ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
حصہ اول
حضرت عیسٰی جو صحیفہ ربانی یا انجیل اپنے حواریوں کو دے کر گئے تھے تاریخ اس کے متعلق بالکل خاموش ہے اپ کے بعد عیسائی اپ کی واپسی کے منتظر تھے اور اپ کے حواریوں پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اس لئے اس انجیل کی ترتیب پر توجہ نہ دی گئی
حضرت عیسی اور اپ کے حواریوں کی زبان آرامی تهی جن 34 انجیل جو تاریخ انسانی نے پائی وہ یونانی زبان میں تهی
ان کے علاوہ بڑی تعداد ان خطوط کی تهی جو حواریوں کے متعلق منسوب کئے گئے اور ان خطوط کی تعداد تقریباً 113 تک تهی
نیقیئہ کی مشہور کونسل نے 325 میں ان تمام لٹریچر کو سامنے رکها اور ان میں چار اناجیل،( متی مرقس لوقا اور یوحنا) رسولوں کے اعمال پولوس یعقوب پطرس یوحنا اور یہودا کے خطوط اور مکاشفات یوحنا منتخب کر لیا گیے اور باقی اناجیل اور خطوط کو وضعی(اپوکریفہ)قرار دے دیا گیا اسے عهد نامہ جدید کہا گیا اور مقدس کتابوں کا درجہ مل گیا چاروں اناجیل حضرت عیسٰی کی سوانح عمری ہے جنہیں اپ کے حواریوں نے مرتب کیا
رسوں کے اعمال" پولوس یعقوب پطرس یوحنا اور یہودا کے خطوط اور مکاشفات یوحنا منتخب کر لئے گئے اور باقی اناجیل اور خطوط کو وضعی ( اپوکریفہ ) قرار دے دیا گیا اسے عهد نامہ جدید کہا گیا اور مقدس کتابوں کا درجہ مل گیا چاروں اناجیل حضرت عیسٰی کی سوانح عمری ہے جنہیں اپ کے حواریوں نے مرتب کیا.
رسولوں کےاعمال اپ کے حواریوں کے کارناموں کا تذکرہ ہے. خطوط وہ ہیں جو مختلف کلیساؤں اور دوسرے لوگوں کے نام تبلیغی طور پر لکهئے گئے اود مکاشفات ،یوحنا حواری کے مکاشفہ پر مشتمل ہے.
نیقیئہ کی مشہور کونسل نے ان کا انتخاب بڑے عجیب و غریب طریقہ استعمال کر کے کیا. یہ کونسل شاہنشاہ قسطنطین کے زیر اہتمام ہوئی اس میں سلطنت روما کے اطراف سے 2 ہزار 48 مندوبین شامل ہوے تھے ان میں باہمی سمجوتے اور ایک متفقہ مزہب تشکیل رینا مقصود تھا. مگر کونسل کی بحث وجدل نےایسئ شدت اختیار کر لی کہ 1730 مندوبین کو باہر نکال دینا پڑا باقی 318 کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے کہ باقی فرقوں کی اناجیل میں کسے برقرار رکھا جائے اور کس کو مسترد کردیا جاے
بالآخر انہوں نے ایک رات تمام کتابوں کو فرش پر بکھیر دیا صبح آ کر جو کچھ کتابیں اور خطوط رہ گئے ہیں ان کو مقدس سمجھ لیا گیا اور باقی مسترد قرار پاگیں اس لئے historical aspect of the council of nicaea. By rev issac boyle کے جو کچھ ان تین سو پادریوں نے مرتب کیا اس کو خرا کی خوشنودی سمج لینا چاہئے( جاری ہے)۔
متی کی انجیل. .
عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق متی کی انجیل سب سے پرانی ہے لیکن اس کے متعلق نہ تو یہی متعین ہو سکا کہ اس کا مولف کون ہے اور نہ ہی یہ کہ یہ کس سن میں مرتب ہوئی دور حاضر کی تحقیق کا رجحان اس طرف ہے کہ جس حصہ کا مولف حواری متی تها وہ حصہ اسی زمانے میں شائع ہو گیا اور باقی ہے اس کے مولف نے اپنا نام ظاہر نہ نہیں کیا. عہد تالیف کے متعلق عام طور پر خیال ہے کہ یہ سن 61 اور 65 کے درمیان مرتب ہوئی لیکن پروفیسر هارنک کے نزدیک اس کا زمانہ تالیف 80 اور 100 عیسوی کے درمیاں ہے.
بہرحال زمانہ تالیف 61 ہو یا100 تاریخ کے صفحات میں اس انجیل کا نشان 173 سے قبل نہیں ملتا. یہ انجیل یونانی زبان میں لکھی گئی تھی اور محققین کا خیال ہے کہ اس کو عبرانی ترجمہ، جیروم نے سن 400 میں کیا تها(اگرچہ اس کا دعوٰی تها ک اسنے ترجمہ نہیں کیا بلک اس خود عبرانی نسخہ مل گیا تھا. )
مرقس. .بعض مورخین کا خیال ہے کہ سب سے پ قدیمی انجیل، متی کی نہیں بلکہ مرقس کی ہے جس کی ہے جس کا زکر سب سے پہلے"بوسی بس" نے اپنی کتاب "تاریخ کلیسا" میں ، چوتھی صدی میں کیا ہے اس کا خیال ے کہ مرقس نے (جو یہودی الاصل تها) سن 64 میں اسے لکها تها.
لوقا. ...تیسری انجیل لوقا کی ہے یہ غیر یہودی مورخ تها اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے پہلی صدی کے اخیر میں اس انجیل کو مرتب کیا.
یوحنا. ... چوتھی انجیل یوحنا کی ہے اگرچہ اسے حضرت عیسٰی کے حواری یوحنا کی طرف منسوب کیا جاتا ہے لیکن جدید تحقیق ثابت کرتی ہے کہ اس کا مولف ایک ایشیاے کوچک کا کا رہنے والا تھا اسنے پہلی صدی کے اخیر میں اس انجیل کو مرتب کیا اس انجیل میں فلسفہ یونان کی پوری پوری چاشنی موجود ہے.
ان انجیل کے متعلق موسیورینان کی تحقیق اور راے هر صاحب نظر کے لیے قابل غور ہے وہ لکھتا ہے
چونکہ (حضرت عیسٰی کی تشریف برداری کے بعد ) لوگوں کا عقیدہ یہ تها کہ دنیا کا عنقریب خاتمہ ہو جائے گا اور اس لئے انہوں نے مستقبل کے لیے کتابیں تصنیف کرنے کی طرف کوئی دھیان نہ دیا. ان کے لئے فقط اتنا کافی تها کہ جس شخصیت کے متعلق انہیں انتظار تها کہ وہ بادلوں کےاندر دوبارہ دیکھیں گے اس تصور کو اپنے آئینہ قلب میں آویزاں رکھتے. یہی وجہ ہے کہ ابتدائی 150 سال میں انجیل کئ کو کوئی مستند حیثیت حاصل نہ تهی ان میں اضافے کرنے یا اس انداز سے ترتیب دینے، یا ایک کئ تکمیل دوسرے سے کرنے میں کوئی باک اور تامل نہ تھا. حیات مسیح. صفحہ 112.
ابتداء انجیل کی حیثیت بالکل انفرادی تهی اور سنر کے اعتبار سے ان کا درجہ روایت سے بھی بہت کم تها. حیات مسیح صفحہ 214.
یو قا کئ انجیل کے متعلق موسیورینان لکھتا ہے کہ.
میں کبھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ چوتھی انجیل تمام کی تمام گپلی کے ماہی گیر کے قلم کی لکھی ہوئی ہے. ....حقیقت یہ ہے کہ اس میں اکثر اضافے بعد کے ہیں. صفحہ. 14 سے 18.
سینٹ پال کا سابقہ ڈین w.r. iNGE اپنی کتاب the fall of the idols میں لکھتا ہے کہ بہت کم علماء ایسے ہونگے جو اس باب میں اختلاف کرتے ہوں کہ انجیل چہارم (یوحنا) ایشیاے کوچک کے کسی گمنام تصوف پسند نے 95 اور سن 125 کے درمیان لکهئ تهی. صفحہ. 261.
متی اور یوحنا کے بیانات کا زکر کرنے کے بعد موسیورینان لکھتا ہے.
"اگر مسیح نے ویسے ہی باتیں کی تھیں جیسے متی نے لکھا ہے تو یقیناً وہ ( مسیح ) یوحنا کے مطابق باتیں نہیں کرسکتا تها.یعنی متی اور یوحنا کے اسلوب وانداز میں اس قدر بین فرق ہے کہ ایک ہی شخص ایسے متضاد انداز میں باتیں نہیں کر سکتا. صفحہ 12.
لوقا کے متعلق رینان کا بیان ہے.
اس انجیل کی تاریخی حیثیت بہت کمزور ہے یہ صحیفہ ہم تک دوسرے ہاتھ سے پہنچا ہے.... اس میں کئ فقرے موڑے توڑے ہوے مبالغہ آمیز ہیں. ....اسے تو (یروشلم)ہیکل کے متعلق بھی صحیح اندازہ نہیں. "
ہر چہار انجیل کے متعلق لکھتا ہے.
یہ انجیل ایک دوسرے کی تردید کرتی ہیں صفحہ. 29.
پهر جیسی کچھ کتابیں ہیں ان میں بھی پندو نصائح کے اقوال ہیں شریعت اور ضابطہ کے قوانین کوئی نہیں. موسیورینان لکھتا ہے. مسیح کی تعلیم میں عملی اخلاقیات یا شرعی قوانین کا کوئی سراغ نہیں ملتا. صرف ایک مرتبہ شادی کے بارے میں اپ نے حتمی طور پر کچھ فرمایا اور طلاق کی ممانعت کی. صفحہ 213....
اسی پروفیسر JOAD نے اپنی کتاب GOD AND EVIL میں لکھتا ہے میں لکھتا ہے کہ انجیل کے باہمی تضاد نے مجھے پریشان کر دیا ہے. میں ان کئ متعلق بہت کچھ پڑھ لینے کے بعد اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ mr bevan کا یہ بیان بالکل صحیح کہ ہماری قدیمی انجیل سینٹ مرقس اود سینٹ پطرس کی یادداشتوں کا مجموعہ ہیں.
پروفیسر JOAD آگے جا کے مزید لکھتا ہے"حضرت عیسٰی نے پطرس کی وفات سے اڑتیس سال قبل جو کچھ کہا، اس میں سے جو پطرس کو یاد رہ سکا، وہ بھی آرامی زبان سے یونانی میں ترجمہ شدہ.اس لیے (کلیسا کے فیصلہ سے قطع نظر) یہ سمجھا بالکل حماقت ہے کہ اج جو کچھ (حضرت) عیسٰی کئ طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ اس طرح لفظاً لفظاً انہی کا ہے. گویا کسئ شارٹ ہینڈ رائٹر نے اسے لکھ لیا ہو. صفحہ 323.
سیاسی اور اقتصادی معاملات کے متعلق (حضرت) عیسٰی کئ تعلیم افسوسناک حد تک مبہم ہے. جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسیحی علماء سرمایہ داری ، استعماریت، غلامی، جنگ، قیود بند، دشمنوں کو زندہ جلانا اور تکالیف دینا، غرضیکہ، جس چیز کو چاہیں بلاوقت مسیح کی تعلیم ثابت کر سکتے ہیں. صفحہ 331.
پچھلے حصوں خلاصہ
- حضرت عیسٰی کے حواریوں پاس جو انجیل تهی تاریخ اس کے بارے میں بالکل خاموش ہے.
- حضرت عیسٰی کی زبان آرامی تهی جو انجیل ملتی ہے یونانی زبان میں ہے وہ بھی عبرانی زبان کا ترجمہ شدہ.
- ا trinity سن 325 میں مقام الوہیت کے مستقل رکن تسلیم کئے گئے.
- انجیل متی لوقا مرقس اور یوحنا کوئی مستند قرار نہ پا سکی. ..
اب آگے....
متی مرقس لوقا اور یوحنا کے بعد یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جو نسخے پہلی صدی عیسوی کے اخیر تک مرتب ہوئے یا جنہیں چوتھی صدی میں نیقیئہ کی کونسل نے منتخب کیا تھا، وہ اب تک موجود چلے ا رہے ہیں. دنیا میں انجیل کے تین قدیمی نسخے ہیں.
ایک وٹیکن میں، جس کے متعلق تحقیق یہ ہے کہ غالباً پانچویں یا چھٹی صدی کا ہے. اس نسخہ میں عہد نامہ عتیق وجدید کی کتابیں یونانی زبان میں ہیں لیکن مکمل نہیں. اور یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس زمانہ میں بائبل میں ہونگی ہی اتنی کتابیں، جتنی اس نسخہ میں موجود ہیں باقی کتابیں بعد کا اضافہ ہیں.
دوسرا نسخہ اسکندریہ کا ہے جو آجکل برٹش میوزیم میں ہے اس کے متعلق بھی خیال ہے کہ یہ پانچویں صدی سے پہلے کا نہیں. یہ بھی یونانی زبان میں ہے اور ناقص.
تیسرا نسخہ سینا ہے جو روسں کے پایہ تخت پٹروگریڈ میں تها اور جسے روسیوں نے برطانیہ کے ہاتھوں فروخت کر دیا تها یہ نسخہ چوتھی صدی کا لکھا ہوا ہے. اس میں انجیل مرقس کا آخری باب، جس میں حضرت عیسٰی کے آسمان پر تشریف لے جانے کا زکر ہے موجودہ نہیں. .اس لئے رفتہ رفتہ یہ خیال پختہ ہو رہا ہےکہ یہ قصہ بعد کا اور الحاقی ہے. ..
چوتھی صدی میں، جیروم نے ان انجیل کا ترجمہ یونانی ذبان سے لاطینی زبان میں کیا' یہی ترجمہ اس انگریزی ترجمہ کا ماخذ ہے جو شاه جیمس کے عہد میں (1611 میں) شائع کیا گیا اور جو" مستند ترجمہ " کہلاتا ہے. 1870 میں کنٹر بری میں، 27 علمائے عیسائیت کی ایک meeting ہوئی ک چونکہ 1611 کے ترجمہ کے نقاص کو دور کیا جائے ناقص رہ جانے کئ وجہ یہ تھی کہ اس وقت اناجیل کے دو قدیمی نسخے ( اسکندریہ اور سینا ) دریافت نہیں ہوے تهے. نیز اس لئے کہ اثری تحقیقات نے دیناے تاریخ میں ایک انقلاب برپا کر دیا تها، چنانچہ اس کانفرس نے 1881 میں ایک اردو ترجمعہ شائع کیا. جسے revised edition کہا جاتا ہے. اس کانفرنس نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ 1611 کے ترجمہ میں متعدد مقدمات الحاقی ہیں.
یہ تو ہے ان دو" مستند" ترجموں کا باہمی موازنہ کا نتیجہ، لیکن انجیل کے جو نسخے بائبل سوساٹیز کی کی طرف سے شائع ہوتے رہتے ہیں، ان کی کیفیت بهی یہ ہے کہ ہر نیا ایڈیشن، سابقہ ایڈیشن سے، اور ہر نئی زبان میں ترجمہ، کسی دوسری زبان میں ترجمہ سے مختلف ہوتا ہے.
حضرت عیسٰی اپنے حواریوں جو انجیل دے کر گئے تھے اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا
- حضرت عیسٰی کی زبان آرامی تهی مگر جو انجیل دنیا کو ملتی ہے وہ یونانی زبان میں جو عبرانی زبان کا ترجمہ شدہ.
- ا trinity کا عقیدہ 325 عیسوی اس کا جز بنتا ہے..... باقی آگے
جرمن ڈاکٹر میل نے جب عہد نامہ جدید کے چند نسخے جمع کر کے ان کا موازنہ کیا تو تیس ہزار اختلافات شمار کئے اور جان جیمس نے اس سے زیادہ تحقیق کی تو دس لاکه سے زیادہ اختلافات ابھر کر سامنے آگے (مزید تفصیلات لئے انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کا مضمون gospel اور انسائیکلوپیڈیا اف ریلیجیز اینڈ ایتھکس کا مضمون bilble دیکھئے.
بایبل کا مفسر پادری ڈملو لکھتا ہے.
"اناجیل کے لکھنے والوں نے یسوع مسیح کے اقوال کو یونانی زبان میں لکها ہے حالانکہ وه( حضرت عیسٰی) آرامی زبان میں گفتگو کرتے تهے.نہ ہی اغلب ہے کہ ان کاتبوں ک کبھی یہ خیال تها کہ ان کی تحریریں ابتدائی کلیساؤں سے آگے بهی جائیں گی. یہی حال پولوس کی تحریروں کا ہے. اس کے خطوط جن کی اب اس قدر عزت کئ جاتی ہے، اصل میں صرف صرف ان ہی کلیساؤں کے لیے مخصوص تهے، جن کے نام وہ لکهئے گئے تھے. جن لوگوں نے انہیں سب سے پہلے نقل کیا، وہ ہرگز انہیں ان معنوں میں مقدس نوشتے نہیں سمجھتے تهے جن معنوں میں ہم سمجھتے ہیں. """
آگے چل کر یہی پادری لکھتا ہے.
ایک نسخہ کا نقل کرنے والا بعض اوقات وہ الفاظ درج نہیں کرتا تها جو اصل عبارت میں موجود ہوتے تهے بلک وه الفاظ درج کر دیتا جو اس کے خیال میں درج ہونے چاہیے تهے. وہ ایک ناقابلِ اعتبار حافظہ پر بھروسہ کرتا یا بعض اوقات اصل عبارت کو بدل کر اس فرقہ کے خیالات کے مطابق کر دیتا، جس سے وہ خود متعلق ہوتا. ابتدائی عیسائی بزرگوں کی عبارات اور حوالہ جات کے علاوہ، عہد نامہ جدید کےقریب چار ہزار مختلف نسخے یونانی زبان میں ہیں. نتیجہ یہ کہ اختلاف عبارات بہت زیادہ ہیں.
سچائی
کتنی ہی تاریخ کے پردوں کے چھپی ہو، اپنا ایک اثر رکھتی ہے. جیسے ایک روشنی کی کرن ،اندھیرے کو ختم کر دیتی ہے. ........
اگے چلتے ہو ے پچھلے حصوں خلاصہ پیش ہے
- جو انجیل اپنے حواریوں کو دے کر گئے تھے تاریخ اس کے بارے میں بالکل خاموش ہے
- 325 عیسوی میں trinity کو مزہب کا حصہ مانا گیا..
- نبی تو ایک کتاب لے کر آتا مگر یہاں تو چار اناجیل متی مرقس لوقا اور یوحنا ملتی ہیں اور وہ بھی عبرانی زبان کا ترجمہ شدہ لاطینی زبان میں. ..
-یہ کیا؟؟؟؟ تاریخ تین اور قدیمی انجیل بھی دیتی ہیں. ...سب کے اسلوب میں اتنا فرق ہے اور ان میں اتنے تضادات ملے انهوں ایک کونسل بٹهای....... باقی آگے. .....
جس طرح چوتھی صدی میں نیقیئہ کی کونسل منعقد ہوئی تھی. اسی طرح سولہویں صدی میں (1545 یا لغایت 1563) میں ٹرنٹ TRENT کے مقام پر ایک اور عظیم الشان کونسل منعقد ہوئی. مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کونسل میں جو اہم مباحث فیصل ہوئے تهے، ان کا اجمالی زکر اس مقام پر کر دیا جاے. یہ بیان اس رویداد سے ماخوذ ہے، جسے ریلجیس ٹریکٹ سوسائٹی (لندن) نے شائع کیا تها اس کونسل میں دیگر امور، زیل کے کی تین اہم باتیں زیر بحث آئی. .
1- اپو کریفہ کی حیثیت کیا ہے؟ ؟؟
2- کیا روایات اور انجیل ہم پلہ ہیں؟ ؟
3- انجیل کے مختلف نسخوں میں جو اختلافات ہیں، انہیں کس طرح ختم کیا جائے؟ ؟؟
شق اول کے متعلق اس رویداد میں مذکور ہے:-
" اگرچہ اپوکریفہ کتابوں کو جیروم نے بائبل کے ولگیٹ ایڈیشن میں شامل کر دیا تها لیکن یہ ہر شخص کو معلوم ہے کہ وہ انہیں مستند نہیں سمجھتا تها...... لیکن کونسل میں (بحث کے بعد) سینٹا کروس کی راے سب پر غالب آگئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ولگیٹ ایڈیشن میں جس قدر کتابیں بهی شامل ہیں ، انہیں آسمانی کتابیں تصور کیا جائے. ..صفحہ 27، 28....
اس طرح اپوکریفہ کی جعلی کتابیں آسانی قرار پا گئیں. ..
شق دوم کے متعلق کونسل کے اراکین میں بہت اختلاف تها چنانچہ جب یہ مسئلہ بحث کے لیے پیش ہوا اور حصہ پڑها گیا جس میں درج تها کہ اناجیل اور روایات کو یکساں تقدس اور عظمت کی نگاہ سےدیکها جائے تو برٹنئ نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ اگرچہ مجھے یہ تسلیم ہے کہ ان دونوں کا مصنف خدا ہی ہے کیونکہ سچائی جو بھی ہو اس کا سر چشمہ وہی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو کچھ بھی سچ ہے وہ سب الہامی ہے.. (مزید برآں) ہ یہ حقیقت کہ بہت سی روایات اب استعمال میں نہیں رہی، اس امر پر دال ہے کہ خدا کا یہ قطعاً منشا نہ تها کہ انھیں تقدس و عظمت میں اناجیل کا ہم پلہ سمجها جاے صفحہ 29....
لیکن اس کے خلاف مخالفت کا ایسا سیلاب امڈ ایا کہ اس بچارے کو ...... معافی مانگنا پڑی اور یہ وعدہ کرنا پڑا کہ جو کچھ بھی فیصلہ ہو گا وہ اسے تسلیم کرے گا. چنانچہ یہی قرار پایا کہ روایات کو وحی کا ہم پلہ سمجها جاے. ...
شق سوم کے متعلق ایک کمیٹی مقرر کی گئ، جس نے اپنی رپورٹ میں بیان کیا کہ"اس قدر مختلف نسخوں کا وجود اناجیل کے معانی کو غیر متیقن کر دیتا ہے اس کا علاج صرف یہ ہے کہ ایک متفقہ علیہ نسخہ شائع کر دیا جائے جسے مستند سمجھا جائے" صفحہ 29،،، چنانچہ یہ طے ہوا کہ 6 ارکان پر مشتمل ایک اور کمیٹی متعین کی جاے جو ولگیٹ کے مختلف نسخوں سے ایک متفقہ نسخہ مرتب کرے صفحہ 30.......
'ا pallvicint کا بیان ہے اس کمیٹی نے ایک طویل رپورٹ پیش کی، جس میں اغلاط و اختلافات کی ایک بہت لمبی چوڑی فہرست درج تهی. . اس کثافت کے ڈھیر کو کوئی سیلاب ہی صاف کر سکتا تها صفحہ 32..
اس کمیٹی نے بڑی محنت اور جانفشانئ کے بعد ایک نسخہ مرتب کیا لیکن وہ پوپ کو پسند نہ آیا اور بالآخر 1590 ایک نسخہ شائع ہوا. ...
"" اس مستقل مزاج پوپ نے نہ صرف اپنے گردوپیش بڑے بڑے علماء اور نقاد کئ جماعت ہی جمع کی بلکہ خود بهی بڑے جزب وشوق سےباس کام میں منہمک ہو گیا. اس نے پریس سے بھیجنے سے پہلے اس نسخہ کو حرف بہ حرف پڑها اور اس کی تصحیح کی. دوران طباعت میں اسے دوبارہ پڑها جب چهپ کر ایا تو اسے دوبارہ پڑها جب اس کو مستند قرار دے کر شائع کیا گیا. لیکن ابھی یہ نسخہ شائع ہی ہوا تها کہ معلوم ہوا کہ اس میں بہت سی غلطیاں رہ گئی ہیں. چنانچہ اسے واپس لے لیا گیا اور 1592 میں اس سے زیادہ صحیح ایک اور نسخہ شائع کیا گیا. ان دونوں نسخوں میں نمایاں اختلاف ہے. اس کے بعد 1593 میں ایک اور نسخہ شائع کیا گیا. جو 1592 والے نسخہ سے بهی مختلف تها. ڈاکٹر جیمس نے ان دونوں نسخوں کا مقابلہ کیا تو اس میں قریب دو ہزار اختلافات نظر پڑے.جن میں بعض آیات پوری کی پوری ایک دوسرے سے مختلف تھیں اور بہت آیات ایک دوسرے سی متضاد تھیں. بایں ہمہ ان دونوں نسخوں کو یکساں طور پر مستند تصور کیا گیا (صفحہ 33_34).......
غور فرمایا اپ نے اناجیل کے "مستند" نسخے کس طرح وجود میں آتے رہے. یہی مستند نسخے تهے جن کا انگریزی ترجمہ شاہ جیمس کے عہد (1611 میں ہوا اور جسے 1881 میں ترمیم و تنسیخ کے بعد شائع کیا گیا... سوچئے کہ اس آخری نسخہ کو ( جو پهر ہر نئے ایڈیشن کے وقت بدلا جاتاہے) حضرت عیسٰی کی انجیل سے کیا نسبت باقی رہ جاتی ہے؟ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟،
غالباً 1961 میں بائبل کا ایک جدید انگریزی ایڈیشن شائع کیا گیا ہے، یہ ماڈرن انگلش زبان میں ہے. سابقہ انگریزی ایڈیشنوں کی خاص زبان تهی. ....جسے بایئبلی زبان کہا جاتاہے. ...
انجیل کے اندر اختلاف یا اغلاط کے متعلق یہ نہیں سمجهنا چاہیے کہ یہ دور حاضرہ کی پیداوار ہیں؟ یہ تو اناجیل کی تالیف کے ساتھ ہی شروع ہو گئے تهے. مشہور نقاد "celsose" قریب سن 200 میں لکھتا ہے کہ
" عیسائیوں نے اپنی مقدس کتابوں میں دیدہ و دانستہ فریب کارانہ انداز سے رد و بدل کر ڈالا ہے"
اس رد و بدل کے انداز کیا تهے؟؟؟؟
سب سے پہلے تو یہ کہ حضرت عیسٰی کے حواریوں کے متعلق تحقیق یہ ہے کہ وہ عام طور ناخواندہ تهے. چنانچہ مشہور عیسائی مورخ MOSHEIM لکھتا ہے اپنی تاریخ کے حصہ اول (پہلی صدی) باب 4/4 میں لکهتا ہے.
" یہ تمام شاگرد تعلیم سے بے بہرہ اور فلسفہ اور دیگر علوم سے ناآشنا تهے"
اس سے ظاہر ہے کہ اناجیل کے نسخے ان کے ہاتھوں میں محفوظ نہیں رہ سکتے تھے.. اس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ مجودہ نسخے جو ان حواریوں کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں دراصل ان کی تالیف نہیں ہیں کیونکہ وہ تو تعلیم سے بے بہرہ تهے، لیکن اس تحریف اور تغیر و تبدل کی اس سے کہیں گہری وجہ ایک اور تهی. یہ وجہ کیا تھی؟ اسے غور سے سنیے؛ سینٹ پال (موجودہ عیسائیت کا بانی) انجیل (خطوط پال) میں لکهتا ہے؛
اگر میرے جهوٹ کے سبب سے، خدا کی سچائی اس کے جلال کے واسطے زیادہ ظاہر ہوئی تو پھر کیوں گناہگار کی طرح مجھ پر حکم دیا جاتا ہے؟؟ (رومیوں کے نام 3/7).
غور فرمایا اپ نے یہ عقیدہ کیا ہے؟ ؟؟ اگر جهوٹ بولنے سے خدا کی بڑائی ظاہر ہوتی ہو تو بلا تکلف جهوٹ بولئے. . جب جهوٹ خا دروازہ اس طرح چوپٹ کهول دیا جائے تو اس سے جو نتائج پیدا ہوں گے، ظاہر هیں. MOSHEIM چوتھی صدی کے متعلق لکھتا ہے "مزہبی صداقت اور پاکبازی کو ان دو خطرناک حماقتوں سے سخت ٹھیس لگی جو اس صدی میں عام طور پر مروج کو چکی تھی. اول یہ عقیدہ ک اگر جهوٹ بولنے اور دھوکا دینے سے کلیسا کے مفاد کو تقویت پہنچتی ہو تو کزب و فریب بڑے ثواب کا درجہ رکھتا ہے...
یہ عقیدہ ایک عرصہ سے مروج چلا آتا ہے اور اس نے اثنا میں بے شمار مضحکہ انگیز روایات، افسانہ طرازیاں اور مقدس فریب (عیسائیت میں داخل کر کے) رکه دیے. ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کهلے بندوں کر لینا ہو گا کہ اس صدی (چوتھی صدی) میں بڑی بڑی جلیل القدر ہستیاں اور بڑے بڑے مقدس ولی بهی اس دروغ گوئی اور کزب تراشی سے بری نہ تهے اور اس کا ثبوت ان کی تحریروں سے اور ان کے کارناموں سے بآسانی مل سکتا ہے جی چاہتا ہے کہ اس الزام سے کم ازکم بڑی بڑی ہستیوں ( مثلاً فلاں اور فلاں ) کو مستثنیٰ قرار دے دیں لیکن کیا کیا جاے؛ سچائی ان بزرگوں کئ عقیدت سے کہیں زیادہ قابلِ احترام ہے اور سچائی کا تقاضا ہے کہ انہیں بھی اس الزام کا مورد قرار دیا جائے"(چوتھی صدی باب 3/16..
یہی مورخ تیسری صدی کے متعلق لکھتا ہے
" جو لوگ یہ چاہتے تھے کہ نیکیوں میں دوسروں سے سبقت لے جائیں، وہ اس چیز کو نہ صرف جائز ہی سمجتے تهے بلکہ قابل تحسین بهی کہ نیکی کے مشن کو تصنع اور فریب سے تقویت دی جائے ( حصہ دوم باب3 / 11..
عیسائیوں کی دنیا کا ایک بڑا مورخ جسکی "تاریخ کلیسا " ایک مستند صحیفہ سمجھی جاتی ہے.اوپر چوتھی اور تیسری صدی کا زکر آ چکا ہے اب دوسری صدی کو لیجیے:-
افلاطونی اور فیثا غورثی مسلک کے پیرو، صداقت اور نیکی کے مشن کو، جهوٹ اور فریب سے فروغ دینے کو نہ صرف جائز بلکہ قابل ستائش خیال کرتے تهے. جو یہودی مصر میں رہتے تهے، انهوں نے( حضرت) مسیح سے پیشتر ان لوگوں سے یہ اصول مستعار لے رکهے تهے ، جیسا کہ ازمنہ قدیمہ کی بے شمار دستاویزات سے صاف طور پر ثابت ہے. عیسائیوں نے اس اصول کو ان دونوں سرچشموں سے حاصل کیا. جیسا کہ ان کثیر تعداد کتابوں سے ظاہر ہے ، جنہیں تصنیف کسی نے کیااور منسوب کسی اور کی طرف. " حصہ دوم 3/15.
اس سے پیچھے چلئے اور پہلی صدی کی حالت دیکھئے:-
" (حضرت) مسیح کے آسمان پر تشریف لے جانے کے ٹھوڑا عرصہ بعد، آپ کی زندگی اور تعلیم کے متعلق بہت سی سیرت کی کتابیں لکهئ گئی جو مقدس فریبیوں اور عجوبہ نگارویوں سے بهر پور تهیں. یہ کتابیں ان لوگوں نے تصنیف کیں، جن کی شاید نیت تو خراب نہ تهی لیکن ان کی تحریروں سے سخت اوہام پرستی اور جہالت کا مظاہرہ ہوتا ہے یہیں پر بس نہیں، بہت سے فریب کاروں نے خود کتابیں لکھیں اور انہیں مقدس حواریوں کی طرف منسوب کر کے دنیا کے حوالے کردیا. پہلی صدی حصہ دوم 2/17"................
)کم و بیش 50 آنجیلیں اج بهی موجود ہیں جنہیں اپوکریفہ کی فہرست میں داخل کیا جاتاہے لیکن جن کتابوں کو اصل سمجھ کر مقدس آسمانی خیال کیا جاتا ہے....
انرازہ فرمایے کہ اس "مقدس جهوٹ" نے سینٹ پال نے بہت بڑا کار ثواب قرار دیا تها، کیا کیا گل کهلاے..
اور یہ سلسلہ پہلی صدی ہی سے شروع ہو گیا. لکهے گئے مندرجات صرف پہلی چار صدیوں کے متعلق ہیں اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کا اندازہ اس سے لگا لیجیے. ان ہی حقائق کے پیش نظر خود عیسائیوں کے علماء اب اس امر کا اعلانیہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو رے ہیں کہ موجودہ __اناجیل ناقابلِ اعتبار ہیں_
انگلیکن چرچ کا بشپ charles gorg لکھتا ہے:-
" سینٹ کردسٹم کی طرح میرے لئے بهی اس امر کا تسلیم کرنا ناممکن ہے کہ اناجیل غلطی سے مبرا ہیں". The holy spirit and the church
عیسائیوں کے عقائد. ...
پہلے تحریر کے گئے کمنٹ سے اپ خود فیصلہ کہ اس مجموعہ کو کس طرح الہامی اور آسمانی قرار دیا جا سکتا ہے .ان تصرفات سےصرف یہی نہیں ہوا کہ تاریخی حقائق افسانوں میں بدل گیے بلکہ مزہب نے ایک ایسی صورت اختیار کرلی، جسے کسی طرح بھی خدا کے رسول کی اصلی تعلیم قرار نہیں دیا سکتا. مزہب کا مدار ہے عقائد اور اعمالِ صالحہ پر، عقائد کے بارے میں، جیسا کہ اپ پہلے دیکھ چکے ہیں، عیسائیت کئ بنیاد تثلیث قرار پا گی اور اعمال کی جگہ کفارہ کے عقیدہ نے لے لی. جس کی رو سے نجات کا مدار، اعمال کی بجائے حضرت عیسٰی کی تصلیب کا عقیدہ قرار پا گیا. عقیدہ کی رو سے عیسائیوں کے اصول مزہب یہ ہیں.
"" ہم ایمان لائے
- خدا، قدرت والے باپ پر، جو ظاہر اور پوشیدہ چیزوں کا خالق ہے اور
- رب یسوع مسیح ابن اللہ پر جو باپ کا اکلوتا بیٹا ہے، جو باپ (خدا) کے ہاں جملہ کائنات سے پہلے پیدا ہوا.عین زات ہے الہ الہ ہے، نور نور ہے.عین خدا ہے.مولود مولود ہےمخلوق نہیں. باپ اور اس کا جوہر ایک ہے. اس کی وساطت سے تخلیق اشیاء ظہور میں آئیں یعنی جو کچھ زمین اور آسمان میں ہے. ہم اسانوں کی نجات کے واسطے اس کا نزول وحلول ہوا اور وہ انسان بن کر آیا. مبتلائے بلا ہوا اور تیسرے دن اٹھ کھڑا ہوا اور آسمان پر چڑھ گیا، اور اب زندوں اور مردوں کا انصاف کرنے پهر آئے گا"" (council of trent) page.161
ا LESLIE PAUL لکهتا ہے :-
" مادہ اور کائنات کے تخلیق و تعمیر کے متعلق عیسائیت کے نظریئے غلط ہوسکتے ہیں لیکن خدا کے متعلق تصور اور اس کے متعلق تعلیم غلط نہیں ہو سکتی" (THE ANNIHILATION OF MAN) P175
یعنی دنیائے علم میں اناجیل کے بیان کردہ حقائق، عصر حاضر کے انکشافات وتحقیقات کے پیشِ نظر مسترد کئے جا سکتے ہیں لیکن خدا کے متعلق اس کئ تعلیم ناقابلِ تردید ہے لیکن ایک دوسرا عیسائی محقق SIR RICHARD GREGORY خدا کے متعلق اناجیل کی تعلیم کے بارے میں جس نتیجہ پر پہنچا ہے وہ قابل غور ہے وہ لکهتا ہے:-
" بائبل میں خدا کا تصور یکساں نہیں (کہیں کچه اور کہیں کچھ) اور یقین کے ساتھ بتایا جا سکتا ہے کہ فلاں مقام پر کون غیر مسیحی اثر کار فرما ہےاور فلاں مقام پر کون". (RELIGION IN Science and Civilisation. P 87 )..
لیجیے؛ خدا کے متعلق تعلیم ، جسے پال نے قابل اعتنا بتایا ہے وہ مزید تحقیق کے مطابق یکسر خارجی اثرات کا مجموعہ بن کر سامنے آ گئی اسی بنا پر gregory لکهتا ہے کہ:-
بائبل حسبِ زیل وجوه کئ بنا پر اپنی صحت کے عقیدہ کو ثابت کرنے میں ناکام رہ جاتی ہے.
1 ) اس کا خود باہمی تضاد.
2) مزہب عیسائیت کی بنیاد کن چیزوں پر ہونی چاہیے اور اخلاق کا ضابطہ کیا ہے. اس کے متعلق جو نظریات آجکل مروج ہیں ان سے بائیبل کا اختلاف ہے.
3 ) جو واقعات اس میں بیان کیے گے ہیں، سائنس کے موجودہ انکشافات ان کی تغلیط کر رہے ہیں.
4 ) اس کی تدوین و رلیف اور جمع وتدویں کے متعلق جو کچھ پیش کیا جاتا ہے، جب اسے تنقید کی کسوٹی پرکها جائے، وہ بالکل باطل نظر آتا ہے اس لئے جب بنیادیں ہی غلط ثابت ہوتی ہوں تو اس کی صحت کیسے تسلیم کی جا سکتی ہے" صفحہ 86.
کفارہ کے عقیدہ کا بانی مبلغ سینٹ پال ہے عہد نامہ جدید میں پولوس (سینٹ پال) کے خطوط پڑھئے، ہر جگہ اسی عقیدہ کی تبلیغ کی تبلیغ دکھائی دے گی:-
"تم کو ایمان کے وسیلہ ہی سے نجات ملی ہے اور تمہاری طرف سے نہیں. خدا کی بخشش ہے اور نہ اعمال کے سبب سے ہے" (افسیون - 2/8 -9 )
اور یہ کہ :-
" چنانچہ ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ انسان، شریعت کے اعمال کے بغیر ایمان کے سبب سے راست باز ٹھہرتا ہے ( رومیوں کے نام 3/38)..
آگے جانے سے پہلے نگ بازگشت
- حضرت عیسٰی کی زبان آرامی تهی مگر تاریخ انسانی نے جو پہلی بائبل پائی وہ لاطینی زبان میں تهی
- نیقیئہ کی کونسل منعقدہ 325 اور ٹرنٹ کی کونسل(1545_1563) کس طرح تباہ حال بائبل کا اور برا حال کیا
- جهوٹ کو کیسے مزہبی لبادہ اوڑها گیا. ..اب آگے پڑھئے. ..
جب شریعت کے اعمال کے بغیر راست باز ہونے کے رست کهل گئے تو اسی عقیدہ نے رفتہ رفتہ معافی ناموں(Indulgence ) کی صورت اختیار کر لی. ان کی ابتدا یوں ہوئی کہ صلیبی جنگوں کئ دوران پوپ ابن دوم(urban II )نے حکم جاری کیا کہ جو لوگ بزات خویش شریک جنگ نہیں ہو سکتے، وه اپنی طرف سے کسی اورطکو بھیج دیں اور اس کے بدلے میں انہیں" معافی نامہ" دے دیا جائے گا جو ان کی نجات کا کفیل ہو گا. جب پوپ لئو دہم ( LEO X ) نے روما میں سینٹ پیٹر کا گرجا بنوانا چاہا تو اس نے نے بهی اسی قسم کے. ..."معافی نامے" بیچنے شروع کر دیئے. بس پهر کیا تها؟؟؟ ان معافی ناموں نے عام تجارت کی صورت اختیار کر لی. قریہ قریہ کوبہ کو'ہر مقام پر ان معافی ناموں کی ایجنسیاں قائم ہو گئیں. سولہویں صدی عیسوی میں اس تجارت نے ایک طوفانی صورت اختیار کر لی. ہر گناہ کی معافی کے لیے الگ الگ قیمت کا معافی نامہ موجود تها آپ (BUCK S THEOLOGICAL DICTIONARY) اٹهایے اور اس میں "INDULGENCE "کے زیر عنوان دیکھیے کہ کیسی عجیب و غریب منڈی کا نقشہ نظر آتا ہے معافی نامہ کی عام فارم یہ ہوا کرتی تھی:-
"تم پر خداوند یسوع مسیح کی رحمت ہو اور تمہیں اپنے مقدس ترحم (
سروانہ)سے (تمام گناہوں کی پاداش سے) آزار کر دے . میں اس کی اور اس کی بابرکت شاگرد پطرس، پولوس اور مقدس پوپ کی اس سند کی رو سے جو مجھے عطا فرمائی ہے' تمہیں آزاد کرتا ہوں. سب سے پہلے کلیسا کی تمام ملامتوں سے ' خواه وہ کسی شکل میں ہوں.پهر تمہارے ہر گناہ، حدود شکنی اور زیادتی سے خواہ وہ کیسے ہی مہیب اور شدید کیوں نہ ہوں اور میں وہ سزا تم سے اٹھا لیتا ہوں، جو تمہیں تمہارے گناہوں کی پاداش میں جہنم میں ملنے والی تهی تاکہ تم جب مرو تو جہنم کے دروازے تم پر بنر ہوں اور جنت کی راہیں کشادہ. باپ بیٹے اور روح القدس کے نام "
جیسا کہ اوپر لکها جا چکا ہے . ان معافی ناموں کے لئے مختلف گناہوں کی قیمتیں الگ الگ ہوتی تهیں اور ہر ایجنٹ کے پاس ان کی فہرست موجود ہوتی تهی. جس کی اصل tax of the sacred roman chancery کی کتاب میں مصدقہ طور پر محفوظ ہوتی تهی. چند ایک گناہوں کی معافی کی قیمتیں ملاحظہ فرمائیے :-
"- اسقاط حمل 6 پینس 3 شلنگ
- عدالت میں جهوٹی گواہی 6 پینس 9 شلنگ
- چوری 6 پینس 12 شلنگ
- کسی عفیفہ کی عصمت دری 6 پینس 9 شلنگ
- زنا کی اور بھیانک صورتوں میں 6 پینس 7 شلنگ
- قتل 6 پینس 7 شلنگ
- لونڈی رکهنے کے لئیے 6 پینس 10 شلنگ
یہ معافی نامے نہ صرف اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے خریدے جاتے تهے بلک مردوں کے گناہوں کے لئے بطور کفارہ بهی خریدے جا سکتے تهے. چنانچہ ان معافی ناموں کے ایجنٹ کچھ اس قسم کئ آوازیں لگایا کرتے تھے :-
" آو بڑهو؛ جنت کے دروازے کهل رہے ہیں اگر تم اب بهی داخل نہ ہو گے تو کب داخل ہو گے. تم بارہ پنس کے عوض اپنے باپ کی روح کو جہنم سے نکلوا سکتے ہو. کیا تم ایسے نا خلف ہو کہ اپنے باپ کےلیئے اس قرر سستی نجات بهی نہیں خرید سکتے؟ اگر تمہارے پاس اور کچھ نہیں فقط ایک کوٹ ہے تو وہی اتار دو تاکہ اس قرر گراں بہا متاع خرید سکو buck dictionary م.
آکسفورڈ کا چانسلر thomas gascuigne سن 1450 میں لکهتا ہے :-
" اج کل گناہگار ( ہر جگہ ) کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ " میں اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا کہ میں خدا کے حضور کتنے گناہ کرتا ہوں. اس لئے کہ میں ہر وقت بلا وقت ہر گناہ اور جرم کے لئے معافی نامہ خرید سکتا ہوں. کبھی چار پنس میں کبھی دو دو پنس میں کبھی ایک جام شراب کے بدلے میں یا جوئے میں ہاری ہوئی رقم کے معاوضہ میں اور گاہے کسی رنڑی کے خرچہ کے عوض میں بیچ دیتے ہیں" quoted by menchen in treatise on right and wring pp.187.188
یہ خرا بیان بازاری لوگوں تک محدود نہ تهیں بلکہ نظام کلیسا کی بنیاد میں داخل تهیں چنانچہ اس باب می Dr. Inge لکهتا ہے :-
" جس عہد میں کلیسا، سیاسی طور پر صاحب اقتدار رہا، وہی عہہد سب سے زیادہ بدمعاشیوں کے لئے بدنام رہا صفحہ 290.
اسی کو mencken ان الفاظ میں دہراتا ہے :-
یونیورسل چرچ کے اقتدار کا زمانہ درحقیقت بے مثال جرائم وبد نظمی، ظلم و تعدی اور فسادات اور بد کاریوں کا زمانہ تھا صفحہ 105.
اعمال و اعتقادات کی دنیا میں یہی قیامت خیزیاں تهیں جن سے متاثر ہو کر لوتهر نے پروٹسٹنٹ کے اصلاح یافتہ فرقہ کی بنیاد رکھی لیک تنقید محض عقل پر تهی. اس لئے وحی کی سچی تعلیم تو ان کے ہاں کہیں موجود ہی نہ تھی جس کی روشنی میں وہ اپنے فرقہ کی عمارت آسمانی خطوط پر تعمیر کر سکتا. اناجیل ان کے ہاں بهی وہی ہے جو دوسروں کے ہاں.... جاری ہے