محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
امام ملا علی قاری (رحمۃ اللہ علیہ) کی کتاب ”الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة“جس کو موضوعات کبیر کہا جاتا ہے سے قادیانی دجل کر کے ایک عبارت کا کچھ حصہ پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مولا علی قاری (رحمۃ اللہ علیہ) غیر تشریعی نبوت کو جاری مانتے تھے۔ (معاذاللہ)
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی مکمل عبارت آپ کے سامنے رکھتے ہیں جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ (معاذ اللہ) ختم نبوت کے منکر نہیں تھے۔
الموضوعات میں حضرت نے حدیث ” وَلَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا “ کو ذکر کیا ہے اس کے بعد اس حدیث پر امام نووی (رحمۃ اللہ علیہ) کی جرح نقل کی ہے۔ لکھتے ہیں
قَالَ النَّوَوِيُّ فِي تَهْذِيبِهِ هَذَا الْحَدِيثُ بَاطِلٌ وَجَسَارَةٌ عَلَى الْكَلَامِ بِالْمُغَيَّبَاتِ وَمُجَازَفَةٌ وَهُجُومٌ عَلَى عَظِيمٍ
{الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة (ص: 283،284) }
ترجمہ: اس حدیث کے بارے میں امام نووی (رحمۃ اللہ) نے اپنی کتاب تہذیب الاسماء میں فرمایا ہے ”یہ روایت باطل ہے،غیب کی باتوں پر جسارت ہے اور ایک بے تکی بات ہے۔
اس عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ اس روایت کو صحیح نہیں مانتے تھے اسی وجہ سے انہیں نے امام نووی (رحمۃ اللہ) کی جرح کو نقل کیا ہے۔مگر قادیانی اس روایت کو صحیح مانتے ہیں اگر ملا علی قاری (رحمۃ اللہ) کا نام لیا ہے تو کم از کم ان کی بات تو مانو۔
امام صاحب آگے فرمایا ہیں
”قَوْلُهُ تَعَالَى {مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ} فَإِنَّهُ يومىء إِلَيْهِ بِأَنَّهُ لَمْ يَعِشْ لَهُ وَلَدٌ يَصِلْ إِلَى مَبْلَغِ الرِّجَالِ فَإِنَّ وَلَدَهُ مِنْ صُلْبِهِ يَقْتَضِي أَنْ يَكُونَ لُبَّ قَلْبِهِ كَمَا يُقَالُ الْوَلَدُ سِرُّ أَبِيهِ وَلَوْ عَاشَ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ وَصَارَ نَبِيًّا لَزِمَ أَنْ لَا يَكُونَ نَبِيُّنَا خَاتَمَ النَّبِيِّينَ “{الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة (ص: 284)}
ترجمہ: اللہ تعالی کا یہ فرمان (مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ) اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ وسلم کا کوئی بیٹا اس عمر تک نہیں پہنچا کہ وہ مرد کہلاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ بیٹا جو آپ کی پشت مبارک سے ہے آپ کے دل کا ٹکڑا ہے، جیسے کہا جاتا ہے کہ بیٹا اپنے باپ کا ”سِرُّ“ ہوتا ہے (یعنی باپ کی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے) تو اگر آپ کے بیٹے چالیس سال کی عمر تک زندہ رہتے اور نبی بن جاتے تو یہ لازم آتا کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) خاتم النبیین نہ ہوں۔ (اور اللہ کو یہ منظور نہ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد کوئی نبی ہو اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کوئی بیٹا چالیس سال کی عمر تک نہ پہنچا)
اس عبارت میں مولا علی قاری (رحمۃ اللہ علیہ) نے آیت خاتم النبیین کا ذکر فرمایا ہے ،اور پھر یہ وضاحت فرمائیں کہ چونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کو خاتم النبیین فرمایا گیا ہے اس لئے اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کوئی بیٹا چالیس سال کی عمر تک نہ پہنچتا ، کیوں کہ اگر ایسا ہو جاتا تو ملا علی قاری (رحمۃ اللہ علیہ) کے خیال میں وہ نبی ہوتا ، اور اگر وہ نبی ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) خاتم النبیین نہ رہتے۔یعنی ملا علی قاری (رحمۃ اللہ علیہ) کے نزدیک خاتم النبیین کا مطلب آخری نبی ہی ہے۔ اسی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کسی بیٹے کو چالیس سال تک زندہ نہ رکھا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خاتمیت میں فرق نہ آئے۔ یہی بات صحابی رسول حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رضی اللہ تعالی عنہ) نے بھی فرمائی ہے، صحیح البخاری میں روایت ہے
6194 - حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ: قُلْتُ لِابْنِ أَبِي أَوْفَى: رَأَيْتَ إِبْرَاهِيمَ ابْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: «مَاتَ صَغِيرًا، وَلَوْ قُضِيَ أَنْ يَكُونَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيٌّ عَاشَ ابْنُهُ، وَلَكِنْ لاَ نَبِيَّ بَعْدَهُ»
{صحيح البخاري ( ص:1546)}
اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں کہ میں نے صحابی رسول حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رضی اللہ تعالی عنہ) سے پوچھا کیا آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بیٹے حضرت ابراہیم کو دیکھا ہے ؟ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا ”وہ چھوٹی عمر میں ہی انتقال فرما گئے تھے، اگر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد کسی کو نبی بننا ہوتا تو آپ کے بعد ابراہیم زندہ رہتے، لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں“۔
اور یہ روایت ابن ماجہ میں بھی ہے اور جو ضعیف روایت قادیانی پیش کرتے ہیں (”وَلَوْ عَاش“والی) اس سے پہلے موجود ہے۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی مکمل عبارت آپ کے سامنے رکھتے ہیں جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ (معاذ اللہ) ختم نبوت کے منکر نہیں تھے۔
الموضوعات میں حضرت نے حدیث ” وَلَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا “ کو ذکر کیا ہے اس کے بعد اس حدیث پر امام نووی (رحمۃ اللہ علیہ) کی جرح نقل کی ہے۔ لکھتے ہیں
قَالَ النَّوَوِيُّ فِي تَهْذِيبِهِ هَذَا الْحَدِيثُ بَاطِلٌ وَجَسَارَةٌ عَلَى الْكَلَامِ بِالْمُغَيَّبَاتِ وَمُجَازَفَةٌ وَهُجُومٌ عَلَى عَظِيمٍ
{الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة (ص: 283،284) }
ترجمہ: اس حدیث کے بارے میں امام نووی (رحمۃ اللہ) نے اپنی کتاب تہذیب الاسماء میں فرمایا ہے ”یہ روایت باطل ہے،غیب کی باتوں پر جسارت ہے اور ایک بے تکی بات ہے۔
اس عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ اس روایت کو صحیح نہیں مانتے تھے اسی وجہ سے انہیں نے امام نووی (رحمۃ اللہ) کی جرح کو نقل کیا ہے۔مگر قادیانی اس روایت کو صحیح مانتے ہیں اگر ملا علی قاری (رحمۃ اللہ) کا نام لیا ہے تو کم از کم ان کی بات تو مانو۔
امام صاحب آگے فرمایا ہیں
”قَوْلُهُ تَعَالَى {مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ} فَإِنَّهُ يومىء إِلَيْهِ بِأَنَّهُ لَمْ يَعِشْ لَهُ وَلَدٌ يَصِلْ إِلَى مَبْلَغِ الرِّجَالِ فَإِنَّ وَلَدَهُ مِنْ صُلْبِهِ يَقْتَضِي أَنْ يَكُونَ لُبَّ قَلْبِهِ كَمَا يُقَالُ الْوَلَدُ سِرُّ أَبِيهِ وَلَوْ عَاشَ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ وَصَارَ نَبِيًّا لَزِمَ أَنْ لَا يَكُونَ نَبِيُّنَا خَاتَمَ النَّبِيِّينَ “{الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة (ص: 284)}
ترجمہ: اللہ تعالی کا یہ فرمان (مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ) اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ وسلم کا کوئی بیٹا اس عمر تک نہیں پہنچا کہ وہ مرد کہلاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ بیٹا جو آپ کی پشت مبارک سے ہے آپ کے دل کا ٹکڑا ہے، جیسے کہا جاتا ہے کہ بیٹا اپنے باپ کا ”سِرُّ“ ہوتا ہے (یعنی باپ کی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے) تو اگر آپ کے بیٹے چالیس سال کی عمر تک زندہ رہتے اور نبی بن جاتے تو یہ لازم آتا کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) خاتم النبیین نہ ہوں۔ (اور اللہ کو یہ منظور نہ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد کوئی نبی ہو اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کوئی بیٹا چالیس سال کی عمر تک نہ پہنچا)
اس عبارت میں مولا علی قاری (رحمۃ اللہ علیہ) نے آیت خاتم النبیین کا ذکر فرمایا ہے ،اور پھر یہ وضاحت فرمائیں کہ چونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کو خاتم النبیین فرمایا گیا ہے اس لئے اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کوئی بیٹا چالیس سال کی عمر تک نہ پہنچتا ، کیوں کہ اگر ایسا ہو جاتا تو ملا علی قاری (رحمۃ اللہ علیہ) کے خیال میں وہ نبی ہوتا ، اور اگر وہ نبی ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) خاتم النبیین نہ رہتے۔یعنی ملا علی قاری (رحمۃ اللہ علیہ) کے نزدیک خاتم النبیین کا مطلب آخری نبی ہی ہے۔ اسی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کسی بیٹے کو چالیس سال تک زندہ نہ رکھا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خاتمیت میں فرق نہ آئے۔ یہی بات صحابی رسول حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رضی اللہ تعالی عنہ) نے بھی فرمائی ہے، صحیح البخاری میں روایت ہے
6194 - حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ: قُلْتُ لِابْنِ أَبِي أَوْفَى: رَأَيْتَ إِبْرَاهِيمَ ابْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: «مَاتَ صَغِيرًا، وَلَوْ قُضِيَ أَنْ يَكُونَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيٌّ عَاشَ ابْنُهُ، وَلَكِنْ لاَ نَبِيَّ بَعْدَهُ»
{صحيح البخاري ( ص:1546)}
اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں کہ میں نے صحابی رسول حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رضی اللہ تعالی عنہ) سے پوچھا کیا آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بیٹے حضرت ابراہیم کو دیکھا ہے ؟ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا ”وہ چھوٹی عمر میں ہی انتقال فرما گئے تھے، اگر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد کسی کو نبی بننا ہوتا تو آپ کے بعد ابراہیم زندہ رہتے، لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں“۔
اور یہ روایت ابن ماجہ میں بھی ہے اور جو ضعیف روایت قادیانی پیش کرتے ہیں (”وَلَوْ عَاش“والی) اس سے پہلے موجود ہے۔