آیت : ومن یطع اللہ والرسول
سورہ النساء ٦٩
سورہ النساء ٦٩
قادیانی استدال :جو لوگ اطاعت کریں گے اللہ کی اور اس کا رسول کی پس وہ ان لوگوں میں شامل ہوجائیں گے جن پر اللہ نے انعام کیا مثَلاً نبی ،صدیق ، شہید اور صالح ..اس آیت میں بتایا گیا ہے کے آنحضرت کی پیروی سے ایک انسان صالحیت کے مقام سے ترقی کر کے نبوت تک کے مقام تک پہنچ سکتا ہے .
الجواب
اس آیت میں دنیا کے اندر نبوت وغیرہ کے مقام ملنے کا کوئی ذکر نہیں بلکہ یہ ہے کےجو شخص مومن ہے وہ اخرت مین انبییاء ، صدیق ، شہید اور صالح کے ساتھہ ہو گا چانچہ اگلے الفاظ " وحسن اولئک رفیقاً " رفاقت پر دال ہے اور آیت میں " مع " کا لفظ بھی ماجود ہے جس کے معنی ہیں ساتھہ ..خود مرزائی حضرات بھی مانتے ہیں کہ " مع " کے معنی ساتھہ کے بھی ہیں جیسا کا " ان اللہ المتقین " کے خدا نیک لوگوں کے ساتھہ ہے .
پس مطلب ظاہر ہے کے خود مرزائی محرف اس جگہ مع کے معنی ساتھہ نہ ہونے پر یہ عذر کرتا ہے کے پھر جب ساتھہ ہوۓ تو درجہ کوئی بھی نہ ملا نہ نبوت کا ، نہ صدیقیت کا نہ شہید کا وغیرہ
جواباً گزارش ہے کے اس آیت میں درجات ملنے کا ذکر نہیں اور نہ ان درجات کی نفی ہے یہاں تو صرف قیامت میں نیک رفاقت کی خوشخبری ہے مگر جہاں درجات دینوی کا ذکر ہے وہاں نبوت کا کوئی ذکر نہیں باقی سب درجات مذکور ہیں.
والذین امنو وعملو الصلخت لند خلنھم فی الصالحین (سورۂ عنکبوت )
وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے وہ صالحین میں داخل کیے جایں گئے
اسی طرح سورۂ حدید میں ہے کے جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہ صدیق ہیں شہید ہیں اور مرزائی خود مانتے ہیں کے سورۂ حدید میں صرف صدیقیت اور شہادت کے مقام تک پہنچنے کا ہی ذکر ہے اس سے آگے نہیں . مگر وہاں دوسری تحریف کی ہے کے یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابعداروں کے متلعق نہیں بلکہ پچھلے نبیوں کے متبیں کے بارے میں ہے .
اس کے جواب میں میں وہ آیت پیش کر دیتا ہوں اور جملہ مرزائیوں کو چیلنج دیتا ہوں کے وہ اس آیت پر انگلی رکھے جس میں یہ تخصیص مذکور ہے
خدا فرماتا ہے .
سورۂ حدید رکوع ٢ میں .لاریب جو مرد و عورتیں خیرات کرنے والے ہیں یہ خیرات گویا ان کی قرض ہے جو اللہ تعالیٰ کو دے رہے ہیں اور خدا ان کو دوگنا دے گا اس کا عوض بلکہ اس سے زائدہ اجر عظیم ان کو ملے گا جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاے وہ خدا کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ان کے لیا انکا اجر اور نور مقرر ہے اور جو لوگ کافر ہوے اور ہماری آیتوں کو انہوں نے جھٹلایا وہی ہیں جہنم میں جانے والے .اے لوگو جان لو کہ سوا اس کے کچھ نہیں یہ دنیا کا جینا صرف کھیل تماشہ ہے اسے چھوڑ دو اور اللہ کی رحمت و مغفرت کی طرف دوڑو اور اس کی جنت کی طرف بھاگو .جس کی وسعت زمین و آسمان کی مانند ہے جس کی حد تم نہیں جان سکتے یہ جنت انہی لوگو کے حصے میں
جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاے یہ اللہ کا فضل ہے اللہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور خدا بڑے فضل کا مالک ہے
اسی طرح سورۂ حجرات کے آخر میں محاربین فی سبیل اللہ کو " اولئک ھم الصدیقوں " کا خطاب و لقب عطا ہو چکا ہے اور دیگر بہت سی آیات میں شہدا کے فضائل مجود ہیں .
حاصل یہ کہ آیت مذکورہ میں جو انبیاء و شہدا وغیرہ سے جو رفاقت کا ذکر ہے اس میں درجات ملنے کا تذکرہ نہیں جیسا کے مرزمائی محرف دجالوں کی نبوت ثابت کرنے کو کہتے ہیں
اس آیت میں عطا نبوت نہ ہونے پر یہ بھی دلیل ہے کے یہ وعدہ جملہ مومنین سے ہے اور صحابہ اکرام سے بڑھ کر کون مومن ہو سکتا ہے جن کی تعریف قران میں مجود ہے کیا ان کے ساتھہ یہ وعدہ پورا ہوا ؟
پھر ان کے بعد تابعین، تبع تبعین، آئمہ، مجتہدین ، فقہاے اکرام اور محدثین رحمتہ اللہ علیھم غرض کروڑ ہا صالحہ ، اتقیا امت محمدی میں آئے کیا ان میں سے کوئی بھی خدا اور رسول کا کامل تابعدار نہ ہو سکا اگر تھا اور ضرور تھا پھر ان کے ساتھہ یہ وعدہ الہی کیوں نہ پورا ہوا ؟ سوا اس کے اس کا اور کیا مطلب ہے اس میں ہر گز ہر گز مقام نبوت ملنے نہ ملنے کا ذکر ہی نہیں .
اس میں لفظ " من" عورت اور مرد دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جب کے عورتیں بھی نماز میں " اھدنا الصراط المستقیم صرط الذین انعمت علیہم " پڑھتی ہیں تو ان میں سے کیوں کوئی نبیہ نہ ہوئی ان کو کس وجہ سے محروم کر دیا گیا اگر مرزائی کہیں گئے کے پہلے بھی کوئی عورت نبی نہیں ہوئی اب بھی نہیں ہو سکتی اس کا جواب یہ ہے کے چونکہ پہلے کسی نبی کی تابعداری سے کوئی شخص نبی نہیں بنا بلکہ براہ راست بغیر تابعداری کسی نبی کے ہوتے رہیں ہیں لہذا اب بھی کوئی آدمی کسی نبی کی تابعداری سے نبوت نہیں حاصل نہیں کر سکتا ..
حدیث ہے کے " التجار الصدوق الامین مع النبین والصدیقین والشہدا " .سچا امانت دار نبیوں اور صدیقوں اور شہدا کے ساتھہ ہو گا
مرزائی طرزاستدلال سے تاجر بھی نبی ہو سکتے ہیں آج تک کتنے تاجروں نے تجارت کی وجہ سے نبوت حاصل کی ؟ ؟
اعتراض : یہ رفاقت کیا ہوتی ہے
جواب :
آیت کا مطلب ہے کے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ہر فرنمبردار کو نبیوں ، صدیقوں اور شہدا کی معیت کی رفاقت بخشے گا جیسا کے آیت مذکورہ میں آخر خود صراحت فرما دی وحسن اولئک رفیقاً یہ معیت مخض رفاقت ہے لغیر اور یہ قیامت کے روز ہو گی جیسا کے دیگر احادیث میں بتصریح مذکور ہے
مسند احمد میں ہے
" عن معاذ ابن انس قال قال النبی صلی الله علیہ وسلم من قرء الف ایۃ فی سبیل الله کتب یوم القیمہ مع النبین والصدیق والشہدا و الصالحین " یعنی جو شخص فی سبیل اللہ ایک ہزار آیتیں پڑھا کرے قیامت کے دن اسے نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالحین کی معیت ورفاقت نصیب ہو گی ..
اعتراض : مع بمعنی من بھی ہو سکتے ہیں
جواب :
کلام عرب میں مع بمعنی من مستعمل نہیں ہوتا اور ان آیتوں میں مع بمعنی من جو ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں اس لئے اگر مع بمعنی من اتا تو مع پر من دخل نہ ہوتا حالنکہ کلام عرب میں اس کا ثبوت ملتا ہے لغت کی مشہور کتاب مصباح منیر میں مع کے بیان میں ہے کے " ودخول من علیه نحو جئت من معھ " (میں اس کے ساتھہ آیا ) یعنی عرب جئت من القوم بولتے ہیں پس مع پر من کا دخل ہونا مشعر ہے کو خود مع کبھی من کے معنی نہیں ہوتا
اب مرزائی کی دلیل والی آیات ملاخط ہوں
شیطان کے مطلق سورۂ حجر میں وارد ہے ابی ان یکون مع السلجدیں (پ ١٤ ) اور سورۂ اعراف میں ہے لم یکن من السلجیں (پ ٨ ) دیکھو دونوں جگہ لفظ ساجد آیا ہےلیکن دوسری آیت میں بجاے مع کے من ہے پس ثابت ہوا مع بمنی من ہو سکتا ہے
جواب :
اگر یہ استدلال صحیح ہے تو خطرہ ہے کے کوئی مجنوں یہ نہ کہہ دے سورۂ ص میں آیا ہے کنت من العالین(پ ٢٣ ) کیونکہ اس آیت میں بجاے "ساجدین " کے "عالین "ہے پس ثابت ہوا کے ساجدین بمعنی عالین بھی ہو سکتا ہے استغفراللہ
قرآن مجید عربی زبان میں ہے اس کے متکلم کا اسلوب بیان عجیب و دل نشین ہے ایک ہی واقعہ متعدد مقامات میں بیان ہوتا ہے لیکن طریق بیان مختلف ہوتا ہے جس میں متکلم کی خاص غرض اور حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ابلیس مردود نے ایک گناہ میں تین جرم کیہ تھے (١ ) اس نے تکبر کیا تھا اس کا ذکر سورۂ ص کی آیت کنت من العالین میں کیا گیا ہے (٢ ) اس نے الله کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی اس کا ذکر سورۂ اعراف کی آیت لم یکن من السلجیں میں کیا گیا ہے (٣) اس نے جماعت سے مفارقت کی تھی اس کا بیان آیت سورۂ حجر میں وارد ہے ابی ان یکون مع السلجدیں(تفسیر فتح البیان ) پس مع ہر گز من کے معنی نہیں ہے بلکہ دونوں کے فائدے الگ الگ اور جدا گانہ امر کے بیان کے لئے آے ہیں ..
مرزائی عذر :
منافقین کی توبہ کی بابت سورۂ النساء میں مذکور ہے " الا الذین تابوا فا اولیک مع المومنین " کیا یہ توبہ کرنے والے خود مومن نہیں ہیں بلکہ مومنوں کے "ساتھہ " ہے بلکہ وہ مومنوں سے ہیں پس ثابت ہوا کے مع بمنی من آتا ہے
جواب :
بات یہ ہے کے المومنین پر الف لام عہد کا ہے اس سے مرد وہ لوگ ہے جو شروع سے ہی خالص مومن ہیں کبھی ان سے انفاق سرزد نہیں ہوا ان کی معیت میں وہ لوگ جنت میں ہوں گے جو پہلے منافق تھے پھر توبہ کر کے مخلص مومن بنے تفسیر ابن جریر میں ہے "یدخل مع المومنین محل الکرامت یسکنھم معھم مساکنھم فی الجنتھ" یعنی اللہ داخل کرے گا ان تابعین کو خالص مومنوں کے ساتھہ جنت میں ان کے مسکنوں میں ، فتح البیان میں ہے " اولئک مصاحبوں للمومنین " اور مدارک اور کشاف میں ہے " فھم اصحاب المؤمنین ورفاقھم" یعنی یہ تابعین لوگ مومنوں کی صحبت اور رفاقت میں ہوں گے معلوم ہوا کے مع اپنے اصل مصاحجت کے لیے آیا ہے نہ بمنی من ..
مرزائی عذر :
وتوفنا مع الابرار (پ ٤ ال عمران) میں اگر مع کو من کے معنی میں نہ لو گے تو آیت کا یہ مطلب ہو گا جب نیکوں کی جان نکلے تو ان کے ساتھہ یا اللہ ہماری جان بھی لینا " وہو کما تری " حالانکہ اس کا مطلب یہ ہے کے ہم کو نیک بناکر مار ہم کو نیکوں سے کر پس ثابت ہوا کے مع بمعنی من ہے
جواب :
اس کا جواب امام رازی نے خوب دیا ہے
" وفاتھم معھم ھی ان یمو توا علی مثلھم اعمالهم حتی یکونوا فی درجتھم یوم القیمتھ قد یقول الرجل انا مع الشافعی فی ھذا المسلۃ و یریدبھ کونھ مساویآلھ فی ذلک الاعتقا" (کبیر )
یعنی ابرار کے ساتھہ وفات کے یہ معنی ہیں کے ان کے عملوں جیسے عمل پر موت آے تاکہ روز قیامت ان کے سے درجوں میں ہوں مرد عالم آج بھی بولتا ہے کے اس مسلے میں امام شافعی کے ساتھہ ہوں اور اس سے مطلب یہ ہوتا ہے کے میرا اور ان کا عقیدہ ایک ہے (نہ یہ کے میں ان کے ساتھہ پیدا ہوا یا بڑھتا رہا ) اس لیا جملہ محققین مفسرین نے مع کو یہاں مساحجت کے لیا تحریر کیا ہے بیضاوی، مدراک، کشاف سراج المنیر اور ابو السعود میں ہے مخصوصین بصحبتھم ابن جریر لکھتے ہیں ای احشرنا محشرھم و معھم ابن کثیر فرماتے ہیں ای الحقنا بالصالحین جمل میں ہے کے محشورین مع الا برار خلاصہ مطلب یہ ہے کے الله ہمارا حشر ان نیک لوگوں کی صحبت اور معیت میں کیجیو .
پس ثابت ہوا کے یہاں بھی مع بمنے من نہیں ہے ...
الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی رسول نہیں بنایا جائے گا قران پاک پکار پکار کر کہتا ہے کے :
ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول الله و خاتم النبین یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ختم کرنے والا نبیوں کا