محمد المکرم
رکن ختم نبوت فورم
انسان ایلین ہے ؟ از بلال الرشید کا علمی آپریشن
تحریر : محمد مکرم
سب سے پہلے موصوف کی "طالب علمانہ رائے" کے بارے میں مختصر عرض کر دوں کہ موصوف نے بڑے غیر محسوس انداز میں ڈارون صاحب کی مضحکہ خیز تھیوری جو کہ فقط تھیوری ہی ہے بلکہ یورپ میں کئی جگہ تو اسے دھتکار کر پھیکا بھی جا چکا ہے کا دفاع کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اور اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے جناب نے قرآنی آیات کا سہارا بھی لیا ہے تا کہ سادہ لوح مسلمان ان کے جھانسے میں باآسانی آسکیں موصوف نے اپنی بات کو مستحکم کرنے اور دوسروں پہ برتری لے جانے کے اندھے جنون میں پوری بات نہیں بتائی کہ الله نے قرآن میں یہ بھی فرمایا ہے کہ الله نےآدم و حوا علیہ سلام کو زمین پہ نازل فرمایا ہے،قرآن کا باغور مطالعہ کرنے سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ الله نے آدم و حوا علیہ سلام کو تخلیق فرما کر پہلے جنت میں ہی رکھا تھا بعد ازاں آدم و حوا علیہ سلام سے غلطی سرزد ہوئی جس کے سبب الله نے انھیں زمین پہ نازل فرمایا ،
موصوف نے ڈاکٹر ایلس سلور کی کتاب اور تحریر کنندہ پہ تنقید کرتے ہوئے لکھا "یہ بات صاف ظاہر ہے کہ کسی پاکستانی مسلمان نے ڈاکٹر ایلس سلور کی کتاب پڑھی اور اسے جنت کے ثبوت کے طور پر پیش کرنے کی ٹھان لی"،اس کے ساتھ ہی موصوف نے معجزے کا ذکر کرتے ہوئےخود بھی مذہبی سہارا حاصل کرنے کی کوشش کی ہے،ایک طرف تو جناب نے تحریر کنندہ پہ طنز کرتے ہوئے فرما دیا کہ تحریر کنندہ نے ڈاکٹر صاحب کی کتاب کو جنت کے ثبوت کے طور پہ پیش کیا ،اور دوسری طرف خود موصوف نے معجزات کو سہارا بنا کر اپنی بات میں وزن پیدا کیا ،
انسان کی نازک مزاجی کے سبب کو سائنسی ایجادات سے جوڑتے ہوئے اور سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں،اوزون ،مقناطیسی قوت اور زمین کی خوبصورتی کا بڑا دلکش منظر جیسا کہ ایک ایڈونچر ناول میں مصنف پیش کرتا ہے بلکل اس ہی طرز پہ موصوف نے بھی منظر کشی کرتے ہوئے زمین کے کالا پانی نا ہونے کا مضحکہ خیز فرمان جاری کردیا ،
موصوف نے ڈاکٹر ایلس سلورو کی کتاب سے اخذ کردہ تحریر کے بارے میں فرمایا ہے کہ" اس میں کوئی سائنسی دلیل نظر نہیں آئی البتہ بچکانہ دلائل موجود ہیں"،اس بارے میں مجھ جیسا حقیر ہی کیا ہر اہل علم خواتین و حضرات اگر موصوف کی " طالب علمانہ رائے" کا باغور جائزہ لیں تو اس میں کہیں بھی کوئی سائنسی دلیل نہیں ملے گی ہاں افسانہ سازی غلط بیانی اور مضحکہ خیزی ضرور مل جائے گی جس کی جھلک اپ نے دیکھ لی مزید آگے چل کر اور دیکھنے کو مل جائے گی ،
موصوف جانوروں کی بیماری کی دلیل میں جانوروں کے ڈاکٹر کے ہونے کو دلیل کے طور پہ پیش کرتے ہیں اور آگے دھوپ سے انسان کے متاثر ہونے کا سبب ایئر کنڈیشن کو بتاتے ہیں اور جانوروں میں جلدی امراض کو ثابت کرنے کے لئے جناب نے خارش زدہ کتے کی مثال بیان فرمائی ہے جسے موصوف کی "طالب علمانہ رائے" تو نہیں ہاں طنز و مزاح ضرور کہا جا سکتا ہے،
درجہ ء حرارت میں تبدیلی کے عمل کو شیر چیتے ریچھ کی مثال سے ثابت کرتے ہوئی مزید یہ کہ انسانی جینز کے بارے میں بھی بس مفروضات سے کام چلایا ہے کہیں بھی کسی سائنس جنرل یا کسی محقیق کا مستند حوالہ پیش کرنے کی زحمت نہیں فرمائی لیکن مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ موصوف کی "طالب علمانہ رائے" کے مطابق ڈاکٹر الیس سلور کی کتاب ایک مفروضہ ہے ،
موصوف نے آگے بھی کئی جگہ اپنی "طالب علمانہ رائے" دیتے ہوئے بچکانہ مضحکہ خیز دلائل پیش کئے ہیں جن کو طوالت کے سبب لکھنا ممکن نہیں ہے آخر میں موصوف نے از خود نتیجہ اخذ کرتے ہوئے بڑے زور دار انداز میں چارلس ڈارون کی تھیوری اف ایوولوشن نظریہ ارتقاء کو ایک مستند نظریہ ثابت کیا ہے،لیکن موصوف کو شاید یہ پتا نہیں کہ اس مضحکہ خیز نظریہ ارتقاء کا جنازہ یورپ میں کافی عرصہ پہلے ہی اٹھ چکا ہے اور اس کی جگہ "انٹلیجنٹ ڈیزائن کریشن" نے لے لی ہے ،
تحریر : محمد مکرم
سب سے پہلے موصوف کی "طالب علمانہ رائے" کے بارے میں مختصر عرض کر دوں کہ موصوف نے بڑے غیر محسوس انداز میں ڈارون صاحب کی مضحکہ خیز تھیوری جو کہ فقط تھیوری ہی ہے بلکہ یورپ میں کئی جگہ تو اسے دھتکار کر پھیکا بھی جا چکا ہے کا دفاع کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اور اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے جناب نے قرآنی آیات کا سہارا بھی لیا ہے تا کہ سادہ لوح مسلمان ان کے جھانسے میں باآسانی آسکیں موصوف نے اپنی بات کو مستحکم کرنے اور دوسروں پہ برتری لے جانے کے اندھے جنون میں پوری بات نہیں بتائی کہ الله نے قرآن میں یہ بھی فرمایا ہے کہ الله نےآدم و حوا علیہ سلام کو زمین پہ نازل فرمایا ہے،قرآن کا باغور مطالعہ کرنے سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ الله نے آدم و حوا علیہ سلام کو تخلیق فرما کر پہلے جنت میں ہی رکھا تھا بعد ازاں آدم و حوا علیہ سلام سے غلطی سرزد ہوئی جس کے سبب الله نے انھیں زمین پہ نازل فرمایا ،
موصوف نے ڈاکٹر ایلس سلور کی کتاب اور تحریر کنندہ پہ تنقید کرتے ہوئے لکھا "یہ بات صاف ظاہر ہے کہ کسی پاکستانی مسلمان نے ڈاکٹر ایلس سلور کی کتاب پڑھی اور اسے جنت کے ثبوت کے طور پر پیش کرنے کی ٹھان لی"،اس کے ساتھ ہی موصوف نے معجزے کا ذکر کرتے ہوئےخود بھی مذہبی سہارا حاصل کرنے کی کوشش کی ہے،ایک طرف تو جناب نے تحریر کنندہ پہ طنز کرتے ہوئے فرما دیا کہ تحریر کنندہ نے ڈاکٹر صاحب کی کتاب کو جنت کے ثبوت کے طور پہ پیش کیا ،اور دوسری طرف خود موصوف نے معجزات کو سہارا بنا کر اپنی بات میں وزن پیدا کیا ،
انسان کی نازک مزاجی کے سبب کو سائنسی ایجادات سے جوڑتے ہوئے اور سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں،اوزون ،مقناطیسی قوت اور زمین کی خوبصورتی کا بڑا دلکش منظر جیسا کہ ایک ایڈونچر ناول میں مصنف پیش کرتا ہے بلکل اس ہی طرز پہ موصوف نے بھی منظر کشی کرتے ہوئے زمین کے کالا پانی نا ہونے کا مضحکہ خیز فرمان جاری کردیا ،
موصوف نے ڈاکٹر ایلس سلورو کی کتاب سے اخذ کردہ تحریر کے بارے میں فرمایا ہے کہ" اس میں کوئی سائنسی دلیل نظر نہیں آئی البتہ بچکانہ دلائل موجود ہیں"،اس بارے میں مجھ جیسا حقیر ہی کیا ہر اہل علم خواتین و حضرات اگر موصوف کی " طالب علمانہ رائے" کا باغور جائزہ لیں تو اس میں کہیں بھی کوئی سائنسی دلیل نہیں ملے گی ہاں افسانہ سازی غلط بیانی اور مضحکہ خیزی ضرور مل جائے گی جس کی جھلک اپ نے دیکھ لی مزید آگے چل کر اور دیکھنے کو مل جائے گی ،
موصوف جانوروں کی بیماری کی دلیل میں جانوروں کے ڈاکٹر کے ہونے کو دلیل کے طور پہ پیش کرتے ہیں اور آگے دھوپ سے انسان کے متاثر ہونے کا سبب ایئر کنڈیشن کو بتاتے ہیں اور جانوروں میں جلدی امراض کو ثابت کرنے کے لئے جناب نے خارش زدہ کتے کی مثال بیان فرمائی ہے جسے موصوف کی "طالب علمانہ رائے" تو نہیں ہاں طنز و مزاح ضرور کہا جا سکتا ہے،
درجہ ء حرارت میں تبدیلی کے عمل کو شیر چیتے ریچھ کی مثال سے ثابت کرتے ہوئی مزید یہ کہ انسانی جینز کے بارے میں بھی بس مفروضات سے کام چلایا ہے کہیں بھی کسی سائنس جنرل یا کسی محقیق کا مستند حوالہ پیش کرنے کی زحمت نہیں فرمائی لیکن مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ موصوف کی "طالب علمانہ رائے" کے مطابق ڈاکٹر الیس سلور کی کتاب ایک مفروضہ ہے ،
موصوف نے آگے بھی کئی جگہ اپنی "طالب علمانہ رائے" دیتے ہوئے بچکانہ مضحکہ خیز دلائل پیش کئے ہیں جن کو طوالت کے سبب لکھنا ممکن نہیں ہے آخر میں موصوف نے از خود نتیجہ اخذ کرتے ہوئے بڑے زور دار انداز میں چارلس ڈارون کی تھیوری اف ایوولوشن نظریہ ارتقاء کو ایک مستند نظریہ ثابت کیا ہے،لیکن موصوف کو شاید یہ پتا نہیں کہ اس مضحکہ خیز نظریہ ارتقاء کا جنازہ یورپ میں کافی عرصہ پہلے ہی اٹھ چکا ہے اور اس کی جگہ "انٹلیجنٹ ڈیزائن کریشن" نے لے لی ہے ،