محمد زاھد
رکن ختم نبوت فورم
اعوذ بالله من الشیطان الرجیم
بسم الله الرحمن الرحیم
اللھم صل علٰی محمد و علٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم و علٰی آل ابراھیم انک حمید مجید ۔
اللھم بارک علٰی محمد و علٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم و علٰی آل ابراھیم انک حمید مجید
اہل بیت
اہل بیت میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج مطہرات، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا، آپ کے چچا زاد اور دامادحضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے صاحبزادے حضرت امام امام حسن رضی اللہ عنہ اورحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شامل ہیں
ام المومنین ام سلمہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم نے علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین کو جمع فرما کر ان کو اپنی چادر میں لے لیا اور فرمایا: پروردگار! یہ میرے اہلبیت ہیں۔
(طبرانی؛ العجم الکبیر ج 3 - طبری جامع البیان فی تفسیر القراآن ج 22
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا : حسن اور حسین جننتی جوانوںکے سردار ہیں ۔
( حاکم ؛ امستدرک ج 3 - سیوطی ؛ الدرالمنثور )
بہت سارے علماء امت نے اہل بیت کی شان میں کتب لکھی ہیں جن میں قابل ذکر
حضرت امام احمد بن حنبل
المانقب
حضرت امام نسائ
الخصائص
حضرت ابو نعیم اصفہانی
منقبتہ المطھرین
حضرت امام ابی الحسن علی
جواہرالعقدین
علامہ محب طبری
ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القبری
علامہ نور دین ابن صباغ مالکی
الفصول المہیہ فی معرفتہ الآئمہ
بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ فرمایا کرتے تھے
اے مسلمانوں نبی کریم کے اہل بیت کے معاملے میں آنحضرت ۖ کا لحاظ ملحوظ رکھا کرو
شفاء مصنفہ قاضی ایاز میں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ کو احترام سے کندھوں پر اٹھایا کرتے تھے
رسولؐ اللہ کو حضرت حسینؓ سے بے حد پیار تھا۔
صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے ایک بار رسولؐ اللہ سیاہ رنگ کی بالوں سے بنی ہوئی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ حسنؓ آئے تو انہیں چادر میں داخل فرما لیا پھر حسینؓ آئے تو انہیں چادر میں داخل فرما لیا پھر فاطمہؓ آئیں تو انہیں چادر میں داخل فرما لیا پھر علیؓ آئے تو انہیں چادر میں داخل فرمایا پھر فرمایا: ’’اللہ یہی ارادہ فرماتا ہے کہ تم سے پلیدی کو دور رکھے اے اہلبیت اور تم کو خوب پاک فرمائے۔‘‘ اسی حدیث مبارک سے پنجتن پاک کی اصطلاح بنی۔
ہجرت کے 9ویں سال جب نجران کے عیسائیوں کو آپؐ نے اسلام کی دعوت دی جب آپ نے دلائل سے اتمام حجت فرمائی تو آپ نے انہیں مباہلہ (ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے) کا چیلنج کیا۔ اس موقع پر جب حضورؐ مباہلہ کیلئے تشریف لائے تو حضرت حسین علیہ السلام کو آپ اٹھائے ہوئے تھے۔ حضرت حسنؓ دائیں جانب اور حضرت علیؓ و حضرت فاطمہؓ آپ کے پیچھے۔ اس موقع پر عیسائیوں کے سب سے بڑے پادری (اسقف) نے کہا: ’’اے عیسائیوں کی جماعت ہرگز مباہلہ نہ کرنا میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ اللہ سے سوال کریں کہ وہ پہاڑوں کو جڑ سے اکھاڑ دے تو اللہ تعالیٰ پہاڑوں کو جڑوں سے اکھاڑ دے گا۔ پھر کہا اگر تم نے آج مباہلہ کر لیا تو تمہارا نام ونشان مٹ جائے گا اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی عیسائی نظر نہیں آئے گا۔ اسکے بعد عیسائیوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا اور جزیہ دینے پر صلح کر لی۔‘‘ ان روایات سے شہزادہ رسول حضرت امام حسینؓ کی عظمت شان روز روشن کس طرح عیاں ہے۔
اسی طرح خلفاء ثلثہ حضرت ابوبکر صدیقؓ‘ حضرت عمر فاروقؓ‘ حضرت عثمان غنیؓ نے بھی اپنے اپنے دور خلافت میں شہزادہ رسول حضرت حسینؓ سے بے پناہ محبت فرمائی۔ فتح ایران کے بعد جب بے پناہ خزانے حضرت عمر فاروقؓ کے ہاتھ میں آئے تو آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کا وظیفہ 2 دو ہزار درہم مقرر فرمایا اور نواسہ رسول حضرت حسینؓ کا وظیفہ پانچ ہزار درہم مقرر فرمایا اور شاہ ایران یزد جرد کی بیٹی حضرت شہر بانو کو امام حسینؓ کے نکاح میں دیا۔آپ انتہائی خوبصورت تھے۔ بخاری شریف میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ کوئی شخص حضرت حسن سے بڑھ کر نبیؐ سے مشابہ نہ تھا اور فرمایا حضرت حسینؓ بھی رسولؐ اللہ سے بہت مشابہ تھے۔ جامع ترمذی میں حضرت علی المرتضیٰؓ سے روایت ہے کہ حسن سینہ سے سر
اور حسینؓ سینہ سے قدم تک رسولؐ اللہ سے بہت مشابہ تھے۔ غرض یہ کہ نبیؐ اور حضرت علی المرتضیٰؓ و سیدہ فاطمہ الزہراؓ کی بے مثال تربیت کے نتیجے میں امام حسینؓ انتہائی پاکباز‘ متقی‘ پرہیزگار‘ شب بیدار‘ روزوں کی کثرت کرنے والے، بے حد صدقہ و خیرات کرنے والے‘ انتہائی بہادر‘ غیور‘ صاحب استقامت‘ حق گو‘ نیکی کے کاموں میں بڑھ کر حصہ لینے والے تھے
حسنین کریمین اور اہل بیت کی شان بیان کرنا شروع کروں تو کاغذ قلم کم پر جائیں
غرض
غریب سادہ و رنگین ہے داستان حرم
انتہاء اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل
قادیان کے جھوٹے مدعی نبوت کی نظر میں اہل بیت کی حرمت
درثمین جو شاعری کا مجموعہ ہے
اس میں لکھتا ہے
اے قوم شیعہ اس پر اصرار مت کرو کہ حسین تمہارا منجی ہے کیونکہ میں سچ کہتا ہوں آج تم میں ایک یے جو اس حسین سے بڑھ کر یے
کربلا ئیست سیر ھد آنم
صد حسین است در گریبانم
اس شعر کی تشریح قادیانی خلیفہ دوم بشیرالدین محمود کچھ اس
طرح کرتا ہے
یعنی میرے گریبان میں سو حسین ہیں لوگ اس کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ میں سو حسین کے برابر ہوں
لیکن میں کہتا ہوں اس سے بڑھ کر اس کا مفہوم یہ ہے کہ سو حسین کی قربانی کے برابر میری ایک گھڑی کی قربانی ہے
(خطبہ میاں محمود الفضل قادیان 26 جنوری 1926)
حضرت علی کے بارے میں مرزا قادیانی زبان دراز کرتے ہوئے لکھتا ہے:
''پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو۔ اب نئی خلافت لو۔ ایک زندہ علی تم میں موجود ہے۔ اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی کو تلاش کرتے ہو۔''
(ملفوظات جلد اول صفحہ 400، طبع جدید، از مرزا قادیانی)
اور مجھ میں اور تمہارے حسین میں بہت فرق ہے، کیونکہ مجھے تو ہر ایک وقت خدا کی تائید اور مدد مل رہی ہے۔''
(اعجاز احمدی صفحہ70 روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 181 از مرزا قادیانی)
'اور میں خدا کا کشتہ ہوں لیکن تمہارا حسین دشمنوں کا کشتہ ہے پس فرق کھلا کھلا اور ظاہر ہے۔''
(اعجاز احمدی صفحہ81 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 193 از مرزا قادیانی)
'تم نے خدا کے جلال اور مجد کو بھلا دیا۔ اور تمہارا ورد صرف حسین ہے کیا تو انکار کرتا ہے۔ پس یہ اسلام پر ایک مصیبت ہے۔ کستوری کی خوشبو کے پاس گوہ (ذکرحسین) کا ڈھیر ہے۔'' (نقلِ کفر کفر نباشد! مرزا قادیانی پہ لعنت بے شمار)۔
(اعجاز احمدی صفحہ82 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 194 از مرزا قادیانی
امام حسینؓ سے بڑھ کر مولوی عبدالطیف صاحب کی شہادت ہے جنہوں نے صدق اور وفا کا اعلیٰ نمونہ دکھایا اور جن کا تعلق شدید بوجہ استقامت سبقت لے گیا (ملفوظات جلد نمبر 8 صفحہ 12)
بسم الله الرحمن الرحیم
اللھم صل علٰی محمد و علٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم و علٰی آل ابراھیم انک حمید مجید ۔
اللھم بارک علٰی محمد و علٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم و علٰی آل ابراھیم انک حمید مجید
اہل بیت
اہل بیت میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج مطہرات، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا، آپ کے چچا زاد اور دامادحضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے صاحبزادے حضرت امام امام حسن رضی اللہ عنہ اورحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شامل ہیں
ام المومنین ام سلمہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم نے علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین کو جمع فرما کر ان کو اپنی چادر میں لے لیا اور فرمایا: پروردگار! یہ میرے اہلبیت ہیں۔
(طبرانی؛ العجم الکبیر ج 3 - طبری جامع البیان فی تفسیر القراآن ج 22
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا : حسن اور حسین جننتی جوانوںکے سردار ہیں ۔
( حاکم ؛ امستدرک ج 3 - سیوطی ؛ الدرالمنثور )
بہت سارے علماء امت نے اہل بیت کی شان میں کتب لکھی ہیں جن میں قابل ذکر
حضرت امام احمد بن حنبل
المانقب
حضرت امام نسائ
الخصائص
حضرت ابو نعیم اصفہانی
منقبتہ المطھرین
حضرت امام ابی الحسن علی
جواہرالعقدین
علامہ محب طبری
ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القبری
علامہ نور دین ابن صباغ مالکی
الفصول المہیہ فی معرفتہ الآئمہ
بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ فرمایا کرتے تھے
اے مسلمانوں نبی کریم کے اہل بیت کے معاملے میں آنحضرت ۖ کا لحاظ ملحوظ رکھا کرو
شفاء مصنفہ قاضی ایاز میں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ کو احترام سے کندھوں پر اٹھایا کرتے تھے
رسولؐ اللہ کو حضرت حسینؓ سے بے حد پیار تھا۔
صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے ایک بار رسولؐ اللہ سیاہ رنگ کی بالوں سے بنی ہوئی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ حسنؓ آئے تو انہیں چادر میں داخل فرما لیا پھر حسینؓ آئے تو انہیں چادر میں داخل فرما لیا پھر فاطمہؓ آئیں تو انہیں چادر میں داخل فرما لیا پھر علیؓ آئے تو انہیں چادر میں داخل فرمایا پھر فرمایا: ’’اللہ یہی ارادہ فرماتا ہے کہ تم سے پلیدی کو دور رکھے اے اہلبیت اور تم کو خوب پاک فرمائے۔‘‘ اسی حدیث مبارک سے پنجتن پاک کی اصطلاح بنی۔
ہجرت کے 9ویں سال جب نجران کے عیسائیوں کو آپؐ نے اسلام کی دعوت دی جب آپ نے دلائل سے اتمام حجت فرمائی تو آپ نے انہیں مباہلہ (ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے) کا چیلنج کیا۔ اس موقع پر جب حضورؐ مباہلہ کیلئے تشریف لائے تو حضرت حسین علیہ السلام کو آپ اٹھائے ہوئے تھے۔ حضرت حسنؓ دائیں جانب اور حضرت علیؓ و حضرت فاطمہؓ آپ کے پیچھے۔ اس موقع پر عیسائیوں کے سب سے بڑے پادری (اسقف) نے کہا: ’’اے عیسائیوں کی جماعت ہرگز مباہلہ نہ کرنا میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ اللہ سے سوال کریں کہ وہ پہاڑوں کو جڑ سے اکھاڑ دے تو اللہ تعالیٰ پہاڑوں کو جڑوں سے اکھاڑ دے گا۔ پھر کہا اگر تم نے آج مباہلہ کر لیا تو تمہارا نام ونشان مٹ جائے گا اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی عیسائی نظر نہیں آئے گا۔ اسکے بعد عیسائیوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا اور جزیہ دینے پر صلح کر لی۔‘‘ ان روایات سے شہزادہ رسول حضرت امام حسینؓ کی عظمت شان روز روشن کس طرح عیاں ہے۔
اسی طرح خلفاء ثلثہ حضرت ابوبکر صدیقؓ‘ حضرت عمر فاروقؓ‘ حضرت عثمان غنیؓ نے بھی اپنے اپنے دور خلافت میں شہزادہ رسول حضرت حسینؓ سے بے پناہ محبت فرمائی۔ فتح ایران کے بعد جب بے پناہ خزانے حضرت عمر فاروقؓ کے ہاتھ میں آئے تو آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کا وظیفہ 2 دو ہزار درہم مقرر فرمایا اور نواسہ رسول حضرت حسینؓ کا وظیفہ پانچ ہزار درہم مقرر فرمایا اور شاہ ایران یزد جرد کی بیٹی حضرت شہر بانو کو امام حسینؓ کے نکاح میں دیا۔آپ انتہائی خوبصورت تھے۔ بخاری شریف میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ کوئی شخص حضرت حسن سے بڑھ کر نبیؐ سے مشابہ نہ تھا اور فرمایا حضرت حسینؓ بھی رسولؐ اللہ سے بہت مشابہ تھے۔ جامع ترمذی میں حضرت علی المرتضیٰؓ سے روایت ہے کہ حسن سینہ سے سر
اور حسینؓ سینہ سے قدم تک رسولؐ اللہ سے بہت مشابہ تھے۔ غرض یہ کہ نبیؐ اور حضرت علی المرتضیٰؓ و سیدہ فاطمہ الزہراؓ کی بے مثال تربیت کے نتیجے میں امام حسینؓ انتہائی پاکباز‘ متقی‘ پرہیزگار‘ شب بیدار‘ روزوں کی کثرت کرنے والے، بے حد صدقہ و خیرات کرنے والے‘ انتہائی بہادر‘ غیور‘ صاحب استقامت‘ حق گو‘ نیکی کے کاموں میں بڑھ کر حصہ لینے والے تھے
حسنین کریمین اور اہل بیت کی شان بیان کرنا شروع کروں تو کاغذ قلم کم پر جائیں
غرض
غریب سادہ و رنگین ہے داستان حرم
انتہاء اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل
قادیان کے جھوٹے مدعی نبوت کی نظر میں اہل بیت کی حرمت
درثمین جو شاعری کا مجموعہ ہے
اس میں لکھتا ہے
اے قوم شیعہ اس پر اصرار مت کرو کہ حسین تمہارا منجی ہے کیونکہ میں سچ کہتا ہوں آج تم میں ایک یے جو اس حسین سے بڑھ کر یے
کربلا ئیست سیر ھد آنم
صد حسین است در گریبانم
اس شعر کی تشریح قادیانی خلیفہ دوم بشیرالدین محمود کچھ اس
طرح کرتا ہے
یعنی میرے گریبان میں سو حسین ہیں لوگ اس کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ میں سو حسین کے برابر ہوں
لیکن میں کہتا ہوں اس سے بڑھ کر اس کا مفہوم یہ ہے کہ سو حسین کی قربانی کے برابر میری ایک گھڑی کی قربانی ہے
(خطبہ میاں محمود الفضل قادیان 26 جنوری 1926)
حضرت علی کے بارے میں مرزا قادیانی زبان دراز کرتے ہوئے لکھتا ہے:
''پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو۔ اب نئی خلافت لو۔ ایک زندہ علی تم میں موجود ہے۔ اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی کو تلاش کرتے ہو۔''
(ملفوظات جلد اول صفحہ 400، طبع جدید، از مرزا قادیانی)
اور مجھ میں اور تمہارے حسین میں بہت فرق ہے، کیونکہ مجھے تو ہر ایک وقت خدا کی تائید اور مدد مل رہی ہے۔''
(اعجاز احمدی صفحہ70 روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 181 از مرزا قادیانی)
'اور میں خدا کا کشتہ ہوں لیکن تمہارا حسین دشمنوں کا کشتہ ہے پس فرق کھلا کھلا اور ظاہر ہے۔''
(اعجاز احمدی صفحہ81 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 193 از مرزا قادیانی)
'تم نے خدا کے جلال اور مجد کو بھلا دیا۔ اور تمہارا ورد صرف حسین ہے کیا تو انکار کرتا ہے۔ پس یہ اسلام پر ایک مصیبت ہے۔ کستوری کی خوشبو کے پاس گوہ (ذکرحسین) کا ڈھیر ہے۔'' (نقلِ کفر کفر نباشد! مرزا قادیانی پہ لعنت بے شمار)۔
(اعجاز احمدی صفحہ82 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 194 از مرزا قادیانی
امام حسینؓ سے بڑھ کر مولوی عبدالطیف صاحب کی شہادت ہے جنہوں نے صدق اور وفا کا اعلیٰ نمونہ دکھایا اور جن کا تعلق شدید بوجہ استقامت سبقت لے گیا (ملفوظات جلد نمبر 8 صفحہ 12)