بحث نزول
عموماً مرزائی پارٹی یہ اعتراض کیا کرتی ہے کہ قرآن مجید میں نزول کا لفظ اور اس کے مشتقات متعدد جگہ استعمال ہوئے ہیں۔ اور وہاں آسمان سے اترنے کے کسی جگہ بھی ہمارے مخالف لوگ معنی نہیں لیتے۔ دل میں آیا کہ اتمامِ حجت کے لیے ان کا یہ کانٹا بھی نکال دیا جائے تاکہ ان کو کسی قسم کا شکوہ شکایت کا دنیا میں اور عذر کا آخر میں موقع نہ ملے لِیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ بَیِّنَۃٍ وَیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَۃِ۔
سب سے پہلے اس مشکل کو ہم لغۃً حل کرنا چاہتے ہیں۔ صراح میں ہے کہ نزول ’’ فرود آمدن‘‘ اور انزال ’’ فرود آوردن‘‘ (صراح ص ۴۵۲طبعہ لکھنو ۱۳۲۷ھ)منتہی الارب میں بھی اس طرح ہے یعنی ’’ نزول‘‘ کے معنی ’’ نیچے آنا‘‘ اور ’’انزال‘‘ کے معنی ’’ نیچے لانا‘‘ ہیں۔ (منتہی الارب)مصباح منیر میں ہے نزل من علوہ الیٰ سفل (المصباح المنیرہ ص۷۳۴، ۲طبعہ مصر ۱۹۰۶ء)یعنی نزول کے معنی اوپر سے نیچے آنے کے ہیں۔
مشہور لغوی علامہ راغب اصفہانی مفردات میں تحریر فرماتے ہیں:
النزول فی الاصل ھو انحطاط من علوہ وانزال اللّٰہ تعالی اما بانزال الشی نفسہ واما بانزال اسبابہ والھدایۃ الیہ کا نزال الحدید واللباس وھو ذالک ۔(مغددات القران فی غریب القران ص۴۸۸)
یعنی نزول کے معنی اوپر سے نیچے کو اترنا ہیں اللہ تعالیٰ کا اتارنا یا تو شے بنفسہٖ کا اتارنا ہوتا ہے۔ جیسے قرآن کا اتارنا۔ یا اس شے کے اسباب و ذرائع اور اس کی طرف (توفیق) ہدایت کا اتارنا جیسے انزال حدید انزال لباس اور اس کے مثل (انزال رزق، انزال انعام، انزال میزان۔ انزال رجز وعذاب وغیرہ) انتہیٰ۔
اب اس تصریح کے بعد کسی قسم کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس سے زیادہ ہم کچھ وضاحت کریں۔ لیکن بپاسِ خاطر ناظرین اس کو ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ ناظرین دیکھ لیں گے کہ یہ لوگ جو جو اعتراض پیش کیا کرتے ہیں۔ ان میں سراسر مغالطہ دہی، دجل و فریب مکر و خدع اور تحریف و تاویل ہی ہوتی ہے۔
مغالطہ نمبر۱:
قرآن مجید میں ہے کہ قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکُمْ ذِکْرًا رَسُوْلاً یَّتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیَاتِ اللّٰہِالآیۃ ۔ اس آیت میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے انزل کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ (احمدیہ پاکٹ بک ص۴۰۸)
جواب:
اگر مشہور اور درسی کتاب جلالین کے اسی مقام کو دیکھ لیا جاتا تو اعتراض کی کوئی گنجائش ہی نہ نکلتی۔ لیکن یار لوگ چونکہ علم عربی سے ناواقف اور بے بہرہ ہیں۔ اس لیے ان کو مجبور و معذور قرار دیتے ہوئے ہم خود ہی اسی مقام کو یہاں نقل کرکے اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکُمْ ذِکَرًا ھُوَ الْقُرْاٰنُ رَسُوْلاً اَی مُحَمَّدً ﷺ مَنْصُوْبٌ بِفِعْلٍ مُقَدَّرٍای اَرْسَلَ ۔(تفسیر جلالین)
یعنی ذِکْرًا سے مراد قرآن کریم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے (آسمان سے) نازل کیا۔ ذکر قرآن مجید کا دوسرا نام ہے۔ اس کا نزول بہت سی آیات میں آیا ہے۔ چودھویں پارے کے تین مقام ملاحظہ ہوں:
(۱) اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ (پ۱۴الحجر نمبر ۹) (حجر) (۲) یٰایُّھَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ (ایضاً نمبر ۶) (حجر) (۳) وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ (نحل) (۴) ھٰذَا ذِکُرٌ مبارَکٌ اَنْزَلْنَاہُ (پ۱۷، انبیاء) (۵) اَوْ اُنَزِل عَلَیْہِ الذِّکْر (سورہ ص) (۶) اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِا الذِّکْرِ لَمَّا جَائَ ھُمُ وَانَّہٗ لکتابٌ عَزِیْزٌ (حم سجدہ) (۷) اِنْ ھُوَ اِلاَّ ذِکْرٰی لِلْعَالَمِیْنَ (پ۷انعام) (۹) اِنْ ھُوَ اِلاَّ ذِکْرٌ لِّلعْلَمِیْنَ (پ۱۳، یوسف۱۰) وَمَا ھُوَ اِلاَّ ذِکْرٌ للعلمین تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ۔
اور رَسُوْلاً کے پہلے ارسل محذوف ہے۔ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنایا۔ اسی لیے قرآن مجید میں ذِکْرًا کے بعد آیت کا گول نشان بنا ہوا ہے۔ اور رَسُوْلاً۔ الگ دوسری آیت میں ہے۔ خازن، مدارک، سراج منیر اور کشاف میں بھی اسی طرح ہے۔ (علی الترتیب دیکھئے خازن ص۱۱۳، ج۷و مدارک ص۲۲۰، ج۵و سراج منیر وکشاف ص۵۶۱، ج۴زید آیت پ۲۸الطلاق نمبر ۱۱،۱۲)
بصورتِ دیگر اگر رَسُوْلاً کو منصوب بہ فعل مقدر نہ مانا جائے۔ بلکہ ذِکْراً سے بدل یا عطف بیان مان لیں۔ تو اس صورت میں رسولاً سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہوں گے (کشاف، بیضاوی) جو بواسطہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بندوں پر اللہ کی آیتیں تلاوت کرتے ہیں اور جبرائیل علیہ السلام کا نزول من السماء متفق علیہ ہے۔