• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

اِمامین حدیث بخاری رحمتہ اللہ علیہ ومسلم رحمتہ اللہ علیہ کا امام مہدی کے متعلق احادیث ذکر نہ کرنا ۔

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اِمامین حدیث بخاری رحمتہ اللہ علیہ ومسلم رحمتہ اللہ علیہ کا امام مہدی کے متعلق احادیث ذکر نہ کرنا ۔



اکثر منکرین امام مہدی کی طرف سے یہ اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ چونکہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب یعنی صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ایسی کوئی روایت زکر نہیں کی جس میں " مہدی " کا ذکر ہوا لہذا ثابت ہوا کہ یہ روایات ضعیف ہیں ورنہ یہ دونوں امام ضرور ان روایات کو ذکر کرتے ، بلکل اسی طرح مرزا غلام قادیانی نے بھی اپنی ایک کتاب میں یوں لکھا کہ " میں کہتا ہوں کہ مہدی کی خبریں ضعف سے خالی نہیں ہیں اسی وجہ سے اِمامین حدیث نے انکو نہیں لیا " ( روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 406 )

اس اعتراض کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ کے کسی حدیث کو اپنی کتابوں میں ذکر نہ کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ حدیث ضعیف ہے ، کیونکہ ان دونوں ائمہ نے کہیں بھی ایسا دعویٰ نہیں کیا کہ ہم نے ساری صحیح احادیث اپنی کتابوں میں نقل کر دی ہیں اور جو احادیث ہم نے ذکر نہیں کیں وہ صحیح نہیں ہیں ، بلکہ اُن سے اس کے برعکس منقول ہے ، امام ابو عمرو عثمان بن عبدالرحمن رحمتہ اللہ علیہ جو کہ ابن الصلاح کے نام سے مشہور ہیں لکھتے ہیں

" لَمْ يَسْتَوْعِبَا الصَّحِيحَ فِي صَحِيحَيْهِمَا، وَلَا الْتَزَمَا ذَلِكَ. فَقَدْ رُوِّينَا عَنِ الْبُخَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ: " مَا أَدْخَلْتُ فِي كِتَابِي (الْجَامِعِ) إِلَّا مَا صَحَّ، وَتَرَكْتُ مِنَ الصِّحَاحِ لِحَالِ الطُّولِ ، وَرُوِّينَا عَنْ مُسْلِمٍ أَنَّهُ قَالَ: " لَيْسَ كُلُّ شَيْءٍ عِنْدِي صَحِيحٌ وَضَعْتُهُ هَاهُنَا - يَعْنِي فِي كِتَابِهِ الصَّحِيحِ "
ایسی بات نہیں کہ ان دونوں ( بخاری و مسلم ) نے تمام کی تمام صحیح احادیث اپنی صحیحین میں لکھ دی ہیں اور نہ ہی ان دونوں نے ایسا کوئی التزام کیا ہے ، ہمیں بخاری رحمتہ اللہ علیہ سے روایت پہنچی ہے کہ آپ نے خود فرمایا کہ " میں نے اپنی کتاب میں صرف وہی چیز داخل کی ہے جو صحیح ہے ، جبکہ میں نے بہت سی صحیح احادیث طوالت کے خوف سے ترک کر دی ہیں " ( یعنی اپنی کتاب میں نقل نہیں کی ) ، اسی طرح ہمیں امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ نے فرمایا " ایسی بات نہیں ہے کہ میں نے ہر وہ حدیث جو میرے نزدیک صحیح ہے اسے اپنی کتاب میں رکھ دیا ہے " ( مقدمة ابن الصلاح ، صفحہ 20،19 )

شارح صحیح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں

" وروى الْإِسْمَاعِيلِيّ عَنهُ قَالَ لم أخرج فِي هَذَا الْكتاب الا صَحِيحا وَمَا تركت من الصَّحِيح أَكثر قَالَ الْإِسْمَاعِيلِيّ لِأَنَّهُ لَو أخرج كل صَحِيح عِنْده لجمع فِي الْبَاب الْوَاحِد حَدِيث جمَاعَة من الصَّحَابَة وَلذكر طَرِيق كل وَاحِد مِنْهُم إِذا صحت فَيصير كتابا كَبِيرا جدا "
اسماعیلی نے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ امام نے فرمایا " میں اِس کتاب ( یعنی صحیح بخاری ) میں وہی روایت ذکر کی ہے جو صحیح ہے ، اور جو صحیح روایات میں نے ترک کر دی ہیں ( یعنی اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیں ) وہ اس سے بھی زیادہ ہیں ، اسماعیلی کہتے ہیں کہ اگر امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ وہ تمام روایات نقل کرتے جو ان کے نزدیک صحیح ہیں تو آپ کو ہر ایک باب میں صحابہ رضی اللہ عنھم کی ایک جماعت کی احادیث ان کی اسناد کے ساتھ ذکر کرنا پڑتیں اس طرح یہ ایک بہت بڑی کتاب بن جاتی ۔ ( فتح الباري لابن حجر جلد 1 صفحہ 7 )

شارح صحیح مسلم ، امام نووی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں

" فانهما لم يلتزما استيعاب الصحيح بل صح عنهما تصريحهما بأنهما لم يستوعباه وانما قصدا جمع جمل من الصحيح كما يقصد المصنف في الفقه جمع جملة من مسائله لا أنه يحصر جميع مسائله "
ان دونوں ( بخاری و مسلم ) نے تمام صحیح احادیث کو ( اپنی کتابوں میں ) جمع کرنے کا التزام نہیں کیا ، بلکہ ان دونوں نے خود اس کی تصریح کی ہے کہ ایسی بات نہیں کہ انہوں نے تمام صحیح احادیث نقل کر دی ہیں ، بلکہ ان کا قصد یہ تھا کہ صحیح ( احادیث ) میں کچھ جمع کر دی جائیں ، جیسے اگر فقہ کے مسائل کی کوئی کتاب لکھتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کتاب میں فقہ کے تمام مسائل لکھے ہیں ۔ ( شرح النووي على مسلم ، جلد 1 صفحہ 24 )
لہذا یہ کہنا ہے کہ جو احادیث صحیح بخاری و صحیح مسلم میں نہیں وہ صحیح او حجت نہیں ایک من گھڑت قانون ہے ، علم حدیث کی کسی کتاب میں صحیح حدیث کی تعریف میں یہ اصول نہیں لکھا ، حقیقت یہ ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کے علاوہ دوسری کتب حدیث میں ایسی صحیح احادیث کی بہت بڑی تعداد مروی ہے جو امام بخاری و مسلم نے اپنی کتابوں میں ذکر نہیں کیں ۔ بلکہ محدثین نے تو خاص امامین بخاری و مسلم کی شرط کے مطابق ایسی احادیث جمع کر دی ہیں جو ان دونوں اماموں نے اپنی کتابوں میں ذکر نہیں کیں مثلاََ امام حاکم کی " المستدرک علی الصحیحین " ایسی ہی احادیث پر مشتمل ہے اور علاوہ ازیں امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کا نام یہ رکھا ہے " الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه " اس نام کے اندر " مختصر " کا لفظ خود بتا رہا ہے کہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اختصار سے کام لیا ہے اور تمام صحیح احادیث کا احاطہ نہیں کیا ( یہاں کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ " الجامع " کے لفظ سے یہ مراد ہو سکتا ہے کہ اس میں تمام صحیح احادیث کو جمع کر دیا گیا ہے ، کیونکہ " جامع " احادیث کے اُس مجموعے یا کتاب کو کہا جاتا ہے جو ابواب کی صورت میں مرتب ہو اور اس میں آٹھ معروف ابواب عقائد ، احکام ، سِیَر ، آداب ، تفسیر ، فتن ، علامات قیامت اور مناقب کی احادیث موجود ہوں )۔
دوسرا یہ کہ صحیح بخاری و صحیح میں ایسی احادیث موجود ہیں جن کے اندر اشارتاََ حضرت مہدی علیہ الرضوان کا ذکر موجود ہے مثال کے طور پر
" عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قال : قال رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا اَنْزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمَ " ( متفق علیہ ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس وقت تمہارا ( مارے خوشی کے ) کیا ہوگا جب مریم کے بیٹے ( عیسیٰ علیہ اسلام ) تم میں نازل ہوں گے اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا
اہل سنت کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے نزول کے وقت مسلمانوں کے جس امام کا ذکر اس حدیث شریف میں ہے وہ امام مہدی علیہ الرضوان ہوں گے جیسا کہ صحیح مسلم کی اس حدیث میں بیان ہے

"عَنْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»، قَالَ: " فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ: تَعَالَ صَلِّ لَنَا، فَيَقُولُ: لَا، إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أُمَرَاءُ تَكْرِمَةَ اللهِ هَذِهِ الْأُمَّةَ "
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے ایک گروہ ایسا ہوگا جو قیامت تک حق کے لئیے لڑتا رہے گا ، پھر مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو اس گروہ کا امیر عیسیٰ علیہ اسلام سے کہے گا آیئے ہماری امامت کروائیے ، عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے نہیں ( تم ہی امامت کرواؤ) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر امیر بنایا ہے ، اور یہ اللہ کی طرف سے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئیے خاص اعزاز ہے ۔ ( صحیح مسلم ، حدیث 247 )
حافظ ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ نے یہی الفاظ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیئے ہیں ، لیکن ان کی روایت میں " فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ " کی جگہ " فَيَقُولُ أَمِيرُهُمُ الْمَهْدِيُّ " کے الفاظ ہیں یعنی اس جماعت کے امیر مہدی ہوں گے جو یہ فرمائیں گے ( حافظ ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی سند کو " جید " لکھا ہے )۔ ( المنار المنيف في الصحيح والضعيف ، صفحہ 147 )

صحیح بخاری کی حدیث میں جو ذکر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت مسلمانوں کا انہی میں سے ایک امام ہوگا ، اور صحیح مسلم کی حدیث میں حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کا نزول کے بعد پہلی نماز مسلمانوں کے جس امام کی اقتداء میں ادا کرنے کا ذکر ہے علماء اسلام نے اس سے مراد حضرت مہدی علیہ الرضوان ہی لیے ہیں ۔ نیز المنار المنیف میں تو صاف طور پر حدیث کے اندر " امامھم المھدی " کے الفاظ ہیں ، لہذا " مہدی " کے لفظ کے ساتھ نہ سہی لیکن صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ایسی احادیث موجود ہیں جن کے اندر اشارتاََ آپ مہدی علیہ الرضوان کا ذکر موجود ہے ۔

اور آخری بات جہاں تک مرزا غلام قادیانی کے اس اعتراض کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ مرزا قادیانی کے اصول حدیث تو حسب ضرورت بدلتے رہتے ہیں ۔ کہیں اس نے صحیح مسلم کی ایسی حدیث جو اس کے دعووں کو غلط ثابت کرتی تھی ضعیف ثابت کرنے کے لئے یہ جھوٹ بولا کہ " اس حدیث کو امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے ضعیف سمجھ کر چھوڑ دیا ہے" ( خزائن جلد 3 صفحات 210،209 ) ، جبکہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے کہیں نہیں یہ فرمایا کہ میں نے اپنی کتاب میں یہ حدیث اس لئے ذکر نہیں کی کہ میرے نزدیک یہ ضعیف ہے ۔

الغرض مرزا قادیانی کی اس بات سے ایک قادیانی اصول حدیث یہ ثاب ہوا کہ جو حدیث امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں ذکر نہ کی ہو وہ اس کے نزدیک ضعیف اور نا قابل قبول ہے ، اسی طرح کسی حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا ایک اور قادیانی اصول ملاخط فرمائیں ۔
" خدا نے مجھے اطلاع دی ہے کہ یہ تمام حدیثیں جو پیش کرتے ہیں ( یعنی جو مسلمان مرزا قادیانی کے دعووں کو غلط ثابت کرنے کے لئیے پیش کرتے ہیں ۔ ناقل ) تحریف معنوی یا لفظی میں آلودہ ہیں اور یا سرے سے موضوع ہیں اور جو شخص حَکم ہو کر آیا ہے ( یہ مرزا قادیانی اپنی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔ناقل )اُس کا اختیار ہے کہ حدیثیوں کے ذخیرے میں سے جس انبار کو چاہے خدا سے علم پاکر قبول کرے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پاکر رد کر دے " ( خزائن جلد 17 صفحہ 51 حاشیہ )
" خدا نے مجھے بتلا دیا ہے کہ فلاں حدیث سچی ہے اور فلاں جھوٹی " ( خزائن جلد 17 صفحہ 454 )
ان تحریروں سے مرزا قادیانی کا اصول یہ نکلا کہ جس حدیث کو مرزا قادیانی صحیح کہے وہ صحیح ۔ اور جسے مرزا ضعیف کہے وہ ضعیف کیونکہ اسے اس کے خدا نے صحیح اور ضعیف حدیثوں کے بارے میں بتلا دیا ہے ، لہذا جماعت قادیانیہ کا کسی حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے پر مسلمانوں کے اصول حدیث سے استدلال کرنا دراصل مرزا کے اصول سے انحراف ہے ۔

( اقتباس کتاب : تعارف حضرت مہدی علیہ الرضوان اور مرزا قادیانی کے دعویٰ مہدویت کی حقیقت از حافظ عبید اللہ )
 
Top