ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
اس عظیم الشان جلسے اور مرزائیت کی شکست کی روداد اخبارات میں شائع ہوئی تو ملک کے طول و عرض سے مجھے تقاریر کے لیے دعوتوں کا لگاتار سلسلہ شروع ہو گیا ـ مختلف شہرون اور قصبات میں میری بیسیوں تقریریں اور مرزائیوں سے پانچ چھ کامیاب مناظرے ہوئے ـ ان ایام میں اندرونی مسجد اندرون بھاٹی دروازہ لاہور کے بالمقابل میرا قیام تھا ـ میری تقریروں اور مناظروں کی کامیابی سے متاثر ہو کر مرزائیوں کے ایک وفد نے مجھ سے ملاقات کی اور مجھے کہا کہ آپ نے اپنی تحقیق کی بنا پر احمدیت ترک کر دی ہے ـ آپ کے موجودہ عقائد کے متعلق ہم آپ سے کچھ نہیں کہتے ، ہم یہ کہنے آئے ہیں کہ آپ کی تقریریں اور مناطرے ہمارے لئے ناقابل برداشت ہیں ـ ہمیں علم ہے سوائے تقریروں اور مناظروں کے آپ کی مالی آمد کا کوئی ذریعہ نہیں ـ جماعت احمدیہ آپ کو پندرہ ہزار روپے کی پیشکش کرتی ہےـ آپ ہم سے یہ رقم لے لیں اور اس سے جنرل مرچنٹ یا کپڑے کا کاروبار شروع کر لیں ـ اور ہمیں اشٹام لکھ دیں کہ میں پندرہ سال تک احمدیت کے خلاف نہ کوئی تقریر کروں گا اور نہ مناظرہ اور نہ کوئی تحریری بیان شائع کروںگا ـ اگر اس معاہدے کی خلاف ورزی کرون گا تو جماعت احمدیہ کو تیس ہزار روپیہ ہرجانہ ادا کروں گا ـ یہ بھی کہ احمدیت کی تردید کوئی ایسا فرض نہیں جس کے بغیر آپ مسلمان نہیں رہ سکتے ـ حنفیوں ، اہل حدیث اور شیعہ میں ہزاروں علماء ایسے ہیں جو احمدیت کی تردید نہیں کرتے ـ اگر وہ تردید احمدیت کے بغیر مسلمان رہ سکتے ہیں تو آپ بھی مسلمان رہ سکتے ہیں ـ میں نے جوابا کہا کہ آپ صاحبان کو ہمت کیسے ہوئی کہ مجھے لالچ کت فتنے میں پھانسنے کی جراءت کریں ـ میں ان علماء کے طریقہ کا ذمہ دار نہیں جو تردید مرزائیت سے اجتناب کرتے ہیں ـ میرے لیے تو استیصال مرزائیت کی جدو جہد فرض عین ہےـ کیونکہ مین نے مدت مدید تک اس کی نشر و اشاعت کی ہے ـ مجھے تو اس کا کفارہ ادا کرنا ہے ـ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا لالچ مجھے تردید مرزائیت سے منحرف نہیں کر سکتا ـ قریبا ایک گھنٹے کی گفتگو کے بعد مجھ سے مایوس ہو کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور جاتے ہوئے کہہ گئے کہ آپ نے ہمارے متعلق نہایت خطر ناک طرز عمل اختیار کر رکھا ہے ـ آپ کےلیے اس کا نتیجہ تباہ کن ہو گا ، میں نےانہیں کہا
میں نے ان کے اس جارحانہ چیلنج کی پرواہ نہ کی ـ حسب سابق اپنے تبلیغی سفروں ، تقریرون اور مناظروں میں منہمک رہا ـ مرزائیوں نے اپنی سوچی سمجھی سکیم کے مطابق یکے بعد دیگرےڈیرہ بابا نانک ضلع گورداسپور کے مناظرہ اور بیلوں ڈلہوزی کے جلسہ کے ایام میں مجھ پر دو بار قاتلانہ حملے کیےـ ڈیرہ بابا نانک کے حملے میں مجھے زخم آیا ـ ایک مرزائی نے صاف الفاظ میں مجھے کہا کہ یاد رکھو کہ ہم تمہیں وتل کرا دیں گےـ خواہ ہمارا پچاس ہزار روپیہ خرچ ہو ـ میں نے اسے جواب دیا کہ میرا عقیدہ ہے کہ شہادت سے بہتر کوئی موت نہیں ، قبر کی رات گھر میں نہیں آ سکتیـ ایک دفعہ بعد نماز عشاء بیلوں ڈلہوزی کی مسجدمیں تردید مرزائیت پر میری تقریر ہو رہی تھی ایک مرزائی جس نے کمبل اوڑھا ہوا تھا میز کے نزدیک آیا ایک مسلمان نے پکڑ لیا ، اس مرزائی نے کمبل میں چھرا چھپا رکھا تھا ـ سب انسپکٹر پولیس جلسہ میں موجود تھا ـ اس نے اسی وقت مرزائی کو گرفتار کر کے چھرا قبضہ میں لے لیا - اسے تھانے کی حوالات میں بند کر دیا ـ دوسرے دن علاقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر دیا ـ مجسٹریٹ نے ملزم سے چھ ماہ کے لیے نیک چلنی کی ضمانت لے لی ـ لاہور کے اخبارات میں مجھ پر بابا ڈیرہ نانک کے حملہ کی خبر شائع ہوئی تھی ـ حضرت مولان اظفر علی خان نے "زمیندار " میں ایک شذرہ سپرد قلم فرمایا تھاـ
کجلس احرار کے زعماؤں کو نجھ پر مرزائیوں کے حملوں کا علم ہوا تو قائد احرار حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی نے ناظم دفتر سے فرمایا کہ مرزائیوں کی جارحیت کا جواب دینے کےلیے جلسہ کا انتظام کیجئے ـ چنانچہ کثیر التعداد پوسٹر چسپاں کیے گئے ، اخبارات میں اعلان ہوا ، شہر کے ہر حصے میں منادی ہوئیـ کہ باغ بیرون دہلی دروازہ بعد نماز عشاء زیر صدارت چوہدری افضل حق عظیم الشان جلسہ منعقد ہو گا جس میں حضرت مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی ؒ مرزائیوں کی جارحیت کے چیلنج کا جواب دیں گےـ
بعد نماز عشاء چالیس ہزار کے مجمع میں حضرت مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی ؒ نے مجھے سٹیج پر کھڑا کر کے میرا تعارف کرایا ، انہوں نے فرمایا کہ ہمارے اس نوجوان نو مسلم عالم نے مناظروں میں مرزائیوں کو ذلیل ترین شکستیں دی ہیں مرزائی ان کی شکست کا جواب نہ دے سکے تو ڈیرہ بابا نانک اور ڈلہوزی میں ان پر قاتلانہ حملے کیے گئےـ
میں مرزائیوں سے نہیں ان کے خلیفہ مرزا محمود سے کہتا ہوں کہ اگر تم ہی کھیل کھیلنا چاہتے ہو تو میں تمہیں چیلنج دیتا ہوں کہ مرد میدان بنوـ اب لال حسین اختر پر حملہ کراؤ پھر احرار کے فدا کاروں کی یورش اور قربانیوں کا اندازہ لگانا ، ایک کی جگہ ایک ہزار سے انتقام لیا جائے گاـ ہم خون کو رائیگاں نہیں جانے دیں گےـ ہماری تاریخ تمہارے سامنے ہے ـ ہم محلاتی سازشوں کے قائل نہیں ، ہم میدان میں ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے ہیں ہمیں جو عمل کرنا ہوتا ہے اس کا واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیتے ہیں ـ حضرت مولاناکی تقریر کیا تھی شجاعت و ایثار و حقائقکا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا ـ بار بار نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوتے تھے ـ فرمایا ہم وہی احرار ہیں جن کے ۳۱ رضا کار اسلام اور مسلمانون کی عزت بچانے کےلیے سینوں پر ڈوگرہ حکومت کی گولیاں کھا کر شہید ہوئے ہیں اور چالیس ہزار نے قید و بند کی مصیبتیں بخوشی برداشت کیں ـ اس کے بعد مرزائیوں کو سانپ سونگھ گیا ـ مرزا بشیر کی عقل ٹھکانے آ گئی ـ میں حضرت امیر شریعت اور ان کے گرامی قدر رفقاء کی معیت میں ترویج و اشاعت اسلام اور احقاق ِ حق وابطال باطل کےلیے وقف ہو گیاـ
ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ ایک چٹیل میدان میں ہزاروں لوگ حیران و پریشان کھڑے ہیں ـ میں بھی ان میں موجود ہوں ـ ان کے چارون طرف لوہے کے بلند و بالا ستون ہیں ان پر زمین سے لے کر قد آدم تک خار دار تار لپٹا ہوا ہےـ تار کے اس حلقے سے باہر نکلنے کا کوئی دروازہ یا راستہ نہیں ـ ہزاروں اشخاص کو اس میں قید کر دیا گیا ہےـ ان میں چند شناسا صورتیں بھی ہیں ـ میں نے ان سے دریافت کیا کہ ہمیں اس مصیبت میں گرفتار کیوں کیا گیا ہے؟ انہوں نے مجھے کہا کہ ہمیں احمدیت کی وجہ سے مخالفین نے یہاں بند کر دیا گیا ہےـ یہاں سے کچھ فاصلے پر مسیح موعود پلنگ پر سوئے ہوئے ہیں ـ انہیں ہماری خبر نہیں کہ وہ ہماری رہائی کے لیے کوشش کر سکیں ـ ہم میں سے کسی کے پاس کوئی اوزار نہیں جس سے خار دار تار کو کاٹ کر باہر نکلنے کا کوئی رستہ بنایا جا سکےـ میں نے خاردار تار کے چاروں طرف گھومنا شروع کیا کہ میں نے دیکھا کہ ایک جگہ زمین کی سطح کے قریب کا تار ڈھیلا ہے ـ میں زمین پر بیٹھا اور اس تار کو اپنے پاؤں سے نیچے دبایا تو وہ تار زمین کے ساتھ جا لگا ، سر کے قریب تار کوہاتھ سے ذرا اوپر کیا تو دونوں تاروں میں اس قدر فاصلہ ہو گیا کہ میں تار سے باہر نکل آیا ـ
مجھے کافی فاصلہ پر پلنگ نظر آیا جس پر رزا احمد قادیانی چادر اوڑھے لیٹا ہوا تھا ـ میں نہایت ادب و احترام سے پلنگ کے قریب پہنچ گیا ـ کیا دیکھتا ہوں کہ اس نے اپنے چہرے سے چادر سرکائی تو اس کا منہ دو فٹ لمبا تھا ، شکل ناقابل بیان تھی ـ( خنزیر جیسی) ایک آنکھ بالکل بے نور اور بند تھی ، دوسری آنکھ ماش کے دانے کے برابر تھی ـ اس نے کہا میری بہت بری حالت ہے ـ اس کی آواز کے ساتھ شدید قسم کی بو پیدا ہوئی ـ اس کیشکل اور بد بو سے میں کانپ گیا ـ میری نیند اچاٹ ہو گئی اور جاتی رہی - میری آنکھ کھل گئیـ
ایک رات خوب دیکھا کہ ایک شخص مجھ سے قریبا دو سو گز آگے جا رہا ہےـ میں اس کے پیچھے پیچھے چل رہا ہوں ـ تانت ( جس سے روئی دھنی جاتی ہے) کا ایک سرا اس کی کمر میں بندھا ہوا ہے اور دوسرا میری گردن میں ـ ہمارا سفر مغرب سے مشرق کی طرف ہے ـ دوران سفر راستہ پر دائیں طرف ایک نہایت وجہیہ شخص نظر آئے ـ سفید رنگ ، درمیانہ قد، روشن آنکھیں ، سفید پگڑی سفید لمبا کرتہ سفید شلوارـ مسکراتے ہوئے مجھے فرمایا کہ کہاں جا رہے ہو ؟ میں نے جواب دیا کہ جہاں میرے آگے جانے والے مجھے لیے جا رہے ہیں ـ کہنے لگے جانتے ہو یہ کون ہے اور تمہیں کہاں لے جا رہا ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ یہ کون ہے اور مجھے کہاں لے جا رہا ہے؟ کہنے لگے کہ یہ مرزا غلام احمد قادیانی ہے خود جہنم کو جا رہو ہے اور تمہین بھی وہیں لیے جا رہا ہےـ ـ میں نے کہا کہ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جو جان بوجھ کر جہنم میں جائے اور دوسرون کو بھی جہنم میں لے جائےـ انہوں نے کہا کہ مسیلمہ کذاب کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟ کیا اس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر کے عمدا جہنم کا راستہ اختیار نہیں کیا تھا ؟ میں اس دلیل کو جواب نہ دے سکا ـ تو فرمانے لگے غور سےسامنے دیکھو ـ جب میں نے سامنے نگاہ کی تو مجھے بہت دور حد نگاہ پر زمین سے آسمان تک سرخی دکھائی دی ـ انہوں نے پوچھا جانتے ہو یہ سرخ رنگ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ میں نہیں جانتا ـ کہنے لگے کہ یہ ہی تو جہنم کے شعلے ہیں ـ میں حسب سابق چل رہا تھا وہ بھی میرے ساتھ ساتھ قدم اٹھاتے جا رہے تھےـ وہ غائب ہو گئے میں بدستور اس شخص ( مرزا غلام احمد قادیانی) کے پیچھے پیچھے جا رہا تھا ـ ہم سرخی ( جہنم کے شعلوں ) کے قریب ہو رہے تھےـ اب تو مجھے حرارت بھی محسوس ہونے لگی ـ وہ وجہیہ شخصیت پھر نمودار ہوئی ـ انہوں نے تانت پر ضرب لگائی اور تانت ٹوٹ گئی اور میں نیند سے بیدار ہو گیاـ
قادیانی اور مرزا لال حسین اختر ( مولانا ظفر علی خان کی تاریخی نظم )
فروری ۱۹۳۴ کی بات ہے جب قادیانیوں نے اسلامیہ کالج لاہور کے طلبا کو مرتد کرنے کی مردود کوشش کی تو اکابر ملت نے اس فتنہ کی سرکوبی کےلیے مسجد مبارک میں تقریر کیں ـ جس پر حکومت نے حضرت مولانا ظفر علی خان ، مولانا لال حسین اختر، حضرت مولانا عبد الحنان صاحب اور احمد یار خان سیکرٹری مجلس احرار اسلام کو مقید و محبوس کر دیاـ ایک دن مولانا ظفر علی خان سے ایک قیدی نے شکایت کی کہ جیل والے اسے استنے دانے دیتے ہیں کہ پیسے نہیں جاتے - حضرت مولانا نے اپنے رفقاء کو بلایا اور سب حضرات نے باری باری چکی پیس کر وہ دانے ختم کر دیے ـ اس دوران مولانا لال حسین اختر نے مولانا سے ارشاد کی درخواست کی تو ارتجا لا مولانا کی زبان پر یہ شعر آگئے جو تا حال کسی کتاب میں شائع نہیں ہو سکے ـ حضرت مولانا لال حسین کے شکریہ کے ساتھ ہدیہ قارئین کرام ہیں ( مدیر)
غلام احمد بھلا کیا جان سکتا ہے کہ دیں کیا ہے
رموز علم الاسماچہ ۔۔۔داند۔۔ذوق ابلیسی
ادھر توحید کی باتیں ادھر تثلیث کی گھاتیں
میری فطرت حجازی ہےسرشت اس کی ہے انگلیسی
یہ کہہ کر حق جتا دوں گا محمد کی شفاعت پر
کہ آقا تیری خاطر میں نے چکی جیل میں پیسی
مقابل قادیانی ہو نہیں سکتے اختر کے
پڑے گا ایک ہی تھپڑتو جھڑ جائے گی بتیسی
ہوا جب علم کا چرچا دیا فتویٰ یہ مرزا نے
ہمارا علم ہے دریا نام اس کا ہے سائیسی
ہے امر تسر سے مغرب کی طرف مینارہ مرزا
یہ نکتہ حل کریں مرقد سے اٹھ کر آج ادریسی -
قادیان جو ضلع گورداس پور پنجاب میں ہے جو لاہور سے گوشہ مغرب ور جنوب میں واقع ہے - ( تبلیغ رسالت جلد ۹ صفحہ ۴۰ ، مجموعہ اشتہارات ، ج ۳ ص ۲۹۸۸ )
(ادریسی : مشہور جغرافیہ دان ))