سوال ۷ … حضرت مہدی و مسیح علیہم السلام کی آمد اور دجال کے خروج کے متعلق اسلامی نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے قادیانی تلبیس اور اس کا رد کریں۔
جواب …
مہدی علیہ الرضوان
آنحضرتﷺ کی احادیث کی روشنی میں سیدنا مہدی علیہ الرضوان کے ظہور کی مندرجہ ذیل شناخت بیان کی گئی ہیں:
اس ذیل میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کا رسالہ ’’ الخلیفۃ المہدی فی الاحادیث الصحیحہ ‘‘ اور محدث کبیر مولانا بدر عالم میرٹھی ؒ کا رسالہ ’’الامام المہدی‘‘(ترجمان السنۃ ج ۴ مشمولہ احتساب قادیانیت جلد چہارم) میں قابل دید ہیں۔
حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور اس کی نشانیاں
چنانچہ علامہ شوکانی لکھتے ہیں:
’’ فتقرران الاحادیث الواردۃ فی المہدی المنتظر متواترۃ والاحادیث الواردۃ فی نزول عیسیٰ بن مریم متواترۃ ‘‘
(الاذاعہ ص ۷۷)
ترجمہ: ’’چنانچہ یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ مہدی منتظر کے بارے میں وارد شدہ احادیث بھی متواتر ہیں اور حضرت عیسیٰ بن مریم کے بارے میں وارد شدہ احادیث بھی متواتر ہیں۔ ‘‘
اور حافظ عسقلانیؒ فرماتے ہیں:
’’ قال ابو الحسن الخسعی الابدی فی مناقب الشافعی! تواترت الاخبار بان المہدی من ھذہ الامۃ وان عیسیٰ یصلی خلفہ ذکر ذلک رد اللحدیث الذی اخرجہ ابن ماجہ عن انس و فیہ ولا مہدی الاعیسی ‘‘
(فتح الباری ج۶ ص۳۵۸)
ترجمہ:’’ابوالحسن خسعی ابدیؒ نے مناقب شافعی میں لکھا ہے کہ احادیث اس بارے میں متواتر ہیں کہ مہدی اسی امت میں سے ہوں گے اور یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام مہدی کے پیچھے نماز پڑھیں گے ابوالحسن خسعی نے یہ بات اس لئے ذکر فرمائی ہے۔ تاکہ اس حدیث کا رد ہوجائے جو ابن ماجہ نے حضرت انس ؓسے روایت کی ہے۔ جس میں آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ ہی مہدی ہیں۔‘‘
حافظ عسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ نے جن احادیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے:
’’ عن جابر بن عبداﷲ قال قال سمعت رسول اﷲﷺ یقول لا تزال طائفۃ من امتی یقاتلون علی الحق ظاھرین الی یوم القیامۃ قال فینزل عیسیٰ بن مریم فیقول امیرھم تعال صل لنا فیقول لا: ان بعضکم علی بعض امراء تکرمۃ اﷲ ھذہ الامۃ ‘‘
(مسلم ج ۱ ص ۸۷، باب نزول عیسیٰ ابن مریم ، احمد ج۳ ص۳۴۵)
ترجمہ: ’’حضرت جابر عبداﷲؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت میں ایک جماعت ہمیشہ حق کے مقابلہ میںجنگ کرتی رہے گی۔ دشمنوں پر غالب رہے گی۔ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا آخر میں عیسیٰ ابن مریم اتریں گے۔ (نماز کا وقت ہوگا) مسلمانوں کا امیر ان سے عرض کرے گا۔ تشریف لایئے اور نماز پڑھادیجئے وہ فرمائیں گے: یہ نہیں ہوسکتا۔ اس امت کا اﷲتعالیٰ کی طرف سے یہ اکرام و اعزاز ہے کہ تم خود ہی ایک دوسرے کے امام و امیر ہو۔‘‘
اس حدیث سے جہاں ایک جانب یہ ثابت ہوا کہ حضرت امام مہدی علیہ الرضوان اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام الگ الگ مقدس ہستیاں ہیں۔ دوسری جانب اس سے امت محمدیہﷺ کی کرامت و شرافت عظمیٰ بھی ثابت ہوتی ہے کہ قرب قیامت تک اس امت میں ایسے برگزیدہ افراد موجود رہیں گے کہ اسرائیلی سلسلہ کا ایک مقدس رسول آکر بھی اس کی امامت کی حیثیت کو برقرار رکھ کر ان کے پیچھے نماز ادا فرمائیں گے۔ جو اس بات کا صاف اعلان ہے کہ جس شرافت اور کرامت کے مقام پر تم پہلے فائز تھے آج بھی ہو۔ یہ واقعہ بالکل اس قسم کا ہے جیسا کہ مرض الوفات میں آنحضرتﷺ نے ایک وقت کی نماز حضرت ابوبکر صدیقؓ کی اقتداء میں ادا فرماکر امت کو گویا صریح ہدایت دے دی کہ میرے بعد امامت و اقتداء کی پوری صلاحیت ابوبکر صدیقؓ میں موجود ہے۔
سیدنا مسیح علیہ السلام اور سیدنا مہدی علیہ الرضوان کے متعلق احادیث کی روشنی میں بیان کردہ علامات دیکھنی ہوں تو ’’ التصریح بما تواتر فی نزول المسیح ‘‘ کے آخر میں علامات قیامت اور نزول مسیح (مترجم مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی) اور حضرت مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع ؒ کا رسالہ ’’ مسیح موعود کی پہچان ‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
حضرت مسیح علیہ السلام، حضرت مہدی علیہ الرضوان اور دجال لعین کے متعلق مرزا قادیانی خود تسلیم کرتا ہے کہ یہ تین شخصیات ہیں:
’’اس لئے ماننا پڑا کہ مسیح موعود اور مہدی اور دجال تینوںمشرق میں ہی ظاہر ہوں گے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص ۴۷، خزائن ج۱۷ ص ۱۶۷)
تینوں مشرق میں ہوں گے۔ یہ تو قادیانی دجل کا شاہکار ہے۔ البتہ اتنی بات مرزا قادیانی کے اس حوالہ سے ثابت ہے کہ یہ تین شخصیات (سیدنامسیح، سیدنا مہدی اور دجال) علیحدہ علیحدہ ہیں۔
قادیانی مؤقف
لیکن! قادیانی جماعت کی بدنصیبی اور ایمان سے محرومی دیکھئے۔ ان کا مؤقف ہے کہ مسیح علیہ السلام اور مہدی ایک شخصیت ہے اور وہ مرزا قادیانی ہے۔ حالانکہ مسیح علیہ السلام اور مہدی علیہ الرضوان دو علیحدہ علیحدہ شخصیات ہیں۔ ان کے نام، کام، جائے پیدائش، جائے نزول، وقت ظہور، مدت قیام، عمر، دونوں علیحدہ تفصیلات کے ساتھ آنحضرتﷺ سے منقول ہیں۔ لیکن قادیانی دجال اور اس کی جماعت کے دجل کو دیکھو سینکڑوں احادیث صحیحہ و متواترہ کو چھوڑ کر ایک جھوٹی و وضعی روایت سے اپنا عقیدہ ثابت کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں۔
دیکھئے مرزا نے کہا:
’’ ایھا الناس انی انا المسیح المحمدی وانی انا احمد المھدی ‘‘
(خطبہ الہامیہ خزائن ص ۶۱ ج۱۶)
ترجمہ: ’’اے لوگو! میں وہ مسیح ہوں کہ جو محمدی سلسلہ میں ہے اور میں احمد مہدی ہوں۔‘‘
قاضی محمد نذیر قادیانی لکھتا ہے:
’’امام مہدی اور مسیح موعود ایک ہی شخص ہے۔‘‘
(امام مہدی کا ظہور ص ۱۶)
قادیانی مغالطہ(لا المہدی الا عیسیٰ بن مریم):
قادیانی گروہ دلیل میں ابن ماجہ کی روایت پیش کرتا ہے: ’’ لا المہدی الا عیسیٰ بن مریم ‘‘
(ابن ماجہ ص ۲۹۲ باب شدۃ الزمان)
یہی قاضی محمد نذیر اس حدیث کے متعلق لکھتا ہے: ’’اس حدیث نے ناطق فیصلہ دے دیا ہے کہ عیسیٰ بن مریم ہی المہدی ہے اور اس کے علاوہ کوئی ’’المہدی ‘‘نہیں ہے۔‘‘
یہ حدیث اولاً تو ضعیف ہے، ثانیاً اس کا مطلب وہ نہیں جو قادیانی سمجھاتے ہیں۔
ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں:
’’ حدیث لا مہدی الا عیسی بن مریم ضعیف باتفاق المحدثین کما صرح بہ الجزری علی انہ من باب لافتیٰ الا علیؓ ‘‘
(مرقاۃ ص۱۸۳ ج۱۰)
ترجمہ: ’’حدیث لامہدی عیسیٰ بن مریم باتفاق محدثین ضعیف ہے جیسا کہ ابن جزریؒ نے اس کی صراحت کی ہے۔ علاوہ ازیں یہ ’’لا فتی الاعلیؓ‘‘ کے قبیل سے ہے‘‘۔
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی درجہ میں حدیث کو صحیح مان لیا جائے تو اس کا وہی مطلب ہے۔ جو لافتی الاعلیؓ کا ہے۔ یعنی مہدی صفت کا صیغہ ہے اور اس کے لغوی معنی مراد ہیں اور یہ بتایا گیا ہے کہ اعلیٰ درجہ کے ہدایت یافتہ عیسیٰ بن مریم ہی ہیں۔ بطور حصر اضافی جیسے ’’ لافتی الاعلیؓ ‘‘ کے معنی اعلیٰ درجہ کے جوان اور بہادر حضرت علیؓ ہی ہیں۔
یہ مطلب لیناغلط ہے کہ جس شخصیت کا نام مہدی ہے۔ وہ عیسیٰ بن مریم ہی کی شخصیت ہے۔ خود مرزا قادیانی ایک اصول لکھتے ہیں:
’’جس حالت میں تقریباً کل حدیثیں قرآن شریف کے مطابق ہیں۔ پھر اگر بطور شاذ و نادر کوئی ایسی حدیث بھی موجود ہو۔ جو اس مجموعۂ یقینیہ کے مخالف ہو، تو ہم ایسی حدیث کو یا تو نصوص سے خارج کریں گے اور یا اس کی تاویل کرنی پڑے گی۔ کیونکہ یہ تو ممکن نہیں کہ ایک ضعیف اور شاذ حدیث سے وہ مستحکم عمارت گرادی جائے۔ جس کو نصوص بینہ فرقانیہ و حدیثیہ نے طیار کیا ہو۔‘‘
(ازالہ اوہام ص ۵۴۵، خزائن ج۳ص۳۹۳)
اس اصول کی روشنی میں دیکھئے۔ مرزائیوں کی پیش کردہ ابن ماجہ کی روایت کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟
اس لئے کہ نزول عیسیٰ کی مذکورہ بالا روایات صحیحہ متواترہ سے صاف طور پر ثابت ہوچکا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے۔ نہ یہ کہ وہ دنیا میں کسی خاندان میں پیدا ہوں گے۔ جبکہ حضرت امام مہدی علیہ الرضوان کے بارے میں حدیث ہے:
۱… ’’ سمعت رسول اﷲﷺ یقول المہدی من عترتی من ولد فاطمۃ ‘‘
(ابوداؤد ص ۱۳۱ ج۲ کتاب المہدی)
ترجمہ: ’’حضورﷺ نے فرمایا کہ مہدی میری عترت سے ہوگا۔ یعنی حضرت فاطمہؓ کی اولاد سے۔‘‘
۲… ’’ یواطی اسمہ اسمی واسم ابیہ اسم ابی ‘‘
(ابوداؤد ج۲ ص۱۳۱،کتاب المہدی)
ترجمہ: ’’جو میرا نام ہے وہی اس کا نام ہوگا۔ جو میرے باپ کا نام ہے۔ وہی اس کے باپ کا نام ہوگا۔‘‘
اور حدیث مندرجہ ذیل نے معاملہ بالکل منقح کردیا ہے۔
۳… ’’ کیف تھلک امۃ انا اولھا والمھدی وسطھا والمسیح اٰخرھا ‘‘
(مشکوٰۃ ص ۵۸۳، باب ثواب ہذہ الامۃ)
ترجمہ: ’’وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کی ابتداء میں۔ میں (آنحضرتﷺ) ہوں۔ درمیان میں مہدی، اور آخر میں مسیح علیہ السلام ہیں۔‘‘
یہ حدیث اس مسئلہ میں ببانگ دہل اعلان کررہی ہے کہ مرزا قادیانی کا مؤقف صراحتاً دجل و کذب کا شاہکار ہے۔ لیکن بے بصیرت و بے بصارت قادیانی گروہ کو یہ صاف صاف روایتیں بھی نظر نہیں آتیں اور پوری بے شرمی کے ساتھ مسیح و مہدی کے ایک ہونے کی رٹ لگاتا رہتا ہے۔ حالانکہ دونوں کے بارے میں روایات الگ الگ اور متواتر آئی ہیں۔
دجال:
۱… رہا دجال کے متعلق قادیانی مؤقف، تو وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا رہا۔ پہلے کہا کہ اس سے مراد پادری ہیں۔ اس پر سوال ہوا کہ آنحضرتﷺ سے حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ ایک دن آنحضرتﷺ تشریف لائے۔ میں رو رہی تھی۔ آپﷺ نے رونے کی وجہ دریافت فرمائی۔ میں نے عرض کیا کہ دجال کے بارہ میں آپﷺ نے تفصیلات بیان فرمائی: میں سن کر پریشان ہوگئی۔ اب خیال آتے ہی فوراً رونا آگیا۔، آپﷺ نے فرمایا کہ :میں موجود ہوا اور وہ آگیا تو تمہاری طرف سے میں کافی ہوں۔ اگر میری زندگی میں نہ آیا تو جو شخص سورئہ کہف کی آخری آیات پڑھتا رہے وہ اس سے محفوظ رہے گا۔ اگر پادری ہی دجال تھے۔ وہ تو حضور علیہ السلام کے زمانہ میں بھی موجود تھے۔ پھر حضور اقدسﷺ کے فرمان کا کیا مطلب ہوا؟
۲… پھر مرزا نے کہا کہ اس سے مراد انگریز قوم ہے۔ اس سے کہا گیا کہ اگر انگریز ہیں۔ تو دجال کو حضرت مسیح علیہ السلام قتل کریں گے۔ تم تو ’’انگریز کے خود کاشتہ پودا‘‘ ہو۔
۳… پھر مرزا نے کہا کہ اس سے مراد روس ہے۔ تو اس سے کہا گیاکہ دجال تو شخص واحد ہے۔ قوم مراد نہیں۔ اس نے کہا کہ دجال نہیں حدیث میں ’’رجال‘‘ ہے۔ یہ اس کی جہالت کی دلیل ہے۔ اس کی تردید کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ ابن صیاد کے مسئلہ پر آنحضرتﷺ سے حضرت عمرؓ نے اجازت مانگی کہ میں اسے قتل کردوں؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ وہی (دجال) ہے۔ تو ’’ لست صاحبہ ‘‘ تم اس کو قتل نہیں کرسکتے۔ اس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی قتل کریں گے۔
ابن صیاد کی بابت کتب احادیث میں تفصیل سے روایات موجود ہیں۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دجال تلوار سے قتل ہوگا۔ نہ کہ قلم سے جیسا کہ قادیانیوں کا مؤقف ہے۔
خلاصہ…یہ کہ مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کا مؤقف اسلام کے چودہ سوسالہ مؤقف کے خلاف ہے۔
جواب …
مہدی علیہ الرضوان
آنحضرتﷺ کی احادیث کی روشنی میں سیدنا مہدی علیہ الرضوان کے ظہور کی مندرجہ ذیل شناخت بیان کی گئی ہیں:
- حضرت فاطمہؓ کی اولاد سے ہوں گے۔
- مدینہ طیبہ کے اندر پیدا ہوں گے۔
- والد کا نام عبداﷲ ہوگا۔
- ان کا اپنا نام محمد ہوگا اور لقب مہدی۔
- چالیس سال کی عمر میں ان کو مکہ مکرمہ حرم کعبہ میں شام کے چالیس ابدالوں کی جماعت پہچانے گی۔
- وہ کئی لڑائیوں میں مسلمان فوجوں کی قیادت کریں گے۔
- شام جامع دمشق میں پہنچیں گے، تو وہاں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا۔
- حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد پہلی نماز حضرت مہدی علیہ الرضوان کے پیچھے ادا کریں گے۔
- حضرت مہدی علیہ الرضوان کی کل عمر ۴۹ سال ہوگی، چالیس سال بعد خلیفہ بنیں گے ، سات سال خلیفہ رہیں گے، دو سال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نیابت میں رہیں گے، ۴۹ سال کی عمر میں وفات پائیں گے۔
- ’’ ثم یموت ویصلی علیہ المسلمون ‘‘ (مشکوٰۃ:۴۱۷)
اس ذیل میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کا رسالہ ’’ الخلیفۃ المہدی فی الاحادیث الصحیحہ ‘‘ اور محدث کبیر مولانا بدر عالم میرٹھی ؒ کا رسالہ ’’الامام المہدی‘‘(ترجمان السنۃ ج ۴ مشمولہ احتساب قادیانیت جلد چہارم) میں قابل دید ہیں۔
حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور اس کی نشانیاں
- حضرت عیسیٰ علیہ السلام اﷲ رب العزت کے وہ جلیل القدر پیغمبر و رسول ہیں۔ جن کی رفع سے پہلی پوری زندگی، زہد و انکساری، مسکنت کی زندگی ہے۔
- یہودی ان کے قتل کے درپے ہوئے اﷲتعالیٰ نے یہودیوں کے ظالم ہاتھوںسے آپ کو بچاکر آسمانوں پر زندہ اٹھالیا۔
- قیامت کے قریب دو فرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھے ہوئے نازل ہوں گے۔
- دو زردرنگ کی چادریں پہن رکھی ہوں گی۔
- دمشق کی مسجد کے مشرقی سفید مینار پر نازل ہوں گے۔
- پہلی نماز کے علاوہ تمام نمازوں میں امامت کرائیں گے۔
- حاکم عادل ہوں گے، پوری دنیا میں اسلام پھیلائیں گے۔
- دجال کو مقام لد پر (جو اس وقت اسرائیل کی فضائیہ کا ایئربیس ہے) قتل کریں گے۔
- نزول کے بعد پینتالیس سال قیام کریں گے۔
- مدینہ طیبہ میں فوت ہوں گے ،رحمت عالمﷺ ، حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ کے ساتھ روضہ اطہر میں دفن کئے جائیں گے۔ جہاں آج بھی چوتھی قبر کی جگہ ہے۔ ’’ فیکون قبرہ رابعاً ‘‘ (درمنشور بحوالہ تاریخ البخاری)
- دجال …اسلامی تعلیمات اور احادیث کی روشنی میں شخص (متعین) کا نام ہے۔ جس کی فتنہ پردازیوں سے تمام انبیاء علیہم السلام اپنی امتوں کو ڈراتے آئے۔ گویا دجال ایک ایسا خطرناک فتنہ پرور ہوگا۔ جس کی خوفناک خدا دشمنی پر تمام انبیاء علیہم السلام کا اجماع ہے۔
- وہ عراق و شام کے درمیانی راستہ سے خروج کرے گا۔
- تمام دنیا کو فتنہ و فساد میں مبتلا کردے گا۔
- خدائی کا دعویٰ کرے گا۔
- ممسوح العین ہوگا، یعنی ایک آنکھ چٹیل ہوگی (کانا ہوگا)۔
- مکہ مدینہ جانے کا ارادہ کرے گا۔ حرمین کی حفاظت پر ماموراﷲتعالیٰ کے فرشتے اس کا منہ موڑ دیں گے۔ وہ مکہ، مدینہ میں داخل نہیں ہوسکے گا۔
- اس کے متبعین زیادہ تر یہودی ہوں گے۔
- ستر ہزار یہودیوں کی جماعت اس کی فوج میں شامل ہوگی۔
- مقام لد پر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوگا۔
- وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حربہ (ہتھیار) سے قتل ہوگا۔
چنانچہ علامہ شوکانی لکھتے ہیں:
’’ فتقرران الاحادیث الواردۃ فی المہدی المنتظر متواترۃ والاحادیث الواردۃ فی نزول عیسیٰ بن مریم متواترۃ ‘‘
(الاذاعہ ص ۷۷)
ترجمہ: ’’چنانچہ یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ مہدی منتظر کے بارے میں وارد شدہ احادیث بھی متواتر ہیں اور حضرت عیسیٰ بن مریم کے بارے میں وارد شدہ احادیث بھی متواتر ہیں۔ ‘‘
اور حافظ عسقلانیؒ فرماتے ہیں:
’’ قال ابو الحسن الخسعی الابدی فی مناقب الشافعی! تواترت الاخبار بان المہدی من ھذہ الامۃ وان عیسیٰ یصلی خلفہ ذکر ذلک رد اللحدیث الذی اخرجہ ابن ماجہ عن انس و فیہ ولا مہدی الاعیسی ‘‘
(فتح الباری ج۶ ص۳۵۸)
ترجمہ:’’ابوالحسن خسعی ابدیؒ نے مناقب شافعی میں لکھا ہے کہ احادیث اس بارے میں متواتر ہیں کہ مہدی اسی امت میں سے ہوں گے اور یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام مہدی کے پیچھے نماز پڑھیں گے ابوالحسن خسعی نے یہ بات اس لئے ذکر فرمائی ہے۔ تاکہ اس حدیث کا رد ہوجائے جو ابن ماجہ نے حضرت انس ؓسے روایت کی ہے۔ جس میں آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ ہی مہدی ہیں۔‘‘
حافظ عسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ نے جن احادیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے:
’’ عن جابر بن عبداﷲ قال قال سمعت رسول اﷲﷺ یقول لا تزال طائفۃ من امتی یقاتلون علی الحق ظاھرین الی یوم القیامۃ قال فینزل عیسیٰ بن مریم فیقول امیرھم تعال صل لنا فیقول لا: ان بعضکم علی بعض امراء تکرمۃ اﷲ ھذہ الامۃ ‘‘
(مسلم ج ۱ ص ۸۷، باب نزول عیسیٰ ابن مریم ، احمد ج۳ ص۳۴۵)
ترجمہ: ’’حضرت جابر عبداﷲؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت میں ایک جماعت ہمیشہ حق کے مقابلہ میںجنگ کرتی رہے گی۔ دشمنوں پر غالب رہے گی۔ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا آخر میں عیسیٰ ابن مریم اتریں گے۔ (نماز کا وقت ہوگا) مسلمانوں کا امیر ان سے عرض کرے گا۔ تشریف لایئے اور نماز پڑھادیجئے وہ فرمائیں گے: یہ نہیں ہوسکتا۔ اس امت کا اﷲتعالیٰ کی طرف سے یہ اکرام و اعزاز ہے کہ تم خود ہی ایک دوسرے کے امام و امیر ہو۔‘‘
اس حدیث سے جہاں ایک جانب یہ ثابت ہوا کہ حضرت امام مہدی علیہ الرضوان اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام الگ الگ مقدس ہستیاں ہیں۔ دوسری جانب اس سے امت محمدیہﷺ کی کرامت و شرافت عظمیٰ بھی ثابت ہوتی ہے کہ قرب قیامت تک اس امت میں ایسے برگزیدہ افراد موجود رہیں گے کہ اسرائیلی سلسلہ کا ایک مقدس رسول آکر بھی اس کی امامت کی حیثیت کو برقرار رکھ کر ان کے پیچھے نماز ادا فرمائیں گے۔ جو اس بات کا صاف اعلان ہے کہ جس شرافت اور کرامت کے مقام پر تم پہلے فائز تھے آج بھی ہو۔ یہ واقعہ بالکل اس قسم کا ہے جیسا کہ مرض الوفات میں آنحضرتﷺ نے ایک وقت کی نماز حضرت ابوبکر صدیقؓ کی اقتداء میں ادا فرماکر امت کو گویا صریح ہدایت دے دی کہ میرے بعد امامت و اقتداء کی پوری صلاحیت ابوبکر صدیقؓ میں موجود ہے۔
سیدنا مسیح علیہ السلام اور سیدنا مہدی علیہ الرضوان کے متعلق احادیث کی روشنی میں بیان کردہ علامات دیکھنی ہوں تو ’’ التصریح بما تواتر فی نزول المسیح ‘‘ کے آخر میں علامات قیامت اور نزول مسیح (مترجم مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی) اور حضرت مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع ؒ کا رسالہ ’’ مسیح موعود کی پہچان ‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
حضرت مسیح علیہ السلام، حضرت مہدی علیہ الرضوان اور دجال لعین کے متعلق مرزا قادیانی خود تسلیم کرتا ہے کہ یہ تین شخصیات ہیں:
’’اس لئے ماننا پڑا کہ مسیح موعود اور مہدی اور دجال تینوںمشرق میں ہی ظاہر ہوں گے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص ۴۷، خزائن ج۱۷ ص ۱۶۷)
تینوں مشرق میں ہوں گے۔ یہ تو قادیانی دجل کا شاہکار ہے۔ البتہ اتنی بات مرزا قادیانی کے اس حوالہ سے ثابت ہے کہ یہ تین شخصیات (سیدنامسیح، سیدنا مہدی اور دجال) علیحدہ علیحدہ ہیں۔
قادیانی مؤقف
لیکن! قادیانی جماعت کی بدنصیبی اور ایمان سے محرومی دیکھئے۔ ان کا مؤقف ہے کہ مسیح علیہ السلام اور مہدی ایک شخصیت ہے اور وہ مرزا قادیانی ہے۔ حالانکہ مسیح علیہ السلام اور مہدی علیہ الرضوان دو علیحدہ علیحدہ شخصیات ہیں۔ ان کے نام، کام، جائے پیدائش، جائے نزول، وقت ظہور، مدت قیام، عمر، دونوں علیحدہ تفصیلات کے ساتھ آنحضرتﷺ سے منقول ہیں۔ لیکن قادیانی دجال اور اس کی جماعت کے دجل کو دیکھو سینکڑوں احادیث صحیحہ و متواترہ کو چھوڑ کر ایک جھوٹی و وضعی روایت سے اپنا عقیدہ ثابت کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں۔
دیکھئے مرزا نے کہا:
’’ ایھا الناس انی انا المسیح المحمدی وانی انا احمد المھدی ‘‘
(خطبہ الہامیہ خزائن ص ۶۱ ج۱۶)
ترجمہ: ’’اے لوگو! میں وہ مسیح ہوں کہ جو محمدی سلسلہ میں ہے اور میں احمد مہدی ہوں۔‘‘
قاضی محمد نذیر قادیانی لکھتا ہے:
’’امام مہدی اور مسیح موعود ایک ہی شخص ہے۔‘‘
(امام مہدی کا ظہور ص ۱۶)
قادیانی مغالطہ(لا المہدی الا عیسیٰ بن مریم):
قادیانی گروہ دلیل میں ابن ماجہ کی روایت پیش کرتا ہے: ’’ لا المہدی الا عیسیٰ بن مریم ‘‘
(ابن ماجہ ص ۲۹۲ باب شدۃ الزمان)
یہی قاضی محمد نذیر اس حدیث کے متعلق لکھتا ہے: ’’اس حدیث نے ناطق فیصلہ دے دیا ہے کہ عیسیٰ بن مریم ہی المہدی ہے اور اس کے علاوہ کوئی ’’المہدی ‘‘نہیں ہے۔‘‘
یہ حدیث اولاً تو ضعیف ہے، ثانیاً اس کا مطلب وہ نہیں جو قادیانی سمجھاتے ہیں۔
ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں:
’’ حدیث لا مہدی الا عیسی بن مریم ضعیف باتفاق المحدثین کما صرح بہ الجزری علی انہ من باب لافتیٰ الا علیؓ ‘‘
(مرقاۃ ص۱۸۳ ج۱۰)
ترجمہ: ’’حدیث لامہدی عیسیٰ بن مریم باتفاق محدثین ضعیف ہے جیسا کہ ابن جزریؒ نے اس کی صراحت کی ہے۔ علاوہ ازیں یہ ’’لا فتی الاعلیؓ‘‘ کے قبیل سے ہے‘‘۔
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی درجہ میں حدیث کو صحیح مان لیا جائے تو اس کا وہی مطلب ہے۔ جو لافتی الاعلیؓ کا ہے۔ یعنی مہدی صفت کا صیغہ ہے اور اس کے لغوی معنی مراد ہیں اور یہ بتایا گیا ہے کہ اعلیٰ درجہ کے ہدایت یافتہ عیسیٰ بن مریم ہی ہیں۔ بطور حصر اضافی جیسے ’’ لافتی الاعلیؓ ‘‘ کے معنی اعلیٰ درجہ کے جوان اور بہادر حضرت علیؓ ہی ہیں۔
یہ مطلب لیناغلط ہے کہ جس شخصیت کا نام مہدی ہے۔ وہ عیسیٰ بن مریم ہی کی شخصیت ہے۔ خود مرزا قادیانی ایک اصول لکھتے ہیں:
’’جس حالت میں تقریباً کل حدیثیں قرآن شریف کے مطابق ہیں۔ پھر اگر بطور شاذ و نادر کوئی ایسی حدیث بھی موجود ہو۔ جو اس مجموعۂ یقینیہ کے مخالف ہو، تو ہم ایسی حدیث کو یا تو نصوص سے خارج کریں گے اور یا اس کی تاویل کرنی پڑے گی۔ کیونکہ یہ تو ممکن نہیں کہ ایک ضعیف اور شاذ حدیث سے وہ مستحکم عمارت گرادی جائے۔ جس کو نصوص بینہ فرقانیہ و حدیثیہ نے طیار کیا ہو۔‘‘
(ازالہ اوہام ص ۵۴۵، خزائن ج۳ص۳۹۳)
اس اصول کی روشنی میں دیکھئے۔ مرزائیوں کی پیش کردہ ابن ماجہ کی روایت کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟
اس لئے کہ نزول عیسیٰ کی مذکورہ بالا روایات صحیحہ متواترہ سے صاف طور پر ثابت ہوچکا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے۔ نہ یہ کہ وہ دنیا میں کسی خاندان میں پیدا ہوں گے۔ جبکہ حضرت امام مہدی علیہ الرضوان کے بارے میں حدیث ہے:
۱… ’’ سمعت رسول اﷲﷺ یقول المہدی من عترتی من ولد فاطمۃ ‘‘
(ابوداؤد ص ۱۳۱ ج۲ کتاب المہدی)
ترجمہ: ’’حضورﷺ نے فرمایا کہ مہدی میری عترت سے ہوگا۔ یعنی حضرت فاطمہؓ کی اولاد سے۔‘‘
۲… ’’ یواطی اسمہ اسمی واسم ابیہ اسم ابی ‘‘
(ابوداؤد ج۲ ص۱۳۱،کتاب المہدی)
ترجمہ: ’’جو میرا نام ہے وہی اس کا نام ہوگا۔ جو میرے باپ کا نام ہے۔ وہی اس کے باپ کا نام ہوگا۔‘‘
اور حدیث مندرجہ ذیل نے معاملہ بالکل منقح کردیا ہے۔
۳… ’’ کیف تھلک امۃ انا اولھا والمھدی وسطھا والمسیح اٰخرھا ‘‘
(مشکوٰۃ ص ۵۸۳، باب ثواب ہذہ الامۃ)
ترجمہ: ’’وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کی ابتداء میں۔ میں (آنحضرتﷺ) ہوں۔ درمیان میں مہدی، اور آخر میں مسیح علیہ السلام ہیں۔‘‘
یہ حدیث اس مسئلہ میں ببانگ دہل اعلان کررہی ہے کہ مرزا قادیانی کا مؤقف صراحتاً دجل و کذب کا شاہکار ہے۔ لیکن بے بصیرت و بے بصارت قادیانی گروہ کو یہ صاف صاف روایتیں بھی نظر نہیں آتیں اور پوری بے شرمی کے ساتھ مسیح و مہدی کے ایک ہونے کی رٹ لگاتا رہتا ہے۔ حالانکہ دونوں کے بارے میں روایات الگ الگ اور متواتر آئی ہیں۔
دجال:
۱… رہا دجال کے متعلق قادیانی مؤقف، تو وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا رہا۔ پہلے کہا کہ اس سے مراد پادری ہیں۔ اس پر سوال ہوا کہ آنحضرتﷺ سے حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ ایک دن آنحضرتﷺ تشریف لائے۔ میں رو رہی تھی۔ آپﷺ نے رونے کی وجہ دریافت فرمائی۔ میں نے عرض کیا کہ دجال کے بارہ میں آپﷺ نے تفصیلات بیان فرمائی: میں سن کر پریشان ہوگئی۔ اب خیال آتے ہی فوراً رونا آگیا۔، آپﷺ نے فرمایا کہ :میں موجود ہوا اور وہ آگیا تو تمہاری طرف سے میں کافی ہوں۔ اگر میری زندگی میں نہ آیا تو جو شخص سورئہ کہف کی آخری آیات پڑھتا رہے وہ اس سے محفوظ رہے گا۔ اگر پادری ہی دجال تھے۔ وہ تو حضور علیہ السلام کے زمانہ میں بھی موجود تھے۔ پھر حضور اقدسﷺ کے فرمان کا کیا مطلب ہوا؟
۲… پھر مرزا نے کہا کہ اس سے مراد انگریز قوم ہے۔ اس سے کہا گیا کہ اگر انگریز ہیں۔ تو دجال کو حضرت مسیح علیہ السلام قتل کریں گے۔ تم تو ’’انگریز کے خود کاشتہ پودا‘‘ ہو۔
۳… پھر مرزا نے کہا کہ اس سے مراد روس ہے۔ تو اس سے کہا گیاکہ دجال تو شخص واحد ہے۔ قوم مراد نہیں۔ اس نے کہا کہ دجال نہیں حدیث میں ’’رجال‘‘ ہے۔ یہ اس کی جہالت کی دلیل ہے۔ اس کی تردید کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ ابن صیاد کے مسئلہ پر آنحضرتﷺ سے حضرت عمرؓ نے اجازت مانگی کہ میں اسے قتل کردوں؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ وہی (دجال) ہے۔ تو ’’ لست صاحبہ ‘‘ تم اس کو قتل نہیں کرسکتے۔ اس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی قتل کریں گے۔
ابن صیاد کی بابت کتب احادیث میں تفصیل سے روایات موجود ہیں۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دجال تلوار سے قتل ہوگا۔ نہ کہ قلم سے جیسا کہ قادیانیوں کا مؤقف ہے۔
خلاصہ…یہ کہ مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کا مؤقف اسلام کے چودہ سوسالہ مؤقف کے خلاف ہے۔