• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

احتسابِ قادیانیت جلدنمبر 14

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
توفی عیسیٰ علیہ السلام کی بحث
ناظرین باتمکین! جب یہ امر ثابت ہوچکا کہ توفی کے حقیقی معنی اخذ الشیٔ وافیاً کے ہیں اور یہ کہ مارنا اور سلانا اس کے مجازی معنی ہیں۔ یہ بھی دلائل سے ثابت ہو چکا ہے کہ کلام اﷲ میں جہاں کہیں توفی بمعنی مارنا استعمال ہوا ہے۔ وہاں موت کا قرینہ موجود ہے اور جہاں بمعنی سلانا مستعمل ہوا ہے۔ وہاں نیند کا کوئی نہ کوئی قرینہ موجود ہے۔ پس جب یہ لفظ بغیر قرینہ موت اور نیند پایا جائے گا تو کوئی شخص اس کے معنی موت دینا یا سلانا کرنے کا مجاز نہیں ہوسکتا۔ کلام اﷲ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے توفی دو جگہ آیا ہے۔ ایک تو آیت ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ میں دوسرا ’’ فلما توفیتنی ‘‘ میں۔
اب میں دلائل سے ثابت کرتا ہوں کہ ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ کی توفی کے معنی کیا ہیں۔
حضرات! یہ کلام اﷲ کا معجزہ ہے اور علام الغیوب کے علم غیب پر زبردست دلیل ہے کہ اس آیت کے الفاظ کی بندش اور لفظ توفی کا استعمال ہی اس طریقہ سے کیا گیا ہے کہ توفی کے سارے معنی حقیقی یا مجازی چسپاں کر کے دیکھیں سب ٹھیک بیٹھتے ہیں۔ اسی واسطے جس کسی مفسر نے جو معنی اس کو مرغوب لگے وہی لگادئیے۔ مگر یہ تفسیر اجماع امت کا حکم رکھتی ہے کہ اس آیت کی رو سے تمام امت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کے قائل ہے۔
۱… بعض نے فرمایا اس کے معنی سلانا یہاں خوب چسپاں ہوتے ہیں۔ یعنی ’’اے عیسیٰ علیہ السلام میں تجھ کو نیند دینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘ چونکہ جاگتے ہوئے ہزارہا بلکہ لاکھوں میل کا پرواز اوپر کی طرف کرنا طبعاً توحش کا باعث ہوتا ہے۔ اس واسطے خدا نے نیند کی حالت میں رفع کا وعدہ کیا۔
۲… بعض علماء نے فرمایا کہ اس کے معنی عمر پوری کرنے کے ہیں۔ پس مطلب یہ ہے کہ: ’’اے عیسیٰ علیہ السلام! میں تیری عمر پوری کرنے والا ہوں۔ (یہ یہود تم پر قبضہ کر کے تمہیں قتل نہیں کر سکتے) اور میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘
اور اس کا مطلب انہیں علماء اسلام نے جن میں سے حبر الامت وترجمان القرآن حضرت ابن عباسؓ بھی ہیں۔ یہی بیان کیا ہے کہ رفع جسمانی کا زمانہ عمر پوری کرنے کے وعدہ کا جز ہے۔ یعنی رفع جسمانی پر نزول جسمانی کے بعد آپ کی عمر پوری کی جائے گی اور پھر موت آئے گی۔
۳… مرزاغلام احمد قادیانی نے مجدد ومحدث وملہم من اﷲ ہونے کے بعد اپنی الہامی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ میں اس کے معنی پورا پورا اجر دینے اور پوری نعمت دینے کے معنی کئے ہیں وہ بھی یہاں خوب چسپاں ہوتے ہیں۔ ’’یعنی اے عیسیٰ علیہ السلام! میں تم پر اپنی نعمت پوری کرنے والا ہوں اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۵۲۰ حاشیہ، خزائن ج۱ ص۶۲۰)
۴… جمہور علماء اسلام نے توفی کے حقیقی معنی ہی یہاں مراد لئے ہیں۔ یعنی اے عیسیٰ علیہ السلام! میں تیرے جسم وروح دونوں پر قبضہ کرنے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘ اور یہی معنی موزوں ہیں۔ جس کے دلائل ہم ابھی عرض کرتے ہیں۔ مگر یقینا یہ معجزہ کلام اﷲ کا ہے کہ اس آیت کی بندش الفاظ توفی کو اپنے تمام معنوں میں چسپاں کرنے کے بعد بھی حیات عیسیٰ علیہ السلام کا ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں۔ خدائے علام الغیوب نے مرزاقادیانی کی پیدائش سے تیرہ سو سال پہلے ہی ان کے دھوکا کا انتظام کر دیا تھا۔ فالحمد ﷲ رب العالمین!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
توفی عیسیٰ کے معنی ’’مارنا‘‘ کرنے کے خلاف
جسم وروح پر قبضہ کرنے کی تائید میں دلائل اسلامی

ناظرین! انجیل کے بیان اور ومکروا ومکراﷲ کی بحث سے میں قادیانی مسلمات کی رو سے ثابت کر آیا ہوں کہ یہود نے مکروفریب کے ذریعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر قبضہ کر کے انہیں قتل کرنے کا اہتمام کر لیا تھا اور مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ سے ثابت کر آیا ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو موت سامنے نظر آنے لگ گئی اور یہ بھی ثابت کر آیا ہوں اور وہ بھی مرزاقادیانی کی زبانی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس مصیبت سے بچنے کی دعا تمام رات کی۔ وہ قبول بھی ہوگئی۔ قبولیت کی آواز بذریعہ وحی ان الفاظ قرآنی میں آئی۔ ’’ یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ومطہرک من الذین کفروا وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ (آل عمران:۵۵) ‘‘

حسب اصول مرزاقادیانی ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ میں توفی بمعنی مجازی لینے کے لئے کوئی قرینہ یا علامت ضروری چاہئے تھی۔ مگر کوئی قرینہ موت کا اس کے ساتھ موجود نہیں۔ بلکہ باوجود توفی اپنے حقیقی معنوں میں یعنی روح بمعہ جسم کو قبضہ میں لے لینا یہاں مستعمل ہے۔ پھر یہی مرزاقادیانی جیسے محرفین کلام اﷲ اور مدعیان مجددیت ومسیحیت کا ناطقہ بند کرنے کے اﷲتعالیٰ نے یہاں بہت سے ایسے قرائن بیان فرمادئیے ہیں جو قبض روح معہ الجسم پر ڈنکے کی چوٹ اعلان کر رہے ہیں اور وہ قرائن یہ ہیں۔
قرینہ نمبر:۱… توفی کے بعد جب رفع کا لفظ استعمال ہوگا اور رفع کا صدور بھی توفی کے بعد ہوتو اس وقت توفی کے معنی یقینا غیرموت ہوں گے۔ اگر کوئی قادیانی لغت عرب سے اس کے خلاف کوئی مثال دکھا سکے تو ہم یک صدروپیہ خاص انعام دینے کا اعلان کرتے ہیں۔
قرینہ نمبر:۲… آیت ’’ ومکروا ومکراﷲ واﷲ خیر الماکرین ‘‘ کے بعد ’’ انی متوفیک ‘‘ وارد ہوئی ہے اور یہ اﷲ کے مکر کی گویا تفسیر ہے۔ یہود کے مکر اور اﷲتعالیٰ کے مکر میں تضاد اور مخالفت ضروری ہے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔ یہودیوں نے مکر کیا اور اﷲ نے بھی مکر کیا اور اﷲ سب مکر کرنے والوں سے اچھے ہیں۔ اﷲ کا مکر (تدبیر لطیف) سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم یہودیوں کی تدبیر معلوم کریں۔ سنئے! اور بالفاظ مرزا سنئے!
’’چنانچہ یہ بات قرار پائی کہ کسی طرح اس کو صلیب دی جائے پھر کام بن جائے گا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۲، خزائن ج۱۷ ص۱۰۶)
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ حالت دیکھی تو ان کے ظلم وجور سے بچنے کے لئے دعا مانگی۔ چنانچہ مرزاقادیانی اس کے متعلق لکھتا ہے:
’’حضرت مسیح نے خود اپنے بچنے کے لئے تمام رات دعا مانگی تھی اور یہ بالکل بعید ازقیاس ہے کہ ایسا مقبول درگاہ الٰہی تمام رات رو رو کر دعا مانگے اور وہ دعا قبول نہ ہو۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۱۴، خزائن ج۱۴ ص۳۵۱)
اس دعا عیسوی کے جواب میں اﷲتعالیٰ نے بذریعہ وحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فرمایا: ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ومطہرک من الذین کفروا ‘‘ اگر توفی کے معنی موت دینا یہاں تسلیم کئے جائیں تو مطلب یوں ہوگا۔ اے عیسیٰ علیہ السلام یہودیوں نے جو تمہارے قتل اور صلیب کی سازش کی ہے۔ ان کے مقابلہ پر میں نے یہ تدبیر لطیف کی ہے کہ میں ضرور تمہیں موت دوں گا۔ یہودی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مارنا چاہتے تھے اور خداتعالیٰ ان کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ہاں تم مرو گے اور ضرور مرو گے۔
سبحان اﷲ! یہ یہودیوں کی تجویز اور تدبیر کی تائید ہے یا اس کا رد ہے۔ اگر کہو کہ اس سے مراد طبعی موت دینا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ طبعی موت کی پچر کس طرح قبول کی جاسکتی ہے۔ اگر یہودی قتل کرنے اور صلیب دینے میں کامیاب ہو جاتے تو اس صورت میں موت دینے والے کیا یہودی ہوتے۔ کیا اس حالت کی توفی خدا کی طرف منسوب نہ ہوتی؟ پس اگر ’’ انی متوفیک ‘‘ کے معنی یہ کئے جائیں کہ میں تمہیں موت دینے والا ہوں۔ تو یہ یہودیوں کی تائید اور ان کے مکر کو کامیاب کرنے کا اعلان تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے اس میں کون سی تسلی تھی۔ اس واسطے تو فی عیسیٰ کے معنی روح وجسم پر قبضہ کرنا ہی صحیح ہے۔
قرینہ نمبر:۳… مرزاقادیانی کو بھی خدائے مرزا نے الہام کیا تھا۔ ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘
(براہین احمدیہ ص۵۵۶،۵۱۹، خزائن ج۱ ص۶۲۰،۶۶۴)
وہاں مرزاقادیانی اپنے لئے توفی بمعنی موت سے گھبراتے ہیں۔ وہاں یہ معنی کرتے ہیں۔ ’’ انی متوفیک ‘‘ یعنی میں تجھے پوری نعمت دوں گا یا پورا اجر دوں گا۔ پھر یہی مرزاقادیانی کس قدر دیدہ دلیری سے لکھتا ہے۔
’’ وثبت ان التوفی ھو الاماتۃ والافناء لا الرفع والاستیفائ ‘‘ یعنی ثابت ہویا کہ توفی کے معنی موت دینا اور فنا کرنا ہے نہ کہ رفع اور پورا پورا لینا یادینا۔
(انجام آتھم ص۱۳۱، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
پس جیسا اپنے لئے موت کا وعدہ مرزاقادیانی کو مرغوب نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے موت دینے کا وعدہ خداوندی کیونکر قبول کر سکتا ہے۔ بالخصوص جبکہ موت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حسب قول مرزا نظر آہی رہی تھی۔ جیسا کہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔
’’مسیح ایک انسان تھا اور اس نے دیکھا کہ تمام سامان میرے مرنے کے موجود ہوگئے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۹۴، خزائن ج۳ ص۳۰۳)
معزز ناظرین! اس حالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جو دعا کی تھی اس کا ذکر بھی مرزاقادیانی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے۔
’’حضرت مسیح علیہ السلام نے تمام رات اپنے بچنے کے لئے دعا مانگی تھی۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۱۴، خزائن ج۱۴ ص۳۵۱)
’’یہ بالکل بعید ازقیاس ہے کہ ایسا مقبول درگاہ الٰہی تمام رات رورو کر دعا مانگے اور وہ دعا قبول نہ ہو۔‘‘
(حوالہ بالا)
’’یہ قاعدہ مسلم الثبوت ہے کہ سچے نبیوں کی سخت اضطرار کی ضرور دعا قبول ہو جاتی ہے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۳ ص۸۳، مجموعہ اشتاہرات ج۲ ص۱۰)
ان حالات میں بقول مرزاقادیانی، اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بشارت دیتے ہیں کہ اے عیسیٰ میں واقعی تجھے موت دینے والا ہوں۔ خوب مرزاقادیانی کو تو اﷲ تعالیٰ بغیر کسی خطرہ کی حالت کے وعدہ ’’ انی متوفیک ‘‘ کا دیں اور مرزاقادیانی بقول خود بمطابق لغت عرب اس کے معنی اپنے لئے موت تجویز نہیں کرتے۔ بلکہ لغت کے خلاف اس کے معنی کرتے ہیں۔ ’’میں تمہیں پورا پورا اجر دوں گا۔‘‘ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان ناگفتہ بہ حالات کے درمیان اﷲتعالیٰ بشارت دیتے ہیں۔ ’’ انی متوفیک ‘‘ اور مرزاقادیانی اس کے معنی کرتے ہیں۔ ’’میں تمہیں موت دینے والا ہوں۔‘‘
’’ تلک اذا قسمۃ ضیزی (النجم) ‘‘
{یہ تو بہت ہی بے ڈھنگی تقسیم ہے۔}
قرینہ نمبر:۴… ’’ انی متوفیک ‘‘ کے معنی رسول پاکﷺ سے لے کر آج تک جس قدر علماء مفسرین ومجددین مسلمہ قادیانی گزرے ہیں۔ انہوں نے تو یہ کئے ہیں۔ ’’اے عیسیٰ علیہ السلام میں تجھ کو بمعہ جسم آسمان کی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘ قادیانی اس کے معنی یوں کرتے ہیں۔ ’’اے عیسیٰ علیہ السلام میں تمہارا رفع روحانی کروں گا۔‘‘ تجھے صلیب پر مرنے نہیں دوں گا۔ بیشک یہودی تمہیں ذلیل کریں گے۔ تمہارے منہ پر تھوکیں گے۔ تمہارے جسم میں کیل ٹھوکیں گے۔ تمہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ جائیں گے۔ مگر تمہاری میں روح نہیں نکلنے دوں گا۔ روح تمہاری کسی اور موقع پر طبعی موت سے نکالوں گا۔ کیونکہ اگر اس وقت نکال لوں تو تم لعنتی موت مرو گے۔ (مفصل دیکھیں بحث ’’ومکروا ومکر اﷲ‘‘) سبحان اﷲ! یہ ہیں قادیانی کے نکات قرآنی۔ بھلے مانس کو یہ سمجھ نہیں کہ رفع روحانی کا تو ہر ایک مؤمن کو خدا وعدہ دے چکا ہے۔ بالخصوص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تو پہلے سے پتہ تھا۔
اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:
۱’’یرفع اﷲ الذین اٰمنوا منکم والذین اوتوا العلم درجات (مجادلہ:۱۱) ‘‘
{اﷲتعالیٰ مؤمنوں اور علم والوں کے درجات کو بلند کرتا ہے۔} یعنی رفع روحانی ہے۔
(دیکھئے رفع کے ساتھ درجات کا لفظ مذکور ہے۔ اس واسطے یہاں اس کے معنی درجات کا بلند کرنا ہے)
۲… حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود بچپن میں کہہ دیا تھا۔
(الف)’’ والسلام علیّٰ یوم ولدت ویوم اموت ویوم ابعث حیاً (مریم:۳۳) ‘‘
{اور سلام ہے اﷲ کا مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا۔}
(ب)’’ وجعلنی مبارکاً اینما کنت (مریم:۳۱) ‘‘
{اور اﷲ نے بنایا مجھ کو برکت والا جہاں کہیں رہوں۔}
(ج)اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں فرمایا تھا۔ ’’ وجیہا فی الدنیا والآخرۃ ومن المقربین (آل عمران:۴۵) ‘‘
{حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا اور آخرت دونوں میں صاحب عزت وجاہت ہیں اور خدا کے مقرب بندوں میں سے ہیں۔}
(د)’’ کلمۃ اﷲ القاہا الیٰ مریم (نسائ:۱۷۱) ‘‘
{وہ اﷲ کے کلمہ تھے جو القاء کیاگیا تھا۔ طرف مریم کے۔}
(ہ)خود مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔ ’’ہر مؤمن کا رفع روحانی خود بخود ہوتا ہے۔ تمام انبیاء کا رفع روحانی ہوا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۲۶۵، خزائن ج۳ ص۲۳۳ ملخصاً)

پس ہمارا سوال یہاں یہ ہے کہ
یہ آیت چونکہ بطور بشارت ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ رفع روحانی کا وعدہ آپ کے لئے کیا بشارت ہوسکتی تھی؟
کیا اس وعدہ سے پہلے ان کو علم نہ تھا۔ کیا انہیں وجیہہ، کلمتہ اﷲ، روح اﷲ، نبی اولوالعزم ہونے کا یقین نہ تھا۔ کیا انہیں اپنی نجات کے متعلق کوئی شک پیدا ہوگیا تھا؟
جس کا دفعیہ یہاں کیاگیا تھا۔ ہرگز نہیں۔ انہیں اپنی نجات، معصومیت، روح اﷲ، کلمتہ اﷲ اور نبی ہونے کا یقین تھا۔ ہاں سارے سامان قتل اور صلیب اور ذلت کے دیکھ کر بتقاضائے بشریت فکر پیدا ہوا تھا۔ جس پر اﷲتعالیٰ نے بطور بشارت ارشاد فرمایا: ’’انی متوفیک‘‘ اے عیسیٰ علیہ السلام میں خود تم پر قبضہ کرنے والا ہوں۔ (پس گھبراؤ نہیں یہودی تم پر قبضہ نہیں کر سکتے) پھر بتقاضائے بشریت خیال آیا کہ خداوند کریم کس طرح قبضہ کریں گے۔ اس کی صورت کیا ہوگی۔ پھر اﷲتعالیٰ نے فرمایا: ’’ ورافعک الیّٰ ‘‘ اور قبضہ کر کے (تم کو اپنی طرف یعنی آسمان کی طرف) اٹھانے والا ہوں۔ پس ثابت ہوا۔ یہاں توفی اور رفع دونوں کے معنی موت دینا اور رفع روحانی نہیں ہوسکتے۔ بلکہ قبض جسمانی اور رفع جسمانی کے بغیر اور معنی سیاق وسباق اور قوانین لغت عرب کے مخالف ہیں۔
قرینہ نمبر:۵… اگر توفی بمعنی طبعی موت اور رفع الیٰ اﷲ سے مراد رفع روحانی ہوتا تو اﷲ ان افعال کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے مخصوص نہ کرتے اور نہ ہی یہود کے مکروفریب کے مقابلہ پر اس فعل کو تدبیر لطیف بیان کر کے سب مکر کرنے والوں پر اپنا غلبہ ظاہر کرتے۔ کیونکہ یہ سلوک تو اﷲتعالیٰ ہر مؤمن مسلمان سے کرتے ہیں۔
قرینہ نمبر:۶… اگر توفی بمعنی موت طبعی دینا ہوتا اور رفع الیٰ اﷲ سے مراد رفع روحانی ہوتا تو دونوں کے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ حسب قول مرزا، طبعی موت دینے کا وعدہ صلیبی موت سے بچانا تھا۔ یعنی لعنتی موت سے بچا کر رفع روحانی کی غرض سے انی متوفیک کہاگیا۔ پھر رفع الیٰ اﷲ کی کیا ضرورت تھی؟ اﷲتعالیٰ اپنے فصیح وبلیغ کلام میں مرزاقادیانی کی طرح اندھا دھند الفاظ کو موقعہ بے موقعہ استعمال نہیں فرمایا کرتے۔
قرینہ نمبر:۷… یہ آیت وفد نجران کی آمد پر نازل ہوئی تھی۔ یعنی عیسائیوں کا ایک گروہ رسول پاکﷺ کے پاس آیا تھا۔ ان کے سوالات کے جوابات میں اﷲتعالیٰ نے یہ آیات آل عمران اتاری تھیں۔ اب ہر ایک آدمی پڑھا لکھا جانتا ہے کہ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کے قائل ہیں۔ اگر فی الواقع حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع جسمانی نہ ہوا ہوتا تو ضرور اﷲتعالیٰ اس کی بھی تردید فرماتے۔ جیسا کہ آپ کی الوہیت کی تردید فرمائی تھی۔ مگر اﷲتعالیٰ نے ’’ رافعک الیّٰ ‘‘ کا فقرہ بول کر ان کی تصدیق فرمائی۔ جس میں وفد نصاریٰ نے اپنی تصدیق سمجھی اور اس پر بحث ہی نہ کی۔ پھر اگر مان لیا جائے کہ کبھی کبھی رفع کے معنی روحانی بھی ہوتے ہیں تو خدا نے کیوں نصاریٰ کے مقابلہ پر ایسے الفاظ استعمال کئے۔ جس سے ان کو بھی دھوکا لگا۔ وہ اپنی تصدیق سمجھ کر خاموش ہوگئے اور صحابہ کرامؓ اور علمائے اسلام مفسرین قرآن اور مجددین امت محمدیہ مسلمہ قادیانی بھی اسی دھوکا میں پڑے رہے۔ کسی نے رفع عیسوی کے معنی بغیر رفع جسمانی نہ لیئے۔ لیجئے! ایسے مواقع کے لئے ہم مرزاقادیانی کا قول نقل کرتے ہیں۔
’’یہ بالکل غیر ممکن اور بعید از قیاس ہے کہ خداتعالیٰ اپنے بلیغ اور فصیح کلام میں ایسے تنازع کی جگہ میں جو اس کے علم میں ایک معرکہ کی جگہ ہے۔ ایسے شاذ اور مجہول الفاظ استعمال کرے۔ جو اس کے تمام کلام میں ہرگز استعمال نہیں ہوئے۔
(تمام کلام اﷲ میں کہیں بھی صرف رفع الیٰ اﷲ کے معنی رفع روحانی نہیں آئے۔ مؤلف!) اگر وہ ایسا کرے تو گویا وہ خلق اﷲ کو آپ ورطہ شبہات میں ڈالنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس نے ہرگز ایسا نہیں کیا ہوگا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۲۹، خزائن ج۳ ص۲۶۷)
اس سے بھی معلوم ہوا کہ چونکہ صرف ’’ رفع الیٰ اﷲ ‘‘ سے مراد تمام قرآن میں کہیں بھی رفع روحانی نہیں لیاگیا۔ اس واسطے عیسیٰ علیہ السلام کی ’’ رفع الیٰ اﷲ ‘‘ سے رفع جسمانی مراد ہوگا۔
قرینہ نمبر:۸… آیت کریمہ ’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وفات پانے سے پہلے اس وقت کے تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے۔ چونکہ دنیا میں ابھی تک اہل کتاب کفار موجود ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ابھی تک فوت نہیں ہوئے۔ اس لئے ’’ رافعک الیّٰ ‘‘ سے پہلے ’’ انی متوفیک ‘‘ کے معنی سوائے قبض جسمانی وروحانی اور نہیں ہوسکتے۔
نوٹ: اس آیت کی مفصل بحث تو آگے آئے گی۔ مگر مناظرین کے کام کی چند باتیں یہاں بھی نقل کرتا ہوں۔
۱… اگر ’’ قبل موتہ ‘‘ میں ’’ ہ ‘‘ کی ضمیر کتابی کی طرف راجع ہوتی تو ’’ لیؤمنن ‘‘ بصیغہ مستقبل مؤکد بہ نون ثقلیہ وارد نہ ہوتا۔ اس کے معنی ’’ایمان لاتے ہیں‘‘ کرنا لغت عرب کے قوانین پر چھری پھیرنے کے مترادف ہے۔ اگر ضمیر کتابی کی طرف پھرتی تو ہر ایک کتابی ایمان لاتا ہوگا۔ اس صورت میں ’’ لیؤمن ‘‘ چاہئے تھا نہ کہ ’’ لیؤمنن ‘‘
۲… اگر ضمیر ’’ موتہ ‘‘ کی کتابی کی طرف پھیری جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے۔ ’’کہ اپنی موت سے پہلے تمام اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے۔ جس قدر یہ معنی بے معنی ہیں اور محالات عقلی ونقلی سے بھرے ہوئے ہیں ان کی تشریح محتاج بیان نہیں واقعات ان معنوں کی تصدیق نہیں کرتے۔ یعنی ہم مشاہدے میں کسی اہل کتاب کو اس حالت میں مرتے ہوئے نہیں دیکھتے۔ اگر حالت نزع میں ایمان لانے کا جواب دیا جائے تو یہ بھی صحیح نہیں اس وقت کے اقرار کو ایمان نہیں کہتے۔ اگر وہ ایمان کہلا سکتا ہے تو ایسا ایمان تو ہر ایک کافر کو میسر ہوتا ہوگا۔ پھر یہود کے ایمان کی تخصیص کیوں کی گئی؟‘‘
۳… موت سے پہلے تو ہر کتابی کا ایمان مشاہدے کے خلاف ہے۔ اگر اس سے مراد عین موت کے وقت کا ایمان لیا جائے تو وہ ’’ قبل ‘‘ کے خلاف ہوگا۔ اس صورت میں ’’ عند موتہ ‘‘ موزوں تھا۔ معلوم ہوتا ہے قادیانیوں کے نزدیک جس طرح کہ خود مرزاغلام احمد قادیانی لغت عرب اور اس کے محاورات بلکہ واحد اور جمع، مذکر اور مؤنث کے فرق سے نابلد محض تھا۔ شاید خدا بھی (نعوذ باﷲ) قبل اور عند کے درمیان فرق نہیں جانتا تھا۔
قرینہ نمبر:۹… آیت کریمہ: ’’ وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ میں ’’ رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ کے معنی تمام امت نے متفقہ طور پر رفع جسمانی کے کئے ہیں۔ چونکہ ’’ رفعہ اﷲ ‘‘ کے معنوں میں تمام امت کا اجماع ہے۔ اس واسطے امت قادیانی کو اجماع امت ماننا پڑے گا۔ یہ میں نہیں کہتا بلکہ بالفاظ مرزاآنجہانی پیش کرتا ہوں۔
’’جو شخص کسی اجماعی عقیدہ کا انکار کرے تو اس پر خدا اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرا مقصود ہے اور یہی میری مراد مجھے اپنی قوم سے اصول اجماعی میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘
(انجام آتھم ص۱۴۴، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
کیا کوئی قادیانی ایسا ہے جو قرآن ،حدیث یا لغت عرب میں سے کسی میں یہ دکھائے کہ ’’ وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ میں قتل اور رفع جس ترکیب کے ماتحت استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی قتل کی نفی کرکے اس کے بعد رفع کا اعلان کیاگیا ہو تو وہاں رفع کے معنی قبض روح بھی ممکن ہے۔ ہم اعلان کرتے ہیں کہ کوئی قادیانی قیامت تک ایسے موقع پر رفع کا معنی قبض روح نہیں دکھا سکے گا۔
قرینہ نمبر:۱۰… یہ تمام امتوں کا مسلمہ اور متفقہ مسئلہ ہے کہ انبیاء کے لئے ہجرت کرنا مسنون ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے۔
’’ہر ایک نبی کے لئے ہجرت مسنون ہے اور مسیح نے بھی اپنی ہجرت کی طرف انجیل میں اشارہ فرمایا ہے اور کہا کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۱۰۶ حاشیہ)
’’ہجرت انبیاء علیہم السلام میں سنت الٰہی یہی ہے کہ وہ جب تک نکالے نہ جائیں ہرگز نہیں نکلتے اور بالاتفاق مانا گیا ہے کہ نکالنے یا قتل کرنے کا وقت صرف فتنہ صلیب کا وقت تھا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۱۰۸)
اس اصول سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر دوسرے نبیوں کے طریقے پر ہجرت کرنا ضروری تھا یہ بھی معلوم ہوا کہ فتنہ صلیب سے پہلے انہوں نے ہجرت نہیں کی تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ہجرت سے مراد بے عزتی سے نکل کر عزت حاصل کرنا ہے۔
مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ یہ ہجرت صلیب پر چڑھنے، بے عزت ہونے اور وجود میں میخیں ٹھوکے جانے، منہ پر تھوکے جانے اور یہودیوں کی طرف سے طمانچے کھانے اور قبر میں تین دن تک مردوں کی طرح پڑا رہنے کے بعد اس طرح ہوئی کہ ان کے زخموں کا علاج کیاگیا۔ وہ اچھے ہوئے حواریوں کو چھوڑ کر چپکے چپکے بھاگے بھاگے افغانستان کی راہ لی۔ درۂ خیبر میں سے ہوتے ہوئے پنجاب، یوپی، نیپال، جموں کے راستہ کشمیر میں جاکر سانس لیا۔ وہاں ۸۷ سال زندہ رہ کر خاموشی میں مرگئے۔
سبحان اﷲ! قادیانی نے اپنے اس بیان کے ثبوت میں کوئی ثبوت کلام اﷲ سے، حدیث سے، انجیل سے یا تاریخ سے پیش نہیں کیا۔ لہٰذا یہ سارا واقعہ ایجاد مرزا سمجھ کر مردود قرار دیا جائے گا۔ ہم سے سنئے حضرت مسیح علیہ السلام کی ہجرت کا حال۔
وقت ہجرت تو وہی تھا جو قادیانی نے بیان کیا۔ یعنی فتنہ صلیب کا وقت۔ ہجرت مسیح میں اﷲتعالیٰ نے کئی باتوں کا خیال رکھا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام میں ملکوتیت کا غلبہ تھا۔ کلمتہ اﷲ تھے۔ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ یہود ان کی پیدائش کو ناجائز قرار دیتے تھے۔ اس واسطے اﷲتعالیٰ نے ان کی ہجرت کو بھی آسمان کی طرف رفع کو قرار دیا۔ وہاں وہ قرب الٰہی صحبت ملائکہ اور آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور قرب قیامت میں آکر پھر اپنی گمراہ امت اور اپنے منکر یہودیوں کو دائرہ اسلام میں داخل کریں گے۔ یہ ہے ہجرت عیسوی کی حقیقت۔
کوئی قادیانی کبھی یہ نہیں دکھا سکتا کہ نبی بعد ہجرت کے مصائب وآلام برداشت کر کے گمنامی کی زندگی بسر کرنے کے بعد مرگیا ہو۔ بلکہ نبی بعد ہجرت کے ضرور کامیاب اور عزت حاصل کر کے رہتا ہے۔ قادیانی کی مزعومہ بے سروپا ہجرت مسیحی میں کون سی بات لائق ہجرت انبیاء ہے؟ چونکہ حسب قول مرزاقادیانی حضرت مسیح علیہ السلام نے صلیب سے پہلے تو ہجرت نہیں کی تھی اور واقعہ صلیب کے بعد قرآن اور حدیث اور تاریخ سے ان کی ارضی زندگی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ واقعہ صلیب کے زمانہ ہی میں وہ کہیں ہجرت کر گئے تھے اور وہ جگہ قرآن وحدیث اور اجماع امت کی رو سے آسمان ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ’’ انی متوفیک ‘‘ کے معنی ’’میں تجھ کو مارنے والا ہوں‘‘ غلط ہیں۔
قرینہ نمبر:۱۱… یہود نے بہت سے سچے رسولوںکو جھوٹا سمجھ کر قتل کرادیا تھا۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔
سورۂ بقرہ:۶۱ وسورۂ آل عمران:۲۱ میں ’’ ویقتلون النبیین ‘‘ پھر سورۂ آل عمران :۱۱۲ میں دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ’’ ویقتلون الانبیاء بغیر حق ‘‘ یعنی یہود ناحق اﷲتعالیٰ کے نبیوں کو قتل کر دیتے تھے اور یادرہے کہ صلیب دینا بھی قتل ہے۔
جیسا کہ خود مرزاقادیانی (تحفہ گولڑویہ ص۲۰،۲۲، خزائن ج۱۷ ص۱۰۶،۱۰۸) پر تسلیم کرتے ہیں۔ نیز (ایام الصلح ص۱۱۳،۱۱۴، خزائن ج۱۴ ص۳۵۰،۳۵۱) پر صلیبی موت کو قتل ہی تسلیم کیا ہے اور اپنے زعم باطل میں یہودی ان تمام نبیوں کو جھوٹے نبی سمجھ کر قتل کرتے تھے۔ لہٰذا ان سب کو وہ ملعون ہی قرار دیتے تھے۔ ایسا ہی انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو سمجھا۔ (معاذ اﷲ)

اب سوال یہ ہے کیا وجہ ہے کہ
صرف حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں رفع کا لفظ استعمال کیا ہے اور کسی نبی کے حق میں استعمال نہیں فرمایا؟
اگر اس کے معنی قبض روح یا رفع روحانی لئے جائیں تو کیوں دوسرے نبیوں کی خاطر یہ لفظ استعمال نہیں کیاگیا،۔ کیا ان کی طہارت بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی؟
معلوم ہوا کہ ’’ رافعک ‘‘ کے معنی رفع جسمانی کے بغیر اس آیت میں ممکن ہی نہیں۔ پس جب یہ ثابت ہوا تو ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ’’ انی متوفیک ‘‘ کے معنی سوائے قبض جسمانی اور پورا لینے کے ممکن ہی نہیں۔ کیونکہ رفع جسمانی سے پہلے مارنے کی کیا ضرورت تھی؟
بلکہ موت سے بچانے کے لئے رفع جسمانی عمل میں آیا۔
قرینہ نمبر:۱۲… توفی کے معنی قادیانی کے زعم باطل میں سوائے موت دینے کے اور ہوتے ہی نہیں اور مراد اس سے وہ طبعی موت لیتا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں جہاں توفی سے مراد موت لی گئی ہے۔ وہاں ہر قسم کی موت ہے نہ کہ طبعی موت، کوئی ایک جگہ بھی تمام کلام اﷲ سے پیش نہیں کی جاسکتی۔ جہاں توفی کے معنی صرف طبعی موت ہی لئے گئے ہوں۔ پھر یہاں کیوں طبعی موت سے مارنا معنی لئے جائیں؟ اگر صرف موت کے معنی لئے جائیں تو اس میں یہود کے دعویٰ کی تائید ہے نہ کہ تردید اور اس میں بجائے حضرت مسیح علیہ السلام کو یہودیوں کی سازشوں کے خلاف تسلی دینے کے یہودیوں کی کامیابی کا یقین دلایا گیا ہے۔ صلیب بھی قتل کی ایک صورت ہے۔ جیسا کہ میں قادیانی کے اپنے الفاظ سے ثابت کر چکا ہوں اور قتل موت کا ایک ذریعہ ہے۔ یعنی مقتول کے لئے بھی ہم کہہ سکتے ہیں۔ ’’ توفاہ اﷲ یا اماتہ اﷲ ‘‘ جیسا کہ کلام اﷲ میں توفی کا لفظ سب قسم کی موتوں کے لئے خود قادیانی تسلیم کرتا ہے۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قتل کیا جانا ہر ایک کو معلوم ہے۔ یعنی وہ قتل کی موت مرے تھے۔ مگر پھر بھی اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’ سلام علیہ یوم ولد ویوم یموت (مریم:۱۵) ‘‘ {یعنی سلام ہے ان پر جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن وہ فوت ہوئے۔} ثابت ہوا کہ اس آیت میں توفی کے معنی طبعی موت کرنا تمام کلام اﷲ کے خلاف ہے اور صرف مارنا کے معنی لینا اس میں یہود کی کامیابی کا اعلان ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی کوئی تسلی نہیں۔ اس واسطے ثابت ہوا کہ ’’انی متوفیک‘‘ میں توفی کے معنی یقینا جسم وروح دونوں پر قبضہ کر کے یہود نامسعود کے ہاتھوں سے حضرت مسیح علیہ السلام کو محفوظ کر لینے کا اعلان ہے۔
قرینہ نمبر۱۳…: ’’ وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ اس آیت میں قتل اور رفع کے درمیان تضاد ظاہر کیاگیا ہے۔ قادیانی ’’ رفعہ اﷲ ‘‘ کے معنی کرتے ہیں کہ خدا نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو طبعی موت سے مارلیا۔ صلیبی موت سے بچا کر طبعی موت دینا لعنت کے خلاف ہے۔ ادھر یہ بھی کہتے ہیں کہ: ’’ انی متوفیک ‘‘ میں بھی یہی اعلان ہے کہ اے عیسیٰ علیہ السلام تو لعنتی موت یعنی صلیبی موت پر نہیں مرے گا۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ
پھر یہاں توفی کا لفظ کیوں استعمال نہیں کیاگیا۔ قتل اور رفع روحانی میں تو کوئی ضد اور مخالفت نہیں۔ کیا حضرت یحییٰ علیہ السلام کو یہود نے قتل نہیں کیا تھا؟
اﷲتعالیٰ نے ان کے حق میں ایسا اعلان کہیں نہیں کیا۔ حالانکہ یہود انہیں بھی نعوذ باﷲ ایسا ہی ملعون سمجھتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو۔ علاوہ ازیں بل کا لفظ بتارہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مزعومہ قتل اور رفع کا وقت ایک ہی ہے۔ مثلاً جب یوں کہا جائے کہ زید نے روٹی نہیں کھائی بلکہ دودھ پیا ہے۔ اس فقرہ میں روٹی کھانے کا انکار اوردودھ پینے کا اقرار ایک ہی وقت سے متعلق ہیں۔ یہ نہیں کہ روٹی تو نہیں کھائی تھی ایک سال پہلے اور دودھ پیا تھا کل، بلکہ روٹی نہ کھانے اور دودھ پینے کے فعل ایک ہی وقت سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح نفی قتل یعنی قتل نہ کیاجانا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اور ان کا رفع عمل میں آنا ایک ہی وقت میں وقوع پذیر ہوئے تھے۔ مگر قادیانیوں کے نزدیک آپ کا رفع روحانی واقعہ صلیب کے ۸۷سال بعد کشمیر میں ہوا۔ اس سے بھی ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ پس توفی عیسیٰ علیہ السلام کے معنی موت کرنے ناممکن ہیں۔
قرینہ نمبر:۱۴… یہود کے مکر کا نتیجہ تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو موت کا سامنے نظر آنا۔ اس کے بالمقابل خدا کے مکر کا ظہور حیات جسمانی کی صورت میں ہونا چاہئے۔ اس ظہور مکر کا وعدہ ’’ انی متوفیک ورافعک ‘‘ کے الفاظ سے پورا کیاگیا۔ پس ثابت ہوا کہ یہاں توفی موت کے مقابل پر استعمال کیاگیا ہے۔ لہٰذا اس کے معنی موت دینا مضحکہ خیز ٹھہرتا ہے۔
ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ اگر ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ میں ہم مرزاقادیانی کی ضد مان کر، واو کو خلاف علوم عربیہ ترتیب وقوعی کے لئے قبول بھی کر لیں تو پھر بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت ثابت نہیں ہوسکتی۔ بلکہ اس صورت میں بھی یقینا ان کی حیات ہی ثابت ہوتی ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حیات عیسیٰ علیہ السلام پر قرآنی دلیل نمبر : 3
آیت عربی میں اعراب کے بغیر:
و قولهم انا قتلنا المسيح عيسى ابن مريم رسول الله و ما قتلوه و ما صلبوه و لکن شبه لهم و ان الذين اختلفوا فيه لفي شک منه ما لهم به من علم الا اتباع الظن و ما قتلوه يقينا آیت 157 بل رفعه الله اليه و کان الله عزيزا حکيما آیت 158

آیت عربی میں اعراب کے ساتھ:
’’وَّقَوْلِـہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللہِ۝۰ۚ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰكِنْ شُبِّہَ لَہُمْ۝۰ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْہِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْہُ۝۰ۭ مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ۝۰ۚ وَمَا قَتَلُوْہُ يَقِيْنًۢا۝۱۵۷ۙ بَلْ رَّفَعَہُ اللہُ اِلَيْہِ۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا۝۱۵۸
(نسائ:۱۵۷،۱۵۸)‘‘

اس آیت مبارکہ میں اﷲتعالیٰ ببانگ دہل اعلان فرمارہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھالئے گئے تھے۔ ترجمہ ہم اس آیت مبارکہ کا اس ہستی کے الفاظ میں پیش کرتے ہیں کہ جس کے انکار پر قادیانی عقیدہ کے مطابق آدمی کافر وفاسق ہو جاتا ہے۔ یعنی مجدد صدی نہم جو امام جلال الدین سیوطی کے اسم گرامی سے دنیائے اسلام میں مشہور ہیں۔
’’اور لعنت کی ہم نے یہود پر اس وجہ سے بھی کہ وہ فخر کے ساتھ کہتے تھے کہ یقینا ہم نے عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا ہے۔ اﷲتعالیٰ ان کے دعویٰ قتل کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں اور نہ قتل کر سکے یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اور نہ پھانسی پر ہی لٹکا سکے ان کو۔ بلکہ بات یوں ہوئی کہ یہود کے لئے حضرت مسیح علیہ السلام کی شبیہ بنادی گئی اور وہی قتل کیاگیا اور سولی دیا گیا اور وہ یہود کا آدمی تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہمراہ۔ یعنی تفصیل اس کی یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صورت وشبیہ یہود کے آدمی پر ڈال دی اور یہود نے اس شبیہ عیسیٰ علیہ السلام کو عین عیسیٰ علیہ السلام سمجھ لیا اور تحقیق جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں اختلاف کیا،۔ وہ ان کے قتل کے متعلق شک میں مبتلا تھے۔ کیونکہ ان میں سے بعض نے جب مقتول کو دیکھا تو کہنے لگے کہ اس کا منہ تو بالکل عیسیٰ علیہ السلام کاہے اور باقی جسم اس کا معلوم نہیں ہوتااور باقی کہنے لگے کہ نہیں بالکل وہی ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے بارہ کوئی یقینی علم نہیں ہے۔ بلکہ صرف اس ظن کی پیروی کرنے لگے۔ جو خود انہوں نے گھڑ لیا اور یقینی بات ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اٹھا لیا اﷲتعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اور اﷲتعالیٰ اپنی بادشاہی میں بڑا زبردست اور اپنے کاموں میں بڑا ہی حکمت والا ہے۔‘‘
(تفسیر جلالین ص۹۱، زیر آیت کریمہ)
ناظرین! اس تفسیر کے بعد حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی قادیانی دم نہیں مار سکتا۔ کیونکہ ہم نے ان کے اپنے مسلم امام اور مجدد کے الفاظ کا اردو میں ترجمہ کر دیا ہے۔ اگر انکار کریں تو رسالہ ہذا کے ابتداء میں درج شدہ قادیانی عقائد واصول سامنے رکھ دیں۔ اب ہم کچھ نکات اس آیت کریمہ کی فصاحت وبلاغت اور اس کے الفاظ کی بندش کے متعلق عرض کرتے ہیں۔
۱… اس آیت میں لعنت یہود کا سبب صرف ان کا دعویٰ قتل قراردیاگیا ہے۔ یعنی یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کوئی ایسا فعل نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے وہ قابل لعنت ٹھہرائے جاتے۔ یعنی اﷲتعالیٰ کے علم کے مطابق یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ صلیب پر چڑھایا اور نہ ان کے ہاتھوں میں میخیں لگائیں۔ نہ ان کے منہ پر تھوکا گیا۔ اگر فی الواقع ایسا ہوا ہوتا تو اﷲتعالیٰ ضرور لعنت کا سبب ان کے فعل کو ٹھہراتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات گرامی تک یہود کو پہنچنے تک نہیں دیا۔
۲… ’’ انا قتلنا ‘‘ یعنی ہم نے یقینا قتل کر دیا۔ ان الفاظ میں اﷲتعالیٰ یہود کا دعویٰ بیان فرماتے ہیں۔ یعنی یہود کا یقین تھا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ضرور قتل کر دیا تھا۔
۳… ’’ قتلنا ‘‘ یعنی ’’قتل کر دیا ہم نے‘‘ ان الفاظ میں قتل کا اعلان ہے اور قتل صلیب موت کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صلیبی موت ہی کے قائل تھے۔
خود مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔
’’یہود نے خوب سمجھا تھا۔ مگر بوجہ صلیب حضرت مسیح کے ملعون ہونے کے قائل ہوگئے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۴، خزائن ج۱۷ ص۱۰۹)
پھر تحریر کرتے ہیں۔
’’نالائق یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو قتل کرنے کے لئے صلیب پر چڑھادیا تھا… یہودی اسے صرف صلیب دینا چاہتے ہیں کسی اور طریق سے قتل کرنا نہیں چاہتے کیونکہ یہودیوں کے مذہب کی رو سے جس شخص کو صلیب کے ذریعہ سے قتل کیا جائے خدا کی لعنت اس پر پڑ جاتی ہے۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۱۱، خزائن ج۱۴ ص۳۴۸،۳۴۹)
پس ثابت ہوا کہ قتل عیسیٰ علیہ السلام کے دعویٰ میں یہود کا مقصد قتل بالصلیب ہی تھا۔ یعنی صلیبی موت کے لئے قتل کا لفظ خود یہود نے استعمال کیا۔
۴…
’’ وما قتلوہ ‘‘ میں اﷲتعالیٰ یہود کے دعویٰ قتل عیسیٰ بالصلیب کی تردید کر رہے ہیں۔ یہود کا دعویٰ تھا۔ جیسا کہ ہم اقوال مرزا سے ثابت کر آئے ہیں کہ ہم (یہود) نے عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب کے ذریعہ قتل کر دیا ہے۔ اﷲتعالیٰ نے اسی فعل کی نفی کا اعلان کردیا۔ یعنی یہود حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب کے ذریعہ بھی قتل کرنے پر قادر نہ ہوسکے۔
۵… ’’ وما صلبوہ ‘‘ اس فقرہ میں اﷲتعالیٰ یہود کے دعویٰ قتل المسیح بالصلیب کی تردید کے بعد سولی پر چڑھا سکنے کی بھی نفی فرماتے ہیں۔ یعنی یہود تو حضرت مسیح علیہ السلام کو سولی پر بھی نہیں چڑھا سکے۔ قربان جاؤں کلام اﷲ کی فصاحت وبلاغت پر اگر ’’ وما قتلوہ ‘‘ کے بعد ’’ وما صلبوہ ‘‘ نہ ہوتا تو مرزاقادیانی بڑی آسانی سے تحریف قرآنی کر سکتا تھا۔ کیونکہ وہ کہہ سکتا تھا۔ جیسا کہ وہ اب کہتا ہے کہ قتل نہ کر سکے۔ مگر سولی پر ضرور لٹکایا گیا تھا اور واقعی اس وقت مرزاقادیانی کو تحریف کے لئے کچھ گنجائش مل سکتی تھی۔ مگر اب تو باری تعالیٰ نے ’’ وما صلبوہ ‘‘ کا فقرہ بڑھا کر مرزاقادیانی کی تحریف کا مکمل سدباب کر دیا ہے۔ لیکن مرزاقادیانی نے پھر ایک اور چال چلی۔ صلب کے معنی قرآن، حدیث اور لسان عرب کے خلاف سولی پر مرنا یا مارنا مشتہر کر دئیے۔ مگر قیامت تک علماء اسلام کا لاجواب چیلنج قائم رہے گا کہ صلب کے معنی صرف سولی پرکھینچنا ہیں۔ موت صلب کے ساتھ ضروری نہیں۔ یعنی صلب کے معنی سولی پر مارنا نہیں۔
دلائل اسلامی ملاحظہ کیجئے۔
الف… اگر صلب کے معنی پھانسی پر مارنا ہوتے تو یہود بجائے ’’ قتلنا ‘‘ کے ’’ صلبنا ‘‘ کہتے۔ کیونکہ یہود حضرت مسیح علیہ السلام کے سولی پر چڑھانے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔
ب… اگر ’’ وما صلبوہ ‘‘ کے معنی ’’یہود حضرت مسیح علیہ السلام کو سولی پر نہ مار سکے‘‘ صحیح ہوتے تو صرف ’’وما قتلوہ‘‘ یا ’’ ماصلبوہ ‘‘ ہی کافی تھا۔ دوبارہ ’’ صلبوہ ‘‘ لانے کی کیا ضرورت تھی۔
ج… کسی مجدد مسلمہ قادیانی نے تیرہ سو ترپن سال تک ’’ ماصلبوہ ‘‘ کے معنی ’’صلیب پر مارنے‘‘ کے نہیں کئے۔
دحضرت شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی قادیانی جماعت کے مسلم مجدد صدی دوازدہم ’’ وما صلبوہ ‘‘ کے معنی کرتے ہیں۔
’’وبردار نکردند اورا‘‘ اور شاہ عبدالقادر صاحب مجدد صدی سیزدہم فرماتے ہیں ’’اور نہ سولی پر چڑھایا اس کو۔‘‘
ھغیاث اللغات وصراح میں ہے۔ صلب، بردار کردن (سولی پر چڑھانا)
و… اگر صلب کے معنی ’’پھانسی پر مارنے‘‘ کے قبول کر لئے جائیں تو قادیانی ہمیں بتلائیں کہ صرف سولی پر چڑھانے کے لئے عربی زبان میں کون سا لفظ ہے۔ سوائے صلب کے اور کوئی لفظ ہے ہی نہیں۔
ز… خود مرزاقادیانی کی زبان اور قلم سے باری تعالیٰ نے ہماری تائید کرادی ہے۔ اقوال مرزا ’’خدا نے مسیح کو وعدہ دیا کہ میں تجھے صلیب سے بچاؤں گا۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۵، خزائن ج۷ ص۴۴)
دیکھئے! یہاں بقول مرزاقادیانی خدا ’’ صلیب ‘‘ سے بچانے کا وعدہ کر رہے ہیں۔ صرف ’’ صلیبی موت ‘‘ سے بچانے کا وعدہ نہیں۔
پھر لکھتے ہیں: ’’انہوں نے اس فکر کی وجہ سے تینوں مصلوبوں کو صلیب پر سے اتارلیا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۸۱، خزائن ج۳ ص۲۹۶)
دیکھئے یہ تینوں مصلوب اتار لئے جانے کے وقت زندہ تھے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی اسی صفحہ پر اقرار کرتے ہیں۔ جائے عبرت ہے کہ مرزاقادیانی کے قلم سے اﷲتعالیٰ نے صلب کا اسم مفعول ’’مصلوب‘‘ صرف ’’سولی پر چڑھائے گئے‘‘ کے معنوں میں استعمال کر کے ابوعبیدہ کی آہنی گرفت کا سامان مہیا کر دیا۔ کیونکہ اگر صلب کے معنی سولی پر مارنا صحیح ہوتے تو مصلوب کے معنی سولی پر مارا ہوا ہونا چاہئے۔ لیکن مرزاقادیانی خود مصلوب کو ’’سولی دیا گیا‘‘ مانتے ہوئے اس کا زندہ ہونا بھی تسلیم کرتے ہیں۔
ح… صلیب کی حقیقت بھی ہم بالفاظ مرزاقادیانی عرض کرتے ہیں۔ جس سے معزز ناظرین کو یقین ہو جائے گا کہ صلب یعنی صلیب پر چڑھانے کا نتیجہ لازمی طور پر موت نہیں ہوتا تھا۔ لکھتے ہیں: ’’بالاتفاق مان لیاگیا ہے کہ وہ صلیب اس قسم کی نہیں تھی۔ جیسا کہ آج کل پھانسی ہوتی ہے اور گلے میں رسہ ڈال کر ایک گھنٹہ میں کام تمام کیا جاتا ہے۔ بلکہ اس قسم کا کوئی رسہ گلے میں نہیں ڈالا جاتا تھا۔ صرف بعض اعضاء میں کیلیں ٹھونکتے تھے اور پھر احتیاط کی غرض سے تین تین دن مصلوب بھوکے پیاسے صلیب پر چڑھائے رہتے تھے اور بعد اس کے ہڈیاں توڑی جاتی تھیں اور پھر یقین کیا جاتا تھا کہ اب مصلوب مرگیا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۸۱، خزائن ج۳ ص۲۹۶)
محترم ناظرین! غور کیجئے کہ اگر مصلوب جو صلب کا اسم مفعول ہے کہ معنی ’’سولی پر مرا ہوا یا مارا ہوا‘‘ ٹھیک ہوں تو وہ مرا ہوا آدمی بھی کبھی بھوکا پیاسا ہوسکتا ہے؟ جیسا کہ مرزاقادیانی مصلوب کا بھوکا پیاسا ہونا تسلیم کر رہے ہیں۔ نیز اگر مصلوب کے معنی پھانسی پر مارا ہوا صحیح ہوں تو پھر مرزاقادیانی کے فقرہ ’’مصلوب مرگیا‘‘ کے معنی کیا ہوں گے۔ یہی نہ کہ پھانسی پر مارا ہوا مرگیا۔ جو بالکل واہیات ہے۔ ’’مصلوب مرگیا‘‘ کا فقرہ جبھی بامعنی فقرہ قرار دیاجاسکتا ہے۔ جب کہ مصلوب کے معنی صرف سولی پر لٹکایا گیا۔ یعنی صلب کے معنی صرف سولی پر لٹکانا بغیر موت کے لئے جائیں۔
ط… اگر ’’ وما صلبوہ ‘‘ کے معنی حسب قول مرزاقادیانی ہم قبول کر لیں۔ یعنی یہ کہ ’’یہود حضرت مسیح علیہ السلام کو سولی پر چڑھانے میں کامیاب ہوگئے۔ انہیں تازیانے لگاتے رہے۔ ان کے منہ پر تھوکتے رہے اور ان کے اعضاء میں کیلیں ٹھونکنے میں بدرجہ اتم کامیاب رہے۔ لیکن خدا نے صلیب پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جان نہ نکلنے دی تو یہ سارا مضمون ’’ ومکروا ومکر اﷲ واﷲ خیر الماکرین ‘‘ کے خلاف جاتا ہے۔ کیونکہ قادیانی معنوں کی صورت میں یہود کا مکر خدا کے مکر پر غالب رہتا ہے۔ حالانکہ خدا ’’ خیر الماکرین ‘‘ ہے۔ یعنی بہترین تدبیر کنندہ ہے۔ پس ان نو دلائل سے نتیجہ یہ نکلا کہ صلب کے معنی صرف سولی پر چڑھانا ہی ہیں۔ موت اس کے ساتھ لازم نہیں اور اس آیت میں خداتعالیٰ حضرت مسیح علیہ السلام کے صلب پر چڑھائے جانے ہی کی نفی کر رہے ہیں۔‘‘
’’ انا قتلنا المسیح ‘‘ کے جملہ سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہود قتل مسیح کا دعویٰ بڑے جزم کے ساتھ کرتے تھے۔ محض اس کہنے سے کہ ہم (یہود) نے مسیح علیہ السلام کو قتل کر دیا۔ کوئی وجہ لعنت کی نظر نہیں آتی۔ اگر قتل وصلب فی الواقع کسی شخص پر بھی واقع نہ ہوئے ہوتے تو اﷲتعالیٰ اپنی کلام بلاغت نظام میں ’’ بقولہم ‘‘ کی بجائے ’’ بکذبہم ‘‘ یعنی ان کے جھوٹ بولنے کے سبب ان کے ملعون ہونے کا اعلان کرتے۔ مگر چونکہ قتل وصلب کے افعال ضرور کسی نہ کسی شخص پر واقع ہوئے تھے۔ اس واسطے اﷲتعالیٰ نے یہ جواب نہیں دیا کہ ’’ وما قتلوہ احدا ولا صلبوا ‘‘ یا ’’ وما قتل احد ولا صلب ‘‘ یعنی یہود نے تو نہ کسی کو قتل کیا اور نہ پھانسی دیا یا نہ کوئی قتل کیاگیا نہ پھانسی دیا گیا۔ ’’ وماقتلوہ وما صلبوہ ‘‘ میں ضمیر ’’ ہ ‘‘ کو استعمال کر کے بتادیا کہ قتل کا فعل اور پھانسی چڑھانے کا عمل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وارد نہیں ہوا۔ کسی اور پر وارد ہوا تھا۔ ملحض مضمون بالا۔
۱… یہود پر خداتعالیٰ نے لعنت کی اور اس لعنت کا سبب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل وصلب کے دعویٰ کو بطور فخر کے بیان کرنا قرار دیا۔
۲… اﷲتعالیٰ نے یہود کو قتل اور صلب محض کے دعویٰ میں جھوٹا قرار نہیں دیا۔ بلکہ قتل وصلب مسیح علیہ السلام کے دعویٰ کو جھوٹ قرار دیا۔ مطلب جس کا یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ بھی اس بات کو سچا فرمارہے ہیں کہ کوئی نہ کوئی شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام پر ضرور قتل کیاگیا اور صلیب دیا گیا اور یہ بات تواتر قومی سے ثابت ہے کہ ایک شخص ضرور پھانسی پر لٹکایا گیا اور قتل کیاگیا تھا۔ چنانچہ دنیا کے کروڑہا یہودی اور عیسائی کسی ایک شخص کے قتل وصلیب دیے جانے کا عقیدہ رکھنا۔ اپنے ایمان کا جزو قرار دیتے ہیں۔ اس شخص کو یہودی وعیسائی دونوں نے مسیح علیہ السلام سمجھا۔ اﷲتعالیٰ اس مقتول ومصلوب کے متعلق اعلان فرماتے ہیں کہ وہ مقتول ومصلوب حضرت عیسیٰ ابن مریم نہ تھا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ شخص کون تھا۔ جس کو یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام سمجھتے ہوئے پھانسی پر لٹکا دیا اور قتل کر دیا اور ان کے اتباع میں کروڑہا عیسائی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل بالصلیب کے قائل ہوگئے۔ اﷲتعالیٰ اس وہم کا ازالہ اپنی عجیب کلام میں عجیب فصیح وبلیغ طریقہ سے بیان فرماتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ’’ ولکن شبہ لہم ‘‘ جس کی پوری ترکیب (علم نحو کے جاننے والے پر مخفی نہیں) اس طرح ہوگی۔ ’’ ولکن قتلوا وصلبوا من شبہ لہم ‘‘ لیکن انہوں نے اس شخص کو قتل کیا اور صلیب پر چڑھایا جو ان کے لئے مسیح علیہ السلام کے مشابہ بنایا گیا تھا۔ مرزاقادیانی بیچارے علوم عربیہ سے محض کورے تھے۔ ہاں جس طرح بعض آدمی گورہ شاہی انگریزی بول لکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح مرزاقادیانی بھی عربی کی ٹانگ توڑ سکتے تھے۔ ہم ان کی عربی کا نام ’’ پنجابی عربی ‘‘ تجویز کرتے ہیں۔
’’ ولا کن شبہ ‘‘ جیسی ترکیبیں قرآن، حدیث اور عربی علم ادب کے ماہرین پر مخفی نہیں۔ ہم یہاں علم نحو کے مسلم امام ابن ہشام کا قول کتاب مغنی سے نقل کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: ’’ انہ لکن غیر عاطفۃ والواو عاطفۃ بجملۃ حذف بعضہا علیٰ جملۃ صرح بجمیعہا قال فالتقدیر فی نحو ما قام زید ولکن عمر ولاکن قام عمر ‘‘ ’’ ولاکن میں لاکن عطف کے لئے نہیں ہے اور واؤ عطف کرنے والی ہے۔ اس جملہ کو جو پوری طرح بیان کردیا گیا ہو۔ مثلاً ’’ ماقام زید ولاکن عمر ‘‘ والی مثال کو پورا پورا اس طرح لکھیں گے۔ ’’ ماقام زید ولاکن قام عمر ‘‘ نہیں کھڑا ہوا زید بلکہ کھڑا ہوا عمر۔‘‘ پر معلوم ہوا کہ ولاکن سے پہلے جس فعل کی نفی مذکور ہے۔ اسی کا اثبات ولاکن کے بعد والے فقرہ میں مطلوب ہے۔ صرف فعل کی نسبت فاعلی یا مفعولی میں تبدیلی ہو جاتی ہے۔ یعنی جس فعل کے واقع کی نفی کی جارہی ہے۔ صرف ایک خاص فاعل یا مفعول کے لحاظ سے کی جارہی ہے۔ ورنہ فی الواقع فعل واقع ضرور ہوا ہے۔ مثلاً مثال ’’ ماقام زید ولاکن عمر ‘‘ میں کھڑے ہونے کا عمل یا فعل واقع تو ضرور ہوا ہے۔ اس کی نفی اگر کی گئی ہے تو صرف زید کے لئے یعنی زید کھڑا نہیں ہوا۔ ’’ ولاکن ‘‘ کے بعد عمر مذکور ہے۔ پس اسی فعل کا وقوع عمر کے لئے ضروری ہو جاتا ہے۔ یعنی کوئی نہ کوئی کھڑا ضرور ہوا تھا۔ بعینہ اسی طرح ’’ وما قتلوہ وما صلبوہ ولاکن شبہ لہم ‘‘ میں ہے۔ یہاں باری تعالیٰ ’’ ولاکن ‘‘ سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل بالصلیب اور صلیب پر چڑھائے جانے کی نفی کا اعلان فرماتے ہیں۔ پھر اس کے بعد ’’ ولاکن ‘‘ کا استعمال فرما کر صاف صاف اعلان فرما رہے ہیں کہ قتل وصلب کے افعال ضرور وقوع پذیر ہوئے تھے۔ لیکن کس پر ہوئے تھے۔ (جواب) اس پر جس پر ڈالی گئی شبیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی۔ یہی تفسیر آئمہ مجددین مسلمہ قادیانی سے مروی ہے۔ اگر قادیانی اس کی تصدیق سے انکار کریں تو مرزاقادیانی کے فتویٰ کی رو سے کافر اور فاسق بننے کے لئے تیار ہو جائیں۔

(دیکھو اصول مرزا نمبر:۴)
آگے ارشاد باری ہے: ’’ وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ ما لہم بہ من علم الا اتباع الظن ‘‘ اور تحقیق وہ لوگ (عیسائی) جنہوں نے اس بارہ میں اختلاف کیا وہ تو بالکل شک میں ہیں۔ ان کو کوئی یقینی علم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں ہے ہی نہیں۔ صرف ظنی ڈھکوسلوں کا اتباع کرتے ہیں۔
نوٹ: ’’ ان الذین اختلفوا فیہ ‘‘ کے ’’ الذین ‘‘ میں یہود شامل نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ان کے متعلق تو پہلے ہی اعلان ہوچکا ہے۔ ’’ وقولہم انا قتلنا المسیح ‘‘ یعنی ہم نے یقینا مسیح علیہ السلام کو قتل کردیا ہے۔ قتل مسیح علیہ السلام کے بارہ میں یہود میں نہ کبھی اختلاف ہوا اور نہ اب ہے۔ ہاں عیسائیوں نے اس بارہ میں بہت اختلاف کیا ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے باب میں ذکر کر آئے ہیں۔ عیسائیوں میں بہت سے فرقے ہیں۔ کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ۔ چنانچہ انجیلوں کے پڑھنے والے پر مخفی نہیں۔ ان کے اختلاف کے متعلق باری تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے۔ ’’ مالہم بہ من علم الا اتباع اظن ‘‘ یعنی ان کو تو واقعات کا علم ہی نہیں وہ تو صرف ظن کی پیروی کر رہے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ عیسائی امت کے افراد موقعہ صلب وقتل کے وقت تو حاضر ہی نہ تھے۔ ان کو یقینی علم کہاں سے ملتا۔ چنانچہ حواریوں کا موقعہ سے بھاگ جانا خود مرزاقادیانی نے بھی تسلیم کیا ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے باب میں ذکر کر آئے ہیں۔
یہاں تک اﷲتعالیٰ نے یہود کے فخریہ دعویٰ قتل وصلب مسیح علیہ السلام کا رد کیا۔ آگے ان کے قتل مسیح علیہ السلام کے پختہ عقیدہ کا رد کرتے ہیں۔ یہود نے کہا۔ ہم نے یقینا قتل کیا مسیح علیہ السلام کو۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’ وما قتلوہ یقیناً ‘‘ یقینا یہود نے قتل نہیں کیا عیسیٰ علیہ السلام کو۔ ایک وہم تو پہلے پیدا ہوا تھا۔ یعنی یہ کہ اگر یہود نے مسیح علیہ السلام کو قتل نہیں کیا اور صلیب پر نہیں چڑھایا تو پھر کس کو چڑھایا۔ اس کا جواب ’’ ولکن شبہ لہم ‘‘ سے دیا۔ ’’یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کی شبیہ جس پر ڈالی گئی تھی اس کو قتل کیا اور سولی چڑھایا۔‘‘ یہاں ایک نیا وہم پیدا ہوتا ہے جو پہلے یہودیوں کو بھی لاحق ہوا اور قادیانی جماعت کو بھی آرام نہیں کرنے دیتا۔ وہ یہ کہ پھر حضرت مسیح علیہ السلام کہاں گئے وہ کیا ہوئے۔ اس کا ازالہ اس طرح بیان فرماتے ہیں۔
’’ بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘
{بلکہ اٹھا لیا اﷲتعالیٰ نے ان کو اپنی طرف یعنی آسمان کی طرف۔}
آگے اس رفع جسمانی کی حکمت بیان فرماتے ہیں۔
’’ وکان اﷲ عزیزاً حکیما ‘‘
{اور اﷲتعالیٰ بہت ہی زبردست اور بے حد حکمتوں والا ہے۔}
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم چند علمی نکات سے ناظرین رسالہ کی تواضع کریں۔
۱… ’’ بل ‘‘ ایک عربی لفظ ہے۔ جس کے استعمال سے باری تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے قادیانی ایسے محرفین کلام اﷲ کا ناطقہ بند کر دیا ہے۔ کتب نحو کے جاننے والوں سے پوشیدہ نہیں کہ ’’ بل ‘‘ کے بعد والے مضمون اور مضمون ’’ ماقبل ‘‘ کے درمیان تضاد کا ہونا ضروری ہے۔ مثلاً اگر کوئی یوں کہے کہ ’’زید آدمی نہیں بلکہ قادیانی ہے۔‘‘ تو یہ فقرہ ہر ذی عقل کے نزدیک غلط ہے۔ کیونکہ ’’ بل ‘‘ کے پہلے زید کے آدمی ہونے سے انکار ہے اور اس کے بعد اس کے قادیانی ہونے کا اقرار ہے۔ مگر ان دونوں باتوں میں کوئی مخالفت نہیں۔ کیونکہ آخر قادیانی بھی آدمی تو ضرور ہیں۔ پس صحیح فقرہ تو یوں چاہئے۔ ’’زید مسلمان نہیں بلکہ قادیانی ہے۔‘‘ کیونکہ کہنے والے کا مطلب اور عقیدہ یہ ہے کہ قادیانی کافر ہیں جو مسلمان کی ضد ہیں یا یہ فقرہ صحیح ہے۔ ’’زید آدمی نہیں بلکہ جن ہے۔‘‘ کیونکہ زید کے آدمی ہونے کی نفی کر کے اس کے جن ہونے کا اقرار ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ’’بل‘‘ کے پہلے اور مابعد والے مضمون میں ضد اور مخالفت ضروری ہے۔ قتل اور سولی پر چڑھانے اور زندہ اٹھائے جانے میں تو مخالفت ہے۔ مگر قتل اور روح کے اٹھانے میں کوئی مخالفت نہیں۔ بلکہ بے گناہ مقتول کا رفع روحانی تو تمام مذاہب کا ایک مسلمہ اصول ہے۔
۲… ’’ بل ابطالیہ ‘‘ میں جو یہاں باری تعالیٰ نے استعمال فرمایا ہے۔ ضروری ہے کہ: ’’ بل ‘‘ کے مابعد والے مضمون کا فعل، فعل ماقبل سے پہلے وقوع میں آچکا ہو۔ اس کی مثال یوں سمجھئے۔ مشرک کہتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے فرشتوں کو اپنی اولاد بنالیا ہے۔ نہیں یہ غلط ہے۔ بلکہ فرشتے تو اس کے نیک بندے ہیں۔ دیکھئے! یہاں بلکہ ( جس کو عربی میں ’’بل‘‘کہتے ہیں ) سے پہلے مشرکین کا قول فرشتوں کا اﷲتعالیٰ کی اولاد بتلانا مذکور ہے اور ’’ بل ‘‘ کے بعد فرشتوں کے اﷲتعالیٰ کے نیک بندے ہونے کا اعلان ہے۔ فرشتے خدا کے نیک بندے پہلے سے ہیں۔ مشرکین نے ان کے نیک ہونے کے بعد کہا کہ وہ اﷲ کی اولاد ہیں۔
دوسری مثال: ’’وہ کہتے ہیں زید لاہور گیا تھا۔ نہیں بلکہ وہ تو سیالکوٹ گیا تھا۔‘‘
دیکھئے! زید کا سیالکوٹ جانا پہلے وقوع میں آیا تھا۔ اس کے بعد لوگوں نے کہا تھا کہ وہ لاہور گیا تھا۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کو ’’ بل ‘‘ کے بعد استعمال کیاگیا ہے۔ اس لئے ضروری ہوا کہ آپ کا رفع پہلے کیاگیا تھا اور اس کے بعد یہود نے کہا کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کردیا ہے۔ اگر ’’ رفعہ اﷲ ‘‘ میں رفع سے رفع روحانی مراد لیا جائے جو حسب قول وعقیدہ قادیانی جماعت واقعہ صلیب کے ۸۷برس بعد طبعی موت سے کشمیر میں وقوع پذیر ہوا تھا تو پھر یہ کلام مرزاقادیانی کی کلام کی طرح ’’ پنجابی عربی ‘‘ بن کر رہ جائے گا۔ کیونکہ ’’ بل ‘‘ کا استعمال ہمیں اس بات کے ماننے پر مجبور کر رہا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع ہو چکا تھا۔ اس کے بعد یہود نے اعلان قتل کیا۔ قادیانی مذہب قیامت تک اس ’’ بل ‘‘ کے بل (لپیٹ) سے نہیں نکل سکتا۔ ہاں رفع جسمانی کی صورت میں قانون ٹھیک بیٹھتا ہے۔
۳… ’’ بل ‘‘ سے پہلے جس چیز کے قتل اور سولی کا انکار کیا جارہا ہے۔ اسی کے رفع یعنی اٹھا لینے کا اقرار اور اعلان ہورہا ہے۔ ’’ بل ‘‘ سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ جسم (مجموعہ جسم وروح) کے قتل وسولی سے انکار کیاگیا ہے۔ پس ’’ بل ‘‘ کے بعد رفع بھی جسم وروح کے متعلق ہوا اور اٹھانا صرف روح کا مذکور ہوتو یہ بالکل فضول کلام ہے۔ کیونکہ قتل کیا جانا اور سولی دیا جانا روح کے اٹھائے جانے کے مخالف نہیں۔ بلکہ ان دونوں سے بے گناہ مظلوم کا رفع روحانی یقینی ہو جاتا ہے۔
۴… ’’ بل ‘‘ سے پہلے اور ’’ بل ‘‘ کے بعد والے افعال میں جو مفعولی ضمیریں ہیں وہ ساری ایک ہی شخص کے لئے ہونی چاہئیں۔ پہلی ضمیریں ’’ وما قتلوہ وما صلبوہ ‘‘ میں سارے کی ساری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم وروح دونوں کی طرف پھرتی ہیں۔ اس کے بعد ’’ رفعہ اﷲ ‘‘ میں ’’ ہ ‘‘ کی ضمیر بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم وروح دونوں کے لئے ہے نہ کہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کے لئے۔
۵… یہود کا عقیدہ تھا کہ انہوں نے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو قتل کر دیا تھا۔ اکثر عیسائی ان کے اس عقیدہ سے متفق ہوکر کہنے لگ گئے کہ قتل تو کئے گئے۔ مگر پھر وہ بمعہ جسم آسمان پر اٹھا لئے گئے۔ دونوں قوموں کا یہ عقیدہ حضرت رسول کریمﷺ کے وقت میں اسی طرح موجود تھا۔ اگر رفع جسمانی کا عقیدہ غلط ہوتا اور جیسا کہ قادیانی کہتے ہیں۔ شرک ہوتا تو ضروری تھا کہ خدا اس موقعہ پر رفع کے ساتھ روح کا بھی ذکر کر دیتے۔ کیونکہ صرف رفع کے معنی بغیر قرینہ صارفہ کے جسم کا اوپر اٹھانا ہی ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ رفع کے معنی رفع جسمانی اور رفع روحانی دونوں طرح مستعمل ہیں تو بھی ایسے موقعہ پر خصوصیت کے ساتھ رفع روحانی کا اعلان کرنا چاہئے تھا تاکہ عیسائی عقیدہ رفع جسمانی کا انکار اور رد ہو جاتا ۔ بلکہ یہاں ایسا لفظ استعمال کیا کہ جس کے معنی تیرہ سو سال کے مجددین امت محمدیہﷺ اور صحابہ کرامؓ نے بھی وہی سمجھے جو عیسائی سمجھتے ہیں۔
۶… رفع جسمانی سے دونوں مذاہب باطلہ یہودیت اور عیسائیت کی تردید ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کہ جب یہود نے کہا ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا تھا اور پھانسی بھی دید یا تھا اور اس وجہ سے انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے (نعوذ باﷲ) لعنتی ہونے کا اعلان کر دیا تو عیسائیوں نے ان سے ہمنوأ ہو کر آپ کا ملعون ہونا تسلیم کر لیا۔ اس کے بعد کفارہ اور تثلیث کا باطل عقیدہ گھڑ لیا۔ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود کے ہاتھوں قتل اور سولی سے بچانے اور زندہ آسمان پر اٹھا لینے کا اعلان کر کے دونوں مذاہب کا باطل ہونا اظہر من الشمس کر دیا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے وقوع پذیر ہونے کا تو عیسائیوں کا پہلے سے عقیدہ ہے۔ مرزاقادیانی یا ان کی جماعت نے اس کو ثابت کر کے عیسائیت کے عقائد کی ایک گونہ تائید کی ہے۔ نہ کہ تردید۔
۷… رفع کے متعلق ہم ببانگ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ جب رفع یا اس کے مشتقات میں سے کوئی سالفظ بولا جائے اور اﷲتعالیٰ فاعل ہو اور مفعول جوہر ہو (عرض نہ ہو) اور اس کا صلہ الیٰ مذکور ہو۔ مجرور اس کا ضمیر ہو۔ اسم ظاہر نہ ہو اور وہ ضمیر فاعل کی طرف راجع ہو۔ وہاں سوائے آسمان پر اٹھا لینے کے دوسرے معنی ہوتے ہی نہیں۔ اس کے خلاف اگر کوئی قادیانی قرآن، حدیث یا کلام عربی سے کوئی مثال پیش کر سکے تو منہ مانگا انعام لے۔ لیکن یاد رکھیں قیامت تک ایسا کرنے سے قاصر رہیں گے اور آخر ذلیل ہوں گے۔
۸… قادیانی عقیدہ یہ ہے کہ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کرنے میں ناکام رہے اور صورت اس کی یہ ہوئی کہ عیسیٰ علیہ السلام کو انہوں نے پکڑ لیا۔ ان کو طمانچے مارے، ذلیل وخوار کیا۔ منہ پر تھوکا، سولی پر چڑھایا۔ ان کے جسم میں کیلیں ٹھونکی گئیں۔ اس درد وکرب سے وہ بیہوش ہوگئے۔ یہود انہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے۔ مگر فی الواقع اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کو ’’کمال قدرت اور حکمت‘‘ سے ان کے جسم سے جدا نہ ہونے دیا۔ یہی اﷲتعالیٰ کا مکریعنی تدبیر لطیف تھی۔ ہمارا یہاں یہ سوال ہے کہ اس سے ذرا پہلے یہود نامسعود کا فعل مذکور ہے۔ ’’ وقتلہم الانبیاء بغیر حق ‘‘ یعنی یہود انبیاء علیہم السلام کو ناحق قتل کرنے کے سبب ملعون قرار دئیے گئے۔ اب ظاہر ہے کہ یہود کے نزدیک وہ تمام انبیاء جھوٹے تھے اور یہود انہیں قتل کر کے ملعون ہی خیال کرتے تھے۔ کیونکہ وہ ہر مجرم واجب القتل کو لعنتی قرار دیتے تھے اور ذریعہ قتل ان کے پہلے صلیب پر لٹکانا اور بعد اس کے اس کی ہڈیاں توڑ توڑ کر مارڈالنا ہوتا تھا۔ جیسا کہ ہم اسی باب میں پہلے بیان کر آئے ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے یہود کے دعویٰ قتل انبیاء کا رد نہیں کیا۔ بلکہ اس قتل کو یہود کی لعنت کا باعث قرار دیا۔ اسی طرح اگر یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ذلیل وخوار کرنے اور صلیب پر چڑھانے میں کامیاب ہو جاتے تو اﷲتعالیٰ ’’ وقولہم ‘‘ کی بجائے ’’ وصلبہم ‘‘ فرماتے۔ اگر یہود قتل مسیح علیہ السلام میں کامیاب ہو جاتے تو ’’ وقولہم ‘‘ کی بجائے ’’ وقتلہم ‘‘ ارشاد ہوتا۔ لیکن ہر صورت میں ملعون یہود ہی ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع روحانی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ رفع روحانی کے لئے آدمی کے اپنے اعمال ذمہ دار ہیں۔ دنیامیں کوئی مذہب اس بات کا قائل نہیں کہ بے گناہ مصلوب ومقتول لعنتی ہو جاتا ہے۔ ہاں قادیانی مذہب کا اصول ہو تو ممکن ہے۔ کیونکہ اس کی ہر بات اچنبی اور اچھوتی ہے۔
مطلب اس ساری بحث کا یہ ہے کہ جس طرح دیگر انبیاء علیہم السلام کا باوجود مقتول ومصلوب ہو جانے کے خدا کے نزدیک رفع روحانی ہو چکا تھا اور ان کی صفائی کی ضرورت ہی درپیش نہیں ہوئی۔ اس طرح اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی مقتول یا مصلوب ہو جاتے تو اس کی صفائی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ کیونکہ وہ تو مظلوم تھے۔ پس ثابت ہوا کہ یہاں رفع سے مراد رفع روحانی نہیں بلکہ رفع جسمانی ہی ہے۔
۹… قادیانی نبی اور اس کی جماعت نے ’’ بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ میں رفع سے مراد عزت کی موت قرار دیا ہے۔ ہم چیلنج کرتے ہیں کہ تمام جہاں کے قادیانی قرآن یا حدیث یا کلام عرب سے رفع بمعنی عزت کی موت نہیں دکھا سکتے۔ اگر ایک ہی مثال ایسی دکھادیں تو علاوہ مقررہ انعام کے ہم دس ہزار روپے اور انعام دینے کا اعلان کرتے ہیں۔
اور اگر ایسی ایک بھی مثال پیش نہ کر سکیں اور یقینا قیامت تک بھی پیش نہ کر سکیں گے۔ پس کیوں وہ قیامت سے بے خوف ہوکر محض نفسانی اغراض کے لئے مخلوق خدا کو فریب اور دھوکا کا شکار کر رہے ہیں۔
۱۰… ’’ الی ‘‘ کے متعلق قادیانی اعتراض کیا کرتے ہیں کہ خدا کی طرف رفع سے مراد جسمانی رفع اس واسطے صحیح نہیں کہ خدا کچھ آسمان پر تھوڑا ہی بیٹھا ہوا ہے۔ وہ تو ہر جگہ موجود ہے۔ کیا خدا زمین پر موجود نہیں ہے۔ اس کا جواب ملاحظہ ہو۔

 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
آسمان پر اٹھانا

’’خدا بے شک ہر جگہ موجود ہے۔ لیکن چونکہ اوپر کی طرف میں ایک خاص عظمت ورعب پایا جاتا ہے۔ اس لئے کتب سماوی میں ’’ الیٰ اﷲ ‘‘ (خدا کی طرف) سے ہمیشہ آسمان کی طرف ہی مراد لی گئی ہے۔‘‘
دلائل ذیل ملاحظہ ہوں:
الف… قرآن کریم میں ارشاد باری ہے۔ ’’ أامنتم من فی السمائ ‘‘ کیا تم بے خوف ہوگئے۔ اس سے جو آسمانوں میں ہے۔ دیکھئے یہاں خدا کی طرف سے آسمان مراد لیاگیا ہے۔
ب… ’’ الیٰ ربک ‘‘ قرآن شریف میں وارد ہوا ہے۔ جس کے معنی ’’خدا کی طرف‘‘ ہیں۔ خود مرزاقادیانی نے اس کی تفسیر میں ’’ الیٰ السمائ ‘‘ یعنی آسمان کی طرف لکھا ہے۔
(تحفہ گولڑویہ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۱۰۸)
ج… قول مرزا’’خدا کی طرف وہ اونچی ہے جس کا مقام انتہائی عرش ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۱۰۸)
د
مسیح کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔
(ازالہ اوہام ص۲۶۴، خزائن ج۳ ص۲۳۳)
ھ… الہام مرزا: ’’ ینصرک رجال نوحی الیہم من السمائ ‘‘ یعنی ایسے لوگ تیری مدد کریں گے جن پر ہم آسمان سے وحی نازل کریں گے۔
(تبلیغ رسالت ج۲ ص۱۰۸، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۳۲۸)

پس ثابت ہوا کہ رفع الیٰ اﷲ سے مراد رفع الیٰ السماء ہی ہوتی ہے۔
۱۱… ’’ وکان اﷲ عزیزاً حکیما ‘‘ کے الفاظ نے تو اسلامی تفسیر کی صحت پر مہر تصدیق ایسی ثبت کر دی ہے کہ قادیانی قیامت تک اس مہر کو توڑ نہیں سکتے۔
اس کی تفسیر ہم قادیانیوں کے مسلمہ امام اور مجدد صدی ششم امام فخرالدین رازیؒ کے الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
’’ والمراد من العزۃ کمال القدرۃ ومن الحکمۃ کمال العلم فنبہ بہذا علیٰ ان رفع عیسیٰ من الدنیا الیٰ السمٰوات وان کان کالمتعذر علی البشر لکنہ لا تعذر فیہ بالنسبۃ الیٰ قدرتی والیٰ حکمتی ‘‘
(تفسیر کبیر جز۱۱ ص۱۰۳)
’’اور مطلب عزیز کا قدرت میں کامل، مطلب حکیم کا علم میں کامل ہے۔ پس ان الفاظ میں خداتعالیٰ نے بتلادیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دنیا سے آسمان کی طرف اٹھانا۔ اگرچہ انسان کے لئے مشکل سا ہے۔ مگر میری قدرت اور حکمت کے لحاظ سے اس میں کوئی وجہ باعث اشکال نہیں اور کسی قسم کا اس میں تعذر نہیں ہوسکتا۔‘‘
نوٹ: ہماری اس تفسیر سے جو قادیانی انکار کرے اس کو (مرزا قادیانی کا اصول نمبر:۴) پڑھ کر سنا دیں۔ پھر بھی اصرار کرے تو اسے کہیں کہ جواب لکھ کر ہم سے انعام طلب کرے۔

چیلنج
اس آیت کی تفسیر کا ملخص یہ ہے کہ یہ آیت ببانگ دہل اعلان کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا نے زندہ اسی جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھا لیا تھا اور یہی تفسیر رسول کریمﷺ، آپﷺ کے صحابہ کرامؓ نے سمجھی اور آئمہ مجددین مسلمہ قادیانی بھی انہیں معنوں پر جمے رہے۔ (کوئی قادیانی اس کے خلاف ثابت نہیں کر سکتا) پھر قادیانی علوم عربیہ سے نابلد محض ہونے کے باوجود کیوں اپنی تفسیر مخترعہ پر ضد کر کے اپنی آخرت خراب کر رہے ہیں۔ انہیں خدا کے قہر سے بے خوف نہیں ہونا چاہئے۔ ’’ ان بطش ربک لشدید ‘‘ کا ورد ہر وقت ان کے لئے ضروری ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حیات عیسیٰ علیہ السلام پر قرآنی دلیل نمبر:۴

عربی اعراب کے بغیر:
’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیامۃ یکون علیہم شہیدا (نسائ:۱۵۹) ‘‘
عربی اعراب کے ساتھ:
وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ۝۰ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكُوْنُ عَلَيْہِمْ شَہِيْدًا۝۱۵۹ۚ

یہ آیت بھی ڈنکے کی چوٹ اعلان کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں فوت نہیں ہوئے۔ اس آیت کا ترجمہ ہم ایسے بزرگوں کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں کہ اگر کسی قادیانی نے اپنی حماقت کے سبب اس کی صحت پر اعتراض کیا تو بحکم مرزاغلام احمد قادیانی کافر وفاسق ہو جائے گا۔

۴…
پھر اگر کسی وقت کلام اﷲ، حدیث رسول اﷲﷺ اور صحابہ کرامؓ کے کلام سمجھنے میں اختلاف رونما ہو جائے اور خلقت گمراہ ہونے لگے تو اﷲتعالیٰ ہر صدی میں ایسے علمائے ربانیین پیدا کرتا رہتا ہے۔ جو اختلافی مسائل کو خدا اور اس کے رسولﷺ کے حکم اور منشاء کے مطابق حل کر دیتے ہیں۔ چنانچہ رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے۔ ’’ ان اﷲ یبعث لہذہ الامۃ علیٰ رأس کل مائۃ سنۃ من یجدد لہا دینہا ‘‘
(ابوداؤد ج۲ ص۱۳۲، باب مایذکر فی قدر المائۃ)
’’یعنی اﷲتعالیٰ ہر صدی کے سر پر اس امت کے لئے ایسے علماء مفسرین پیدا کرتا رہے گا۔ جو اس کے دین کی تجدید کرتے رہیں گے۔‘‘ اس کی تائید مرزاقادیانی اس طرح کرتے ہیں:
’’جو لوگ خداتعالیٰ کی طرف سے مجددیت کی قوت پاتے ہیں وہ نرے استخواں فروش نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ واقعی طور پر نائب رسول اﷲﷺ اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں۔ خداتعالیٰ انہیں تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے۔ جو نبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں۔‘‘
(فتح اسلام ص۹، خزائن ج۳ ص۷)

پھر دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’مجدد کا علوم لدنیہ وآیات سماویہ کے ساتھ آنا ضروری ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۵۴، خزائن ج۳ ص۱۷۹)
تیسری جگہ لکھتے ہیں:
’’یہ یاد رہے کہ مجدد لوگ دین میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتے۔ گم شدہ دین کو پھر دلوں میں قائم کرتے ہیں اور یہ کہنا کہ مجددوں پر ایمان لانا کچھ فرض نہیں۔ خدا تعالیٰ کے حکم سے انحراف ہے۔‘‘ وہ فرماتا ہے: ’’ من کفر بعد ذالک فاؤلئک ہم الفاسقون ‘‘
(شہادۃ القرآن ص۴۸، خزائن ج۶ ص۳۴۴)
چوتھی جگہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
’’مجددوں کو فہم قرآن عطا ہوتا ہے۔‘‘
(ایام الصلح ص۵۵، خزائن ج۱۴ ص۲۸۸)
پانچویں جگہ ارشاد ملاحظہ کریں:
’’مجدد مجملات کی تفصیل کرتا اور کتاب اﷲ کے معارف بیان کرتا ہے۔‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۷۵، خزائن ج۷ ص۲۹۰)
چھٹی جگہ لکھا ہے:
’’مجدد خدا کی تجلیات کا مظہر ہوتے ہیں۔‘‘
(سراج الدین عیسائی ص۱۵، خزائن ج۱۲ ص۳۴۱)

اس سارے مضمون کا نتیجہ یہ ہے کہ کلام اﷲ اور حدیث رسول اﷲﷺ کا جو مفہوم مجددین امت بیان کریں وہی قابل قبول ہے۔ اس کی مخالفت کرنے والا فاسق ہوتا ہے۔
ترجمہ از شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی مجدد (مسلمہ قادیانی) صدی دوازدہم
(عسل مصفیٰ جلد اوّل ص۱۶۳،۱۶۵)
’’ ونباشد ہیچ کس از اہل کتاب الاّ البتہ ایمان آورد بہ عیسیٰ علیہ السلام پیش از مردن عیسیٰ علیہ السلام وروز قیامت باشد عیسیٰ علیہ السلام گواہ برایشان۔ ‘‘
ترجمہ: ’’اور اہل کتاب میں سے کوئی نہ ہوگا مگر یہ کہ وہ یقینا ایمان لائے گا حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن ان اہل کتاب پر اس کی گواہی دیں گے۔‘‘
ناظرین باتمکین! یہ وہ ترجمہ ہے جس پر جمہور علماء مفسرین اور مجددین امت مسلمہ قادیانی تیرہ صدی سال سے متفق چلے آرہے ہیں اور سب اس آیت سے حیات عیسیٰ علیہ السلام پر دلیل پکڑتے چلے آئے ہیں۔ اس سے پہلے جو آیت قرآن کریم میں مذکور ہے وہ وہی ہے جو ہم نے دلیل نمبر:۳ میں بیان کی ہے۔ اس کے پڑھنے یا سننے والے پر یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ اس قدر اولوالعزم رسول کا دنیا میں آنا اور ’’ رسولا الیٰ بنی اسرائیل ‘‘ کا لقب لینا کیا بے معنی ہی تھا؟ یعنی جس قوم کی طرف وہ مبعوث ہوکر آئے تھے۔ ان میں سے ایک بھی ان پر ایمان نہ لایا اور خدا نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔ اب آسمان پر وہ کیا کریں گے؟ کیا یہود کے ساتھ ان کا تعلق ختم ہوچکا ہے؟ عملی طور پر اس بات کا کیا ثبوت ہے؟ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ بجسد عنصری موجود ہیں اور مکر اﷲ کا پورا پورا مظاہرہ تو اس طرح مکمل نہیں ہوسکتا کہ یہود دنیا میں موجود رہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھانے اور قتل کرنے کا عملی ثبوت دیتے رہیں۔ یہاں تک کہ دھوکا میں آکر عیسائی بھی ان کے ہمنوأ ہو جائیں۔ اﷲتعالیٰ صرف بذریعہ وحی ہی ان کے دعویٰ قتل کی تردید کرتے ہیں۔ غیر جانبدار شخص ضرور اس تردید کے لئے کوئی عملی ثبوت طلب کرے گا۔ وہ کہہ سکتا ہے کہ یہ وحی من جانب اﷲ نہیں ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی بھی اس تفسیر میں میرے ساتھ کلی اتفاق ظاہر کر رہے ہیں۔
’’جس حالت میں شیطانی الہام بھی ہوتے ہیں اور حدیث النفس بھی تو پھر کسی قول کو کیونکر خدا کی طرف منسوب کر سکتے ہیں۔ جب تک کہ اس کے ساتھ خدا کی فعلی شہادت زبردست نہ ہو۔ ایک خدا کا قول ہے اور ایک خدا کا فعل ہے اور جب تک خدا کے قول پر خدا کا فعل شہادت نہ دے ایسا الہام شیطانی کہلائے گا اور شہادت سے مراد ایسے آسمانی نشان ہیں کہ جو انسانوں کی معمولی حالتوں سے بہت بڑھ کر ہیں۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۹،۱۴۰، خزائن ج۲۲ ص۵۷۷،۵۷۸)
اب غور کیجئے کہ یہاں خداوند کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات جسمانی کا اعلان بذریعہ وحی کر دیا۔ مگر مرزاقادیانی اس پر فعلی شہادت کا تقاضا کرتے ہیں۔ ہم اس کے جواب میں فعلی شہادت پیش کرتے ہیں اور شہادت بھی کیسی؟ ایسی کہ خود وہ ساری مخالف قوم (بنی اسرائیل) بجائے انکار کے خود بخود اقرار اور اقبال کرنے لگ جائے۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب تک سارے کے سارے اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی برحق اور زندہ بجسدہ العنصری تسلیم نہ کر لیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر موت نہیں آئے گی اور ان کے اس طرح ایمان لانے پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن گواہی بھی دیں گے۔
علاوہ ازیں دنیاسے کسی نبی کا جو صاحب کتاب اور صاحب امت ہو، ناکام جانا سنت اﷲ کے مخالف ہے۔ چنانچہ مرزا قادیانی بھی ہماری تائید میں لکھتے ہیں۔
’’ ان الانبیاء لا ینقلبون من ہذہ الدنیا الیٰ دار الاٰخرۃ الا بعد تکمیل رسالات ‘‘
یعنی انبیاء اس دنیا سے آخرت کی طرف انتقال نہیں فرماتے۔ مگر اپنے کام کی تکمیل کے بعد۔
(حمامتہ البشریٰ ص۴۹، خزائن ج۷ ص۲۴۳)
چنانچہ لکھتے ہیں:
’’سچے نبیوں اور مامورین کے لئے سب سے پہلی یہی دلیل ہے کہ وہ اپنے کام کی تکمیل کر کے مرتے ہیں۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۵، خزائن ج۱۷ ص۴۳۴)
اب قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچا گئے ہیں تو خواہ وہ آسمان پر زندہ بجسد عنصری ہیں۔ اب ان کے آنے کی ضرورت نہیں اور اگر وہ اپنا مشن اشاعت توحید ورسالت پورا کرنے سے پہلے ہی تشریف لے گئے ہیں تو یہ دوحال سے خالی نہیں۔ اگر مرگئے ہیں اور دوبارہ نہیں آئیں گے تو سنت اﷲ کے مطابق حسب قول مرزا وہ سچے نبی نہ تھے۔ لیکن مرزاقادیانی نے بھی انہیں سچا نبی اور مامور من اﷲ ضرور مانتے ہیں۔ ان کی تبلیغی کامیابی کے متعلق میں صرف مرزاقادیانی کے اقوال ہی نقل کر دینا کافی سمجھتا ہوں۔
۱… ’’یہ کہنا کہ جس طرح موسیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ہاتھ سے نجات دی تھی۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ نے اپنے تابعین کو شیطان کے ہاتھ سے نجات دی۔ یہ ایسا بیہودہ خیال ہے کہ کوئی شخص گو کیسا ہی اغماض کرنے والا ہو اس خیال پر اطلاع پا کر اپنے تئیں ہنسنے سے روک نہیں سکے گا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۲۱، خزائن ج۱۷ ص۳۰۰)
۲… ’’ہدایت اور توحید اور دینی استقامتوں کے کامل طور پر دلوں میں قائم کرنے کے بارہ میں ان کی کارروائیوں کا نمبر ایسا کم درجہ کا رہا کہ قریب قریب ناکام کے رہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۱۱ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۸)
۳… ’’حضرت مسیح تو انجیل کو ناقص کی ناقص ہی چھوڑ کر آسمانوں پر جا بیٹھے۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۳۶۱، خزائن ج۱ ص۴۳۱)
پس سنت اﷲ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی فوت نہیں ہوسکتے۔ جب تک کہ وہ اپنے کام میں کامیاب نہ ہولیں۔ سیاق وسباق کلام بھی یہی تقاضا کرتا ہے۔ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی مختصر سی امت کو فنا کرنا چاہتے تھے۔ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی ان کے ضرر سے بچا لیا۔ ان کی امت کو بھی یہودیوں پر غالب کر دیا۔ مگر مکمل غلبہ اس طرح ہوگا کہ ظاہری غلامی کے بعد جو آج کل یہودیوں پر لعنت دائمی ثابت ہو رہی ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کہ آخری زمانہ میں ہم عیسیٰ علیہ السلام کو نازل کر کے ان کے منکر یہودیوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا روحانی غلام بھی بنادیں گے۔ ذیل میں ہم چند مجددین واولیاء ملہمین مسلمہ قادیانی کی تفسیر کرتے ہیں۔ اس کے بعد قادیانی اعتراضات کی حقیقت الم نشرح کریں گے۔ امام شعرانی، جو مرزاغلام احمد قادیانی کے نزدیک ’’ایسے محدث اور صوفی تھے جو معرفت کامل اور تفقہ تام کے رنگ سے رنگین تھے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۴۹، خزائن ج۳ ص۱۷۶)
فرماتے ہیں: ’’ الدلیل علیٰ نزولہ قولہ تعالیٰ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ای حین ینزل ویجتمعون علیہ وانکرت المعتزلۃ والفلا سفۃ والیہود والنصاریٰ عروجہ بجسدہ الیٰ السماء وقال تعالیٰ فی عیسیٰ علیہ السلام وانہ لعلم للساعۃ… والضمیر فی انہ راجع الیٰ عیسیٰ… والحق انہ رفع بجسدہ الیٰ السماء والایمان بذالک واجب قال اﷲ تعالیٰ بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘
(الیواقیت والجواہر ج۲ ص۱۴۶)
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے پر دلیل یہ آیت ہے۔ ’’ وان من اہل الکتاب ‘‘ جس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت کے یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ضرور ان پر ایمان لے آئیں گے۔ معتزلہ، فلسفیوں، یہودیوں اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر بمعہ جسم اٹھائے جانے سے انکار کیا ہے۔ حالانکہ فرمایا اﷲتعالیٰ نے دوبارہ رفع جسمانی حضرت مسیح کے ’’ وانہ لعلم للساعۃ ‘‘ اور ضمیر ’’ انہ ‘‘ کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھرتی ہے… اور سچ یہ ہے کہ وہ بمعہ جسم کے آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور ان کے رفع جسمی پر ایمان لانا واجب ہے۔ کیونکہ فرمایا ان کے متعلق اﷲتعالیٰ نے ’’ بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ (بلکہ اٹھا لیا اﷲ نے ان کو اپنی طرف)‘‘
حضرات! یہ وہی امام عبدالوہاب شعرانی ہیں۔ جن کی کلام سے مرزائی مناظرین تحریف لفظی اور معنوی کر کے وفات عیسیٰ علیہ السلام پر استدلال کیا کرتے ہیں۔
معزز ناظرین! اب ہم اس شخص کی تفسیر درج کرتے ہیں جو قادیانی جماعت کے مسلمہ مجدد صدی ہفتم تھے اور آپ ساتویں صدی میں کلام اﷲ کے حقیقی مطالب بیان کرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔ اس بزرگ ہستی کا اسم گرامی احمد بن عبدالحلیم تقی الدین ابن تیمیہؒ تھا۔ خود مرزاقادیانی اس امام ہمام کا ذکر خیر ان الفاظ میں فرماتے ہیں۔
’’فاضل ومحدث ومفسر ابن تیمیہ وابن قیم جو اپنے اپنے وقت کے امام ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں۔‘‘
(کتاب البریہ ص۲۰۳حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۲۲۱ حاشیہ)
امام موصوف اپنی بے مثل کتاب ’’ الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح ‘‘ میں فرماتے ہیں۔
ترجمہ اردو: ’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ‘‘ اس آیت کی تفسیر اکثر علماء نے یہی کی ہے کہ مراد ’’ قبل موتہ ‘‘ سے ’’حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات سے پہلے‘‘ ہے اور یہودی کی موت کے معنی بھی کسی نے کئے ہیں اور یہ ضعیف ہے۔ کیونکہ اگر موت سے پہلے ایمان لایا جائے تو نفع دے سکتا ہے۔ اس لئے کہ اﷲتعالیٰ توبہ قبول کرتا ہے۔ جب غرغرہ تک نہ پہنچے اور اگر یہ کہا جائے کہ ایمان سے مراد غرغرہ کے بعد کا ایمان ہے تو اس میں کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے کہ غرغرہ کے بعد ہر ایک امر جس کا وہ منکر ہے۔ اس پر ایمان لاتا ہے۔ پس مسیح علیہ السلام کی کوئی خصوصیت نہیں اور یہاں ایمان سے مراد ایمان نافع ہے۔ اس لئے کہ خداتعالیٰ نے اپنی پاک کلام میں اس ایمان کے متعلق ’’ قبل موتہ ‘‘ فرمایا ہے۔
اس آیت میں ’’ لیؤمنن بہ ‘‘ مقسم علیہ ہے۔ یعنی قسمیہ خبر دی گئی ہے اور یہ مستقبل میں ہی ہوسکتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ ایمان لانا اس خبر (نزول آیت) کے بعد ہوگا اور اگر موت سے مراد یہودی کی موت ہوتی تو پاک اﷲ اپنی پاک کتاب میں یوں فرماتے۔ ’’ وان من اہل الکتاب الا من یؤمن بہ ‘‘ اور ’’ لیؤمنن بہ ‘‘ ہرگز نہ فرماتے اور نیز ’’ وان من اہل الکتاب ‘‘ یہ لفظ عام ہے۔ ہر ایک یہودی ونصرانی کو شامل ہے۔ پس ثابت ہوا کہ تمام اہل کتاب یہود ونصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت ان کی موت سے پہلے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے ائیں گے۔ تمام یہودی ونصاریٰ ایمان لائیں گے کہ مسیح ابن مریم اﷲ کا رسول کذاب نہیں۔ جیسے یہودی کہتے ہیں اور نہ وہ خدا ہیں۔ جیسے کہ نصاریٰ کہتے ہیں۔ اس عموم کا لحاظ زیادہ مناسب ہے۔ اس دعویٰ سے کہ موت سے مراد کتابی کی موت ہے۔ کیونکہ اس سے ہر ایک یہودی ونصرانی کا ایمان لانا ثابت ہوتا ہے اور یہ واقع کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ جب خداتعالیٰ نے یہ خبر دی کہ تمام اہل کتاب ایمان لائیں گے تو ثابت ہوا کہ اس عموم سے مراد عموم اور لوگوں کا ہے۔ جو نزول المسیح کے وقت موجود ہوں گے۔ کوئی بھی ایمان لانے سے اختلاف نہیں کرے گا۔ جو اہل کتاب فوت ہوچکے ہوں گے وہ اس عموم میں شامل نہیں ہوسکتے۔ یہ عموم ایسا ہے۔ جیسے یہ کہا جاتا ہے۔ ’’ لا یبقی بلد الا دخلہ الدجال الا مکۃ والمدینۃ ‘‘ پس یہاں مدائن (شہروں) سے مراد وہی مدائن ہوسکتے ہیں جو اس وقت موجود ہوں گے اور اس سے ہر ایک یہودی ونصرانی کے ایمان کا سبب ظاہر ہے وہ یہ کہ ہر ایک کو معلوم ہو جائے گا کہ مسیح علیہ السلام رسول اﷲ ہے۔ جس کو اﷲتعالیٰ کی تائید حاصل ہے۔ نہ وہ کذاب ہیں نہ وہ خدا ہیں۔ پس اﷲ تعالیٰ نے اس ایمان کا ذکر فرمایا ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کے تشریف لانے کے وقت ہوگا۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع اس آیت میں ذکر فرمایا ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ اور مسیح علیہ السلام قیامت سے پیشتر زمین پر اتریں گے اور فوت ہوں گے اور اس وقت کی خبر دی کہ سب اہل کتاب مسیح کی موت سے پیشتر ایمان لائیں گے۔‘‘
(الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح ج۲ ص۲۸۱،۲۸۳)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حیات عیسیٰ علیہ السلام پر قرآنی دلیل نمبر:۴ پر رسول کریم ﷺ کی تفسیر
رسول کریمﷺ کی تفسیر:
ناظرین! مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں چند احادیث اپنی پیش کردہ تفسیر کی تصدیق میں بیان کر دیں۔ ان احادیث کی صحت اور تفسیر پر جوقادیانی اعتراض کرے وہ کافر اور مرتد ہو جائے گا۔

http://khatmenbuwat.org/threads/قادیانی-اصول-وعقائد.3541/
قادیانی اصول و قواعد نمبر : ۴
پھر اگر کسی وقت کلام اﷲ، حدیث رسول اﷲﷺ اور صحابہ کرامؓ کے کلام سمجھنے میں اختلاف رونما ہو جائے اور خلقت گمراہ ہونے لگے تو اﷲتعالیٰ ہر صدی میں ایسے علمائے ربانیین پیدا کرتا رہتا ہے۔ جو اختلافی مسائل کو خدا اور اس کے رسولﷺ کے حکم اور منشاء کے مطابق حل کر دیتے ہیں۔ چنانچہ رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے۔ ’’ ان اﷲ یبعث لہذہ الامۃ علیٰ رأس کل مائۃ سنۃ من یجدد لہا دینہا ‘‘
(ابوداؤد ج۲ ص۱۳۲، باب مایذکر فی قدر المائۃ)
’’یعنی اﷲتعالیٰ ہر صدی کے سر پر اس امت کے لئے ایسے علماء مفسرین پیدا کرتا رہے گا۔ جو اس کے دین کی تجدید کرتے رہیں گے۔‘‘ اس کی تائید مرزاقادیانی اس طرح کرتے ہیں:
’’جو لوگ خداتعالیٰ کی طرف سے مجددیت کی قوت پاتے ہیں وہ نرے استخواں فروش نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ واقعی طور پر نائب رسول اﷲﷺ اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں۔ خداتعالیٰ انہیں تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے۔ جو نبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں۔‘‘

(فتح اسلام ص۹، خزائن ج۳ ص۷)

پھر دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’مجدد کا علوم لدنیہ وآیات سماویہ کے ساتھ آنا ضروری ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۵۴، خزائن ج۳ ص۱۷۹)
تیسری جگہ لکھتے ہیں:
’’یہ یاد رہے کہ مجدد لوگ دین میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتے۔ گم شدہ دین کو پھر دلوں میں قائم کرتے ہیں اور یہ کہنا کہ مجددوں پر ایمان لانا کچھ فرض نہیں۔ خدا تعالیٰ کے حکم سے انحراف ہے۔‘‘ وہ فرماتا ہے: ’’ من کفر بعد ذالک فاؤلئک ہم الفاسقون ‘‘
(شہادۃ القرآن ص۴۸، خزائن ج۶ ص۳۴۴)
چوتھی جگہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
’’مجددوں کو فہم قرآن عطا ہوتا ہے۔‘‘
(ایام الصلح ص۵۵، خزائن ج۱۴ ص۲۸۸)
پانچویں جگہ ارشاد ملاحظہ کریں:
’’مجدد مجملات کی تفصیل کرتا اور کتاب اﷲ کے معارف بیان کرتا ہے۔‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۷۵، خزائن ج۷ ص۲۹۰)
چھٹی جگہ لکھا ہے:
’’مجدد خدا کی تجلیات کا مظہر ہوتے ہیں۔‘‘
(سراج الدین عیسائی ص۱۵، خزائن ج۱۲ ص۳۴۱)

اس سارے مضمون کا نتیجہ یہ ہے کہ کلام اﷲ اور حدیث رسول اﷲﷺ کا جو مفہوم مجددین امت بیان کریں وہی قابل قبول ہے۔ اس کی مخالفت کرنے والا فاسق ہوتا ہے۔

حدیث نمبر:۱…
’’ عن ابی ہریرۃؓ قال قال رسول اﷲﷺ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماً عدلاً فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویفیض المال حتیٰ لا یقبلۃ احد حتیٰ تکون السجدۃ الواحدہ خیراً من الدنیا وما فیہا ثم یقول ابوہریرۃؓ فقرؤا ان شئتم وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ‘‘
(رواہ البخاری ج۱ ص۴۹۰، باب نزول عیسیٰ بن مریم علیہ السلام، مسلم ج۱ ص۸۷، باب نزول عیسیٰ علیہ السلام)
’’حضرت ابوہریرہؓ آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا۔ مجھے اس ذات واحد کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ تحقیق ضرور اتریں گے۔ تم میں ابن مریم حاکم وعادل ہوکر۔ پس صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کرائیں گے اور جزیہ اٹھادیں گے۔ ان کے زمانہ میں مال اس قدر ہوگا کہ کوئی قبول نہ کرے گا۔ یہاں تک کہ ایک سجدہ عبادت الٰہی دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔ اگر تم چاہو تو (اس حدیث کی تائید میں) پڑھو۔ قرآن شریف کی یہ آیت: وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ‘‘
سوال… کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
جواب… ہاں صاحب! یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ دلائل ملاحظہ کریں۔
۱… یہ حدیث بخاری ومسلم دونوں میں موجود ہے۔ جن کی صحت پر مرزاقادیانی نے مہر تصدیق ثبت کرادی ہے۔
(ازالہ اوہام ص۸۸۴، خزائن ج۳ ص۵۸۲، تبلیغ رسالت حصہ دوم ص۲۵، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۵)
۲… اس حدیث کی صحت کو مرزاقادیانی نے اپنی مندرجہ ذیل کتب میں صحیح تسلیم کر لیا ہے۔
(ایام الصلح ص۵۲،۵۳،۷۵،۹۱،۱۶۰،۱۷۶، خزائن ج۱۴ ص۲۸۵،۳۲۸،۴۰۸،۴۲۴، تحفہ گولڑویہ ص۲۵، خزائن ج۱۷ ص۱۲۸، شہادت القرآن ص۱۱، خزائن ج۶ ص۳۰۷)
سوال… اس حدیث کا ترجمہ لفظی تو واقعی حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات ثابت کرتا ہے۔ لیکن آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ اس حدیث سے مراد بھی وہی ہے جو لفظی ترجمہ سے ظاہر ہے اور یہ کہ ابن مریم سے مراد عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ہی ہے؟ وغیرہ وغیرہ!
جواب… جناب عالیٰ! اس حدیث کا مطلب اور معنی وہی ہے جو اس کے الفاظ سے ظاہر ہیں۔ کیونکہ حقیقی معنوں سے پھیر کر مجازی معنی لینے کے لئے کوئی قرینہ ہونا ضروری ہے۔ ورنہ زبان کا مطلب سمجھنے میں بڑی گڑبڑ ہو جائے گی۔ میز سے مراد میز ہی لی جائے گی نہ کہ بینچ۔ مرزاغلام احمد قادیانی سے مراد ہمیشہ غلام احمد بن چراغ بی بی قادیانی ہی لی جائے گی۔ نہ اس کا بیٹا مرزابشیرالدین محمود۔ اسی طرح حدیث میں ابن مریم سے مراد ابن مریم (مریم کا بیٹا) حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی ہوں گے نہ کہ مرزاغلام احمد قادیانی ابن چراغ بی بی۔
۲… صحابہ کرامؓ! مجددین امت محمدیہ نے اس حدیث کے معنی وہی سمجھے جو اس کے الفاظ بتاتے ہیں۔ یعنی حضرت ابن مریم سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی سمجھتے رہے۔
۳… خود مرزاقادیانی نے کسی عبارت کے مفہوم کو سمجھنے کے متعلق ایک عجیب اصول باندھا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’ والقسم یدل علیٰ ان الخبر محمول علی الظاہر لا تاویل فیہ ولا استثناء والّا ای فائدۃ کانت فی ذکر القسم ‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۱۴، خزائن ج۷ ص۱۹۲ حاشیہ)
’’اورقسم (حدیث میں) دلالت کرتی ہے کہ حدیث کے وہی معنی مراد ہوں گے جو اس کے ظاہری الفاظ سے نکلتے ہوں۔ ایسی حدیث میں نہ کوئی تاویل جائز ہے اور نہ کوئی استثناء ورنہ قسم میں فائدہ کیا رہا۔‘‘
سوال… کیا حدیث ہمارے لئے حجت ہے اور کیا حدیثی تفسیر کا قبول کرنا ہمارے واسطے ضروری ہے۔
جواب… حدیث کے فیصلہ کا حجت اور ضروری ہونا تو اسی سے ظاہر ہے کہ اﷲتعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں۔
’’فلا وربک لا یؤمنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی انفسہم حرجاً مما قضیت ویسلموا تسلیما (نسائ:۶۵)‘‘
{(اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں اے محمدﷺ) قسم ہے مجھے آپ کے رب کی (یعنی اپنی ذات کی) کہ کوئی انسان مؤمن نہیں ہوسکتا۔ جب تک وہ اپنے اختلاف اور جھگڑوں میں آپ کو ثالث نہ مانا کریں اور پھر آپ کے فیصلہ کے خلاف ان کے دلوں میں کوئی انقباض بھی پیدا نہ ہو اور آپ کے فیصلہ کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں۔}
خود مرزاقادیانی اصول تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’دوسرا معیار رسول اﷲﷺ کی تفسیر ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ سب سے زیادہ قرآن کے معنی سمجھنے والے ہمارے پیارے اور بزرگ نبی حضرت رسول کریمﷺ تھے۔ پس اگر آنحضرتﷺ سے کوئی تفسیر ثابت ہو جائے تو مسلمان کا فرض ہے کہ بلاتوقف اور بلا دغدغہ قبول کرے۔ نہیں تو اس میں الحاد اور فلسفیت کی رگ ہوگی۔‘‘
(برکات الدعا ص۱۸، خزائن ج۶ ص ایضاً)
پس معلوم ہوا کہ اس تفسیر نبوی پر اعتراض کرنے والا بحکم مرزاقادیانی ملحد اور فلسفی محض ہے۔ اسلام سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔
پھر یہ تفسیر نبوی مروی ہے۔ ایک جلیل القدر صحابی رسول اﷲﷺ سے جنہوں نے اس حدیث کو ’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن ‘‘ کی تفسیر کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ گویا حضرت ابوہریرہؓ نے تمام صحابہ کے سامنے اس آیت کی تفسیر بیان کی اور کسی دوسرے بزرگ نے اس کی تردید نہ فرمائی۔ پس اس تفسیر کے صحیح ہونے پر صحابہ کا اجماع بھی ہو گیا۔
صحابی کی تفسیر کے متعلق مرزاقادیانی کا قول ملاحظہ ہو۔
’’تیسرا معیار صحابہؓ کی تفسیر ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ صحابہؓ آنحضرتﷺ کے نوروں کو حاصل کرنے والے اور علم نبوت کے پہلے وارث تھے اور خداتعالیٰ کا ان پر بڑا فضل تھا اور نصرت الٰہی ان کی قوت مدرکہ کے ساتھ تھی۔ کیونکہ ان کا نہ صرف قال بلکہ حال تھا۔‘‘
(برکات الدعا ص۱۸، خزائن ج۶ ص ایضاً)
ناظرین! میں نے قرآن، حدیث، اقوال صحابہ اور مجددین امت کے بیانات اس آیت کی تفسیر میں بیان کر دیے ہیں۔ بیانات بھی وہ کہ قادیانی ان کی صحت پر اعتراض کریں تو اپنے ہی فتویٰ کی رو سے ملحد، کافر اور فاسق ہو جائیں۔ اگر تمام اقوال مجددین اور احادیث نبوی وروایات صحابہ کرامؓ درج کروں تو ایک مستقل کتاب اسی آیت کی تفسیر کے لئے چاہئے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی اعتراض 1 : اہل کتاب کے ایمان لانے سے مراد کیا ہے؟
قادیانی اعتراض نمبر:۱…’’اگر ہم فرض کے طور پر تسلیم کر لیں کہ آیت موصوفہ بالا کے یہی معنی ہیں۔ جیسا کہ سائل (اہل اسلام) سمجھا ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ زمانہ صعود مسیح سے اس زمانہ تک کہ مسیح نازل ہو۔ جس قدر اہل کتاب دنیا میں گزرے ہیں یا اب موجود ہیں یا آئندہ ہوں گے وہ سب مسیح پر ایمان لانے والے ہوں۔ حالانکہ یہ خیال ببداہت باطل ہے۔ ہر یک شخص خوب جانتا ہے کہ بے شمار اہل کتاب مسیح کی نبوت سے کافر رہ کر اب تک واصل جہنم ہوچکے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۶۷، خزائن ج۳ ص۲۸۸)
جواب نمبر:۱… معترض کا یہ اعتراض جہالت محضہ پر مبنی ہے۔ تمام اہل کتاب مراد نہیں ہوسکتے۔ اس آیت کا مضمون بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ اس فقرہ کا کہ ۱۹۵۰ء سے پہلے تمام مرزائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور رفع جسمانی پر ایمان لے آئیں گے۔ مطلب بالکل صاف ہے کہ ۱۹۵۰ء کے بعد کوئی مرزائی حیات عیسیٰ علیہ السلام کا منکر نہیں پایا جائے گا۔ اس سے پہلے کے مرزائی بعض کفر کی حالت پر مریں گے اور بعض اسلام لے آئیں گے۔ لیکن ۱۹۵۰ء کے بعد مرزائی کا نام ونشان نہیں رہے گا۔
دوسری مثال… ’’لارڈ ولنگڈن مورخہ ۱۵؍جون ۱۹۳۶ء کو لاہور تشریف لائیں گے۔ آپ کی تشریف آوری سے پیشتر تمام اہل لاہور اسٹیشن پر ان کے استقبال کے لئے حاضر ہو جائیں گے۔‘‘ کون بے وقوف ہے۔ جو اس کا مطلب یہ لے گا کہ تمام اہل لاہور سے مراد آج (۲۹؍جون ۱۹۳۵ء ہے) کے اہل لاہور ہیں۔ ممکن ہے بعض مرجائیں۔ بعض باہر سفر کو چلے جائیں۔ بعض باہر سے لاہور میں آجائیں۔ بعض ابھی پیدا ہوں گے۔
پس ثابت ہوا کہ کلام ہمیں خود مجبور کر رہی ہے کہ اہل الکتاب سے وہ لوگ مراد ہیں۔ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت موجود ہوں گے اور وہ بھی تمام کے تمام نہیں بلکہ جو موت اور قتل سے بچ جائیں گے۔ وہ ضرور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے۔ ہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے بعد کوئی اہل الکتاب نہیں رہے گا۔ سوائے اہل اسلام کے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی اعتراض 2 :مسیح کے دوبارہ آنے پر اہل کتاب سے مراد کون لوگ ہوں گے؟
قادیانی اعتراض :…’’بعض لوگ کچھ شرمندے سے ہوکر دبی زبان سے یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ اہل کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسیح کے دوبارہ آنے کے وقت دنیا میں موجود ہوں گے اور وہ سب مسیح کو دیکھتے ہی ایمان لے آویں گے اور قبل اس کے جو مسیح فوت ہو وہ سب مؤمنوں کی فوج میں داخل ہوجائیں گے۔ لیکن یہ خیال بھی ایسا باطل ہے کہ زیادہ لکھنے کی حاجت نہیں۔ اوّل تو آیت موصوفہ بالا صاف طور پر فائدہ تعمیم کا دے رہی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب کے لفظ سے تمام وہ اہل کتاب مراد ہیں جو مسیح کے وقت میں یا مسیح کے بعد برابر ہوتے رہیں گے اور آیت میں ایک بھی ایسا لفظ نہیں جو آیت کو کسی خاص محدود زمانہ سے متعلق اور وابستہ کرتا ہو۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۶۸، خزائن ج۳ ص۲۸۹)
جواب نمبر:۲… دوسرے اعتراض میں مرزاقادیانی نے (گستاخی معاف) بہت دجل وفریب سے کام لیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’بعض لوگ دبی زبان سے کہتے ہیں کہ اہل کتاب سے وہ لوگ مراد ہیں جو مسیح کے دوبارہ آنے کے وقت دنیا میں موجود ہوں گے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۶۸، خزائن ج۳ ص۲۸۹)
اجی کیوں جھوٹ بولتے ہو۔ جن کے پاس قرآن کی گواہی، حدیث رسول اﷲﷺ کی شہادت، صحابہؓ کی تائید اور مجددین امت کا متفقہ فیصلہ ہو۔ وہ بھلا دبی زبان سے کہے گا؟ یہ محض آپ کی چالاکی ہے۔ جس کے متعلق رسول پاکﷺ نے پہلے سے پیش گوئی فرمائی ہوئی ہے۔ دجالون، کذابون یعنی بہت سے فریب بنانے والے اور بہت جھوٹ بولنے والے ہوں گے۔ پھر مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ:
’’آیت تعمیم کا فائدہ دے رہی ہے۔ یعنی اہل کتاب کے لفظ سے مراد تمام وہ لوگ مراد ہیں جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں یا ان کے بعد برابر ہوتے رہے ہیں۔‘‘
کیوں مرزاقادیانی! جناب نے تعمیم کا لفظ استعمال کر کے پھر اہل کتاب کو ’’حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں اور بعد میں‘‘ کے ساتھ کیوں مقید ومحدود کر دیا۔ اگر آپ کے قول کے مطابق آیت تعمیم کا فائدہ دے رہی ہے۔ یعنی سارے اہل کتاب اس سے مراد ہیں تو پھر حضرت مسیح علیہ السلام سے پہلے کے اہل کتاب کیوں شمار نہیں ہوں گے؟ جس دلیل سے آپ حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے کے اہل کتاب کو اس سے الگ کریں گے۔ اسی دلیل سے ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے پہلے کے یہودی ونصرانی کو الگ کر دیں گے۔
علاوہ ازیں بمطابق ’’ دروغ گورا حافظہ نباشد ‘‘ خود مرزاقادیانی اگلے ہی فقرہ میں لکھتے ہیں۔
’’آیت میں ایک بھی ایسا لفظ نہیں جو آیت کو کسی خاص زمانہ سے متعلق اور وابستہ کرتا ہو۔‘‘ باوجود اس کے خود آیت کو ’’حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت اور ان کے بعد‘‘ سے وابستہ کر رہے ہیں۔ شاید مرزاقادیانی کے نزدیک زمانے صرف دو ہی ہوتے ہوں۔ زمانہ ماضی، مضی مامضی کا شکار ہوکر رہ گیا ہو۔ جب آیت کی زد میں تمام اہل کتاب آتے ہیں تو حضرت مسیح علیہ السلام سے پہلے کے یہودی کیوں اس میں شامل نہ کئے جائیں۔ مرزاقادیانی ان اہل کتاب کو اس کا مخاطب نہیں سمجھتے۔ جو جواب قادیانی اس سوال کا دیں گے۔ وہی جواب اہل اسلام ان کے اس اعتراض کا دیں گے۔ ناظرین حقیقت یہ ہے کہ قادیانی اعتراضات کلہم جہالت پر مبنی ہیں۔ اگر ان کو علم عربی اور اس کے اصولوں سے ذرا بھی واقفیت ہوتی تو واﷲ ان اعتراضات کا نام بھی نہ لیتے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی اعتراض 3 : کیا مسیح کے دم سے اہل کتاب اور غیر اہل کتاب کفر کی حالت میں مریں گے؟
قادیانی اعتراض نمبر:۳… ’’علاوہ اس کے یہ معنی بھی جو پیش کئے گئے ہیں۔ ببداہت فاسد ہیں۔ کیونکہ احادیث صحیحہ بآواز بلند بتلا رہی ہیں کہ مسیح کے دم سے اس کے منکر خواہ وہ اہل کتاب ہیں یا غیراہل کتاب۔ کفر کی حالت میں مریں گے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۶۹، خزائن ج۳ ص ایضاً)

جواب نمبر:۳… جواب نمبر اوّل کی ذیل میں ملاحظہ کریں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی اعتراض 4 : اگر تمام اہل کتاب حضرت عیسیؑ پر ایمان لے آئیں گے تو یہود و نصاری کی قیامت تک دشمنی کیسے رہے گی؟
قادیانی اعتراض نمبر:۴… ’’مگر افسوس کہ وہ (اہل اسلام) اپنے خود تراشیدہ معنوں سے قرآن میں اختلاف ڈالنا چاہتے ہیں۔ جس حالت میں اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ والقینا بینہم العداوۃ والبغضاء الیٰ یوم القیامۃ ‘‘ جس کے یہ معنی ہیں کہ یہود اور نصاریٰ میں قیامت تک بغض اور دشمنی رہے گی تو اب بتلاؤ کہ جب تمام یہودی قیامت سے پہلے ہی حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے تو پھر بغض اور دشمنی قیامت تک کون لوگ کریں گے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۲۶، خزائن ج۱۷ ص۳۰۹)
نوٹ: ایسا ہی مرزاقادیانی نے دو تین اور آیات سے استدلال کیا ہے۔ جس کا مطلب وہی ہے جو نمبر:۴ میں ہے۔

جواب نمبر:۴… مرزاقادیانی کونہ علم ظاہری نصیب ہوا اور نہ باطنی آنکھیں ہی نصیب ہوئیں۔ موافقت کا نام وہ اختلاف رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں اہل اسلام کی تفسیر ماننے سے قرآن میں اختلاف ہوجاتا ہے۔ سبحان اﷲ! مرزاقادیانی جیسے بے استاد اور بے پیر سمجھنے والے ہوں تو اختلاف اور تضاد ہی نظر آنا چاہئے۔ باقی رہا ان کا یہ اعتراض کہ یہود اور نصاریٰ کے درمیان بغض اور عناد کا قیامت تک رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہود اور نصاریٰ دونوں مذاہب قیامت تک زندہ رہیں گے تو اس کا جواب بھی آنکھیں کھول کر پڑھئے۔
اوّل تو یہ سمجھنا چاہئے کہ یہود ونصاریٰ سے مراد دو قومیں ہیں۔ اگر وہ مسلمان بھی ہو جائیں تو بھی ان کے درمیان بغض وعناد کا رہنا کون سا محال ہے؟ کیا اس وقت روئے زمین کے مسلمانوں میں بغض وعناد معدوم ہے؟ کیا تمام مرزائی بالخصوص لاہوری وقادیانی جماعتوں میں بغض وعناد نہیں ہے؟ ہے اور ضرور ہے۔ کیا اس صورت میں وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ دوسرے ’’ الیٰ یوم القیامۃ ‘‘ سے مراد یقینا طوالت زمانہ ہے اور یہ محاورہ تمام اہل زبان استعمال کرتے ہیں۔ دیکھئے! جب ہم یوں کہیں کہ قادیانی میرے دلائل کا جواب قیامت تک نہیں دے سکیں گے تو مراد اس سے ہمیشہ ہمیشہ ہے۔ یعنی جب تک مرزائی دنیا میں رہیں گے۔ اگرچہ وہ قیامت تک ہی کیوں نہ رہیں۔ میرے دلائل کا جواب نہیں دے سکیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرزائی لوگوں کے قیامت تک رہنے کی میں پیش گوئی کر رہا ہوں۔ یاجب یوں کہا جاتا ہے کہ زید تو قیامت تک اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔ کون بیوقوف ہے جو اس کا مطلب یہ سمجھے گا کہ کہنے والے کا مطلب یہ ہے کہ زید قیامت تک زندہ رہے گا؟ مطلب صاف ہے کہ جب تک زید زندہ رہے گا وہ اس کا جواب نہیں دے سکتا۔ اسی طرح آیات پیش کردہ کا مطلب ہے۔
آیت اوّل ہے: ’’
واغوینا بینہم العداوۃ والبغضاء الیٰ یوم القیامۃ ‘‘ اور مطلب اس کا بمطابق محاورہ یہی ہے کہ جب تک بھی یہود ونصاریٰ رہیں گے ان کے درمیان باہمی عداوت اور دشمنی رہے گی۔
آیت ثانی یہ ہے۔
’’ وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ ‘‘ کا مطلب بھی یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تابعدار قیامت تک ہمیشہ یہود پر غالب رہیں گے۔

اب غلبہ کئی قسم کا ہے۔ اس کی دو صورتیں بہت ہی اہم ہیں۔
اوّل… یہود کا نصاریٰ ومسلمانوں کا غلام ہوکر رہنا۔ مگر اپنے مذہب پر برابر قائم رہنا۔ یہ صورت اب موجود ہے۔
دوم… یہود کا نہ صرف مسلمانوں اور نصاریٰ کے ماتحت ہی رہنا بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مخالفت چھوڑ کر ان کا روحانی غلام بھی ہو جانا اور یہی حقیقی ماتحتی اور غلامی ہے۔ اس کا ظہور نزول المسیح کے وقت ہوگا۔ یہی مطلب ہے۔ تمام آیات کلام اﷲ کا جس کو مرزاقادیانی اور ان کی قلیل الانفاس جماعت بڑے طمطراق سے سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے پیش کیا کرتے ہیں۔ ہم اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں احادیث نبوی اور خود اقوال مرزا قادیانی سے شہادت پیش کرتے ہیں۔

حدیث نبوی
’’ یہلک اﷲ فی زمانہ (اے عیسیٰ) الملل کلہا الا الاسلام ‘‘
{ہلاک کر دے گا اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تمام مذاہب کو سوائے اسلام کے۔}
(رواہ ابوداؤد ج۲ ص۱۳۵، باب خروج الدجال، مسند احمد ج۲ ص۴۰۶، درمنثور ج۲ ص۲۴۲)
روایت کیا اس حدیث کو ابوداؤد، احمد ابن جریر اور صاحب درمنثور نے۔ جن کا منکر مرزاقادیانی کے نزدیک کافر وفاسق ہوجاتا ہے۔

(دیکھو اصول مرزا نمبر:۴)

اقوال مرزا
۱… ’’اس پر اتفاق ہوگیا ہے کہ مسیح کے نزول کے وقت اسلام دنیا پر کثرت سے پھیل جائے گا اور ملل باطلہ ہلاک ہو جائیں گے اور راست بازی ترقی کرے گی۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۳۶، خزائن ج۱۴ ص۳۸۱)
۲… ’’میرے آنے کے دو مقصد ہیں۔ مسلمانوں کے لئے یہ کہ اصل تقویٰ اور طہارت پر قائم ہو جائیں… جیسا کہ آج کل قادیان میں اس کا ظہور ہورہا ہے۔‘‘
(فیصلہ سیشن جج گورداسپور دربارہ امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ صاحب ابوعبیدہ)
اور عیسائیوں کے لئے کسر صلیب ہو اور ان کا مصنوعی خدا نظر نہ آئے دنیا اس کو بالکل بھول جائے خدائے واحد کی عبادت ہو۔
(ملفوظات ج۸ ص۱۴۸)
۳… ’’اور پھر اسی ضمن میں (رسول اﷲﷺ نے) مسیح موعود کے آنے کی خبر دی اور فرمایا کہ اس کے ہاتھ سے عیسائی دین کا خاتمہ ہوگا۔‘‘
(شہادت القرآن ص۱۱، خزائن ج۶ ص۳۰۷)
۴… ’’ ونفخ فی الصور فجمعناہم جمعاً ‘‘ خداتعالیٰ کی طرف سے صور پھونکا جائے گا۔ تب ہم تمام فرقوں کو ایک ہی مذہب پر جمع کر دیں گے۔
(شہادۃ القرآن ص۱۵، خزائن ج ص۳۱۱)
۵… ’’ ونفخ فی الصور فجمعنا ہم جمعاً ‘‘ یعنی یاجوج ماجوج کے زمانہ میں بڑا تفرقہ اور پھوٹ لوگوں میں پڑ جائے گی اور ایک مذہب دوسرے مذہب پر اور ایک قوم دوسری قوم پر حملہ کرے گی۔ تب ان دنوں خداتعالیٰ اس پھوٹ کو دور کرنے کے لئے آسمان سے بغیر انسانی ہاتھوں کے اور محض آسمانی نشانوں سے اپنے کسی مرسل کے ذریعہ جو صور یعنی قرنا کا حکم رکھتا ہوگا۔ اپنی پرہیبت آواز لوگوں تک پہنچائے گا۔ جس میں ایک بڑی کشش ہوگی اور اس طرح پر خداتعالیٰ تمام متفرق لوگوں کو ایک مذہب پر جمع کر دے گا۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۸۰، خزائن ج۲۳ ص۸۸)
۶… ’’خدا نے تکمیل اس فعل کی جو تمام قومیں ایک قوم کی طرح بن جائیں اور ایک ہی مذہب پر ہو جائیں۔ زمانہ محمدی کے آخری حصہ میں ڈال دی جو قرب قیامت کا زمانہ ہے۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۸۲،۸۳، خزائن ج۲۳ ص۹۰،۹۱)
۷… ’’خداتعالیٰ نے ہمارے نبی سیدنا حضرت محمد مصطفیﷺ کو دنیا میں بھیجا۔ تابذریعہ اس تعلیم قرآنی کے جو تمام عالم کی طبائع کے لئے مشترک ہے۔ دنیا کی تمام متفرق قوموں کو ایک قوم کی طرح بنا دے اور جیسا کہ وہ وحدہ لا شریک ہے۔ ان میں بھی ایک وحدت پیدا کرے اور تا وہ سب مل کر ایک وجود کی طرح اپنے خدا کو یاد کریں اور اس کی وحدانیت کی گواہی دیں اور تاپہلی وحدت قومی جو ابتدائے آفرینش میں ہوئی اور آخری وحدت اقوامی… یہ دونوں قسم کی وحدتیں خدائے وحدہ لا شریک کے وجود اور اس کی حدانیت پر دوہری شہادت ہو کیونکہ وہ واحد ہے۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۸۲، خزائن ج۲۳ ص۹۰)
۸… ’’وحدت اقوامی کی خدمت اسی نائب النبوۃ (مسیح موعود) کے عہد سے وابستہ کی گئی ہے اور اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے اور وہ یہ ہے۔ ھو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علیٰ الدین کلہ ‘‘
(چشمہ معرفت ص۸۳، خزائن ج ص۹۱)
ناظرین! ہم نے احادیث نبوی ’’ علی صاحبہا الصلوات والسلام ‘‘ اور اقوال مرزا سے ثابت کر دیا ہے کہ مسیح علیہ السلام کے وقت میں تمام مذاہب سوائے اسلام کے مٹ جائیں گے۔ اب اگر مرزائی وہی مرغی کی ایک ٹانگ کی رٹ ہی لگائے جائیں تو پھر مذکورہ بالا اقوال مرزاکو تو کم ازکم فضول اور لایعنی کہنا پڑے گا۔ ایسا وہ کہہ نہیں سکتا۔ کیونکہ مرزاقادیانی ان کے نزدیک حکم ہے اور جری اﷲ فی حلل الانبیاء ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ان کا یہ اعتراض بالکل جہالت پر مبنی ہے۔
 
Top