السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
ختم نبوت اسلام کے بنیادی عقیدوں میں سے ایک عقیدہ ہے۔ اسلام میںکوئی ظلی یا بروزی نبوت کا تصور موجود نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث ختم نبوت کی زبردست دلیل ہیں مثلا فرمایا "لا نبی بعدی" میرے بعد کوئی نبی نہیں"۔
حصہ اول
ختم نبوّت کے بَارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات
قرآن کے سیاق و سباق اور لغت کے لحاظ سے اس لفظ کا جو مفہوم ہے اسی کی تائید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات کرتی ہیں ۔ مثال کے طور پر چند صحیح ترین احادیث ہم یہاں نقل کرتے ہیں:
۱)۔قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کانت بنو اسرائیل تسو سھم الانبیاء۔ کلماھلک نبی خلفہ نبی، وانہ لا نبی بعد ی وسیکو زخلفاء (بخاری ، کتاب المناقب، باب ماذکر عن بنی اسرئیل)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرئیل کی قیا دت انبیاء کیا کرتے تھے ۔ جب کوئی نبی مرجاتا تو دوسرا نبی اس کا جا نشین ہوتا ۔ مگر میری بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ بلکہ خلفاء ہوں گے۔
۲)۔قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان مثلی و مثل الا نبیائمن قبلی کمثل رجل بنیٰ بیتًا فا حسنہ واجملہ الّا مو ضع لبنۃ من زاویۃٍفھعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون ھلّا وُ ضِعَتْ ھٰذہ اللبنۃ،فانا اللبنۃ۔وانا خاتم النبیّین (بخاری ، کتاب المناقب، باب خاتم النبیّین)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسیایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب احسین و جمیل بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی تھی۔ لوگ اس عمارت کے گرد پھرے اور اس کی خونی پر اظہارِ حیرت کرتے تھے ، مگر کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں (یعنی میرے آنے پر نبوت کی عمرت مکمل ہوچکی ہے، اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے جسے پُر کرنے کے لیے کوئی آئے)
اسی مضمون کی چار حدیثیں مسلم، کتاب الفضائل ، باب خاتم النبیین میں ہیں اور آخری حدیث میں یہ الفاظ زائد ہیں: فَجِعْتُ فَختمت الانبیاء، ’’پس میں آیا اور انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا۔‘‘
یہی حدیث انہی الفاظ میں ترمذی، کتاب المناقب، باب فضل النبی، اور کتاب الآداب، باب الامثال میں ہے۔
مُسند ابو داوٗد وطَیا لِسی میں یہ حدیث جابر بن عبداللہ کی روایت کردہ احادیث کے سلسلے میں آئی ہے اوراس کے آخری الفاظ یہ ہیں:ختم بی الانبیاء، ’’ میرے ذریعہ سے انبیاء کا سلسلہ ختم کیا گیا۔‘‘
مُسند احمد میں تھوڑے تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ اس مضمون کی احادیث اُبَیّ بن کعب رضی اللہ عنہ ، ابو سعد خُدرِی رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی گئی ہیں۔
۳)۔ ان رسو ل اللہ صلی اللہ وسلم قال فُضِّلْتُ علی الانبیَاء بستِّ، اعطیت جوامع الکلم، ونصرت بالرعب واُحلّت لی الغنائم وجعلت لیالارض مسجدًا و طھورًا ، واُرْسلتُالیالخلق کانۃ، وختم بی النبیّون۔ (مسلم ، ترمذی، ابن ماجہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے چھ باتوں میں انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے(۱) مجھے جامع ومختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی(۲)مجھے رعب کے ذریعہ سے نُصرت بخشی گئی(۳) میرے لیے اموالِ غنیمت حلال کیے گیے (۴)میرے لیے زمین کو مسجد بھی بنادیا گیا اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی (یعنی میری شریعت میں نما ز صرف مخصوص عبادت گاہوں میں ہی نہیں بلکہ روئے زمین پر ہر جگہ پڑھی جا سکتی ہے اور پانے نہ ملے تو میری شریعت میں تیمم کرکے وضو کے حاجت بھی پوری کی جاسکتی ہے اور غسل کی حاجت بھی) (۵)مجھے تمام دُنیا کے لیے رسول بنایا گیا(۶)اور میرے اوپر انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔
۵)۔ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم انا محمد ، وانا احمد وانا الماحیٰ الذی یحشر الناس علی عقبی، وانا العاقب الذی لیس بعدہ نبی ( بخاری و مسلم، کتاب الفضائل، باب اسماء النبی۔ ترمذی، کتاب الآداب، باب اسماء النبی ۔ مُوطّا ، کتاب اسماء النبی ۔ المستدرک للحاکم، کتاب التاریخ ، باب اسماء النبی)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہوں میں احمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہوں ۔ میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعہ سے کفر محو کیا جائے گا۔ میں حاشر ہوں کہ میرے بعد لوگ حشر میں جمع کیے جائیں گے(یعنی میرے بعد اب جس قیامت ہی آنی ہے) ۔ اور میں عاقب ہوں ، اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعلٍیّ انت منیّ بمنزلۃ ھارون من موسیٰ ، الا انہ لانبی بعدی (بخاری و مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہے جو موسٰی علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام کی تھی ، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
بخاری و مسلم نے یہ حدیث غَزوۂ تَبوک کے ذکر میں بھی نقل کی ہے۔ مُسند احمد میں اس مضمون کی دو حدیثیں سعد بن ابی وقاص سے روایت کی گئی ہیں جب میں سے ایک کا آخری فقرہ یوں ہے : الا انہ لا نبوۃ بعدی، ’’مگرمیرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔‘‘ ابو داوٗد و طیالِسی، امام احمد اور محمد بن اسحاق نے اس سلسلے میں جو تفصیلی روایات تقل کی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوۂ تبوک کے لیے تشریف لے جاتے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ طیّبہ کی حفاظت و نگرانی کے لیے اپنے پیچھے چھوڑنے کا فیصلہ فرمایا تھا ۔ منافقین نے اس پر طرح طرح کی باتین ان کے بارے میں کہنی شرع کردیں انہوں نے جاکر نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے عرض کیا: ’’ یا رسول اللہ، کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جارہے ہیں‘‘؟ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ تم میرے ساتھ وہی نسب رکھتے ہو جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام رکھتے تھے‘‘ ۔ یعنی جس طرح موسیٰ علیہ السلامنے کوہِ طور پر جاتے ہوئے ہارون علیہ السلام کو بنی اسرئیل کی نگرانی کے لیے پیچھے چھوڑا تھا اسی طرح میں تم کو مدینے کی حفاظت کے لیے چھوڑ ے جارہا ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ہی نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اندیشہ ہوا کہ ہارون علیہ السلام کے ساتھ یہ تشبیہ کہیں بعد میں کسی فتنے کی موجب نہ بن جائے، اس لیے فوراًآپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یہ تصریح فرمادی کہ میرے بعد کوئی شخص نبی ہونے والا نہیں ہے۔
کان فیمن کان قلبکم من بنی اسرائیل رجال یُکلَّمون من غیران یکو نو اانبیاء فان یکن من امتی احد بعمر۔ (بخاری، کتاب المناقب)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلے جو بنی اسرائیل گزرے ہیں ان میں ایسے لوگ ہوئے ہیں جن سے کلام کیا جاتا تھا بغیر اس کے کہ وہ نبی ہوں۔ میری امت میں اگر کوئی ہوا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہوں گے۔
ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔۔۔اور یہ کہ میری امت میں تیس کذَّاب ہوں گے جن میں سے ہر ایک بنی ہونے کا دعویٰ کرے گا، حالاں کہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اسی مضمون کی ایک اور حدیث ابو داوٗد نے کتاب الملاحم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ ترمذی نے بھی ثوبان اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ دونوںروایتیں نقل کی ہیں اور دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں : حتی یبعث دجالون کذابون قریب من ثلا ثین کلھم یزعم انہ رسول اللہ،’’ یہاں تک کہ اُٹھیں گے تیس کے قریب جھوٹے فرینی جن میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا وہ اللہ کا رسول ہے۔‘‘
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بانی اٰخر الانبیاء وان مساجد۔(مسلم، کتاب الحج، باب فضل الصلوٰۃ بمسجد مکہ والمدینۃ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد (یعنی مسجدِ نبوی) ہے۔ ( منکرینِ ختم نبوت اس حدیث سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنی مسجد کو آخرُ المساجد فرمایا، حالانکہ وہ آخری مسجد نہیں ہے بلکہ اس کے بعد بھی بے شمار مسجدیں دُنیا میں بنی ہیں، اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا کہ میں آخر الانبیاء ہوں تو اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بعد نبی آتے رہیں گے، البتہ فضیلت کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مسجد آخری مسجد ہے۔ لیکن درحقیقت اسی طرح کی تاویلیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ لوگ اللہ اور رسول کے کلام کو سمجھنے کی اہلیت سے محروم ہوچکے ہیں ۔ صحیح مسلم کے جس مقام پر یہ حدیث واردہوئی ہے اس کے سلسلے کی تمام احادیث کو ایک نظر ہی آدمی دیکھ لے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مسجد کس میں فرمایاہے۔ اس مقام پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ،اور امّ المومنین میمونہ رضی اللہ عنہ ، کے حوالہ سے جو روایات امام مسلم نے نقل کی ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ دُنیامیں صرف تین مساجد ایسی ہیں جن کو عام مساجد پر فضیلت حاصل ہے، جن میں نماز پڑھنا دوسری مساجد میں نماز پڑھنے سے ہزار گنا زیادہ ثواب رکھتا ہے۔ اور اسے بنا پر صرف انہی تین مسجدوں میں نماز پڑھنے کے لیے سفر کرکے جانا جائز ہے، باقی کسی مسجد کا یہ حق نہیں ہے کہ آدمی دوسری مسجدوں کو چھوڑ کر خاص طور پر اُس میں نماز پڑھنے کے لیے سفر کرے۔ ان میں سے پہلے مسجدالحرام ہے جسے ابراہیم علیہ السلام نے بنایا تھا۔ دوسرے مسجد ، مسجد اقصیٰ ہے جسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا۔ اور تیسری مسجد ، مدینۂطیّبہ کی مسجد نبوی ہے جس کی بنیاد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی ۔ ارشاد کا منشا یہ ہے کہ اب چونکہ میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، اس لیے میری اس مسجد کے بعد دُنیا میں کوئی چوتھی مسجدایسی بننے والی نہیں ہے جس میں نماز پڑھنے کاثواب دوسری مسجدوں سے زیادہ ہو اور جس کی طرف نمازکی غرض سے سفر کرکی جانا درست ہو۔
یہ احادیث بکثرت صحابہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہیں اور بکثرت محدثین نے ان کو بہت سی قوی سندوں سے نقل کیا ہے۔ ان کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر، مختلف طریقوں سے، مختلف الفاظ میں اس امر کی تصریح فرمائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم آخری نبی ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، نبوت کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر ختم ہو چکا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بعد جو بھی رسول یا نبی ہونے کا دعویٰ کریں وہ دجال و کذّاب ہیں۔ قرآن کے الفاظ ’’ خاتم النبیین‘‘ کی اس کے زیادہ متند و معتبر اور قطعی الثبوت تشریح اور کیا ہوسکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد توبجائے خود سند و حجت ہے۔ مگر جب وہ قرآن کی ایک نص کی شرح کررہا ہوتب تو وہ اور بھی زیادہ قوی حجّت بن جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر قرآن کو سمجھنے والا اور اس کی تفسیر کا حق دار اور کون ہوسکتا ہے کہ وہ ختمِ نبوت کا کوئی دوسرا مجہوم بیان کرے اور ہم اسے قبول کرنا کیا قابل التفات بھی سمجھیں؟
ختم نبوت اسلام کے بنیادی عقیدوں میں سے ایک عقیدہ ہے۔ اسلام میںکوئی ظلی یا بروزی نبوت کا تصور موجود نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث ختم نبوت کی زبردست دلیل ہیں مثلا فرمایا "لا نبی بعدی" میرے بعد کوئی نبی نہیں"۔
حصہ اول
ختم نبوّت کے بَارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات
قرآن کے سیاق و سباق اور لغت کے لحاظ سے اس لفظ کا جو مفہوم ہے اسی کی تائید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات کرتی ہیں ۔ مثال کے طور پر چند صحیح ترین احادیث ہم یہاں نقل کرتے ہیں:
۱)۔قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کانت بنو اسرائیل تسو سھم الانبیاء۔ کلماھلک نبی خلفہ نبی، وانہ لا نبی بعد ی وسیکو زخلفاء (بخاری ، کتاب المناقب، باب ماذکر عن بنی اسرئیل)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرئیل کی قیا دت انبیاء کیا کرتے تھے ۔ جب کوئی نبی مرجاتا تو دوسرا نبی اس کا جا نشین ہوتا ۔ مگر میری بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ بلکہ خلفاء ہوں گے۔
۲)۔قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان مثلی و مثل الا نبیائمن قبلی کمثل رجل بنیٰ بیتًا فا حسنہ واجملہ الّا مو ضع لبنۃ من زاویۃٍفھعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون ھلّا وُ ضِعَتْ ھٰذہ اللبنۃ،فانا اللبنۃ۔وانا خاتم النبیّین (بخاری ، کتاب المناقب، باب خاتم النبیّین)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسیایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب احسین و جمیل بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی تھی۔ لوگ اس عمارت کے گرد پھرے اور اس کی خونی پر اظہارِ حیرت کرتے تھے ، مگر کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں (یعنی میرے آنے پر نبوت کی عمرت مکمل ہوچکی ہے، اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے جسے پُر کرنے کے لیے کوئی آئے)
اسی مضمون کی چار حدیثیں مسلم، کتاب الفضائل ، باب خاتم النبیین میں ہیں اور آخری حدیث میں یہ الفاظ زائد ہیں: فَجِعْتُ فَختمت الانبیاء، ’’پس میں آیا اور انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا۔‘‘
یہی حدیث انہی الفاظ میں ترمذی، کتاب المناقب، باب فضل النبی، اور کتاب الآداب، باب الامثال میں ہے۔
مُسند ابو داوٗد وطَیا لِسی میں یہ حدیث جابر بن عبداللہ کی روایت کردہ احادیث کے سلسلے میں آئی ہے اوراس کے آخری الفاظ یہ ہیں:ختم بی الانبیاء، ’’ میرے ذریعہ سے انبیاء کا سلسلہ ختم کیا گیا۔‘‘
مُسند احمد میں تھوڑے تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ اس مضمون کی احادیث اُبَیّ بن کعب رضی اللہ عنہ ، ابو سعد خُدرِی رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی گئی ہیں۔
۳)۔ ان رسو ل اللہ صلی اللہ وسلم قال فُضِّلْتُ علی الانبیَاء بستِّ، اعطیت جوامع الکلم، ونصرت بالرعب واُحلّت لی الغنائم وجعلت لیالارض مسجدًا و طھورًا ، واُرْسلتُالیالخلق کانۃ، وختم بی النبیّون۔ (مسلم ، ترمذی، ابن ماجہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے چھ باتوں میں انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے(۱) مجھے جامع ومختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی(۲)مجھے رعب کے ذریعہ سے نُصرت بخشی گئی(۳) میرے لیے اموالِ غنیمت حلال کیے گیے (۴)میرے لیے زمین کو مسجد بھی بنادیا گیا اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی (یعنی میری شریعت میں نما ز صرف مخصوص عبادت گاہوں میں ہی نہیں بلکہ روئے زمین پر ہر جگہ پڑھی جا سکتی ہے اور پانے نہ ملے تو میری شریعت میں تیمم کرکے وضو کے حاجت بھی پوری کی جاسکتی ہے اور غسل کی حاجت بھی) (۵)مجھے تمام دُنیا کے لیے رسول بنایا گیا(۶)اور میرے اوپر انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔
۵)۔ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم انا محمد ، وانا احمد وانا الماحیٰ الذی یحشر الناس علی عقبی، وانا العاقب الذی لیس بعدہ نبی ( بخاری و مسلم، کتاب الفضائل، باب اسماء النبی۔ ترمذی، کتاب الآداب، باب اسماء النبی ۔ مُوطّا ، کتاب اسماء النبی ۔ المستدرک للحاکم، کتاب التاریخ ، باب اسماء النبی)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہوں میں احمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہوں ۔ میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعہ سے کفر محو کیا جائے گا۔ میں حاشر ہوں کہ میرے بعد لوگ حشر میں جمع کیے جائیں گے(یعنی میرے بعد اب جس قیامت ہی آنی ہے) ۔ اور میں عاقب ہوں ، اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعلٍیّ انت منیّ بمنزلۃ ھارون من موسیٰ ، الا انہ لانبی بعدی (بخاری و مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہے جو موسٰی علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام کی تھی ، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
بخاری و مسلم نے یہ حدیث غَزوۂ تَبوک کے ذکر میں بھی نقل کی ہے۔ مُسند احمد میں اس مضمون کی دو حدیثیں سعد بن ابی وقاص سے روایت کی گئی ہیں جب میں سے ایک کا آخری فقرہ یوں ہے : الا انہ لا نبوۃ بعدی، ’’مگرمیرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔‘‘ ابو داوٗد و طیالِسی، امام احمد اور محمد بن اسحاق نے اس سلسلے میں جو تفصیلی روایات تقل کی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوۂ تبوک کے لیے تشریف لے جاتے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ طیّبہ کی حفاظت و نگرانی کے لیے اپنے پیچھے چھوڑنے کا فیصلہ فرمایا تھا ۔ منافقین نے اس پر طرح طرح کی باتین ان کے بارے میں کہنی شرع کردیں انہوں نے جاکر نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے عرض کیا: ’’ یا رسول اللہ، کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جارہے ہیں‘‘؟ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ تم میرے ساتھ وہی نسب رکھتے ہو جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام رکھتے تھے‘‘ ۔ یعنی جس طرح موسیٰ علیہ السلامنے کوہِ طور پر جاتے ہوئے ہارون علیہ السلام کو بنی اسرئیل کی نگرانی کے لیے پیچھے چھوڑا تھا اسی طرح میں تم کو مدینے کی حفاظت کے لیے چھوڑ ے جارہا ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ہی نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اندیشہ ہوا کہ ہارون علیہ السلام کے ساتھ یہ تشبیہ کہیں بعد میں کسی فتنے کی موجب نہ بن جائے، اس لیے فوراًآپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یہ تصریح فرمادی کہ میرے بعد کوئی شخص نبی ہونے والا نہیں ہے۔
کان فیمن کان قلبکم من بنی اسرائیل رجال یُکلَّمون من غیران یکو نو اانبیاء فان یکن من امتی احد بعمر۔ (بخاری، کتاب المناقب)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلے جو بنی اسرائیل گزرے ہیں ان میں ایسے لوگ ہوئے ہیں جن سے کلام کیا جاتا تھا بغیر اس کے کہ وہ نبی ہوں۔ میری امت میں اگر کوئی ہوا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہوں گے۔
ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔۔۔اور یہ کہ میری امت میں تیس کذَّاب ہوں گے جن میں سے ہر ایک بنی ہونے کا دعویٰ کرے گا، حالاں کہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اسی مضمون کی ایک اور حدیث ابو داوٗد نے کتاب الملاحم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ ترمذی نے بھی ثوبان اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ دونوںروایتیں نقل کی ہیں اور دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں : حتی یبعث دجالون کذابون قریب من ثلا ثین کلھم یزعم انہ رسول اللہ،’’ یہاں تک کہ اُٹھیں گے تیس کے قریب جھوٹے فرینی جن میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا وہ اللہ کا رسول ہے۔‘‘
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بانی اٰخر الانبیاء وان مساجد۔(مسلم، کتاب الحج، باب فضل الصلوٰۃ بمسجد مکہ والمدینۃ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد (یعنی مسجدِ نبوی) ہے۔ ( منکرینِ ختم نبوت اس حدیث سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنی مسجد کو آخرُ المساجد فرمایا، حالانکہ وہ آخری مسجد نہیں ہے بلکہ اس کے بعد بھی بے شمار مسجدیں دُنیا میں بنی ہیں، اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا کہ میں آخر الانبیاء ہوں تو اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بعد نبی آتے رہیں گے، البتہ فضیلت کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مسجد آخری مسجد ہے۔ لیکن درحقیقت اسی طرح کی تاویلیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ لوگ اللہ اور رسول کے کلام کو سمجھنے کی اہلیت سے محروم ہوچکے ہیں ۔ صحیح مسلم کے جس مقام پر یہ حدیث واردہوئی ہے اس کے سلسلے کی تمام احادیث کو ایک نظر ہی آدمی دیکھ لے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مسجد کس میں فرمایاہے۔ اس مقام پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ،اور امّ المومنین میمونہ رضی اللہ عنہ ، کے حوالہ سے جو روایات امام مسلم نے نقل کی ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ دُنیامیں صرف تین مساجد ایسی ہیں جن کو عام مساجد پر فضیلت حاصل ہے، جن میں نماز پڑھنا دوسری مساجد میں نماز پڑھنے سے ہزار گنا زیادہ ثواب رکھتا ہے۔ اور اسے بنا پر صرف انہی تین مسجدوں میں نماز پڑھنے کے لیے سفر کرکے جانا جائز ہے، باقی کسی مسجد کا یہ حق نہیں ہے کہ آدمی دوسری مسجدوں کو چھوڑ کر خاص طور پر اُس میں نماز پڑھنے کے لیے سفر کرے۔ ان میں سے پہلے مسجدالحرام ہے جسے ابراہیم علیہ السلام نے بنایا تھا۔ دوسرے مسجد ، مسجد اقصیٰ ہے جسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا۔ اور تیسری مسجد ، مدینۂطیّبہ کی مسجد نبوی ہے جس کی بنیاد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی ۔ ارشاد کا منشا یہ ہے کہ اب چونکہ میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، اس لیے میری اس مسجد کے بعد دُنیا میں کوئی چوتھی مسجدایسی بننے والی نہیں ہے جس میں نماز پڑھنے کاثواب دوسری مسجدوں سے زیادہ ہو اور جس کی طرف نمازکی غرض سے سفر کرکی جانا درست ہو۔
یہ احادیث بکثرت صحابہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہیں اور بکثرت محدثین نے ان کو بہت سی قوی سندوں سے نقل کیا ہے۔ ان کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر، مختلف طریقوں سے، مختلف الفاظ میں اس امر کی تصریح فرمائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم آخری نبی ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، نبوت کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر ختم ہو چکا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بعد جو بھی رسول یا نبی ہونے کا دعویٰ کریں وہ دجال و کذّاب ہیں۔ قرآن کے الفاظ ’’ خاتم النبیین‘‘ کی اس کے زیادہ متند و معتبر اور قطعی الثبوت تشریح اور کیا ہوسکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد توبجائے خود سند و حجت ہے۔ مگر جب وہ قرآن کی ایک نص کی شرح کررہا ہوتب تو وہ اور بھی زیادہ قوی حجّت بن جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر قرآن کو سمجھنے والا اور اس کی تفسیر کا حق دار اور کون ہوسکتا ہے کہ وہ ختمِ نبوت کا کوئی دوسرا مجہوم بیان کرے اور ہم اسے قبول کرنا کیا قابل التفات بھی سمجھیں؟