اس تحریر کا مقصد ہرگز کسی کی دل آزاری کرنا نہیں ہے ۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بائبل سو فیصد خدا کا کلام ہے وہ اپنے اس خیال پر نظر ثانی کر سکیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بائبل کے اندر بہت سی اچھی اور مفید باتیں موجود ہیں ۔
بہت سے لوگ جس کا مطالعہ سرسری ہے وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بائبل میں جو کچھ ہے وہ سب کا سب خدا کا کلام ہے۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے اور اس تحریر کا بنیادی مقصد بھی اس غلط فہمی کو دور کرنا ہے ۔
بے شک بائبل میں خدا کا کلام موجود ہے لیکن ساری کی ساری بائبل خدا کا کلام نہیں ہے۔
یہ بات سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ خدا کے کلام میں تضاد نہیں ہو سکتا اور جس میں تضاد ہو وہ خدا کا کلام نہیں ہو سکتا ۔
قائرین سے گزارش ہے کہ درج ذیل دئے گئے بائبل کے تضادات پر غور فرمائیں اور خود فیصلہ کریں کہ کیا بائبل واقعی سو فیصد خدا کا کلام ہے ۔
1: حضرت داود علیہ السلام کو اسرائیل کی مردم شماری پر کس نے اکسایا ؟
الف ۔ خدا نے (2 سموئیل 24:1) ب: (1تواریخ 21:1)
اِسکے بعد خُداوند کا غُصہّ اِسراؔئیل پر پھر بھڑکا اور اُس نے داؔؤد کے دل کو اُنکے کلاف یہ کہ کر اُبھارا کہ جا کر اِسرائیل اور یہؔوُداہ کو گِن۔
اور شیطان نے اِسرائیل کے خلاف اُٹھکر داؤد کو اُبارا کہ اِسرائیل کا شمار کرے۔
2: اس مردم شماری میں اسرائیل کے مرد شمشیر زنوں کی تعداد کتنی تھی ؟
الف: آٹھ لاکھ (2 سموئیل 24:9) ب: گیارہ لاکھ (1تواریخ 21:5)
اور یُوآؔب نے مردم شماری کی تعداد بادشاہ کو دی سو اِؔسرائیل میں آٹھ لاک بُہادر مرد نِکلے جو شمشیر زن تھے اور یُہوؔداہ کے مرد پانچ لاکھ نکلے ۔
یُوآب نے لوگوں کے شمُار کی میزان داؤد کو بتائی اور سب اِسرائیلی گیارہ لاکھ شمشیر زن مرد اور یہوُداہ چار لکھ ستر ہزار شمشیر زن مرد تھے۔
3: اس مردم شماری میں یہودا کے کتنے شمشیر زن مرد تھے ؟
الف: پانچ لاکھ(2 سموئیل 24:9) ب : چار لاکھ ستر ہزار (1تواریخ 21:5)
اور یُوآؔب نے مردم شماری کی تعداد بادشاہ کو دی سو اِؔسرائیل میں آٹھ لاک بُہادر مرد نِکلے جو شمشیر زن تھے اور یُہوؔداہ کے مرد پانچ لاکھ نکلے ۔
یُوآب نے لوگوں کے شمُار کی میزان داؤد کو بتائی اور سب اِسرائیلی گیارہ لاکھ شمشیر زن مرد اور یہوُداہ چار لکھ ستر ہزار شمشیر زن مرد تھے۔
جاری ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بائبل کے اندر بہت سی اچھی اور مفید باتیں موجود ہیں ۔
بہت سے لوگ جس کا مطالعہ سرسری ہے وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بائبل میں جو کچھ ہے وہ سب کا سب خدا کا کلام ہے۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے اور اس تحریر کا بنیادی مقصد بھی اس غلط فہمی کو دور کرنا ہے ۔
بے شک بائبل میں خدا کا کلام موجود ہے لیکن ساری کی ساری بائبل خدا کا کلام نہیں ہے۔
یہ بات سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ خدا کے کلام میں تضاد نہیں ہو سکتا اور جس میں تضاد ہو وہ خدا کا کلام نہیں ہو سکتا ۔
قائرین سے گزارش ہے کہ درج ذیل دئے گئے بائبل کے تضادات پر غور فرمائیں اور خود فیصلہ کریں کہ کیا بائبل واقعی سو فیصد خدا کا کلام ہے ۔
1: حضرت داود علیہ السلام کو اسرائیل کی مردم شماری پر کس نے اکسایا ؟
الف ۔ خدا نے (2 سموئیل 24:1) ب: (1تواریخ 21:1)
اِسکے بعد خُداوند کا غُصہّ اِسراؔئیل پر پھر بھڑکا اور اُس نے داؔؤد کے دل کو اُنکے کلاف یہ کہ کر اُبھارا کہ جا کر اِسرائیل اور یہؔوُداہ کو گِن۔
اور شیطان نے اِسرائیل کے خلاف اُٹھکر داؤد کو اُبارا کہ اِسرائیل کا شمار کرے۔
2: اس مردم شماری میں اسرائیل کے مرد شمشیر زنوں کی تعداد کتنی تھی ؟
الف: آٹھ لاکھ (2 سموئیل 24:9) ب: گیارہ لاکھ (1تواریخ 21:5)
اور یُوآؔب نے مردم شماری کی تعداد بادشاہ کو دی سو اِؔسرائیل میں آٹھ لاک بُہادر مرد نِکلے جو شمشیر زن تھے اور یُہوؔداہ کے مرد پانچ لاکھ نکلے ۔
یُوآب نے لوگوں کے شمُار کی میزان داؤد کو بتائی اور سب اِسرائیلی گیارہ لاکھ شمشیر زن مرد اور یہوُداہ چار لکھ ستر ہزار شمشیر زن مرد تھے۔
3: اس مردم شماری میں یہودا کے کتنے شمشیر زن مرد تھے ؟
الف: پانچ لاکھ(2 سموئیل 24:9) ب : چار لاکھ ستر ہزار (1تواریخ 21:5)
اور یُوآؔب نے مردم شماری کی تعداد بادشاہ کو دی سو اِؔسرائیل میں آٹھ لاک بُہادر مرد نِکلے جو شمشیر زن تھے اور یُہوؔداہ کے مرد پانچ لاکھ نکلے ۔
یُوآب نے لوگوں کے شمُار کی میزان داؤد کو بتائی اور سب اِسرائیلی گیارہ لاکھ شمشیر زن مرد اور یہوُداہ چار لکھ ستر ہزار شمشیر زن مرد تھے۔
جاری ہے۔
آخری تدوین
: