احمدیہ پاکٹ بک قادیانی جماعت کی ایک اہم کتاب ہے ۔ قادیانی مربی ہوں یا عام قادیانی ، مسلمانوں سے بحث کرتے ہوئے زیادہ تر اسی پاکٹ بک سے استفادہ کرتے ہیں ۔
اسے گجرات، پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل ملک عبدالرحمن صاحب خادم نے مرتب کیا ہے اور اس میں اپنے وکیلانہ جوہر اور ہتکھنڈوں کا خوب اظہار کیا ہے ۔
اس کتاب میں مختلف عنوانات قائم کر کے ان پردلائل پیش کئے گئے ہیں ۔ ان مختلف عنوانات میں سے ہم سب سے پہلے "مسئلہ امکان نبوت" کے عنوان کا جائزہ لیں گے ۔
وکیل صاحب نے مسئلہ امکان نبوت کا عنوان قائم کر کے سب سے پہلے اس کا ایک ذیلی عنوان قائم کیا ہے " دلائل امکان نبوت از روئے قرآن مجید" اور پھر اس عنوان کے تحت مختلف آیات قرآنی سے اپنا استدلال پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔
اس سے پہلے کہ ہم وکیل صاحب کی پیش کردہ آیات اور استدلال پر کچھ گفتگو کریں سب سے پہلے ان کے قائم کردہ عنوان پر کچھ گزارشات پیش خدمت ہیں ۔
درج ذیل وجوہات کی بنا ، پر وکیل صاحب کا امکان نبوت کا عنوان قائم کرنا اور اس پر دلائل پیش کرنا بالکل بے سود اور غلط ہے ۔
1 : قادیانیوں سے ہمارا اصل اختلاف تو بعد از ختم نبوت، نبوت کے بالفعل وقوع کا ہے ۔ جب قادیانی مرزا غلام احمد بن چراغ بی بی کو نبی تسلیم کر چکے ہیں تو وہ درحقیقت بالفعل نبوت کا وقوع تسلیم کر چکے ہیں ۔اب ممکن بالقوۃ کے دلائل پیش کرنا بیکار ہے بلکہ وکیل صاحب کو مرزا قادیانی کے بالفعل نبی ہونے پر دلائل پیش کرنے چاہئے تھے ۔ موصوف نے وقوع کو چھوڑ کر امکان کوزیربحث لا کر دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے ۔
2 : قادیانی جماعت جس قسم کی نبوت جاری ہونے کی قائل ہے وہ ایک خاص قسم کی نبوت ہے جس کو ظلی،بروزی نبوت کہا جاتا ہے ۔نبوت کی یہ قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد جاری ہوئی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع سے ملتی ہے ۔
اب جبکہ قادیانی احباب ایک خاص قسم کی نبوت کے قائل ہیں تو اس کے دلائل بھی خاص ہونا ضروری ہیں لیکن وکیل صاحب نے اپنی خاص قسم کی خود ساختہ نبوت کے جو دلائل پیش کئے ہیں وہ سب کے سب عام ہیں ۔
یاد رہے کہ خاص دعویٰ کے لئے دلیل بھی خاص ہوا کرتی ہے ایسا نہیں ہوتا کہ دعویٰ تو خاص ہو اور دلیل عام پیش کر دی جائے ۔
3 : امکان نبوت کے دلائل پیش کرنے کے باوجود اصل حقیقت یہ ہے کہ قادیانی ،مرزا غلام احمدقادیانی کے بعد کسی نبی کی آمد کے قائل نہیں لہذا جب مرزا قادیانی ان کے نزدیک آخری نبی ہوا تو پھراب امکان نبوت کے دلائل پیش کرنے کا کیا تک بنتا ہے ؟ اب تو بحث اس بات پر ہونی چاہئے کہ آخری نبی کون ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا مرزا قادیانی
روحانی خزائن جلد 19 ص 61 پر مرزا قادیانی لکھتا ہے
" ہلاک ہوگئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہ کیا ۔مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا ۔میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں بدقسمت ہے و ہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیوں کہ میرے بغیر سب تاریکی ہے "
رسالہ تشحیذالاذھان مارچ 1914 ص 31 پر لکھا ہے
" پس ثابت ہوا کہ امت محمدیہ میں ایک سے زیادہ نبی کسی صورت میں نہیں آ سکتے ۔ چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت سے صرف ایک نبی اللہ آنے کی کی خبر دی ہے جو مسیح موعود ہے اور اس کے سوا کسی کا نام نبی اللہ یا رسول اللہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ کسی اور نبی کے آنے کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے بلکہ لا نبی بعدی فرما کر اوروں کی نفی کردی اور کھول کر بیان فرما دیا کہ مسیح موعود کے سوا قطعاً کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا "
آئیے اب وکیل صاحب کی پیش کردہ آیات میں سے سب سے پہلی آیت کا جائزہ لیتے ہیں ۔
پہلی آیت : اَللہُ یَصطَفِی مِنَ المَلآتہِ رُسُلاً وَّمِنَ النَّاسِ ( الحج 76 ) کہ اللہ تعالیٰ چنتا ہے اور چنے گا فرشتوں میں سے رسول اور انسانوں میں سے بھی
اس آیت میں یَصطَفِی مضارع کا صیغہ ہے جو حال اور مستقبل دونوں زمانوں کے لئے آتا ہے پس یَصطَفِی سے مراد صرف حال نہیں لیا جا سکتا
وکیل صاحب شاید بھول گئے ہیں کہ صیغہ مضارع میں ہمیشہ استقبال نہیں ہوتا بلکہ یہ کبھی زمانہ حال کے لئے اور کبھی زمانہ مستقبل کے لئے ہوتا ہے ۔ جہاں حال کے معنیٰ لئے جائیں وہاں یہ استقبال کے لئے نہیں رہتا اور جہاں اس کے معنیٰ مستقبل کے لئے جائیں وہاں یہ حال کے لئے نہیں رہتا۔
کوئی عقلمند یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہر مضارع استمرار کے لئے ہوتا ہے اس آیت میں صیغہ مضارع فعل کے اثبات کے لئے ہے نہ کہ تجدّد و استمرار کے لئے جیسا کہ قرآن پاک میں ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ھُوَالَّذِی یُنَزلُ عَلیٰ عَبدِہ ٖ ایَتِ بَیّنٰت (الحدید 9)یہاں بھی مضارع ہے کیا اس بھی لازم آتا ہے کہ اس میں استمرار ہو اور ہمیشہ قیامت تک کے لئے قرآن نازل ہوتا رہے گا ؟