• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

ان عیسیٰ یاتی علیہ الفناء میں صیغہ ماضی کے نسخہ کی وضاحت

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
"حضرت عیسیٰ ؑ کی حیات کے بارے میں امام واحدی ؒ کی ایک عبارت پر شبہ اور اس کی تحقیق

حضور خاتم النبین ا کا جو مناظرہ عیسائیوں کے ساتھ ہوا تھا ا س میں بمطابق روایات مشہورہ عیسائیوں کے دعوی الوہیت مسیح کے ابطال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ان عیسیٰ یأتی علیہ الفنائ‘‘ مضارع کا صیغہ منقول ہے جیسے کہ دوسری مختلف روایات میں ینزل ، یموت ، یدفن وغیرہ مضارع کے صیغے استعمال ہوئے ہیں لیکن قادیانیوں نے وفات مسیح پر استدلال کرتے ہوئے ایک کتاب ’’اسباب النزول‘‘ ص ۵۳ تصنیف ابی الحسن علی ابن احمد الواحدی النیسا بوری ۴۶۸ھ مطبوعہ مکتبہ ومطبع البابی الحلبی ۱۳۷۹ھ ۱۹۵۹ء ایڈیشن اول سے ’’أتی علیہ الفنائ‘‘ کے الفاظ پیش کیے ہیں جس سے انہوں نے وفات مسیح پر استدلال کیا ہے۔

تحقیق طلب امر یہ ہے کہ کیا واقعتا کسی روایت میں ’’أتی علیہ الفنائ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں یا یہ کتابت اور نسخہ کی غلطی ہے؟ قادیانیوں کے پاس جو نسخہ موجود ہے ا س میں واقعی یہ لفظ موجود ہے۔ کیا جناب کے پاس اس کے علاوہ اسباب النزول کا کوئی نسخہ ہے؟ اگر ہے تو اس میں کیا الفاظ ہیں؟ اور اگر اسباب النزول کے تمام نسخوں میں یہی لفظ ہو تو جن روایات میں ’’یأتی علیہ الفنائ‘‘ کے الفاظ ہیں ان کا کیا مفہوم ہو گا نیز صاحب اسباب النزول نے اسی عبارت سے قبل لکھا ہے قال المفسرون جبکہ کسی مفسر کا حوالہ نہیں دیا ہے حالانکہ اکثر تفاسیر میں لفظ یأتی موجود ہے۔

جناب سے اس لفظ اتی کی مکمل تحقیق مطلوب ہے امید ہے اپنے محققانہ جواب سے جلد نوازیں گے۔

سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور آپ کے نزول من السماء کا عقیدہ اجماعی عقیدہ ہے اس بارے میں اتنی کثرت سے صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں کہ کوئی صاحب عقل سلیم ان کا انکار نہیں کر سکتا، ان احادیث کے پیش نظر پوری اُمت کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ضرور تشریف لائیں گے اور دنیا میں عدل و انصاف قائم فرما ئیں گے اس کے بعد ان کا انتقال ہو گا۔

امت مسلمہ کے اس مسلمہ اور اجماعی عقیدہ کے خلاف چند باطل احتمالات کی بناء پر کچھ لوگ مختلف طریقوں سے اس کا انکار کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن حضرات علماء کرام نے ان کمزور دلائل اور بے حقیقت اعتراضات کا محققانہ جواب دے کر مسئلہ کا ہر پہلو علمی انداز سے واضح کر دیا۔

سوال میں مذکور اسی قسم کا ایک اعتراض حیات مسیح علیہ السلام پر یہ کیا گیا کہ علامہ ابو الحسن علی بن احمد الواحدی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’ اسباب النزول‘‘ میں حضور ا کے وفدِ نجران کے ساتھ مناظرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے ’’أتی علیہ الفنائ‘‘ یعنی حضرت عیسی علیہ السلام وفات پا چکے ہیں اوران پر فنا آچکی ہے لیکن اسباب النزول کے دوسرے نسخہ اور علامہ واحدیؒ کے اس قول کے ماخذ کی طرف مراجعت سے بھی یہ بات یقینی طور پر معلوم ہو جاتی ہے کہ یہ لفظ صیغہ ماضی کے ساتھ نہیں بلکہ یہ لفظ ’’یاتی‘‘ بصیغہ مضارع ہی ہے یعنی عیسیٰ علیہ السلام پر فناء آئے گی(ابھی آئی نہیں)

چنانچہ اسباب النزول )مطبوعہ دار القبلۃ للثقافۃ الاسلامیۃ جدہ طبعہ الثانیہ ۱۴۰۴ھ ۱۹۸۷م( کے صفحہ ۹۱ پر مذکورہ بالا عبارت اس طرح مرقوم ہے۔

’’قال الستم تعملون ان ربنا حی لا یموت وان عیسیٰ یأتی علیہ الفناء الخ‘‘اس میں ’’یأتی‘‘ مضارع کا صیغہ ہے۔

اس کے علاوہ علامہ واحدی ؒ کے ’’قال المفسرون الخ‘‘ کہہ کر بیان کردہ شانِ نزول کا مأخذ ابن جریر طبریؒ وغیرہ کی وہ روایت ہے جو انہوں نے مندرجہ ذیل سند سے نقل کی ہے، اس میں بھی مضارع ہی کا لفظ ہے۔

حدثنی المثنی قال حدثنا اسحاق قال حدثنا ابن ابی جعفر عن ابیہ عن الربیع فی قولہ تعالیٰ … قال الستم تعملون ان ربنا حی لا یموت وان عیسیٰ یأتی علیہ الفناء ؟ قالوا بلیٰ )تفسیر طبری/ ۳ : ۱۶۳(

علامہ سیوطی رحمہ اللہ بھی ا س روایت کو بحوالہ ابن جریرؒ وابن ابی حاتم ؒ مضارع ہی کے لفظ سے نقل فرماتے ہیں۔
اخرج ابن جریر وابن ابی حاتم عن الربیع… قال الستم تعملون ان ربنا حی لا یموت وان عیسیٰ یأتی علیہ الفنائ؟ قالوا بلیٰ )درمنثور/۲ : ۳(

ابن تیمیہ ؒ بھی اسی حدیث کو بحوالہ ابن جریر طبریؒ صیغہ مضارع ہی سے نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔

محمد بن جریر الطبری قال حدثنا المثنیٰ ، حدثنا اسحاق، حدثنا ابن ابی جعفر یعنی عبداللّٰہ بن ابی جعفر الرازی عن ابیہ عن الربیع… قال الستم تعملون ان ربنا حی لا یموت وان عیسیٰ یأتی علیہ الفناء ؟ قالوا بلیٰ )الجواب الصحیح لم بدل دین المسیح/ ۱ : ۵۹(

حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ بھی ابن جریرؒ وابن بی حاتمؒ کی مندرجہ بالا حدیث بحوالہ ٔ درمنثور صیغہ مضارع ہی سے نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔

قال الستم تعلمون ان ربنا حی لا یموت وان عیسیٰ یأتی علیہ الفناء ؟ قالوا بلیٰ )التصریح بماتواتر فی نزول المسیح/ ص ۲۳۶ ۔ ۲۳۷(

نیز سوال میں ’’اسباب النزول‘‘ کے جس نسخہ کا حوالہ دیا گیا ہے اس میں کتابت کی بہت سی اغلاط پائی جاتی ہیں، چنانچہ ’’اسباب النزول‘‘ )مطبوعہ دارالقبلۃ للثقافۃ الاسلامیۃ جدہ ۱۴۰۴ھ( کے محقق سید احمد صقر صفحہ ۳۴ سے صفحہ ۳۷ تک متعدد اغلاط کی نشاندہی کرنے کے بعد اس نسخہ کے بارے میں ان الفاظ سے اظہار خیال کرتے ہیں۔

فھذہ امثلۃ لما فی الطبعۃ الاولیٰ من أخطاء فاحشۃ وأغلاط شنیعۃ وقعت فی سائر صفحات الکتاب کما وقع فیھا نقص جمل و کلمات وصفحات ومن ذالک النقص الذی بدأ اکمالہ فی صفحۃ ۴۵۸ من طبعتی ھذہ و انتھی فی اوائل صفحۃ ۴۶۱ وکل ھذا موجود فی طبعۃ ’’الحلبی‘‘ فوق ما احدثتہ من تطبیع ومنہ یتبین انہ لاوزن لھما علی الاطلاق )ص :۳۷(


خلا صہ یہ کہ ’’اسباب النزول ‘‘کے معتمد نسخہ اور حد یث و تفسیر کے مند رجہ بالا ماٰخذ سے یہ با ت و ا ضح طور پر معلو م ہو جاتی ہے کہ صحیح لفظ ’’ یأتی‘‘ بصیغہ مضارع ہی ہے ۔ اور’’ اسبا ب النزول‘‘کے جس نسخہ میں’’أتی‘‘بصیغہ ماضی لکھا گیا ہے وہ کتا بت کی غلطی ہے ، کیو نکہ صیغہ ما ضی کی اگر کچھ اصل ہو تی ہے تو حد یث و تفسیر کی دیگر کتا بوں میں کہیں تو ,,أتی ،، بصیغہ ٔما ضی ہو تا مگر تلا ش بِسیا ر کے با وجود کہیں بھی’’أتی‘‘ بصیغہ ٔ ما ضی نظرسے نہیں گزرا لہٰذا صحیح لفظ ,,یا تی ،، بصیغہ ٔ مضا رع ہی ہے۔

اگر بالفر ض صیغہ ٔ ما ضی کو درست بھی تصور کر لیا جا ئے تب بھی اس قول سے حضرت عیسٰی علیہ السلا م کی وفا ت پر استدلا ل کرنا درست نہیں ، کیو نکہ ہو سکتا ہے کہ آ پ صلی اﷲعلیہ وسلم نے وفد نجر ا ن کے سا تھ مناظرہ کے دوران عیسا ئیو ں کے فا سد نظر یہ )الوہیتِ مسیح علیہ السلام ( کی تردید کر تے ہو ئے انہی کے دو سرے فاسد نظریہ )وفا ت مسیح علیہ السلام ( کو بطور الزام وحجت ذکر فرما یا ہو جس سے یہ بتلا نا مقصود نہیں کہ وا قعتہ ً عیسٰی علیہ السلا م کی وفا ت ہوچکی ہے بلکہ عیسا ئیو ں کو انکے غلط عقیدہ کی رو سے الزامی جو ا ب دیکر حجت قا ئم کرنا اور ان کے خو د ساختہ عقا ئد کی تضا د بیا نی وا ضح کرنا مقصود ہے کیو نکہ عیسا ئی وفا ت مسیح )علیہ السلام( کے قا ئل تھے تو عیسی علیہ السلام کی ربو بیت کی نفی کے لئے انہی کے عقیدہ کو ان پر بطور حجت پیش کیا گیا ۔ کہ ایک طرف تم عیسٰی علیہ السلام پر فنا طا ری ہو جا نے کا عقیدہ رکھتے ہو اور دوسری طرف انکو خدا ما نتے ہو تمہا رے بقول جب ان پر فنا طا ری ہو گئی تو وہ خدا کیسے ہو سکتے ہیں ، چنا نچہ اس معنی کی تا ئید محمد بن جعفر بن الزبیر ؒکی بیان کردہ تفسیر سے ہوتی ہے۔

واحتجاجا علیھم بقولھم فی صاحبھم لیعرفھم بذالک ضلالتھم فقال الم اللّٰہ لا الہ الا ھو الحی القیوم ای لیس معہ غیرہ شریک فی امرہ الحی الذی لا یموت وقد مات عیسیٰ فی قولھم )درمنثور/۳۰۲، سیرۃ ابن ھشام/ ۱:۵۷۶(

اور صیغہ ماضی کو درست ماننے کی صورت میں علامہ واحدی ؒ کے قول کو اس معنیٰ پر محمول کرنا ضروری بھی ہے کیونکہ علامہ واحدیؒ اپنی تفسیر میں نہایت وضاحت کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و نزول کے عقیدہ کی تصریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔

قال رسول اللّٰہ ا والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکما مقسطا فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویفیض المال حتی لا یقبلہ احد )الوسیط للواحدی/۱:۴۴۱۔۴۴۲(


وفی الوجیز لہ: )اذ قال اللّٰہ یعیسی انی متوفیک( ای قابضک من غیر موت موافیا الی تاما ای لم ینالوا منک شیئا )الوجیز علی ھامش مراح لبید / ۱ : ۱۰۰(

تو خود علامہ واحدیؒ کی تصریح کے ہوتے ہوئے ان کی مراد کے برخلاف ایک غیر یقینی لفظ سے عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر استدلال کرنا درست نہیں اور واضح نصوص کے ہوتے ہوئے کسی طرح قابلِ قبول بھی نہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ علماء امت کی تصریحات کے مطابق عقیدہ کے اثبات کیلئے دلیل کا قطعی اور یقینی ہونا شرط ہے اور مذکورہ بالا روایت قطعی اور یقینی تو کجا اس کے درجہ صحت و ثبوت تک پہنچنے میں بھی تردد ہے لہٰذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور ان کے نزول من السماء کے عقیدہ پر مشہور متواتر احادیث کے مقابلہ میں اس کمزور روایت کی کوئی حیثیت نہیں۔

چنانچہ اس روایت کے راویوں کے بارے میں محدثین کے اقوال ملاحظہ ہوں۔

اس حدیث کے پہلے راوی)مثنی بن ابراھیم الاملی(اوردوسرے راوی)ابو یعقوب اسحاق بن الحجاج الطاحونی المقری( کے متعلق محدثین کی جرح و تعدیل اسماء الرجال کی مشہور و متداول کتب میں نہیں مل سکی۔

اس حدیث کے تیسرے راوی)عبداللہ بن ابی جعفر( کی اگرچہ بعض محدثین نے توثیق کی ہے مگر ان کے متعلق محمد بن حمیدؒ فرماتے ہیں۔

کان فاسقا سمعت منہ عشرۃ الاف حدیث فرمیت بھا )تہذیب التھذیب / ۵ :۱۷۷(

امام ساجیؒ فرماتے ہیں:

فیہ ضعف )حوالہ بالا(

نیز عبداللہ بن ابی جعفر کو جلیل القدر صحابی رسول حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی شان اقدس میں ارتکاب گستاخی کی بناء پر محدثین کے ہاں مردود الروایہ قرار دیا گیا ہے۔

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ورایت فی نسخۃ معتمدۃ من کامل ابن عدی انا الحسن بن سفیان ثنا عبدالعزیز بن سلام سمعت محمد بن حمید یقول قال عبداللہ بن ابی جعفر کان عمار بن یاسر فاسقا)تھذیب التھذیب /۵ :۱۷۷، الکامل فی الضعفاء / ۴: ۱۵۳۲(

ابنِ حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

یعتبر حدیثہ من غیر روایتہ عن ابیہ )کتاب التقات / ۸:۳۳۵(


اس روایت کے چوتھے راوی )ابو جعفر عیسیٰ بن ماہان ( کو اگرچہ بعض محدثین نے ثقہ کہا ہے لیکن امام ابنِ عدیؒ نے ان کو ضعفاء میں شمار کیا ہے اور امام نسائی ؒ فرماتے ہیں:۔

ابو جعفر الرازی لیس بثقۃ )الکامل فی الضعفاء / ۵: ۱۸۹۴(


اس حدیث کے پانچویں راوی )ربیع بن انس( کے بارے میں ابن حبان ؒ فرماتے ہیں:

والناس یتقون حدیثہ ما کان من روایۃ ابی جعفر عنہ لانہ فیہ اضطراب کثیر

)کتاب الثقات / ۴ : ۲۲۸(

حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:

صدوق لہ اوھام)ھامش السابق والاحق/ ص :۱۳۵(

اور ربیع بن انس تابعی ہیں جنہوں نے بذات خود آنحضرت ا کو دیکھا نہ آپ ا سے کوئی حدیث سنی، اس قسم کی حدیث اصولِ حدیث کی اصطلاح میں مرسل کہلاتی ہے، تو مشہور و متواتر احادیث کے مقابلہ میں ایک کمزور اور مرسل روایت کیسے حجت ہو سکتی ہے؟"
 
Top