ذکر ہے اور حدیث میں چار مرتبہ عیسی بن مریم کو نبی اللہ کہا گیا ہے نہ کہ مرزا غلام احمد بن چراغ بی بی کو اور اسی حدیث میں دجال کے بارے میں نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ وہ گچھے دار بالوں والا ایک جواں شخص ہے اس کی ایک آنکھ بے نور ہے میں اسے عبدالعزی بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں ۔ اب سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ جب نبی کریم علیہ السلام نے عیسی بن مریم علیہم السلام کا نام لیا تو اس سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی نے ایک دوسرے شخص یعنی خود اپنے آپ کو قرار دے لیا لیکن جب دجال کی باری آئی تو اسے ایک گروہ سے تشبیہ دی کبھی پادریوں کے گروہ سے (روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 362،366) تو کبھی علمائے اسلام سے (روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 393) عیسی بن مریم سے گروہ مراد کیوں نہیں صرف ایک شخص مرزا غلام احمد قادیانی ہی کیوں ؟
ڈاکٹر یحی صاحب اپنے کالم میں مزید لکھتے ہیں کہ نبی کریم علیہ السلام کی وفات کے بعد صحابہ کرام کا سب سے پہلا اجماع سابقہ تمام انبیاء کی وفات پر ہوا ہے اور موصوف مرزا غلام احمد قادیانی کی تعلیمات کے عین مطابق قرآن کریم کی آیت وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ کو بطور دلیل پیش کیا ہے اور موصوف مزید لکھتے ہیں کہ حیات مسیح کے عقیدہ کی قرآن و حدیث سے کوئی تائید نہیں ہوتی ۔
محترم قارئین ! یہ ایک صریح جھوٹ ہے کہ صحابہ کرام کا سب سے پہلا اجماع سابقہ انبیاء کی وفات پر ہوا تھا بلکہ صحابہ کرام کا سب سے پہلا اجماع نبی کریم علیہ السلام کی وفات پر ہوا تھا جہاں تک تعلق آیت وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ کا تو اس آیت کا ترجمہ قطعًا یہ نہیں بنتا کہ نبی کریم علیہ السلام سے پہلے تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں بلکہ اس کا ترجمہ یہ بنتا ہے کہ نبی کریم علیہ السلام سے پہلے کئی رسول ہو چکے ہیں اگر خلت کا معنی وفات کیا جائے تو دوسری آیت کَذٰلِکَ اَرۡسَلۡنٰکَ فِیۡۤ اُمَّۃٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہَاۤ اُمَمٌ میں جو خلت کا لفظ آیا ہے وفات کر کے دکھائیں کیا اس سے پہلے تمام امتیں فوت ہو چکی ہیں اسی ضمن میں میں آپ کو آگاہ کرنا چاہوں گا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی جنگ مقدس مندرجہ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 89 پر قد خلت من قبلہ الرسل کا ترجمہ "اس سے پہلے بھی رسول ہی آتے رہے ہیں " کیا ہے اور روحانی خزائن جلد 6 کے صفحہ 340 پر الرسل کا ترجمہ کئی رسول کیا ہے اور قادیانیوں کے پہلے خلیفہ حکیم نور دین نے اپنی کتاب فصل الخطاب کے صفحہ 32 پر اس سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے ہیں کیا ہے اس لیے اس آیت سے وفات مسیح پر استدلال اور وفات مسیح پر صحابہ کا اجماع ثابت کرنا اعلی درجے کی حماقت ہی ہے اور کچھ نہیں ۔
محترم قارئین ! اب ہم مرزا غلام احمد قادیانی کی کتب سے ہی واضح کرتے ہیں کہ بعض صحابہ حیات مسیح کے قائل تھے جن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے اور بقول مرزا قادیانی نبی کریم علیہ السلام کی وفات کے بعد تک ان کا یہ عقیدہ رہا سوچنے کی بات ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی امت کے نزدیک حیات مسیح کا عقیدہ شرکیہ عقیدہ ہے تو کیا نبی کریم علیہ السلام اپنے صحابہ کا عقیدہ درست کروائے بغیر ہی جنت کی بشارتیں دیتے رہے آئیے اب وہ حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں جس میں مرزا قادیانی کا اعتراف ہے کہ بعض صحابہ حیات مسیح کے عقیدے پر تھے چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
"بعض صحابہ اس غلط عقیدہ میں بھی مبتلاء تھے کہ گویا حضرت عیسی علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے ۔"
( روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 35)
اسی طرح ایک مقام پر لکھتا ہے کہ
"عمر خطاب کہتے تھے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو اپنی تلوار سے اسے قتل کردوں گا بلکہ وہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں جیسے عیسی بن مریم اٹھائے گئے اور ابوبکر نے کہا کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے تو وہ ضرور فوت ہو گئے ہیں اور جو شخص محمدؐ کے خدا کی عبادت کرتا ہے تو وہ زندہ ہے نہیں مرے گا۔ "
( روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 581)
قارئین کرام ! مرزا غلام احمد قادیانی کی مندرجہ بالا تحریروں سے ہی واضح ہو گیا کہ اختلاف نبی کریم علیہ السلام کی وفات پر ہوا تھا اور اجماع بھی اسی پر نہ کہ عیسی علیہ السلام کی وفات پر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی حیات مسیح کا عقیدہ رکھتے تھے ۔
اب آتے مرزا غلام احمد قادیانی کے چیلنج کی طرف تو اس چیلنج کا تیا پانچہ تو خود اس کی اپنی تحریروں سے ہی ہو گیا ہے لیکن پھر بھی ایک حدیث پیش کیے دیتے ہیں جو کئی ایک بار علمائے اسلام نے اس کی زندگی میں بھی پیش کی تھی حدیث ملاحظہ ہو
‘‘یخرج اعور الدجال مسیح الضلالۃ قبل المشرق فی زمن اختلاف من الناس ورقۃ فیبلغ ماشاء اللہ ان یبلغ من الارض فی اربعین یوم اللہ اعلم ما مقدار ھا فیلقی المومنون شدۃ شدیدۃ ثم ینزل عیسیٰ بن مریم صلی اللہ علیہ وسلم من السماء فیؤم الناس فاذا رفع راسہ من رکعتہ قال : سمع اللہ لمن حمدہ قتل اللہ المسیح الدجال وظھرالمسلمون۔۔۔۔الی اخر’’
(مجمع الزوائد جلد۱۲ رقم ۱۲۵۴۳،مسند البزار رقم ۹۶۴۲)
ترجمہ:۔ دجال مشرق سے زمانہ اختلاف میں نکلے گا اوروہ زمین پر چالیس دن رہے گا ان(چالیس دن) کی مقدار اللہ ہی بہتر جانتا ہے اوروہ (دن) مسلمانوں پر بہت ہی شدت والے ہوں گے پھر آسمان سے عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا اور وہ لوگوں کو (نماز) پڑھائیں گے اور جب وہ رکوع سے سر اٹھائیں گے اور کہیں گے سمع اللہ لمن حمدہ ، اللہ نے دجال کو ہلاک کیا اور مسلمانوں کو ظاہر کیا۔"
محترم قارئین ! اپنے کالم میں ڈاکٹر یحی صاحب نے ایک اور دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہوئے لکھا کہ
" ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو ایک عظیم الشان پیشگوئی قرآن مجید میں بیان فرمائی ہے اس میں بھی آپؐ کے پیدائشی نام محمد کی بجائے آپ کے صفاتی نام احمد کو بیان کیا گیا ہے چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ اور ایک عظیم رسول کی خوشخبری دیتے ہوئے جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہو گا (سورہ الصف) یہی وجہ ہے کہ مومنین نے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبی مان لیا لیکن منکرین ابھی تک یہ اعتراض کرتے ہیں کہ پیشگوئی میں نام تو احمد تھا لیکن ان کے نزدیک بے وقوف مسلمانوں نے نبی مان لیا۔"
محترم قارئین ! نبی کریم علیہ السلام نے خود اپنا نام احمد بھی بتایا ہے چنانچہ نبی کریم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
(( اَنَامُحَمَّدٌ ،وَاَنَااَحْمَدُ ،وَاَنَاالْمَاحِیُ الَّذِیْ یَُمْحَی بِیَ الْکُفْرَ ،وَاَنَا الْحَاشِرُالَّذِی یُحْشَرُالنَّاسُ عَلَی عَقِبِی ، وَاَنَاالْعَاقِبُ وَالْعَاقِبُ الَّذِی لَیسَ بَعْدَہُ نَبَیٌّ))
ترجمہ:۔ میں محمد ہوں،میں احمد ہوں ،میں ماحی ہوں یعنی اﷲ تعالی میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا ،اور میں حاشر ہوں ،لوگوں کا حشر میرے قدموں میں ہوگا اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ۔
(صحیح مسلم کتاب الفضائل )
اب جب فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہو گیا کہ آپؐ کا ایک نام احمد بھی ہے تو یہ اعتراض ہی فضول ہے لیکن اس کے برعکس امت مرزائیہ اسمہ احمد کے مصداق مرزا غلام احمد قادیانی کو مانتی ہے نہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چنانچہ قادیانیوں کا مصلح موعود اور دوسرا خلیفہ بشیرالدین محمود جو کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا بڑا بیٹا بھی ہے لکھتا ہے کہ
"میرا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے متعلق ہے اور احمد آپ ہی ہیں لیکن اس کے خلاف کہا جاتا ہے کہ احمد نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور آپؐ کے سوا کسی اور کو احمد کہنا آپؐ کی ہتک ہے لیکن میں جہاں تک غور کرتا ہوں میرا یقین بڑھتا جاتا ہے اور میں ایمان رکھتا ہوں کہ احمد کا جو لفظ قرآن کریم میں آیا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہی ہے۔"
(انوار خلافت مندرجہ انوار العلوم جلد 3 صفحہ 83)
آگے چل کر مرزا بشیرالدین محمود مزید لکھتا ہے کہ
" پھر اس قدر دلائل کے ہوتے ہوئے کیونکر ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپؐ کا نام احمد تھا اگر احمد بھی آپ کا نام ہوتا تو مذکورہ بالا مقامات میں محمدؐ نام کے ساتھ آپ کا نام احمد بھی آتا اور کچھ نہیں تو ایک ہی جگہ احمد نام سے پکارا جاتا یا کلمہ شہادت میں بجائے اشھد ان محمد رسول اللہ کے احمد رسول اللہ پڑھنا بھی جائز ہوتا مگر ایسا نہیں ہے نہ یہ بات رسول کریم سے ثابت ہے اور نہ صحابہ سے اب ان واقعات کے ہوتے ہوئے ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ آپؐ کا نام احمد نہ تھا ۔
پس اس آیت میں جس رسول احمد نام والے کی خبر دی گئی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہو سکتے ہاں اگر وہ تمام نشانات جو احمد نام رسول کے ہیں آپؐ کے وقت میں پورے ہوں تب ہم کہ سکتے ہیں کہ اس آیت میں احمد نام سے مراد احمدیت کی صفت کا رسول ہے کیونکہ سب نشانات جب آپؐ میں پورے ہو گئے تو پھر کسی اور پر اس کو چسپاں کرنے کی کیا وجہ ہے لیکن یہ بات بھی نہیں جیسا کہ میں آگے چل کر ثابت کروں گا۔ "
(انوار خلافت مندرجہ انوارالعلوم جلد 3 صفحہ 87،88)
محترم قارئین ! قادیانیوں کے مصلح موعود اور دوسرے خلیفہ کی تحریروں سے ثابت کہ ان کے نزدیک اسمہ احمد کے مصداق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی ابن چراغ بی بی ہے ۔
اپنے کالم میں ڈاکٹر یحی صاحب نے حدیث میں موجود لفظ امامکم منکم سے ایک اور دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے حالانکہ حدیث کے الفاظ بالکل واضح ہیں
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب عیسیٰ ابن مریم تم میں اتریں گے ( تم نماز پڑھ رہے ہو گے ) اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا۔“
محترم قارئین ! اس حدیث مبارکہ سے یہ تو واضح ہوتا ہے کہ جب عیسی ابن مریم علیہم السلام نازل ہوں گے تو امت مسلمہ کا امام جو انہی میں سے ہوگا وہ پہلے سے موجود ہو گا محدثین کی آراء کے مطابق اس امام سے مراد امام مہدی ہیں ۔ ڈاکٹر یحی صاحب نے ایک ضعیف روایت لاالمہدی الا عیسی بھی اپنے کالم میں پیش کی ہے جس کے ضعف کا اقرار کرتے ہوئے مرزا غلام احمد قادیانی خود لکھتا ہے کہ
’’میرا یہ بھی مذہب ہے کہ اگر کوئی امر خداتعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ظاہر کیا جاتا ہے مثلاً کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت کے متعلق تو گو علمائے ظواہر اورمحدثین اس کو موضوع یا مجروح ٹھہراویں مگر میں اس کے مقابل اور معارض کی حدیث کو موضوع کہوں گا اگر خداتعالیٰ نے اس کی صحت مجھ پر ظاہر کردی ہے جیسے لَامَہْدِیْ اِلَّا عِیسٰی والی حدیث ہے محدثین اس پر کلام کرتے ہیں مگر مجھ پر خداتعالیٰ نے یہی ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور یہ میرا مذہب میرا ہی ایجادکردہ مذہب نہیں بلکہ خودیہ مسلّم مسئلہ ہے کہ اہلِ کشف یا اہلِ الہام لوگ محدثین کی تنقید حدیث کے محتاج اور پابند نہیں ہوتے۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد 2 صفحہ 45 طبع چہارم)
محترم قارٸین ! ڈاکٹر یحی صاحب اپنے آرٹیکل میں مزید لکھتے ہیں کہ
” اگر ہم ان احادیث کو ظاہر پر محمول کریں تو جہاں گمراہی ہمارا مقدر بنے گی وہاں ہم مضحکہ خیز عقاٸد بھی منسوب کرنے کا موجب بنے گے مثال کے طور پر اگر ہم احادیث کے الفاظ کو حقیقی طور پر لیں تو کیا حضرت عیسی علیہ السلام نزول آسمانی کے بعد واقعی ساری دنیا کی پتھر ٗ لکڑی اور دھاتوں کی بنی ہوٸی صلیبیں توڑیں گے اور جب صلیبوں کو توڑ کر فارغ ہوں گے تو پھر جنگلوں پھر دیہاتوں میں جا کر خنزیروں کو جا جا کر جسمانی طور پر ماریں گے ۔“
محترم قارٸین ! آپ ڈاکٹر یحی کا دجل و فریب ملاحظہ کریں کہ کس طرح حدیث نبویہ پر طنز کرتے ہوۓ وہ باتیں بھی حدیث کی طرف منسوب کر رہا ہے جن کا حدیث میں ذکر تک نہیں حدیث مبارکہ میں جو الفاظ ہیں وہ صرف یہ ہیں
یکسرالصلیب و یقتل الخنزیر
اب صلیب بھی واحد کا صیغہ ہے اور خنزیر بھی صلیب کو توڑنے اور خنزیر کو قتل کرنے میں کیا مضحکہ خیز بات ہے ؟ مضحکہ خیز بات تو یہ ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی نے دو زرد چادروں کی تاویل کرتے ہوۓ لکھی ہے چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
“ احادیث میں ہے کہ مسیح موعود دو زرد چادروں میں اترے گا ایک چادر بدن کے اوپرماحول کے حصے میں اور دوسری چادر بدن کے نیچے کے حصے میں ۔ سو میں نے کہا کہ یہ اسطرف اشارہ تھا کہ مسیح موعود دو بیماریوں کے ساتھ ظاہر ہو گا کیونکہ بوجہ تعبیر کے علم میں زرد کپڑے سے مراد بیماری ہے اور وہ دونوں بیماریاں مجھ میں ہیں یعنی ایک سر کی بیماری اور دوسری کثرت پیشاب اور دستوں کی بیماری ۔“
( تذکرة الشھادتین مندرجہ روحانی خزاٸن جلد 20 صفحہ46)
قارٸین ! اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ حدیث میں تو دو زرد چادروں کا ذکر ہوا ہے تین کا نہیں اور مرزا صاحب تین بیماریوں کا ذکر کر رہے ہیں ایک سر کی بیماری دوسری کثرت پیشاب اور تیسری دستوں کی بیماری پھر کثرت پیشاب کا بھی یہ حال کہ بعض دفعہ ایک ایک دن میں سو سو بار پیشاب کرنا یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ ڈاکٹر یحی صاحب کے مسیح موعود خود لکھ رہے ہیں کہ
”مجھے کٸی سال سےذیابیطس کی بیماری ہے پندرہ بیس مرتبہ روز پیشاب آتا ہے اور بعض وقت سو سو دفعہ ایک ایک دن میں پیشاب آتا ہے ۔“
( نسیم دعوت مندرجہ روحانی خزاٸن جلد19 صفحہ 434 )
اب آپ خود سوچیے کہ مضحکہ خیز بات کون سی ہے صلیب توڑنا اور خنزیر کو قتل کرنا یا پھر زرد چادروں کی تاویل کثرت پیشاب سے کرنا اور وہ بھی بعض دفعہ دن میں سو سو بار کرنا ۔ اگر حساب لگاٸیں تو چوبیس گھنٹوں میں 1440 منٹ ہوتے ہیں اور تقریبًا ہر ساڑھے چودہ منٹ بعد پیشاب کرنا اور ظاہری بات ہے پیشاب کرنے اور طہارت وغیرہ کرنے میں تقریبًا پانچ منٹ تو لگتے ہی ہوں گے اس طرح ایک سے دوسری بار پیشاب کرنے کا درمیانی وقفہ صرف ساڑھے نو منٹ بنتا ہے وہ بھی بغیر سوٸے اور بغیر کوٸی کام کیے یہ بھی تو مرزا صاحب کا عظیم الشان معجزہ ہے جو مضحکہ خیز تو نہیں ہو گا ڈاکٹر یحی صاحب کی نظر میں ۔
محترم قارئین ! اب آتا ہوں آرٹیکل 260 پر جو جس میں لکھا ہوا ہے کہ
جو شخص خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل ایمان نہیں لاتا یا حضرت محمد ﷺ کے بعد کسی بھی اندازمیں نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے یا کسی ایسے مدعی نبوت یا مذہبی مصلح پر ایمان لاتا ہے وہ ازروئے آئین و قانون مسلمان نہیں ۔
قارئین کرام ! ڈاکٹر یحی صاحب اپنے کالم میں آئین کی اسی شق کو بنیاد بنا کر نزول عیسی ابن مریم علیہم السلام کے قائل تمام مسلمانوں کو کافر قرار دلوانا چاہتے ہیں جیسے قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا ہے جو وہ بھی جانتے ہیں کہ ممکن نہیں لیکن اس کی آڑ میں سادہ لوح لوگوں کو آئین کے آرٹیکل 260 کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ حالانکہ اس شق میں واضح لکھا ہوا ہے کہ "نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے یا کسی ایسے مدعی نبوت یا مصلح پر ایمان لاتا ہے۔ " اگر اسی فقرے پر تھوڑی سی توجہ دی ہوتی تو بات بالکل واضح تھی کہ سیدنا عیسی بن مریم علیہم السلام اپنے نزول کے بعد کوئی دعوی نہیں کریں گے کیونکہ کسی بھی حدیث میں ان کے دعوے کا ذکر موجود نہیں دوسری بات یہ کہ ساری امت مسلمہ جانتی ہے کہ وہ نبی اللہ ہیں اور آقا کریم علیہ السلام نے ان کے نزول کے وقت کی تمام علامات بھی بتا دی ہیں جن سے لوگ انہیں پہچان لیں گے ۔ اب آخری بات قادیانیوں کے کلمے کے حوالے سے کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اکثر لوگ ان کے کلمہ پڑھنے کی وجہ سے دھوکے کا شکار ہو جاتے ہیں تو قارئین کرام ! مرزا غلام احمد قادیانی نے خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا دعوی کیا ہوا ہے چنانچہ مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ
’’مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد جو درحقیقت خاتم النبین تھے ، مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں، اور نہ ہی اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے۔ کیونکہ میں بار بار بتلا چکا ہوں ، میں بموجب آیت وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وہی خاتم الانبیاء ہوں۔ اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے۔ اور مجھے آنحضرت ﷺکا وجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور سے آنحضرت ﷺکے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد ﷺ ہوں ، پس اس طور سے خاتم النبین کی مہر نہیں ٹوٹی۔ کیونکہ محمد ﷺکی نبوت محمد ہی تک محدود رہی۔ یعنی بہرحال محمد ﷺ ہی نبی رہے اور نہ اور کوئی۔ یعنی جب کہ میں بروزی طور پر آنحضرت ﷺہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے، میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں۔ تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 8 مندرجہ قادیانی خزائن جلد 18صفحہ 212)
اسی طرح ایک اور جگہ پر مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
’’ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرۃ صدیقی کی کھلی ہے۔ یعنی فنا فی الرسول کی ۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے۔ اس لیے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے۔ اور نہ اپنے لیے بلکہ اسی کے جلال کے لیے۔ اس لیے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے ۔ اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی۔ گو بروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو ۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبین میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پا لیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا۔ کیونکہ وہ محمد ہے۔ گو ظلی طور پر ۔ پس باوجود اس شخص کے دعویٰ نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا ۔ پھر بھی سیدنا محمد خاتم النبین ہی رہا۔ کیونکہ یہ محمد(ثانی) (مرزا قادیانی) اسی محمد کی تصویر اوراسی کانام ہے۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 3 تا 5مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ207 تا209)
مرزا غلام احمد قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد اپنی کتاب کلمة الفصل میں ایک مقام پر لکھتا ہے کہ
’’اورچونکہ مشابہت تامہ کی وجہ سے مسیح موعود اور نبی کریم میں کوئی دوئی باقی نہیں کہ ان دونوں کے وجود بھی ایک وجود کا ہی حکم رکھتے ہیں جیسا کہ خود مسیح موعود نے فرمایا کہ صار وجودی وجودہ (دیکھو خطبہ الہامیہ صفحہ 171) اورحدیث میں بھی آیاہے کہ حضرت نبی کریم نے فرمایاکہ مسیح موعود میری قبرمیں دفن کیا جائے گا۔جس سے یہی مرادہے کہ وہ میں ہی ہوں یعنی مسیح موعود نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ وہی ہے جو بروزی رنگ میں دوبارہ دنیامیں آئے گا تاکہ اشاعت اسلام کا کام پورا کرے اور ھوالّذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ کے فرمان کے مطابق تمام ادیانِ باطلہ پر اتمام حجت کر کے اسلام کو دنیا کے کونوں تک پہنچاوے تو اس صورت میں کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیاں میں اللہ تعالیٰ نے پھر محمدؐ کو اتارا تاکہ اپنے وعدہ کو پورا کرے جواس نے آخرین منھم لم یلحقوابھم میں فرمایاتھا۔‘‘
(کلمۃالفصل صفحہ104‘105)
محترم قارئین ! بعض لوگ قادیانیوں کے کلمہ پڑھنے سے بھی دھوکا میں آجاتے ہیں کہ دیکھیں جی یہ بھی تو کلمہ پڑھتے ہیں۔ لہٰذا یہ بھی مسلمان ہی ہیں۔ حالانکہ قادیانی گروہ کلمہ میں جب ’’محمدرسول اﷲ ‘‘کے الفاظ ادا کرتا ہے توا ن کا مقصد نبی آخر الزمان علیہ السلام نہیں ہوتا بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی ہوتا ہے، جیسا کہ ہم مندرجہ بالا تحریروں میں مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ سے ثابت کر آئے ہیں۔
آئیے! مذید قادیانی کلمہ کی حقیقت جاننے کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد کی درج ذیل عبارت کو بھی ملاحظہ کریں:
’’ہم کو نئے کلمے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ صار وجودی وجودہ نیز من فرق بینی و بین المصطفی فما عرفنی وماریٰ او ریہ اس لیے ہے کہ حق تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبین کو دنیا میں مبعوث کرے گا جیسا کہ آیت آخرین منھم سے ظاہر ہے۔ پس مسیح موعود خود محمدرسول اﷲ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لیے ہم کوکسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر محمدرسول اﷲ کی جگہ کوئی اور آتاتو ضرور ت پیش آتی۔ ‘‘
(کلمۃ الفصل صفحہ158از مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی )
محترم قارئین ! یہ تھیں 1974 میں قادیانیوں کو کافر قرار دینے کی وجوہات تو بہت زیادہ ہیں لیکن اپنے کالم میں انتہاٸی اختصار کے ساتھ صرف چند ایک وجوہات ہی آپ کے سامنے پیش کی ہیں