ابوبکر آزاد
رکن ختم نبوت فورم
( ایک کڑوی سچائی )
جارج کی عمر ۵۰ سال سے کچھ زیادہ ہے۔ وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ واشنگٹن میں رہتا ہے۔
عید الاضحٰی قریب آ رہی تھی۔
جارج اور اسکے گھر والے ٹی وی، ریڈیو اور
انٹرنیٹ پر دیکھ رہے تھے کہ عید کس تاریخ کو ہو گی۔
بچے روز اسلامی ویب سائٹس پر چیک کر رہے تھے۔
سب کو عید کا بےصبری سے انتظار تھا۔
جیسے ہی ذوالحجہ شروع ہوا،
ان لوگوں نے عید کی تیاریاں شروع کر دیں۔
گھر کے قریب ہی ایک فارم ہاؤس تھا۔ وہاں سے ایک بھیڑ خریدی، جسکے چناؤ میں انھوں نے تمام اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھا۔
بھیڑ کو گاڑی میں رکھا اور گھر کی راہ لی۔
بچوں کا خوشی کے مارے کوئی ٹھکانا نہ تھا۔
جارج کی بیوی، کیتھی نے گھر پہنچ کر اسکو بتایا کہ وہ
اس بھیڑ کے تین حصے کریں گے۔
ایک حصہ غریبوں میں بانٹ دیں گے،
ایک حصہ اپنے ہمسائیوں ڈیوڈ، لیزا، اور مارک کو بھیج دیں گے اور
ایک حصہ اپنے استعمال کے لئے رکھیں گے۔
یہ تمام معلومات اسے اسلامی ویب سائٹس سے ملی تھیں۔
کتنے دن کے انتظار کے بعد عید کے دن آ ہی گیا۔
بچے خوشی خوشی صبح سویرے جاگے اور تیار ہو گئے۔
اب بھیڑ کو ذبح کرنے کا مرحلہ آیا۔
انھیں قبلہ کی سمت کا نہیں پتہ تھا لیکن اندازاٴ
مکہ کی طرف رخ کر کے جارج نے بھیڑ ذبح کر لی۔
کیتھی گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کر رہی تھی کہ
اچانک جارج کی نظر گھڑی پر پڑی۔
وہ کیتھی کی طرف منہ کر کے چلایا
”ہم چرچ کے لئے لیٹ ہو گئے۔ آج سنڈے ہے اور چرچ جانا تھا۔”
جارج ہر اتوار باقائدگی سے اپنے بیوی بچوں کیساتھ چرچ جاتا تھا لیکن
آج عید کے کاموں کی وجہ سے چرچ کا ٹائم نکل گیا۔
یہاں تک بول کر میں چپ ہو گیا۔
ہال میں سب بہت غور سے میری بات سن رہے تھے۔
میرہے خاموش ہونے پر ایک بندہ بول اٹھا
”آپ نے ہمیں کنفیوز کر دیا ہے۔
جارج مسلمان ہے یا کرسچن؟”
میں نے جواب دیا:
”جارج کرسچن ہے۔”
یہ سن کر ہال میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔
آخر ایک شخص کہنے لگا:
”یار ! وہ کرسچن کیسے ہوسکتا ہے؟
اگر وہ کرسچن ہوتا تو مسلمانوں کا تہوار اتنے
جوش اور عقیدت سے کیوں مناتا؟
عید کی تاریخ کا خیال رکھنا،
پیسہ خرچ کر کے بھیڑ خریدنا،
اسے اسلامی طریقے پر ذبح کرنا؟
” میں یہ سن کر مسکرایا اور بولا:
میرے پیارے بھائیو!
یہ کہانی آپکو اتنی ناقابل یقین کیوں لگ رہی ہے؟
آپکو یقین کیوں نہیں آ رھا کہ
ایسی کرسچن فیملی موجود ہو سکتی ہے؟
کیا ہم مسلمانوں میں سے کبھی کوئی عبداللہ، کوئی خالد، کوئی خدیجہ، کوئی فاطمہ نہیں دیکھی
جو کرسچن کے تہوار مناتے ہوں؟
اپنے مسلمان بہن بھائیوں کو نیو ائیر، ویلنٹائن، ہالووین، برتھ ڈیز
وغیرہ مناتے نہیں دیکھا؟
اگر وہ سب حیران کن نہیں تو یہ بات آپکو حیران کیوں کر رہی ہے
کہ غیر مسلم ہمارے تہوار منائیں؟
جارج کا کرسچن ہو کر عید منانا ہمیں عجیب لگ رہا ہے
لیکن مسلمان تمام غیر اسلامی تہواروں میں بڑھ چڑھ کر
حصہ لیں تو کسی کو عجیب نہیں لگتا۔
بخدا! میں دس سال امریکہ میں رہا۔
کبھی کسی یہودی یا عیسائی کو
مسلمانوں کا تہوار مناتے نہیں دیکھا،
لیکن جب میں واپس اپنے مسلمان ملک آیا تو
مسلمانوں کو انکے تہوار بیت جوش و خروش سے مناتے دیکھا۔
ہال میں سب خاموش تھے۔
کیا یہ بات ایک کڑوی سچائی نہیں ؟؟؟
جارج کی عمر ۵۰ سال سے کچھ زیادہ ہے۔ وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ واشنگٹن میں رہتا ہے۔
عید الاضحٰی قریب آ رہی تھی۔
جارج اور اسکے گھر والے ٹی وی، ریڈیو اور
انٹرنیٹ پر دیکھ رہے تھے کہ عید کس تاریخ کو ہو گی۔
بچے روز اسلامی ویب سائٹس پر چیک کر رہے تھے۔
سب کو عید کا بےصبری سے انتظار تھا۔
جیسے ہی ذوالحجہ شروع ہوا،
ان لوگوں نے عید کی تیاریاں شروع کر دیں۔
گھر کے قریب ہی ایک فارم ہاؤس تھا۔ وہاں سے ایک بھیڑ خریدی، جسکے چناؤ میں انھوں نے تمام اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھا۔
بھیڑ کو گاڑی میں رکھا اور گھر کی راہ لی۔
بچوں کا خوشی کے مارے کوئی ٹھکانا نہ تھا۔
جارج کی بیوی، کیتھی نے گھر پہنچ کر اسکو بتایا کہ وہ
اس بھیڑ کے تین حصے کریں گے۔
ایک حصہ غریبوں میں بانٹ دیں گے،
ایک حصہ اپنے ہمسائیوں ڈیوڈ، لیزا، اور مارک کو بھیج دیں گے اور
ایک حصہ اپنے استعمال کے لئے رکھیں گے۔
یہ تمام معلومات اسے اسلامی ویب سائٹس سے ملی تھیں۔
کتنے دن کے انتظار کے بعد عید کے دن آ ہی گیا۔
بچے خوشی خوشی صبح سویرے جاگے اور تیار ہو گئے۔
اب بھیڑ کو ذبح کرنے کا مرحلہ آیا۔
انھیں قبلہ کی سمت کا نہیں پتہ تھا لیکن اندازاٴ
مکہ کی طرف رخ کر کے جارج نے بھیڑ ذبح کر لی۔
کیتھی گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کر رہی تھی کہ
اچانک جارج کی نظر گھڑی پر پڑی۔
وہ کیتھی کی طرف منہ کر کے چلایا
”ہم چرچ کے لئے لیٹ ہو گئے۔ آج سنڈے ہے اور چرچ جانا تھا۔”
جارج ہر اتوار باقائدگی سے اپنے بیوی بچوں کیساتھ چرچ جاتا تھا لیکن
آج عید کے کاموں کی وجہ سے چرچ کا ٹائم نکل گیا۔
یہاں تک بول کر میں چپ ہو گیا۔
ہال میں سب بہت غور سے میری بات سن رہے تھے۔
میرہے خاموش ہونے پر ایک بندہ بول اٹھا
”آپ نے ہمیں کنفیوز کر دیا ہے۔
جارج مسلمان ہے یا کرسچن؟”
میں نے جواب دیا:
”جارج کرسچن ہے۔”
یہ سن کر ہال میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔
آخر ایک شخص کہنے لگا:
”یار ! وہ کرسچن کیسے ہوسکتا ہے؟
اگر وہ کرسچن ہوتا تو مسلمانوں کا تہوار اتنے
جوش اور عقیدت سے کیوں مناتا؟
عید کی تاریخ کا خیال رکھنا،
پیسہ خرچ کر کے بھیڑ خریدنا،
اسے اسلامی طریقے پر ذبح کرنا؟
” میں یہ سن کر مسکرایا اور بولا:
میرے پیارے بھائیو!
یہ کہانی آپکو اتنی ناقابل یقین کیوں لگ رہی ہے؟
آپکو یقین کیوں نہیں آ رھا کہ
ایسی کرسچن فیملی موجود ہو سکتی ہے؟
کیا ہم مسلمانوں میں سے کبھی کوئی عبداللہ، کوئی خالد، کوئی خدیجہ، کوئی فاطمہ نہیں دیکھی
جو کرسچن کے تہوار مناتے ہوں؟
اپنے مسلمان بہن بھائیوں کو نیو ائیر، ویلنٹائن، ہالووین، برتھ ڈیز
وغیرہ مناتے نہیں دیکھا؟
اگر وہ سب حیران کن نہیں تو یہ بات آپکو حیران کیوں کر رہی ہے
کہ غیر مسلم ہمارے تہوار منائیں؟
جارج کا کرسچن ہو کر عید منانا ہمیں عجیب لگ رہا ہے
لیکن مسلمان تمام غیر اسلامی تہواروں میں بڑھ چڑھ کر
حصہ لیں تو کسی کو عجیب نہیں لگتا۔
بخدا! میں دس سال امریکہ میں رہا۔
کبھی کسی یہودی یا عیسائی کو
مسلمانوں کا تہوار مناتے نہیں دیکھا،
لیکن جب میں واپس اپنے مسلمان ملک آیا تو
مسلمانوں کو انکے تہوار بیت جوش و خروش سے مناتے دیکھا۔
ہال میں سب خاموش تھے۔
کیا یہ بات ایک کڑوی سچائی نہیں ؟؟؟