مفتی ابو الخیر عارف محمود
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی۔
آج عالم اسلام اور مسلما ن جن حالات سے گزر رہے ہیں،ان سے ادنیٰ واقفیت رکھنے والا ہر درد مند ،باشعور،تاریخ پر نگاہ رکھنے والا، غیرت مند مسلمان اس بات اور امر کا خوب ادراک رکھتا ہے کہ جتنی اسلامی خلافت اور خلیفة المسلمین و امام عادل کی ضرورت آج ہے، شاید تاریخ میں اس کی اتنی اہمیت وضرورت پہلے کبھی رہی ہو، اسی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر یہ خیال ہوا کہ اس بات کی تحقیق کی جائے کہ خلافت و امامت کیا ہے؟امام و خلیفہ کسے کہتے ہیں ؟ اسلام میں ان کی کیا حیثیت ہے؟ ہماری تحریر کا محور اسلامی نظام خلافت ہے ،نہ کہ موجودہ مروجہ جمہوریت،اس لیے پوری تحریر کو اسی تناظر میں پڑھا جائے۔
آیئے! اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں، سب سے پہلے اس کی لغوی اور اصطلاحی تعریف معلوم کرتے ہیں، اس کے بعد پھر اس کے مختلف پہلووٴں پر گفتگو کریں گے ۔
امام اور امامت کی لغوی تعریف
”الإمامة“ (امامت ) مصدر ہے ”أَمَّ“ فعل کا ،آگے بڑھنے کو کہتے ہیں اور امام ہر اس شخص کو کہتے ہیں جس کی اقتدا کی جائے، چاہے وہ قوم کا بڑا ہو ،یا کوئی اور ۔ (الفیروز آبادی ،مجدالدین محمد بن یعقوب ،القاموس المحیط: 4/78،دار الجیل بیروت)
ابنِ منظور افریقی لکھتے ہیں :
”الإمام کل من ائتم بہ قوم، کانوا علی الصراط المستقیم أو کانو ضالین، والجمع :أئمة،․․․والخلیفة إما م الرعیة“․ (ابن ِ منظور، جمال الدین محمد بن مکرم ، لسان العرب : 12/24،دار صادر ،بیروت)
(ترجمہ)امام ہر اس شخص کو کہتے ہیں جس کی کوئی قوم پیروی کرے، چاہے وہ قوم ہدایت یافتہ ہو،یا گم راہ اور اس کی جمع ائمہ ہے․․․․․․․․ اور خلیفہ رعیت (لوگوں ) کے مقتدا کو کہتے ہیں “۔
یہی بات صاحب ”تاج العروس “نے بھی نقل کی ہے، (الزبیدی، محمد مرتضیٰ،تاج العروس من جواھر القاموس :8 /193،مکتبة الحیاة،بیروت )
فیروز اللغات اردو میں لکھا ہے:”امام پیشوا اور ہادی کو کہتے ہیں “۔ (فیروز اللغات ،اردو (جامع ) ص:126 ،فیروز سنز پرائیویٹ لمیٹیڈ)
امامت و خلافت کی اصطلاحی تعریف
اصطلاح میں ”امامت “کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں ،چناں چہ”شرح عقائد “میں ہے :
”نیابتہم عن الرسول فی إقامة الدین بحیث یجب علی کافة الإمم الاتباع “․ (التفتازانی ،سعد الدین مسعود بن عمر بن عبد اللہ ،ص :108،میر محمد کتب خانہ کراچی )
(ترجمہ)امامت اقامت دین کے سلسلہ میں رسول صلی الله علیہ وسلم کی نیابت کو کہتے ہیں،بایں حیثیت کہ تمام امت پر اس کی اتباع واجب ہے۔
”شرح مقاصد “میں ہے :
”وھي ریاسة عامة في أمر الدین والدنیا خلافة عن النبيا“․(التفتازانی ،سعد الدین مسعود بن عمر بن عبد اللہ ،شرح المقاصد :3/469،اشاعتِ اسلام کتب خانہ،پشاور)
(ترجمہ) اور وہ دین و دنیا کے معاملہ میں ریاست عامہ اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خلافت کو کہتے ہیں۔
علامہ ماوردی فرماتے ہیں:”الإمامة موضوعة لخلافة النبوة في حراسة الدین وسیاسة الدنیا بہ“․ (الماوردی ،علی بن محمد ،الأحکام السلطانیة،ص :5،مصطفی البابی ،القا ھرة) (ترجمہ) امامت دین کی حفاظت اور دنیاوی معاملات کی انجام دہی کے لیے نبوت کی نیابت کے طور پروضع کی گئی ہے۔
امام الحرمین علامہ جوینینے امامت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :”الإمامة ریاسة تامة، وزعامة تتعلق بالخاصة والعامة في مھمات الدین والدنیا “․ (الجوینی، أبو المعالی عبد الملک، غیاث الأمم فی التیاث الظلم، ص 15 دار الدعوة الاسکندریة)
ترجمہ:امامت اس ریاست تامہ اور زعامت کو کہتے ہیں جس کا تعلق دین و دنیا کے ا ہم معاملات میں ہر خاص و عام سے ہو۔
علامہ ابنِ خلدون فرماتے ہیں کہ : ”ھي حمل الکافة علیٰ مقتضی النظر الشرعي في مصالحھم الأخرویة والدنیویة الراجعة الیھا، اذ أحوال الدنیا ترجع کلھا عند الشارع إلیٰ اعتبارھا بمصالح الاخرة، فھي في الحقیقة خلافة عن صاحب الشرع فيحراسة الدین وسیاسة الدنیا بہ“․(المقدمة للعلامة ابنِ خلدون، ص: 190،دار الباز للنشر واللتوزیع، مکة)․
ترجمہ: شرعی نقطہ نظر سے تمام لوگوں کو ان کے مصالح اخروی اور ایسے مصالح دنیوی پر ابھارنا ہے جو آخرت کی طرف لوٹنے والے ہیں،اس لیے کہ دنیا کے تمام احوال درحقیقت شارع کے نزدیک مصالح آخرت کی طرف لوٹتے ہیں،پس وہ(امامت و خلافت) درحقیقت دین کی حفاظت اور دنیاوی سیاست کے بارے میں صاحب شریعت صلی الله علیہ وسلم کی خلافت و نیابت ہے۔
الفاظ اور تعبیر میں اگر چہ فرق ہے ،مگر معنی اور مطلب سب کا ایک ہے،یعنی امامت اور خلافت ،رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے نائب کی حیثیت سے دین کو قائم کرنا،اس کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دینا اور دنیاوی معاملات میں لوگوں کے مصالح کے مطابق شریعت کی روشنی میں ان کی راہ نمائی کرنے کو کہتے ہیں ۔
قرآن و حدیث میں لفظ ”امام “ کا استعمال
قرآن و حدیث کے متعدد مقامات میں لفظ” امام“ آیا ہے ،جو اپنے سیاق و سباق کے اعتبار سے مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ،ذیل میں ان کے معانی سے تعرض کیے بغیر فقط ان آیاتِ قرآنی اور الفاظ حدیث میں سے بعض کو ذکر کیا جاتا ہے ،تاکہ قاری کو ایک نظر میں قرآن و حدیث میں اس کا ورود معلوم ہوجائے ۔ (آیات قرآنیہ)
﴿قَالَ إِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَاماً﴾․ (البقرة:124)
﴿وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ إِمَاماً ﴾․ (الفرقان:74)
﴿وَجَعَلْنَاہُمْ أَئِمَّةً یَہْدُونَ بِأَمْرِنَا﴾․ (الانبیاء:73)
﴿وَنَجْعَلَہُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَہُمُ الْوَارِثِیْن﴾․(القصص:5)
﴿فَقَاتِلُواْ أَئِمَّةَ الْکُفْرِ إِنَّہُمْ لاَ أَیْْمَانَ لَہُمْ﴾․ (التوبة:12)
﴿وَجَعَلْنَاہُمْ أَئِمَّةً یَدْعُونَ إِلَی النَّارِ وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ لَا یُنصَرُون﴾․(القصص:41)
احادیث مبارکہ:
1...”الإمام الأعظم الذي علیٰ الناس راع“․(الصحیح للامام البخاری،کتاب الاحکام (رقم الحدیث:7138)، ص: 1229، دار السلام ، الریاض)
2...”الائمة من قریش“․(مسند الامام احمد بن احمد، ،مسند انس بن مالک:4/29،رقم الحدیث :12489، دار احیاء التراث العربی )
3...(سبعة یظلھم اللّٰہ في ظلہ یوم لا ظل الا ظلہ: الإمام العادل․․․․․․․“․(الصحیح للإمام مسلم،کتاب الزکوٰة، باب فضل الغناء الصدقة، ص:415، دار السلام، الریاض )
ان روایات کے علاوہ سینکڑوں احادیث میں لفظ ”امام “مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے ۔
ضروری وضاحت
اصطلاح شرع میں” امام“ سے مسلمانوں کا خلیفہ اور ان کا حاکم مراد ہوتا ہے، نماز میں امامت اور امام المسلمین میں فرق کر نے کے لیے خلافت و امامت کو کبھی امامتِ عظمیٰ اور کبھی امامت ِکبریٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے،ابنِ حزم کے مطابق جب مطلقاً لفظ ”الامامة “بولا جائے تو اس سے امامتِ کبریٰ، یا اما متِ عامہ(یعنی خلافت) مراد ہوتی ہے ۔یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے، وہ یہ کہ عام طور سے اہلِ سنت والجماعت لفظ ”امام “کا استعمال عقیدہ اور فقہی مباحث میں کرتے ہیں اور لفظ” خلیفہ و خلافت “کا تذکرہ کتبِ تاریخ میں کرتے ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ خوارج اور روافض کی طرح گم راہ فرقوں کی تردید کتبِ عقیدہ میں کی گئی ہے ، جو ”امامت“ کے لفظ کواستعمال کرتے ہیں اور اسے وہ ارکان ایمان میں سے گردانتے ہیں ،خلیفہ کو معصوم اور منصوص من اللہ سمجھتے ہیں، جب کہ یہ بالکل غلط ہے، اس پر رد اور تفصیلی بحث کتبِ عقیدہ و دیگر کتب میں کی گئی ہے ۔
لفظ ”امام ، خلیفہ اور امیر الموٴمنین “میں ترادف
لغوی معنی کے اعتبار سے اگر چہ یہ تینوں لفظ الگ الگ اور خاص معنی رکھتے ہیں، لیکن اطلاق اور دلالت کے اعتبار سے ان میں ترادف پایا جاتا ہے،خلافت اور امامت کے بارے میں وارد احادیث اور آثا ر کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم اور حضرات صحابہ و تابعین نے لفظ ”خلیفہ “ اور ”امام“ میں کوئی فرق نہیں کیا ،جب کہ حضرت عمر فاروق کے خلیفہ بننے کے بعد ان کے لیے ”امیر الموٴمنین “ کا لفظ اختیار کیا گیا، علمائے امت نے اسی وجہ سے ان کو کلماتِ مترادفہ میں شمار کر کے بعض کے بعض پر اطلاق کو جائز کہا ہے چناں چہ علامہ نووی فرماتے ہیں :”یجوز أن یقال للامام: الخلیفة، والامام، وأمیر الموٴمنین“․ (روضة الطالبین لیحییٰ بن شرف الدین النووی: 10/49، المکتب الاسلامی)یعنی امام کو ”خلیفہ “ ”امام “اور ”امیر الموٴمنین “ کہنا جائز ہے۔
علامہ ابنِ خلدون مقدمہ میں ر قم طراز ہیں کہ ہم نے اس مقام یعنی خلافت و امامت کی حقیقت کو بیان کیا کہ یہ صاحبِ شریعت کی دین کی حفاظت اور سیاستِ دنیوی میں نیابت کو کہتے ہیں ، اسے ”خلافت “ اور ”امامت “ کہا جاتا ہے ،اس کے انجام دینے والے کو ”خلیفہ “ اور ”امام“ کہا جاتا ہے۔ (مقدمة ابنِ خلدون،ص 190)
ابنِ منظور نے خلافت کو امارت سے تعبیر کیا ہے ۔ ( لسان العرب : 9/ 83،دار صادر ،بیروت)
استاد محمد نجیب مطیعی ”المجموع“ کے تکملہ میں لکھتے ہیں : ’الامامة والخلافة وامیر الموٴمنین مترادفة “․
(تکملہ المجموع شرح المھذب لمحمد نجیب المطیعی ،ص :517 زکریا علی یوسف) یعنی امامت ، خلافت اور امیر الموٴمنین مترادف (الفاظ ) ہیں ۔
شیخ ابو زھرہ ،لفظِ خلافت اور امامت کے درمیان ترادف کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیاسی مذاہب و معاملات خلافت کے گرد گھومتے ہیں اور یہی (خلافت ) امامت کبریٰ ہے، اسے خلافت اس لیے کہا جاتا ہے کہ خلیفہ اور مسلمانوں کا بڑا حکم ران ان کے معاملات کی انجام دہی اور نگرانی کر نے میں رسول صلی الله علیہ وسلم کا خلیفہ اور نائب ہوتا ہے، اسے امامت بھی کہتے ہیں،کیوں کہ خلیفہ کو امام بھی کہا جاتا ہے؛ اس لیے کہ اس کی اطاعت واجب ہے ،لوگ ان کی یوں پیروی کر تے تھے جیسا کہ مقتدی نماز پڑھانے والے کی اقتدا کرتے ہیں ۔(تاریخ المذاھب الاسلامیہ لأبی زھرة، الجز الأول ،ص :21دار الفکر العربی )
امیر الموٴمنین کا لقب
ابتدا میں خلیفہ کے لیے خلیفہ اور امام دونوں لفظ استعمال ہوتے تھے ،سیدنا عمر کے خلیفہ بننے کے بعد مسلمانوں نے ان کو ”امیر الموٴمنین“ کہنا شروع کیا ،چناں چہ ابنِ سعد ”طبقات “ میں اسی بات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”حضرت ابو بکر جب انتقال فرما گئے ، جنہیں اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا خلیفہ کہا جاتا تھا تو حضرت عمر کو اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے خلیفہ کا خلیفہ کہا جانے لگا، مسلمانوں نے کہا حضرت عمر کے بعد جو آئے گا اسے پھر اللہ کے رسول کے خلیفہ کے خلیفہ کا خلیفہ کہا جائے گا ،یہ طویل ہوگا ؛ لہذا تم کسی ایسے نام پر متفق ہوجاؤ جس کے ساتھ تم خلیفہ کو پکارو اور جس کے ساتھ بعد کے خلفاء کو پکارا جائے، تو بعض صحابہ نے کہا کہ ہم موٴمن( ایمان والے) ہیں اور عمر ہمارا امیر ہے ،تو اسی وقت سے حضرت عمر اسی نام (امیر الموٴمنین) سے پکارے جانے لگے اور وہ پہلے شخص تھے جنہیں اسی نام و لقب سے پکارا گیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد :3/ 281،دار بیروت)
طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت لبید بن ربیعہ اور حضرت عدی بن حاتم جب مدینہ تشریف لائے تو حضرت عمرو بن العاص سے کہا کہ ”امیر الموٴمنین “ سے ہمارے لیے اجازت طلب کرو (یعنی ملاقات کے لیے)۔ حضرت عمر وبن العاص نے کہا :اللہ کی قسم! تم نے ان کا صحیح نا م رکھا ہے ،کیوں کہ وہ امیر اور ہم موٴمن ہیں، حضرت عمرو حضرت عمر کے پاس آئے اور کہا : اے امیر الموٴمنین! اللہ کی آپ پر سلامتی ہو ،انہوں نے کہا :یہ کیا ہے؟(یعنی امیر الموٴمنین کہنے پر تعجب کا اظہار کیا )تو حضرت عمرو نے کہا : آپ امیر ہیں اور ہم موٴمن، تو یوں اس دن سے خلیفہ کو امیر الموٴمنین کہا جانے لگا ۔( مجمع الزوائد:9/61، رواہ الطبرانی، وقال الھیثمی:رجالہ رجال الصحیح)
لفظِ” امیر“ کا استعمال حضور صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا ،لیکن صرف خلیفہ کے معنی میں نہیں ،بلکہ لشکر کے امیر اور مختلف شہروں کے عاملوں اور گورنروں کو بھی امیر کہا جاتا تھا ، جیسا کہ امیر کی اطاعت کے سلسلے میں وارد احادیث میں اس کا تذکرہ آیا ہے ،دیکھیےصحیح البخاری،کتاب الأحکام، باب قول اللہ تعالی ﴿اطیعوا اللہ واطیعواالرسول ﴾وصحیح مسلم،کتاب الامارة، باب وجوب طاعة المراد فی غیر معصیة، سنن النسائی ،البیعة ،باب الترغیب فی طاعة الإمام ،وغیرھم)
نصب ِ خلیفہ و امیر کی شرعی حیثیت
خلیفہ کا تقررمسلمانوں کی ذمہ داری ہے، شرعی حکومت کا قیام اور امیر الموٴمنین کی تعیین کرنامسلمانوں پر واجب ہے، امت کا سوادِ اعظم اس بات پر متفق ہے کہ نصبِ امام (امیر الموٴمنین ) واجب ہے ۔( دیکھیے : النبراس ،ص309حقانیہ ملتان ، شرح المقاصد ،ص :471 اشاعت الاسلام کتب خانہ پشاور، شرح المواقف ، المقصد االأو ل فی وجوب لقب االأمام :8/380۔376، حاشیہ ابنِ عابدین مع الدر المختار :2/ 333دار المعرفة،قاموس الفقہ :2/215 زمزم پبلشرز ،المسامرہ ،ص 244 ،دار الکتب العلمیہ ،الفصل فی الملل واالأھواء والنحل :4/87 ،مقدمہ ابنِ خلدون،ص: 191 اور الاحکام السلطانیہ للما وردی ،ص :5 وغیرہ۔)
اس بات یعنی وجوبِ نصب خلیفہ کی کسی نے مخالفت نہیں کی،سوائے خوارج میں سے نجدات اور معتزلہ میں ابو بکر االأصم اور ھشام ابنِ الفوطی کے ۔(شرح المقاصدللتفتازانی:3/474اشاعت اسلام کتب خانہ، پشاور)بہت سارے احکام دینی ود نیوی ایسے ہیں جن کا تعلق خلافت یعنی شرعی حکومت اور امیر الموٴمنین کے ساتھ ہے، ان کی اقامت کے لیے کسی ”امیر“ کا ہونا ضروری ہے ،مثلاً حدود قائم کرنا ،سرحدات اسلامیہ کی حفاظت کرنا ،لشکر اسلام کو جہاد کے لیے روانہ کرنا ،زکوٰة و صدقات کا اکٹھا کرنا، باغیوں، چوروں اور ڈاکوٴوں کا خاتمہ کرنا ،عیدین اور جمعہ کے اجتماع کو قائم رکھنا ،لوگوں کے جھگڑوں کو رفع دفع کرانا اور ان کے درمیان فیصلے کرنا ،حقوق العباد کے بارے میں گواہیوں کو قبول کرنا اور ان پر عمل کرا نا ،لاوارث بچوں اور بچیوں کے نکاح کا بندوبست کرنا اور جہاد سے حاصل شدہ اموالِ غنیمت تقسیم کرنا،وغیرہ وغیرہ ۔(شرح العقائد النسفیہ ،ص: 154،153،قدیمی کراچی،النبراس للفرھاروی ،ص: 311 ،310 ،حقانیہ، ملتان)
اہلِ سنت کے نزدیک امارت کا قیام اور امیر الموٴمنین کی تقرری مسلمانوں کی شرعی ذمہ داری ہے ،مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ ان کا کوئی امام وامیر ہو،جو شعائرِ دین کی حفاظت کرے ،حدود قائم کرے ،مظلومو ں کو ان کا حق دلوا ئے،و غیرہ ،اس پر قرآن مجید،سنتِ رسول صلی الله علیہ وسلم اور اجماع کو بطورِ دلیل کے پیش کرتے ہیں ،اجماع کی طرف ما قبل میں اشارہ کردیاگیا ہے، اب مختصراً قرآن و حدیث سے اس کے ثبوت کو پیش کرتے ہیں۔
نصب ِامیر کا ثبوت قرآن سے
1...قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُم﴾․(النساء:59)
اس آیتِ مبارکہ میں ”أولی الأمر“ سے مراد”امراء “ہیں ،جب کہ دوسرے قول کے مطابق ”علماء“ مراد ہیں ،راجح یہ ہے کہ یہ آیت دونوں کو شامل ہے ۔ دیکھیے : (روح المعانی للآلوسی :4/96،دار الفکر ،احکام القرآن للجصاص:2/299 ،298،قدیمی کراچی ،احکام القرآن للقرطبی:5/168 ،دار الکتب العلمیہ،تفسیر أبی سعود :1/193 دار احیاء التراث العربی ، تفسیر القاسمی :3/ 255،254،دار الفکر ، تفسیر القرآن العظیم لابنِ کثیر :2/ 303،دار الشعب ،تفسیر الطبری :5 / 146 سے 150 ،مصطفی البابی مصر اورتفسیر المظہری :2/ 151 ۔150حافظ کتب خانہ کوئٹہ)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے امراء و حکام کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے اور امراء کی اطاعت کا حکم دینا ولي امر (امیر الموٴمنین )کی تعیین و تنصیب کے واجب ہو نے کی دلیل ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ایسی کسی چیز کی اطاعت کا حکم نہیں دیتے جس کا وجود ہی نہ ہو ،تو اطاعت کا حکم دینا اس کے نصب کے حکم کا متقاضی ہے ،لہذا مسلمانوں پرنصب امیر و امام واجب ہے ۔
2... قاموس الفقہ میں ہے :”امارت کا قیام مسلمانوں کا شرعی فریضہ اور ان کی منصبی ذمہ داری ہے، قرآن مجید نے اسی کو اقامتِ دین سے تعبیر کیا ہے،﴿ أَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیْہ﴾․ (سورة الشوریٰ :13) (قاموس الفقہ ،مولانا خالد سیف اللہ رحمانی :2/215،زمزم پبلشرز)
3...قرآن مجید کی وہ تمام آیات، جو حددود و قصاص سے تعلق رکھتی ہیں،یا وہ احکام جن کے قیام کے لیے ”امام‘ کا ہونا ضروری ہے، وہ بھی خلیفہ کے نصب کے دلائل میں سے ہیں ،کیوں کہ ان آیات کا تعلق خلافت،خلیفہ اور امیر الموٴمنین سے ہے، فقہائے اسلام نے بھی انہیں امیر الموٴمنین کی ذمہ داریوں میں سے شمار کیا ہے ؛لہٰذا یہ اس بات کا تقاضاکرتی ہیں کہ ان احکام کی تنفیذ کے لیے خلیفہ کا ہونا ضروری ہے۔بعض حضرات نے دیگر آیات قرآنیہ سے بھی استدلال کیا ہے ،طوالت کے خوف سے ان کو ذکر نہیں کیاگیا۔
نصب ِامیر کا ثبوت احادیثِ مبارکہ سے
سینکڑوں احادیث مبارکہ سے اس امر کا ثبوت ہوتاہے، ذیل میں چند کو بطورِمثال پیش کیا جاتاہے :
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس حال میں دنیا سے رخصت ہوا کہ اس کی گردن میں کسی کی امامت کا طوق نہ ہو ، اس کی موت جاہلیت ،یعنی کفر کی موت ہے ۔ (رواہ مسلم ،کتاب الامارة،باب وجوب جماعة المسلمین عند ظھور الفتن ،رقم الحدیث 1851 ،ص، 831،دار السلام الریاض)
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ نصب خلیفہ وامیر واجب ہے ،کیوں کہ امام و خلیفہ کی بیعت کرنا ضروری وواجب ہے، ظاہری بات ہے امام وخلیفہ ہوگا تو بیعت کی جائے گی ؛لہذا نصب خلیفہ و امام واجب ہے۔
حضرت ابو سعید کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا :” جب تین آدمی سفر کا ارادہ کریں تو ان میں سے کسی ایک کوامیر بنا لیں “۔
حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”تین آدمیوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ زمین کے کسی حصے میں ہوں ،مگر کسی ایک کو امیر بنالیں “۔ ( الحدیث أخرجہ ابو داوٴد فی کتاب الجھاد ،باب فی القوم یسافرون یوٴمرون أحدھم :3/ 51 ،رقم الحدیث :2608 ،دار احیاء التراث العربی )
ابنِ تیمیہ فرماتے ہیں:جب چھوٹی جماعتوں اور کم اجتماعات پر واجب قرار دیا کہ ان میں سے کوئی امیر مقرر کریں ،تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اس سے بڑی تعداد میں بھی وا جب ہوگا“ (یعنی امیر کا مقرر کرنا)۔ ( الحسبہ لابنِ تیمیة،ص: 11،دار الشعب)
مسلمانوں کی امارت اور جماعتی قوت کو محفوظ رکھنے اور کمزوری سے بچانے کے لیے احادیث میں حکم ہواہے کہ اگر امیر سے نا پسندیدہ بات بھی دیکھی جائے تو صبر سے کام لیا جائے، تاکہ انتشار پیدا نہ ہو ۔ (دیکھیے: صحیح البخاری، کتاب الاحکام، باب السمع والطاعةللامام مالم تکن معصیة(رقم الحدیث 7143)ص: 1229،دار السلام ،الریاض اور صحیح مسلم ، کتاب الأمارة ،باب وجوب جماعة المسلمین(رقم الحدیث4791) ص: 831،دارالسلام ،الریاض )
اس طرح حدیث میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے اختلاف کے موقع پراپنی سنت اور خلفاء الراشدین المھدین کی سنت کو تھامنے کا حکم دیا ہے۔ (دیکھیے:مشکوٰة المصابیح ،کتاب الایمان ،باب الاعتصام بالکتاب والسنة الفصل الثانی:1/ 53،دار الکتب العلمیہ )
حضرات صحابہ کرام کے طرز عمل سے ثبوت
نصب ِخلیفہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ حضرات صحابہ کرام نے خلیفہ کے تقرر کی اہمیت کے پیشِ نظر اسے حضور صلی الله علیہ وسلم کی تدفین پر مقدم کیا اورحضرت ابو بکر کو خلیفہ بنایا،پھر حضرت ابو بکرنے حضرت عمر کو اپنا خلیفہ مقرر کیا، ان کے بعد حضرت عمر نے چھ آدمیوں کی جماعت پر ذمہ داری ڈالی، جنہوں نے حضرت عثمان کو خلیفہ بنایا ،ان کی شہادت کے بعد حضرت علی کی بیعت کی گئی، یہ ان حضرات صحابہکرام کا طرزِ عمل ہے خلافت کے بارے میں ،اس کے علاوہ وہ احادیث جو حکام کی معروف میں اطاعت پر دلالت کرتی ہیں ،بیعت کے بارے میں وارد شدہ احادیث، مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج کے ممانعت پر دال احادیث ،ایک امام کی موجودگی میں دوسرا دعویٰ کرے تو اس کی گردن اڑانے کا حکم وغیرہ تمام احادیث امام و خلیفہ کی موجودگی کا تقاضاکر رہی ہیں اور نصب خلیفہ کے واجب ہونے کی طرف مشیر ہیں ۔ غرض قرآن و حدیث اور اجماع امت کی روشنی میں امیر الموٴمنین( جو کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے نائب کی حیثیت سے اقامتِ دین اور دنیوی امور میں مسلمانوں کی راہ بری و راہ نمائی کا فریضہ سر انجام دیں گے) کا ہونا ضروری ہے اور مسلمانوں کا اس کو پہچان کر ان کی بیعت کرنا لازم ہے ۔
امیر الموٴمنین کی اطاعت کا حکم
امیر کی اطاعت اسلامی حکومت اور اس کے سیاسی نظام کے اہم اور بنیادی قواعد و ستونوں میں سے ہے، امیر و خلیفہ کی اطاعت اس لیے ضروری ہے کہ وہ مکمل اطمینان اور بصیرت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھا سکے، حضرت عمر کا ارشادِ گرامی ہے :”لا إسلام بلا جماعة، ولا جماعة بلا أمیر، ولا أمیر بلا طاعة“․ (جامع ابن عبد البر : ص،62 ،بحوالہ قاموس الفقہ :2/ 215) یعنی جماعت کے بغیر اسلامی زندگی نہیں ہو سکتی اور امیر کے بغیر جماعت کاقیام ممکن ہی نہیں اور امارت کادار و مداراطاعت اور فرماں نبر داری پر ہے۔
اسلامی نظامِ حکو مت و طرزِ زندگی کا خاص ا متیازجو اسے دیگر نظاموں اور خود ساختہ قوا نین سے ممتاز کرتا ہے وہ ایک مسلمان موٴمن کا دینی تشخص اور فکر و نظریہ ہے… کہ اس پر خلیفہ اور امیر الموٴمنین کی اطاعت اور فرماں برداری واجب ہے ،لہٰذا ایک مسلمان کا ایمان اور اور اس کی دینی سوچ وفکر اسے امیر کی اطاعت پر نہ صرف ابھارتے ہیں، بلکہ اسے امیر کی مخالفت اور نافرمانی سے بھی بچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
مسلمان امیر کی اطاعت کو اس لیے بھی اختیار کرتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا حکم ہے ،اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے حکم کی بجا آوری پر اسے اجر وثواب عطا کیا جائے گا، چناں چہ علامہ ابنِ تیمیہ فرماتے ہیں:”فطاعة اللّٰہ ورسولہ واجبة علیٰ کل أحد، وطاعة ولاة الأمور واجبة لٴامر اللّٰہ بطاعتھم، فمن أطاع اللّٰہ ورسولہ بطاعة ولاة الأمرللّٰہ، فأجرہ علی اللّٰہ، ومن کان لایطیعھم إلا لما یأخذہ من الولایة والمال، فإن أعطوہ أطاعھم، وإن منعوہ عصاھم، فما لہ في الآخرة من خلاق“․ (مجموعہ الفتاویٰ للعلامہ ا بنِ تیمیہ، الجزء :خمس وثلاثین :18/ 13،مکتبہ العبیکان ، الریاض ) یعنی اللہ اوراس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت ہر ایک پر واجب ہے اور امراء کی اطاعت اس لیے واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے، پس جس نے اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کے لیے امراء کی اطاعت کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کی اس کا اجر اللہ کے ذمہ لازم ہے، اور جو ان کی اطاعت صرف مالی فوائد کے لیے کرتا ہے، اگر اسے کچھ دیتے ہیں تو ان کی اطاعت کرتا ہے اور کچھ نہیں دیتے تو نا فرمانی کرتا ہے تو ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔
امیر الموٴمنین کی فرماں برداری اور اطاعت رعایا کی اہم اور بڑی ذمہ داریوں میں سے ہے ،قرآن و حدیث میں ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے :﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُم﴾․(النساء :59)
اس آیت سے ما قبل میں اللہ تعالیٰ نے امراء اور حکم رانوں کو حکم دیا کہ وہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کردیں اور لوگو ں کے در میان عدل و انصاف کا معاملہ کریں تو مذکورہ آیت میں عوام اور اہلِ عسکر کو ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے، علامہ شوکانی کے بقول آیت میں”أولی الأمر“سے ائمہ ،سلاطین ، قضاة اور ہر وہ شخص مرادہے جسے کوئی ولایتِ شرعی حاصل ہو، نہ کہ طاغوتی ،ان کی اطاعت کا مطلب یہ ہے جو وہ حکم دیں اور منع کریں جب تک کہ وہ گناہ کا کام نہ ہو ۔(فتح القدیر للشوکانی :1/481)حافظ ابنِ حجر نے بھی محمد بن کعب کے حوالے سے ” امراء “مراد ہونا نقل کیا ہے ۔( فتح الباری ،کتاب الاحکام :13/ 140 ،قدیمی )
مختلف تفاسیر کے حوالے سے پہلے ذکر کیا گیا کہ راجح یہ ہے کہ ”أولی الأمر“سے علماء اور حکام دونوں کی اطاعت مراد ہے ،چناں چہ فقہی تحقیقات میں فقہاء کی اطاعت اور انتظامی امور میں حکام وأمراء کی اطاعت واجب ہوگی۔ (معارف القرآن مفتی محمد شفیع صاحب : 2/ 252 ،ادارة المعارف ) ابنِ تیمیہ سے بھی ان دونوں کا مراد ہونا منقول ہے ۔( الحسبة لابنِ تیمیة:ص ؛118)
اطا عتِ امیر احادیث کی روشنی میں
امراء کی اطاعت ،ان کا احترام، اس کی اہمیت کے بارے میں بکثرت احادیث وارد ہوئی ہیں، اس مختصر سی بحث میں ان کا احاطہ ممکن نہیں، حضرت مولانامحمد یوسف کاندھلوی نے ”حیاة الصحابہ“میں ”احترام الخلفاء والأمراء وطاعة أوامرھم “کے عنوان سے مستقل ایک باب قائم کیا ہے ، اس کے ذیل میں ان تمام احادیث وآثار کو جمع کیا ہے ۔( دیکھیے ؛حیاة الصحابہ للکاندھلوی : 2/93 سے110،دار ابنِ کثیر)جن سے خلفاء وامراء کی اطاعت واحترام روزِ روشن کی طرح عیاں اور واضح ہو جاتا ہے، ذیل میں اس حوالے سے بعض احادیث کا تذکرہ کیا جائے گا ۔ (جاری)
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی۔
آج عالم اسلام اور مسلما ن جن حالات سے گزر رہے ہیں،ان سے ادنیٰ واقفیت رکھنے والا ہر درد مند ،باشعور،تاریخ پر نگاہ رکھنے والا، غیرت مند مسلمان اس بات اور امر کا خوب ادراک رکھتا ہے کہ جتنی اسلامی خلافت اور خلیفة المسلمین و امام عادل کی ضرورت آج ہے، شاید تاریخ میں اس کی اتنی اہمیت وضرورت پہلے کبھی رہی ہو، اسی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر یہ خیال ہوا کہ اس بات کی تحقیق کی جائے کہ خلافت و امامت کیا ہے؟امام و خلیفہ کسے کہتے ہیں ؟ اسلام میں ان کی کیا حیثیت ہے؟ ہماری تحریر کا محور اسلامی نظام خلافت ہے ،نہ کہ موجودہ مروجہ جمہوریت،اس لیے پوری تحریر کو اسی تناظر میں پڑھا جائے۔
آیئے! اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں، سب سے پہلے اس کی لغوی اور اصطلاحی تعریف معلوم کرتے ہیں، اس کے بعد پھر اس کے مختلف پہلووٴں پر گفتگو کریں گے ۔
امام اور امامت کی لغوی تعریف
”الإمامة“ (امامت ) مصدر ہے ”أَمَّ“ فعل کا ،آگے بڑھنے کو کہتے ہیں اور امام ہر اس شخص کو کہتے ہیں جس کی اقتدا کی جائے، چاہے وہ قوم کا بڑا ہو ،یا کوئی اور ۔ (الفیروز آبادی ،مجدالدین محمد بن یعقوب ،القاموس المحیط: 4/78،دار الجیل بیروت)
ابنِ منظور افریقی لکھتے ہیں :
”الإمام کل من ائتم بہ قوم، کانوا علی الصراط المستقیم أو کانو ضالین، والجمع :أئمة،․․․والخلیفة إما م الرعیة“․ (ابن ِ منظور، جمال الدین محمد بن مکرم ، لسان العرب : 12/24،دار صادر ،بیروت)
(ترجمہ)امام ہر اس شخص کو کہتے ہیں جس کی کوئی قوم پیروی کرے، چاہے وہ قوم ہدایت یافتہ ہو،یا گم راہ اور اس کی جمع ائمہ ہے․․․․․․․․ اور خلیفہ رعیت (لوگوں ) کے مقتدا کو کہتے ہیں “۔
یہی بات صاحب ”تاج العروس “نے بھی نقل کی ہے، (الزبیدی، محمد مرتضیٰ،تاج العروس من جواھر القاموس :8 /193،مکتبة الحیاة،بیروت )
فیروز اللغات اردو میں لکھا ہے:”امام پیشوا اور ہادی کو کہتے ہیں “۔ (فیروز اللغات ،اردو (جامع ) ص:126 ،فیروز سنز پرائیویٹ لمیٹیڈ)
امامت و خلافت کی اصطلاحی تعریف
اصطلاح میں ”امامت “کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں ،چناں چہ”شرح عقائد “میں ہے :
”نیابتہم عن الرسول فی إقامة الدین بحیث یجب علی کافة الإمم الاتباع “․ (التفتازانی ،سعد الدین مسعود بن عمر بن عبد اللہ ،ص :108،میر محمد کتب خانہ کراچی )
(ترجمہ)امامت اقامت دین کے سلسلہ میں رسول صلی الله علیہ وسلم کی نیابت کو کہتے ہیں،بایں حیثیت کہ تمام امت پر اس کی اتباع واجب ہے۔
”شرح مقاصد “میں ہے :
”وھي ریاسة عامة في أمر الدین والدنیا خلافة عن النبيا“․(التفتازانی ،سعد الدین مسعود بن عمر بن عبد اللہ ،شرح المقاصد :3/469،اشاعتِ اسلام کتب خانہ،پشاور)
(ترجمہ) اور وہ دین و دنیا کے معاملہ میں ریاست عامہ اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خلافت کو کہتے ہیں۔
علامہ ماوردی فرماتے ہیں:”الإمامة موضوعة لخلافة النبوة في حراسة الدین وسیاسة الدنیا بہ“․ (الماوردی ،علی بن محمد ،الأحکام السلطانیة،ص :5،مصطفی البابی ،القا ھرة) (ترجمہ) امامت دین کی حفاظت اور دنیاوی معاملات کی انجام دہی کے لیے نبوت کی نیابت کے طور پروضع کی گئی ہے۔
امام الحرمین علامہ جوینینے امامت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :”الإمامة ریاسة تامة، وزعامة تتعلق بالخاصة والعامة في مھمات الدین والدنیا “․ (الجوینی، أبو المعالی عبد الملک، غیاث الأمم فی التیاث الظلم، ص 15 دار الدعوة الاسکندریة)
ترجمہ:امامت اس ریاست تامہ اور زعامت کو کہتے ہیں جس کا تعلق دین و دنیا کے ا ہم معاملات میں ہر خاص و عام سے ہو۔
علامہ ابنِ خلدون فرماتے ہیں کہ : ”ھي حمل الکافة علیٰ مقتضی النظر الشرعي في مصالحھم الأخرویة والدنیویة الراجعة الیھا، اذ أحوال الدنیا ترجع کلھا عند الشارع إلیٰ اعتبارھا بمصالح الاخرة، فھي في الحقیقة خلافة عن صاحب الشرع فيحراسة الدین وسیاسة الدنیا بہ“․(المقدمة للعلامة ابنِ خلدون، ص: 190،دار الباز للنشر واللتوزیع، مکة)․
ترجمہ: شرعی نقطہ نظر سے تمام لوگوں کو ان کے مصالح اخروی اور ایسے مصالح دنیوی پر ابھارنا ہے جو آخرت کی طرف لوٹنے والے ہیں،اس لیے کہ دنیا کے تمام احوال درحقیقت شارع کے نزدیک مصالح آخرت کی طرف لوٹتے ہیں،پس وہ(امامت و خلافت) درحقیقت دین کی حفاظت اور دنیاوی سیاست کے بارے میں صاحب شریعت صلی الله علیہ وسلم کی خلافت و نیابت ہے۔
الفاظ اور تعبیر میں اگر چہ فرق ہے ،مگر معنی اور مطلب سب کا ایک ہے،یعنی امامت اور خلافت ،رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے نائب کی حیثیت سے دین کو قائم کرنا،اس کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دینا اور دنیاوی معاملات میں لوگوں کے مصالح کے مطابق شریعت کی روشنی میں ان کی راہ نمائی کرنے کو کہتے ہیں ۔
قرآن و حدیث میں لفظ ”امام “ کا استعمال
قرآن و حدیث کے متعدد مقامات میں لفظ” امام“ آیا ہے ،جو اپنے سیاق و سباق کے اعتبار سے مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ،ذیل میں ان کے معانی سے تعرض کیے بغیر فقط ان آیاتِ قرآنی اور الفاظ حدیث میں سے بعض کو ذکر کیا جاتا ہے ،تاکہ قاری کو ایک نظر میں قرآن و حدیث میں اس کا ورود معلوم ہوجائے ۔ (آیات قرآنیہ)
﴿قَالَ إِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَاماً﴾․ (البقرة:124)
﴿وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ إِمَاماً ﴾․ (الفرقان:74)
﴿وَجَعَلْنَاہُمْ أَئِمَّةً یَہْدُونَ بِأَمْرِنَا﴾․ (الانبیاء:73)
﴿وَنَجْعَلَہُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَہُمُ الْوَارِثِیْن﴾․(القصص:5)
﴿فَقَاتِلُواْ أَئِمَّةَ الْکُفْرِ إِنَّہُمْ لاَ أَیْْمَانَ لَہُمْ﴾․ (التوبة:12)
﴿وَجَعَلْنَاہُمْ أَئِمَّةً یَدْعُونَ إِلَی النَّارِ وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ لَا یُنصَرُون﴾․(القصص:41)
احادیث مبارکہ:
1...”الإمام الأعظم الذي علیٰ الناس راع“․(الصحیح للامام البخاری،کتاب الاحکام (رقم الحدیث:7138)، ص: 1229، دار السلام ، الریاض)
2...”الائمة من قریش“․(مسند الامام احمد بن احمد، ،مسند انس بن مالک:4/29،رقم الحدیث :12489، دار احیاء التراث العربی )
3...(سبعة یظلھم اللّٰہ في ظلہ یوم لا ظل الا ظلہ: الإمام العادل․․․․․․․“․(الصحیح للإمام مسلم،کتاب الزکوٰة، باب فضل الغناء الصدقة، ص:415، دار السلام، الریاض )
ان روایات کے علاوہ سینکڑوں احادیث میں لفظ ”امام “مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے ۔
ضروری وضاحت
اصطلاح شرع میں” امام“ سے مسلمانوں کا خلیفہ اور ان کا حاکم مراد ہوتا ہے، نماز میں امامت اور امام المسلمین میں فرق کر نے کے لیے خلافت و امامت کو کبھی امامتِ عظمیٰ اور کبھی امامت ِکبریٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے،ابنِ حزم کے مطابق جب مطلقاً لفظ ”الامامة “بولا جائے تو اس سے امامتِ کبریٰ، یا اما متِ عامہ(یعنی خلافت) مراد ہوتی ہے ۔یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے، وہ یہ کہ عام طور سے اہلِ سنت والجماعت لفظ ”امام “کا استعمال عقیدہ اور فقہی مباحث میں کرتے ہیں اور لفظ” خلیفہ و خلافت “کا تذکرہ کتبِ تاریخ میں کرتے ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ خوارج اور روافض کی طرح گم راہ فرقوں کی تردید کتبِ عقیدہ میں کی گئی ہے ، جو ”امامت“ کے لفظ کواستعمال کرتے ہیں اور اسے وہ ارکان ایمان میں سے گردانتے ہیں ،خلیفہ کو معصوم اور منصوص من اللہ سمجھتے ہیں، جب کہ یہ بالکل غلط ہے، اس پر رد اور تفصیلی بحث کتبِ عقیدہ و دیگر کتب میں کی گئی ہے ۔
لفظ ”امام ، خلیفہ اور امیر الموٴمنین “میں ترادف
لغوی معنی کے اعتبار سے اگر چہ یہ تینوں لفظ الگ الگ اور خاص معنی رکھتے ہیں، لیکن اطلاق اور دلالت کے اعتبار سے ان میں ترادف پایا جاتا ہے،خلافت اور امامت کے بارے میں وارد احادیث اور آثا ر کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم اور حضرات صحابہ و تابعین نے لفظ ”خلیفہ “ اور ”امام“ میں کوئی فرق نہیں کیا ،جب کہ حضرت عمر فاروق کے خلیفہ بننے کے بعد ان کے لیے ”امیر الموٴمنین “ کا لفظ اختیار کیا گیا، علمائے امت نے اسی وجہ سے ان کو کلماتِ مترادفہ میں شمار کر کے بعض کے بعض پر اطلاق کو جائز کہا ہے چناں چہ علامہ نووی فرماتے ہیں :”یجوز أن یقال للامام: الخلیفة، والامام، وأمیر الموٴمنین“․ (روضة الطالبین لیحییٰ بن شرف الدین النووی: 10/49، المکتب الاسلامی)یعنی امام کو ”خلیفہ “ ”امام “اور ”امیر الموٴمنین “ کہنا جائز ہے۔
علامہ ابنِ خلدون مقدمہ میں ر قم طراز ہیں کہ ہم نے اس مقام یعنی خلافت و امامت کی حقیقت کو بیان کیا کہ یہ صاحبِ شریعت کی دین کی حفاظت اور سیاستِ دنیوی میں نیابت کو کہتے ہیں ، اسے ”خلافت “ اور ”امامت “ کہا جاتا ہے ،اس کے انجام دینے والے کو ”خلیفہ “ اور ”امام“ کہا جاتا ہے۔ (مقدمة ابنِ خلدون،ص 190)
ابنِ منظور نے خلافت کو امارت سے تعبیر کیا ہے ۔ ( لسان العرب : 9/ 83،دار صادر ،بیروت)
استاد محمد نجیب مطیعی ”المجموع“ کے تکملہ میں لکھتے ہیں : ’الامامة والخلافة وامیر الموٴمنین مترادفة “․
(تکملہ المجموع شرح المھذب لمحمد نجیب المطیعی ،ص :517 زکریا علی یوسف) یعنی امامت ، خلافت اور امیر الموٴمنین مترادف (الفاظ ) ہیں ۔
شیخ ابو زھرہ ،لفظِ خلافت اور امامت کے درمیان ترادف کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیاسی مذاہب و معاملات خلافت کے گرد گھومتے ہیں اور یہی (خلافت ) امامت کبریٰ ہے، اسے خلافت اس لیے کہا جاتا ہے کہ خلیفہ اور مسلمانوں کا بڑا حکم ران ان کے معاملات کی انجام دہی اور نگرانی کر نے میں رسول صلی الله علیہ وسلم کا خلیفہ اور نائب ہوتا ہے، اسے امامت بھی کہتے ہیں،کیوں کہ خلیفہ کو امام بھی کہا جاتا ہے؛ اس لیے کہ اس کی اطاعت واجب ہے ،لوگ ان کی یوں پیروی کر تے تھے جیسا کہ مقتدی نماز پڑھانے والے کی اقتدا کرتے ہیں ۔(تاریخ المذاھب الاسلامیہ لأبی زھرة، الجز الأول ،ص :21دار الفکر العربی )
امیر الموٴمنین کا لقب
ابتدا میں خلیفہ کے لیے خلیفہ اور امام دونوں لفظ استعمال ہوتے تھے ،سیدنا عمر کے خلیفہ بننے کے بعد مسلمانوں نے ان کو ”امیر الموٴمنین“ کہنا شروع کیا ،چناں چہ ابنِ سعد ”طبقات “ میں اسی بات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”حضرت ابو بکر جب انتقال فرما گئے ، جنہیں اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا خلیفہ کہا جاتا تھا تو حضرت عمر کو اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے خلیفہ کا خلیفہ کہا جانے لگا، مسلمانوں نے کہا حضرت عمر کے بعد جو آئے گا اسے پھر اللہ کے رسول کے خلیفہ کے خلیفہ کا خلیفہ کہا جائے گا ،یہ طویل ہوگا ؛ لہذا تم کسی ایسے نام پر متفق ہوجاؤ جس کے ساتھ تم خلیفہ کو پکارو اور جس کے ساتھ بعد کے خلفاء کو پکارا جائے، تو بعض صحابہ نے کہا کہ ہم موٴمن( ایمان والے) ہیں اور عمر ہمارا امیر ہے ،تو اسی وقت سے حضرت عمر اسی نام (امیر الموٴمنین) سے پکارے جانے لگے اور وہ پہلے شخص تھے جنہیں اسی نام و لقب سے پکارا گیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد :3/ 281،دار بیروت)
طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت لبید بن ربیعہ اور حضرت عدی بن حاتم جب مدینہ تشریف لائے تو حضرت عمرو بن العاص سے کہا کہ ”امیر الموٴمنین “ سے ہمارے لیے اجازت طلب کرو (یعنی ملاقات کے لیے)۔ حضرت عمر وبن العاص نے کہا :اللہ کی قسم! تم نے ان کا صحیح نا م رکھا ہے ،کیوں کہ وہ امیر اور ہم موٴمن ہیں، حضرت عمرو حضرت عمر کے پاس آئے اور کہا : اے امیر الموٴمنین! اللہ کی آپ پر سلامتی ہو ،انہوں نے کہا :یہ کیا ہے؟(یعنی امیر الموٴمنین کہنے پر تعجب کا اظہار کیا )تو حضرت عمرو نے کہا : آپ امیر ہیں اور ہم موٴمن، تو یوں اس دن سے خلیفہ کو امیر الموٴمنین کہا جانے لگا ۔( مجمع الزوائد:9/61، رواہ الطبرانی، وقال الھیثمی:رجالہ رجال الصحیح)
لفظِ” امیر“ کا استعمال حضور صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا ،لیکن صرف خلیفہ کے معنی میں نہیں ،بلکہ لشکر کے امیر اور مختلف شہروں کے عاملوں اور گورنروں کو بھی امیر کہا جاتا تھا ، جیسا کہ امیر کی اطاعت کے سلسلے میں وارد احادیث میں اس کا تذکرہ آیا ہے ،دیکھیےصحیح البخاری،کتاب الأحکام، باب قول اللہ تعالی ﴿اطیعوا اللہ واطیعواالرسول ﴾وصحیح مسلم،کتاب الامارة، باب وجوب طاعة المراد فی غیر معصیة، سنن النسائی ،البیعة ،باب الترغیب فی طاعة الإمام ،وغیرھم)
نصب ِ خلیفہ و امیر کی شرعی حیثیت
خلیفہ کا تقررمسلمانوں کی ذمہ داری ہے، شرعی حکومت کا قیام اور امیر الموٴمنین کی تعیین کرنامسلمانوں پر واجب ہے، امت کا سوادِ اعظم اس بات پر متفق ہے کہ نصبِ امام (امیر الموٴمنین ) واجب ہے ۔( دیکھیے : النبراس ،ص309حقانیہ ملتان ، شرح المقاصد ،ص :471 اشاعت الاسلام کتب خانہ پشاور، شرح المواقف ، المقصد االأو ل فی وجوب لقب االأمام :8/380۔376، حاشیہ ابنِ عابدین مع الدر المختار :2/ 333دار المعرفة،قاموس الفقہ :2/215 زمزم پبلشرز ،المسامرہ ،ص 244 ،دار الکتب العلمیہ ،الفصل فی الملل واالأھواء والنحل :4/87 ،مقدمہ ابنِ خلدون،ص: 191 اور الاحکام السلطانیہ للما وردی ،ص :5 وغیرہ۔)
اس بات یعنی وجوبِ نصب خلیفہ کی کسی نے مخالفت نہیں کی،سوائے خوارج میں سے نجدات اور معتزلہ میں ابو بکر االأصم اور ھشام ابنِ الفوطی کے ۔(شرح المقاصدللتفتازانی:3/474اشاعت اسلام کتب خانہ، پشاور)بہت سارے احکام دینی ود نیوی ایسے ہیں جن کا تعلق خلافت یعنی شرعی حکومت اور امیر الموٴمنین کے ساتھ ہے، ان کی اقامت کے لیے کسی ”امیر“ کا ہونا ضروری ہے ،مثلاً حدود قائم کرنا ،سرحدات اسلامیہ کی حفاظت کرنا ،لشکر اسلام کو جہاد کے لیے روانہ کرنا ،زکوٰة و صدقات کا اکٹھا کرنا، باغیوں، چوروں اور ڈاکوٴوں کا خاتمہ کرنا ،عیدین اور جمعہ کے اجتماع کو قائم رکھنا ،لوگوں کے جھگڑوں کو رفع دفع کرانا اور ان کے درمیان فیصلے کرنا ،حقوق العباد کے بارے میں گواہیوں کو قبول کرنا اور ان پر عمل کرا نا ،لاوارث بچوں اور بچیوں کے نکاح کا بندوبست کرنا اور جہاد سے حاصل شدہ اموالِ غنیمت تقسیم کرنا،وغیرہ وغیرہ ۔(شرح العقائد النسفیہ ،ص: 154،153،قدیمی کراچی،النبراس للفرھاروی ،ص: 311 ،310 ،حقانیہ، ملتان)
اہلِ سنت کے نزدیک امارت کا قیام اور امیر الموٴمنین کی تقرری مسلمانوں کی شرعی ذمہ داری ہے ،مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ ان کا کوئی امام وامیر ہو،جو شعائرِ دین کی حفاظت کرے ،حدود قائم کرے ،مظلومو ں کو ان کا حق دلوا ئے،و غیرہ ،اس پر قرآن مجید،سنتِ رسول صلی الله علیہ وسلم اور اجماع کو بطورِ دلیل کے پیش کرتے ہیں ،اجماع کی طرف ما قبل میں اشارہ کردیاگیا ہے، اب مختصراً قرآن و حدیث سے اس کے ثبوت کو پیش کرتے ہیں۔
نصب ِامیر کا ثبوت قرآن سے
1...قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُم﴾․(النساء:59)
اس آیتِ مبارکہ میں ”أولی الأمر“ سے مراد”امراء “ہیں ،جب کہ دوسرے قول کے مطابق ”علماء“ مراد ہیں ،راجح یہ ہے کہ یہ آیت دونوں کو شامل ہے ۔ دیکھیے : (روح المعانی للآلوسی :4/96،دار الفکر ،احکام القرآن للجصاص:2/299 ،298،قدیمی کراچی ،احکام القرآن للقرطبی:5/168 ،دار الکتب العلمیہ،تفسیر أبی سعود :1/193 دار احیاء التراث العربی ، تفسیر القاسمی :3/ 255،254،دار الفکر ، تفسیر القرآن العظیم لابنِ کثیر :2/ 303،دار الشعب ،تفسیر الطبری :5 / 146 سے 150 ،مصطفی البابی مصر اورتفسیر المظہری :2/ 151 ۔150حافظ کتب خانہ کوئٹہ)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے امراء و حکام کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے اور امراء کی اطاعت کا حکم دینا ولي امر (امیر الموٴمنین )کی تعیین و تنصیب کے واجب ہو نے کی دلیل ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ایسی کسی چیز کی اطاعت کا حکم نہیں دیتے جس کا وجود ہی نہ ہو ،تو اطاعت کا حکم دینا اس کے نصب کے حکم کا متقاضی ہے ،لہذا مسلمانوں پرنصب امیر و امام واجب ہے ۔
2... قاموس الفقہ میں ہے :”امارت کا قیام مسلمانوں کا شرعی فریضہ اور ان کی منصبی ذمہ داری ہے، قرآن مجید نے اسی کو اقامتِ دین سے تعبیر کیا ہے،﴿ أَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیْہ﴾․ (سورة الشوریٰ :13) (قاموس الفقہ ،مولانا خالد سیف اللہ رحمانی :2/215،زمزم پبلشرز)
3...قرآن مجید کی وہ تمام آیات، جو حددود و قصاص سے تعلق رکھتی ہیں،یا وہ احکام جن کے قیام کے لیے ”امام‘ کا ہونا ضروری ہے، وہ بھی خلیفہ کے نصب کے دلائل میں سے ہیں ،کیوں کہ ان آیات کا تعلق خلافت،خلیفہ اور امیر الموٴمنین سے ہے، فقہائے اسلام نے بھی انہیں امیر الموٴمنین کی ذمہ داریوں میں سے شمار کیا ہے ؛لہٰذا یہ اس بات کا تقاضاکرتی ہیں کہ ان احکام کی تنفیذ کے لیے خلیفہ کا ہونا ضروری ہے۔بعض حضرات نے دیگر آیات قرآنیہ سے بھی استدلال کیا ہے ،طوالت کے خوف سے ان کو ذکر نہیں کیاگیا۔
نصب ِامیر کا ثبوت احادیثِ مبارکہ سے
سینکڑوں احادیث مبارکہ سے اس امر کا ثبوت ہوتاہے، ذیل میں چند کو بطورِمثال پیش کیا جاتاہے :
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس حال میں دنیا سے رخصت ہوا کہ اس کی گردن میں کسی کی امامت کا طوق نہ ہو ، اس کی موت جاہلیت ،یعنی کفر کی موت ہے ۔ (رواہ مسلم ،کتاب الامارة،باب وجوب جماعة المسلمین عند ظھور الفتن ،رقم الحدیث 1851 ،ص، 831،دار السلام الریاض)
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ نصب خلیفہ وامیر واجب ہے ،کیوں کہ امام و خلیفہ کی بیعت کرنا ضروری وواجب ہے، ظاہری بات ہے امام وخلیفہ ہوگا تو بیعت کی جائے گی ؛لہذا نصب خلیفہ و امام واجب ہے۔
حضرت ابو سعید کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا :” جب تین آدمی سفر کا ارادہ کریں تو ان میں سے کسی ایک کوامیر بنا لیں “۔
حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”تین آدمیوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ زمین کے کسی حصے میں ہوں ،مگر کسی ایک کو امیر بنالیں “۔ ( الحدیث أخرجہ ابو داوٴد فی کتاب الجھاد ،باب فی القوم یسافرون یوٴمرون أحدھم :3/ 51 ،رقم الحدیث :2608 ،دار احیاء التراث العربی )
ابنِ تیمیہ فرماتے ہیں:جب چھوٹی جماعتوں اور کم اجتماعات پر واجب قرار دیا کہ ان میں سے کوئی امیر مقرر کریں ،تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اس سے بڑی تعداد میں بھی وا جب ہوگا“ (یعنی امیر کا مقرر کرنا)۔ ( الحسبہ لابنِ تیمیة،ص: 11،دار الشعب)
مسلمانوں کی امارت اور جماعتی قوت کو محفوظ رکھنے اور کمزوری سے بچانے کے لیے احادیث میں حکم ہواہے کہ اگر امیر سے نا پسندیدہ بات بھی دیکھی جائے تو صبر سے کام لیا جائے، تاکہ انتشار پیدا نہ ہو ۔ (دیکھیے: صحیح البخاری، کتاب الاحکام، باب السمع والطاعةللامام مالم تکن معصیة(رقم الحدیث 7143)ص: 1229،دار السلام ،الریاض اور صحیح مسلم ، کتاب الأمارة ،باب وجوب جماعة المسلمین(رقم الحدیث4791) ص: 831،دارالسلام ،الریاض )
اس طرح حدیث میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے اختلاف کے موقع پراپنی سنت اور خلفاء الراشدین المھدین کی سنت کو تھامنے کا حکم دیا ہے۔ (دیکھیے:مشکوٰة المصابیح ،کتاب الایمان ،باب الاعتصام بالکتاب والسنة الفصل الثانی:1/ 53،دار الکتب العلمیہ )
حضرات صحابہ کرام کے طرز عمل سے ثبوت
نصب ِخلیفہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ حضرات صحابہ کرام نے خلیفہ کے تقرر کی اہمیت کے پیشِ نظر اسے حضور صلی الله علیہ وسلم کی تدفین پر مقدم کیا اورحضرت ابو بکر کو خلیفہ بنایا،پھر حضرت ابو بکرنے حضرت عمر کو اپنا خلیفہ مقرر کیا، ان کے بعد حضرت عمر نے چھ آدمیوں کی جماعت پر ذمہ داری ڈالی، جنہوں نے حضرت عثمان کو خلیفہ بنایا ،ان کی شہادت کے بعد حضرت علی کی بیعت کی گئی، یہ ان حضرات صحابہکرام کا طرزِ عمل ہے خلافت کے بارے میں ،اس کے علاوہ وہ احادیث جو حکام کی معروف میں اطاعت پر دلالت کرتی ہیں ،بیعت کے بارے میں وارد شدہ احادیث، مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج کے ممانعت پر دال احادیث ،ایک امام کی موجودگی میں دوسرا دعویٰ کرے تو اس کی گردن اڑانے کا حکم وغیرہ تمام احادیث امام و خلیفہ کی موجودگی کا تقاضاکر رہی ہیں اور نصب خلیفہ کے واجب ہونے کی طرف مشیر ہیں ۔ غرض قرآن و حدیث اور اجماع امت کی روشنی میں امیر الموٴمنین( جو کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے نائب کی حیثیت سے اقامتِ دین اور دنیوی امور میں مسلمانوں کی راہ بری و راہ نمائی کا فریضہ سر انجام دیں گے) کا ہونا ضروری ہے اور مسلمانوں کا اس کو پہچان کر ان کی بیعت کرنا لازم ہے ۔
امیر الموٴمنین کی اطاعت کا حکم
امیر کی اطاعت اسلامی حکومت اور اس کے سیاسی نظام کے اہم اور بنیادی قواعد و ستونوں میں سے ہے، امیر و خلیفہ کی اطاعت اس لیے ضروری ہے کہ وہ مکمل اطمینان اور بصیرت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھا سکے، حضرت عمر کا ارشادِ گرامی ہے :”لا إسلام بلا جماعة، ولا جماعة بلا أمیر، ولا أمیر بلا طاعة“․ (جامع ابن عبد البر : ص،62 ،بحوالہ قاموس الفقہ :2/ 215) یعنی جماعت کے بغیر اسلامی زندگی نہیں ہو سکتی اور امیر کے بغیر جماعت کاقیام ممکن ہی نہیں اور امارت کادار و مداراطاعت اور فرماں نبر داری پر ہے۔
اسلامی نظامِ حکو مت و طرزِ زندگی کا خاص ا متیازجو اسے دیگر نظاموں اور خود ساختہ قوا نین سے ممتاز کرتا ہے وہ ایک مسلمان موٴمن کا دینی تشخص اور فکر و نظریہ ہے… کہ اس پر خلیفہ اور امیر الموٴمنین کی اطاعت اور فرماں برداری واجب ہے ،لہٰذا ایک مسلمان کا ایمان اور اور اس کی دینی سوچ وفکر اسے امیر کی اطاعت پر نہ صرف ابھارتے ہیں، بلکہ اسے امیر کی مخالفت اور نافرمانی سے بھی بچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
مسلمان امیر کی اطاعت کو اس لیے بھی اختیار کرتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا حکم ہے ،اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے حکم کی بجا آوری پر اسے اجر وثواب عطا کیا جائے گا، چناں چہ علامہ ابنِ تیمیہ فرماتے ہیں:”فطاعة اللّٰہ ورسولہ واجبة علیٰ کل أحد، وطاعة ولاة الأمور واجبة لٴامر اللّٰہ بطاعتھم، فمن أطاع اللّٰہ ورسولہ بطاعة ولاة الأمرللّٰہ، فأجرہ علی اللّٰہ، ومن کان لایطیعھم إلا لما یأخذہ من الولایة والمال، فإن أعطوہ أطاعھم، وإن منعوہ عصاھم، فما لہ في الآخرة من خلاق“․ (مجموعہ الفتاویٰ للعلامہ ا بنِ تیمیہ، الجزء :خمس وثلاثین :18/ 13،مکتبہ العبیکان ، الریاض ) یعنی اللہ اوراس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت ہر ایک پر واجب ہے اور امراء کی اطاعت اس لیے واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے، پس جس نے اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کے لیے امراء کی اطاعت کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کی اس کا اجر اللہ کے ذمہ لازم ہے، اور جو ان کی اطاعت صرف مالی فوائد کے لیے کرتا ہے، اگر اسے کچھ دیتے ہیں تو ان کی اطاعت کرتا ہے اور کچھ نہیں دیتے تو نا فرمانی کرتا ہے تو ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔
امیر الموٴمنین کی فرماں برداری اور اطاعت رعایا کی اہم اور بڑی ذمہ داریوں میں سے ہے ،قرآن و حدیث میں ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے :﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُم﴾․(النساء :59)
اس آیت سے ما قبل میں اللہ تعالیٰ نے امراء اور حکم رانوں کو حکم دیا کہ وہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کردیں اور لوگو ں کے در میان عدل و انصاف کا معاملہ کریں تو مذکورہ آیت میں عوام اور اہلِ عسکر کو ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے، علامہ شوکانی کے بقول آیت میں”أولی الأمر“سے ائمہ ،سلاطین ، قضاة اور ہر وہ شخص مرادہے جسے کوئی ولایتِ شرعی حاصل ہو، نہ کہ طاغوتی ،ان کی اطاعت کا مطلب یہ ہے جو وہ حکم دیں اور منع کریں جب تک کہ وہ گناہ کا کام نہ ہو ۔(فتح القدیر للشوکانی :1/481)حافظ ابنِ حجر نے بھی محمد بن کعب کے حوالے سے ” امراء “مراد ہونا نقل کیا ہے ۔( فتح الباری ،کتاب الاحکام :13/ 140 ،قدیمی )
مختلف تفاسیر کے حوالے سے پہلے ذکر کیا گیا کہ راجح یہ ہے کہ ”أولی الأمر“سے علماء اور حکام دونوں کی اطاعت مراد ہے ،چناں چہ فقہی تحقیقات میں فقہاء کی اطاعت اور انتظامی امور میں حکام وأمراء کی اطاعت واجب ہوگی۔ (معارف القرآن مفتی محمد شفیع صاحب : 2/ 252 ،ادارة المعارف ) ابنِ تیمیہ سے بھی ان دونوں کا مراد ہونا منقول ہے ۔( الحسبة لابنِ تیمیة:ص ؛118)
اطا عتِ امیر احادیث کی روشنی میں
امراء کی اطاعت ،ان کا احترام، اس کی اہمیت کے بارے میں بکثرت احادیث وارد ہوئی ہیں، اس مختصر سی بحث میں ان کا احاطہ ممکن نہیں، حضرت مولانامحمد یوسف کاندھلوی نے ”حیاة الصحابہ“میں ”احترام الخلفاء والأمراء وطاعة أوامرھم “کے عنوان سے مستقل ایک باب قائم کیا ہے ، اس کے ذیل میں ان تمام احادیث وآثار کو جمع کیا ہے ۔( دیکھیے ؛حیاة الصحابہ للکاندھلوی : 2/93 سے110،دار ابنِ کثیر)جن سے خلفاء وامراء کی اطاعت واحترام روزِ روشن کی طرح عیاں اور واضح ہو جاتا ہے، ذیل میں اس حوالے سے بعض احادیث کا تذکرہ کیا جائے گا ۔ (جاری)