تشبیہ
تشبیہ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے لغوی معنی مشابہت، تمثیل اور کسی چیز کو دوسری چیز کی مانند قرار دینا ہیں۔ علم بیان کی رو سے جب کسی ایک چیز کو کسی خاص صفت کے اعتبار سےیامشترک خصوصیت کی بنا پر دوسری کی مانند قرار دے دیا جائے تو اسے تشبیہ کہتے ہیں۔
بنیادی طور پر تشبیہ کے معنی ہیں مثال دینا۔ چنانچہ کسی شخص یا چیز کو اس کی کسی خاص خوبی یا صفت کی بنا پر کسی ایسے شخص یا چیز کی طرح قرار دینا، جس کی وہ خوبی سب کے ہاں معروف اور مانی ہوئی ہو۔۔۔ تشبیہ کہلاتا ہے۔ مثلاً ہم یہ کہیں کہ بچہ چاند کی مانند حسین ہے، تو یہ تشبیہ کہلائے گی کیونکہ چاند کا حسن مسلمہ ہے۔ اگرچہ یہ مفہوم بچے کو چاند سے تشبیہ دیے بغیر بھی ادا کیا جا سکتا تھا کہ بچہ تو حسین ہے، لیکن تشبیہ کی بدولت اس کلام میں فصاحت و بلاغت پیدا ہو گئی ہے۔
اسی طرح یہ کہنا کہ عبداللہ شیر کی طرح بہادر ہے بھی تشبیہ کی ایک مثال ہے کیونکہ شیر کی بہادری مسلمہ ہے اور مقصد عبداللہ کی بہادری کو واضح کرنا ہے جو عبداللہ اور شیر دونوں میں پائی جائے۔ تشبیہ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مشبہ کی کسی خاص خوبی یا خامی مثلاً بہادری، خوب صورتی، سخاوت، بزدلی یا کنجوسی کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس وصف کی شدت کو بھی بیان کیا جائے۔ اس سے مشبہ کی تعریف یا تذلیل مقصود ہوتی ہے۔
ارکانِ تشبیہ
تشبیہ کے مندرجہ ذیل پانچ ارکان ہیں
ا۔ مشبّہ
جس چیز کو دوسری چیز کے مانند قرار دیا جائے وہ مشبّہ کہلاتی ہے۔ جیسا کہ اوپر کی مثالوں میں بچہ اور عبداللہ مشبہ ہیں۔
۲۔ مشبّہ ِبہ
وہ چیز جس کے ساتھ کسی دوسری چیز کو تشبیہ دی جائے یا مشبہ کو جس چیز سے تشبیہ دی جائے، وہ مشبہ ِبہ کہلاتی ہے۔ مثلاً چاند اور شیر مشبہ بہ ہیں۔ ان دونوں یعنی مشبہ اور مشبہ بہ کو طرفین تشبیہ بھی کہتے ہیں۔
۳۔ حرفِ تشبیہ
وہ لفظ جو ایک چیز کو دوسری چیز جیسا ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے حرف تشبیہ کہلاتا ہے۔ مثلاً اوپر کے جملوں میں مانند اور طرح حروف تشبیہ ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی حروف تشبیہ ہیں جیسا کہ مثل، ہو بہو، صورت، گویا، جوں، سا، سی، سے، جیسا، جیسے، جیسی، بعینہ، مثال، یا، کہ وغیرہ، انہیں اداتِ تشبیہ بھی کہتے ہیں۔
۴۔ وجہِ شبہ
وجہ شبہ سے مراد وہ خوبی ہے جس کی بنا پر مشبہ کو مشبہ بہ سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ مثلاً:چاند کی مانند حسین میں وجہ شبہ حُسن ہے۔ اسی طرح شیر کی طرح بہادر میں وجہ شبہ بہادری ہے۔
۵۔ غرضِ تشبیہ
وہ مقصد یا غرض جس کے لیے تشبیہ دی جائے، غرض تشبیہ کہلاتا ہے۔ اس کا تشبیہ میں ذکر نہیں ہوتا۔ صرف قرائن سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ تشبیہ کس غرض یا مقصد سے دی گئی ہے۔ مثلاً بچے کے حسن کو واضح کرنا غرض تشبیہ ہے۔ اسی طرح عبداللہ کی بہادری کو واضح کرنا بھی غرضِ تشبیہ ہے۔
مثالیں
قرآن مجید اپنے انداز بیان اور اسلوب کے لحاظ سے ایک معجزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں بکثرت علوم بلاغت کا استعمال کیا ہے۔ مثلاً: كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا۔ (الجمعہ۶۲:۵)( اُن کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حاملین تورات کو اس گدھے سے تشبیہ دی ہے جس پر کتابیں لدی ہوں۔ گویا جس طرح کتابیں لادنے سے گدھے کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی اسی طرح یہود بھی عمل کے بغیر، محض حامل کتاب ہونے کے باعث کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتے۔
اسی طرح قرآن مجید میں ارشاد ہے:
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاء َتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَّا يُبْصِرُونَ۔ (البقرۃ۲:۱۷)
’’اِن کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب اُس نے سارے ماحول کو روشن کر دیا تو اللہ نے اِن کا نور بصارت سلب کر لیا اور انہیں اس حال میں چھوڑ دیا کہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ ‘‘
اس آیت میں وہ منافقین مشبہ ہیں جو یہاں زیر بحث ہیں۔ آگ جلانے والا مشبہ بہ، آگ جلانے والے کی آگ کا بجھنا وجہ شبہ ہے کہ اس طرح منافقین کے اعمال ضائع ہو گئے۔ اور كَمَثَلِ حرف تشبیہ ہے۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
اس شعر میں زندگی کو طوفان سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مشبہ:زندگی، مشبہ بہ:طوفان، وجہ تشبیہ: زندگی کے مصائب وآلام کا طوفان، غرض تشبیہ: زندگی کے مصائب و آلام کا تذکرہ اور حرف تشبیہ : یا ہے۔
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ادھر نکلے
اس شعر میں مشبہ: اہل ایمان، مشبہ بہ: خورشید، حرف تشبیہ: صورت، وجہ شبہ :عروج و زوال اور غرض تشبیہ: مومن کی متحرک اور انقلابی شخصیت کو پیش کرنا ہے۔
ہائے کیا فرط طرب میں جھومتا ہے ابر فیل بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر
اس شعر میں مشبہ: ابر یعنی بادل ہے، مشبہ بہ :فیل بے زنجیر، حرف تشبیہ :صورت، وجہ شبہ: مستی میں جھومنا اور غرض تشبیہ :مستی کی کیفیت کو واضح کرنا ہے۔
مزید مثالیں
۱۔ کمرہ آئینے جیسا چمک رہا ہے،
۲۔ پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
۳۔ نازک کلائیوں میں حنا بستہ مٹھیاں
شاخوں میں جیسے منہ بندھی کلیاں گلاب کی
۴۔ ان کے عارض پہ دمکتے ہوئے آنسو، توبہ
ہم نے شعلوں پہ مچلتے ہوئے شبنم دیکھی
۵۔ غیر کو دیکھ کے غیرت سے پگھل جاؤں گا
صورت شمع تری بزم میں جل جاؤں گا
۶۔ عرق آلودہ ہونا، اس رُخِ رنگین کا ایسا ہے
کہ جیسے برگِ گل پہ ہو نمایاں بوند شبنم کی
۸۔ یہ آب و تابِ حسن، یہ عالم شباب کا
تم ہو، کہ ایک پھول کھلا ہے گلاب کا
اقسام تشبیہ
تشبیہ کی پانچ اقسام بیان کی جاتی ہیں۔ ان اقسام کی بنیاد اس کے ارکان کو حذف کرنے پر ہے۔ کیونکہ مخاطب کے علم کی بنیاد پر بعض اوقات اس کے بعض حصوں کو حذف کر دیا جاتا ہے۔
۱۔ تشبیہ مرسل
تشبیہ مرسل وہ تشبیہ ہے جس میں حرف تشبیہ کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہو۔ مثلاً: مثل نورہ کمشکاۃ(اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چراغ) اس مثال میں حرف تشبیہ ک موجود ہے۔
۲۔ تشبیہ موکد
تشبیہ کی اس قسم میں حرف تشبیہ کو حذف کر دیا جاتا ہے۔ اس حذف کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ متکلم اس بات پر زور دے رہا ہوتا ہے مشبہ اور مشبہ بہ میں مشابہت بہت زیادہ ہے۔ جیسے : انت نجم فی الضیاء والرفعۃ۔ (تم روشنی اور بلندی میں ستارےہو) یعنی ستارے کی طرح نہیں، بلکہ خود ستارہ ہو، کہہ کر بات میں زور پیدا کیا ہے۔
۳۔ تشبیہ مفصل
تشبیہ کی اس قسم میں تشبیہ کی وجہ کو بیان کیا جاتا ہے۔ جیسے :ھو کالاسد فی الشجاعۃ۔ (وہ بہادری میں شیر کی طرح ہے۔ ) یہاں تشبیہ کی وجہ بہادری کو واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔
۴۔ تشبیہ مجمل
تشبیہ کی اس قسم میں وجہ تشبیہ کو حذف کر دیا جاتا ہے کیونکہ یہ وجہ مخاطب پہلے ہی سے جانتا ہوتا ہے۔ مثلاً کان الشمس دینار۔ (سورج گویا دینا رہے) یہاں وجہ تشبیہ کو اس لیے حذف کر دیا گیا ہے کہ یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ نیا سکہ چمک میں سورج کی طرح لگتا ہے۔
۵۔ تشبیہ بلیغ
تشبیہ کی اس قسم میں تشبیہ میں زور پیدا کرنے کے لیے حرف تشبیہ اور وجہ تشبیہ دونوں کو حذف کر دیا جاتا ہے۔ اس سے یہ باور کرانا مقصود ہوتا ہے کہ مشبہ اور مشبہ بہ میں اتنی زیادہ مشابہت ہے کہ گویا دونوں ایک ہی ہیں۔ مثلاً الاسلام حیاتنا۔ (اسلام ہماری زندگی ہے۔ ) اس مثال میں اسلام کو زندگی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ چونکہ اسلام کی ہدایت کے بغیر زندگی کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا اس لیے بات میں زور پیدا کرنے کے لیے تشبیہ کی علامت اور وجہ دونوں کو حذف کر دیا گیا ہے۔
استعارہ
اردو لغت میں استعارہ کے معنی ’عارضی طور پر مانگ لینا، مستعار لینا، عاریتاً مانگنا، اُدھار مانگنا، کسی چیز کا عاریتاً لینا ‘ہیں۔ علم بیان کی اصطلاح میں ایک شے کو بعینہ دوسری شے قرار دے دیا جائے، اور اس دوسری شے کے لوازمات پہلی شے سے منسوب کر دئیے جائیں، اسے استعارہ کہتے ہیں۔ استعارہ مجاز کی ایک قسم ہےجس میں ایک لفظ کو معنوی مناسبت کی وجہ سے دوسرے کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی کسی لفظ کو مختلف معنی میں استعمال کرنے کے لیے ادھار لینا۔ استعارہ میں حقیقی اور مجازی معنی میں تشبیہ کا تعلق پایا جاتا ہے، لیکن اس میں حرف تشبیہ موجود نہیں ہوتا۔ جیسے’ لبِ لعل‘ اور ’سروقد‘ یہاں لب کو لعل سے اور قد کو سرو سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اور کبھی مشبہ کہہ کر مشبہ بہ مراد لیا جاتا ہے جیسے:’چاند ‘کہہ کر چہرہ اور’ شیر‘ کہہ کر شجاع مراد لینا۔ لیکن تشبیہ میں واضح الفاظ میں موازنہ موجود ہوتا ہے۔ مثلاً: زید کالاسد (زید شیر کی طرح ہے)تشبیہ اور زیداسد (زید شیر ہے) استعارہ ہے۔ اسی طر ح اگر ماں اپنے بچے کو یہ کہے کہ میرا چاند آگیا یا کوئی شخص یہ کہے کہ خالد شیر ہے۔ پہلے جملے میں بچے کو چاند سے اور دوسرے میں خالد کو شیر سے تشبیہ دی گئی ہے، لیکن دونوں جملوں میں حرف تشبیہ موجود نہیں ہے۔ اسی طرح چاند اور شیر کو حقیقی معنوں میں استعمال نہیں کیا گیا۔ تشبیہ کے اس انداز کو استعارہ کہتے ہیں۔ تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ دونوں موجود ہوتے ہیں لیکن استعارہ میں مشبہ بہ کو عین مشبہ تصور کرلیا جاتا ہے، اور مشبہ بہ کی تمام صفات کو مشبہ کے ساتھ منسوب کر دیا جاتا ہے۔
بعض اوقات استعارہ کا استعمال زبان میں اتنا عام ہو جاتا ہے کہ حقیقی معنی میں اس لفظ کا استعمال ختم یا بہت کم ہو جاتا ہے۔ جیسے لفظ متقی کا معنی ’محتاط شخص‘ ہے، لیکن اسے بطور استعارہ خدا کے معاملے میں محتاط شخص یا ’پرہیزگار‘ کے معنی میں اتنا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اس کا استعمال اپنے اصل معنی میں بہت کم رہ گیا ہے۔ اسی طرح لفظ ’فاسق‘ کا لغوی معنی ’کاٹنے والا‘ ہے، لیکن یہ ’سرکش اور گناہ گار‘ کے معنی میں عام استعمال ہوتا ہے، کیونکہ گناہ گار خدا سے اپنا رشتہ کاٹتا ہے۔ یہ لفظ اب اپنے لغوی معنی میں بہت ہی کم استعمال ہوتا ہے۔
سجادمرزابیگ استعارہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’وہ لفظ جو غیر وضعی معنوں میں استعمال ہو اور حقیقی و مجازی معنوں میں تشبیہ کا علاقہ ہو، نیز مشبہ یا مشبہ بہ کو حذف کر کے ایک کو دوسرے کی جگہ استعمال کرتے ہیں لیکن کوئی ایسا قرینہ بھی ساتھ ہی ظاہر کرتے ہیں جس سے معلوم ہو جائے کہ متکلم کی مراد حقیقی معنوں کی نہیں ہے۔ ‘‘
استعارہ اور تشبیہ میں یہ فرق ہے کہ تشیبہ میں حرف تشبیہ کا ہونا لازمی ہے۔ جسے وہ شیر کی مانند ہے۔ استعارے میں حرف تشبیہ نہیں ہوتا جیسے شیر خدا۔ استعارے کی دو قسمیں ہیں۔ استعارہ بالتصریح جس میں فقط مشبہ بہ کا ذکر کریں۔ مثلاً چاند کہیں اور معشوق مراد لیں۔ دوسرے استعارہ بالکنایہ جس میں صفر مشبہ کا ذکر ہو مثلاً موت کے پنجے سے چھوٹے۔ موت درندے سے استعارہ بالکنایہ ہے اور لفظ پنجہ قرینہ ہے۔
ارکان استعارہ
مستعار لہ
وہ شخص یا چیز جس کے لیے کوئی لفظ یا خوبی ادھار لیا جائے۔ مثلاً اوپر کے جملوں میں بچہ اور خالد مستعار لہ ہیں۔
مستعار منہ
وہ شخص یا چیز جس سے کوئی لفظ یا خوبی مستعار لی جائے۔ مثلاً اوپر کی مثالوں میں چاند اور شیر مستعار منہ ہیں۔ مستعار لہ اور مستعار منہ کو طرفین استعارہ بھی کہتے ہیں۔
وجہ جامع
مستعار لہ اور مستعار منہ میں جو وصف اور خوبی مشترک ہو اسے وجہ جامع کہتے ہیں۔ مذکورہ بالا مثالوں میں بچے اور چاند کے درمیان خوب صورتی اور خالد اور شیر کے درمیان بہادری وجہ جامع ہے۔
اقسام استعارہ
استعارہ مطلقہ
وہ استعارہ جس میں مستعار لہ اور مستعار منہ میں سے کسی کے کسی قسم کے مناسبات کا ذکر نہ کیا جائے۔
استعارہ مجردہ
جس میں مستعارمنہ کے مناسبات کا ذکر ہو۔
استعارہ تخییلیہ
وہ استعارہ جس میں متکلم ایک چیز کودوسری شے کے ساتھ دل ہی میں مماثلت طے کرکے سوائے مستعار لہ کے کسی کا ذکر نہ کرے۔
استعارہ وفاقیہ
وہ استعارہ جس میں مستعار لہ اور مستعار منہ دونوں کی صفات ایک ہی چیز یا شخص میں جمع ہو جائیں۔ یعنی ان دونوں کا ایک ساتھ ہونا ممکن ہو۔
استعارہ عنادیہ
وہ استعارہ جس میں مستعارلہ اور مستعار منہ کی صفات کا کسی ایک چیز میں جمع ہونا ممکن نہ ہو۔
استعارہ عامیہ
وہ استعارہ جس میں وجہ جامع بہت واضح ہو۔ اسے مبتذلہ بھی کہتے ہیں۔
استعارہ خاصیہ
وہ استعارہ جس میں وجہ جامع غیر واضح ہو۔ جسے لوگ آسانی سے نہ سمجھ سکیں۔
استعارہ کی مثالیں
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
اس شعر میں مستعار لہ محبوب ہے اور مستعار منہ گل ہے اور وجہ جامع خوب صورتی ہے۔
پلکوں سے گر نہ جائیں یہ موتی سنبھال لو
دنیا کے پاس دیکھنے والی نظر کہاں
دنیا کے پاس دیکھنے والی نظر کہاں
اس شعر میں مستعار لہ آنسو اور مستعار منہ موتی ہیں۔ اور چمک وجہ جامع ہے۔
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہا
شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہا
اس شعر میں مستعار لہ قابل آدمی ہے اور مستعار منہ چراغ اور وجہ جامع روشنی ہے۔
طالع سے کسے تھی ایسی امید
نکلا ہے کدھر سے آج خورشید
اس شعر میں مستعار لہ محبوب، مستعار منہ خورشید اور وجہ جامع خوب صورتی ہے۔نکلا ہے کدھر سے آج خورشید
فلک یہ تو ہی بتا دے کہ حسن و خوبی میں
زیادہ تر ہے تیرا چاند یا ہمارا چاند
اس شعر میں محبوب کو چاند کہا گیا ہے۔ محبوب مستعار لہ اور چاند مستعار ہے۔ وجہ جامع چاندنی یا خوب صورتی ہے جو دونوں میں قدر مشترک ہے۔زیادہ تر ہے تیرا چاند یا ہمارا چاند
تشبیہ اور استعارہ میں فرق
۱۔ تشبیہ حقیقی ہوتی ہے اور استعارہ مجازی ہوتا ہے
۲۔ تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ کا ذکر ہوتا ہے اور استعارہ میں مشبہ بہ کو مشبہ بنا لیا جاتا ہے۔
۳۔ تشبیہ میں حروف تشبیہ کے ذریعے ایک چیز کو دوسری چیز کی مانند قرار دیا جاتا ہے، جبکہ استعارہ میں وہ ہی چیز بنا دیا جاتا ہے۔
۴۔ تشبیہ کے ارکان پانچ ہیں اور استعارہ کے ارکان تین ہیں۔
۵۔ تشبیہ علم بیان کی ابتدائی شکل ہے اور استعارہ اس علم کی یک بلیغ صورت ہے۔
۶۔ تشبیہ کی بنیاد حقیقت پر ہوتی ہے اور استعارہ کی بنیاد خیال پر ہوتی ہے۔
مجازمرسل
عمومی قاعدہ یہ ہے کہ لفظ کو اسی معنی کے لیے استعمال کیا جائے جس کے لیے اسے وضع کیا گیا ہو۔ لیکن ادیب اور شاعر بعض اوقات لفظ کو اس کے حقیقی معنی کے بجائے کسی اور معنی میں بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ اس کا مقصد کلام یا تحریر میں خوب صورتی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ لفظ کے اس استعمال کو مجاز کہتے ہیں۔ اصطلاح میں مجاز وہ لفظ ہے جو اپنے حقیقی معنوں کی بجائے مجازی معنوں میں استعمال ہو اور حقیقی و مجازی معنوں میں تشبیہ کا تعلق نہ ہو بلکہ اس کے علاوہ کوئی اور تعلق ہو۔ مثلاً:’’خاتون آٹا گوندھ رہی ہے۔ ‘‘ یہاں آٹا اپنے حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی آٹا سے مراد آٹا ہی ہے۔ اسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ ’’اس کے ہاتھ پر زخم ہے۔ ‘‘ اس میں زخم انگلی، انگوٹھے، ہتھیلی یا ہاتھ کی پشت پر ہو گا، لیکن انگلی، انگوٹھے یا ہتھیلی کی جگہ ہاتھ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ’’ فاتحہ پڑھیے۔ ‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ پوری سورہ فاتحہ پڑھیے، نہ کہ صرف لفظ فاتحہ۔ اسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ’’ احمد چکی سے آٹا پسوا لایا ہے۔ ‘‘ یہاں آٹا، گندم کے معنوں میں استعمال ہوا ہے جو اس کی ماضی کی حالت ہے۔ یعنی آٹا تو نہیں پسوایا گیا بلکہ گندم پسوائی گئی تھی اور آٹا بنا۔ لیکن آٹا پسوانے کا ذکر ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بھی ادب کی اس صنف کا کثرت سے استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید کی درج ذیل تین آیات کو ملاحظہ کریں :
يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِّن بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ۔ (الزمر39:7)۔ ( وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے۔ )
اور
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ۔ (ابراھیم14:1)( یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ۔ )
اور
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۔ (الانعام6:97)(اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے تاروں کو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا۔ )
درج بالا آیات میں سےپہلی آیت میں لفظ ’’ ظلمات‘‘ اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ ماں کے پیٹ میں حقیقتاً اندھیرا ہی ہوتا ہے۔ دوسری آیت میں ’’ ظلمات و نور‘‘ کے الفاظ اپنے حقیقی معنی میں استعمال نہیں ہوئے۔ اس آیت میں قرآن مجید کے نزول کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس کی مدد سے لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لایا جائے۔ یہاں تاریکی سے مراد حقیقی تاریکی نہیں ہے بلکہ اس سے اخلاقی برائیاں اور راہ حق سے دوری مراد ہے۔ اسی طرح نور یا روشنی سے مراد حقیقی روشنی نہیں بلکہ سیدھا راستہ مراد ہے جو انسان کو اللہ کی طرف لے جائے۔ تیسری آیت میں لفظ ’’ ظلمات‘‘ کا استعمال حقیقی یا مجازی دونوں اعتبار سے ممکن ہے۔ کیونکہ سمندر یا خشکی میں سفر کرتے ہوئے مسافر کو حقیقت میں رات کا اندھیرا بھی پیش آ سکتا ہے اور راستوں کا علم نہ ہونا بھی گویا مجازی معنی میں اندھیرا ہے جو اسےصحیح راستے سے بھٹکا سکتا ہے۔
مجاز کے اجزا
مجاز کے پانچ اجزا ہیں :
۱۔ لفظ مجاز
یہ وہ لفظ ہے جسے مجازی معنی میں استعمال کیا گیا ہو۔ جیسے لفظ ’’ ظلمات‘‘۔
۲۔ مجازی معنی
یہ وہ معنی ہے، جسے اصل معنی کی جگہ اختیار کیا جا رہا ہو۔ مثلاً لفظ ’’ ظلمات‘‘ کے اصل معنی کی جگہ اسے ’’ گمراہی‘‘ یا ’’ لاعلمی ‘‘کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔
۳۔ سبب
کسی لفظ کو مجازی معنی میں استعمال کرنے کی کوئی وجہ ضرور ہونی چاہیے۔ مثلاً گمراہ یا لاعلمی میں بھٹکنے والے شخص کی کیفیت اس شخص سے بہت ملتی ہے جو اندھیرے میں بھٹک رہا ہو۔ اس وجہ سے لفظ ’’ ظلمات‘‘ کا گمراہی یا لاعلمی کے معنی میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
۴۔ علاقہ یا تعلق
لفظ مجاز اور مجازی معنی میں کوئی تعلق ہو۔ یہی تعلق ہی لفظ کو مجازی معنی میں استعمال کرنے کا سبب بنتا ہے۔
۵۔ قرینہ یا علامت
جملے میں کوئی ایسی علامت یا قرینہ موجود ہونا چاہیے جو یہ ظاہر کرے کہ لفظ کو اپنے حقیقی معنی کے بجائے مجازی معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ یہ علامت لفظ کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے اور جملے کے معنی میں پوشیدہ بھی ہوسکتی ہے۔[/H2]
آخری تدوین
: