امت مسلمہ اور عالمی امن
ایک قادیانی خاتون جو کہ فیس بک پر "مریم ثمر"کے نام سے ملت اسلامیہ اور علمائے اسلام پر روزانہ کیچڑ اچھالتی نظر آتی ہیں ان کے ایک مضمون جو کہ روزنامہ اوصاف میں چھپا اس کا تنقیدی جائزہ پیش خدمت ہے
ایک قادیانی خاتون جو کہ فیس بک پر "مریم ثمر"کے نام سے ملت اسلامیہ اور علمائے اسلام پر روزانہ کیچڑ اچھالتی نظر آتی ہیں ان کے ایک مضمون جو کہ روزنامہ اوصاف میں چھپا اس کا تنقیدی جائزہ پیش خدمت ہے
مکمل مضمون پڑھنے کے لیے ان لنکس کو دیکھیں کالم ، فیس بک پوسٹ
محترمہ کہتی ہیں کہ
میرا محترمہ سے سوال ہے کہ یہ کس قسم کی دورنگی ہے کہ فیس بک پر دن رات آپ علماء اسلام کے خلاف ایک محاذ قائم کئے ہوئے ہیں اور جو سب و شتم کی تیر ونشتر آپ کے قلم سے نکلتے ہیں اس سے کوئی بھی فیس بک کا یوزر نا آشنا نہیں ہے حیرت کی بات ہے آج آپ کو علماء و مشائخ یاد آ گئے ہیں ۔علماء و مشائخ بولیں تو بھی قادیانی کمیونٹی کو اعتراض ہوتا ہے اور اگر وہ خاموش رہیں تب بھی آپ لوگ ہنگامہ آرائی کرتے ہو ۔علماء نے جہاں بولنا ہوتا ہے وہ بولتے ہیں اور انہیں علماء نے ہمیں بتایا ہے کہ قادیانی ملک و اسلام دونوں کےدشمن ہیں اور یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہر دہشت گرد حملہ کےپیچھے قادیانی لابی کا ہاتھ لہرا رہا ہوتاہے جس کا منہ بولتا ثبوت آج دیکھنے کو ملتا ہے کہ جب بھی پاکستان میں کوئی حملہ ہوتا ہے یا قتل وغارت گری کا واقعہ روپزیر ہوتا ہے تو سوشل میڈیا پر تمام قادیانی بجائے افسوس کرنے کے پھبتیاں کس رہے ہوتے ہیں اور کھسیانی ہنسی ہنس ہنس کر دہشت گردی کے واقع کا تعلق علماء سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ تمام امت مسلمہ جانتی ہے کہ ان دہشت گردوں کا کوئی دین مذھب نہیں ہوتا لیکن کیا کیا جائے کہ قادیانیوں کو ہنسنے کے لیے موقع چاہیے بس ۔ اورپھر آپ اپنا محاسبہ خود ہی کر لیں کہ لفظ مولوی کو بدنام آج سب سے زیادہ کون کر رہا ہے اس کو جواب آپ کو خود ہی مل جائے گا کیوں کہ آپ بھی اس نعرہ میں بھرپورشرکت کرتی ہیں کہ مولوی آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہیں اور یہ نعرہ آپ کے حضرت جی کرشن مرزا کا دیا ہوا ہے ۔اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے بلکہ اسلام کا مطلب ہی امن و سلامتی ہے ۔ پھر ایسا تضاد کیوں نظر آتا ہے َ؟کیوں اسلام کی پر امن تعلیم کی عملی تصویرکہیں دیکھنے کو نہیں ملتی ؟؟۔افسو س تو اس بات کا ہے کہ مذکورہ بالا تمام جرائم اسلام کے نام پر کیئے جا رہے ہیں اور اس کو عین اسلام قرار دیا جارہا ہے ۔جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم کا ان پرتششد کاروائیوں سے دور دور کا نہ تو تعلق ہے اور نہ ہی کوئی واسطہ ہے۔
پھر یہ سب کیوں کیا جارہا ہے؟
اصل میں ایک لحاظ سے ان تمام کاروائیوں کا جائزہ لیا جائے تو کہیں بھی ان کاروائیوں کے خلاف کھل کر علماء اور مشائخ کو بولتے نہیں سنا جائے گا اور نہ ہی کوئی احتجاج ہوتا نظر آئے گا
اسلام کی تیرہ سو سالہ نہیں محترمہ چودہ سو سال سے بھی زیادہ کا وقت ہو گیا ہے ایک تو آپ اپنی قوت حافظہ اچھی کر لیں دوسری یہ بات کہ اگر جہاد بالنکاح کی اصطلاح کسی نے نہیں سنی تو مسیح موعود کی اصطلاح کہاں سے آئی آج تک آپ اس کا جواب تو دے نہیں سکیں اور پھر یہ دہشت گرد کون سے نبی یا رسول ہونے کا اعلان کر رہے ہیں ان کو تو تمام مسلمان تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کوئی بھی ان کو اچھا تصور نہیں کر رہا مگرآپ اپنے مرزا جی جنہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ان کی مسیح موعود والی اصطلاح تو اسلام سے ثابت کر دیں ۔اسلام کی 1300 سالہ تاریخ میں کہیں بھی جہاد بالنکاح کی اصطلاح کسی نے نہیں سنی ہو گئی ۔ مگر اب یہ اصطلاح نام نہاد مجاہدین کے لئے استعمال کی جارہی ہے ۔ مختلف اسلامی ممالک کی خواتین کو ان جنگجووں کی تسکین کی خاطر بھیجا جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔ کیا اسلامی تاریخ میں کوئی ایک واقعہ بھی اس قسم کے نکاح کی مثال پیش کرتا ہے یقینا نہیں۔
یہاں کون سے فرقوں کی بات آپ کررہی ہیں سنی شیعہ وہابی دیوبندی والے فرقے یا پھر لاہوری قادیانی فرقہ ، مسرور قادیانی فرقہ ، مرزا ناصر قادیانی فرقہ وغیرہ کی پہلے اس چیز کا تعین کر لیں کہ آپ کون سے والے اسلام کی بات کر رہی ہیں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام یا مرزا غلام احمد قادیانی والا مسیحی اسلام ؟ آج آپ اسلام کی داعیہ بن کر کالم لکھ رہی ہیں پہلے مذھب اسلام کا اور پھر اس کے فرقوں کا تعین کر لیں اور اس چیز کا اظہار آپ کو اپنے کالم میں کرنا چاہیے تھا ۔قادیانیوں کے اپنے فرقوں میں برکت پڑتی جا رہی ہے روز ایک نیاقادیانی فرقہ جنم لے رہا ہے ۔اسلامی قوانین سب سے پہلے ایک انسان کی عزت جان مال کی حفاظت کی ضمانت دیتے ہیںاور اسلام کی تعلیم بھی یہ ہے کہ ایک عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام عمل میں لایا جائے۔ جہاں تمام فرقے اور مذاہب امن سکون اور بلا خوف خطر اپنی زندگیوں کو گزار سکیں ۔ جہاں پیار محبت خلوص بھائی چارے کی فضا ہو ۔ جہاں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ میں پانی پیئیں تو کسی کو بھی جان کا خوف نہ ہو۔اور پھر ان سب باتوں کے بعد تمام مذاہب اور فرقے ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کرتے ہوئے اپنے اپنے طریقے کے مطابق فرائض اور عبادات بجا لائیں۔
آخری تدوین
: