• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

انسان اور اللہ عزوجل کی زات

غلام نبی قادری نوری سنی

رکن ختم نبوت فورم
72121051_917986768587588_655898878272339968_o.jpg قسط نمبر 5
معرفت کا پہلا دروازہ
نور حقیقی کا حصول
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔۔
معزز قارئین ارادہ بنا تھا کہ احباب کی بے قدری کی بھینٹ چڑھنے والی گزشتہ اقساط تک ہی سلسلہ محدود رکھا جاتا لیکن پھر یہ سوچ کر جاری رکھ رہے ہیں کہ چلو اپنے حصے کی شمع روشن کردیتے ہیں جس کو طلب ہوگی روشنی پالے گا ۔۔۔
خیر گزشتہ اقساط میں ہم جسم زہن کے تعلق اور تکرار کے عمل کو ڈسکس کرچکے ہیں ۔۔ اب اندرونی حالات میں یاداشت کے موضوع پر گفتگو نہ کی جائے تو یہ ناانصافی ہوگی ۔۔ ہمارے زہن میں یاداشت بننے کا عمل انتہائی حیرت انگیز اور بے حد دلچسب ہے ۔ ہمارا دماغ ایک ریکاڈنگ ڈویوائس کے طور پر بھی کام کرتا ہے ، اسے RECORDING OF MIND PROCESS بھی کہہ سکتے ہیں ، طبی اصطلاح میں اسے cognitive process کہاجاتا ہے ، ویسے تویہ بہت پچیدہ عمل ہے مگر موضوع کے اعتبار سے مطلب کی بات یہ ہے کہ ہمارا زہن پانچ حواس سے ملنے والی ایک ایک خبر کو ہر ایک احساس ہر جذبے کو ریکارڈ کررہا ہے محفوظ کررہا ہے اور ان احساسات و جذبات کو معلومات میں تبدیل کررہا ہے ، جس کو data کہہ سکتے ہیں،
یہ بے حد تیز رفتار عمل ہے کہ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ سب محفوظ کیا جارہا ہے ، سارا دن جو مشاہدات حاصل ہوتے ہیں خواہ وہ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہوں چکھنے سونگھنے یا سننے سے تعلق رکھیں جو بھی محسوس کیا ہو وہ عارضی یاداشت کے طور پر یعنی short term memory کی شکل میں محفوظ کیاجاتا ہے ، اور رات کو نیند کے دوران غیر ضروری یادیں ختم یعنی delete کردی جاتی ہیں تاکہ دماغ پر بوجھ نہ بڑھے اس کے علاوہ جاگنے کے دوران بھی محفوظ کرنے اور بھولنے کا عمل تیزی سے جاری رہتا ہے ، مثلا ایک دکاندار کاہکوں کو فارغ کرتے ہوئے یہ کبھی یاد نہیں رکھ سکتا کہ اس نے پچھلے چوتھے پانچھویں گاہک سے کتنے پیسے لیے ہیں اور بقایا کتنے دیے ہیں، اگر یہ غیر ضروری ڈیٹا ختم نہ کیا جائے تو آدمی کچھ ہی گھنٹوں میں اپنے حواس کھو بیٹھے ،
جو واقعہ یاداشت کا حصہ بن جاتا ہے اس کی ریکاڈنگ کا طریقہ کار بہت ہی مختلف ہے ۔ اے طویل مدتی یاداشت یعنی long term memory کہا جاتا ہے ، طویل مدتی یاداشت دماغ میں تب محفوظ ہوتی ہے جب احساس emotion اس خیال/ یاد سے جڑ جائے جو زہن میں حواس کے زریعے ایا ہو
جیسے ہی خیال جذبے سے احساس سے جڑتا ہے فوری طور پر یاداشت کے خانے میں memory cell میں برسvurst ہوجاتا ہے اور ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتا ہے ، اس پر مثالیں تو بہت دی جاسکتی ہیں لیکن قسط میں طوالت کے خدشے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم مختصر کرتے ہیں کہ خیال کو یاداشت میں محفوظ رکھنے کے لیے زہنی یاداشت کے خلیات میں جل جانا burst ہوجانا ضروری ہوتا ہے ۔ اس برسٹنگ کے لیے یعنی خیال کو جلاکر محفوظ کرنے کے لیے جس بجلی کی ضرورت ہوتی ہے وہ نفس اسے جذبات یعنی emotions کی صورت میں مہیا کرتا ہے ، اس طرح ہم اپنی زندگی کے تمام اچھے برے واقعات کو گاہ و ثواب کے ثبوتوں کی شکل میں اٹھائے پھرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ کس لیے ؟؟؟؟
یقینا بروز قیامت پیش آنے والے اپنے مقدمے کی سماعت کے لیے !!
اب اس قسط کے اہم ترین مرحلے پر نگاہ دوڑاتے ہیں جس کا عنوان ہے
دل احساس اور توانائی
کیونکہ انسان ایک مخلوق ہے اسے اسکے خالق نے ایک مشین بنایا ہے ایک روبوٹ بنایا ہے اور اس کا ایک تخیلق کار designer ہے ۔۔۔
جب وہ اسے پیدا کرچکا تو اس خالق نے انسان کے اندر اپنی روح کو پھونکا اور اس بے جان وجود کو حیات دی ۔۔۔ یہ مشین یہ روبوٹ زندہ ہوگیا ۔۔۔ اس وجود میں بجلی یعنی energy دوڑ گئی ۔۔۔
ذَٰلِكَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ﴿٦﴾ الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ ﴿٧﴾ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ ﴿٨﴾ ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ
سورہ السجدہ آیت 7 تا 9
جس نے جو چیز بنائی خوب بنائی ، اور انسان کی پیدائش مٹی سے شروع کی پھر اس کی اولاد نثرے ہوئے حقیر پانی سے بنائی، پھر اس کے اعضا درست کیے اور اس میں اپنی روح پھونکی اور تمہارے لیے کان ، آنکھیں اور دل بنایا ، تم بہت تھوڑا شکر کرتے ہو
غور کریں آیات میں جب تک روح پھونکنے کا نہیں کہا تب تک انسان کے لیے (اُس ) کا لفظ استمال ہوا جب روح پھونک دی مشین چل پڑی تو زندہ انسان کو تو تمہارے اور تم کے لفظ سے مخاطب کیا یعنی اب تم میری بات سننے سمجھنے کے قابل ہو ۔۔۔۔۔۔۔ بات کوسمجھتے ہیں ۔۔۔۔
دل جذبات کا مرکز ہے ۔۔۔۔ جذبات کی پیدائش احساسات سے ہوتی ہے یعنی حواس sensors سے جذبات پیدا ہوتے ہیں حواس احساسات یعنی feelings ہیں اور جذبات emotions کو پیدا کرتے ہیں اور جذبات انرجی پیدا کرتے ہیں ،
اپنی نبض پر ہاتھ رکھیں دل ایک پمپنگ سٹیشن کی طرح کام کررہا ہے ،،، اپ زندہ ہیں، انرجی گرم ہوتی ہے اور ہر گرم شے انرجی ہے اپنی جلد کو محسوس کریں اپ کا جسم گرم ہے اپ کا ایک درجہ حرارت ہے ، ہر وہ شے جو باہر سے گرم ہوتی ہے وہ اندر سے جل رہی ہوتی ہے حتیٰ کہ انسان بھی ۔۔۔۔
اس سسٹم کوپورے دیھان سے سمجھنے کی کوشش کریں ۔۔۔۔۔
دل کو ہر صورت جذبات چاہیے یہ جذبوں میں لپٹا ہوا زندہ ہے ، اسے دھڑکنے کے لیے صدمہ shock چاہیے ۔۔۔ جھٹکا چاہیے ۔۔۔ یہ شاک اسے جذبہ دے رہا ہے ۔۔۔ دل کو رنج و الم ، خوشی اداسی ، بغض کینہ، نفرت و محبت نیکی برائی درد خوف اور بے چینی سمیت ہر لمحہ چاہیے یہ جذبات سے چلتا ہے ، یہ بھینچتا ہے سکڑتا ہے پھیلتا ہے اور بڑھتا ہے ،جذبات اس کا fuel ایندھن ہیں ۔۔۔
ہمارے جسم میں بھی مشین کی طرح تاریں wires ہیں ، انہیں رگیں veins کہتے ہیں ۔۔ ایک خون کی ہیں جن کا کام خون کو جسم میں لے جانا اور واپس لے آنا ہے دوسری تاریں nerves اعصاب کہلاتی ہیں ، ان کا کام جذبات و احساسات کو دل سے دماغ اور دماغ سے دل تک لانا ہے اور یہی اعصابی رگیں دماغ کو حواس اور جسم کے ساتھ جوڑے ہوئے ہیں ، یہ بہت پچیدہ نیٹ ورک ہے
اب ان سب کا آپش میں تعلق دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔
زہن میں چونکہ ہماری زندگی کا سارا ریکارڈ موجود ہوتا ہے اور سامنے کی بات یہ ہے کہ یہ رکارڈ اعلی درجے کا نہیں ہوتا بچپن سے جوانی تک سب کچھ ہمیں دنیا بتاتی ہے سکھاتی ہے پڑھاتی ہے اور پھر انسان کو دوسرے انسانوں کے ہجوم میں پھینک دیا جاتا ہے م آزمائش شروع ہوجاتی ہے ، دیکھتے ہیں کیا کرتا ہے کدھر کو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
نفس کی طونکہ تربیت ہی اس لحاظ سے ہوتی ہے کہ پہلے پچیدگی میں جائے الجھن میں جائے گناہ کو لپکے پھر جب دباو پڑے تو اپنی تلاش کو پلٹے ۔۔۔۔۔۔ کم تربیت یافتہ immature نف دن رات اپنی زات کو سنوارنے میں مصروف رہتا ہے ۔
اس حالت میں نفس دو حالتوں پر ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ یہ ہر وقت ماضی past میں رہنا پسند کرتا ہے ، ماضی کے اچھے اور برے واقعات کی ادھیڑ بن میں ہر لمحہ مگن رہتا ہے ، ماضی کی بھول بھلیوں سے جب ہوش میں اتا ہے تو چھلانک لگا کر مستقبل future میں جاگھستا ہے اور ماضی کے اچھے برے واقعات و تجربات کو استمال کرتے ہوئے حال پرپرpresent میں بیٹھ کر اپنے مستقبل کے خدوخال کو سوارنے لگتا ہے ،
کل مجھے فلاں شخص نے یہ بری بات کہی تھی اس وقت تو میں کچھ نہیں کہہ سکا لیکن کل ملے گا تو مزہ چھکاوں گا ایسا جواب دوں گا کہ مزہ آجائے گا ،،،، یہ کبھی حال میں نہیں رہنا چاہتا حالانکہ جسم اس نے حال present میں رکھا ہوتا ہے اور خیالات کی دنیا میں ماضی مسقبل کی جنگ چل رہی ہے ۔۔۔
ہزاروں جذبات اس نفس کی جانب سے ہر لمحے دل کو پہنچ رہے ہیں اور دل ان جذبات کی آمد و رفت سے کبھی زور سے کبھی آہستہ کبھی ہیجان سے کبھی دباو میں کئی کئی طرح سے دھڑک رہا ہے ، یہ دل کا زنگ ہے ، بس یہی ہے دل کا زنگ ۔۔۔۔۔ دل پر سیاہی ۔۔۔۔
جو ہم سب کے دلوں پر مسلسل چڑھتی چلی جارہی ہے ۔۔۔۔۔ یہ ہر بےقرار دل کی حالت ہے۔۔۔۔ایک مردہ ہوتے تھکے ہوئے دل کا عالم ہے ۔۔۔۔ اس بے قراری اس بے چینی اور دباو سے جو دھڑکن پیدا ہورہی ہے وہ نیک نہیں ۔۔۔۔ اطمنان والی نہیں۔۔۔۔ اس دھڑکن سے بیماری پیدا ہورہی ہے نفسیاتی امراض لاحق ہورہے ہیں جنون ہے فساد ہے ۔۔۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ جب آپ صبح بیدار ہوتے ہیں تو سب سے پہلے آنکھ کھلنے کے بعد آپ کے زہن میں آنے والا خیال کونسا ہے ؟؟
دانت صاف کرتے وقت ناشتہ کرتے وقت اپ کیا سوچ رہے ہوتے ہیں آپ کے زہن میں کیا کھچڑی پک رہی ہوتی ہے؟؟ سارا دن لاکھوں محرکات stimulus میں گھرا ہوا انسان اس بات سے بے خبر ہوتا ہے کہ اس کی انرجی کہاں لگ رہی ہے
ساری رات نیند کے بعد جوکہ موت ہے اللہ آپ کو واپس بھیج دیتا ہے ۔۔
وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَىٰ أَجَلٌ مُّسَمًّى ۖ ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٦٠﴾ وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ ﴿٦١﴾
سورہ الانعام آیت 60 تا 61
اور وہی ہے جو تمہیں رات کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کرچکے ہو وہ جانتا ہے پھر تمہیں دن میں اٹھا دیتا ہے تاکہ وہ وعدہ پورا ہو جو مقرر ہوچکا ہے پھر اسی طرف تم لوتائے جاو گے پھر تمہیں خبر دے گا اسکی جو کچھ تم کرتے تھے اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم پر نگہبان بھیجتا ہے ۔۔ یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آپہنچتی ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اسے قبضہ میں لے لیتے ہیں اور وہ زرا کوتاہی نہیں کرتے
نیند سے اٹھنے کے فوری بعد اپ کی انرجی فل چارج ہوتی ہے ۔ دل آرام میں ہوتا اور جسم بھی ۔۔۔ پھر اسی لمحے نفس حرکت میں اجاتا ہے ، خیال سوچوں میں بدلنے لگتے ہیں اور سوچیں منصوبہ سازی میں ۔۔۔۔۔یوں سارا دن انسان جذبات و احساسات اور خیالات کے چاٹے کھاتا رہتا ہے جیسے لکڑی کا کوئی ٹکڑا گہرے سمندر میں ہو اور سمندر طوفان میں ہو ۔۔۔۔۔
ہر خیال ہر سوچ ہر احساس انرجی کو خرچ کررہا ہے ۔۔۔ سادہ سی بات ہے بیٹری ڈاون ہورہی ہے حتی کہ رات کو تھکا ہارا انان اپنے بستر پر لیٹ کر اپنے خونی رشتے بیوی بچوں سے بھی منہ پرے کرکے کہیں کھوجانا چاہتا ہے ۔۔۔
اتنی تھکن آخر کس بات کی ؟ اچانک اپنوں سے اتنی بیزاری کیوں ہورہی ہے ؟ منہ پھیر کر آنکھیں بند کرکے یہ انسان کہاں جانا چاہ رہا ہے ؟ کہیں ایسا تونہیں کہ یہ مررہا ہے ؟؟؟؟ نفس موت سے ڈرتا ہے اور سوچتا ہے کہ صبح اٹھ جاوں گا ، مزید انرجی مانگتا ہے اپنی عارضی دنیا کو بنانے سنوارنے کے لیے ایک چھوٹا سا مصنوعی خدا اپنے اصل رب سے انرجی مانگ رہا ہے ۔۔۔۔ اگر خالق کی مرضی ہوئی تو ایک اور دن مل جائے گا کل کا دن ایک اور ادھار کی خدائی کا دن ۔۔۔۔ مانگا ہوا ۔۔۔ دیا ہوا دن ۔۔۔۔
انسان اشرف المخلوقات ہے اگر ااس کی آزمائش نہ ہو، اگر اتنا بڑا جال نہ پھینکا جائے تو یہ اتنی عظیم انرجی رکھتا ہے اس قدر اس میں بجلیاں بھری ہیں کہ یہ زمیں پر ایک لمحہ رکنا گوارا نہ کرے ۔۔۔ یہ اس کا گھر نہیں ہے ۔۔۔ اس کا گھر تو آسمانوں میں ہے ۔۔۔ یہاں تو یہ قید ہے ۔۔۔ نفس کی تخلیق کا مقصد انسان کی آزمائش ہے ۔۔
سارا دن نفس کا پورا زور اس انرجی کو ختم کردینے میں لگتا ہے جو رات کو انسان کو عطا ہوتی ہے اور دل سے لمحہ بہ لمحہ دھڑکن بہ دھڑکن تقسیم ہوتی ہے ۔۔۔ اسی انرجی سے انسان دیکھتا ، سنتا ، بولتا، محسوس کرتا ہے اسی انرجی سے علم کو حرکت ہے ،یہی انرجی زندگی ہے ، اسی انرجی کی کمی یا ضائع ہونے سے الجھن غضہ دباو بیماری بے چینی غم و الم پیدا ہوتے ہیں ، یہ خالق کی تخلیق ہے جو ہر لمحہ جاری و ساری ہے ۔۔
اسی کو بچانا ہے ، اسی سے وہ نظر آتا ہے جو ہے مگر دکھائی نہیں دیتا ۔۔۔ اسی انرجی کے بڑھ جانے سے انسان احسن تقویم ہوتا ہے اور اسی کی کمی سے اسفل السافلین ہوجاتا ہے اسی سے انسان حیوان بنتا ہے اور یہی حیوان کو انسان بناتی ہے ۔
یہی راز ہے ۔۔۔۔ پہلا دروازہ ہے جس سے معرفت کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں، یہی تقدیر ہے یہی تدبیر ہے یہی بجلی ہے یہ نور ہے یہ اللہ کا امر ہے ، یہ رسائی ہے ، یہی وہ پردہ ہے جہاں سے وہ علم عطا ہوتا ہے جو کتابوں میں نہیں ہے ۔ اسی سے وہ عقل عطا ہوتی ہے جس کی قسمت میں حضوری ہے ۔۔
جب یہ انرجی درست استمال ہوتی ہے تو گناہوں میں برے احساسات میں برے جذبات میں اس کا استحصال ختم ہوجاتا ہے تو پھر یہ بڑھتی ہے چمکتی ہے آنکھوں کو تیز کرتی ہے اور سماعتوں کو لامحدود کرتی ہے ۔ پھر علم کا اصل علم کا نزول ہوتا ہے ۔۔ اصل علم عرفان ہے ۔۔ یہ اترتا ہے ۔۔ یہ ہدایت ہے ۔۔۔ یہ زمین سے نہیں ملتی یہ آسمانوں سے براہ راسے بندے کے دل پر اتاری جاتی ہے ۔۔ پھر راستے سجتے ہیں ، رکاوٹیں ہٹتی ہیں، اعلی شعور تک رسائی ہوتی ہے اس انرجی کو بچانے کے لیے جہاد کرنا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ جس پر ان شاء اللہ آگے اقساط میں بات ہوگی
اج کی قسط سے کیا اور کتنا سیکھا کمنٹ میں ضرور مطلع فرمائے گا باقی ان شاء اللہ پھر ۔۔۔۔
فقیر مدینہ غلام نبی قادری نوری
 
Top