5کی بجائے 50 جلدیں ہی کیوں لکھیں؟
وعدہ خلافی کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود ؑکا اپنا ارادہ فی الواقع تین سو دلائل براہین احمدیہ نامی کتاب لکھنے کا تھا مگر ابھی چار حصے ہی لکھنے پائے تھے کہ الله تعالیٰ کی طرف سے آپ کو مامور فرمایا گیا اور تالیف براہین احمدیہ سے زیادہ عظیم الشان کام کی طرف متوجہ کر دیا ۔ اس لئے حضور کو محض ”براہین احمدیہ “کی تالیف کا کام چھوڑنا پڑا اور یہ بات اہل اسلام کے ہاں مسلم ہے کہ حالات کے تبدیل ہونے کے ساتھ وعدہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے تبدیلی حالات کاذکر براہین احمدیہ کے حصہ چہارم کے آخری صفحہ پربعنوان ”ہم اور ہماری کتاب“میں صاف لکھا ہے:۔
”ابتداء میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اُس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی پھر بعد اُس کے قدرت الٰہیہ کی ناگہانی تجلی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کررہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سے اِنِّیْ اَنَا رَبُّکَ کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی سو اب اس کتاب کا متولی اور مہتمم ظاہرًا و باطنًا حضرت ربّ العالمین ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے اور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اس نے جلد چہارم تک انوار حقیت اسلام کے ظاہر کئے ہیں یہ بھی اتمام حجت کے لئے کافی ہیں“(براھین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد 1۔صفحہ 673)
گویا اب حالات بدل گئے ہیں اور مشیت ایزدی نے حضرت مسیح موعود ؑ کے ارادہ کو ایک اعلیٰ مقصد کی ادائیگی کی طرف پھیر دیا ہے۔
تین سو دلائل کے بارہ میں حضو رفرماتے ہیں:۔
”میں نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ اثباتِ حقّیّتِ اسلام کے لئے تین سو دلیل براہین احمدیہ میں لکھوں لیکن جب میں نے غور سے دیکھا تومعلوم ہوا کہ یہ دو قسم کے دلائل ہزارہا نشانوں کے قائم مقام ہیں۔ پس خدا نے میرے دل کو اس ارادہ سے پھیر دیا اور مذکورہ بالا دلائل کے لکھنے کے لئے مجھے شرح صدر عنایت کیا۔ “(دیبا چہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21۔صفحہ6)
چنانچہ آپ نے حقانیت اسلام کے متعلق بلحاظ اعلی و اکمل تعلیمات و زندہ معجزات 80سے زائد کتب تصنیف فرمائیں اور ان تمام دلائل کا بتفصیل ذکر فرمایا ۔ پس وہ ارادہ ایک اعلی ٰ رنگ میں پورا ہوا۔افسوس ہے کہ یہ لوگ جو قرآن کریم کی محکم آیات میں بھی نسخ کے قائل ہیں اور مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی بعض آیات کو بعض آیات کے ذریعہ منسوخ کردیا ہے وہ اتنی سی بات پر معترض ہو رہے ہیں کہ حضرت اقدس ؑ نے براہین احمدیہ کی تکمیل کے متعلق جو ارادہ ظاہر فرمایا تھا وہ مزید وسعت اور جامعیت کے ساتھ کیوں پورا ہوا بعینہ اسی طرح ابتدائی رنگ میں کیوں سر انجام نہ پایا۔
روایات میں لکھا ہے کہ قریش نے آنحضرت ﷺ سے ایک سوال کیا آپ نے فرمایا کہ کل آوٴ میں تم کو اس کا جواب بتاوٴں گا۔آپ نے ان شاء اللہ نہ کہا لیکن دس پندرہ دن گز رگئے اور اس بارہ میں آپ پر کوئی وحی نازل نہ ہوئی جس سے قریش نے آپ کی تکذیب کی ۔اور یہ بات آپ پر بہت شاق گزری۔(تفسیر کمالین بر حاشیہ تفسیر جالین مجتبائی صفحہ 241)
بہت سے مفسرین نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے اور بتایا ہے کہ کیونکہ حضور نے اس وعدہ کے وقت ان شاء اللہ نہ کہا تھا اس لئے ایسا ہوا۔ نعوذباللہ گویا کہ رسول کریم نے وعدہ خلافی کی؟اگر یہ وعدہ خلافی نہیں اور یقیناً نہیں کیونکہ اس کا سر انجام پانا اللہ کی مشیت پر موقوف تھا ۔
حضرت جبرائیل ؑ آنحضرت ﷺ سے وعدہ کرتے ہیں کہ میں رات کو ضرور آوٴں گا لیکن رات گزر جاتی ہے اور وہ نہیں آتے پھر جب دوسرے وقت آئے تو رسول کریم ﷺنے فرمایا
” لَقَدْ وَعَدْتَّنِیْ اَنْ تَلْقَانِی الْبَارِحَةَ قَالَ أجَلْ وَلٰکِنْ لَّانَدْخُلُ بَیْتًا فِیْہِ کَلْب وَلَا صُوْرَة“
(مشکوٰة باب التصاویر )
کہ آپ نے گزشتہ رات آنے کا وعدہ کیا تھا مگر نہ آئے؟اس نے کہا وعدہ تو ٹھیک کیا تھا لیکن ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوا کرتے جہاں کتا یا تصویر وغیرہ ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ مشیت الہیٰ کے تحت نئی صورت ِ حال پیدا ہونے سے اور خصوصاً اعلیٰ صورت کی طرف حالات بدل جانے سے اگر پروگرام بدل جائیں اور اعلی مقاصد پیش نظر ہوں تو ان پر وعدہ خلافی کا الزام لگانا سخت نا انصافی ہے۔