آیت خاتم النبیین پر قادیانی اعتراضات ( اعتراض نمبر۴: استغراق عرفی )
قادیانی :
خاتم النبیین میں الف لام استغراق عرفی کے لئے ہے۔ استغراق حقیقی کے لئے نہیں۔ جیسا کہ ’’ ویقتلون النبیین ‘‘ میں استغراق عرفی ہے۔ حقیقی نہیں۔
جواب 1:
پہلے تو استغراق حقیقی اور عرفی کی تعریف دیکھیں کیا ہے؟ الف لام استغراق حقیقی‘ اصطلاح میں اس کو کہا جاتا ہے کہ وہ جس لفظ پر داخل ہو اس کے تمام افراد بے کم وکاست مراد ہوں۔ مثلاً عالم الغیب میں لفظ غیب جس پر الف لام داخل ہے اس سے اس کے تمام افراد مراد ہیں۔ یعنی عالم تمام غائبات کا ‘ اور استغراق عرفی میں تمام افراد نہیں ہوتے۔ جیسے ’’جمع الا میرالصاغتہ ‘‘ یعنی بادشاہ نے سناروں کو جمع کیا۔ پس صاغہ جس پر الف لام داخل ہے اس کے تمام افراد مراد نہیں بلکہ اپنے شہر کے یعنی اپنے شہر یا قلمرو کے سناروں کو جمع کیا۔ بااتفاق علماء عربیت واصول استغراق عرفی اس وقت مراد ہوتا ہے جب استغراق حقیقی نہ بن سکتا ہو۔ یا عرفاً اس کے تمام افراد مراد نہ لیے جاسکتے ہوں اور یہاں استغراق حقیقی متعین ہے۔ خاتم النبیین میں جب قرائن ودلائل سے استغراق حقیقی مراد لیا جاسکتا ہے تو استغراق عرفی مراد لینا جائز نہ ہوگا۔ خاتم النبیین کے بلا تکلف استغراق حقیقی کے ساتھ یہ معنی صحیح ہیں کہ آپ ﷺ تمام انبیاء کے ختم کرنے والے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ استغراق حقیقی کو چھوڑ کر بلا دلیل وقرینہ اور بلا وجہ استغراق عرفی کی طرف جائیں اور مطلق نبیین کو صرف انبیاء تشریعی کے ساتھ مقید کردیں؟۔
باقی رہا مسئلہ آیت کریمہ ’’ ویقتلون النبیین ‘‘ کو اپنے دعوے کی شہادت میں پیش کرنا اگر اس جگہ لام کو استغراق عرفی کے لئے تسلیم بھی کرلیا جائے تب بھی ہم عرض کرچکے ہیں کہ جب استغراق حقیقی نہیں بن سکتا تو پھر استغراق عرفی کی طرف جاتے ہیں۔ اور اس آیت میں بالکل کھلی ہوئی بات ہے کہ یقتلون النبیین کا الف لام استغراق حقیقی کے لئے کسی طرح نہیں ہوسکتا۔ ورنہ آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ بنی اسرائیل تمام انبیاء علیہم السلام کو قتل کرتے تھے۔ حالانکہ یہ بات کسی طرح درست نہیں ہوسکتی۔ بلکہ بالکل کذب محض ہوگی ۔ کیونکہ اول تو بنی اسرائیل کے زمانہ میں تمام انبیاء موجود نہ تھے۔ بہت سے ان سے پہلے گزر چکے تھے اور بعض ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔ پھر ان کا تمام انبیاء کو قتل کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟۔
دوم یہ بھی ثابت نہیں کہ بنی اسرائیل نے اپنے زمانہ کے تمام انبیاء موجودین کو بلا استثناء قتل ہی کرڈالا ہو۔ بلکہ قرآن عزیز ناطق ہے: ’’ ففریقاً کذبتم وفریقا تقتلون ‘‘ جس نے صاف طور سے اعلان کردیا کہ بنی اسرائیل نے تما م انبیاء موجودین کو بھی قتل نہیں کیا۔ اس اعلان کے بعد بھی اگر ویقتلون النبیین کے الف لام کو استغراق حقیقی کے لئے رکھا جاوے تو جس طرح واقعات اور مشاہدات اس کی تکذیب کریں گے اسی طرح خود قرآن کریم اس کو غلط ٹھہرائے گا۔‘‘
آیت کریمہ ویقتلون النبیین میں اگر استغراق حقیقی مراد لیاجائے گا تو آیت کا مضمون (معاذاﷲ)بالکل کذب صریح اور غلط فاحش ہوجائے گا۔ جس کو مشاہدہ جھٹلا چکا ہے۔ پس اس آیت میں جب آفتاب کی طرح یہ بات روشن ہوگئی کہ استغراق حقیقی مراد نہیں ہوسکتا اس وقت استغراق عرفی قرار دیا گیا۔
بخلاف آیت خاتم النبیین کے کہ اس میں تخصیص کرنے کی کوئی وجہ نہیں اس کے معنی استغراق حقیقی لینا بلاتامل درست ہیں۔ یعنی تمام انبیاء علیہم السلام کے ختم کرنے والے اور اگر اسی طرح بے وجہ استغراق عرفی جہاں چاہیں مراد لے سکتے ہیں تو کیا ہمارے مہربان آیت کریمہ :
’’ ولکن البر من آمن باﷲ والیوم الآ خر والملائکۃ والکتاب والنبیین۰ بقرہ ۱۷۷ ‘‘{لیکن بڑی نیکی تو یہ ہے جو کوئی ایمان لائے اﷲ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر اور ملائکہ پر اور سب کتابوں پر اور پیغمبروں پر۔}
میں بھی یہی فرمائیں گے ؟ کہ النبیین کا الف لام استغراق عرفی کے لئے ہے۔ اور تمام انبیاء پر ایمان لانا ضروری نہیں۔ اور کیا آیت ذیل میں بھی ان کے خیال میں استغراق عرفی ہی ہوگا:
’’ فبعث اﷲ النبیین مبشرین ومنذرین ۰ بقرہ ۲۱۳ ‘‘ {پھر یھیجے اﷲ نے پیغبر خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے۔}
اور کیا استغراق عرفی کے ساتھ آیت کے یہ معنی صحیح ہوجائیں گے کہ اﷲ تعالیٰ نے بعض انبیاء کو بشیر ونذیر بنایا اور بعض کو نہیں۔ اسی طرح آیت ذیل میں:
’’ ولا یامرکم ان تتخذوا الملائکۃ والنبیین اربابا۰ آل عمران ۸۰ ‘‘{اور نہ یہ کہے تم کو کہ ٹھہرالو فرشتوں کو اور نبیوں کو رب۔}
کیا اس میں بھی استغراق عرفی کے ساتھ ہمارے مہربان آیت کا یہی مطلب بتلائیں گے کہ اﷲ تعالیٰ بعض انبیاء کے رب بنانے کا حکم نہیں کرتا اور بعض انبیاء کے متعلق اس کا حکم فرماتا ہے ۔ اور کیا یہ آیت کریمہ :’’ مع الذین انعم اﷲ علیھم من النبیین ۰‘‘ میں بھی ان کے خیال میں استغراق عرفی کے ساتھ بعض انبیاء مراد ہیں۔ اور آیت کریمہ :’’ ووضع الکتاب وجییٔ باالنبیین والشھدائ ‘‘میں بھی کہا جائے گا کہ بعض نبیین مراد ہیں۔ اسی طرح آیت کریمہ :’’ واذ اخذاﷲ میثاق النبیین۔۔۔۔۔۔ الایۃ ‘‘ {اور جب کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہم السلام سے عہد لیا ۔۔۔۔۔ تا ختم آیت۔} میں بھی کیا ہمارے مجتہدین صاحبان استغراق عرفی ہی قرار دے کر یہ معنی بتلائیں گے کہ اﷲ تعالیٰ نے بعض نبیین سے عہد لیا ؟اور کیا ان کے نزدیک :’’ ولقد فضلنا بعض النبیین علیٰ بعض ‘‘ میں بھی استغراق عرفی ہوسکتا ہے۔؟
الحاصل اگر اسی طرح ہر جگہ جہاں چاہیں استغراق عرفی مراد لینا جائز ہوتو کوئی وجہ نہیں کہ آیات مذکورۃ الصدر میں جائز نہ ہو۔ علاوہ بریں آیات ذیل کی امثال میں بھی استغراق عرفی کو جائز کہنا پڑے گا۔
’’ الحمد ﷲ رب العالمین۰ غیر المغضوب علیھم ولاالضالین۰ ھدی اللمتقین۰ واﷲ محیط باالٰکفرین۰ اعدت للکافرین۰ انھا لکبیرۃ الا علی الخاشعین۰ وموعظۃ اللمتقین۰ واﷲ علیم باالظالمین۰ انہ لایفلح الظالمون۰ وھوارحم الراحمین۰ والیٰ غیر ذالک من الا یات التی ھی غنیۃ عن التعداد۰‘‘
اور ان کی دوسری نظائر جن سے قرآن مجید کی ہر ہر سطر بھری ہوئی ہے۔ سب میں استغراق عرفی کو جائز کہنا پڑے گا۔ حالانکہ جس شخص کو عربی عبارت پڑھنے کا تھوڑا سا سلیقہ ہے وہ کسی طرح ان جیسی آیات میں استغراق عرفی کو جائز نہیں کہہ سکتا۔
اور اگر آیات مذکورۃ الصدر اور ان کے امثال میں استغراق عرفی مراد نہیں لیا جاسکتا تو کوئی وجہ نہیں کہ خاتم النبیین میں استغراق عرفی مراد لیا جائے۔ یا للعجب ! سارا قرآن اول سے آخر تک خاتم النبیین کے نظائر سے بھرا ہوا ہے ان میں کوئی نظیر پیش نہ کی گئی اور کسی پر ان کو قیاس نہ کیا گیا ۔ قیاس کے لئے ملی تو آیت ’’ویقلتون النبیین۰‘‘جس میں بداہت اور مشاہدہ نے آفتاب کی طرح استغراق حقیقی کو غیر ممکن بنادیا ہے۔ اور پھرقرآن کریم نے اس کا اعلان صاف صاف لفظوں میں کردیا ہے۔
جواب۲ :
سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ اگر ان سب امور سے قطع نظر کریں اور قواعد عربی سے بھی آنکھیں بند کرلیں اور آیت میں کسی طرح استغراق عرفی مراد لے لیں تو پھر آیت خاتم النبیین کے معنی ہوںگے۔ آنحضرت ﷺ تما م انبیاء کے خاتم نہیں ہیں۔ لیکن جس شخص کو خدا وند تعالیٰ نے سمجھ بوجھ سے کچھ حصہ دیا ہے وہ بلا تامل سمجھ سکتا ہے کہ اس صورت میں خاتم النبیین ہونا آنحضرت ﷺ کی کوئی خصوصی فضیلت نہیں رہتی۔ بلکہ آدم علیہ السلام کے بعد ہر نبی اپنے سے پہلے انبیاء کا خاتم ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے سے پہلے انبیاء کے لئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے سے پہلے انبیاء کے لئے۔(اور اسی طرح سلسلہ بسلسلہ)
حالانکہ آیت مذکورہ کا سیاق بتلارہا ہے کہ خاتم النبیین ہونا آپ ﷺ کی مخصوص فضیلت ہے۔ علاوہ بریں خود آنحضرت ﷺنے ختم نبوت کو اپنے ان فضائل میں شمار فرمایا ہے جو آپ ﷺ کے ساتھ مخصوص ہیں اور آپ ﷺ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ چنانچہ حدیث مسلم بروایت ابوہریرہ ؓ پہلے گزر چکی ہے۔ جس میں آ پ ﷺ نے اپنی چھ مخصوص فضلیتیں شمار کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’ وارسلت الی الخلق کافۃ ختم بی النبیون۰ رواہ مسلم ‘‘{اور منجملہ مخصوص فضائل کے یہ ہے کہ میں تمام مخلوقات کی طرف مبعوث ہوا ہوں۔ اور مجھ پر انبیاء ختم کردئیے گئے۔}
جواب۳ :
اگر ان تمام چیزوں سے آنکھیںبند کرلیں اور اپنی دھن میں اس کا بھی خیال نہ کریں کہ آیت میں استغراق عرفی کے ساتھ بعض انبیاء یعنی اصحاب شریعت مراد لینے سے آیت کے معنی درست ہوں گے یا غلط۔ اور بفرض محال اس احتمال کو نافذ اور جائز قرار دیں۔ تب بھی مرزا قادیانی اور ان کے اذناب کا مقصد ’’ ہنوز دلی دوراست‘‘ کا مصداق ہے۔ کیونکہ ہم اوپر عرض کرچکے ہیں کہ قرآن مجید کی تفسیر محض احتمالات عقلیہ اور لغویہ سے نہیں ہوسکتی۔ جب تک کہ مذکورہ سابقہ اصول تفسیر سے اس کی صداقت پر شہادت نہ لے لی جائے۔
لیکن مرزا قادیانی اور ان کی ساری امت مل کر قرآن مجید کی کسی ایک آیت میںکیا یہ دکھلا سکتے ہیں (اور وہ ہرگز نہ دکھلاسکیں گے:ولوکان بعضھم لبعض ظھیرا۰) کہ آیت خاتم النبیین میں فقط انبیاء تشریعی یعنی اصحاب شریعت جدیدہ مراد ہیں؟۔
یا وہ اور ان کی تمام ذریت ‘ احادیث کے اتنے وسیع دفتر میں کسی ایک صحیح بلکہ ضعیف حدیث میںبھی آیت خاتم النبیین کی یہ تفسیر دکھلا سکتے ہیں کہ اس سے خاتم النبیین التشریعین مراد ہے۔ اور ہم بحول اﷲ وقوتہ دعویٰ سے کہتے ہیں کہ وہ قیامت تک ایک حدیث میں یہ تفسیر نہ دکھلاسکیں گے۔
کیا مرزا قادیانی اور ان کے تمام اذناب ‘ آثار صحابہ وتابعین کے وسیع ترمیدان میں سے کوئی ایک اثر اس تفسیر کے ثبوت میں پیش کرسکتے ہیں؟ نہیں اور ہر گز نہیں !
اور اگر یہ سب کچھ نہیں تو کم از کم آئمہ تفسیر کی مستند ومعتبر تفاسیر ہی میں سے کوئی تفسیر پیش کریں جس میں خاتم النبیین کی یہ مراد بیان کی گئی ہو۔ کہ ختم کرنے والے تشریعی انبیاء کے۔ مرزا قادیانی اور ان کی ساری امت ایڑی چوٹی کا زور لگاکر بھی قیامت تک اصول مذکورہ میں سے کسی ایک اصل کو بھی اپنی گھڑی ہوئی اور مخترع تفسیر (نہیں بلکہ تحریف) کی شہادت میں پیش نہ کرسکیں گے۔
اور جب یہ سب کچھ نہیں تو باوجود انقلاب زمانہ اور کثرت جہل ‘ میں اب بھی کوئی مسلمانوں پر یہ بدگمانی نہیں کرسکتا کہ وہ ایک ایسی بے معنی آواز کو قرآن مجید کی تفسیر سمجھ بیٹھیں گے جس کی کوئی اصل نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں‘ نہ اقوال صحابہ میں اس کا کوئی اثر ہے نہ اقوال تابعین میں‘ نہ آئمہ تفسیر اس کی موافقت کرتے ہیں۔ اور نہ کتب تفسیر بلکہ یہ سب کے سب ہم آہنگ ہوکر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
جو اب۴ :
جب ہم علاوہ تفسیر اور اصول تفسیر کے خود اسی آیت کے سیاق وسباق پر نظر ڈالتے ہیں تو بلا تامل آیت بول آٹھتی ہے کہ خاتم النبیین میں نبیین سے عامۃً تمام انبیاء مراد ہیں جو صاحب شریعت جدیدہ ہوں یا شریعت سابقہ اور کتاب سابق کے متبع ‘ جمہور عربیت واصول کا مذہب یہی ہے کہ لفظ نبی عام ہے اور لفظ رسول خاص۔ یعنی رسول صرف اس نبی کو کہا جاتا ہے کہ جس پر شریعت مستقلہ نازل ہوئی ہو اور نبی اس سے عام ہے۔صاحب شریعت مستقلہ کو بھی نبی کہتے ہیں اور اس کو بھی جس پر شریعت مستقلہ نازل نہیں ہوئی۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ امت کو شریعت سابقہ پر چلائے اور اس کے خلاف جہاں کہیں استعمال ہے وہ بطور مجاز ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ آیت میں آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین کہا گیا ہے۔خاتم الرسل یا خاتم المرسلین نہیں فرمایا۔ کیونکہ اس سے پہلے آپ ﷺ کی نسبت لفظ رسول فرمایا گیا ہے:’’ ولکن رسول اﷲ‘‘ لفظ رسول کے ساتھ ظاہر ہے کہ خاتم المرسلین بہ نسبت خاتم النبیین کے زیادہ چسپاں ہے۔ مگر سبحان اﷲ! خدائے علیم وخبیر کا کلام ہے وہ جانتا ہے کہ امت میں وہ لوگ بھی پیدا ہوں گے جو آیت میں تحریف کریں گے۔ اس لئے یہ اسلوب بدل کر اس تحریف کا دروازہ بند کردیا ۔ چنانچہ امام المفسرین علامہ ابن کثیر ؒنے اس پر متنبہ فرمایا ہے:
’’ وقولہ تعالیٰ ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شیٔ علیما۰ فھذہ الایۃ نص فی انہ لانبی بعدہ ‘فلا رسول باالطریق الاولی والاخریٰ لان مقام الرسالۃ اخص من مقام النبوۃ فان کل رسول نبی ولا ینعکس وبذالک ورد الا حادیث المتواترۃ عن رسول اﷲ ﷺ من حدیث جماعۃ من الصحابۃ۰ تفسیر ابن کثیر ص ۸۹ ج۸ ‘‘{اور فرمان اﷲ تعالیٰ ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شیٔ علیما۰ پس یہ آیت اس بارہ میں صاف وصریح ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور جبکہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں‘ تو رسول بھی بدرجہ اولیٰ نہ ہوگا۔ اس لئے کہ مقام رسالت بہ نسبت مقام نبوت خاص ہے۔ کیونکہ ہر رسول کے لئے نبی ہونا شرط ہے اور نبی کے لئے رسول ہونا ضروری نہیں۔ اور اسی پروارد ہوئیں احادیث رسول اﷲ ﷺ جن کو صحابہ کرام ؓ کی ایک بڑی جماعت نے روایت کیا ہے۔}
اسی طرح سید محمود آلوسی ؒ نے اپنی تفسیر میں بیان فرمایا ہے:
’’ والمراد بالنبی ماھو اعم من الرسول فیلزم من کونہ ﷺ خاتم النبیین خاتم المرسلین۰ روح المعانی ص۶۰ج۸ ‘‘ {اور نبی سے وہ مراد ہے جو رسول سے عام ہے اور اس لئے آپ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے سے خاتم المرسلین (یعنی اصحاب شریعت انبیاء کا خاتم )ہونا بھی لازم آتا ہے۔}
اور کلیات ابوالبقا میں ہے کہ آیت میں نفی نبوت ‘نفی رسالت کو بھی شامل ہے۔