• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

احمدیہ پاکٹ بک پر ایک طائرانہ نظر قسط 2

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

آئیے اب قادیانی وکیل صاحب کی امکان نبوت از قرآن مجید کے عنوان کے تحت پیش کردہ دوسری آیت اور ان کے استدلال کا جائزہ لیتے ہیں ۔
مَّا كَانَ اللَّـهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ (179)
(خدا تعالیٰ مومنوں کو اس حالت پر نہیں چھوڑے گا جس پر اے مومنو تم اس وقت ہو یہاں تک کہ پاک اور ناپاک میں تمیز کردے گا۔خدا تعالیٰ ہر ایک مومن کو غیب پراطلاع نہیں دے گا (فلاں پاک ہے اور فلاں ناپاک)بلکہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے گابھیجے گا (اور ان کے ذریعے سے پاک اور ناپاک میں تمیز ہو گی)پس اے مسلمانوں! اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا اور اگر تم ایمان لاؤ اور تقویٰ اختیار کرو تو تم کو بہت بڑا اجر ملے گا ۔
سورۃ آل عمران مدنی سورۃ ہے اور آنحضرت ﷺ کی نبوت کے کم ازکم تیرہ سال بعد نازل ہوئی جبکہ پاک اور ناپاک میں، ابوبکرؓ و ابوجہل میں ،عمرؓ اور ابولہب میں ، عثمانؓ اور عتبہ وشیبہ وغیرہ میں کافی تمیز ہو چکی تھی ۔مگر اللہ تعالیٰ اس کے بعد فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ مومنوں میں پھر ایک بار تمیز کرے گا مگر اس طور پر نہیں کہ ہر ایک مومن کو الہاماً بتاوے کہ فلاں مومن اور فلاں منافق ہے بلکہ فرمایا کہ رسول بھیج کر ہم پھر ایک دفعہ یہ تمیز کر دیں گے ۔
آنحضرت ﷺ کی آمد سے ایک دفعہ یہ تمیز ہو گئی اس آیت میں آنحضرت ﷺکے بعد ایک اور تمیز کرے گا ۔اس سے سلسلہ نبوت ثابت ہے۔)
وکیل صاحب نے اس آیت کے ترجمے میں اپنے خود ساختہ عقیدے کو بیان کرنے کے لئے کافی تصرف سے کام لیا ہے ۔
یجتبی کا ترجمہ وکیل صاحب نے " بھیجے گا " کیا ہے ۔ اللہ جانے دنیا کی وہ کون سی عربی لغت ہے جس میں یجتبی کا معنی بھیجے گا لکھا ہوا ہے ۔
حالانک ہ یجتبی کا معنیٰ ہوتا ہے چن لینا ،منتخب کر لینا ۔
اس کے علاوہ وکیل صاحب نے ترجمے میں لکھا ہے " بلکہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے گا بھیجے گا " اب پتہ نہیں یہ آیت کے کن الفاظ کا ترجمہ ہے ۔
وکیل صاحب نے اپنے استدلال میں کہا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد ایک اور تمیز کرے گا ۔
جناب وکیل صاحب! اس آیت کے کس حصے میں لکھا ہے یہ تمیز نبی ﷺ کے بعد صرف ایک بار ہو گی ؟ اور یہ بھی وضاحت فرمادیں کہ ا ب ایک ہی تمیز کیوں ہو گی ،متعدد تمیزیں کیوں نہیں ہو سکتیں ؟؟؟
جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ قادیانی بعد از نبوت محمدیﷺ ایک خاص قسم کی نبوت کے قائل ہیں لہٰذا خاص دعوے کے لئے دلیل بھی خاص ہونی چاہئے ۔
لیکن وکیل صاحب اپنے خاص دعوے کے لئے دلیل عام پیش کر رہے ہیں ۔اور جیسا کہ ہم پچھلی آیت کے ضمن میں بیان کر چکے ہیں کہ وکیل صاحب کے نبی جناب مرزا قادیانی لفظ رسول کو عام تسلیم کرتے ہیں ۔مرزا قادیانی کہتے ہیں۔
رسول کا لفظ عام ہے جس میں رسول اور نبی اور محدث داخل ہیں" (روحانی خزائن ج 5 ص 322 )
رسل سے مراد مرسل ہیں خواہ وہ رسول ہوں یا نبی ہوں یا محدث ہوں اور چونکہ ہمارے سید و رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیا، ہیں اور بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی نبی نہیں آ سکتا اس لئے اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محدث رکھے گئے ہیں ۔ ( روحانی خزائن ج 6 ص 323 )
رسولوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جاتے ہیں خواہ وہ نبی ہوں یا رسول یا محدث اور مجدد ہوں ۔ (روحانی خزائن ج 14 ص419 )

تو جناب وکیل صاحب ! اس آیت میں بھی لفظ رسل ہی ہے اور جب بقول مرزا قادیانی لفظ رسول عام ہے تو آپ کس طرح اس کو خاص لے رہے ہیں ؟؟
اور رہی بات اس آیت میں اطلاع علی الغیب کی تو بقول مرزا قادیانی اطلاع علی الغیب تو غیر نبی کو بھی ہو تی رہتی ہے۔
مرزا صاحب لکھتے ہیں " ۔۔۔ کہ خدا تعالیٰ امت محمدیہ میں کہ جو سچے دین پر ثابت اور قائم ہیں ہمیشہ ایسے لوگ پیدا کرتا ہے کہ جو خدا کی طرف سے ملہم ہو کر ایسے امور غیبیہ بتاتے ہیں جن کا بتلانا بجز خدائے وحدہ لا شریک کے کسی کے اختیار میں نہیں " (روحانی خزائن ج 1 ص 238)
لیجئے وکیل صاحب ! مرزا صاحب کے نزدیک تو لفظ رسول بھی عام ہے اور غیر نبی کے لئے اطلاع علی الغیب بھی ثابت ہے تو آپ کا خود ساختہ سارا استدلال تو آپ کے اپنے ہی نبی کے ہاتھوں ختم ہو گیا ۔

وکیل صاحب نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس آیت کا نزول ہجرت کے تیسرے سال ہوا لہذا اس آیت کے مخاطب نزول آیت کے وقت موجود مومنین تھے اور اس وقت تک مومنین اور منافقین کے درمیان تمیز نہیں ہوئی تھی لہذا یہ تمیز درجہ بدرجہ ہوتی ہوئی غزوہ تبوک تک مکمل ہوگئی مخلص مومن لوگ باقی رہ گئے اور منافق چھٹ گئے حتیٰ کے منافقین کے نام لے لے کر مسجد نبوی سے اٹھا دیا گیا تھا ۔
اور جس تمیز کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے وہ تمیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی مکمل ہوگئی تھی ۔
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
وکیل صاحب کی پیش کردہ
تیسری آیت : وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَفِيقًا (النسا،69)
(جو اطاعت کریں گے اللہ کی اور اس کے اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پس وہ ان شامل ہو جائیں گے جن پر اللہ نے انعام کیا یعنی نبی،صدیق ،شہید اور صالح اور یہ ان کے اچھے ساتھی ہو نگے ۔
اس آیت میں خدا تعالیٰ نے امت محمدیہ میں طریق حصول نعمت اور تحصیل نعمت کو بیان کیا ہے ۔آیت میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی سے ایک انسان ترقی کرکے نبوت کے مقام تک پہنچتا ہے ۔)

وکیل صاحب ! اس آیت میں کسی بھی قسم کے انعامات یا درجات ملنے کا کوئی ذکر نہیں بلکہ یہاں تو محض معیت اور رفاقت کا ذکر ہے کہ اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرنے والے مذکورہ بالا چار لوگوں کے ساتھ ہوں گے جیسا کہ آیت کے آخری الفاظ " حسن اولئک رفیقا سے بھی ظاہر ہے ۔
اس آیت سے معیت مراد ہے عینیت نہیں اور اس معیت سے مراد معیت فی الاخرۃ ہے جیسا کہ اس آیت کے شان نزول سے بالکل واضح ہے جسے کم و بیش تمام مفسرین نے بیان کیا ہے ۔
اس آیت کے شان نزول کے بارے میں ابن جریر طبری نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے روایت کی ہےکہ
’’ من یطع اﷲ والرسول ذکروا فی سبب النزول وجوھا۰ الا ول رویٰ جمع من المفسرین ان ثوبان ؓ مولیٰ رسول اﷲ ﷺ کان شدید الحب لرسول اﷲ ﷺ قلیل الصبرعنہ فاتاہ یوما وقد تغیر وجھہہ ونحل جسمہ وعرف الخزن فی وجھہ فسالہ رسول اﷲ ﷺ عن حالہ فقال یا رسول اﷲ مابی وجع غیرانی اذالم ارٰک اشتقت الیک واستو حشت وحش شدید حتی القاک فذکرت الاخرۃ فخفت ان لااراک ھناک لاانی ان ادخلت الجنۃ فانت تکون فی الدرجات النبیین وانا فی الدرجۃ العبید فلا اراک وان انالم ادخل الجنۃ فحینٔد لااراک ابدا فنزلت ھذہ الایۃ ۰‘‘
{’’ من یطع اﷲ ۔۔۔ ۔۔۔الخ‘‘ (اس آیت) کے شان نزول کے کئی اسباب مفسرین نے ذکر کئے ہیں۔ ان میں پہلا یہ ہے کہ حضرت ثوبان ؓ جو آنحضرت ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ وہ آپ کے بہت زیادہ شیدائی تھے۔ (جدائی پر)صبر نہ کرسکتے تھے۔ ایک دن غمگین صورت بنائے رحمت دو عالم ﷺ کے پاس آئے۔ ان کے چہرہ پر حزن وملال کے اثرات تھے۔ آپ ﷺ نے وجہ دریافت فرمائی ۔
تو انہوں نے عرض کیا کہ مجھے کوئی تکلیف نہیں ۔ بس اتنا ہے کہ آپ ﷺ کو نہ دیکھیں تو اشتیاق ملاقات میں بے قراری بڑھ جاتی ہے۔ آپ ﷺ کی زیارت ہوئی آپ ﷺ نے قیامت کا تذکرہ کیا تو سوچتا ہوں کہ جنت میں داخلہ ملا بھی تو آپ ﷺ سے ملاقات کیسے ہوگی۔اس لئے کہ آپﷺ تو انبیاء کے درجات میں ہوں گے۔ اور ہم آپ ﷺ کے غلاموں کے درجہ میں۔ اور اگر جنت میں سرے سے میرا داخلہ ہی نہ ہوا تو پھر ہمیشہ کے لئے ملاقات سے گئے۔ اس پریہ آیت ناز ل ہوئی۔}
’’ عن عائشہ ؓ قالت سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول مامن نبی یمرض الا خیربین الدنیا والآخرۃ وکان فی شکواہ الذی قبض اخذتہ مجۃ شدیداً فسمعتہ یقول مع الذین انعمت علیھم من النبیین فعلمتہ انہ خیر ۰
{حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺسے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ ہر نبی مرض (وفات) میں اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں رہنا چاہتا ہے یا عالم آخرت میں۔ جس مرض میں آپ ﷺ کی وفات ہوئی آپ ﷺ اس مرض میں فرماتے تھے ’’ مع الذین انعمت علیھم من النبیین ‘‘اس سے میں سمجھ گئی کہ آ پ ﷺ کو بھی (دنیا وآخرت میں سے ایک کا) اختیار دیا جارہا ہے۔} ۔۔۔۔الخ(بخاری شریف کتاب التفسیر)
اس آیت کے شان نزول اور نبیﷺ کے آخری الفاظ نے یہ بات بالکل واضح کر دی کہ اس آیت میں کسی انعام یا درجہ کا کوئی ذکر نہیں بلکہ آخرت کی معیت کا ذکر ہے ۔
اس کے بعد وکیل صاحب لکھتے ہیں ۔
( دوسری جگہ جہاں انبیا، سابق کی اتباع کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے نتیجے میں انعام نبوت نہیں دیا گیا جیسا کہ فرمایا وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ۖ وَالشُّهَدَاءُ (الحدید19)یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اللہ تعالیٰ پراور باقی تمام انبیا، پر وہ صدیق اور شہید ہوئے۔
یاد رہے کہ یہاں آمَنُوا صیغہ ماضی اور رُسُلِهِ صیغہ جمع ہے بخلاف من یطع اللہ والی آیت کے اس میں یطع مضارع ہے الرسول خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے ۔)
وکیل صاحب نے سورہ الحدید کی آیت 19 کے ایک حصے سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یہاں امت محمدیہ کی بات نہیں ہو رہی بلکہ انبیائے سابقین کے متبعین کا ذکر ہے ۔لیکن وکیل صاحب کا ایسا کرنا محض دھوکہ دینا ہے ۔ہم یہ آیات پیش کر دیتے ہیں قائرین خود دیکھ لیں کہ ان آیات میں انبیائے سابقین کے متبعین کا ذکر دور دور تک نہیں ہے بلکہ امت محمدیہ ﷺ ہی اس کی مخاطب ہے ۔
إِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَأَقْرَضُوا اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ۖ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ (الحدید 18تا19)
بیشک صدقہ و خیرات دینے والے مرد اور صدقہ و خیرات دینے والی عورتیں اور جنہوں نے اللہ کو قرضِ حسنہ کے طور پر قرض دیا ان کے لئے (صدقہ و قرضہ کا اجر) کئی گنا بڑھا دیا جائے گا اور اُن کے لئے بڑی عزت والا ثواب ہوگااور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں، اُن کے لئے اُن کا اجر (بھی) ہے اور ان کا نور (بھی) ہے، اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ دوزخی ہیں۔
اور رہی وکیل صاحب کی یہ بات کہ یطع مضارع ہےتو ان کی یہ بات بالکل صحیح ہے لیکن یاد رہے کہ مضارع کبھی حال اورکبھی مستقبل کے لئے استعمال ہوتا ہے بہرحال اس آیت می ں یطع چاہے حال کے لئے استعمال ہوا ہو چاہے استقبال کے لئے اس کا معنیٰ وہی ہے جو اس آیت کے شان نزول سے اور نبی ﷺکے آخری الفاظ سے برآمد ہوتا ہے ۔
وکیل صاحب اس آیت سے اخذکردہ اپنےخودساختہ استدلال کو بیان کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں۔
( گویا پہلے انبیا،کی اطاعت زیادہ سے زیادہ کسی انسان کو صدیقیت کے مقام تک پہنچا سکتی تھی مگر ہمارے نبیﷺ کی اطاعت ایک انسان کو مقام نبوت پربھی فائز کر سکتی ہے۔)
ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ سورہ الحدید کی آیت میں انبیائے سابقین کا کوئی ذکر ہی نہیں اور نہ ہی من یطع اللہ والی آیت میں کسی انعام یا درجہ ملنے کا ذکر ہے لہذا وکیل صاحب کا یہ خود ساختہ استدلال باطل ہے ۔
پھر وکیل صاحب لکھتے ہیں ۔
(اگر کہا جائے کہ من یطع اللہ والی آیت میں لفظ مع ہے مِن نہیں جس کا مطلب یہ کہ جو لوگ آنحضرت ﷺ کی اطاعت کریں گے وہ نبیوں کے ساتھ ہوں گےخود نبی نہ ہوں گے تو اس کا جواب یہ ہے کہ
1: اگر تمہارے معنیٰ تسلیم کر لئے جائیں تو ساری آیت کا ترجمہ یوں بنے گا کہ آنحضرت ﷺ کی اطاعت کرنے والے نبیوں کے ساتھ ہوں گے مگر خود نبی نہ ہوں گے ،وہ صدیقوں کے ساتھ ہوں گے مگر خود صدیق نہ ہوں گے ،وہ شہیدوں کے ساتھ ہوں گے مگر خود شہید نہ ہوں گے، وہ صالحین کے ساتھ ہوں گے مگر خود صالح نہ ہوں گے ۔ تو گویا نہ حضرت ابوبکرؓ صدیق ہوئے نہ عمرؓ ،عثمانؓ،علیؓ و حضرت حسینؓ شہید ہوئے اور نہ امت محمدیہ میں کوئی نیک آدمی ہوا ۔تو پھر یہ خیر امت نہیں بلکہ شر امّت ہوئی ۔لہٰذا اس آیت میں مع بمعنیٰ ساتھ نہیں ہو سکتا بلکہ مع بمعنیٰ مِن ہے ۔)
وکیل صاحب ! آپ یہاں ضرورت سے زیادہ ہی جذباتی ہوگئے ہیں اس آیت میں مع معنیٰ ساتھ ہی ہے جیسا کہ ہم نبی ﷺ کے آخری الفاظ اور اس آیت کے شان نزول سے ثابت کر چکےہیں ۔اور ہم یہ بھی عرض کر چکے ہیں کہ اس آیت میں کسی درجہ یا انعام ملنے کا کوئی ذکر ہی نہیں بلکہ یہاں محض معیت فی الاخرۃ کا ذکر ہے ۔ اور قرآن حکیم میں جہاں درجات ملنے کا ذکر وہاں نبوت کا کوئی تذکرہ نہیں
جیسے

َالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ۖ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ۖ
(الحدید19)
جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں، اُن کے لئے اُن کا اجر (بھی) ہے اور ان کا نور (بھی) ہے۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصَّالِحِينَ (عنکبوت 9)
اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے تو ہم انہیں ضرور نیکو کاروں (کے گروہ) میں داخل فرما دیں گے۔
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ (الحجرات 15)
ایمان والے تو صرف وہ لوگ ہیں جو اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے، پھر شک میں نہ پڑے اور اﷲ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے رہے، یہی وہ لوگ ہیں جو (دعوائے ایمان میں) سچےّ ہیں۔

اس کے بعد وکیل صاحب نمبر 2 کے تحت لکھتے ہیں ۔
( 2: جیسا کہ قرآن مجید میں ہے إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّـهِ وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا (النسا، 146) مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی اور اصلاح کی اور خدا کی رسی کو مضبوط پکڑااور اللہ کے لئے اپنے دین کو خالص کیا پس وہ مومنوں کے ساتھ ہیں اور خدا تعالیٰ مومنوں کو عنقریب بڑا اجر دے گا ۔
کیا یہ صفات رکھنے والے لوگ مومن نہیں صرف مومنوں کے ساتھ ہی ہیں اور کیا ان کو اجر عظیم عطا نہیں ہو گا ؟
چناچہ تفسیر بیضاوی میں آیت بالا کے الفاظ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ ۖ کا ترجمہ یہ کیا ہے { فَأُوْلَٰـئِكَ مَعَ ٱلْمُؤْمِنِينَ } ومن عدادهم في الدارين یعنی وہ لوگ دونوں جہانوں میں مومنوں کی گنتی میں شامل ہیں پس مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ کا بھی یہ ہو گا کہ وہ دونوں جہانوں میں منعم علیھم یعنی انبیا، کی گنتی میں شامل ہوں گے ۔)
قائرین کرام ! غور فرمائیں کہ اس آیت کے ترجمہ میں وکیل صاحب از خود مَعَ الْمُؤْمِنِينَ میں مَعَ کا ترجمہ ساتھ کر رہے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس آیت میں مَعَ کا ترجمہ ساتھ ہی ہے کیونکہ اس آیت سے ماقبل کی آیت اور اس آیت میں منافقین کے اخروی انجام کا ذکر ہو رہا ہے کہ اگر وہ منافقت کی حالت میں ہی مریں گے تو جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور اگر ایمان لے آئیں گے تو وہ مومنین کے ساتھ جنت میں ہوں گے ۔آئیے دونوں آیات کو دیکھتے ہیں ۔
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا ﴿(145) إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّـهِ وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا (146)
بے شک منافق دوزخ کے سب سے نیچے والے طبقہ میں ہوں گے۔ اور تم ان کے کوئی یار و مددگار نہیں پاؤگے۔سوا ان کے جنہوں نے توبہ کی، اپنی اصلاح کرلی۔ اور اللہ سے وابستہ ہوگئے اور اللہ کے لئے اپنا دین خالص کر دیا تو یہ لوگ مؤمنین کے ساتھ ہوں گے اور اللہ اہل ایمان کو اجر عظیم عطا فرمائے گا۔
تفسیر طبری میں ہے

{ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ ٱلْمُؤْمِنِينَ } يقول: فهؤلاء الذين وصف صفتهم من المنافقين بعد توبتهم وإصلاحهم واعتصامهم بالله وإخلاصهم له مع المؤمنين في الجنة
تفسیر ابن کثیر میں ہے
{ فَأُوْلَـٰئِكَ مَعَ ٱلْمُؤْمِنِينَ } أي: في زمرتهم يوم القيامة
تفسیر کشاف میں ہے
{ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ ٱلْمُؤْمِنِينَ } فهم أصحاب المؤمنين ورفقاؤهم في الدارين
تفسیر بحر محیط از ابو حیان میں ہے
ومعنى: مع المؤمنين، رفقاؤهم ومصاحبوهم في الدارين

اس کے علاوہ قادیانی جماعت کے اپنے مترجم قرآن میرمحمد اسحاق نے اپنے لفظی ترجمہ قرآن میں فَأُوْلَـٰئِكَ مَعَ ٱلْمُؤْمِنِينَ کا ترجمہ کیا ہے (یہ لوگ ساتھ ہوں گے مومنوں کے)
چوتھے قادیانی خلیفہ مرزا طاہر نے بھی مَعَ کا ترجمہ ساتھ ہی کیا ہے ( مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی اور اصلاح کی اور اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور اپنے دین کواللہ کے لئے خالص کر لیا تو یہی وہ لوگ ہیں جو مومنوں کے ساتھ ہیں اور عنقریب اللہ مومنوں کو ایک بڑا اجر عطا کرے گا۔)
اور رہی بات تفسیر بیضاوی کی کہ یہ لوگ مومنین کی گنتی میں شمار ہو ں گے تو بےشک یہ لوگ گنتی میں شمار تو ہو جائیں گے لیکن اس آیت میں مقصود ان لوگوں کو گنتی میں شمار کرانا نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ المومنین پر الف لام عہد کا ہے اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شروع سے ہی خالص مومن ہیں اور ان سے کبھی نفاق سرزد نہیں ہوا ان کی معیت میں وہ جنت میں ہوں گے جو پہلے منافق تھے پھر توبہ کر کے مخلص مومن بنے ۔
امام رازیؒ نے کیا خوبصورت بات لکھی کہ

اس کے بعد تیسرا جواب دیتے ہوئے وکیل صاحب لکھتے ہیں ۔
( 3: وَتَوَفَّنَا مَعَ ٱلأَبْرَارِ (آل عمران 193)کہ مومن یہ دعا کیا کرتے ہیں کہ اے اللہ !ہم کو نیک لوگوں کے ساتھ وفات دے۔اس آیت کا کیا یہ مطلب ہے ۔ اے اللہ ! جب نیک لوگوں کی جان نکلے ہماری جان بھی ساتھ ہی نکال لے؟ نہیں بلکہ یہ ہے کہ اے اللہ !ہم کو نیک بنا کر مار ۔)
اس کا جواب امام رازیؒ نے کیا خوب دیا ہے ۔

أن وفاتهم معهم هي أن يموتوا على مثل أعمالهم حتى يكونوا في درجاتهم يوم القيامة، قد يقول الرجل أنا مع الشافعي في هذه المسألة، ويريد به كونه مساويا له في ذلك الاعتقاد
یعنی ابرار کے ساتھ وفات کے یہ معنی ہیں کہ ان کے عملوں جیسے عمل پر موت آئے تاکہ روز قیامت ان کے سے درجوں میں ہوں ۔
عالم آج بھی بولتے ہیں کہ میں اس مسئلہ میں امام شافعیؒ کے ساتھ ہوں اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرا اور ان کا عقیدہ ایک ہے ۔
امام ابن جریرطبری لکھتے ہیں ۔

وتَوفنا مع الأبرار، يعنـي بذلك: واقبضنا إلـيك إذا قبضتنا إلـيك فـي عداد الأبرار، واحشرنا مـحشرهم ومعهم
تفسیر ابن کثیر میں ہے
{ وَتَوَفَّنَا مَعَ ٱلأَبْرَارِ } أي: ألحقنا بالصالحين ۔
اور تفسیر کشاف،مدارک ،بیضاوی میں ہے
{ مَعَ ٱلاْبْرَارِ } مخصوصين بصحبتهم
ان سب کا خلاصہ یہ کہ اے اللہ ہمارا حشر ان لوگوں کی صحبت اور معیت میں کیجئے ۔
پس ثابت ہوا کہ یہاں بھی مع بمعنی من نہیں ہے ۔
اس کے بعد وکیل صاحب چوتھے جواب میں مَع کو مِن ثابت کرنے کے لئے لکھتے ہیں ۔
( ایک جگہ شیطان کے متعلق آتا ہے أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ (الحجر 31) کہ وہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہ ہوا اور دوسری جگہ
لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ (الاعراف 11)آتا ہے ۔)
وکیل صاحب نے بغیر غوروفکر کے ان آیات کو اپنے خودساختہ مؤقف کے لئے یہاں بیان کر دیا حالانکہ ان دونوں آیات میں دوالگ مقام بیان کئے گئے ہیں ۔
اصل میں ابلیس نے تین گناہ کئے تھے ۔
1)… تکبر کیا تھا۔ اس کا ذکر سورۃ ص میں ہے أَمْ كُنتَ مِنَ الْعَالِينَ (ص 75)
(2)… سجدہ نہ کرکے اﷲ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی اس کا بیان سورۃ اعراف 11 میں ہے:’’ لم یکن من الساجدین ‘‘
(3)… اس نے جماعت ملائکہ سے مفارقت کی تھی۔ اس کا بیان سورۃ حجر 31میں ہے:’’ ان یکون مع الساجدین‘‘
پس مع ہر گز من کے معنوں میں نہیں بلکہ دونوں کے فائدے الگ الگ اور جدا گانہ ہیں۔

اس کے بعد وکیل صاحب نے ایک نوٹ لکھا ہے ۔
( مع کے معنی معیت (ساتھ)کے بھی ہوتے ہیں جیسا کہ آیت أَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (البقرہ 194) کہ خدا نیک لوگوں کے ساتھ ہے
اور مع کے معنیٰ مِن بھی ہوتے ہیں جیسا کہ اوپر مثالیں دی گئی ہیں ۔اور من یطع اللہ والی آیت میں تو اس کے معنی سوائے مِن کے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اگر یہ معنی نہ کئے جائیں تو امت محمدیہ نعوذباللہ شر امت قرار پاتی ہے جو بالبداہت باطل ہے لہذا ہمارے جواب میں أَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ اورإِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا ۖ (توبہ 40) پیش کرنا غیر احمدیوں کے لئے مفید نہیں ۔)
چلیں وکیل صاحب نے یہ تو تسلیم کر لیا کہ مع کے معنی ساتھ بھی ہوتے ہیں ۔باقی مع کو مِن ثابت کر نے کے لئے انہوں نے جن مثالوں کا ذکر کیا ہے اس کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے ۔
رہی یہ بات کہ اگر مع کا معنی مِن نہ کیا جائے تو امت محمدیہ شر امت کہلائے گی تو شاید وکیل صاحب یہ بات بالکل ہی بھول گئے قادیانی جماعت اس امت میں سوائے مرزا قادیانی کے کسی اور نبی کی قائل ہی نہیں یعنی 1437 سالوں میں قادیانی جماعت صرف او رصرف ایک نبی کی قائل ہے اور وہ بھی ظلی و بروزی نبی کی۔ تو کیا اس بات سے امت محمدیہ ﷺ شر امت ثابت ہوئی کہ نہ ہوئی ؟
کہ 1437 میں سوائے مرزا قادیانی کے کوئی بھی نبی ﷺ کی کامل اطاعت نہ کر سکا۔ تو جب یہ امت اپنے نبی ﷺ کی اطاعت ہی نہ کر سکی تو معاذاللہ یہ امت شر امت ثابت ہوجاتی ہے ۔
اس کے بعد وکیل صاحب ، نبوت موہبت ہے کے عنوان سے لکھتے ہیں ۔
(بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے تو آنحضرت ﷺ کی پیروی سے نبوت ملے گی تواس سے لازم آئے گا کہ نبوت ایک کسبی چیز ہے حالانکہ نبوت تو موہبت الہٰی ہے نہ کہ کسبی اور نبی تو ماں کے پیٹ سےہی پیدا ہوتا ہے
تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک نبوت وہبی ہے لیکن قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی موہبت نازل نہیں ہوتی جب تک کہ انسان کی طرف سے بعض اعمال ایسے سرزرد نہ ہوئے ہوں جو اس موہبت کے لئے جاذب بن جائیں ۔چناچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ (الشوری 49)کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اسکو لڑکیاں موہبت کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے لڑکے موہبت کرتا ہے ۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ (مریم49)کہ ہم نے حضرت ابراہیم
علیہ السلام کو اسحاق اور یعقوب عطا کئے ۔ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد موہبت ہے لیکن کیا اولاد کے حصول کے لئے کسی انسانی عمل کی ضرورت نہیں ؟
بیشک نبوت کے لئے آنحضرت ﷺ کی اتباع اور پیروی اور اطاعت اور اعمال صالحہ شرط ہیں لیکن اعمال صالحہ بھی تو خدا تعالیٰ کی طرف سے توفیق کے بغیر بجا لائے نہیں جا سکتے چناچہ حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں ـ ، وہ نعمت بخشی ہے جو میری کوشش سے نہیں بلکہ شکم مادر میں ہی مجھے عطا کی گئی(روحانی خزائن جلد 22 ص 70) اعمال صالحہ کا صادر ہونا خدا تعالیٰ کی توفیق پر موقوف ہے (خ جلد 22 ص 67))

وکیل صاحب اولاد کے حصول کے لئےا نسان کا دخل اختلاط تک ہوتا ہے مگر لڑکا یا لڑکی عطا کرنے میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اور بسا اوقات تو اختلاط سے بھی کچھ بھی نہیں ہوتا۔جیسا کہ قرآن مجید میں ہے وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا (الشوری 50)
اور وکیل صاحب نے خود ہی مرزا قادیانی کی عبارت پیش کر کے اپنا سارا استدلال ضائع کر دیا کہ ( وہ نعمت بخشی ہے جو میری کوشش سے نہیں بلکہ شکم مادر میں ہی مجھے عطا کی گئی(روحانی خزائن جلد 22 ص 70)۔
لیجیے مرزا صاحب تو کہہ رہے ہیں کہ انکو یہ نعمت ماں کے پیٹ میں ہی عطا ہو گئی تھی اب بتائیں اس وقت تک مرزا جی نے الله اور رسول کی کونسی اطاعت کی تھی؟؟ وہ تو ابھی دنیا میں بھی نہیں آئے تھے؟
اس کے علاوہ مرزا قادیانی کے ان دو اقوال نے تو وکیل صاحب کے سارے استدلال کا مزید بیڑاغرق کر دیا ہے ۔
’’ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ محدثیت محض وہبی ہے کسب سے حاصل نہیں ہوسکتی جیسا کہ نبوت کسب سے حاصل نہیں ہوسکتی ۔‘‘(اردو ترجمہ حمامۃ البشریٰ ص82روحانی خزائن ص301ج7)
" صراط صراط الذين انعمت عليهم اس آیت کا خلاصہ یہ کہ جس شخص کو یہ مرتبہ ملا انعام کے طور پر ملا یعنی محض فضل سے نہ کسی عمل کا اجر
( روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 365)
اب بتائیں کس کی بات ٹھیک ہے ؟ آج کل کے قادیانیوں کی یا مرزا کی؟ یہ آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت کا اعجاز ہے کہ مرزا قادیانی اپنے ہی مسلمات کے خلاف لکھ گیا۔
نبوت وہبی ہے
… علامہ شعرانی ؒ الیواقیت والجواہر میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ فان قلت فھل النبوۃ مکتسبۃ او موھوبۃ فالجواب لیست النبوۃ مکتسبۃ حتی یتوصل الیھا بالنسک و الریاضات کما ظنہ جماعۃ من الحمقاء … و قد افتی المالکیۃ و غیرھم بکفر من قال ان النبوۃ مکتسبۃ ‘‘
(الیواقیت والجواہر ص 164،165 ج 1)
ترجمہ: ’’کہ کیا نبوت کسبی ہے یا وہبی؟ تو اس کا جواب ہے کہ نبوت کسبی نہیں ہے کہ درویشی اختیار کرنے یا محنت و کاوش سے اس تک پہنچا جائے۔ جیسا کہ بعض احمقوں کا خیال ہے۔ مالکیہ وغیرہ نے کسبی کہنے والوں پر کفر کا فتویٰ دیا ہے۔‘‘
۲… قاضی عیاضؒ شفاء میں لکھتے ہیں:
’’ من ادعی نبوۃ احد مع نبیناﷺ اوبعدہ … اومن ادعی النبوۃ لنفسہ او جوأز اکتسابھا۰ و البلوغ بصفاء القلب الی مرتبتھا الخ وکذالک من ادعی منھم انہ یوحیٰ الیہ وان لم یدع النبوۃ… فھولاء کلھم کفار مکذبون للنبیﷺ لانہ اخبرﷺ انہ خاتم النبیین لانبی بعدہ ‘‘
(شفاء ص 146،247 جلد2)
ترجمہ: ’’ہمارے نبیﷺ کی موجودگی یا آپﷺ کے بعد جو کوئی کسبی نبوت کا قائل ہو۔ یا اس نے خود اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ یا پھر دل کی صفائی کی بناء پر اپنے کسب کے ذریعہ نبوت کے حصول کے جواز کاقائل ہوا۔ یا پھر اپنے پر وحی کے اترنے کو کہا۔ اگرچہ نبوت کا دعویٰ نہ کیا۔ تو یہ سب قسم کے لوگ نبیﷺ کے دعویٰ… ’’انا خاتم النبیین‘‘… کی تکذیب کرنے والے ہوئے اور کافر ٹھہرے۔‘‘

اس کے بعد وکیل صاحب نے (عورتیں کیوں نبی نہیں بنتیں؟) کے عنوان سے قدرے طویل تحریر لکھی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
(عورتیں اس لئے نبی نہیں بنتیں کہ کیونکہ ومن یطع اللہ والی آیت میں زمانہ ماضی میں ملنے والے انعامات کاذکر ہے یعنی زمانہ ماضی میں جس جس طرح وہ انعام تقسیم کئے گئے اب اطاعت نبوی ﷺ کے نتیجہ میں وہی انعام اسی طریق پر امت محمدیہ کے افراد میں تقسیم کئے جائیں گے اور چونکہ گزشتہ امتوں میں عورت کو نبوت نہیں ملی جیسا کہ سورہ الانبیا،7 میںہے وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ (اے رسول) اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مردوں کو ہی رسول بنا کر بھیجا تھا جن کی طرف وحی کیا کرتے تھے ۔
لہذا عورت نبی نہیں بن سکتی )
یہ تھا وکیل صاحب کے استدلال کا خلاصہ لیکن یہاں وکیل صاحب یہ بات بھول گئے ہیں کہ ومن یطع اللہ ۔۔۔ الخ والی آیت میں من عام ہے جس میں مرد و عورت ،بچے وغیرہ سب شامل ہیں اگر نبوت اطاعت کاملہ کا نتیجہ ہے تو عورت کو بھی نبوت ملنی چاہئے کیونکہ اعمال صالحہ کے نتائج میں مردو عورت کو یکساں حیثیت حاصل ہے جیسے فرمایا مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ( النحل 97) جو کوئی بھی نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مؤمن ہو تو ہم اسے (دنیا) میں پاک و پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق عطا کریں گے۔
کیا اس میں آنحضرت ﷺ کا کمال فیضان ثابت نہ ہو گا کہ عورت جسے کبھی نبوت نہیں ملی وہ بھی نبی کریم ﷺ کی اطاعت کے طفیل
نبوت حاصل کرتی ہے ؟
پھر جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ ومن یطع اللہ میں من عام ہے جس میں مرد وعورت وغیرہ سب شامل ہیں اور اس آیت میں انعامات (بالفرض اگرانعامات کا ہی تذکرہ ہو ) کو مشروط کیا گیا ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت سے، تو یاد رہے جو کوئی بھی یہ شرط پوری کر دے گا وہ ان انعامات کا حامل ہو جائے گا کیونکہ شرط پوری کر دینے سے مشروط متحقق ہو جاتا ہے ۔
اور رہی بات سورہ الانبیا، 7 کی بات تو جناب وکیل صاحب یہ قانون ماضی میں تھا اب آپ امت محمدیہ ﷺ کے لئے قانون کو بدل رہے ہیں ۔ پہلے اطاعت سے نبوت نہیں ملتی تھی لیکن آپ کے بقول اب امت محمدیہ ﷺ میں اطاعت سے نبوت ملتی ہے تو جب حصول نبوت کا طریقہ کار ہی تبدیل ہو گیا تو اب ماضی کے قانون کو یہاں پیش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور ویسے بھی ومن یطع اللہ میں من تو ہے ہی عام ۔
اس کے بعد قادیانی وکیل صاحب نے ( ہر اطاعت کرنے والا نبی کیوں نہیں بنتا؟) کا عنوان قائم کیا ہے اور سوال قائم کر کے اس کے دو جواب دئے ہیں ۔
( بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ والی دعا تو امت محمدیہ کےافراد کرتے رہتے ہیں اسی طرح آنحضرت ﷺ کی کی اطاعت تو صحابہ کرام نے بھی کی پھر وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ والی آیت کے ماتحت ان سب کو نبوت ملنی چاہئے تھی ؟
الجواب نمبر1: اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللَّـهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ (انعام 124)کہ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو نبی بنائے ۔کب نبی بنائے اور کہاں نبی بنائے؟)
وکیل صاحب ! یہ آیت تو ہماری دلیل ہے کہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے نبوت عطا کرتا ہے اس میں کسی کے کسب یا کسی عمل کا کوئی دخل نہیں اور نہ ہی حصول نبوت کے لئے کوئی امتحان ہے کہ جو کوئی اس میں کامیاب ہو جائے اسے نبوت عطا کر دی جائے ۔
جبکہ آپ کا ومن یطع اللہ سے اخذکردہ استدلال مانا جائے تو اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہےکہ جو کوئی بھی اطاعت کی شرط پوری کر دے گا اسے یہ انعامات مل جائیں گے کیونکہ ان انعامات(بالفرض)کے حصول کے لئے صرف ایک ہی شرط ہے اور وہ ہے اللہ ورسولﷺ کی اطاعت اب جو کوئی بھی شرط پوری کردے گا وہ ان انعامات کا حقدار بن جائے گا کیونکہ شرط پوری کر دینے سے مشروط متحقق ہو جاتا ہے ۔
اس کے بعد وکیل صاحب الجواب نمبر 2 کے تحت لکھتے ہیں ۔
( اللہ تعالیٰ سورہ نور میں فرماتا ہے وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ (النور 55)کہ اللہ تعالیٰ ایمان لانے اور اعمال صالحہ بجا لانے والے مسلمانوں کے ساتھ وعدہ کرتا ہے کہ ان سب کو زمین میں خلیفہ بنائے
گا۔ اب ظاہر ہے کہ آیت استخلاف کی رو سے خلیفہ صرف حضرت ابوبکر،عمر،عثمان و علی رضی اللہ عنہم ہی ہوئے ۔کیا تمام صحابہؓ میں صرف یہ چار مومن باعمل تھے؟کیا دیگر صحابہؓ مومن نہ تھے ؟ اس کا جواب یہی ہے بےشک یہ سب مومن تھے لیکن خلافت اللہ کی دین ہے جسے چاہے دے لیکن وعدہ عام ہے جس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اب نبوت وخلافت صرف انہی لوگوں کو مل سکتی ہےجو آنحضرت ﷺ کے فرمانبردار ہوں ۔علاوہ ازیں جب کسی قوم سے ایک شخص نبی ہو جائے تو وہ انعام نبوت سب قوم پر ہی سمجھا جاتا ہے ۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول قرآن مجید میں ہے ۔ وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاءَ (المائدہ 20) کہ اے میری قوم اس نعمت کو یاد کرو جو خدا نے تم پر نازل کی جبکہ اس نے تم سے نبی بنائے ۔
گویا کسی قوم میں کسی شخص کا نبی ہونا اس تمام قوم پر خدا تعالیٰ کی نعمت سمجھا جاتا ہے پس صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اور وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ والی آیات میں جس نعمت نبوت کا وعدہ آنحضرت ﷺ کے بعد دیا گیا ہے اس کا تقاضا یہ نہیں کہ ہر کوئی نبی بنے بلکہ صرف اس قدر ضروری ہے کہ اس امت میں سے بھی ضرور نبوت کی نعمت کسی فرد پر نازل کی جائے ۔)
وکیل صاحب ! آیت استخلاف میں مِنكُمْ میں مِن تبعیضہ ہے یعنی یہ وعدہ نزول آیت کے وقت موجود مومنین میں سے بعض کے ساتھ تھا نہ کہ سب کے ساتھ ۔ جو خلفائے راشدین کی صورت میں پورا ہو گیا ۔
اور دوسرا یہ کہ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ میں یہ شرط انفرادی ہےقومی نہیں یعنی ہر فرد کے لئے الگ ہے کہ جو کوئی بھی اس شرط کو پورا کر دے گا اسے یہ انعامات مل جائیں گے ۔یہ نہیں کہ ہر فرد تو اللہ و رسول کی اطاعت کرتا رہے لیکن یہ انعامات صرف ایک آدھ کو مل جائیںباقی منہ دیکھتے رہیں ۔
وکیل صاحب نے شاید اس بات پر غور نہیں کیا کہ اگر وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ والی آیت میں انعامات ملنے کا ذکر ہے تو پھر اس آیت سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہےکہ اس آیت میں ایک شرط، اللہ و رسول کی اطاعت ،کے چار انعامات بیان کئے گئے ہیں ۔یعنی شرط صرف ایک ہے اور انعامات چار ۔
تو ا سکا منطقی نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ جو بھی یہ شرط پوری کر دے اسے بالترتیب یہ چار انعامات ملیں گے ۔یعنی پہلے وہ نبی بنے گا پھر صدیق پھر شہید اور پھر صالح ۔


 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اس کے بعد ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق وکیل صاحب نے (ہمارے ترجمہ کی تائید) کے عنوان سے تفسیر بحرالمحیط سے مشہور امام لغت امام راغب ؒ کا ایک بےسند قول پیش کیا ہے ۔ وکیل صاحب لکھتے ہیں ۔
( حضرت امام راغبؒ نے اس آیت کے وہی معنیٰ بیان کئے ہیں جو اوپر بیان ہوئے چناچہ تفسیر بحر المحیط میں لکھا ہے
وقوله: مع الذين أنعم الله عليهم، تفسير لقوله:
{ صراط الذين أنعمت عليهم }
[الفاتحة: 7] وهم من ذكر في هذه الآية. والظاهر أن قوله: من النبيين، تفسير للذين أنعم الله
عليهم. فكأنه قيل: من يطع الله ورسوله منكم ألحقه الله بالذين تقدمهم ممن أنعم عليهم. قال الراغب: ممن أنعم عليهم من الفرق الأربع في المنزلة والثواب: النبي بالنبي، والصديق بالصديق، والشهيد بالشهيد، والصالح بالصالح. وأجاز الراغب أن يتعلق من النبيين بقوله: ومن يطع الله والرسول. أي: من النبيين ومن بعدهم

یعنی خداکا فرمانا کہ مع الذين أنعم الله عليهم یہ صراط الذين أنعمت عليهم کی تفسیر ہے ۔اور یہ ظاہر ہے کہ خدا کا قول من النبيين تفسیر ہے أنعم الله عليهم کی ۔ گویا یہ بیان کیا گیا ہے کہ تم میں سے جو شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو ان لوگوں میں شامل کر دے گا جن پر قبل ازیںانعامات ہوئے اور امام راغبؒ نے کہا ہے کہ ان چار گروہوں میں شامل کرے گا مقام اور نیکی کے لحاظ سے نبی کو نبی کےساتھ اور صدیق کو صدیق کے ساتھ اور شہید کو شہید کے ساتھ اور صالح کو صالح کےساتھ اور راغبؒ نے جائز قرار دیا ہے کہ اس امت کے نبی بھی نبیوں میں شامل ہوں جیسا کہ خداتعالیٰ نے فرمایا من يطع الله والرسول یعنی من النبيين (نبیوں میں سے )
اس حوالے سے صاف طور پر حضرت امام راغبؒ کا مذہب ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس امت میں بھی انبیا، کی آمد کے قائل تھے ۔چناچہ اس عبارت کے آگے مؤلف بحر المحیط محمد بن یوسف بن علی بن حیان الاندلسی جو 754ھ میں فوت ہوئے نے امام راغبؒ کے مندرجہ بالا قول کی تشریح کرتے ہوئے لکھا کہ راغبؒ کے اس قول سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ گویا آنحضرت ﷺ کے بعد بھی آپ کی امت میں سے بعض غیر تشریعی نبی پیدا ہوں گے جو آنحضرت ﷺ کی اطاعت کریں گے ۔ اس پر مصنف اپنا مذہب لکھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ درست نہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے ۔ لیکن ہمیں مؤلف بحر المحیط کے اپنے عقیدے سے کوئی سروکار نہیں ہمیں تو یہ دکھانا مقصود ہے کہ آیت من يطع الله والرسول کا جو مفہوم آج جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے وہ نیا نہیں بلکہ آج سے سینکڑوں سال قبل امام راغبؒ بھی اس کا وہی ترجمہ کرتے ہیں)
وکیل صاحب !
امام راغب ؒ کی کسی کتاب میں اس طرح کی عبارت نہیں ملتی۔ ان کی طرف یہ قول منسوب کرنا صحیح نہیں ہےیہ قول بالکل بےسند ہے ۔ ان کی طرف قول بالا کی غلط نسبت ہونے پر ہمارے پاس تین قرینے موجود ہیں۔ دیکھئے:
پہلا قرینہ:
امام راغب اصفہانی ؒ نے صدیقین کی تفسیر میں ایک رسالہ تصنیف فرمایا ہے۔ جس کا نام الذریعۃ الیٰ مکارم الشریعۃ ہے۔ آیت :’’ ومن یطع اﷲ والرسول ۔۔۔۔۔۔ الخ‘‘ کاتعلق بھی اسی مضمون سے ہے اگر بالفرض امام راغب ؒ کا وہ مسلک ہوتا جو بحر محیط میں نقل کیا ہے تو اس کتاب میں ضرور تحریر کرتے۔ لیکن اس پوری کتاب میں کہیں اشارۃً وکنایۃً بھی اس کا ذکر نہیں ہے۔
دوسراقرینہ:
اگر اس طرح کی کوئی عبارت امام راغب ؒ کی کسی کتاب میں ہوتی تو مرزائی مناظر ین امام راغبؒ کی اسی کتاب سے حوالہ دیتے اور وہیں سے
نقل کرتے کہ دلیل پختہ ہوتی لیکن وہ لوگ تو بحر محیط کی ایک عبارت لے کر لکیر پیٹے رہتے ہیں ۔ کیونکہ اس کا اصل ماخذ کہیں ہے ہی نہیں۔
تیسرا قرینہ :
امام راغبؒ اپنی مشہور و معروف کتاب المفرادت فی غریب القرآن میں خاتم النبیین کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ نے نبوت کو ختم کر دیا یعنی آپ کی تشریف آوری سے نبوت مکمل ھوگئی ۔
وکیل صاحب ! ان مضبوط قرائن کے ہوتے ہوئے بھی کیا آپ امام راغبؒ کو اپنی تائید میں پیش کرتے رہیں گے ؟؟

اپنی اس عبارت میں وکیل صاحب نے مؤلف تفسیر بحر محیط کی عبارت میں تصرف کرتے ہوئے(بعض غیر تشریعی نبی )کے الفاظ ان سے منسوب کر دئے ہیں حالانکہ مؤلف تفسیر بحر المحیط کی عبارت میں (بعض غیر تشریعی نبی) الفاظ موجود ہی نہیں ۔

وکیل صاحب کو امام راغبؒ کا سینکڑوں سال قبل کاایک بے سند اور غیر ثابت قول تو اپنی تائید میں نظر آ گیا لیکن حیرت کی بات ہے کہ ہماری مؤقف کی تائید میں سینکٹروںسال قبل کا صاحب تفسیر بحر محیط کا قول نظر نہیں آیا ۔

آخر میں وکیل صاحب مسلمانوں کا ایک اعتراض نقل کرتے ہیں ۔
(غیر احمدی : ترمذی شریف میں حدیث ہے کہ التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ آج تک کتنے لوگ تجارت کی وجہ سے نبوت حاصل کر چکے ہیں ۔)
وکیل صاحب نے اس کے دو جواب دئے ہیں ۔
1: یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اسے قبیصہ ابن عقبتہ الکوفی نے سفیان ثوری سے اور سفیان ثوری نے ابو حمزہ عبداللہ بن جابر سے اس نے حسن سے اور اس نے ابو سعید سے روایت کیا ہے ۔
قبیصہ کے متعلق لکھا ہے قال ابن معین ھو ثقہ الا فی حدیث الثوری و قال احمد کثیر الغلط ۔۔۔۔۔ قال ابن معین لیس بذاک القوی (میزان اعتدال) کہ ابن معین کہتے ہیں قبیصہ کی وہ روایت جووہ سفیان ثوری سےروایت کرے کبھی قبول نہ کرنا ۔احمد کے نزدیک یہ راوی کثرت سے غلط روایت کرتا تھا اور ابن معین کے خیال میں یہ راوی قوی نہ تھا ۔ اور یہ روایت بھی اس راوی کی سفیان ثوری ہی سے ہے لہذا جھوٹی ہے ۔
2: اگر درست بھی ہوتی توبھی حرج نہ تھا کیونکہ التاجر الصدوق الامین تو خود ہمارے نبی کریم ﷺ کے اسمائے مبارکہ ہیں لہذا آپ ہی وہ خاص تاجر اور وہ سچ بولنے والے امین نبی ہیں تھے جن کی تعریف اس قول میں کی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ حضور نبی تھے ۔
وکیل صاحب نے جس راوی پر جرح کے ایک دو اقوال پیش کئے ہیں اسی راوی کے بارے میں بہت سے توثیقی اقوال بھی موجود ہیں ۔لیکن ہم اس بحث میں نہیں پڑتے اور ہم یہی روایت ایک اور سند سے پیش کر دیتے ہیں جس میں یہ راوی موجود ہی نہیں ۔
لیکن اس سے پہلے ہم وکیل صاحب سے ضرور پوچھنا چاہیں گے ابن معین سےآپ کے منسوب کردہ یہ الفاظ ( ابن معین کہتے ہیں قبیصہ کی وہ روایت جووہ سفیان ثوری سےروایت کرے کبھی قبول نہ کرنا ) کن عربی الفاظ کا ترجمہ ہے ؟؟؟
ابن معین تو کہتے ہیں ق ال ابن معین ھو ثقہ الا فی حدیث الثوری (ابن معین نے کہا وہ ثقہ ہے سوائے ثوری سے روایت کرنے میں )
اب آئیے یہی روایت ایک دوسری سند سے دیکھتے ہیں جو مستدرک الحاکم میں ہے اور اس میں یہ قبیصہ راوی موجود نہیں ۔
أَخْبَرَنَاهُ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ الشَّيْبَانِيُّ، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الزُّهْرِيُّ، ثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، ثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ‏"‏ التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ ‏"‏‏.‏
یہ روایت دارقطنی میں بھی موجود ہے ۔
اس حوالے سے کچھ اور روایت بھی پیش خدمت ہیں ۔
’’ عن معاذبن انس ؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ من قرء الف آیۃ فی سبیل اﷲ کتب یوم القیامۃ مع النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین وحسن اولیئک رفیقا ۰
منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند احمد ص ۳۶۳ ج ۱ ‘ابن کثیر ص ۲۳ ج ۱‘‘
{حضرت معاذ ؓ فرماتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ایک ہزار آیت اﷲ (کی رضا) کے لئے تلاوت کرے ۔ طے شدہ ہے کہ وہ قیامت کے دن نبیوں‘ صدیقوں‘ شہداء وصالحین کے ساتھ بہترین رفاقت میں ہوگا۔}

’’ عن عمربن مرۃ الجہنی ؓ قال جاء رجل الی النبی ﷺ فقال یا رسول اﷲ ﷺ اشہدت ان لاالہ لااﷲ وانک رسول اﷲ وصلیت الخمس وادیت زکوٰۃ مالی وصمت رمضان فقال ﷺ من مات علیٰ ھذا کان مع النبیین والصدیقین والشہداء یوم القیامۃ ھکذا ونصب اصبعیہ ۰
مسند احمد ‘ ابن کثیر ص ۵۲۳ ج ۱‘‘
{ایک صحابی نے عرض کیا کہ میں کلمہ پڑھتا ہوں‘ نماز پڑھتا ہوں‘ زکوٰۃ دیتا ہوں‘ روزے رکھتا ہوں‘ آپ ﷺ نے فرمایا ان اعمال پر جس کو موت آجائے وہ قیامت میں نبیوں ‘ صدیقوں ‘ شہیدوں کی معیت وصحبت میں اس طرح ہوگا۔(اپنی دونوں انگلیوں کو اکٹھا کرکے دکھلایا۔)
رہا وکیل صاحب کا پیش کردہ دوسرا جواب کہ ( اگر درست بھی ہوتی توبھی حرج نہ تھا کیونکہ التاجر الصدوق الامین تو خود ہمارے نبی کریم ﷺ کے اسمائے مبارکہ ہیں لہذا آپ ہی وہ خاص تاجر اور وہ سچ بولنے والے امین نبی ہیں تھے جن کی تعریف اس قول میں کی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ حضور نبی تھے ۔)
تو جناب وکیل صاحب ! اگر آپ اس سے مراد نبی ﷺ کو لیں گے تو پھر یہاں مع کا معنی ساتھ اور معیت کا ہی ہوسکتا ہے کیونکہ جب نبی ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تو اس وقت وہ پہلے سے ہی نبی تھے نہ کہ بعد میں انہیں نبوت ملنی تھی ۔

بہرحال قائرین اس جواب سے بخوبی اندازہ کر سکتے کہ وکیل صاحب کے استدلال کی عمارت کتنی کمزور ترین بنیادوں پر قائم ہے ۔

 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top