• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

امام اولیاء کے کچھ واقعات

ھمراز

رکن ختم نبوت فورم
نامور بزرگ حضرت شہاب الدین سہروردی رحمته الله علیه اپنی مشہور کتاب " عوارف المعارف " میں تحریر فرماتے هیں ،
ایک شخص نے حضرت غوث پاک رحمته الله علیه سے پوچھا
سیدی ! آپ نے نکاح کیوں کیا ؟
آپ رحمته الله علیه نے فرمایا ،
میں نکاح کرنا نہیں چاهتا تھا کۂ اس سے میرے اوقات میں کدورت پیدا هو جائے گی لیکن نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم نے مجھے حکم دیا کۂ عبدالقادر ! تم نکاح کر لو . الله کے یہاں هر کام کا ایک وقت مقرر هے . پھر جب یه وقت آیا تو الله نے مجھے چار ازواج عنایت کیں ، جن میں سے هر ایک مجھ سے کامل محبت کرتی هے .
تمام مئورخین اس بات پر متفق هیں کۂ حضرت عبد القادر جیلانی رحمته الله علیه اپنے گھر کا سودا سلف خریدنے بذات خود بازار جاتے ، سفر میں هوتے تو منزل پر پہنچ کر آٹا گوندھتے ، روٹیاں پکاتے اور اپنے ساتھیوں میں تقسیم فرماتے .
جب آپ رحمته الله علیه کی زوجه محترمه علیل هوتیں تو خانه داری سے متعلق تمام امور سر انجام دیتے . گھر صاف کرتے ، روٹی پکاتے اور بچوں کو اپنے هاتھ سے کھلاتے .
ایک مرتبہ آپ رحمته الله علیه کسی کام سے بازار جا رهے تھے کۂ ایک گلی سے گزر هوا جہاں بچے کھیل رهے تھے .
ایک بچے نے آپ رحمته الله علیه کو دیکھا تو اپنی جیب سے ایک پیسہ نکال کر آپ رحمته الله علیه کی طرف بڑھایا اور بولا ،
مجھے بھی بازار سے مٹھائی لا دیجئے .
آپ رحمته الله علیه نے وه پیسه پکڑ لیا اور آگے بڑھ گئے .
کچھ دیر بعد دوسرے بچے نے آواز دی ،
میرے بھی پیسے لے جائیں ، مجھے بھی مٹھائی لا دیجئے گا .
آپ رحمته الله علیه واپس لوٹے اور اس بچے کے بھی پیسے پکڑ لئے .
اسی طرح چار پانچ بچوں نے آپ رحمته الله علیه کو آواز دی ، آپ رحمته الله علیه هر بار پلٹ کر آتے اور بچوں سے پیسے پکڑ لیتے .
آخر بچوں کے مطالبات ختم هوئے تو آپ رحمته الله علیه نے بازار جا کر مٹھائی خریدی اور واپسی پر بچوں میں تقسیم کر دی . ایسا کرتے هوئے آپ رحمته الله علیه کے چہرے پر مسکراہٹ تھی .
یه تھے سید عبد القادر جیلانی رحمته الله علیه جن کی هیبت سے لوگ کانپتے تھے لیکن غریبوں کے بچے آپ رحمته الله علیه سے نه صرف بے تکلفانه گفتگو کرتے تھے بلکہ بعض اوقات آپ رحمته الله علیه سے اپنے کام بھی کروا لیتے تھے .
آپ رحمته الله علیه کا مزاج انتہائی نفیس تھا . صفائی اور خوشبو کا خاص اهتمام فرماتے . لباس کا کپڑا اکثر نہایت قیمتی هوتا . بغداد کے مشہور تاجر شیخ ابو الفضل کا بیان هے
ایک بار آپ رحمته الله علیه کا خادم میرے پاس آیا اور ایسا کپڑا طلب کیا جس کے صرف ایک گز کی قیمت هی ایک اشرفی کے برابر هو .
میں نے خادم کے جانے کے بعد سوچا
جب درویش اتنا قیمتی لباس پہنیں گے تو پھر خلیفہ وقت کیا پہنے گا ؟
پھر ایک دن میں آپ رحمته الله علیه کے درس میں شرکت کیلئے گیا .
درس کے اختتام پر آپ رحمته الله علیه میری طرف متوجہ هوئے اور فرمایا ،
ابو الفضل ! خدا کی عزت و جلال کی قسم !
جب تک میرا معبود حکم نہیں دیتا ، میں کوئی قیمتی کپڑا نہیں پہنتا .
اس لباس کے متعلق بھی مجھے حکم ملا تھا کۂ تجھے میرے حق کی قسم ! ایک ایسا لباس بھی پہن جس کے ایک گز کی قیمت ایک اشرفی کے برابر هو .
یه سنکر میں لرز اٹها اور اپنی سوچ کی معافی مانگی . آپ رحمته الله علیه نے فرمایا ،
جسے تم قیمتی لباس سمجھتے هو یه میت کا کفن هے . جب کوئی درویش عالم سلوک میں هزار بار مر چکتا هے تو اسے ایک کفن عطا هوتا هے .
ایک بار ایک عورت اپنے بیٹے کو غوث پاک رحمته الله علیه کی خدمت میں حاضر هوئی اور عرض کرنے لگی
میرا بیٹا آپ سے بے حد عقیدت رکھتا هے . اسلئے میں اپنے حق سے دستبردار هوتی هوں اور اسے آپ کی غلامی میں دیتی هوں
آپ رحمته الله علیه نے اس لڑکے کو قبول فرما لیا
کچھ دن بعد جب وه عورت اپنے بیٹے سے ملنے آئی تو مسلسل ریاضت کی وجه سے لڑکا لاغر نظر آ رها تھا
اس نے اپنے بیٹے سے پوچھا
تمہیں یہاں کھانے کو کیا دیا جاتا هے ؟
لڑکے نے بتایا
جو کی روٹی کبھی سبزی کے ساتھ اور کبھی صرف نمک کے پانی کے ساتھ
یه سن کر ماں کی مامتا نے جوش مارا . وه غوث پاک رحمته الله علیه کے پاس پہنچی . اس وقت آپ رحمته الله علیه مرغ کا گوشت کھا رهے تھے اور آپ رحمته الله علیه کے سامنے ایک برتن میں هڈیاں موجود تھیں .
عورت بے اختیار بول اٹھی
میں نے اپنے جگر گوشے کو آپ کی غلامی میں اس لئے تو نہیں دیا کۂ وه جو کی روٹیاں کھا کر نیم جان هو جائے .
آپ رحمته الله علیه نے اسے شفقت سے سمجھایا کۂ ریاضت کا ایک هی نتیجه هوتا هے کۂ جسم کمزور هو جائے تاکہ روح طاقت حاصل کرے . تمہارا بیٹا بھی اسی مرحلے سے گزر رها هے .
عورت بولی
یه کہاں کا انصاف هے کۂ آپ خود تو مرغ کھائیں اور میرا بیٹا جو کی روٹی کھائے ؟
آپ رحمته الله علیه نے کسی ناگواری کا اظہار کئے بغیر مرغ کی هڈیوں پر هاتھ رکھ دیا اور با آواز بلند فرمایا
" الله کے حکم سے کھڑی هو جا جو بوسیدہ هڈیوں کو زندہ کرنے والا هے "
جیسے هی آپ رحمته الله علیه کی زبان سے یه الفاظ ادا هوئے ، مرغ زندہ هو کر بولنے لگا .
آپ رحمته الله علیه نے عورت کو مخاطب کر کے فرمایا
جب تیرا بیٹا اس قابل هو جائے تو اسے اجازت هے جو چاهے کھائے .
نامور بزرگ حضرت شیخ محمد بن علی رحمته الله علیه ، بغداد کے مشہور فقیه ابو محمد بن الحسن رحمته الله علیه ، شیخ ابو بکر عبد الله نصر رحمته الله علیه اور حافظ عبد المخیث رحمت الله علیه کا بیان هے کۂ هم اس مجلس میں موجود تھے جس میں غوث الاعظم رحمته الله علیه نے فرمایا تھا
" میرا یه قدم هر ولی کی گردن پر هے "
شیخ الاسلام عزالدین بن عبد السلام رحمته الله علیه کے مطابق اس فرمان میں قدم سے مراد طریقه هے ، یعنی غوث پاک رحمته الله علیه کا طریقه اس زمانے کے تمام اولیاء سے اعلی و ارفع تھا .
کہتے هیں جب غوث پاک رحمته الله علیه کا یه فرمان ایک دوسرے بزرگ تک پہنچا تو انھوں نے ناخوشگوار لہجے میں کہا
ان کا قدم دوسرے ولیوں کی گردن پر هو گا ، میری گردن پر انکا قدم نہیں هے .
جب اس بات کا ذکر غوث پاک رحمته الله علیه کے سامنے کیا گیا تو آپ رحمته الله علیه نے بے نیازانه فرمایا
وه نہیں مانتے تو نه سهی . خدا ان کا بھلا کرے .
بظاہر بات ختم هو گئی لیکن کچھ دن بعد حالات نے ایسی کروٹ لی کۂ لوگ لرز کر ره گئے .
ایک دن وهی بزرگ اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ کسی دیہاتی علاقے سے گزر رهے تھے کۂ انکی نظر ایک حسین و جمیل عیسائی دوشیزه پر پڑی جو اپنے جانور چرا رهی تھی .
بزرگ کے قدم جیسے پتھر کے هو گئے . وه بے اختیاری کے عالم میں اس لڑکی کی طرف دیکھنے لگے .
عقیدت مندوں کو اس عمل پر خفت هوئی . ایک مرید سے بصد احترام اپنے مرشد سے چلنے کا کہا تو بزرگ بولے ،
تم لوگ جاؤ . مجھے میری منزل مل گئی . میں یہیں قیام کروں گا .
مرید جانا نہیں چاهتے تھے لیکن بزرگ نے غضب ناک لہجے میں انھیں جانے کا حکم دیا . چارو ناچار مرید واپس آ گئے .
اگلے دن ایک مقرب مرید اسی جنگل میں پہنچا تو اسنے دیکھا کۂ بزرگ کسی اینی ملازم کی طرح اس عیسائی لڑکی کے پیچھے پھر رهے هیں .
مرید بولا
حضور ! واپس چلیے . علم کے پیاسے آپ کی مجلس وعظ کے منتظر هیں .
کیسے پیاسے اور کیسی مجلس ؟ میں اس کے سوا کسی کو نہیں جانتا .
بزرگ نے عیسائی لڑکی کی طرف اشاره کیا .
کچھ دن بعد پھر وهی مرید مرشد کی محبت میں ادھر جا پہنچا .
اسنے دیکھا کۂ جنگل میں عیسائی لڑکی کا دور دور تک پتا نہیں اور بزرگ اس کے جانور چرا رهے هیں .
پھر اس نے دیکھا کۂ بزرگ درخت کے نیچے سو رهے هیں اور بکریوں کے بچے انکی گردن پر چڑھے هوئے هیں .
تب مرید کو بزرگ کے الفاظ یاد آئے ،
" میری گردن پر عبد القادر جیلانی کا قدم نہیں هے "
وه لرز اٹها اور آگے بڑھ کر بزرگ کو اٹھا دیا .
شیخ ! میں آپکا خدمتگار هوں .
میں تمہیں نہیں پہچانتا .
بزرگ کی آنکھوں میں کوئی شناسائی نه ابھری .
کیا آپ کو قرآن مجید بھی یاد نہیں ؟
مرید نے ڈرتے ڈرتے پوچھا .
بزرگ کچھ دیر تک جسے ذهن پر زور دیتے رهے اور پهر بولے ،
هاں ! ایک سورت یاد هے ،
قل هو الله احد . . . . .
مرید کی آنکھوں میں آنسو آ گئے . جو کبھی اپنے وقت کا بہترین حافظ قرآن تھا آج اسے محض چار آئتیں یاد تھیں . وه چپ چاپ واپس آ گیا .
پھر لوگوں نے دیکھا کۂ وه غوث پاک رحمته الله علیه کے قدموں سے لپٹا هوا فریاد کر رها هے .
" سیدی ! انھیں معاف کر دیجئے "
کسے معاف کر دوں ؟ آپ رحمته الله علیه نے شفقت سے پوچھا .
مرید نے تمام واقعه دهرا دیا .
میرے دل میں ان کیلئے کوئی غبار نہیں . یه سب الله تعالی کی طرف سے هے . پھر بھی میں کہتا هوں کۂ میں نے انھیں معاف کیا .
غوث پاک رحمته الله نے با آواز بلند فرمایا .
آپ ان کے حق میں دعا فرمائیں ، وه اپنے حواس میں نہیں .
مرید کے آنسو تھمنے کا نام نه لے رهے تھے .
حضرت غوث پاک رحمته الله علیه نے دعا کیلئے هاتھ اٹها دئے .
" جب سارے خزانے تیرے هیں تو پھر کوئی کسی کو کیا دے سکتا هے ؟ اسے بھی اپنی شان غفاری کے طفیل بخش دے "
جیسے هی یه الفاظ ادا هوئے ان بزرگ کو محسوس هوا جیسے ان کے ذهن سے کوئی تاریکی کا پرده سرک گیا هو .
پھر سب نے دیکھا کۂ وه بزرگ اپنی خانقاه کی طرف جانے کی بجائے غوث الاعظم رحمته الله علیه کی خدمت میں حاضر هوئے اور عرض کیا ،
سیدی ! میری گردن پر بھی آپ هی کا قدم هے ..
سید ابو الحسن قرشی رحمته الله علیه کا بیان هے کۂ ایک مرتبہ بغداد کا مشہور تاجر ابو غالب فضل الله ، غوث پاک رحمته الله علیه کی خدمت میں حاضر هوا اور آپ رحمته الله علیه کو اپنے گھر دعوت پر بلایا .
آپ رحمته الله علیه کچھ دیر سر جھکائے سوچتے رهے . اهل مجلس کو خیال گزرا کۂ آپ رحمته الله علیه انکار فرما دیں گے کیونکہ آپ رحمته الله علیه کو امراء کے گھر جانا پسند نه تھا . کچھ دیر بعد آپ رحمته الله علیه نے سر اٹھایا اور اس کی دعوت قبول فرما لی .
آپ رحمته الله علیه دعوت میں تشریف لے گئے . شہر کی معزز هستیاں پہلے سے موجود تھیں . دسترخوان بچهایا گیا ، کھانے چنے جانے لگے . اسی وقت خادم ایک بہت بڑا مٹکا اٹھا کر لائے اور اسے کمرے کے ایک کونے میں رکھ دیا .
آپ رحمته الله علیه کے فرمان پر وه مٹکا کھول کر سامنے رکھ دیا گیا .
پوچھنے پر ابو غالب رونے لگا .
حضور ! اسمیں میرا بیٹا هے . جو جذام کے مرض میں مبتلا هے . اندھا اور اپاهج بھی هے . میں اسے کہاں لے جاؤں ؟
آپ رحمته الله علیه کھڑے هوئے اور بیمار بچے کے سر پر هاتھ رکها اور فرمایا
بچے ! الله کے حکم سے باهر آ جا اور پروردگار کی اس خوبصورت دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ .
اس کے ساتھ هی وه لڑکا اٹھ کھڑا هوا ، اسکی آنکھیں روشن تھیں اور وه خوشی میں ادھر ادھر بھاگتا پھرتا تھا . حاضرین دم بخود تھے . مکان میں گویا هلچل کا سماں تھا . مہمانوں اور میزبان کی ایسی هی بے خبری میں آپ رحمته الله علیه کھانا کھائے بغیر هی واپس چلے آئے .
اور آپ رحمته الله علیه کی وه کرامت جسکا روحانی دنیا میں بےحد تذکرہ هے
یوں هوا کۂ ایک بار دریاۓ دجلہ میں پوری بارات غرق هو گئی .
لواحقین کو جب کوئی راسته دکھائی نه دیا تو وه روتے هوئے آپ رحمته الله علیه کے پاس آ گئے اور دعا کی درخواست کی .
آپ رحمته الله علیه نے انھیں صبر کی تلقین کی کۂ میں تو خود قادر مطلق کا عاجز سا بنده هوں ، میں کسی کو کیا دے سکتا هوں ؟
لیکن دلہن کی مان بضد تھی کۂ آپ دعا کیجئے .
ورنه میں فریاد کرتے کرتے آپ کے در پر جان دے دوں گی .
آخر آپ رحمته الله علیه دریا کے کنارے تشریف لے گئے اور دعا کیلئے هاتھ اٹها دیے
اے الله ! سب لوگ یه جانتے هیں کۂ مجھے تیری ذات پاک سے نسبت هے . اسی نسبت کے صدقے ان کی مشکل آسان فرما
پھر آپ رحمته الله علیه نے هاتھ میں پانی لیا اور فرمایا
اے دجلہ ! خشک هو جا اور مسافروں کو سلامتی سے گزرنے دے
دریا خشک هو کر دو حصوں میں تقسیم هو گیا
اور دیکھنے والوں نے دیکھا کۂ پورا انسانی قافله زندہ سلامت هے .
ایک مرتبہ آپ رحمته الله علیه سیرت مصطفی صلی الله علیه وآله وسلم پر تقریر فرما رهے تھے کۂ ایک عیسائی پادری بولا
همارے نبی کو آپ کے نبی پر برتری حاصل هے کیونکہ همارے نبی نے مردے زندہ کئے لیکن آپ کے نبی نے کوئی مرده زندہ نہیں کیا
آپ رحمته الله علیه نے اسے سمجھایا کۂ هر پیغمبر کو خاص معجزے بارگاہ الهی سے حاصل هوئے جن کا برتری سے تعلق نہیں .
اب نجات کا راسته محض اسلام هے .
لیکن وه نه مانا .
آخر غوث الاعظم رحمته الله علیۂ کو جلال آ گیا . آپ رحمته الله علیه نے فرمایا
میں نبی نہیں ، لیکن اسی نبی صلی الله علیه وآله وسلم کی آل سے هوں .
مجھے اپنے کسی عزیز کی قبر پر لے چلو .
وه آپ رحمته الله علیه کو اپنے باپ کی قبر پر لے گیا
. آپ رحمته الله علیه نے قبر کی طرف اشاره کیا اور فرمایا
" قم باذن الله "
( الله کے حکم سے اٹھ )
دیکھتے هی دیکھتے قبر شق هوئی اور عیسائی راهب نے دیکھا کۂ اسکا باپ تابوت کے اندر زندہ بیٹھا هے . یه منظر دیکھ کر راهب کے حواس خطا هو گئے .
آپ رحمته الله علیه نے اس سے فرمایا
حضرت عیسی علیه السلام کی رسالت کی گواهی همارے ایمان کا حصہ هے لیکن جہاں تک مردے زندہ کرنے کی بات هے ، یه کام مصطفی صلی الله علیه وآله وسلم کے غلام بھی کر لیتے هیں .
جب آپ رحمته الله علیه کا آخری وقت قریب آیا تو آپ رحمته الله علیه کے بیٹے شیخ عبد الجبار رحمته الله علیه نے پوچھا
آپ کے جسم میں کہاں درد هے ؟
آپ رحمته الله علیه نے فرمایا
میرے تمام اعضا مجھے تکلیف دے رهے هیں لیکن میرا دل اپنے خدا کے ساتھ صحیح هے .
پھر با آواز بلند فرمایا
میں اس خدا سے مدد چاهتا هوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں . وه پاک و برتر هے جسے فنا کا کوئی اندیشہ نہیں . الله کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی الله علیه وآله وسلم الله کے رسول هیں
پھر تین مرتبہ " الله " فرمایا اور آپ رحمته الله علیه کی آواز آنی بند هو گئی .
آپ رحمته الله علیه نے گیاره ربیع الثانی 561 هجری میں انتقال فرمایا . اس وقت آپ رحمته الله علیه کی عمر نوے برس تھی . ساڑھے آٹھ صدیاں گزر جانے کے باوجود آپ رحمته الله علیه کا مزار آج بھی بغداد میں مرجع خلائق هے .
امام ابن یتمیه رحمته الله علیه جو همیشه اولیاء کی کرامات کے منکر رهے ، غوث الاعظم رحمته الله علیه کے بارے میں فرماتے هیں
شیخ عبد القادر جیلانی رحمته الله علیه کی کرامات تواتر کو پہنچ گئی هیں . ان سے انکار ممکن نہیں .
اگر سمجھا جائے تو یه گواهی آپ رحمته الله علیه کے مقام ولایت کی بہت بڑی دلیل هے .
آپ رحمته الله علیه کے مشہور فرامین هیں :
دنیا میں سے اپنا حصہ اسطرح نه کھا کۂ وه بیٹھی هو اور تو کھڑا هو ، بلکہ اسطرح کھا کۂ تو بیٹھا هو اور وه طباق سر پر رکھے کھڑی هو . جو الله کے دروازے پر کھڑا هوتا هے ، دنیا اسکی عزت کرتی هے اور جو دنیا کے دروازے پر کھڑا هوتا هے اسے دنیا ذلیل کر دیتی هے .
اور فرماتے تھے
دنیا هاتھ میں رکھنی جائز ، جیب میں رکھنی جائز ، کسی اچھی نیت سے جمع کرنا جائز ، لیکن اسے دل میں رکھنا جائز نہیں .
الله پاک اپنی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ان پاک هستیوں پر اور همیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے . آمین
 
Top